رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر0%

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 311

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مرکزتحقیقات علوم اسلامی
زمرہ جات: صفحے: 311
مشاہدے: 194515
ڈاؤنلوڈ: 5161

تبصرے:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 311 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 194515 / ڈاؤنلوڈ: 5161
سائز سائز سائز
  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دوسرا سبق:

(لوگوں کے ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا برتاؤ)

رسول اکرم کے برتاؤ میں گرمجوشی کشش اور متانت موجودہ تھی چھوٹے،بڑے فقیر اور غنی ہر ایک سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ملنے جلنے میں وہ ادب نظر آتاہے جو آپ کی عظمت اور وسیع النظری کو اجاگر کرتاہے_

سلام

چھوٹے بڑے ہر ایک سے ملنے کا آغاز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلام سے کرتے اور سبقت فرماتے تھے _

قرآن کریم نے سلام کے جواب کے لئے جو آداب بیان کئے ہیں ان میں سے ایک چیز یہ ہے کہ سلام کا اچھے انداز سے جواب دیا جائے ارشاد ہے :

( و اذا حییتم بتحیة فحیوا باحسن منها او ردوها ) (۱)

اور جب کوئی شخص تمہیں سلام کرے تو تم بھی اس کے جواب میں بہتر طریقہ سے سلام کرو یا وہی لفظ جواب میں کہہ دو_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوسروں کے جواب میں اس قرآنی ادب کی ایک خاص قسم کی ظرافت سے رعایت فرماتے تھے_

جناب سلمان فارسی سے منقول ہے کہ ایک شخص رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور اس نے کہا : السلام علیک یا رسول اللہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا وعلیک و رحمة اللہ ، دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا : السلام علیک یا رسول اللہ و رحمة اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میںفرمایا : و علیک و رحمة اللہ و برکاتہ تیسرا شخص آیا اور اس نے کہا : السلام علیک و رحمة اللہ و برکاتہ آنحضرت نے فرمایا: و علیک اس شخص نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ فلاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے انہوںنے سلام کیا تو آپ نے ان کے جواب میں میرے جواب سے زیادہ کلمات ارشاد فرمائے ؟آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا تم نے ہمارے واسطے کوئی چیز چھوڑی ہی نہیں ، خداوند نے فرمایا ہے :

___________________

۱)سورہ نساء ۸۶_

۲۱

( واذا حییتم بتحیة فحیوا باحسن منها او ردوها ) (۱)

اور جب کوئی شخص سلام کرے تو تم بھی اس کے جواب میں بہتر طریقہ سے سلام کیا کرو یا وہی لفظ جواب میں کہدیا کرو_

مصافحہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یادگار ایک اسلامی طریقہ مصافحہ کرنا بھی ہے _آپ کے مصافحہ کے آداب کو امیر المؤمنین بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ '' ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی سے مصافحہ کیا ہو اور اس شخص سے پہلے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہو''(۲)

امام جعفر صادق نے اس سلسلہ میں فرمایا'' جب لوگوں نے اس بات کو سمجھ لیا تو حضرت سے مصافحہ کرنے میں جلدی سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتے تھے''(۳)

رخصت کے وقت

مؤمنین کو رخصت کرتے وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے لئے دعائے خیر کیا کرتے تھے; ان کو خیر و نیکی کے مرکب پر بٹھاتے اور تقوی کا توشہ ان کےساتھ کرتے تھے_

___________________

۱) تفسیر در المنثور ج۲ ص ۱۸۸_

۲) مکارم الاخلاق ص ۲۳_

۳) سنن النبی ص ۴۸_

۲۲

ایک صحابی کو رخصت کرتے وقت فرمایا:

'' زودک الله التقوی و غفرذنبک و لقاک الخیر حیث کنت ' '(۱)

خداوند عالم خداوندعالم تمہارا توشہ سفر تقوی قرار دے، تمہارے گناہ معاف کردے اور تم جہاں کہیں بھی رہو تم تک خیر پہنچاتارہے_

پکارتے وقت

اصحاب کو پکارنے میں آپکا انداز نہایت محترمانہ ہوتا تھا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کے احترام اور ان کے قلبی لگاؤ کیلئے ان کو کنیت سے پکارتے تھے اور اگر کسی کی کوئی کنیت نہیںہوتی تھی تو اس کیلئے معین کردیتے تھے پھر تو دوسرے لوگ بھی اسی کنیت سے ان کو پکارنے لگتے تھے اس طرح آپ صاحب اولاد اور بے اولاد عورتوں، یہاں تک کہ بچوں کیلئے کنیت معین فرماتے تھے اور اس طرح سب کا دل موہ لے لیتے تھے(۱) _

پکار کا جواب

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جس طرح کسی کو پکارنے میں احترام ملحوظ نظر رکھتے تھے ویسے ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسی کی آواز پر لبیک کہنے میں بھی کسر نفسی اور احترام کے جذبات ملے جلے ہوتے تھے_

___________________

۱)مکارم الاخلاق ص ۲۴۹_

۲)سنن النبی ص۵۳_

۲۳

روایت ہوئی ہے کہ :

''لا یدعوه احد من الصحابه و غیرهم الا قال لبیک'' (۱)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جب بھی ان کے اصحاب میں سے کسی نے یا کسی غیر نے پکارا تو آپ نے اس کے جواب میں لبیک کہا _

امیر المؤمنین سے روایت ہے کہ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کوئی شخص کسی چیز کی خواہش کرتا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اسے انجام دینا چاہتے تھے تو فرماتے تھے کہ '' ہاں'' اور اگر اسکو انجام دینا نہیں چاہتے تھے تو خاموش رہ جاتے تھے اور ہرگز '' نہیں'' زبان پر جاری نہیں کرتے تھے(۲)

ظاہری آرائشے

کچھ لوگ مردوں کا فقط گھر کے باہر اور ناآشنا لوگوں سے ملاقات کرتے وقت آراستہ رہنا ضروری سمجھتے ہیں ان کے برخلاف رسو لخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر میں اور گھر کے باہر دونوں جگہ نہایت آراستہ رہتے تھے، نہ صرف اپنے خاندان والوں کیلئے بلکہ اپنے اصحاب کیلئے بھی اپنے کو آراستہ رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ : خدا اپنے اس بندہ کو دوست رکھتاہے جو اپنے بھائیوں سے ملاقات کیلئے گھر سے نکلتے وقت آمادگی اور آراستگی سے نکلے(۳)

___________________

۱)سنن النبی ص۵۳_

۲)سنن النبی ص ۷۰_

۳)سنن النبی ص۲۲_

۲۴

مہما نوازی کے کچھ آداب

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو کہ عالی مزاج اور آزاد منش تھے وہ اپنے مہمانوں کا نہایت احترام و اکرام کرتے تھے_

منقول ہے کہ '' جب کبھی کوئی آپ کے پاس آتا تھا تو جس تو شک پر آپ تشریف فرماہوتے تھے آنے والے شخص کو دے دیتے تھے اور اگر وہ مہمان اسے قبول نہیں کرتا تو آپ اصرار فرماتے تھے یہاں تک وہ قبول کرلے _(۱)

حضرت موسی بن جعفرعليه‌السلام نے فرمایا: '' جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یہاں کوئی مہمان آتا تھا تو آپ اس کے ساتھ کھانا کھاتے تھے اور جب تک مہمان کھانے سے اپنا ہاتھ روک نہیں لیتا تھا آپ کھانے میں اس کے شریک رہتے تھے _(۲)

عیادت کے آداب

آپ اپنے اصحاب سے صحت و تندرستی ہی کے زمانہ میں ملاقات نہیں کرتے تھے بلکہ اگر کوئی مؤمن اتفاقاً بیمار پڑجانا تو آپ اسکی عیادت کرتے اور یہ عمل خاص آداب کے ساتھ انجام پاتا_

___________________

۱)سنن النبی ص ۵۳_

۲)سنن النبی ص ۶۷_

۲۵

عیادت کے آداب سے متعلق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود بیان فرماتے ہیں :

''تمام عیادة المریض ان یضع احدکم یده علیه و یسأله کیف انت؟ کیف اصبحت؟ و کیف امسیت؟ و تمام تحیتکم المصافحه '' (۱)

کمال عیادت مریض یہ ہے کہ تم اس کے اوپر اپنا ہاتھ رکھو اس سے پوچھو کہ تم کیسے ہو؟ رات کیسے گذاری ؟ تمہارا دن کیسے گذرا؟ اور تمہارا مکمل سلام مصافحہ کرنا ہے _

مریض کی عیادت کے وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک دوسرا طریقہ یہ تھا کہ آپ اس کے لئے دعا فرماتے تھے _ روایت ہے کہ جب سلمان فارسی بیمار ہوئے اور آپ نے ان کی عیادت کی ، تو اٹھتے وقت فرمایا :

''یا سلمان کشف الله ضرک و غفرذنبک و حفظ فی دینک و بدنک الی منتهی اجلک''

اے سلمان اللہ تمہاری پریشانی کو دور کرے تمہارے گناہ کو بخش دے اور موت آنے تک تمہارے دین اور بدن کو صحیح و سالم رکھے(۲)

حاصل کلام

کلی طور پر جاودانی ، شایستگی اور خردمندی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے برتاؤ کے آداب کی

___________________

۱)مکارم الاخلاق ۳۵۹_

۲)مکارم الاخلاق ص۳۶۱_

۲۶

خصوصیات میں سے تھیں_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلوک کا اثر آپکے زمانہ کے افراد پر ایسا گہرا تھا کہ بہت ہی کم مدت میں ان کی روح و فکر میں عظیم تبدیلی آگئی اور ان کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اخلاق اسلامی کے زیور سے آراستہ کردیا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کو نمونہ عمل بنانافقط آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ کے افراد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جب تک دنیا قاءم ہے اور اسلام کا پرچم لہرارہاہے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لانیوالوں کو چاہئے کہ آپ کے اخلاقصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آداب اور سیرت کو آئیڈیل بنائیں_

کچھ اپنی ذات کے حوالے سے آداب

انفرادی اعمال کی انجام دہی میں آپکا طریقہ اس حد تک دلپذیر اور پسندیدہ تھا کہ لوگوں کیلئے ہمیشہ کیلئے نمونہ عمل بن گئے، آپ پر ایمان لانے والے آج سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سمجھ کر ان اعمال کو بجالاتے ہیںآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کی تاریخ میں کوئی ایسی چھوٹی سی بات بھی ناپسندیدہ نظر نہیں آتی ، صرف بڑے کاموں میں ہی آپ کی سیرت سبق آموز اور آئیڈیل نہیں ہے بلکہ آپ کی زندگی کے معمولی اور جزئی امور بھی اخلاق کے دقیق اور لطیف ترین درس دیتے نظر آتے ہیں _

۲۷

اس تحریر میں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کچھ ذاتی آداب کی طرف اشارہ کیا جارہاہے_ آداب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے متلاشی افراد کیلئے بہتر ہے کہ وہ ان کتابوں کا مطالعہ فرمائیں جو اس سلسلہ میں لکھی گئی ہیں_(۱)

آرائش

دنیاوی زروزیور کی نسبت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نظافت، صفائی اور پاکیزگی کو خاص اہمیت دیتے تھے اچھی خوشبو استعمال کرتے تھے، بالوں میں کنگھی کرتے تھے اور آپکا لباس ہمیشہ صاف ستھرا اورپاکیزہ رہتا تھا ، گھر سے نکلتے وقت آئینہ دیکھتے ، ہمیشہ با وضو رہتے اورمسواک کرتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لباس اور نعلین کا ایک رنگ ہوتا تھا جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سر پر عمامہ رکھتے تو اس وقت آپکا قد نمایاں ہوکر آپکے وقار میں اضافہ کردیتا تھا چونکہ اس موضوع پر مفصل گفتگو ہوگی اسلئے یہاں فقط اشارہ پر ہم اکتفا کررہے ہیں_

کھانے کے آداب

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مخصوص آداب سے کھانا تناول فرماتے تھے لیکن کوئی مخصوص غذا نہیں کھاتے تھے_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر طرح کی غذا نوش فرماتے تھے اور جس کھانے کو خدا نے حلال کیا ہے اسکو اپنے گھروالوں اور خدمتگاروںکے ساتھ کھاتے تھے، اسی طرح اگر کوئی شخص آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت

___________________

۱) (سنن النبی علامہ طباطبائی ، مکارم الاخلاق طبرسی، بحارالانوار مجلسی و ...)_

۲۸

کرتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زمین یا فرش پر بیٹھ جاتے اور جو کچھ پکاہوتا تھاتناول فرمالیتے تھے _

لیکن جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یہاں کوئی مہمان آجاتا تو آپ اس کے ساتھ غذا تناول فرماتے اور اس غذا کو بہترین تصور فرماتے تھے جس میںآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ زیادہ لوگ شریک ہوتے تھے_(۱)

کسی کھانے کی مذمت نہیں کرتے تھے ، پسند آتا تو کھالیتے اوراگر ناپسند ہوتا تو نہیں کھاتے تھے لیکن اسے دوسروں کیلئے حرام نہیں کرتے تھے _(۲)

کم خوری

دن بھر کی انتھک محنت اور ہمیشہ نماز شب کی ادائیگی کے باوجود کم غذا تناول فرماتے اور پرخوری سے پرہیز کرتے تھے_

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایا : '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک اس سے زیادہ اور کوئی چیز محبوب نہ تھی کہ ہمیشہ بھوک رہے اور خوف خدادل میں رکھا جائے(۳) کم خوری کی بناپر آپکا جسم لاغر اور اعضاء کمزور ہے _

___________________

۱) مکارم الاخلاق ص ۲۶_

۲) سنن النبی ص ۱۷۷_

۳) مکارم الاخلاق ص ۱۶۰_

۲۹

امیر المؤمنین علی بن ابی طالبعليه‌السلام فرماتے تھے:'' ساری دنیا سے شکم کے اعتبار سے آپ سب سے زیادہ لاغر اور کھانے کے اعتبار سے آپ سب سے زیادہ بھوک میں رہتے تھے بھوکے شکم کے ساتھ آپ دنیا سے تشریف لے گئے اور منزل آخرت میںصحیح و سالم پہنچے''(۱) _

ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے زیادہ کھانا کھاکر شکم پر کیا ہو(۲) چنانچہ کم خوری کے بارے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود ارشاد فرماتے تھے : '' ہم وہ ہیں کہ جو بھوک کے بغیر کھانا نہیں کھاتا اور جب کھاتے ہیں تو پیٹ بھر کر نہیں کھاتے ''(۳) کم خوری کی وجہ سے آپکا جسم صحیح و سالم تھا اور اسکی بنیاد مضبوط تھی_

آداب نشست

حضور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے مخلص بندے تھے حق تعالی کی بندگی کی رعایت ہر حال میں کرتے تھے _ امام محمد باقرعليه‌السلام سے روایت ہے : '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غلاموں کی طرح کھانا کھاتے تھے غلاموں کی طرح زمین پر بیٹھتے اور زمین ہی پر سوتے تھے''_(۴)

___________________

۱) نہج البلاغہ ص ۱۵۹_

۲) سنن النبی ص۱۸۲_

۳) سنن النبی ص ۱۸۱_

۴) سنن النبی ص ۱۶۳_

۳۰

امیر المؤمنینعليه‌السلام فرماتے ہیں : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب دسترخوان پر بیٹھتے تو غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے اور بائیں ران پر تکیہ کرتے تھے''(۱)

ہاتھ سے غذا کھانا

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کھانے کا طریقہ یہ تھا کہ آپ کھانا ہاتھ سے کھاتے تھے_ امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روایت ہے : '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غلاموں کی طرح بیٹھتے' ہاتھوں کو زمین پر رکھتے اور تین انگلیوں سے غذا نوش فرماتے تھے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے آپعليه‌السلام نے فرمایا: یہ تھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کھانا کھانے کا انداز اس طرح نہیں کھاتے تھے جیسے اہل نخوت کھانا کھاتے ہیں _(۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام اپنے والد امام محمد باقر سے نقل کرتے ہیں : '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب کھانے سے فارغ ہوتے تھے تو اپنی انگلیوں کو چوستے تھے _(۳)

کھانا کھانے کی مدت

تھوڑی سی غذا پر قناعت فرمانے کے باوجودجو افراد آپ کے ساتھ کھانا کھاتے تھے

___________________

۱) سنن النبی ص ۱۶۴_

۲) سنن النبی ص ۱۴۵_

۳) سنن النبی ص ۱۶۵_

۳۱

آپ شروع سے آخر تک انکا ساتھ دیتے تھے تا کہ وہ لوگ آپ کی خاطر کھانے سے ہاتھ نہ کھینچ لیں اور بھوکے ہی رہ جائیں_

صادق آل محمدعليه‌السلام فرماتے ہیں: رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب لوگوں کےساتھ کھانا کھانے کیلئے بیٹھتے تو سب سے پہلے شروع کرتے اور سارے لوگوں کے بعد کھانے سے ہاتھ روکتے تا کہ لوگ کھانے سے فارغ ہوجائیں _(۱)

ہر لقمہ کے ساتھ حمد خدا

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چونکہ کسی بھی لمحہ یاد خدا سے غافل نہیں رہتے تھے اسلئے کھانا کھاتے وقت بھی خدا کا شکر ادا کرتے رہتے تھے_

منقول ہے کہ '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر دو لقمہ کے درمیان حمد خدا کیا کرتے تھے''(۲)

پانی پینے کا انداز

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پانی پینے وقت بھی ایک خاص ادب کا خیال رکھتے تھے روایت میں ہے کہ '' جب پانی پیتے تو بسم اللہ کہتے پانی کو چوس کر پیتے اور ایک سانس میں نہیں پیتے

___________________

۱)سنن النبی ص ۱۶۴_

۲)سنن النبی ص ۱۶۸_

۳۲

تھے ، فرماتے تھے کہ ایک سانس میں پانی پینے سے تلی میں درد پیدا ہوتاہے(۱) روایت میں یہ بھی ہے ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پانی پیتے وقت پانی کے برتن ہی میں سانس نہیں لیتے تھے بلکہ سانس لینا چاہتے تو برتن کو منہ سے الگ کرلیتے تھے''(۲)

سفر کے آداب

جنگ اور جنگ کے علاوہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دونوں سفر مخصوص آداب کے ساتھ انجام پاتے تھے اور آپ تمام ضروری باتوں کا خیال رکھتے تھے_

زاد راہ

سفر کے موقع پر آپ ضروری سامان اپنے ساتھ لے لیتے تھے، زاد راہ سفر لینے کے بارے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں : یہ سنت ہے کہ جب کوئی سفر کیلئے نکلے تو اپنا خرچ اور اپنی غذا اپنے ساتھ رکھے اسلئے کہ یہ عمل پاکیزگی نفس اور اخلاق کے اچھے ہونے کا باعث ہے_

___________________

۱)سنن النبی ص ۱۶۹_

۲)سنن النبی ص ۱۷۰_

۳۳

ذاتی ضروریات کے سامان

زاد راہ کے علاوہ آپ اپنی ذاتی ضروریات کا سامان بھی اپنے ساتھ لے لیتے تھے_ روایت ہے کہ ''آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سفر میں چیزوں کو اپنے ساتھ رکھتے تھے اور وہ چند چیزیں یہ ہیں آئینہ ،جسم پر ملنے والا تیل ، سرمہ دانی، قینچی مسواک اور کنگھی _

دوسری حدیث میں ہے سوئی اور دھاگہ نعلین سینے والی سوئی اور پیوند لگانے کی چیزیں بھی آپ اپنے ساتھ رکھتے تا کہ لباس کو اپنے ہاتھوں سے سی لیں اور جوتے میں پیوند لگالیں''_(۱)

''آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفر کے آداب میں ایک دوسری چیز کا بھی ذکر آیاہے اور وہ یہ کہ آپ جس راستے سے جاتے تھے اس راستے سے واپس نہیںآتے تھے بلکہ دوسرا راستہ اختیار کرتے تھے''(۲)

'' قدم تیز اٹھاتے اور راستہ جلد طے کرتے اور جب وسیع و عریض بیابان میں پہنچتے تو اپنی رفتار مزید تیز کردیتے تھے''(۳)

آپ ہمیشہ سفر سے ظہر کے وقت واپس پلٹتے،(۴) جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سفر سے

___________________

۱) مکارم الاخلاق ص ۶۳_

۲) سنن النبی ص ۱۱۰_

۳) سنن النبی ۴ ص ۱۱۴_

۴) سنن النبی ص ۱۱۷_

۳۴

واپس آتے تو پہلے مسجد جاتے دو رکعت نماز پڑھتے اس کے بعد گھر تشریف لے جاتے تھے(۱)

سونے کے آداب

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے حکم کے مطابق راتوں کو بیدار اور دعاو عبادت میں مصروف رہتے تھے، فقط تھوڑی دید سوتے وہ بھی مخصوص آداب کے ساتھ_

امام محمد باقرعليه‌السلام فرماتے ہیں : '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب بھی خواب سے بیدار ہوتے تو اسی وقت زمین پر خدا کا سجدہ بجالاتے تھے''(۲)

بیچے بچھانے کیلئے ایک عبا اور ایک کھال کا تکیہ تھا کہ جس میں خرمہ کی چھال بھری ہوئی تھی _ ایک رات اسی بستر کو دہرا کرکے لوگوں نے بچھادیا جب آپ صبح کو بیدار ہوئے تو فرمایا کہ یہ بستر نماز شب سے روکتا ہے اس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ اس کو اکہرا بچھایا جائے _

___________________

۱) سنن النبی ص ۱۱۹_

۲)سنن النبی ص ۱۴۰

(۳) سنن النبی ص ۱۵۴_

۳۵

خلاصہ درس

۱ ) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انتہائی پرکشش، قاطع اور بھر پور متانت کے حامل تھے انکا وہ ادب جو کہ انکے بزرگ منش ہونے اور وسعت نظر رکھنے کی عکاسی کرتا تھا ہر چھوٹے ، بڑے، فقیر اور غنی اور تمام لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے میں نظر آتاہے_

الف: آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلام کرنے میں پہل کیا کرتے تھے_

ب: مصافحہ کرنے والے سے پہلے اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے تھے_

ج: اپنے اصحاب کو نہایت محترمانہ انداز میں پکارتے تھے_

د: ہر ایک کی پکار کا نہایت ہی احترام و ادب سے جواب دیتے تھے_

ھ :اپنے مہمانوں کیلئے آپ نہایت ادب و احترام کا مظاہرہ فرماتے تھے_

۲ ) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کا ان کے زمانہ کے افراد پر ایسا گہرا اثر پڑا کہ تھوڑے ہی دنوں میں ان کی روح میں عظیم تبدیلی پیدا ہوگئی اور اس سیرت نے ان کو زیور اسلامی سے آراستہ کردیا_

۳ )ذاتی اعمال میں آپکا انداز ایسا دل پذیرتھا کہ آپ نے ان اعمال کو جاودانی عطا کردی تھی اور آج آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لانیوالے ان کو سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سمجھ کر بجالاتے ہیں _

۴) رسول اکرم کا سفر چاہے وہ جنگی ہو یا غیر جنگی مخصوص آداب کا حامل ہوتا تھا اور اسمیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ضرورت کی ان تمام چیزوں کو اپنے ساتھ رکھتے تھے جن کی سفر میں ضرورت ہوتی ہے_

۳۶

سوالات :

۱_ لوگوںسے ملنے جلنے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کیا سیرت تھی اختصار کے ساتھ بیان فرمایئے

۲ _ مریض کی عیادت کے سلسلہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کیا آداب تھی ؟

۳ _ لوگوں کے درمیان آپ کی سیرت کا کیا اثرتھا؟

۴ _ ذاتی حالات مثلاً اپنے کو آراستہ کرنے، کھانے پینے میں آپ کے کیا آداب تھے؟ ان میں سے کچھ بیان فرمایئے

۵ _ سفر کے وقت آپ کا کیا طریقہ ہوتا تھا ، تحریر فرمایئے

۳۷

تیسرا سبق:

(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا طرز معاشرت)

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ملت اسلامیہ کے رہبر اور خدا کا پیغام پہنچانے پر مامور تھے اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مختلف طبقات کے افراداور اقوام سے ملنا پڑتا تھا ان کو توحید کی طرف مائل کرنے کا سب سے بڑا سبب ان کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نیک برتاو تھا_

لوگوں کے ساتھ معاشرت اور ملنے جلنے کی کیفیت کے بارے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں لیکن سب سے زیادہ جو چیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی معنوی عظمت کی طرف انسان کی راہنمائی کرتی ہے وہ لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے میں نیک اخلاق اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پاکیزہ سیرت ہے _

وہ سیرت جس کا سرچشمہ وحی اور رحمت الہی ہے جو کہ حقیقت تلاش کرنے والے افراد کی روح کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے وہ سیرت جو ''اخلاق کے مسلم اخلاقی اصولوں''(۱) کے ایک سلسلہ سے ابھرتی ہے جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روح میں راسخ تھی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ساری

___________________

۱)سیرت نبوی، استاد مطہری ۳۴ ، ۲۲_

۳۸

زندگی میں منظر عام پر آتی رہی_

اس مختصرسی بحث میں جو بیان کیا جائے گا وہ عام لوگوں کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلوک کی طرف اشارہ ہوگا امید ہے کہ ''لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة(۱) تمھارے لئے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اندر اسوہ حسنہ موجود ہے'' کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کریمانہ اخلاق ہمارے لئے نمونہ بنیں گے _

صاحبان فضیلت کا اکرام

بعثت پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک مقصد انسانی فضاءل اور اخلاق کی قدروں کو زندہ کرناہے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سلسلہ میں فرمایا:

''انما بعثت لاتمم مکارم اخلاق '' (۲)

یعنی ہماری بعثت کا مقصد انسانی معاشرہ کو معنوی کمالات اور مکارم اخلاق کی بلندی کی طرف لے جاناہے _

اسی وجہ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صاحبان فضیلت سے اگر چہ وہ مسلمان نہ بھی ہوں ، اچھے اخلاق سے ملتے اور ان کی عزت و احترام کرتے تھے'' (یکرم اهل الفضل فی اخلاقهم و یتالف اهل الشرف بالبرلهم )(۳) نیک اخلاق کی بناپر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اہل فضل

___________________

۱) احزاب ،۲۱_

۲) میزان الحکمہ ج۳ ص۱۴۹_

۳) محجة البیضاء ج۴ ص ۱۲۶_

۳۹

کی عزت کرتے اور اہل شرف کی نیکی کی وجہ سے ان پر مہربانی فرماتے تھے، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلوک کے ایسے بہت سارے نمونے تاریخ میں موجود ہیں ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

حاتم کی بیٹی

حضرت علیعليه‌السلام فرماتے ہیں '' جب قبیلہ طئی کے اسیروں کو لایا گیا تو ان اسیروں میں سے ایک عورت نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کیا کہ آپ لوگوں سے کہدیں کہ وہ ہم کو پریشان نہ کریں اور ہمارے ساتھ نیک سلوک کریں اسلئے کہ میں اپنے قبیلے کے سردار کی بیٹی ہوں اور میرا باپ وہ ہے جو عہد و پیمان میں وفاداری سے کام لیتاہے اسیروںکو آزاد اور بھوکوں کو سیر کرتاہے سلام میں پہل کرتاہے اور کسی ضرورتمند کو اپنے دروازے سے کبھی واپس نہیں کرتا ہیں '' حاتم طائی'' کی بیٹی ہوں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: یہ صفات جو تم نے بیان کئے ہیں یہ حقیقی مؤمن کی نشانی ہیں اگر تمہارا باپ مسلمان ہو تا تو میں اس کے لئے دعائے رحمت کرتا، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اسکو چھوڑ دیا جائے اور کوئی اسکو پریشان نہ کرے اسلئے کہ اسکا باپ وہ شخص تھا جو مکارم الاخلاق کا دلدادہ تھا اور خدا مکارم الاخلاق کو پسند کرتاہے_(۱)

___________________

۱)محجة البیضاء ج۴ ص۱۳۲_

۴۰