رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر0%

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 311

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مرکزتحقیقات علوم اسلامی
زمرہ جات: صفحے: 311
مشاہدے: 194218
ڈاؤنلوڈ: 5138

تبصرے:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 311 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 194218 / ڈاؤنلوڈ: 5138
سائز سائز سائز
  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سترہواں سبق:

(حسن کلام)

حکمت آمیز باتیں، مواعظ ، دنیاوی اور دینی اوامر کے سلسلہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حقائق پر مبنی گفتگو نیز پیام الہی کے ابلاغ اور جد و جہد سے بھر پور زندگی دیکھنے کی بعد یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلام میں کوئی ہنسی مزاق نہیں پایا جاتا،حالانکہ آپ کے اقوال خوش اخلاقی اور برادران دینی کو خوش کرنے والی باتوں پر مبنی ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اخلاق ایسا تھا کہ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ کشادہ روئی اور چہرہ پر تبسم لیے ہوئے ملتے تھے_

روایات سے پتہ چلتاہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلام حشو و زاءد سے پاک تھا بعض موارد کو چھوڑ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہنسی ، مسکراہٹ سے آگے نہیں بڑھتی تھی ، سکوت بھی طولانی اور فکر انگیز ہوتا تھا، اپنے اصحاب کو بھی آپ اکثر ان باتوں کی طرف متوجہ کرتے تھے_

''قال رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم من علامات الفقه، الحلم و العلم و الصمت ان الصمت باب من ابواب الحکمة ان الصمت یکسب المحبة انه دلیل

۲۴۱

علی کل خیر '' (۱)

دانا کی علامات میں سے بردباری ، علم اور سکوت ہے سکوت حکمت کے ابواب میں سے ایک باب ہے بلاشبہ سکوت محبت پیدا کرتاہے اور وہ ہر خیر کی طرف راہنمائی کرتاہے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندگی کو بہت بیش قیمت شےء سمجھتے تھے اسے خواہ مخواہ ہنسی مزاق کی باتوں میں گنوادینا صحیح نہیں جانتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظر میں کمالات معنوی تک پہنچنے کی راہ میں زندگی کے کسی لمحہ کو بھی برباد کرنا جاءز نہ تھا_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیادہ تر کوشش یہ تھی کہ عمر کا زیادہ حصہ خدا کی عبادت میں گذرے اس کے باوجود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں سے خندہ پیشانی اور مسکراہٹ کے ساتھ ملتے تھے، ہاں کچھ استثنائی مواقع ایسے تھے جہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لبوں پر مسکراہٹ نہیں آتی تھی مثلاً جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منکر یعنی بری باتوں کو دیکھتے تھے تو ایسے موقع پر ناراض ہوجاتے تھے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ کے لوگوں نے اس سیرت کا مطالعہ کیا اور جو باتیں نقل ہوکر ہمارے لئے یادگار بن گئیں وہ ان سے مذکورہ بالا حقیقت کی عکاسی کرتی ہیں_

امام محمد باقر سے روایت ہے :

''اتی رسول الله رجل فقال یا رسول الله اوصنی فکان فیما اوصاه أن

___________________

۱) (کافی ج۳ ص ۱۷۴)_

۲۴۲

قال الق اخاک بوجه منبسط '' (۱)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھے کچھ تعلیم فرمائیں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملا کرو_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بہت سی روایتوں میں مؤمنین کو مسرورکرنے کی تعلیم موجود ہے آپس میں مومنین کو مسرور کرنے کی بہت سے ذراءع ہیں مثلاً تحفہ دینا، ان کے ساتھ تعظیم و تکریم سے پیش آنا خندہ پیشانی اور مزاح_

''قال رسول الله من سر مومناً فقد سرنی و من سرنی فقد سر الله '' (۲)

جو کسی مومن کو مسرور کرے اس نے مجھ کو خوش کیا اور جس نے مجھ کو خوش کیا اس نے اللہ کو خوش کیا_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلام کی شیرینی اور اعلی اخلاق کے بارے میں قرآن کہتاہے:

''فبما رحمة من الله لنت لهم و لو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک'' (۳)

خدا کی رحمت کے سبب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں کے ساتھ نرمی اختیار کی اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کرخت مزاج اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس تتربتر ہوگئے ہوتے_

___________________

۱) (کافی ج۳ ج ۱۶۱)_

۲) (کافی ج۲ ص ۲۷۱)_

۳) (آل عمران ۱۵۹)_

۲۴۳

امید ہے کہ آنحضرت کی سیرت مؤمنین کیلئے نمونہ بنے گی اور برادران مومن آپس میں طنز آمیز گفتگو اور مخرب اخلاق لطیفوں سے گریز کریں گے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلام کا حسن اور جذابیت

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تخلیقی طور پر خوبصورت اور اخلاقی طور پر خوش گفتار تھے یہ اوصاف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اندر اس درجہ تک موجود تھے کہ کمال کے متلاشی دیدہ و دل آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف کھینچنے لگتے تھے یہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شکل میں کوئی عیب تھا اور نہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اخلاق میں کوئی کرختگی تھی ،کم ہنسی بھلائی کے لئے کھلے ہاتھ، خندہ پیشانی سے ملنے والے، بہت غور و فکر کرنے والے، چہرہ پر مسکراہٹ، زباں پر اچھی اچھی باتیں، سخاوت کے ساتھ ، دیر میں غصہ کرنے الے، خوش خو، لطیف طبع اور تمام بری صفات سے مبرا تھے(۱)

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گفتگو فصیح و بلیغ ہوا کرتی تھی جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مزاح کی بات میں تبسم کے ساتھ باتیں کرتے تو انداز بہت ہی خوبصورت اور دل نشیں ہوجاتا تھا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کلام کی صفت میں لکھا گیا ہے :

بات کرنے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح اور شیریں کلام تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود فرماتے ہیں :

___________________

۱) (اقتباس از شرف النبی ص ۶۴)_

۲۴۴

میں عرب کا فصیح ترین انسان ہوں، اہل بہشت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان میں باتیں کرتے ہیں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کم سخن اور نرم گفتار تھے جب بات کرتے تھے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زیادہ نہیں بولتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتیں ایسی تھیں جیسے ایک رشتہ میں پروئے ہوئے موتی(۱)

کہا جاتاہے کہ : سب سے کم لفظوں میں باتیں کرنے والے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی تھے یہ انداز جبرئیل آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر لیکر نازل ہوئے تھے، بہت ہی کم لفظوں میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ساری باتیں کہہ جاتے تھے، افراط و تفریط سے مبرا بہت ہی جامع کلمات آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دہن مبارک سے نکلتے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دو باتوں کے درمیان رک جاتے تھے تا کہ سننے والے اسے یاد کرلیں آواز بلند تھی اس میں بہترین نغماہٹ شامل تھی ، زیادہ تر خاموش رہتے تھے، ضرورت کے علاوہ باتیں نہیں کرتے تھے ، کبھی زبان پر کوئی نازیبا بات نہیںآتی تھی ، اور رضامندی اور ناراضگی دونوں ہی صورتوں میں حق کے علاوہ زبان پر کوئی لفظ نہیں آتا تھا_

اگر کوئی برا کہے تو اس کی طرف سے منہ پھیرلیتے اگر باتوں میں مجبوراً کوئی ایسی بات کہنی پڑتی جس کا بیان آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پسند نہیں ہوتا تو اسے کنایہ میں کہہ ڈالتے تھے اور جب خاموش ہوتے تو انکے پاس بیٹھے ہوئے لوگ باتیں کرنے لگتے تو اس وقت اصحاب کے سامنے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ پر دوسرے افراد سے زیادہ تبسم ہوتا ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے ساتھ بہترین معاشرت رکھتے ، کبھی اتنا ہنستے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جھوٹے دانٹ ظاہر ہوجاتے اور آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اقتدا و تعظیم میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب تبسم فرماتے تھے(۲)

___________________

۱) (ترجمہ احیاء العلوم ج۲ ص ۱۰۵)_

۲) (ترجمہ احیاء العلوم ج۲ص ۱۰۵۷)_

۲۴۵

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مزاح

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صفت خندہ پیشانی تھی مزاح کی ساتھ اس میں اور بھی اضافہ ہوجاتا تھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حد تک مزاح فرماتے کہ کلام معیوب نہ ہوجائے ، جب گفتگو میں عیب جوئی ، غیبت ، تہمت اور دوسری آفتیں بھی ہوں تو وہ گفتگو ناپسندیدہ اور عیب بن جاتی لیکن حضور کی ذات گرامی ان تمام عیوب سے پاک تھی_

مزاح مگر حق

اسلامی تعلیم کے مطابق اگر مزاح میں تمسخر اور تحقیر ہو تو یہ ناپسندیدہ طریقہ ہے لیکن اگر کھیل تماشا ہو بلکہ حق کے قالب میں برادران دینی کو خوش کرنے کیلئے بات کہی جائے تو یہ پسندیدہ طریقہ ہے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مزاح کی جو باتیں منقول ہیں وہ حقیقت سے خالی نہیں ہیں_

''قال رسول الله; انی لا مزح و لا اقول الا حقا'' (۱)

میں مزاح کرتاہوں مگر حق کے علاوہ کچھ نہیں کہتا_

''قال علی علیه السلام : کان رسو ل اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لیسرا الرجل من اصحابه اذا راه مغموماً بالمداعبة و کان یقول ان الله یبغض المعبس

___________________

۱) (مکارم الاخلاق ص۲۱)_

۲۴۶

فی وجه اخیه'' (۱)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب میں سے جب کسی کو غم زدہ پاتے تو اس کو مزاح کی ذریعہ خوش کردیتے اور فرماتے تھے خدا کسی ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا جو اپنے بھائی سے ترش روئی سے پیش آئے_

شہید ثانی کی کتاب '' کشف الریبہ'' میں ہے کہ حسین بن زید کہتے ہیں کہ امام جعفر صادقعليه‌السلام سے ہم نے پوچھا کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مزاح کرتے تھے تو آپعليه‌السلام نے فرمایا:

''وصفه الله بخلق عظیم و ان الله بعث انبیاءه فکانت فیهم کزازة (انقباض ) و بعث محمد بالترافة والرحمة و کا ن من رافته لامته مداعبته لهم لکیلا یبلغ باحد منهم التعظیم حتی لا ینظر الیه '' (۲)

خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خلق عظیم پر فائز کیا ، خدا نے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کیا حالانکہ ان کے اخلاق میں سنجیدگی تھی اور محمد کو اللہ نے مہربانی اور رحمت کے ساتھ مبعوث کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مہربانی میں سے اپنی امت کے ساتھ مزاح بھی تھا کہ ایسا نہ ہوکر ان کیلئے عظمت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حد تک پہنچ جائے کہ وہ انکی طرف نگاہ بھی نہ کرسکتے ہوں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ائمہ معصومین علیہم السلام بھی اپنے اصحاب کو مزاح کرنے اور اپنے دینی بھائیوں کو مسرور کرنے کی تعلیم دیتے تھے_

___________________

۱) (سنن النبی ص ۶۰)_

۲) (سنن النبی ص ۶۱)_

۲۴۷

''عن یونس الشیبانی قال: قال لی ابوعبدالله کیف مداعبة بعضکم بعضا؟ قلت : قلیلاً : قال : فلا تفعلوا فان المداعبة من حسن الخلق و انک لتدخل بها السرور علی اخیک ، و لقد کان النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یداعب الرجل یدیه به ان یسره '' (۱)

یونس شیبانی نے بتایا کہ امام جعفر صادقعليه‌السلام نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم لوگ آپس میں ایک دوسرے سے مزاح کرتے ہو؟ میں نے کہا بہت کم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کم کیوں ؟ مزاح تو حسن اخلاق ہے کہ جس کے ذریعہ تم اپنے بھائی کو مسرور کرسکتے ہو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی مسرور کرنے کیلئے مزاح فرماتے تھے_

مومنین کو مسرور کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جب وہ غمگین ہوں تو ان سے مزاح کیا جائے روایات میں اس بات کی نصیحت وجود ہے کہ اپنے مومن بھائیوں کو خوش کرو _

امام محمد باقرعليه‌السلام نے فرمایاہے :

''تبسم الرجل فی وجه اخیه حسنة و صرف القذی عنه حسنة و ما عبد ''الله بشئ احب الی الله من ادخال السرور علی المؤمن'' (۲)

برادر مومن سے مسکرا کر ملنا نیکی ہے اور اس کے سامنے خس و خاشاک ہٹا دینا بھی نیکی ہے ، خداوند عالم کے نزدیک جو چیز سب سے زیادہ محبوب ہے وہ مومن کو مسرور کرنا ہے_

___________________

۱) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۸)_

۲) (اصول کافی ج۳ ص ۲۷۱)_

۲۴۸

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مزاح کے نمونے

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کبھی لطیف مزاح اور خوبصورت تشبیہ کے ذریعہ لوگوں کو مسرور کردیا کرتے تھے مندرجہ ذیل واقعات اصحاب کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مزاح اور پیغمبر کے ساتھ اصحاب کے مزاح پر مشتمل ہیں _

۱_ابخشہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خادم تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ کے اونٹ کیلئے حدی خونی کرتے تھے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا : '' اے ابخشہ آبگینوں کا خیال رکھو''(۱)

(حدی خونی سے اونٹ صحرا میں تیزی سے دوڑنے لگتے ہیں اس جملہ میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ عورتیں نازک اور کمزور ہوتی ہیں اونٹ کی تیز رفتاری سے ممکن ہے ڈرکرعورتیں اونٹوں سے گر پڑیں اور آبگینون کی طرح ٹوٹ جائیں یہ تشبیہ اپنی جگہ پر بڑا ہی لطیف مزاح ہے )_

۲_کسی سفر میں ایک سیاہ فام حبشی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تھا، جو تھک جاتا تھا وہ اپنا تھوڑا بوجھ اس کے کاندے پر رکھ دیتا تھا غلام کے کاندھوں پر زیادہ بوجھ ہوگیا رسول خدا کا اسکے پاس سے گذراہوا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: تم کشتی بن گئے ہو پھر اسے آزاد کردیا_(۲)

۳_ ایک بچے سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' اے دوکانوں والے فراموش نہ کرنا ''(۳)

___________________

۱) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۴)_

۲) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۴)_

۳) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۴)

۲۴۹

۴ _ روایت ہے کہ ایک دن ایک عورت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئی اور اس نے اپنے شوہر کانام لیا _

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا تیرا شوہر وہی تو ہے جس کی دونوں آنکھوں میں سفیدہ ہے اس عورت نے کہا نہیں ان کی آنکھوں میں سفیدہ نہیں ہے ،وہ عورت جب گھر لوٹی تو اس نے اپنے شوہر کو یہ واقعہ سنایا مرد نے کہ کہا تم نے نہیں دیکھا کہ میری آنکھوں کا سفیدہ سیاہی سے زیادہ ہے(۱)

۵ _ انصار کی ایک بوڑھی عورت نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ عرض کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میری جنتی ہونے کی دعا فرمادیں_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی، وہ عورت رونے لگی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہنس کر فرمایا کہ کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں سنا _

( انا انشانا هن انشاء فجعلنا هن ابکارا ) (۲)

ہم نے انکو پیدا کیا اور ہم نے ان عورتوں کوباکرہ بنایا ہے _

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مطلب یہ تھا کہ بوڑھی عورتیں جو ان بن کر بہشت میں داخل ہوں گی _

۶_ قبیلہ اشجع کی ایک بوڑھی عورت سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں

___________________

۱) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۴)

۲) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۵)

۲۵۰

جائیں گی، بلال نے اس عورت کو روتے ہوئے دیکھا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بیان کیا ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا سیاہ فام بھی نہیں جائیگا بلال بھی رونے لگے ، ادھر سے پیغمبر کے چچا جناب عباس کا گذرا ہوا، انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان کے رونے کا ماجرا بیان کیا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا بوڑھا جنت میں نہیں جائیگا، پھرآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی دلجوئی کیلئے ان کو قریب بلاکر کہا بوڑھی عورت اور بوڑھے مرد کو جو ان اور سیاہ فام کو نورانی شکل والا بناکر جنت میں داخل کیا جائیگا(۱)

اصحاب کا مزاح

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کی بناپر اصحاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے مزاح کرتے تھے لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی میں بیجا اور ناپسندیدہ مزاح سے پرہیز کرتے تھے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کبھی ان کے کلام کی شیرینی سے اصحاب ہنسنے لگتے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی تبسم فرماتے تھے_

۱ _ رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اصحاب کے ساتھ بیٹھے خرما تناول فرمارہے تھے اتنے میں جناب صہیب تشریف لائے صہیب کی آنکھیں دکھ رہی تھی اس لئے انہوں نے ان کو کسی چیز سے ڈھک رکھا تھا، صہیب بھی خرما کھانے لگے، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ; صہیب تمہاری آنکھیں دکھ رہی ہیں پھر بھی تم میٹھا کھارہے ہو؟ صہیب نے کہا اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں

___________________

۱) ( بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۵)_

۲۵۱

اس طرف سے کھارہاہوں جدھر درد نہیں ہے(۱)

۲ _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اعراب (دیہاتیوں) سے مزاح کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے ایک دفعہ ابوہریرہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نعلین مبارک کو گرو رکھ کر خرمے لے لئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سامنے بیٹھ کر اس خرمے کو کھانے لگا، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا ابوہریرہ تم کیا کھارہے ہو ؟ ا س نے عرض کی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جوتا(۲)

۳ _ نعمان بہت ہی بذلہ سنج تھے ایک دن نعمان نے دیکھا کہ ایک عرب شہد کا چھتہ بیچ رہا ہے نعمان نے اس کو خرید لیا اور عائشہ کے گھر لیکر پہنچے اس وقت عائشہ کی باری تھی رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سمجھا کہ نعمان تحفہ لائے ہیں_

نعمان شہد دیکر چلے گئے اور وہ اعرابی دروازہ پر کھڑا انتظار کرتا رہا ، جب بہت دیر ہوگئی تو اس نے آوازدیدی کہ اے گھر والو اگر پیسے نہ ہوں تو میرا شہد واپس کردو رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سمجھ گئے اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شہد کی قیمت ادا کردی ، پھر نعمان سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ میں نے دیکھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شہد بہت مرغوب ہے اور اعرابی کے پاس شہد بھی موجود ہے اسلئے میں نے شہد لے لیا آنحضرت ہنسنے لگے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کچھ نہیں کہا(۳)

___________________

۱) (شرف النبی ص ۸۴)_

۲) (بحارالانوار ج۱۶ ص۲۹۶)_

۳) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۶)_

۲۵۲

۴ _ ایک دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت امیر المؤمنینعليه‌السلام ساتھ بیٹھے ہوئے خرمہ کھا رہے تھے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خرمہ کھالیتے اور اس کی گٹھلی آرام سے حضرت علی کے آگے رکھ دیے تھے جب خرمہ ختم ہوا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جس کے سامنے گٹھلیاں زیادہ ہیں اس نے زیادہ خرمہ کھایاہے ، حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا جو خرمہ مع گھٹی کے کھاگیا اس نے زیادہ کھایاہے علیعليه‌السلام کی بات کو سن کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسکرانے لگے اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی کو ہزاردرہم انعام دینے کا حکم دیا(۱)

مذکورہ مزاح کے نحوتوں سے معلوم ہوتاہے کہ :

_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مزاح کے دامن میں عزت کلام محفوظ رہتی ہے _

_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گفتگو سے نہ کسی کا استہزاء ہوتا اور نہ کسی کی تحقیر_

_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہنسی بہت کم مواقع کو چھوڑ کر تبسم کی حد سے آگے نہیں بڑھتی تھی_

_ مؤمنین کو مسرور کرنے کیلئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مزاح فرماتے تھے_

غرضیکہ مومنین کو مسرور کرنے کی کوشش ، خندہ پیشانی ، تبسم اور مزاح سیرت رسول ہے لیکن اس بات کا دھیان رہے کہ اس میں نہ کسی کا مذاق اڑایا جائے اور نہ کسی کی تذلیل و تحقیر کی جائے_

___________________

۱) (کتاب الخزاءن ص ۳۲۵ احمد نراقی)_

۲۵۳

خلاصہ درس

۱)آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اقوال میں خوش اخلاقی ، خندہ پیشانی، مؤمنین کو مسرور کرنے نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اخلاق میں متبسم چہرہ کی جھلکیاں صاف نظر آتی ہیں _

۲ ) قرآن کریم اخلاق پیغمبر کی خبر دیتے ہوئے بیان کرتاہے کہ '' خدا کی رحمت سے آپ نے مؤمنین کے ساتھ نرمی اختیار کی اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کرخت مزاج اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس سے بھا گ کھڑے ہوتے_

۳ )آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلام بہت ہی فصیح بلیغ ہوتا تھا اور جب مزاح کے قالب میں تبسم کیساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گفتگو فرماتے تو کلام اور بھی زیادہ خوبصورت ہوجاتا تھا_

۴ )رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مزاح فرماتے تھے لیکن اس بات کی رعایت رکھتے تھے کہ گفتگو معیوب اور حقیقت سے عاری نہ ہوجائے_

۵ ) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ائمہ معصومین علیہم السلام بھی اپنے اصحاب کو مزاح اور بذلہ سنجی کی ذریعہ اپنے دینی بھائیوں کو مسرور کرنے کی ترغیب دلاتے رہتے تھے_

۲۵۴

سوالات

۱ _ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پسندیدہ اخلاق کے بارے میں قرآن کیا کہتاہے ؟

۲ _ لوگوں سے ملتے اور باتیں کرتے وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا انداز ہوتاتھا؟

۳ _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کس طرح کا مزاح کرتے تھے؟

۴ _ مزاح کی اہمیت بیان کیجئے؟

۵ _ اصحاب کیسا تھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مزاح کا ایک نمونہ بیان کیجئے؟

۲۵۵

اٹھارہواں سبق:

(تواضع )

لغت میں تواضع کے معنی فروتنی اورکسر نفسی کے ہیں_(۱)

علمائے اخلاق کے نزدیک تکبر کی ضد اور ایسی کسر نفسی( منکر المزاجی )کو تواضع کہتے ہیں جس کی بنا پر انسان دوسروں پر فوقیت اور خصوصیت کا اظہار نہیں کرتا _

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پوری زندگی گواہ ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکمل طور فروتنی او ر تواضع کے زیور سے آراستہ تھے ، خدا کی بھیجے ہوئے انبیاء کی تواضع کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے جلال و جبروت کو دیکھ کر لوگ ان سے وحشت محسوس نہ کریں بلکہ خدا کی خاطر ان پر ایمان لائیں_

اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت امیر المؤمنینعليه‌السلام فرماتے ہیں : اگر انبیاء کے پاس بہت زیادہ قوت و طاقت اور شان و شوکت اور حکومت ہوتی تو ان کے سامنے لوگوں کے سرجھک جاتے ان کے دیدار کیلئے لوگ دور ودراز سے سفر کرکے ان کے پاس

___________________

۱) (فرہنگ دہخدا مادہ تواضع )_

۲۵۶

آتے ، یہ بات پیغام کی قبولیت کیلئے بڑی آسانی فراہم کرتی در ان میں خود پسندی ختم ہو جاتی ، خوف کی وجہ سے لوگ ان پر ایمان لاتے یا دولت و ثروت کی لالچ میں ان کی طرف متوجہ ہوتے لیکن ، خدا نے چاہا کہ پیغمبروں کی پیروی ان کی کتاب پر یقین ، ان کے فرمان کا اجراء اور ان کی اطاعت خود انہیں سے مخصوص ہو اور اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ ہو _(۱)

انبیاء کرام کے درمیان رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مرتبہ سب سے بلند تھا اور ایک زمانہ میں حکومت الہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس تھی کہ جیسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود تشکیل دیا تھا اس کے باوجود تواضع اور انکساری کا یہ عالم تھا کہ کہیں سے کبر و غرور کا شاءبہ بھی نظر نہیں آتا تھا_

حضرت امیر المؤمنین حضور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تواضع اور انکساری کو بیان فرماتے ہیں : پیغمبر اکرم زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے اپنے ہاتھوں سے اپنے جوتے ٹانکتے اور کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے ، جوپائے کی ننگی پیٹھ پر سواری کرتے اور اپنے ساتھ سواری پر دوسروں کو بھی سوار کرتے تھے_(۲)

اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کا مطالعہ ہم کو اپنا کردار سنوارنے میں مدد دیتا ہے ، امید ہے کہ یہ تحریر اس راستہ میں ایک اچھا قدم ثابت ہوگی _

یہ بھی یاد دینا ضروریکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تواضع اور انکسار کے سلسلے میں اس باب میں جو کچھ نقل کیا

___________________

۱) ( نہج البلاغہ 'فیض' خ۲۳۴ فراز ۲۶) _

۲) (نہج البلاغہ ' فیض 'خ ۱۵۹ فراز ۲۲) _

۲۵۷

گیا ہے وہ ایک بڑے ذخیرہ کا بہت تھوڑا حصہ ہے ، ورنہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پوری زندگی انکساری اور فروتنی کا اعلی نمونہ ہے_

بادشاہ نہیں ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایک بہت ہی واضح صفت انکساری اور فروتنی کی صفت ہے ، مختلف حالات میں معاشرہ کے مختلف طبقہ کے افراد کیسا تھ اس صفت کا مظاہرہ نظر آتا ہے شروع میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اصحاب کو یہ درس دیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ حاکموں اور فرمان رواؤں جیسا برتاو نہ کریں ، جیسا کہ اس شخص سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آکر سہما ہوا تھا:

''هون علیک فلست بملک اتما انا بن امراة تاکل القدید '' (۱)

ذرا سنبھل جاو ( ڈرو نہیں ) میں بادشاہ نہیں ہوں میں اس عورت کا بیٹا ہوں جو خشک کیا ہو گوشت کھاتی تھی _

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بہت دوست رکھتے تھے اس کا باوجود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تربیت کے زیر اثر وہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھتے تھے تو ( اگر بیٹھے ہوتے تو ) کھڑے نہیں ہوتے تھے اسلئے کہ وہ جانتے تھے کہ اس عمل سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خوش نہیں ہوتے _(۲)

___________________

۱) (محجہ البیضاء ج ۶ص ۲۷۶)_

۲) (مکارم الاخلاق ص ۱۶ طبع بیروت )_

۲۵۸

جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو ابو ایوب کا مکان دو منزلہ تھا ابو ایوب نے احتراما یہ چاہا کہ آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوپر والے طبقہ میں قیام فرمائیں لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول نہیں کیا اور ارشاد فرمایا : جو مجھ سے یہاں ملنے آئیگا ان کیلئے نیچے کا طبقہ زیاہ بہتر رہے گا_(۱)

اس طرح کے سلوک کا یہ اثر ہوا کہ لوگ اپنی تمام مشکلات کے حل کیلئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہنچنے کی کوشش کرتے تھے یہاں تک کہ زندگی کے عام معاملات میں بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مشورہ کیا جاتا تھا_

ایک دیہاتی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور اس نے کہا اسے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں چند اونٹ لایا ہوں ان کو بیچنا چاہتا ہوں ، لیکن بازار کا بھاو نہیں معلوم اس لئے ڈر لگتا ہے کہ لوگ کہیں دھو کہ نہ دیدیں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : کہ تم اپنے اونٹوں کو میرے پاس لاکر ایک ایک اونٹ کو دکھاو ، اس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اونٹوں کو دیکھ کر ہر ایک کی قیمت بتادی ، اعرابی نے بازار جاکراسی قیمت پر اونٹ فروخت کردئے پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ کر اس نے کہا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے میری رہنمائی کی ، نتیجہ میں جتنا چاہتا تھا اس سے بھی زیادہ فائدہ حاصل ہوا_(۲)

___________________

۱) (بحار الانوار ج ۱۹ ص ۱۰۹)_

۲) ( شرف النبی ص ۷۵)_

۲۵۹

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انکسار اور تواضع نے لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اتنا نزدیک کردیا تھا کہ اصحاب اپنے بچوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں لیکر آتے اور کہتے کہ ان کے لئے دعا فرمادیں یا انکا نام رکھدیں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بچوں کو ان کے گھر والوں کے احترام میں اپنی گود میں بٹھا لیتے کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بچہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دامت تر کردیاتا لوگ متوجہ ہونے کے بعد زور سے چلانے لگتے ، لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے کہ بچے کو نہ ڈراؤ ، دعا کردینے یا نام رکھ دینے کے بعد بچہ کے عزیز و اقربا اس بات پر خوش ہوجاتے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا : جب وہ لوگ چلے جاتے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنا پیراہن دھوڈالتے _(۱)

بشریت کی نگاہوں نے تواضع کا ایسا نمونہ کبھی نہیں دیکھا اگر یہ منظر کہیں نظر آیا تو وہ انبیاء یا جانشینان انبیاءعليه‌السلام ہی کے یہاں ، ان مقدس ہستیوں نے اپنے اصحاب کو تواضع کا صحیح سلیقہ سکھایا اور ذلت میں ڈالنے والی باتوں سے منع فرمایا :

منقول ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب کبھی سواری پر سوار ہوتے تو کسی کو پیدل چلنے کی اجازت نہ دیتے اس کو اپنی سواری پر سوار کر لیتے ، اگر کوئی شخص سوار نہیں ہوتا تو فرماتے : تم آگے جاو پھر جہاں چاہنا مجھ سے آکر مل جانا _(۲)

___________________

۱) (مکارم الاخلاق ص ۲۵)_

۲) (مکارم الاخلاق ص ۲۲)_

۲۶۰