رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر0%

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 311

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مرکزتحقیقات علوم اسلامی
زمرہ جات: صفحے: 311
مشاہدے: 194225
ڈاؤنلوڈ: 5138

تبصرے:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 311 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 194225 / ڈاؤنلوڈ: 5138
سائز سائز سائز
  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کیلئے اور بھی زیادہ موثر ہے جو بہت زیادہ محبت اور عطوفت کے محتاج ہیں اور یہ چیز اندرونی پیچیدگیوں کے سلجھانے کیلئے اور احساس کمتری کو دور کرنے میں بہت مہم اثر رکھتی ہے_

رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں رحمت نے اتنی وسعت حاصل کی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت کی گرمی نے تمام افسردہ اور بے مہری کی ٹھنڈک میں ٹھٹھری والوں کو اپنے دامن میں چھپالیا تھا بچوں اور یتیموں سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سلوک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کا درخشان پہلو ہے_

رسول مقبولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس لوگ بچوں کو لاتے تھے تا کہ آپ ان کے لئے دعا کریں اور انکا نام رکھدیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بچے کو اپنی گود میں بٹھاتے تھے کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کے بچہ گود نجس کردیتا تھا، جو لوگ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس ہوتے تھے وہ یہ دیکھ کر چلانے لگتے تھے لیکن نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے تھے کہ بچے کو ڈانٹ کر پیشاب کرنے سے نہ روکواسے پیشاب کرنے دو تا کہ وہ پیشاب کرلے جب دعا اور نام رکھنے کا کام ختم ہوجاتا تھا تو بچے کے وارث نہایت خوشی کے ساتھ بچے کو لے لیتے تھے ایسے موقع پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ پر کبھی ناراضگی نہیں نظرآتی تھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے بعد اپنا لباس پاک کرلیتے تھے_(۱)

___________________

۱) (سنن النبی ص ۵۰)_

۶۱

امامعليه‌السلام یتیموں کے باپ

حبیب ابن ثابت سے منقول ہے کہ کچھ انجیر اور شہد ہمدان و حلوان سے حضرت علیعليه‌السلام کیلئے لائے گئے (ہمدان و حلوان میں انجیر کے درخت بہت ہیں اور وہاںکا انجیرمشہوربھی ہے)امیر المؤمنین نے لوگوںسے کہا کہ یتیم بچوں کو بلایا جائے بچے آگئے تو آپ نے ان کو اس بات کی اجازت دی کہ خود بڑھ کر شہد کے مشک سے شہد لیکر کھالیں اور اپنی انگلیوں سے چاٹ لیںلیکن دوسرے افراد کو آپ نے برتن میںرکھ کر اپنے ہاتھوں سے بانٹا، لوگوں نے حضرت پر اعتراض کیا کہ آپ نے یتیموں کو کیوں اجازت دے دی کہ وہ اپنی انگلیوں سے مشک میں سے چاٹ لیں اور خود کھائیں؟آپ نے فرمایا: امام یتیموں کا باپ ہوتاہے اسے چاہیئے کہ اپنے بچوںکی طرح ان کو بھی اجازت دے تا کہ وہ احساس یتیمی نہ کریں(۱)

گناہگاروں پر مہربانی

حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم باوجودی کہ ایک اہم فریضہ اور رسالت کی بڑی ذمہ داری کے حامل تھے مگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے گنہگاروں کے ساتھ کبھی کسی متکبرانہ جابروں جیسا برتاو نہیں کیا بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیشہ ان کے ساتھ لطف و رحمت کا ہی سلوک کیا ، ان کی گمراہی پر ایک شفیق باپ

___________________

۱)(بحارالانوار ج/۴۱ص۱۲۳)_

۶۲

کی طرح رنجیدہ رہے اور ان کی نجات کیلئے آخری حد تک کوشش کرتے رہے اکثر ایسا ہوتا کہ گناہگارآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آتے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے تھے لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کوشش یہی رہتی کہ لوگ اعتراف کرنے سے باز آجائیں تا کہ حضور ان پر حد الہی جاری کرنے کیلئے مجبور نہ ہوں اور انکا کام خدا کی وسیع رحمت کے حوالہ ہو جائے ( صدر بلاغی کی کتاب پیامبر رحمت ص ۵۵ ،۵۱ سے مستفادہ ہے)_

سنہ ۸ ھ میں قبیلہ غامد کی ایک عورت جسکا نام '' سبیعہ '' تھا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئی اس نے کہا کہ : اے اللہ کے رسول میں نے زنا کیا ہے آپ مجھ پر حد جاری کریں تا کہ میں پاک ہوجاںآپ نے فرمایا : جاو توبہ کرو اور خدا سے معانی مانگ لو اس نے کہا کہ : کیا آپ مجھ کو '' ماعز ابن مالک'' (ماعز بن مالک وہ شخص تھا جو زنا کے اقرار کیلئے چند مرتبہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اسے ہر دفعہ لوٹا دیا کہ وہ اقرار سے ہاتھ کھینچ لے _(۱) ) کی طرح واپس کردینا چاہتے ہیں ؟ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کیا زنا سے حمل بھی ہے ؟ اس نے کہا ہاں ہے آپ نے فرمایا: وضع حمل ہوجانے دو پھر اسکو انصار میں سے ایک شخص کے سپرد کیا تا کہ وہ اسکی سرپرستی کرے جب بچہ پیدا ہوگیا تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: تیرے بچہ کو دودھ کو ن پلائیگا؟ تو جا اور جاکر اسے دودھ پلاکچھ مدت کے بعد جب اسکی دودھ بڑھائی ہوگئی تو وہ عورت اس بچہ کو گود میں لئے ہوئے پھر آئی بچہ کے ہاتھ میں

___________________

۱) فروغ کافی ج۷ ص ۱۸۵_

۶۳

روٹی تھی اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پھر حد جاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بچہ اس سے لیکر ایک مسلمان کے حوالہ کیا اور پھر حکم دیا اسکو سنگسار کردیا جائے ، لوگ ابھی پتھر مارہی رہے تھے کہ خالد ابن ولید نے آگے بڑھ کر اس عورت کے سرپر ایک پتھر مارا پتھر کا لگنا تھا کہ خون اچھل کر خالد کے منہ پر پڑا_ خالد نے غصہ کے عالم میں اس عورت کو برا بھلا کہا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ : اے خالد تم اسکو برے الفاظ سے یاد نہ کرو خدا کی قسم کہ جسکے قبضہ قدرت میں میری جان ہے سبیعہ نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر '' عشار'' ایسے توبہ کرے تو خدا اس کے جرم کو بھی معاف کردے_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے لوگ اس عورت کا جسم باہر لائے اور نماز کے بعد اس کو سپرد لحد کردیا گیا(۱)

رسول خدا کی عنایت اور مہربانی کا ایک یہ بھی نمونہ ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شروع میں اس عورت کو اقرار کرنے سے روکا اسلئے کہ چار مرتبہ اقرار کرنا اجراء حد کا موجب بنتاہے اور آخر میں حد جاری کرتے وقت اس گنہ کار مجرم کو برا بھلا کہنے سے روکا_

اسیروں پر مہربانی

اسیر ایک شکست خوردہ دشمن ہے جس کے دل کو محبت کے ذریعہ رام کیا جاسکتاہے فتح مند رقیب کیلئے اس کے دل میں جو احساس انتقام ہے اسکو ختم کرکے اسکی ہدایت کیلئے زمین

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۳ ص ۱۷۹)_

۶۴

ہموار کی جاسکتی ہے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لطف و مہربانی کاایک مظہر اسیروں کے ساتھ حسن سلوک ہے _

ثمامہ ابن اثال کی اسیری

امام محمد باقرعليه‌السلام سے منقول ہے کہ کسی سریہ میں ثمامہ ابن اثال کو گرفتار کرکے حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس لایاگیا ثمامہ اہل یمامہ کے رئیس تھے کہتے ہیں کہ ان کا فیصلہ اہل طئی اور یمن والوں کے درمیان میں بھی مانا جاتا تھا ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپکوپہچان لیا اور ان کے ساتھ اچھے سلوک کا حکم دیاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم روزانہ اپنے گھر سے ان کے لئے کھانا بھیجتے ، خود ان کے پاس جاتے اور ان کو اسلام کی دعوت دیتے، ایک دن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا میں تم کو تین چیزوں کے منتخب کرنے کا اختیار دیتاہوں، پہلی بات تو یہ ہے کہ تم کو قتل کردوں، ثمامہ نے کہا کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ ایک بہت بڑی شخصیت کو قتل کرڈالیں گے_حضرت نے فرمایادوسری بات یہ ہے کہ اپنے بدلے کچھ مال فدیہ کے طور پر تم ادا کردو اور آزاد ہوجاؤ_ ثمامہ نے کہا اگر ایسا ہوگا تو میرے لئے بہت زیادہ مال ادا کرنا پڑیگااور میری قیمت بہت زیادہ ہوگی (یعنی میری قوم کو میری آزادی کیلئے بہت مال دینا پڑیگا) کیونکہ میں ایک بڑی شخصیت کا مالک ہوں، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا تیسری

___________________

۱) ( سیرت رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رفیع الدین الحق ابن محمد ہمدانی ج۲ ص۱۰۹۲)_

۶۵

صورت یہ ہے میں تجھ پر احسان کروں اور تجھے آزاد کردوں ، ثمامہ نے کہا اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایسا کریں گے تو مجھے شکرگزار پائیں گے پھر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے ثمامہ کو آزاد کردیا گیا _ ثمامہ نے ایمان لانے کے بعد کہا : خدا کی قسم جب میں نے آپکو دیکھاتھا تو سمجھ تھا کہ آپ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں اور اسوقت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ کسی کو دشمن نہیں رکھتا تھا اور اب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں _

دوسروں کے حقوق کا احترام

کسی بھی معاشرہ میں بنیادی بات یہ ہے کہ حقوق کی رعایت کی جائے اور ان کو پامال ہونے سے بچایا جائے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق و عدالت قاءم کرنے کیلئے اس دنیا میں تشریف لائے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سماجی کردار میں ایک بات یہ بھی تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوسروں کے حقوق کا حدو درجہ احترام کیا کرتے تھے_

حضرت موسی بن جعفرعليه‌السلام سے منقول ہے کہرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایک یہودی کے چند دینار قرض تھے، ایک دن اس نے اپنے قرض کا مطالبہ کیا حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: پیسے نہیں ہیں لیکن اس نے یہ عذر قبول نہیں کیا ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ہم یہیں بیٹھ جاتے ہیں ، پھر یہودی بھی وہیں بیٹھ گیا ، یہاں تک کہ ظہر ، عصر ، مغرب، عشاء اور صبح کی نماز وہیں ادا کی اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہودی کو ڈانٹا کہ تو نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کیوں بٹھارکھاہے ؟ لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منع کیا اور

۶۶

فرمایا : کہ خدا نے ہمیں اسلئے مبعوث کیا ہے کہ جو امن و امان میں ہے اس پر یا اس کے علاوہ اور کسی پر ستم کیا جائے، جب صبح ہوئی اور سورج ذرا بلند ہوا تو یہودی نے کہا :اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمدا عبده و رسوله پھر اس نے اپنا آدھا مال راہ خدا میں دےدیا اور کہا میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ پیغمبر آخر الزمانصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے جو صفتیں بیان ہوئی ہیں وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ہیں یا نہیں ہیں ، توریت میں بیان ہوا ہے کہ ان کی جائے پیدائشے مکہ، محل ہجرت مدینہ ہے ، وہ تندخو نہیں ہوں گے بلند آواز سے اور چیخ کرباتیںنہیں کریں گے اپنی زبان پر فحش باتیں جاری نہیں کریں گے _ میں نے دیکھا کہ یہ اوصاف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں موجود ہیں اور اب یہ آدھا مال آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اختیار میں ہے_(۱)

بیت المال کی حفاظت

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حاکم اسلام ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کے بیت المال کی حفاظت کی عظیم ذمہ داری کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے اسلئے کہ بیت المال معاشرہ کے تمام افراد کے حقوق سے متعلق ہے _ غیر مناسب مصرف سے روکنا لازمی ہے اس سلسلہ میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا رویہ بھی بڑا سبق آموز ہے _

سنہ ۹ ھ میں '' ابن اللیثہ'' نامی ایک شخص مسلمانوں کی ایک جماعت میں زکوة وصول

___________________

۱) (حیوة القلوب ج۲ ص ۱۱۷)_

۶۷

کرنے کیلئے بھیجا گیا وہ زکوة وصول کرکے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا اس نے کہا : یہ زکواة ہے اور یہ ہدیہ جو مجھ کو دیا گیا ہے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منبر پر تشریف لے گئے اور حمد خدا کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ہم نے کچھ لوگوں کو اس کام کے انجام دینے کیلئے بھیجا جس کام کا خدا نے مجھ کو حاکم بنایا ہے ، ان میں سے ایک شخص میرے پاس آکر کہتاہے یہ زکوة ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے _ میں پوچھتاہوں وہ اپنے گھر ہی میں کیوں نہیں بیٹھا رہتا تا کہ دیکھ لے کہ اس کیلئے کوئی ہدیہ آرہا ہے یا نہیں ؟ اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر کوئی شخص زکوة کا مال لیگا تو وہ قیامت کے دن اس کی گردن میں ڈال دیا جائیگا_ وہ مال اگر اونٹ ہے تو اسکی گردن میں اونٹ ہوگا اور اگر گائے یا گوسفند ہے تو یہی اسکی گردن میں ہوں گے پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو مرتبہ فرمایا خدایا میںنے پیغام پہنچادیا(۱)

حضرت علیعليه‌السلام اور بیت المال

جو حضرات عمومی اموال کو خرچ کرنے میں اسلامی اصولوں کی رعایت نہیں کرتے تھے ان کے ساتھ علی کا وہی برتاؤ تھا جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا تھا اس سلسلہ کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے _عبداللہ( یا عبیداللہ) ابن عباس کو ایک خط میں حضرت تحریر فرماتے ہیں کہ '' خدا سے ڈرو اور لوگوں کے اس مال کو جو تم نے لے لیا ہے واپس کردو اگر تم یہ کام نہیں کروگے تو خدا

___________________

۱) ( ناسخ التواریخ ج۲ ص ۱۵۹)_

۶۸

مجھ کو تم پر قوی بنائیگا اور میں تم پر دسترسی حاصل کرکے تم کو تمہارے کیفر کردار تک پہونچانے میں خدا کے نزدیک معذور ہونگا اور تم کو اس تلوار سے قتل کردوں گا جس سے میں نے جسکو بھی قتل کیا ہے وہ جہنم میں داخل ہواہے خدا کی قسم اگر حسن و حسین (علیہما السلام) بھی ایسا کام کرتے جیسا تم نے کیا ہے تو ان سے بھی صلح و موافقت نہیں کرسکتا تھا اور وہ میرے ذریعہ اپنی خواہش تک نہیں پہونچ سکتے تھا یہاں تک کہ میں ان سے حق لے لوں اور جو باطل ان کے ستم سے واقع ہوا ہو اسکو دور کردوں ''(۱)

بے نیازی کا جذبہ پیدا کرنا

ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنا اور ان کی مشکلات حل کرنا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عملی منصوبوں کا جزء اور اخلاقی خصوصیات کا حصہ تھا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی کسی ساءل کے سوال کو رد نہیں کیا(۲) لیکن خاص موقع پر افراد کی عمومی مصلحت کے مطابق یا کبھی معاشرہ کی عمومی مصلحت کے تقاضہ کی بناپر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے ایسا رویہ اسلئے اختیار کیا تا لوگوں کے اندر '' بے نیازی کا حوصلہ '' پیدا ہوجائے_

___________________

۱) (نہج البلاغہ فیض مکتوب نمبر ۴۱ / ص ۹۵۸)_

۲) (سنن النبی ص ۸۴)_

۶۹

مدد کی درخواست

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی فقر و فاقہ سے عاجز آچکے تھے اپنی بیوی کی تجویز پرحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے تا کہ مدد کی درخواست کریں ابھی وہ اپنی ضرورت کو بیان بھی نہیں کرپائے تھے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اگر کوئی مجھ سے مدد مانگے تو میں اسکی مدد کروں گا لیکن اگر کوئی بے نیازی کا ثبوت دے تو خدا اسکو بے نیاز بنادیگا، اس صحابی نے اپنے دل میں کہا کہ یہ اشارہ میری ہی طرف ہے لہذا وہ واپس گھر لوٹ گئے اور اپنی بیوی سے ماجرا بیان کیا _ دوسرے دن پھر غربت کی شدت کی بناپررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں وہی مدعا لے کر حاضر ہوئے مگر دوسرے دن بھی وہی جملہ سنا اور گھر لوٹ آئے،جب تیسری بار رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پھر وہی جملہ سنا تواپنی مشکل کو حل کرنے کا راستہ پاگئے، انہوں نے صحرا میں جاکر لکڑیاں جمع کرنے کا ارادہ کیا تا کہ اسکو بیچ کر رزق حاصل کریں کسی سے عاریت ایک کلہاڑی مانگ لائے ، پہاڑ پر چلے گئے اور وہاں سے کچھ لکڑیاں کاٹ کر فروخت کردیں پھر روزانہ کا یہی معمول بن گیا ، رفتہ رفتہ وہ ا پنے لئے کلہاڑی ، باربردار جانور اور سارے ضروری سامان خرید لائے پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ دولت مند بن گئے بہت سے غلام خرید لئے، چنانچہ ایک روز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ کر اپنا سارا واقعہ بیان کیا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ جو مجھ سے مانگے کا میں اسکی مدد کرونگا لیکن اگر بے نیازی اختیار کریگا تو خدا اسکو بے نیاز کردیگا _(۱)

___________________

۱)( اصول کافی ج۲ ص ۱۱۲ باب القناع)_

۷۰

بے نیاز اور ہٹے کٹے آدمی کیلئے صدقہ حلال نہیں

ایک شخص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا اس نے کہا '' دو دن ہوگئے ہیں میں نے کھانا نہیں کھایا'' حضرت نے فرمایا: بازار جاو اور اپنے لئے روزی تلاش کرو دوسرے دن وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا کل میں بازار گیا تھا مگر وہاں کچھ نہیں ملاکل رات بھوکا ہی سوگیا _ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : '' علیک بالسوق'' بازار جاؤ تیسرے دن بھی جب اس نے یہی جواب سنا تو اٹھ کر بازار کی طرف گیا ، وہاں ایک قافلہ آیا ہوا تھا اس شخص نے سامان فروخت کرنے میں ان کی مدد کی آخر میں انہوں نے نفع میں سے کچھ حصہ اسکو دیدیا دوسری بار وہ پھر رسول اکرم کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا کہ بازار میں مجھے کچھ بھی نہیں ملا حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : فلان قافلہ سے تجھ کچھ نہیں ملا ؟ اس نے کہا نہیں حضرت نے فرمایا: کیوں تم کو ان لوگوں نے کچھ نہیں دیا ؟ اس شخص نے کہا ہاں دیا ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا پھر تو نے کیوں جھوٹ بولا؟ اس شخص نے کہا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سچ فرماتے ہیں میں دیکھنا چاہتا تھاکہ آپ لوگوں کے اعمال سے باخبرہیں یا نہیں ؟ اور میں یہ چاہتا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بھی کچھ حاصل ہوجائے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا تو نے ٹھیک کہا، جو شخص بے نیازی سے کام لیگا خدا اسکو بے نیاز کردیگا اور جو اپنے اوپر سوال کا ایک دروازہ کھولیگا خدا فقر کے ستر (۷۰) دروازے اس کے لئے کھول دیگا ایسے دروازے جو پھر بند ہونے کے قابل نہ ہوں گے ، اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جو بے نیاز ہے اسکو صدقہ دینا حلال نہیں ہے اور اسے بھی

۷۱

صدقہ نہیں دینا چاہئے جو صحیح و سالم اعضاء کا مالک ہو اور اپنی ضرورت پوری کرسکتاہے(۱)

ایک دوسرے کی مدد کرنا

حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک ایسے رہبر تھے جو خود انسان تھے، انہیں کے درمیان پیدا ہوئے تھے، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امت سے جدا نہیں تھے کہ اپنے پیروکاروں کو رنج و الم میں چھوڑ دیں اور خود آرام و آسائشے کی زندگی گزاریں بلکہ ہمیشہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر میدان میں خود آگے رہے خوشی اور غم میں سب کے شریک اور سعی و کشش میں دوسروں کے دوش بدوش رہتے اور دشواریوں میں جان کی بازی لگادیتے تھے_ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بستر علالت پر تھے، حضرت بلال کو بلایا، پھر مسجد میں تشریف لے گئے اور حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا: اے میرے اصحاب میں تمہارے واسطے کیسا پیغمبر تھا؟ کیا میں نے تمہارے ساتھ جہاد نہیں کیا ؟ کیا میرے دانت نہیں ٹوٹے ؟ کیا میرا چہرہ غبار آلود نہیں ہوا؟ کیا میرا چہرہ لہولہان نہیں ہوا یہاں تک کہ میری داڑی خون سے رنگین ہوگئی ؟ کیا میں نے اپنی قوم کے نادانوں کے ساتھ حد درجہ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ نہیں کیا ؟ کیا میں نے اپنے پیٹ پر پتھر نہیں باندھے؟ اصحاب نے کہا : بے شک یا

رسول اللہ آپ بڑے صابر رہے اور برے کاموں سے منع کرتے رہے لہذا خدا آپ کو

___________________

۱) (بحارالانوار ج۱۸ ص ۱۱۵ ط بیروت)_

۷۲

بہترین جزادے ، حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: خدا تم کو بھی جزائے خیر عنایت فرمائے(۱)

حضرت علیعليه‌السلام سے منقول ہے : میں خندق کھودنے میںآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تھا حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کچھ روٹیاں لیکر آئیں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ جناب فاطمہ نے عرض کیا کچھ روٹیاں میں نے حسن و حسین کیلئے پکائی تھیں ان میں سے کچھ آپ کیلئے لائی ہوں _ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: تین دن سے تیرے باپ نے کچھ نہیں کھایا ہے تین دن کے بعد آج پہلی بار میں کھانا کھارہاہوں_

خندق کھودنے میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوسرے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہیں اور انہیں کی طرح بھوک کی سختی بھی برداشت کررہے ہیں _

دشمنوں کے ساتھ آپکا برتاو

جنگ کے وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عملی سیرت اور سپاہیوں کو جنگ کیلئے روانہ کرتے وقت اور دشمن سے مقابلہ کے وقت کی ساری باتیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بلندی روح اور وحی الہی سے ماخوذ ہونے کا پتہ دیتی تھیںنیز وہ باتیں بڑی سبق آموز ہیں_

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب چاہتے تھے کہ لشکر کو روانہ فرمائیں تو سپاہیوں کو اپنے پاس بلاکر نصیحت کرتے اور فرماتے تھے: خدا کا نام لیکر روانہ ہو

___________________

۱) (بحارالانوار ج۲۲ / ص۵۰۸)_

۲) ( حیات القلوب ج ۲ ص ۱۱۹)_

۷۳

اور اس سے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو اللہ کیلئے جہاد کرو اے لوگو امت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مکر نہ کرنا، مال غنیمت میں چوری نہ کرنا ، کفار کو مثلہ نہ کرنا ، (ا ن کو قتل کرنے کے بعد ان کے کان ناک اور دوسرے اعضاء کو نہ کاٹنا) بوڑھوں بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا ، جب راہب اپنے غاروں یا عبادتگاہوں میں ہیں ان کو قتل نہ کرنا، درختوں کو جڑ سے نہ اکھاڑنا، مگر مجبوری کی حالت میں ، نخلستانوں کو آگ نہ لگادینا، یا انہیں پانی میں عرق نہ کرنا، میوہ دار درختوں کو نہ توڑنا، کھیتوں کو نہ جلانا، اسلئے کہ ممکن ہے تم کو ان کی ضرورت پڑجائے ، حلال جانوروں کو نابود نہ کردینا، مگر یہ کہ تمہاری غذا کیلئے ان کو ذبح کرنا ضروری ہو جائے ، ہرگز ہرگز مشرکوں کے پانی کو خراب نہ کرنا حیلہ اور خیانت سے کام نہ لینا دشمن پر شبیخون نہ مرنا_

مسلمانوں میں سے چھوٹا یا بڑا کوئی بھی اگر مشرکین کو پناہ دیدے تو اسکو پناہ حاصل ہے، یہاں تک کہ وہ کلام خدا کو سنے اور تم اس کے سامنے اسلام پیش کرو اگر اس نے قبول کیا تو وہ تمہارا دینی بھائی ہے اور اگر اس نے قبول نہیں کیا تو اسکو اس کے ہرامن ٹھکانے تک پہونچادو_

___________________

۱) (بحارالانوار ج۱۹ ص۱۷۹ ، ۱۷۸،۱۷۷)_

۷۴

خلاصہ درس

۱) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سماجی برتاو میں جو اخلاقی اصول نظر آتے ہیں وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت اور مہربانی کا مظہر ہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مہرومحبت کا سایہ اس قدر وسیع تھا کہ گنہگاروں کے سروں پر بھی تھا_

۲) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مظہر حق و عدالت تھے، دوسروں کے حقوق کا حد درجہ احترام فرماتے تھے چنانچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاشرتی روابط و برتا اور اصول اخلاق میں سے ایک چیز یہی تھی_

۳)رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حاکم اسلام تھے اور مسلمانوں کے بیت المال کی حفاظت کی بڑی ذمہ داری بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی پر عاءد ہوتی تھی کیونکہ بیت المال میں معاشرہ کے تمام افراد شریک ہیں اسکو بے جا خرچ ہونے سے بچانا لازمی ہے اس سلسلہ میںآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا رویہ بڑا سبق آموز ہے _

۴ ) حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنا ان کے مشکلات کو حل کرنا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت اور اخلاقی خصوصیات کا جزء تھا پھر بھی خاص موقع پر افراد یا معاشرہ کی عمومی مصلحتوں کے تقاضہ کی بناپر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں میں بے نیازی کا جذبہ پیدا کرنا چاہتے تھے_

۵)پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر میدان میں سب سے آگے تھے لوگوں کی خوشی اور غم میں شریک تھے دوسروں کے ساتھ کوشش میں شامل رہتے اور مشکلات نیز سختیوں کو اپنی جان پر

جھیل جاتے تھے_

۶) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگ میں حاضر ہوتے وقت کی سیرت عملی یا لشکر کو روانہ کرتے وقت کے احکام اور دشمنوں کے ساتھ سلوک کا جو حکم صادر فرماتے تھے ان کو دیکھنے سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بلند روح کا اندازہ ہوتاہے اور یہ پتہ چلتاہے کہ ان تمام باتوں کا تعلق وحی الہی سے ہے _ نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے سبق آموز رویہ کا بھی اسی سے اندازہ ہوجاتاہے_

۷۵

سوالات :

۱_ اپنے اہل و عیال اور خاندان کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے بارے میں حضرت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قول بیان فرمایئے

۲_ اپنے ماتحتوں کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا سلوک تھا اسکا ایک نمونہ پیش کیجئے؟

۳_ اسیروں اور گناہ گاروں کےساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا سلوک تھا؟ اختصار سے بیان فرمایئے

۴ _ بیت المال کے سلسلہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا رویہ تھا؟

۵ _ حاجت مندوں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا سلوک تھا تفصیل کے ساتھ تحریر فرمایئے

۶ _جنگوں (غزوات و سرایا) میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کیا سیرت رہی ہے ؟ تفصیل کے ساتھ بیان کیجئے؟

۷۶

پانچواں سبق:

(عہد کا پورا کرنا)

انسان کی زندگی سماجی زندگی ہے اور سماجی زندگی اپنی نوع کے افراد سے روابطہ رکھنے پر مجبور کرتی ہے _ سماجی زندگی عہد و پیمان کا سرچشمہ ہے اور عہد وپیمان کی رعایت بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اس کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ بغیر اس کے سماجی امن و امان ختم ہوجاتاہے اور صلح وصفائی کی جگہ جنگ و جدال لے لیتے ہیں _

اسلام، جس میں بہت بنیادی اور مضبوط سماجی قوانین موجود ہیں اس نے اس اہم اور زندگی ساز اصول کو فراموش نہیں کیا ہے بلکہ اس نے مختلف اوقات میں الگ الگ عنوانات کے ساتھ مسلمانوں کو اس کی رعایت اور تحفظ کی تلقین کی ہے _

قرآن کریم جو کہ اسلام کی زندہ سند ہے وہ عہد و پیمان کے ساتھ وفاداری کو لازم سمجھتاہے اور مؤمنین کو اس رعایت کرنے کی تلقین کرتاہے_

ارشاد ہوتاہے:

۷۷

( یا ایها الذین آمنوا اوفوا بالعقود )

(اے مؤمنین تم نے جو پیمان باندھا ہو اس کے وفادار رہو )(۱)

دوسری جگہ انسانوں کو قرار داد کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ارشاد ہوتاہے:

( واوفوا بالعهد ان العهد کان مسؤلا ) (۲)

اپنے عہد و پیمان کو پورا کرو بیشک عہد و پیمان کے بارے میں سوال کیا جائیگا_

خداکی طرف سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا تعارف بہترین نمونہ کے طور پر کرایا گیاہے انہوں نے زندگی کی اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا ہے عہد کو پورا کرنا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایمان کا جزء سمجھتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب اور پیروکاروں سے عہد و پیمان کی رعایت کرنے کے سلسلہ میں فرمایا:

اقربکم منی غدا فی الموقف اوفاکم بالعهد (۳)

کل قیامت میں تم میں سے وہ مجھ سے زیادہ قریب ہوگا جو اپنی عہد کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ باوفا ہو_

عہد و پیمان کو پورا کرنے کی اہمیت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کے نزدیک اتنی تھی کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''لا دین لمن لا عهد له'' (۴)

___________________

۱) (سورہ ماءدہ آیت ۱)_

۲) ( سورہ الاسراء آیت ۳۴)_

۳) (بحارالانوار ج۷۷ ص ۱۵۲)_

۴) (بحارالانوارج۷۵ ص ۹۲ حدیث ۲۰)_

۷۸

جو عہد و پیمان کی وفاداری نہ کرے وہ دیندار نہیں ہے_

دوسری جگہ فرمایا:

''من کان یوم بالله والیوم الاخرفلیف اذا وعد'' (۲)

جو خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتاہے اسے وعدہ وفا کرنا چاہیئے_

حضرت امیر المؤمنین علیعليه‌السلام نے بھی مالک اشتر کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: '' ایسا نہ ہو کہ کبھی کسی سے وعدہ کرو اور اس کے خلاف عمل کرو بیشک وعدہ کی خلاف ورزی انسان کو خدا اور بندوں کے نزدیک رسوا کرتی ہے _(۳)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عہد و پیمان

وعدہ پورا کرنے میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بڑا بلند مقام و مرتبہ تھا چاہے وہ بعثت سے پہلے کا زمانہ ہو یا بعثت کے بعد کا ، چاہے وہ زمانہ ہو جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب اور اپنے پیروکاروں کے ساتھ عہد کیا ہو یا وہ وقت جب آپ نے کفار اور دشمنان اسلام کے ساتھ کسی قرار داد کو قبول فرمایا ہو ، تمام جگہوں پر آپ اس وقت تک اس عہد و پیمان پر ڈٹے رہتے تھے جب تک مد مقابل نے پیمان شکنی نہ کی ہاں اگر در مقابل عہد شکنی کرتا تو اس صورت عہد پھر دونوں طرف سے ٹوٹ جاتا_ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عہد و پیمان دو قسم کے تھے:

___________________

۱) (اصول کافی ج۴ ص ۶۹)_

۲) (بحارالانوار ج۷۵ ص ۹۶)_

۷۹

۱) آپکے ذاتی اور شخصی عہد و پیمان کہ جنکا صرف آپکی ذات سے تعلق تھا مسلمانوں کے معاشرہ سے اسکا کوئی تعلق نہ تھا _

۲) آپکے اجتماعی معاہدے اور سیاسی قرار دادیں کہ ایک طرف آپ اسلام کے رہبر کے عنوان سے تھے اور دوسری طرف مسلمان یا مکہ کے مشرکین یا مدینہ کفار اور یہودی تھے_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذاتی عہد ویمان

آپکیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندگی میں معمولی اسی دقت بھی آپکے پسندیدہ اخلاق اور شاءستہ رفتار سے آشنا کروانے کیلئے کافی ہے_

عبداللہ ابن ابی الحمساء کہتے تھے کہ رسالت پر مبعوث ہونے سے پہلے میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معاملہ کیا تھا، میں ذرا قرضدار ہوگیا تھا_ میں نے آپ سے وعدہ کیا کہ آپ اسی جگہ ٹھہریں میں آجاؤںگا لیکن اس دن اور اسکے دوسرے دن میں بھول گیا تیسرے دن جب میں وہاں پہنچا تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اسی جگہ منتظر پایا میں نے کہا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابھی تک اسی جگہ ہیں آپ نے فرمایا جس وقت سے میں نے تم سے وعدہ کیا ہے میں اسی جگہ تمہارا انتظار کررہاہوں_(۱)

___________________

۱) (بحارالانوار ج۱۷ ص ۲۵۱)_

۸۰