مقدمہ
دین اسلام کا ظہور اس کے ابدی ہونے اور سلسلہ نبوت کے ختم ہونے کا اعلان دونوں کے درمیان کوئی فصل نہیں ہے۔
مسلمانوں نے ختم نبوت کو ہمیشہ ایک امر واقعہ کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ان کے سامنے یہ سوال کبھی نہیں آیا کہ حضرت محمد (ص) کے بعد کوئی دسرا پیغمبر بھی آئے گا یا نہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے سلسلہ نبوت کے ختم ہونے کا بڑی صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے اور پیغمبر (ص) نے خود بھی کئی بار اس کا اعادہ کیا ہے، مسلمانوں میں رسول اکرم (ص) کے بعد کسی دوسرے پیغمبر کے ظہور کے خیال کو خدا کی وحدانیت یا قیامت کے انکار کے مشابہ اور ایمان کے منافی سمجھا گیا ہے۔
مفکرین اسلام نے ختم نبوت کے مسئلے پر اگر کوئی تحقیقی و علمی کاوش کی ہے تو اس کا مقصد گمراہ کن خیالات کی بیخ کنی کرنا اور عقیدہ ختم نبوت کو زیادہ سے زایدہ واضح اور روشن کرنا رہا ہے۔
ہاں ہم وحی و نبوت کی ماہیئت پر گفتگو کرنا نہیں چاہتے، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وحی ایک ایسی رہنامئی کا نام ہے جو غیب و ملکوت کے ساتھ ضمیر کے ربط و اتصال سے حاصل ہوتی ہے، نبی، تمام انسانوں اور عالم غیب سے ربط و تعلق کا ایک ویلہ ہے، در حقیقت وہ عالم انسانیت اور جہان غیب کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے۔
نبوت، شخصی اور انفرادی پہلو سے ایک فرد انسانی کی روحانی شخصیت کی وسعت کانام ہے اور عمومی و اجتماعی پہلو سے نبوت کا مطلب عالم انسانیت کے لئے ایک ایسا پیام الٰہی ہے جو اس کی رہنمائی کی خاطر ایک منتخب شخصیت کے ذریعہ بھیجا گیا ہے۔یہی وہ نقطہ ہے جہاں سے عقیدہ ختم نبوت سے متعلق مختلف سوالات سامنے آتے ہیں۔کیا خاتم النبیین (ص) کے بعد کسی دورے نبی کے ظاہر نہ ہونے اور سلسلہ نبوت کے ختم ہو جانے سے روحانی و معنوی پہلوؤںسے انسانیت کو کسی تنزل کا سامنا کرنا پڑا ہے؟ کیا مادر زمانہ ایسے ملکوتی صفات فرزندوں کو جنم دینے سے عاجز ہو چکی ہے جو عالم غیب و ملکوت سے رشتہ رکھتے ہیں؟ کیا ختم نبوت کا اعلان کرنے کا مطلب فطرت کا بانجھ ہو جانا اور ایسے عالی مرتبت فرزندوں کو وجود میں لانے کی صلاحیت سے اس کا محروم ہو جانا ہے؟
اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان خدا کی رہنمائی اور اس کا پیغام کا محتاج ہے۔اس کی یہ ضرورت ہی سلسلہ نبوت کے آغاز کا سبب بنی۔ماضی میں مختلف زمانوں اور ادوار کے تقاضوں کے مطابق پیغام الہی کی تجدید ہوتی رہی ہے ۔پیغمبروں کا پے درپے آنا شریعتوں کی مسلسل تجدید اور کتب آسمانی کا یکی بعد دیگری نزول اس لئے ہوا کہ ہر دور میں انسان کی ضروریات میں تغیر آتا رہا ہے اور انسان کو ہر زمانے میں ایک نئے پیغمبر کی ضرورت رہی ہے ۔جب یہ صورت ہے تو کس طرح یہ بات فرض کی جاسکتی ہے کہ ختم نبوت کے اعلان کے ساتھ ہی یہ رابط یک دم منقطع ہوگیا اور وہ پل کہ جس نے عالم انسانیت کو عالم غیب کے ساتھ جوڑ رکھا تھا وہ یک بیک ڈھ گیا ہے ۔اس کے بعد اب کوئی الہی پیغام انسانیت کی طرف نہیں بھیجا جائے گا تو کیا انسانیت کو فرائض اور ذمہ داریوں کے بغیر یو نہی آزاد چھوڑدیا جائے گا ۔ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہنوح (ع)، ابراہیم (ع)، موسی (ع) اور عیسی (ع) جیسے صاحب شریعت پیغمبروںکے درمینی زمانوں میں کچھہ دوسرے پیغمبروں کا سلسلہ بھی موجود رہا ہے "اس سلسلے سے تعلق رکھنے والے پیغمبر اپنے سے پہلے کی شریعت کو نافذ کرنے اور پھیلانے کا کام انجام دیتے رہے ہیں ۔نوح علیہ السالم کے بعد ہزاروں انبیا آئے ۔ان انبیاء نے نوح علیہ السلام کی شریعت کو نافذ کیا اور پھلایا ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد بھی ایسا ہی ہوا ۔بالفرض یہ تسلیم کرلیا جائے کہ شریعت اسلام کی آمد کے ساتھ ہی شریعت لانے والی نبوت اور شریعتوں کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے بعد تبلیغی نبوتوں کا سلسلہ کیوں منقطع ہوگیا "جبکہ ماضی میں ہر شریعت کے نازل ہونے کے بعد بےشمار پیغمبر ظاہر ہوتے رہے اور ظہر ہوتے رہے اور سابق شریعت کی تبلیغ، ترویج اور نگہبانی کا فرض ادا کرتے رہے لیکن اسلام کی درآمد کے بعد اس طرح کا ایک پیغمبر بھی ظاہر نہ ہوا؟
یہ ہیں وہ سوالات جو عقیدہ ختم نبوت کے بارے میں پیدا ہوتے ہیں ۔ختم نبوت کا عقیدہ اسلام نے پیش کیا ہے اور وہی اس کا جواب بھی دیتا ہے۔
اسلام نے ختم نبوت کے عقیدہ کو ایک ایسے جامع فلسفہ کی صورت میں پیش کیا ہے کہ ذہنوں میں کوئی شک و ابہام باقی نہیں رہتا ۔
اسلام کی رو سے ختم نبوت کا عقیدہ نہ انسانیت کے تنزل کی علامت ہے اور نہ انسانی صلاحیت کے نقصان کی نہ مادر زمانہ کے بانجھ ہوجانے کی، اور نہ عقیدہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسانیت اب پیغام الہی سے بے نیاز ہوچکی ہے اور انسان کو مختلف ناسازگار زمانوں کے تقاضوں کے مطابق کسی رہنمائی کی ضرورت نہیں ہے ۔ اسلام اس بارے میں ایک دوسرا ہی فلسفہ اور توجیہ پیش کرتا ہے ۔
سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا چاپیئے کہ اسلام نے خود ختم نبوت کے بارے میں کیا کہا ہے، اس کے بعد ان سوالات کا جواب تلاش کرنا چاہیئے ۔سورہ احزاب کی آیت ۴۰ میں ہم پڑہتے ہیں
(
ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول الله و خاتم النبیین
)
"محمد تم مردون میں سے کسی کا باپ نہیں ہے لیکن وہ اللہ کا رسول (ص) اور انبیا کے سلسلے کو ختم کرنے والا ہے"
اس آیت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا خاتم النبیین کے نام سے یاد کیا گیا ہے ۔ختم کا لفظ عرنبی لغت کے اعتبار سے ایک بایسی چیز کے لئے بولتا جاتا ہے جو کسی دوسری چیز کے سلسے کو ختم کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے ۔اس لئے اس مہر کو خاتم کہتے ہیں جو خط بند کرنے کے بعد لفافے پر لگائی جاتی ہے ۔روج کے مطابق انگشتری کے نگینینے پر نام یا دستخط کندہ ہوتے ہیں اور وہی خطوط پر ثبت کئے جاتے ہیں "اسی لئے انگشتری کو خاتم کہاجاتاہے ۔قرآن میں جہاں کہیں اور جس صورت میں بھی "ختم "کا مادہ استعمال کیا گیا ہے ختم کرنے یا بند کرنے کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ سورہ یسین کی آیت ۶۵ میں آیا ہے :(
الیوم نختم علی افواههم و تکلمنا ایدیهم و تشهد ارجلهم بما کانو یکسبون
)
"آج ہم ان کے منہ پر مہر لگاتے ہیں اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کرتے ہیں اور ان کے پیر جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس پر گوہی دیتے ہیں۔"
زیر بحث آیت کا انداز خود یہ بتاتا ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے پیغمبر اسلام پر سلسلہ نبوت کا ختم ہونا کا ختم ہونا مسلمانوں کےدرمیان ایک مسلمہ امر کی حیثیت رکھتا تھا۔مسلمان جس طرح محمد (ص) کو خدا کا رسول (ص) سمجھتے تھے اسی طرح ان کے خاتم النبیین ہونے پر بھی یقین رکھتے تھے۔آیت صرف یہ یاد دلاتی ہے کہ محمد (ص) کو کسی کے باپ کی حیثیت سے نہ پکارو بلکہ حقیقی خطاب رسول اللہ اور خاتم النبیین سے آپ (ص) کو مخاطب کرو۔
یہ آیت عقیدہ ختم نبوت کے اصل جوہر کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
سورہ حجر آیت ۹ میں اس طرح آیا ہے:
(
انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحفظون
)
"ہم نے خود اس کتاب کو نازل کیا ہے اور ہم خوس اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔"
اس آیت میں قرآن کو کسی طرح بھی تحریف و تغییر اور ضیاع سے محفوظ رکھنے کا وعدہ جس قطعیت کے ساتھ کیا گیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔
نئے نئے پیغمبروں کی درآمد اور رسالت کی تجدیدی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب انبیاءکی لائی ہوئی مقدس کتابوں اور تعلیمات میں لوگوں کی جانب سے کی جانے والی تحریفات اور تبدیلیاں بھی ہیں۔ان ہی تحریفات کے سبب سابق انبیاء کی کتابوں اور تعلیمات میں لوگوں کی ہدایت کی صلاحیت پوری طرح باقی نہیں رہی تھی۔غالباً یہی وجہ ہے کہ پے در پے پیغمبروں کو بھیجا گیا تا کہ وہ انیباء کی فراموش کی ہوئی نعمتوں کو زندہ کریں اور ان کی تعلیمات میں جو تحریفات کی گئی ہیں ان کی اصلاح کریں۔
قطع نظران انبیاء کے جو صاحب کتاب وا شریعت تھے بلکہ ایک صاحب کتاب و شریعت پیغمبر کے تابع تھے جیسا کہ ابراہیم (ع) کے موسی (ع) کے زمانے تک آنے والے پیغمبر اور موسی (ع) سے عیسی (ع) تک ظاہر ہونے والے پیغمبر خود صاحب شریعت انبیاء نے بھی اپنے سے پہلے گزر نے والے پیغمبروں کے ضانطوں اور طریقوں کی تائید کی ہے۔پیغمبروں کے پے در پے آنے کا واحد سبب وہ تحریفات تبدیلیاں تھیں جو آسمانی کتابوں اور انبیاء کی تعلیمات میں کی گئی تھیں۔
چند ہزار سال قبل انسان میں یہ صلاحیت موجود نہیں تھی کہ وہ اپنے علمی اور دینی ورثوں کی حفاظت کرسکے، ابھی انسان کے اندر اس صلاحیت کے پیدا ہونے کے لئے کافی وقت درکار تھا کہ وہ اپنے دینی ورثوں کو ہر طرح کے نقصان سے بچا کر محفوظ رکھ سکے اور اپنی تکمیل و ترقی کے ایک ایسے مقام پر پہنچ جائے جہاں پیغام الٰہی کی تجدید اور نئے پیغمبروں کی آمد ضرورت باقی نہ رہے اور ایک دین کی ہمیشگی کے ساتھ باقی رہنے کی لازمی شرط (کافی شرط نہیں) پوری ہوجائے۔
متذکرہ بالا آیت نزول قرآن کے بعد سے نبوت و رسالت کی تجدید کے ایک اہم سبب کے ختم ہوجونے کی طرف اشارہ کرتی ہے اور در حقیقت ختم نبوت کی ایک بڑی بنیاد کی توثیق کرتی ہے۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں آسمانی کتابوں میں سے اگر کوئی کتاب کسی کمی و بیشی کے بغیر پوری طرح اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے تو یہ صرف قرآن مجید ہے، اس کے علاوہ رسول اکرم (ص) کی بہت سی سنریں قطعی صورت میں بلاتردید آفات زمانہ سے آج تک محفوظ چلی آرہی ہیں، ہم اس بات کی بعد میں وضاحت کریں گے کہ کتاب آسمانی کو محفوظ رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو ذریعہ بنایا وہ اس دور کے انسان کی رشد و قابلیت ہے جسے انسان کے اجتماع بلوغ کی نشانی کہا جاسکتا ہے۔
در حقیقت ختم نبوت کے ستونوں میں سے ایک بڑا ستون انسان کا س حد تک اجتماعی بلوغ حاصل کرلینا ہے کہ وہ اپنے علمی اور دینی ورثوں کی حفاظت کرسکے ان می نشر و اشاعت تعلیم و تبلہغ اور تفسیر و توضیح کرسکے، اس پہلو پر ہم بعد میں بحث کریں گے۔
پورا قرآن اس بات پر زور دیتا ہے کہ ابتدائے آفرینش سے لے کر قیامت تک دین ایک ہی ہے اور تمام پیغمبروں نے انسانیت کو ایک ہی دین کی طرف دعوت دی ہے سورہ شوری کی آیت ۱۳ میں آیا ہے :
(
شرع لکم من الذین ما وصی به نوحا و الذی اوحینا الیک و ما وصینا به ابراهیم و موسی و عیسی
)
ترجمہ:اس نے تمہارے لئے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا اور جسے (اے محمد ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے اور جس ہدایت ہم ابراہیم اور موسی اور عیسی کو دے چکے ہیں ۔
قرآن نے ہر جگہ اس دین کو اسلام ہی کے نام سے یاد کیا ہے جس کی طرف آدم سے لے کر خاتم تک تمام انبیاء نے لوگوں کو دعوت دی ہے ۔مراد یہ نہیں ہے کہ ہر زمانے میں اس دین کا نام "لفظا "اسلام ہی آیا ہے، مدعایہ کہ دین جس حقیقت و ماہیت کا حامل ہے اس کا بہترین اظہار لفظ اسلام ہی ہوسکتا ہے ۔سورہ آل عمران کی آیت ۶۷ میں ابراہیم علیہ السلام کے بارہ میں آیا ہے:
(
ماکان ابراهیم یهودیا و لا نصرانیا و لکن کان حنیفا مسلما
)
ترجمہ: "ابراہیم یہودی تھا نہ عیسائی بلکہ وہ تو ایک مسلم یکسو تھا اور وہ ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا۔"
سورہ بقرہ کی آیت ۱۳۲ میں حضرت یعقوب (ع) اور ان کے لڑکوں کے بارے میں آیا ہے۔
(
و وصی بها ابراهیم بنیه و یعقوب یبنی ان الله اصطفیٰ لکم الدین فلا تموتن و انتم مسلمون
)
ترجمہ:"اسی طریقے پر چلنے کی ہدایت ابراہیم نے اپنی اولاد کو کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوب (ع) نے اپنی اولاد کو کی تھی۔انہوں نے کہا تھا کہ میرے بچو، اللہ نے تمہارے لئے یہی دین پیدا کیا ہے لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا۔"
اس بارے میں قرآن کی آیتیں بہت زیادہ ہیں ان سب کا یہاں حوالہ دینے کی ضرورت نہیں ہے البتہ پیغمبروں کی لائی ہوئی شعریعتوں اور قوانین میں باہم کچھ اختلاف رہا ہے۔قرآن جہاں تمام انبیاء کے دین کو ایک ہی قرار دیتا ہے بعض مسائل میں چریعتوں اور قوانین میں اختلاف کو تسلیم کرتا ہے۔
(
لکل جعلنا منکم شرعة و منهاجا
)
ترجمہ:"ہم نے تم (انسانوں) میں سے ہر ایک کے لئے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کیا۔"
انبیاء (ع) نے جن فکری اور علمی اصولوں کی طرف دعوت دیہے وہ چونکہ بغیر کسی اختلاف کے ایک ہی ہیں اس لئے وہ شاہراہ اور ہدف بھی ایک ہے جس کی جانب انسانوں کو بلانے کے لئے انہیں مامور کیا گیا تھا ۔شریعتوں اور قوانین کے جزئی اختلاف کا اس جوہر اور ماہیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا جسے قرآن کی اصطلاح میں اسلام کہا گیا ہے ۔انبیاء کی تعلیمات میں باہمی فرق و اختلاف کسی ملک کے مختلف منصوبوں اور لوائح عمل کا سا ہے ہر چند کہ انہیں الگ الگ رو بعمل لایا جاتا ہے لیکن وہ سب ملک کے ایک ہی آئین سے ہدایت حاصل کرتے ہیں ۔پیغمبروں کی تعلیمات اپنے باہمی جزئی اختلاف کے با وجود ایک دوسرے کے تکمیل و اتمام کا سبب بنتی ہیں ۔
پیغمبروں کی آسمانی تعلیمات کا فرق و ختلاف ان مکاتب خیال کے باہمی اختلاف کی طرح نہیں ہے جو فلسفہ "سیاست" اجتماعات اور اقتصادیات سے تعلق رکھتے ہیں اور متضاد افکار کا حامل ہوتے ہیں ۔تمام انبیاء ایک ہی مکتب سے تعلق رکھتے ہیں اور سب کا thestss ایک ہی رہا ہے ۔
انبیاء کی تعلیمات میں باہمی اختلاف کسی درسگاہ کی اعلی و ادنی جماعتوں کی تعلیمات کی طرح کا ہے یا پھر ایک اصول کے مختف حالات و شرائط میں نفاذ سے پیدا ہونے والے اختلاف کا سا ۔
ہم اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اعلی جماعتوں کے طالب علم کو نہ صرف نئے نئے مسائل سے واقفیت حاصل ہوتی ہے بلکہ ان پر انے مسائل کے بارے میں بھی اس کی رائے تبدیل ہوجاتی ہے جس کا علم اس نے ابتدائی جماعتوں میں حاصل کیا تھا ۔انبیاء کی تعلیمات کا بھی یہی حال ہے ۔
توحید وہ پہلا سنگ بنیاد ہے جسے انبیاء نصب کرنے میں مصروف رہے ہیں لیکن یہی توحید درجات و مراتب رکھتی ہے ۔عام آدمی خدائے واحد کا جو تصور رکھتا ہے وہ ایک عارف کے قلب میں پیدا ہونے والی الی تجلی کی طرح نہیں ہے ۔خود عارفوں کے درجات بھی مختلف ہیں:لو علم ابوذر ما فی قلب سلمان لقتله
"اگر ابوذر رحمہ اللہ علیہ جو کچھہ سلمان رحمہ اللہ علیہ کے دل میں تھا اس سے واقف ہوجاتے تو ان کے بارے میں کفر کا گمان کرنے لگتے اور انہیں قتل کردیتے"!
یہ بات واضح ہے کہ سورہ حدید کی ابتدائی آیات اور سورہ حشر کی آخری آیات اور سورہ قل ھواللہ احد کی آیات چند ہزار سال بلکہ ایک ہزار سال پہلے کے انسان کے لئے قابل ہضم ہوسکتی تھیں ۔البتہ اہل توحید میں سے تھوڑے لوگ ان آیات کی گہرائی تک پہنچ سکتے تھے کتب اسلامی میں یہ بات آئی ہے کہ:"اللہ تعالی علم رکھتا تھا کہ بعد کے زمانوں میں گہری فکر رکہنے والے لوگ پیدا ہوں گے تو اس نے قل ھو اللہ کی آیت اور سورہ حدید کی ابتدائی پانچ آیتیں نازل کیں "
کسی بھی بنیادی اصول کے نفاذ کی عملی صورتیں مختلف حالات میں مختلف ہوتی ہیں انبیاء کے عملی رویے میں جو فرق و اختلاف نظر آتا ہے اس کا تعلق قانون کے نفاذ سے قانون کی روح سے نہیں۔اس پہلو پر ہم بعد میں گفتگو کریں گے۔
قرآن نے دین کے کلمے کو کبھی جمع کی صورت میں استعمال نہیں کیا۔قرآن میں دین کا ذکر ہر جگہ واحد و مفرد شکل میں کیا گیا ہے، کیونکہ آدم (ع) سے لے کر خاتم تک صرف ایک دین موجود رہا ہے کئی ادیان نہیں۔قرآن نے یہ صراحت بھی کی ہے کہ دین فطرت کا تقاضا اور انسان کے روحانی وجود کی آواز ہے:
(
فاقم وجک للذین حنیفاً فطرت الله التی فطر الناس علیها
)
اے محمد (ص) اپنا رخ (اپنا فکر) دین کی سمت جمادو اس حالت میں کہ تم وحدانیت پرست ہو، جو خدا کی فطرت (آفرینش پیدائش) ہے جس پر لوگوں کوخلق کیا گیا ہے۔
انسان کی فطرت، سرشت اور طبیعت گوناگون ہے جبکہ دین ابتدائے آفرینش سے قیامت تک ایک ہی ہے اور وہ انسانی فطرت وسرشت سے تعلق رکھتا ہے۔اس طرح انسانی فطرت و سرشت بھی ایک سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے تھی۔اس میں ایک بڑا راز اور عظیم فلسفہ پوشیدہ ہے اور اسی سے ہمیں ارتقاء کا ایک خاص تصور ملتا ہے۔ارتقا کے نظریئے سے سب واقف ہیں اس مسئلے پر ہر جگہ گفتگو ہوتی رہتی ہے۔دنیا کا ارتقاء جنداروں کا ارتقاء انسان اور معاشرہ کا ارتقاء۔
یہ ارتقاء کیا چیز ہے اور یہ کس طرح صورت پذیر ہتوتا ہے؟ کیا یہ اسباب کا ایک اتفاقی سلسلہ ہے جو ارتقاء کی منزل تک پہنچتا ہے؟ کیا اس کی سرشت میں کوئی ایسی چیز ہے جو خود تکمیل تک پہنچتی ہے اور وہ اپنے اندر ارتقاء کی خواہش رکھتی ہے اس لئے اس نے پہلے سے اپنے لئے ارتقاء کی ایک راہ منتخب کر رکھی ہے؟ کیا ارتقاء کا عمل ہمیشہ ایک مقرر و متعین راہ پر اور پہلے سے طے شدہ مقصد و ہدف کے مطابق وقوع پذیر ہوتا ہے یا یہ عمل چند ایک بار اتفاقی اسباب کے تحت ایک خاص راستے پر صورت پذیر ہوتا ہے اور مسلسل اپنی سمت بدلتا رہتا ہے اور اپنا کوئی خاص مقصد و ہدف نہیں رکھتا؟
قرآن کی رو دے دنیا انسان اور معاشرہ کا ارتقاء ایک ہدایت یافتہ یا ہدف عمل ہے اور یہ اس ایکہی راہ پر صورت پذیر ہوتا ہے جسے صارط مستقیم کہا گیا ہے اس عمل کا نقطہ آغاز اور راہ سفر اور منزل مقصود سب متعین و مشخص ہیں۔
انسان اور معاشرہ تغیر پذیر و ترقی پذیر ہیں لیکن ان کی سمت اور راہ سفر صرف ایک ہی ہے اور وہ مستقیم ہے۔
(
و ان هذا صراطی مستقیماً فاتبعوه و لا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیله
)
ترجمہ:نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کردیں گے۔
کی خط است از اول تابہ آخر
بر او خلق خدا جملہ مسافر
انسانی ارتقاء کا معاملہ اس طرح کا نہیں ہے کہ وہ ہر دور میں اسباب کے ایک خاص سلسلے کے تحت (صنعتی یا اجتماعی یا اقتصادی) ایک راہ پر اپنا سفر شروع کرے اور مسلسل اپنا راستہ اور سمت دونوں بدلتارہے۔
قرآن بڑی شدت کے ساتھ دین کے ایک ہونے پر زور دیتا ہےوہ صرف ایک شاہراہ کا قائل ہے شریعتوں اور قوانین کے اختلافات کو وہ ایسی شاخین قرار دیتا ہے جو ایک نظرئیے و عقیدہ کی جڑ سے نکلی ہوں۔
انسان ارتقاء کی راہ پر ٹھیک اس قافلہ کی مانند ہے جو ایک متعین منزل کی طرف رواں دواں ہے لیکن اس منزل تک پہنچنے کے راستے سے وہ آگاہ نہیں ہے چند قدم چلنے کے بعد وہ کسی واقف راہ سے منزل کا پتہ پوچھتا ہے۔اس کی بتائی ہوئی نشانیوں کے مطابق کم و بیش دس میل کا راستہ ط کرلیتا ہے لیکن اب اس قافلے کو بھی پھر کسی رہنما کی ضرورت پیش آتی ہے اوہ وہ اس کی بتائی ہوئی علامات کے مطابق مزید دس میل کا سفر مکمل کرلیتا ہے۔اس طرح منزل کی طرف بڑھنے کی اس کی صلاحیت میں بتدریج اضافہ ہوتا رہتا ہے بالاخر اسے ایک ایسا شخص مل جاتا ہے جو اسے راہ سفر کا ایک مکمل نقشہ دے دیتا ہے اور قافلہ اس نقشے کے حاصل ہونے کے بعد کسی نئے رہبر کی ضرورت سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔
قرآن نے یہ بات اچھی طرح واضح کردی ہے کہ انسان کی راہ تک متعین و مستقیم راہ ہے اور تمام پیغمبران تمام اختلافات کے باوجود جو وہ زمان و مکان اور موقع محل کے مطابق انسانی معاشروں کی رہبری میں باہم رکھتے ہیں، وہ ایک ہی منزل اور ایک ہی شاہراہ کی جانب ان کی رہنمائی کرتے ہیں، اس طرح قرآن نے ختم نبوت کی راہ کو ہماری نگاہوں کے سامنے خوب روشن اور ان عقیدے کو پوری طرح واضح کردیا ہے۔عقیدہ ختم نبوت اسی صورت میں معقول اور قابل فہم ہو سکتا ہے کہ تغیر اور ترقی پذیر انسان کی ارتقاء کی راہ متعین اور مستقیم ہو لیکن اس کے بر عکس انسان دوڑ دھوپ میں ہو اور دوسرے لمحے اس کی راہ سفر تبدیل ہوتی رہے اور اس کے سرکا مقصد اور منزل تعین نہ ہو اور وقت کے ہر مرحلے میں وہ ایک دوسرا ہی راستہ اختیار کرے تو پھر ختم نبوت یعنی دائمی اور کل لائحہ عمل اور نقشہ کار معقول اور قابل فہم نہیں قرار پاتا۔
(
و کذالک جعلنکم امة و سطا لتکونوا شهداء علیٰ الناسن و یکون الرسول علیکم شهیداً
)
ترجمہ:"اور اس طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک امت وسط بنایا ہے تا کہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ اور رسول تم پر گوہ ہو۔"