ابوسفیا ن وابوجہل چھپ کر قرآن سنتے ہیں
ایک شب ابوسفیان ،ابوجہل اور مشرکین کے بہت سے دوسرے سردارجدا گانہ طور پر اور ایک دوسرے سے چھپ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قرآن سننے کے لئے آگئے آپ اس وقت نماز پڑھنے میں مشغول تھے اور ہر ایک ، ایک دوسرے سے بالکل بے خبر علیحدہ علیحدہ مقامات پر چھپ کر بیٹھ گئے چنانچہ وہ رات گئے تک قرآن سنتے رہے اور جب واپس پلٹنے لگے تو اس وقت صبح کی سفیدی نمودار ہوچکی تھی ۔اتفاق سے سب نے واپسی کے لیے ایک ھی راستے کا انتخاب کیا اور ان کی اچانک ایک دوسرے سے ملاقات ہوگئی اور ان کا بھانڈا وہیں پر پھوٹ گیا انھوں نے ایک دوسرے کوملامت کی اور اس بات پر زوردیا کہ آئندہ ایسا کام نہیں کریںگے ، اگر نا سمجھ لوگوں کو پتہ چل گیا تو وہ شک وشبہ میں پڑجائیں گے ۔
دوسری اور تیسری رات بھی ایسا ھی اتفاق ہوا اور پہروھی باتیں دہرائی گئیں اور آخری رات تو انھوں نے کھا جب تک اس بات پر پختہ عہد نہ کرلیں اپنی جگہ سے ھلیں نہیں چنانچہ ایسا ھی کیا گیا اور پہر ہر ایک نے اپنی راہ لی ۔اسی رات کی صبح اخنس بن شریق نامی ایک مشرک اپنا عصالے کر سیدھا ابوسفیان کے گہر پہنچا اور اسے کھا : تم نے جو کچھ محمدسے سناہے اس کے بارے میں تمھاری کیا رائے ہے ؟
اس نے کھا:خدا قسم : کچھ مطالب ایسے سنے ہیں جن کا معنی ٰبخوبی سمجھ سکاہوں اور کچھ مسائل کی مراد اور معنیٰ کو نہیں سمجھ سکا ۔ اخنس وھاںسے سیدھا ابوجہل کے پاس پہنچا اس سے بھی وھی سوال کیا : تم نے جو کچھ محمد سے سنا ہے اس کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟
ابوجہل نے کھا :سناکیاہے، حقیقت یہ ہے کہ ہماری اور اولاد عبدمناف کی قدیم زمانے سے رقابت چلی آرھی ہے انھوں نے بھوکوں کو کھانا کھلایا، ہم نے بھی کھلایا ، انھوں نے پیدل لوگوں کو سواریاں دیں ہم نے بھی دیں ، انھوں نے لوگوں پر خرچ کیا، سوہم نے بھی کیا گویا ہم دوش بدوش آگے بڑھتے رہے۔جب انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس وحی آسمانی بھی آتی ہے تو اس بارے میں ہم ان کے ساتھ کس طرح برابری کرسکتے ہیں ؟ اب جب کہ صورت حال یہ ہے تو خداکی قسم !ہم نہ تو کبھی اس پر ایمان لائیں گے اور نہ ھی اس کی تصدیق کریں گے ۔اخنس نے جب یہ بات سنی تو وھاں سے اٹھ کر چلاگیا
جی ھاں: قرآن کی کشش نے ان پر اس قدرا ثرکردیا کہ وہ سپیدہ صبح تک اس الٰھی کشش میں گم رہے لیکن خود خواھی ، تعصب اور مادی فوائدان پر اس قدر غالب آچکے تھے کہ انھوں نے حق قبول کرنے سے انکار کردیا ۔اس میں شک نہیں کہ اس نورالٰھی میں اس قدر طاقت ہے کہ ہر آمادہ دل کو وہ جھاں بھی ہو، اپنی طرف جذب کرلیتا ہے یھی وجہ ہے کہ اس (قرآن)کا ان آیات میں ”جھاد کبیر“ کہہ کر تعارف کروایا گیا ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ ایک دن ”اخنس بن شریق“ کا ابوجہل سے آمناسامنا ہوگیا جب کہ وھاں پر اور کوئی دوسرا آدمی موجود نہیں تھا۔تو اخنس نے اس سے کھا :سچ بتاؤ محمد سچاہے ،یاجھوٹا ؟قریش میں سے کوئی شخص سوامیرے اور تیرے یہاں موجود نہیں ہے جو ہماری باتوں کو سنے ۔
ابوجہل نے کھا: وائے ہو تجھ پر خداکی قسم !وہ میرے عقیدے میں سچ کہتا ہے اور اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا لیکن اگر یہ اس بات کی بناہو جائے کہ محمد کا خاندان سب چیزوں کو اپنے قبضہ میں کرلے، حج کا پرچم ، حاجیوں کو پانی پلانا،کعبہ کی پردہ داری اور مقام نبوت تو باقی قریش کے لئے کیا باقی رہ جائےگا۔
اسلام کے پہلے مہاجرین
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت اور عمومی دعوت کے ابتدائی سالوں میں مسلمان بہت ھی کم تعداد میں تھے قریش نے قبائل عرب کو یہ نصیحت کررکھی تھی کہ ہر قبیلہ اپنے قبیلہ کے ان لوگوں پر کہ جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لاچکے ہیں انتھائی سخت دباؤڈالیں اور اس طرح مسلمانوں میں سے ہر کوئی اپنی قوم وقبیلہ کی طرف سے انتھائی سختی اور دباؤمیں مبتلا تھا اس وقت مسلمانوں کی تعداد جھادآزادی شروع کرنے کے لئے کافی نہیں تھی ۔پیغمبراکرم نے اس چھوٹے سے گروہ کی حفاظت اور مسلمانوں کے لئے حجاز سے باہر قیام گاہ مھیاکرنے کے لئے انہیں ہجرت کا حکم دے دیا اور اس مقصد کےلئے حبشہ کو منتخب فرمایا اور کھا کہ وھاں ایک نیک دل بادشاہ ہے جو ظلم وستم کرنے سے اجتناب کرتا ہے ۔ تم وھاں چلے جاؤ یہاں تک کہ خداوند تعالیٰ کوئی مناسب موقع ہمیں عطافرمائے۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد نجاشی سے تھی (نجاشی ایک عام نام تھا جیسے ”کسریٰ“ جو حبشہ کے تمام بادشاہوں کا خاص لقب تھا لیکن اس نجاشی کا اصل نام جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ہم عصر تھا اصحمہ تھا جو کہ حبشہ کی زبان میں عطیہ وبخشش کے معنی میں ہے )۔
مسلمانوں میں سے گیارہ مرداور چار عورتیں حبشہ جانے کے لئے تیار ہوئے اور ایک چھوٹی سی کشتی کرایہ پر لے کر بحری راستے سے حبشہ جانے کے لئے روانہ ہوگئے ۔یہ بعثت کے پانچویں سال ماہ رجب کا واقعہ ہے ۔کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزراتھا کہ جناب جعفر بن ابوطالب بھی مسلمانوںکے ایک دوسرے گروہ کے ساتھ حبشہ چلے گئے ۔ اب اس اسلامی جمعیت میں ۸۲ مردوں علاوہ کافی تعداد میں عورتیںاور بچے بھی تھے ۔
مشرکین ،مہاجرین کی تعقیب میں
اس ہجرت کی بنیادبت پرستوں کے لئے سخت تکلیف دہ تھی کیونکہ دہ اچھی طرح سے دیکھ رہے تھے کہ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ وہ لوگ جو تدریجاً اسلام کو قبول کرچکے ہیں اور حبشہ کی سرزمین امن وامان کی طرف چلے گئے ہیں ، مسلمانوں کی ایک طاقتور جماعت کی صورت اختیار کرلیں گے یہ حیثیت ختم کرنے کے لئے انہوں نے کام کرنا شروع کردیا اس مقصد کے لئے انہوں نے جوانوں میں سے دوہوشیار، فعال، حیلہ باز اور عیار جوانوں یعنی عمروبن عاص اور عمارہ بن ولید کا انتخاب کیا بہت سے ہدیے دے کر ان کو حبشہ کی طرف روانہ کیا گیا ،ان دونوں نے کشتی میں بیٹھ کر شراب پی اور ایک دوسرے سے لڑپڑے لیکن آخرکار وہ اپنی سازش کو روبہ عمل لانے کے لئے سرزمین حبشہ میں داخل ہوگئے ۔ ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد وہ نجاشی کے دربار میں پہنچ گئے ،دربار میں باریاب ہونے سے پہلے انہوں نے نجاشی کے درباریوں کو بہت قیمتی ہدیے دے کران کو اپنا موافق بنایا تھا اور ان سے اپنی طرفداری اور تائید کرنے کا وعدہ لے لیا تھا ۔
” عمروعاص “ نے اپنی گفتگو شروع کی اور نجاشی سے اس طرح ہمکلام ہوا:
ہم سرداران مکہ کے بھیجے ہوئے ہیں ہمارے درمیان کچھ کم عقل جوانوں نے مخالفت کا علم بلند کیا ہے اور وہ اپنے بزرگوںکے دین سے پہر گئے ہیں ،اور ہمارے خداؤں کو برابھلا کہتے ہیں ،انہوں نے فتنہ وفساد برپا کردیا ہے لوگوں میں نفاق کا بیچ بودیا ہے ،آپ کی سرزمین کی آزادی سے انہوں نے غلط فائدہ اٹھایا ہے اور انہوں نے یہاں آکر پناہ لے لی ہے ، ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ وہ یہاں بھی خلل اندازی نہ کریں بہتریہ ہے کہ آپ انہیں ہمارے سپرد کردیں تاکہ ہم انہیں اپنی جگہ واپس لے جائیں ۔
یہ کہہ کر ان لوگوں نے وہ ہدئیے جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے پیش کیے ۔
نجاشی نے کھا : جب تک میں اپنی حکومت میں پناہ لینے والوں کے نمائندوں سے نہ مل لوں اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کرسکتا اور چونکہ یہ ایک مذھبی بحث ہے لہٰذا ضروری ہے کہ تمھاری موجودگی میںمذھبی نمائندوں کوبھی ایک جلسہ میں دعوت دی جائے ۔
جعفربن ابی طالب مہاجرین کے بہترین خطیب
چنانچہ دوسرے دن ایک اہم جلسہ منعقد ہوا، اس میں نجاشی کے مصاحبین اور عیسائی علماء کی ایک جماعت شریک تھی جعفر بن ابی طالب مسلمانوں کے نمائندہ کی حیثیت سے موجود تھے اور قریش کے نمائندے بھی حاضر ہوئے نجاشی نے قریش کے نمائندوں کی باتیں سننے کے بعد جناب جعفر کی طرف رخ کیا اور ان سے خواہش کی کہ وہ اس سلسلے میں اپنا نقطہ نظربیان کریں جناب جعفرا دائے احترام کے بعد اس طرح گویا ہوئے : پہلے ان سے پوچھیے کہ کیا ہم ان کے بھاگے ہوئے غلاموں میں سے ہیں ؟
عمرو نے کھا :نہیں بلکہ آپ آزاد ہیں ۔
جعفر: ان سے یہ بھی پوچھئے کہ کیا ان کا کوئی قرض ہمارے ذمہ ہے کہ جس کا وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں ؟
عمرو : نہیں ہمارا آپ سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں ہے ۔
جعفر: کیا ہم نے تمھارا کوئی خون بھایا ہے کہ جس کا ہم سے بدلہ لینا چاہتے ہو ؟
عمرو:نہیں ایسا کچھ نہیں ہے؟
جعفر: تو پہر تم ہم سے کیا چاہتے ہو ؟تم نے ہم پر اتنی سختیاں کیں اور اتنی تکلیفیں پہنچائیں اور ہم تمھاری سرزمین سے جو سراسر مرکز ظلم وجور تھی باہر نکل آئے ہیں ۔
اس کے بعد جناب جعفر نے نجاشی کی طرف رخ کیا اور کھا : ہم جاہل اور نادان تھے، بت پرستی کرتے تھے ،مردار کا گوشت کھاتے تھے ، طرح طرح کے برے اور شرمناک کام انجام دیتے تھے، قطع رحمی کرتے تھے ، اپنے ہمسایوں سے براسلوک کرتے تھے اور ہمارے طاقتور کمزوروں کے حقوق ہڑپ کرجاتے تھے ۔ لیکن خدا وند تعالیٰ نے ہمارے درمیان ایک پیغمبر کو معبوث فرمایا، جس نے ہمیں حکم دیا کہ ہم خدا کا کوئی مثل اورشریک نہ بنائیں اور فحشاء ومنکر، ظلم وستم اور قماربازی ترک کردیں ہمیں حکم دیا کہ ہم نماز پڑہیں ، زکوٰةادا کریں ، عدل واحسان سے کام لیں اور اپنے وابستگان کی مدد کریں ۔
نجاشی نے کھا : عیسیٰ مسیح علیہ السلام بھی انھی چیزوں کے لئے مبعوث ہوئے تھے ۔
اس کے بعد اس نے جناب جعفر سے پوچھا: ان آیات میں سے جو تمھارے پیغمبر پر نازل ہوئی ہیں کچھ تہمیں یاد ہیں ۔جعفرنے کھا : جی ھاں : اور پہر انہوں نے سورہ مریم کی تلاوت شروع کردی ،اس سورہ کی ایسی ھلادینے والی آیات کے ذریعہ جو مسیح علیہ السلام اور ان کی ماں کو ہر قسم کی نارو اتہمتوں سے پاک قراردیتی ہیں ، جناب جعفر کے حسن انتخاب نے عجیب وغریب اثر کیا یہاں تک کہ مسیحی علماء کی آنکھوں سے فرط شوق میں آنسو بہنے لگے اور نجاشی نے پکار کر کھا : خدا کی قسم : ان آیات میں حقیقت کی نشانیاں نمایاں ہیں ۔
جب عمرنے چاھا کہ اب یہاں کوئی بات کرے اور مسلمانوں کو اس کے سپرد کرنے کی درخواست کرے ، نجاشی نے ہاتھ بلند کیا اور زور سے عمرو کے منہ پر مارا اور کھا: خاموش رہو، خدا کی قسم ! اگر ان لوگوں کی مذمت میں اس سے زیادہ کوئی بات کی تو میں تجہے سزادوں گا ،یہ کہہ کر مامورین حکومت کی طرف رخ کیا اور پکار کر کھا : ان کے ہدیے ان کو واپس کردو اور انہیں حبشہ کی سرزمین سے باہر نکال دو جناب جعفر اور ان کے ساتھیوں سے کھا : تم آرام سے میرے ملک میں زندگی بسر کرو ۔
اس واقعہ نے جھاں جعفر اور ان کے ساتھیوں سے کھا تم آرام سے میرے ملک میں زندگی بسرکرو۔
اس واقعہ نے جھاں حبشہ کے کچھ لوگوں پر اسلام شناسی کے سلسلے میں گہرا تبلیغی اثر کیا وھاں یہ واقعہ اس بات کا بھی سبب بنا کہ مکے کے مسلمان اس کو ایک اطمینان بخش جائے پناہ شمارکریں اور نئے مسلمان ہونے والوں کو اس دن کے انتظارمیں کہ جب وہ کافی قدرت و طاقت حاصل کریں ،وھاں پر بھیجتے رہیں ۔
فتح خیبرکی زیادہ خوشی ہے یا جعفرکے پلٹنے کی
کئی سال گزر گئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی ہجرت فرماگئے اور اسلام روزبروز ترقی کی منزلیں طے کرنے لگا،عہدنامہ حدیبیہ لکھا گیا اور پیغمبر اکرم فتح خیبرکی طرف متوجہ ہوئے اس وقت جب کہ مسلمان یہودیوں کے سب سے بڑے اور خطر ناک مرکز کے لوٹنے کی وجہ سے اتنے خوش تھے کہ پھولے نہیں سماتے تھے، دور سے انہوں نے ایک مجمع کو لشکر اسلام کی طرف آتے ہوئے دیکھا ،تھوڑی ھی دیر گزری تھی کہ معلوم ہواکہ یہ وھی مہاجرین حبشہ ہیں ، جو آغوش وطن میں پلٹ کر آرہے ہیں ،جب کہ دشمنوں کی بڑی بڑی طاقتیںد م توڑچکی ہیں اور اسلام کا پودا اپنی جڑیںکافی پھیلا چکا ہے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب جعفراور مھا جرین حبشہ کو دیکھ کر یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:
”میں نہیں جانتا کہ مجھے خیبر کے فتح ہونے کی زیادہ خوشی ہے یا جعفر کے پلٹ آنے کی “
کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے علاوہ شامیوں میں سے آٹھ افراد کہ جن میں ایک مسیحی راھب بھی تھا اور ان کا اسلام کی طرف شدید میلان پیدا ہوگیا تھاپیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضرہو ئے اور انہوں نے سورہ یٰسین کی کچھ آیات سننے کے بعد رونا شروع کردیا اور مسلمان ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ آیات مسیح علیہ السلام کی سچی تعلیمات سے کس قدر مشابہت رکھتی ہیں ۔
اس روایت کے مطابق جو تفسیر المنار، میں سعید بن جبیر سے منقول ہے نجاشی نے اپنے یارو انصار میں سے تیس بہترین افراد کوپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور دین اسلام کے ساتھ اظھار عقیدت کے لئے مدینہ بھیجا تھا اور یہ وھی تھے جو سورہ یٰسین کی آیات سن کر روپڑے تھے اور اسلام قبول کرلیا تھا۔
معراج رسول (ص)
علماء اسلام کے درمیان مشہور یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت مکہ میں تھے تو ایک ھی رات میں آپ قدرت الٰھی سے مسجد الحرام سے اقصٰی پہنچے کہ جو بہت المقدس میں ہے ، وھاں سے آپ آسمانوں کی طرف گئے ، آسمانی دسعتوں میں عظمت الٰھی کے آثار مشاہدہ کئے اور اسی رات مکہ واپس آگئے ۔
نیزیہ بھی مشہور ہے کہ یہ زمینی اور آسمانی سیر جسم اور روح کے ساتھ تھی البتہ یہ سیر چونکہ بہت عجیب غریب اور بے نظیر تھی لہٰذا بعض حضرات نے اس کی توجیہ کی اور اسے معراج روحانی قرار دیا اور کھا کہ یہ ایک طرح کا خواب تھایا مکا شفہ روحی تھا لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں یہ بات قرآن کے ظاہری مفہوم کے بالکل خلاف ہے کیونکہ ظاہرقر آن اس معراج کے جسمانی ہونے کی گواھی دیتا ہے ۔
معراج کی کیفیت قرآن و حدیث کی نظر سے
قرآن حکیم کی دوسورتوں میں اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے پہلی سورت بنی اسرائیل ہے اس میں اس سفر کے ابتدائی حصے کا تذکرہ ہے ۔ (یعنی مکہ کی مسجد الحرام سے بیت المقدس کی مسجد الاقصٰی تک کا سفر) اس سلسلے کی دوسری سورت ۔ سورہ نجم ہے اس کی آیت ۱۳ تا ۱۸ میں معراج کا دوسرا حصہ بیان کیا گیا ہے اور یہ آسمانی سیر کے متعلق ہے ارشاد ہوتا ہے :
ان چھ آیات کا مفہوم یہ ہے : رسول اللہ نے فرشتہ وحی جبرئیل کو اس کو اصلی صورت میں دوسری مرتبہ دیکھا (پہلے آپ اسے نزول وحی کے آغاز میں کوہ حرا میں دیکھ چکے تھے) یہ ملاقات بہشت جاوداں کے پاس ہوئی ، یہ منظر دیکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی اشتباہ کا شکار نہ تھے آپ نے عظمت الٰھی کی عظیم نشانیاں مشاہدہ کیں۔
یہ آیات کہ جو اکثر مفسرین کے بقول واقعہ معراج سے متعلق ہیں یہ بھی نشاندھی کرتی ہیں کہ یہ واقعہ عالم بیداری میں پیش آیا خصوصا “مازاغ البصروماطغی“ اس امر کا شاہد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آنکھ کسی خطا واشتباہ اور انحراف سے دوچار نہیں ہوئی ۔
اس واقعے کے سلسلے میں مشہور اسلامی کتابوں میں بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں ۔
علماء اسلام نے ان روایات کے تو اتر اور شہرت کی گواھی دی ہے ۔
معراج کی تاریخ
واقعہ معراج کی تاریخ کے سلسلے میں اسلامی مورخین کے درمیان اختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ یہ واقعہ بعثت کے دسویں سال ۲۷ رجب کی شب پیش آیا، بعض کہتے ہیں کہ یہ بعثت کے بارہویں سال ۱۷ رمضان المبارک کی رات وقوع پذیر ہوا جب کہ بعض اسے اوائل بعثت میں ذکر کرتے ہیں لیکن اس کے وقوع پذیر ہونے کی تاریخ میں اختلاف،اصل واقعہ پر اختلاف میں حائل نہیں ہوتا ۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ صر ف مسلمان ھی معراج کا عقیدہ نہیں کھتے بلکہ دیگرادیان کے پیروکار وں میں بھی کم و بیش یہ عقیدہ پایا جاتا ہے ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہ عقیدہ عجیب تر صورت میں نظر آتا ہے جیسا کہ انجیل مرقس کے باب ۶ لوقاکے باب ۲۴ اور یوحنا کے باب ا ۲ میں ہے:
عیسٰی علیہ السلام مصلوب ہونے کے بعد دفن ہوگئے تو مردوں میں سے اٹھ کھڑے ہوئے ،اور چالیس روز تک لوگوں میں موجود رہے پہر آسمان کی طرف چڑھ گئے ( اور ہمیشہ کے لئے معراج پر چلے گئے )
ضمناً یہ وضاحت بھی ہوجائے کہ بعض اسلامی روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض گزشتہ انبیاء کو بھی معراج نصیب ہوئی تھی ۔
پیغمبرگرامی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ آسمانی سفر چند مرحلوں میں طے کیا۔
پہلا مرحلہ،مسجدالحرام اور مسجد اقصیٰ کے درمیانی فاصلہ کا مرحلہ تھا، جس کی طرف سورہ اسراء کی پہلی آیت میں اشارہ ہوا ہے: ”منزہ ہے وہ خدا جو ایک رات میں اپنے بندہ کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا“۔ بعض معتبر روایات کے مطابق آپ نے اثناء راہ میں جبرئیل(ع) کی معیت میں سر زمین مدینہ میںنزول فرمایا او روھاں نماز پڑھی ۔
او رمسجد الاقصیٰ میں بھی ابراھیم و موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام انبیاء کی ارواح کی موجود گی میں نماز پڑھی اور امام جماعت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے، اس کے بعد وھاں سے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا آسمانی سفر شروع ہوا، اور آپ نے ساتوں آسمانوںکو یکے بعد دیگرے عبور کیا اورہر آسمان میں ایک نیاہی منظر دیکھا ، بعض آسمانوں میں پیغمبروں اور فرشتوں سے، بعض آسمانوں میں دوزخ او ردوزخیوں سے اور بعض میں جنت اور جنتیوں سے ملاقات کی ،او رپیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان میں سے ہر ایک سے بہت سی تربیتی اور اصلاحی قیمتی باتیں اپنی روح پاک میں ذخیرہ کیں اور بہت سے عجائبات کا مشاہدہ کیا جن میں سے ہر ایک عالم ہستی کے اسرار میں سے ایک راز تھا، اور واپس آنے کے بعد ان کو صراحت کے ساتھ اور بعض اوقا ت کنایہ اور مثال کی زبان میں امت کی آگاھی کے لئے مناسب فرصتوں میں بیان فرماتے تھے، اور تعلیم وتربیت کے لئے اس سے بہت زیادہ فائدہ اٹھاتے تھے۔
یہ امر اس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ اس آسمانی سفر کا ایک اہم مقصد،ان قیمتی مشاہدات کے تربیتی و عرفانی نتائج سے استفادہ کرنا تھا،اور قرآن کی یہ پر معنی تعبیر(
لقد رایٰ من آیات ربه الکبریٰ
)
ان تمام امور کی طرف ایک اجمالی اور سربستہ اشارہ ہو سکتی ہے۔
البتہ جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ وہ بہشت اور دوزخ جس کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سفر معراج میں مشاہدہ کیا اور کچھ لوگوں کو وھاں عیش میں اور عذاب میں دیکھا ، وہ قیامت والی جنت اور دوزخ نہیں تہیں ، بلکہ وہ برزخ والی جنت ودوزخ تہیں ، کیونکہ قرآن مجیدکے مطابق جیسا کہ کہتا ہے کہ قیامت والی جنت ودوزخ قیام قیامت اور حساب وکتاب سے فراغت کے بعد نیکو کاروں اور بدکاروں کو نصیب ہوگی ۔
آخر کار آپ ساتویں آسمان پر پہنچ گئے ، وھاں نور کے بہت سے حجابوں کا مشاہدہ کیا ، وھی جگہ جھاں پر”سدرة المنتهیٰ“
اور” جنة الماٴویٰ“
واقع تھی، اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس جھان سراسر نوروروشنی میں، شہود باطنی کی اوج، اور قرب الی اللہ اور مقام ” قاب قوسین اوادنی“پر فائز ہوئے اور خدا نے اس سفر میں آپ کو مخالب کرتے ہوئے بہت سے اہم احکام دیئے اور بہت سے ارشادات فرمائے جن کا ایک مجموعہ اس وقت اسلامی روایات میں” احادیث قدسی “ کی صورت میں ہمارے لئے یادگار رہ گیا ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ بہت سی روایات کی تصریح کے مطابق پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس عظیم سفر کے مختلف حصوں میں اچانک علی علیہ السلام کو اپنے پھلو میں دیکھا، اور ان روایات میں کچھ ایسی تعبیریں نظر آتی ہیں ، جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد علی علیہ السلام کے مقام کی حد سے زیادہ عظمت کی گواہ ہیں ۔
معراج کی ان سب روایات کے باوجود کچھ ایسے پیچیدہ اور اسرار آمیز جملے ہیں جن کے مطالب کو کشف کرنا آسان نہیں ہے، اور اصطلاح کے مطابق روایات متشابہ کا حصہ ہیں یعنی ایسی روایات جن کی تشریح کوخود معصومین علیہم السلام کے سپرد کردینا چاہئے ۔
ضمنی طورپر، معراج کی روایات اہل سنت کی کتابوں میں بھی تفصیل سے آئی ہیں ،اور ان کے راویوں میں سے تقریباً ۳۰ افراد نے حدیث معراج کو نقل کیا ہے۔
یہاں یہ سوال سامنے آتاہے : یہ اتنا لمبا سفر طے کرنا اور یہ سب عجیب اور قسم قسم کے حادثات، اور یہ ساری لمبی چوڑی گفتگو ، اور یہ سب کے سب مشاہدات ایک ھی رات میں یاایک رات سے بھی کم وقت میں کس طرح سے انجام پاگئے ؟
لیکن ایک نکتہ کی طرف توجہ کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتاہے ، سفر معراج ہرگز ایک عام سفر نہیں تھا ، کہ اسے عام معیاروں سے پرکھاجائے نہ تو اصل سفر معمولی تھا اور نہ ھی آپ کی سواری معمولی اور عام تھی،نہ آپ کے مشاہدات عام اور معمولی تھے اور نہ ھی آپ کی گفتگو ، اور نہ ھی وہ پیمانے جواس میں استعمال ہوئے، ہمارے کرہ خاکی کے محدود اور چھوٹے پیمانوں کے مانند تھے، اور نہ ھی وہ تشبیھات جواس میں بیان ہوئی ہیں ان مناظر کی عظمت کو بیان کرسکتی ہیں جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مشاہدہ کیے ، تمام چیزیں خارق العادت صورت میں ، اور اس مکان وزمان سے خارج ہونے کے پیمانوں میں، جن سے ہم آشنا نہیں ، واقع ہوئیں ۔
اس بناپر کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ یہ امور ہمارے کرہ زمین کے زمانی پیمانوں کے ساتھ ایک رات یا ایک رات سے بھی کم وقت میں واقع ہوئے ہوں۔
معراج جسمانی تھی یاروحانی ؟
شیعہ اور سنی علمائے اسلام کے درمیان مشہور ہے کہ یہ واقعہ عالم بیداری میں صورت پذیر ہوا، سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت اور سورہ نجم کی مذکورہ آیات کا ظاہری مفہوم بھی اس امر کا شاہد ہے کہ یہ واقعہ بیداری کی حالت میں پیش آیا ۔
تواریخ اسلامی بھی اس امرپر شاہد وصادق ہیں ،تاریخ کہتی ہے : جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے واقعہ معراج کا ذکر کیا تو مشرکین نے شدت سے اس کا انکار کردیا اور اسے آپ کے خلاف ایک بھانہ بنالیا۔
یہ بات گواھی دیتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہرگز خواب یا مکا شفہ روحانی کے مدعی نہ تھے ورنہ مخالفین اس قدر شور وغوغا نہ کرتے ۔
یہ جو حسن بصری سے روایت ہے کہ : ”یہ واقعہ خواب میں پیش آیا “۔
اور اسی طرح جو حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ : ”خداکی قسم بدن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم سے جدا نہیں ہوا صرف آپ کی روح آسمان پر گئی“ ایسی روایات ظاہر ًاسیاسی پھلو رکھتی ہیں ۔
معراج کا مقصد
گزشتہ مباحث پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ معراج کا مقصد یہ نہیں کہ رسول اکرم دیدار خدا کے لئے آسمانوں پر جائیں، جیسا کہ سادہ لوح افرادخیال کرتے ہیں ، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض مغربی دانشور بھی ناآگاھی کی بناء پر دوسروں کے سامنے اسلام کا چہرہ بگاڑکر پیش کرنے کے لئے ایسی باتیں کرتے ہیں ان میں سے ایک مسڑ” گیور گیو“ بھی ہیں وہ بھی کتاب ”محمد وہ پیغمبر ہیں جنہیں پہرسے پہچاننا چاہئے“
میں کہتے ہیں :
”محمد اپنے سفر معراج میں ایسی جگہ پہنچے کہ انہیں خدا کے قلم کی آواز سنائی دی، انہوں نے سمجھا کہ اللہ اپنے بندوںکے حساب کتاب میں مشغول ہے البتہ وہ اللہ کے قلم کی آواز تو سننے تھے مگر انہیں اللہ دکھائی نہ دیتا تھا کیونکہ کوئی شخص خدا کو نہیں دیکھ سکتا خواہ پیغمبر ھی کیوں نہ ہوں“یہ عبارت نشاندھی کرتی ہے کہ قلم لکڑی کا تھا، ایسا کہ کاغذ پر لکھتے وقت لرزتاتھا اور آواز پیدا کرتا تھا، اسی طرح کی اور بہت سارے خرافات اس میں موجود ہیں “۔ جب کہ مقصد معراج یہ تھا کہ اللہ کے عظیم پیغمبر کائنات میں بالخصوص عالم بالا میں موجود عظمت الٰھی کی نشانیوں کا مشاہدہ کریں اور انسانوں کی ہدایت ورھبری کے لئے ایک نیا ادراک اور ایک نئی بصیرت حاصل کریں ۔
یہ ھدف واضح طورپر سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت اور سورہ نجم کی آیت ۱۸ میں بیان ہوا ہے۔
امام صادق علیہ السلام سے مقصد معراج پوچھاگیا تو آپ نے فرمایا :
”خدا ہرگز کوئی مکان نہیں رکھتا اور نہ اس پر کوئی زمانہ گزرتاہے لیکن وہ چاہتا تھا کہ فرشتوں اور آسمان کے باسیوں کو اپنے پیغمبر کی تشریف آوری سے عزت بخشے اور انہیں آپ کی زیارت کا شرف عطاکرے نیزآپ کو اپنی عظمت کے عجائبات دکھائے تاکہ واپس آکر آپ انہیں لوگوں سے بیان کریں“۔
معراج اور سائنس
گزشتہ زمانے میں بعض فلاسفہ بطلیموس کی طرح یہ نظریہ رکھتے تھے کہ نو آسمان پیاز کے چھلکے کی طرح تہہ بہ تہہ ایک دوسرے کے اوپر ہیں واقعہ معراج کو قبول کرنے میں ان کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ان کا یھی نظریہ تھا ان کے خیال میں اس طرح تویہ ماننا پڑتا ہے کہ آسمان شگافتہ ہوگئے اور پہر آپس میں مل گئے۔
لیکن” بطلیموسی “نظریہ ختم ہو گیا تو آسمانوںکے شگافتہ ہونے کا مسئلہ ختم ہوگیا البتہ علم ہئیت میں جو ترقی ہوئی ہے اس سے معراج کے سلسلے میں نئے سوالات ابہر ے ہیں مثلاً؛
۱) ایسے فضائی سفر میں پہلی بار رکاوٹ کشش ثقل ہے کہ جس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لے غیر معمولی وسائل و ذرائع کی ضرورت ہے کیونکہ زمین کے مداراور مرکز ثقل سے نکلنے کے لئے کم از کم چالیس ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ رفتار کی ضرورت ہے ۔
۲) دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ زمین کے باہر خلا میں ہوا نہیں ہے جبکہ ہوا کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا ۔
۳) تیسری رکاوٹ ایسے سفر میں اس حصہ میں سورج کی جلادینے والی تپش ہے جبکہ جس حصہ پر سورج کی مستقیماً روشنی پڑرھی ہے اور اسی طرح اس حصے میں جان لیوا سردی ہے جس میں سورج کی روشنی نہیں پڑرھی ہے۔
۴) اس سفر میں چوتھی رکاوٹ وہ خطرناک شعاعیں ہیں کہ جو فضا ئے زمین کے اوپر موجود ہیں مثلا کا سمک ریز cosmic ravs الٹرا وائلٹ ریز ultra violet ravs اور ایکس ریز x ravs یہ شعاعیں اگر تھوڑی مقدار میں انسانی بدن پر پڑیں تو بدن کے آرگانزم otganism کے لئے نقصان دہ نہیں ہیں لیکن فضائے زمین کے باہر یہ شعاعیں بہت تباہ کن ہوتی ہیں (زمین پر رہنے والوں کے لئے زمین کے اوپر موجود فضاکی وجہ سے ان کی تپش ختم ہوجاتی ہے )
۵) ایک اور مشکل اس سلسلہ میں یہ ہے کہ خلامیں انسان بے وزنی کی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے اگرچہ تدریجاًبے وزنی کی عادت پیدا کی جاسکتی ہے لیکن اگر زمین کے باسی بغیر کسی تیاری اور تمھید کے خلا میں جا پہنچیں تو بےوزنی سے نمٹنا بہت ھی مشکل ہے ۔
۶) آخری مشکل اس سلسلے میں زمانے کی مشکل ہے اور یہ نھایت اہم رکاوٹ ہے کیونکہ دورحاضر کے سائنسی علوم کے مطابق روشنی کی رفتار ہر چیز سے زیادہ ہے اور اگر کوئی آسمانوں کی سیر کرنا چاہے تو ضروری ہو گاکہ اس کی رفتار سے زیادہ ہو ۔
ان سوالات کے پیش نظر چندچیزوں پر توجہ
ان امور کے جواب میں ان نکات کی طرف توجہ ضروری ہے ۔
۱ ۔ہم جانتے ہیں کہ فضائی سفر کی تمام تر مشکلات کے باوجود آخر کار انسان علم کی قوت سے اس پر دسترس حاصل کرچکا ہے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام مشکلات حل ہوچکی ہیں اور زمانے والی مشکل بھی بہت دور کے سفر سے مربوط ہے ۔
۲ ۔اس میں شک نہیں کہ مسئلہ معراج عمومی اور معمولی پھلو نہیں رکھتا بلکہ یہ اللہ کی لامتناھی قدرت و طاقت کے ذریعے صورت پذیر ہوا اور انبیاء کے تمام معجزات اسی قسم کے تھے زیادہ واضح الفاظ میں یہ کھا جاسکتا ہے کہ معجزہ عقلاً محال نہیں ہونا چاہئے اور جب معجزہ بھی عقلاً ممکن ہے ، توباقی معاملات اللہ کی قدرت سے حل ہوجاتے ہیں ۔
جب انسان یہ طاقت رکھتا ہے کہ سائنسی ترقی کی بنیاد پر ایسی چیزیں بنالے جو زمینی مرکز ثقل سے باہر نکل سکتی ہیں ، ایسی چیزیں تیار کرلے کہ فضائے زمین سے باہر کی ہولناک شعاعیں ان پر اثر نہ کرسکیں اور ایسے لباس تیار کرلے کہ جو اسے انتھائی زیادہ گرمی اور سردی سے محفوظ رکھ سکیں اور مشق کے ذریعے بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے ،یعنی جب انسان اپنی محدود قوت کے ذریعے یہ کام کرسکتا ہے تو پہر کیا اللہ اپنی لا محدود طاقت کے ذریعہ یہ کام نہیں کرسکتا ؟
ہمیں یقین ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو اس سفر کے لئے انتھائی تیز رفتار سواری دی تھی اور اس سفرمیں در پیش خطرات سے محفوظ رہنے کے لئے انہیں اپنی مدد کا لباس پہنایا تھا ،ھاں یہ سواری کس قسم کی تھی اور اس کا نام کیا تھا براق ؟ رفرف ؟ یا کوئی اور ۔۔۔؟یہ مسئلہ قدرت کاراز ہے، ہمیں اس کا علم نہیں ۔
ان تمام چیزوں سے قطع نظر تیز تریں رفتار کے بارے میں مذکورہ نظریہ آج کے سائنسدانوںکے درمیان متزلزل ہوچکا ہے اگر چہ آ ئن سٹائن اپنے مشہور نظریہ پر پختہ یقین رکھتا ہے ۔
آج کے سائنسداں کہتے ہیں کہ امواج جاذمہ rdvs of at f fion زمانے کی احتیاج کے بغیر آن واحد میں دنیا کی ایک طرف سے دوسری طرف منتقل ہوجاتی ہیں اور اپنا اثر چھوڑتی ہیں یہاں تک کہ یہ احتمال بھی ہے کہ عالم کے پھیلاؤ سے مربوط حرکات میں ایسے منظومے موجودہیں کہ جوروشنی کی رفتارسے زیادہ تیزی سے مرکز جھان سے دور ہوجاتے ہیں (ہم جانتے ہیں کہ کائنات پھیل رھی ہے اور ستارے اور نظام ھائے شمسی تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور ہورہے ہیں )(غور کیجئے گا)مختصر یہ کہ اس سفر کے لئے جو بھی مشکلات بیان کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی عقلی طور پر اس راہ میں حائل نہیں ہے اور ایسی کوئی بنیاد نہیں کہ واقعہ معراج کو محال عقلی سمجھا جائے ,اس راستے میں درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے جو وسائل درکار ہیں وہ موجود ہوں تو ایسا ہوسکتا ہے ۔
بہرحال واقعہ معراج نہ تو عقلی دلائل کے حوالے سے ناممکن ہے اور نہ دور حاضر کے سائنسی معیاروں کے لحاظ سے ، البتہ اس کے غیر معمولی اور معجزہ ہونے کو سب قبول کرتے ہیں لہٰذا جب قطعی اور یقینی نقلی دلیل سے ثابت ہوجائے تو اسے قبول کرلینا چاہئے۔
شب معراج پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خداکی باتیں
پیغمبر نے شب معراج پروردگار سبحان سے اس طرح سوال کیا :
پروردگار ا: کونساعمل افضل ہے ؟
خدا وند تعالیٰ نے فرمایا :
” کوئی چیز میرے نزیک مجھ پر توکل کرنے ، اور جو کچھ میںنے تقسیم کرکے دیا ہے اس پر راضی ہونے سے بہتر نہیں ہے ،اے محمد جولوگ میری خاطر ایک دوسرے کو دوست رکھتے ہیں میری محبت ان کے شامل حال ہوگی اور جو لوگ میری خاطر ایک دوسرے پر مہربان ہیں اور میری خاطر دوستی کے تعلقات رکھتے ہیں انہیں دوست رکھتا ہوں علاوہ بر ایں میری محبت ان لوکوں کے لئے جو مجھ پر توکل کریں فرض اور لازم ہے اور میری محبت کے لئے کوئی حد او رکنارہ اوراس کی انتھا نہیں ہے “۔!
اس طرح سے محبت کی باتیں شروع ہوتی ہیں ایسی محبت جس کی کوئی انتھا نہیں ،جو کشادہ اور اصولی طور پر عالم ہستی میںاسی محور محبت پر گردش کررھا ہے ۔
ایک اور ددسرے حصہ میں یہ آیا ہے ۔
”اے احمد !بچوں کی طرح نہ ہونا جو سبز وزرد اور زرق وبرق کو دوست رکھتے ہیں اور جب انہیں کوئی عمدہ اور شیریں غذا دیدی جاتی ہے تو وہ مغرور ہوجاتے ہیں اور ہر چیز کو بھول جاتے ہیں “۔
پیغمبرنے اس موقع پر عرض کیا :
پروردگارا :!مجھے کسی ایسے عمل کی ہدایت فرماجو تیری بارگاہ میں قرب کا باعث ہو ۔
فرمایا : رات کو دن اور دن کو رات قرار دے ۔
عرض کیا : کس طرح ؟
فرمایا : اس طرح کے تیرا سونا نماز ہو اور ہرگز اپنے شکم کو مکمل طور پر سیر نہ کرنا ۔
ایک اور حصہ میں آیا ہے :
”اے احمد! میری محبت فقیروں اور محروموں سے محبت ہے ،ان کے قریب ہوجاو اور ان کی مجلس کے قریب بیٹھو کہ میں تیرے نزدیک ہوں اور دنیا پرست اور ثروت مندوں کو اپنے سے دور رکھو اور ان کی مجالس سے بچتے رہو “۔
اہل دنیا و آخرت
ایک اور حصہ میں آیاہے:
”اے احمد !دنیا کے زرق برق اور دنیا پرستوں کو مبغوض شمار کر اور آخرت کو محبوب رکھ“ عرض کرتے ہیں :
پروردگارا :!اہل دنیا اور اہل آخرت کون ہیں ؟۔
فرمایا :”اہل دنیا تو وہ لوگ ہیں جو زیادہ کھاتے ہیں زیادہ ہنستے ہیں زیادہ سوتے ہیں اور غصہ کرتے ہیں اور تھوڑا خوش ہوتے ہیں نہ ھی تو برائیوں کے مقابلہ میں کسی سے عذر چاہتے ہیں ۔اور نہ ھی کسی عذر چاہنے والے سے اس کا عذر قبول کرتے ہیں اطاعت خدا میں سست ہیں اور گناہ کرنے میں دلیر ہیں ، لمبی چوڑی آرزوئیں رکھتے ہیں حالانکہ ان کی اجل قریب آپہنچی ہے مگر وہ ہر گز اپنے اعمال کا حساب نہیں کرتے ان سے لوگوں کو بہت کم نفع ہوتا ہے، باتیں زیادہ کرتے ہیں احساس ذمہ داری نہیں رکھتے اور کھانے پینے سے ھی غرض رکھتے ہیں ۔
اہل دنیا نہ تو نعمت میں خدا کا شکریہ ادا کرتے ہیں اورنہ ھی مصائب میں صبر کرتے ہیں ۔ زیادہ خدمات بھی ان کی نظر میں تھوڑی ہیں (اور خود ان کی اپنی خدمات تھوڑی بھی زیادہ ہیں ) اپنے اس کام کے انجام پانے پر جو انہوں نے انجام نہیں دیا ہے تعریف کرتے ہیں اور ایسی چیز کا مطالبہ کرتے ہیں جو ان کا حق نہیں ہے ۔ ہمیشہ اپنی آرزوؤں اور تمنا وں کی بات کرتے ہیں اور لوگوں کے عیوب تو بیان کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی نیکیوں کو چھپاتے ہیں ۔
” عرض کیا :پروردگارا :!کیا دنیا پرست اس کے علاوہ بھی کوئی عیب رکھتے ہیں ؟
”فرمایا : اے احمد !ان کا عیب یہ ہے کہ جھل اور حماقت ان میں بہت زیادہ ہے جس استاد سے انہوں علم سیکھا ہے وہ اس سے تواضع نہیں کرتے اور اپنے آپ کو عاقل کل سمجھتے ہیں حالانکہ وہ صاحبان علم کے نزدیک نادان اور احمق ہیں “ ۔
اہل بہشت کے صفات
خدا وند عالم اس کے بعد اہل آخرت اور بہشتیوں کے اوصاف کو یوں بیان کرتا ہے : ”وہ ایسے لوگ ہیں جو با حیا ہیں ان کی جھالت کم ہے ، ان کے منافع زیادہ ہیں ،لوگ ان سے راحت و آرام میں ہوتے ہیں اور وہ خود اپنے ہاتھوں تکلیف میں ہوتے ہیں اور ان کی باتیں سنجیدہ ہوتی ہیں “۔
وہ ہمیشہ اپنے اعمال کا حساب کرتے رہتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ خود کو زحمت میں ڈالتے رہتے ہیں ان کی آنکہیں سوئی ہوئی ہوتی ہیں لیکن ان کے دل بیدار ہوتے ہیں ان کی آنکھ گریاں ہوتی ہے اور ان کا دل ہمیشہ یاد خدا میں مصروف رہتا ہے جس وقت لوگ غافلوں کے زمرہ میں لکہے جارہے ہوں وہ اس وقت ذکر کرنے والوں میں لکہے جاتے ہیں ۔
نعمتوں کے آغاز میں حمد خدا بجالاتے ہیں اور ختم ہونے پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں ، ان کی دعائیں بارگاہ خدا میں قبول ہوتی ہیں اور ان کی حاجتیں پوری کی جاتی ہیں اور فرشتے ان کے وجود سے مسرور اور خوش رہتے ہیں ۔۔۔(غافل )لوگ ان کے نزدیک مردہ ہیں اور خدا اُن کے نزدیک حی و قیوم اور کریم ہے (ان کی ہمت اتنی بلند ہے کہ وہ اس کے سوا کسی کے اوپر نظر نہیں رکھتے )
لوگ تو اپنی عمر میںصرف ایک ھی دفعہ مرتے ہیں لیکن وہ جھاد باالنفس اور ہواوہوس کی مخالفت کی وجہ سے ہر روز ستر مرتبہ مرتے ہیں (اور نئی زندگی پاتے ہیں )
جس وقت عبادت کے لئیے میرے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو ایک فولادی باندھ اور بنیان مرصوص کے مانند ہوتے ہیں اور ان کے دل میںمخلوقات کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ہے کہ میں انہیں ایک پاکیزہ زندگی بخشونگا اور عمر کے اختتام پر میں خود ان کی روح کو قبض کروںگا اور ان کی پرواز کے لئے آسمان کے دروازوں کو کھول دوں گاتمام حجابوں کو ان کے سامنے سے ہٹا دوں گا اور حکم دوں گا کہ بہشت خود اپنے ان کے لئے آراستہ کرے ۔۔۔ ”اے احمد! عبادت کے دس حصہ ہیں جن میں سے نو حصے طلب رزق حلال میں ہیں جب تیرا کھانا اور پینا حلال ہوگا تو تیری حفظ و حمایت میں ہوگا۔۔۔۔“
بہترین اور جاویدانی زندگی
ایک اور حصہ میں آیا ہے:
”اے احمد ! کیا تو جانتا ہے کہ کونسی زندگی زیادہ گوارا اور زیادہ دوام رکھتی ہے“؟
عرض کیا : خداوندا: نہیں ۔
فرمایا: گوارا زندگی وہ ہوتی ہے جس کا صاحب ایک لمحہ کے لئے بھی میری یاد سے غافل نہ رہے، میری نعمت کو فراموش نہ کرے ، میرے حق سے بے خبر نہ رہے اور رات دن میری رضا کو طلب کرے۔
لیکن باقی رہنے والی زندگی وہ ہے جس میں اپنی نجات کے لئے عمل کرے ، دنیا اس کی نظر میں حقیر ہو اور آخرت بڑی اور بزرگ ہو، میری رضا کو اپنی رضا پر مقدم کرے، اور ہمیشہ میری خوشنودی کو طلب کرے، میرے حق کو بڑا سمجھے اور اپنی نسبت میری آگاھی کی طرف توجہ رکہے۔
ہرگناہ اور معصیت پر مجھے یاد کرلیا کرے ، اور اپنے دل کو اس چیز سے جو مجھے پسند نہیں ہے پاک رکہے، شیطانی وسو سوں کو مبغوض رکہے ،اور ابلیس کو اپنے دل پر مسلط نہ کرے ۔
جب وہ ایسا کرے گا تو میں ایک خاص قسم کی محبت کو اس کے دل میں ڈال دوں گا اس طرح سے کہ اس کا دل میرے اختیار میں ہوگا ، اس کی فرصت اور مشغولیت اس کا ہم وغم اور اس کی بات ان نعمتوں کے بارے میں ہوگی جو میں اہل محبت کو بخشتا ہوں ۔ میں اس کی آنکھ اور دل کے کان کھول دیتا ہوں تاکہ وہ اپنے دل کے کان سے غیب کے حقائق کو سننے اور اپنے دل سے میرے جلال وعظمت کو دیکہے“ :
اور آخر میں یہ نورانی حدیث ان بیدار کرنے والے جملوں پر ختم ہوجاتی ہے :
” اے احمد ! اگر کوئی بندہ تمام اہل آسمان اور تمام اہل زمین کے برابر نماز ادا کرے ،اور تمام اہل آسمان وزمین کے برابر روزہ رکہے، فرشتوں کی طرح کھانانہ کھائے اور کوئی فاخرہ لباس بدن پر نہ پہنے (اور انتھائی زہد اور پارسائی کی زندگی بسر کرے) لیکن اس کے دل میں ذرہ برابر بھی دنیا پرستی یا ریاست طلبی یازینت دنیا کا عشق ہو تو وہ میرے جاودانی گہر میں میرے جوار میں نہیں ہوگا اور میںاپنی محبت کو اس کے دل سے نکال دوں گا ،میرا سلام ورحمت تجھ پر ہو ،والحمد للہ رب العالمین “
یہ عرشی باتیں ۔۔جو انسانی روح کو آسمانوں کی طرف بلند کرتی ہیں ، اور آستانہ عشق وشہود کی طرف کھینچتی ہیں ۔حدیث قدسی کا صرف ایک حصہ ہے ۔
مزید براں ہمیں اطمینان ہے کہ پیغمبر نے اپنے ارشادات میں جو کچھ بیان فرمایا ہے ان کے علاوہ بھی، اس شب عشق وشوق اور جذبہ ووصال کی شب میں ، ایسی باتیں ، اسرارورموز اور اشارے آپ کے اور آپ کے محبوب کے درمیان ہوتے ہیں جن کو نہ تو کان سننے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ عام افکار میں ان کے درک کی صلاحیت ہے، اور اسی بناپر وہ ہمیشہ پیغمبر کے دل وجان کے اندر ھی مکتوم اور پوشیدہ رہے ، اور آپ کے خواص کے علاوہ کوئی بھی ان سے آگاہ نہیں ہوا ۔