جنگ احد
جنگ احد کا پیش خیمہ
جب کفار مکہ جنگ بدر میں شکست خوردہ ہوئے اور ستر( ۷۰) قیدی چھوڑکر مکہ کی طرف پلٹ گئے تو ابو سفیان نے لوگوں کو خبر دار کیا کہ وہ اپنی عورتوں کو مقتولین بدر پر گریہ وزاری نہ کرنے دیں کیونکہ آنسو غم واندوہ کو دور کردیتے ہیں اور اس طرح محمد کی دشمنی اور عداوت ان کے دلوں سے ختم ہوجائے گی ، ابو سفیان نے خود یہ عہد کررکھا تھا کہ جب تک جنگ بدر کے قاتلوں سے انتقام نہ لے لے اس وقت تک وہ اپنی بیوی سے ہمبستری نہیں کرے گا ،بہر حال قریش ہر ممکن طریقہ سے لوگوں کوپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلاف اکساتے تھے اور انتقام کی صدا شہر مکہ میں بلند ہورھی تھی ۔
ہجرت کے تیسرے سال قریش ہزار سوار اور دوہزار پیدل کے ساتھ بہت سامان جنگ لے کر آپ سے جنگ کرنے کے لئے مکہ سے نکلے اور میدان جنگ میں ثابت قدمی سے لڑنے کے لئے اپنے بڑے بڑے بت اور اپنی عورتوں کو بھی ہمراہ لے آئے ۔
جناب عباس کی بر وقت اطلاع
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچاحضرت عباس جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اور قریش کے درمیان ان کے ہم مشرب و ہم مذھب تھے لیکن اپنے بھتیجے سے فطری محبت کی بنا پر جب انھوں نے دیکھا کہ قریش کا ایک طاقتور لشکر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جنگ کرنے کے لئے مکہ سے نکلا ہے تو فوراً ایک خط لکھا اور قبیلہ بنی غفار کے ایک آدمی کے ہاتھ مدینہ بھیجا ،عباس کا قاصد بڑی تیزی سے مدینہ کی طرف روانہ ہوا ،جب آپ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے سعد بن ابی کو عباس کا پیغام پہنچایا اور حتی الامکان اس واقعہ کو پردہ راز میں رکھنے کی کوشش کی ۔
پیغمبر کا مسلمانوں سے مشورہ
جس دن عباس(رض) کا قاصد آپ کو موصول ہوا آپ نے چند مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ مکہ ومدینہ کے راستہ پر جائیں اور لشکر کفار کے کوائف معلوم کریں، آپ کے دو نمائندے ان کے حالات معلوم کرکے بہت جلدی واپس آئے اور قریش کی قوت وطاقت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مطلع کیا اور یہ بھی اطلاع دی کہ طاقتور لشکر خود ابوسفیان کی کمان میں ہے ۔
پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چند روز کے بعد تمام اصحاب اور اہل مدینہ کو بلایا اور ان در پیش حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے میٹنگ کی، اس میں عباس کے خط کو بھی پیش کیا گیا اور اس کے بعد مقام جنگ کے بارے میں رائے لی گئی اس میٹنگ میں ایک گروہ نے رائے دی کہ جنگ دشمن سے مدینہ کی تنگ گلیوں میں کی جائے کیونکہ اس صورت میں کمزور مرد ،عورتیں بلکہ کنیزیں بھی مدد گار ثابت ہوسکیں گی۔
عبد اللہ بن ابی نے تائید ا ًکھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آج تک ایسا نہیں ہوا کہ ہم اپنے قلعوں اور گہروں میں ہوں اور دشمن ہم پر کامیاب ہوگیا ہو ۔
اس رائے کو آپ بھی اس وقت کی مدینہ کی پوزیشن کے مطابق بنظر تحسین دیکھتے تھے کیونکہ آپ بھی مدینہ ھی میں ٹھہرنا چاہتے تھے لیکن نوجوانوں اورجنگجو وں کا ایک گروہ اس کا مخالف تھا چنانچہ سعد بن معاذ اور قبیلہ اوس کے چند افراد نے کھڑے ہو کر کھا اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گذشتہ زمانے میں عربوں میں سے کسی کو یہ جراءت نہ تھی کہ ہماری طرف نظر کرے جبکہ ہم مشرک اور بت پرست تھے اب جبکہ ہمارے درمیان آپ کی ذات والا صفات موجود ہے کس طرح وہ ہمیں دبا سکتے ہیں اس لئے شہرسے باہر جنگ کرنی چاہئے اگر ہم میں سے کوئی مارا گیا تو وہ جام شھادت نوش کرے گا اور اگر کوئی بچ گیا تو اسے جھاد کا اعزازوافتخار نصیب ہوگا اس قسم کی باتوں اور جوش شجاعت نے مدینہ سے باہر جنگ کے حامیوں کی تعدا دکو بڑھا دیا یہاں تک کہ عبد اللہ بن ابی کی پیش کش سرد خانہ میں جاپڑی خود پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی اس مشورے کا احترام کیااور مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کے طرف داروں کی رائے کو قبول فرمالیا اور ایک صحابی کے ساتھ مقام جنگ کا انتخاب کرنے کے لئے شہر سے باہر تشریف لے گئے آپ نے کوہ احد کا دامن لشکر گاہ کے لئے منتخب کیا کیونکہ جنگی نقطہ نظر سے یہ مقام زیادہ مناسب تھا۔
مسلمانوں کی دفاعی تیاریاں
جمعہ کے دن آپ نے یہ مشورہ لیا اور نماز جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے آپ نے حمدو ثناء کے بعد مسلمانوں کو لشکر قریش کی آمد کی اطلاع دی اور فرمایا:
” تہہ دل سے جنگ کے لئے آمادہ ہوجاؤ اور پورے جذبہ سے دشمن سے لڑو تو خدا وند قددس تمہیں کامیابی وکامرانی سے ہمکنار کرے گا اور اسی دن آپ ایک ہزار افراد کے ساتھ لشکر گاہ کی طرف روانہ ہوئے آپ خود لشکر کی کمان کررہے تھے مدینہ سے نکلنے سے قبل آپ نے حکم دیا کہ لشکر کے تین علم بنائے جائیں جن میں ایک مہاجرین اور دو انصار کے ہوں“۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ اور احد کے درمیانی فاصلے کو پاپیادہ طے کیا اور سارے راستے لشکر کی دیکھ بھال کرتے رہے خود لشکر کی صفوں کو منظم ومرتب رکھا تاکہ وہ ایک ھی سیدھی صف میں حرکت کریں ۔
ان میں سے کچھ ایسے افراد کو دیکھا جو پہلی وفعہ آپ کو نظر پڑے پوچھا کہ یہ لوگ کون ہیں ؟ بتایا گیا کہ یہ عبداللہ بن ابی کے ساتھی کچھ یہودی ہیں اور اس مناسبت سے مسلمانوں کی مدد کے لئے آئے ہیں آپ نے فرمایا کہ مشرکین سے جنگ کرنے میں مشرکین سے مدد نہیں لی جاسکتی مگریہ کہ یہ لوگ اسلام قبول کرلیں یہودیوں نے اس شرط کو قبول نہ کیا اور سب مدینہ کی طرف پلٹ آئے یوں ایک ہزار میں سے تین سو افراد کم ہوگئے ۔
لیکن مفسرین نے لکھا ہے کہ چونکہ عبداللہ بن اُبی کی رائے کو رد کیا گیا تھا اس لئے وہ اثنائے راہ میں تین سوسے زیادہ افراد کو لے کر مدینہ کی طرف پلٹ آیا بہر صورت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لشکر کی ضروری چھان بین (یہودیوں یا ابن ابی ابی کے ساتھیوں کے نکالنے) کے بعد سات سو افراد کو ہمراہ لے کر کوہ احد کے دامن میں پہنچ گئے، اور نماز فجر کے بعد مسلمانوں کی صفوں کو آراستہ کیا۔
عبد اللہ بن جبیر کو پچاس ماہر تیر اندازوں کے ساتھ پھاڑ کے درہ پر تعینات کیا اور انہیں تاکید کی کہ وہ کسی صورت میں اپنی جگہ نہ چھوڑیں اور فوج کے پچھلے حصے کی حفاظت کریں اور اس حد تک تاکید کی کہ اگر ہم دشمن کا مکہ تک پیچھا کریں یا ہم شکست کھاجائیں اور دشمن ہمیں مدینہ تک جانے پر مجبور کردے پہر بھی تم اپنا مورچہ نہ چھوڑنا، دوسری طرف سے ابو سفیان نے خالد بن ولید کو منتخب سپاھیوں کے ساتھ اس درہ کی نگرانی پر مقرر کیا اور انہیں ہر حالت میں وہیں رہنے کا حکم د یا اور کھا کہ جب اسلامی لشکر اس درہ سے ہٹ جائے تو فوراً لشکر اسلام پر پیچہے سے حملہ کردو۔
آغاز جنگ
دونوں لشکر ایک دوسرے کے آمنے سامنے جنگ گے لئے آمادہ ہوگئے اور یہ دونوں لشکر اپنے نوجوانوں کو ایک خاص انداز سے اکسا رہے تھے، ابوسفیان کعبہ کے بتوں کے نام لے کر اور خوبصورت عورتوں کے ذریعے اپنے جنگی جوانوںکی توجہ مبذول کراکے ان کو ذوق وشوق دلاتا تھا۔
جب کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خدا کے اسم مبارک اور انعامات اعلیٰ کے حوالے سے مسلمانوں کو جنگ کی ترغیب دیتے تھے اچانک مسلمانوں کی صدائے اللہ اکبراللہ اکبر سے میدان اور دامن کوہ کی فضا گونج اٹھی جب کہ میدان کی دوسری طرف قریش کی لڑکیوں نے دف اور سارنگی پر اشعار گا گا کر قریش کے جنگ جو افراد کے احساسات کو ابھارتی تہیں ۔
جنگ کے شروع ہوتے ھی مسلمانوں نے ایک شدید حملہ سے لشکر قریش کے پرخچے اڑادئیے اور وہ حواس باختہ ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے اور لشکر اسلام نے ان کا پیچھا کرنا شروع کردیا خالدبن ولید نے جب قریش کی یقینی شکت دیکھی تو اس نے چاھا کہ درہ کے راستے نکل کر مسلمانوں پر پیچہے سے حملہ کرے لیکن تیراندازوں نے اسے پیچہے ہٹنے پر مجبور کردیا قریش کے قدم اکھڑتے دیکھ کر تازہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے دشمن کو شکت خوردہ سمجھ کرمال غنیمت جمع کرنے کے لئے اچانک اپنی پوزیشن چھوڑدی ، ان کی دیکھا دیکھی درہ پر تعینات تیراندازوں نے بھی اپنا مورچہ چھوڑدیا، ان کے کمانڈرعبد اللہ بن جبیرنے انہیں آ نحضرت کا حکم یاددلایا مگرسوائے چند (تقریبا ًدس افراد) کے کوئی اس اہم جگہ پر نہ ٹھہرا۔
پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مخالفت کا نتیجہ یہ ہوا کہ خالدبن ولید نے درہ خالی دیکھ کر بڑی تیزی سے عبد اللہ بن جبیر پر حملہ کیا اور اسے اس کے ساتھیوں سمیت قتل کردیا، اس کے بعد انہوں نے پیچہے سے مسلمانوں پر حملہ کردیا اچانک مسلمانوں نے ہر طرف چمک دار تلواروں کی تیزدھاروں کو اپنے سروں پر دیکھا تو حواس باختہ ہوگئے اور اپنے آپ کو منظم نہ رکھ سکے قریش کے بھگوڑوں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو وہ بھی پلٹ آئے اور مسلمانوں کو چاروں طرف سے گھیرلیا۔
اسی موقع پر لشکر اسلام کے بھادر افسر سید الشہداء حضرت حمزہ نے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ جام شھادت نوش کیا ،سوائے چند شمع رسالت کے پروانوں کے اور بقیہ مسلمانوں نے وحشت زدہ ہوکر میدان کو دشمن کے حوالے کردیا۔
اس خطرناک جنگ میں جس نے سب سے زیادہ فداکاری کا مظاہرہ کیا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ہونے والے دشمن کے ہر حملے کا دفاع کیا وہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام تھے ۔
حضرت علی علیہ السلام بڑی جراءت اور بڑے حوصلہ سے جنگ کررہے تھے یہاں تک کہ آپ کی تلوار ٹوٹ گئی، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی تلوار آپ کو عنایت فرمائی جو ذوالفقار کے نام سے مشہور ہے بالآخر آپ ایک مورچہ میں ٹھہرگئے اور حضرت علی علیہ السلام مسلسل آپ کا دفاع کرتے رہے یہاں تک کہ بعض مورخین کی تحقیق کے مطابق حضرت علی علیہ السلام کے جسم پر ساٹھ کاری زخم آئے، اور اسی موقع پر قاصد وحی نے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا :اے محمد ! یہ ہے مواسات ومعاونت کا حق ،آپ نے فرمایا ( ایسا کیوں نہ ہو کہ ) علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں ،تو جبرئیل نے اضافہ کیا : میں تم دونوں سے ہوں ۔
امام صادق ارشاد فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قاصد وحی کو آسمان میں یہ کہتے ہوئے دیکھا کہ:”لاسیف الاذوالفقار ولا فتی الا علی “
(ذوالفقار کے علاوہ کوئی تلوار نہیں اور علی کے سوا کوئی جوانمرد نہیں )
اس اثناء میں یہ آواز بلند ہوئی کہ محمد قتل ہوگئے ۔
یہ آواز فضائے عالم میں گونج اٹھی اس آواز سے جتنابت پرستوں کے جذبات پر مثبت اثر پیدا ہوا اتناھی مسلمانوں میں عجیب اضطراب پیدا ہوگیا چنانچہ ایک گروہ کے ہاتھ پاؤں جواب دے گئے اور وہ بڑی تیزی سے میدان جنگ سے نکل گئے یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے سوچا کہ پیغمبر شھیدہو گئے ہیں لہٰذا اسلام ھی کو خیرباد کہہ دیا جائے اور بت برستوں کے سرداروں سے امان طلب کرلی جائے لیکن ان کے مقابلہ میں فداکاروں اور جانثاروں کی بھی ایک قلیل جماعت تھی جن میں حضرت علی ابود جانہ اور طلحہ جیسے بھادر لوگ موجود تھے جوباقی لوگوں کوپامردی اور استقامت کی دعوت دے رہے تھے ان میں سے انس بن نضر لوگوں کے درمیان آیا اور کہنے لگا :اے لوگو ! اگر محمد شھید ہوگئے ہیں تو محمد کا خدا تو قتل نہیں ہوا چلو اور جنگ کرو ،اسی نیک اور مقدس ہدف کے حصول کے لئے درجہ شھادت پر فائز ہو جاؤ ،یہ گفتگو تمام کرتے ھی انھوں نے دشمن پر حملہ کردیا یہاں تک کہ شھید ہوگئے ،تاہم جلد معلوم ہوگیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سلامت ہیں اور اطلاع ایک شایعہ تھی ۔
کون پکارا کہ محمد (ص) قتل ہوگئے ؟
”ابن قمعہ“ نے اسلامی سپاھی مصعب کو پیغمبر سمجھ کر اس پر کاری ضرب لگائی اور باآواز بلند کھا :لات وعزی کی قسم محمد قتل ہوگئے ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ افواہ چاہے مسلمانوں نے اڑائی یا دشمن نے لیکن مسلمانوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئی اس لئے کہ جب آواز بلند ہوئی تو دشمن میدان چھوڑ کر مکہ کی طرف چل پڑے ورنہ قریش کا فاتح لشکر جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے دلوں میں کینہ رکھتا تھا اور انتقام لینے کی نیت سے آیا تھا کبھی میدان نہ چھوڑتا، قریش کے پانچ ہزار افراد پر مشتمل لشکر نے میدان جنگ میں مسلمانوں کی کامیابی کے بعد ایک رات بھی صبح تک وھاں نہ گذاری اور اسی وقت مکہ کی طرف چل پڑے۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شھادت کی خبر نے بعض مسلمانوں میں اضطراب وپریشانی پیدا کردی ،جو مسلمان اب تک میدان کارزار میں موجود تھے، انھوں نے اس خیال سے کہ دوسرے مسلمان پراکندہ نہ ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پھاڑ کے اوپر لے گئے تاکہ مسلمانوں کو پتہ چل جائے کہ آپ بقید حیات ہیں ، یہ دیکھ کر بھگوڑے واپس آگئے اور آنحضرت کے گرد پروانوں کی طرح جمع ہوگئے ،آپ نے ان کو ملامت وسرزنش کی کہ تم نے ان خطرناک حالات میں کیوں فرار کیا ،مسلمان شرمندہ تھے انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کھا : یا رسول خدا ہم نے آپ کی شھادت کی خبر سنی تو خوف کی شدت سے بھاگ کھڑے ہوے۔
مفسر عظیم مرحوم طبرسی، ابو القاسم بلخی سے نقل کرتے ہیں کہ جنگ احد کے دن( پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ)سوائے تیرہ افرادکے تمام بھاگ گئے تھے، اور ان تیرہ میں سے آٹھ انصار اور پانچ مھاجرتھے، جن میں سے حضرت علی علیہ السلام اور طلحہ کے علاوہ باقی ناموں میں اختلاف ہے، البتہ دونوں کے بارے میں تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ انھوں نے فرار نہیں کیا۔
یوں مسلمانوں کو جنگ احد میں بہت زیادہ جانی اورمالی نقصان کا سامنا کرنا،پڑا مسلمانوں کے ستر افراد شھید ہوئے اور بہت سے زخمی ہوگئے لیکن مسلمانوں کو اس شکست سے بڑا درس ملا جو بعد کی جنگوں میں ان کی کامیابی و کامرانی کا باعث بنا ۔