رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات

رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات 0%

رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)

رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات: مشاہدے: 16439
ڈاؤنلوڈ: 4146

تبصرے:

رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16439 / ڈاؤنلوڈ: 4146
سائز سائز سائز
رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات

رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ابو سفیان کی بیوی ہندہ کی بیعت کا ماجرا

فتح مکہ کے واقعہ میں جن عورتوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت کی ان میں سے ایک ابو سفیان کی بیوی”ہندہ“تھی، یعنی وہ عورت جس کی طرف سے تاریخ اسلام بہت سے دردناک واقعات محفوظ رکہے ہوئے ہے،ا ن میں سے ایک میدان احد میں حمزہ سید الشہداء (ع) کی شھادت کا واقعہ ہے کہ جس کی کیفیت بہت ھی غم انگیز ہے ۔

اگرچہ آخرکاروہ مجبور ہوگئی کہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے گھٹنے ٹیک دے او رظاہراً مسلمان ہو جائے لیکن اسکی بیعت کا ماجرا بتاتا ہے کہ وہ حقیقت میں اپنے سابقہ عقائد کی اسی طرح وفادار تھی، لہٰذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کہ بنی امیہ کا خاندان اور ہندہ کی اولادنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا کہ جن کی سابقہ زمانہ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔

بہر حال مفسرین نے اس طرح لکھا ہے کہ ہند ہ نے اپنے چہرے پر نقاب ڈالا ہوا تھا وہ پیغمبر کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئی جب آپ کوہ صفا پر تشریف فرما تھے اور عورتوںکی ایک جماعت ہندہ کے ساتھ تھی، جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایاکہ میں تم عورتوںسے اس بات پر بیعت لتیا ہوں کہ تم کسی چیز کو خدا کا شریک قرار نہیں دو گی، تو ہندہ نے اعتراض کیا او رکھا:”آپ ہم سے ایسا عہد لے رہے ہیں جو آپ نے مردوں سے نہیں لیا ، (کیونکہ اس دن مردوں سے صرف ایمان اورجھاد پربیعت لی گئی تھی ۔)

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی بات کی پرواہ کئے بغیر اپنی گفتگو کو جاری فرمایا:”کہ تم چوری بھی نہیں کرو گی،“ہند ہ نے کھا: ابو سفیان کنجوس اوربخیل آدمی ہے میں نے اس کے مال میں سے کچھ چیزیںلی ہیں ، میں نہیں جانتی کہ وہ انہیں مجھ پر حلال کرے گا یا نہیں !ابو سفیان موجود تھا ،اس نے کھا: جو کچھ تو نے گذشتہ زمانہ میں میرے مال میںسے لے لیا ہے وہ سب میں نے حلال کیا ،(لیکن آئندہ کے لئے پابندی کرنا ۔)

اس موقع پر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہنسے اور ہندہ کو پہچان کر فرمایا:”کیا تو ہندہ ہے“؟ اس نے کھا :جی ھاں ،یا رسول اللہ !پچھلے امور کو بخش دیجئے خدا آپ کو بخشے “۔!!

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی گفتگو کو جاری رکھا:”او رتم زنا سے آلودہ نہیں ہوگی،“ہندہ نے تعجب کرتے ہوئے کھا:”کیا آزاد عورت اس قسم کا عمل بھی انجام دیتی ہے؟“حاضرین میںسے بعض لوگ جو زمانہ جاہلیت میں اس کی حالت سے واقف تھے اس کی اس بات پر ہنس پڑے کیونکہ ہندہ کا سابقہ زمانہ کسی سے مخفی نہیں تھا۔

پہر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

”اور تم اپنی اولاد کو قتل نہیں کروگی “۔

ہند نے کھا:”ہم نے تو انہیں بچپن میں پالا پوسا تھا،مگر جب وہ بڑے ہوئے تو آپ نے انہیں قتل کردیا، اب آپ او روہ خود بہتر جانتے ہیں “۔( اس کی مراد اس کا بیٹا ”حنظلہ“تھا جو بدر کے دن علی علیہ السلام کے ہاتھوں ماراگیا تھا۔)

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی اس بات پر تبسم فرمایا، او رجب آپ اس بات پر پہنچے او رفرمایا:

”تم بہتان او رتہمت کو روا نہیں رکھوگی “۔

تو ہندہ نے کھا:”بہتان قبیح ہے او رآپ ہمیں صلاح و درستی ،نیکی او رمکارم اخلاق کے سوا او رکسی چیز کی دعوت نہیں دیتے“۔

جب آپ نے یہ فرمایا:

”تم تمام اچہے کاموں میں میرے حکم کی اطاعت کروگی “۔تو ہندہ نے کھا:”ہم یہاں اس لئے نہیں بیٹہے ہیں کہ ہمارے دل میں آپ کی نافرمانی کاارادہ ہو“۔

(حالانکہ مسلمہ طور پر معاملہ اس طرح نہیں تھا، لیکن تعلیمات اسلامی کے مطابق پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بات کے پابند تھے کہ ان کے بیانات کو قبول کرلیں۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خطوط دنیا کے بادشاہوںکے نام تاریخ اسلام سے معلوم ہوتا ہے کہ جب سرزمین حجاز میںاسلام کافی نفوذ کرچکا تو پیغمبراکرم نے اس زمانے کے بڑے بڑے حکمرانوں کے نام کئی خطوط روانہ کیے ۔ ان میں بعض خطوط میں کا سھارا لیا گیا ہے ،جس میں آسما نی ادیان کی قدر مشترک کا تذکرہ ہے۔