مقوقس
کے نام خط
مقوقس مصر کا حاکم تھا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں او رحکام کو خطوط لکہے او رانہیں اسلام کی طرف دعوت دی،حاطب بن ابی بلتعہ کو حاکم مصر مقوقس کی طرف یہ خط دے کرروانہ کیا۔
بسم اللّٰه الرحمن الرحیم
من: محمد بن عبداللّٰه
الی: المقوقس عظیم القبط
سلام علی من اتبع الهدیٰ ،اما بعد:”فانی ادعوک بدعایةالاسلام
اسلم تسلم،یوتک اللّٰه اجرک مرتین، فان تولیت فانما علیکم اثم
القبط،یا اهل الکتٰب تعالواالیٰ کلمة سواء بیننا و بینکم” ان لا نعبد الا اللّٰه ولا نشرک به شیئاً ولا تتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّٰه ،فان تولوا فقولوا اشهدوا بانا مسلمون“
اللہ کے نام سے جو بخشنے والا بڑا مہربان ہے ۔
از ۔۔۔محمد بن عبد اللہ
بطرف۔۔۔قبطیوں کے مقوقس بزرگ ۔ حق کے پیروکاروں پر سلام ہو۔
میں تجہے اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام لے آؤ تاکہ سالم رہو ۔ خدا تجہے دوگنا اجر دے گا ۔ (ایک خود تمھارے ایمان لانے پر اوردوسراان لوگوں کی وجہ سے جو تمھاری پیروی کرکے ایمان لائیں گے ) او راگر تو نے قانون اسلام سے روگردانی کی تو قبطیوں کے گناہ تیرے ذمہ ہوں گے ۔۔اے اہل کتاب! ہم تمہیں ایک مشترک بنیادکی طرف دعوت دیتے ہیں او روہ یہ کہ ہم خدائے یگانہ کے سوا کسی کی پرستش نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں حق سے روگردانی نہ کریں تو ان سے کہو کہ گواہ رہو ہم تم مسلمان ہیں “۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سفیر مصر کی طرف روانہ ہوا، اسے اطلاع ملی کہ حاکم مصر اسکندریہ میں ہے لہٰذا وہ اس وقت کے ذرائع آمد ورفت کے ذریعے اسکندریہ پہنچا او رمقوقس کے محل میں گیا، حضرت کا خط اسے دیا ، مقوقس نے خط کھول کر پڑھا کچھ دیر تک سوچتا رھا، پہر کہنے لگا:”اگر واقعاً محمدخدا کا بھیجا ہوا ہے تو اس کے مخالفین اسے اس کی پیدائش کی جگہ سے باہر نکالنے میں کیوں کامیاب ہوئے او روہ مجبور ہوا کہ مدینہ میں سکونت اختیار کرے؟ ان پر نفرین او ربد دعا کیوں نہیں کی تاکہ وہ نابود ہو جاتے؟“
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قاصد نے جواباً کھا:
”حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے رسول تھے اور آپ بھی ان کی حقانیت کی گواھی دیتے ہیں ، بنی اسرائیل نے جب ان کے قتل کی سازش کی توآپ نے ان پر نفرین اور بد دعا کیوں نہیں کی تاکہ خدا انہیں ہلاک کردیتا؟
یہ منطق سن کر مقو قس تحسین کرنے لگا اور کہنے لگا :
”احسنت انت حکیم من عند حکیم “
”آفرین ہے ،تم سمجھ دار ہو اور ایک صاحب حکمت کی طرف سے آئے ہو “
حاطب نے پہر گفتگو شروع کی اور کھا :
”آپ سے پہلے ایک شخص (یعنی فرعون )اس ملک پر حکومت کرتا تھا ،وہ مدتوں لوگوں میں اپنی خدائی کا سودا بیچتا رھا ،بآلاخر اللہ نے اسے نابود کر دیا تاکہ اس کی زندگی آپ کے لئے باعث عبرت ہو لیکن آپ کوشش کریں کہ آپ کی زندگی دوسروں کے لئے نمونہ بن جائے“۔
”پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں ایک پاکیزہ دین کی طرف دعوت دی ہے ، قریش نے ان سے بہت سخت جنگ کی او ران کے مقابل صف آراء ہوئے، یہودی بھی کینہ پروری سے ان کے مقابلے میں آکھڑے ہوئے او راسلام سے زیادہ نزدیک عیسائی ہیں ۔ “
مجھے اپنی جان کی قسم جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی بشارت دی تھی اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت محمد کے مبشر تھے ، ہم آپ لوگوں نے تو ریت کے ماننے والوں کو انجیل کی دعوت دی تھی ،جوقوم پیغمبرحق کی دعوت کو سنے اسے چاہئے کہ اس کی پیروی کرے ،میں نے محمد کی دعوت آپ کی سرزمین تک پہنچادی ہے، مناسب یھی ہے کہ آپ او رمصری قوم یہ دعوت قبول کر لے“۔
حاطب کچھ عرصہ اسکندریہ ھی میں ٹھہرا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خط کا جواب حاصل کرے ،چند روز گزر گئے، ایک دن مقوقس نے حاطب کو اپنے محل میں بلایا او رخواہش کی کہ اسے اسلام کے بارے میں کچھ مزید بتایا جائے۔
حاطب نے کھا:
”محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں خدانے یکتا ئی پرستش کی دعوت دیتے ہیں او رحکم دیتے ہیں کہ لوگ روزوشب میں پانچ مرتبہ اپنے پروردگار سے قریبی رابطہ پیدا کریں او رنماز پڑہیں ،پیمان پورے کریں ،خون او رمردار کھانے سے اجتناب کریں“۔
علاوہ ازیں حاطب نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کی بعض خصوصیات بھی بیان کیں۔
مقوقس کہنے لگا:
”یہ تو بڑی اچھی نشانیاں ہیں ۔ میرا خیال تھا کہ خاتم النبیین سرزمین شام سے ظہور کریں گے جو انبیاء علیہم السلام کی سرزمین ہے،اب مجھ پر واضح ہوا کہ وہ سر زمین حجاز سے مبعوث ہوئے ہیں “۔
اس کے بعد اس نے اپنے کاتب کو حکم دیا کہ وہ عربی زبان میں اس مضمون کا خط تحریر کرے:
بخدمت : محمد بن عبد اللہ ۔
منجانب: قبطیوں کے بزرگ مقوقس ۔
”آپ پر سلام ہو،میںنے آپ کاخط پڑھا ،آپ کے مقصد سے باخبر ہوااو رآپ کی دعوت کی حقیقت کو سمجھ لیا،میں یہ تو جانتا تھا کہ ایک پیغمبر ظہور کرے گا لیکن میرا خیال تھا کہ وہ خطہ شام سے مبعوث ہوگا، میں آ پ کے قاصد کا احترام کرتا ہوں“۔
پہر خط میں ان ہدیوں اور تحفوں کی طرف اشارہ کیا جواس نے آپ کی خدمت میں بھیجے ،خط اس نے ان الفاظ پر تمام کیا۔
”آپ پر سلام ہو“
تاریخ میں ہے کہ مقوقس نے کوئی گیارہ قسم کے ہدیے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے بھیجے ، تاریخ اسلام میں ان کی تفصیلات موجود ہیں ،ان میں سے ایک طبیب تھا تاکہ وہ بیما ر ہونے والے مسلمانوں کا علاج کرے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیگر ہدیئے قبول فرمایائے لیکن طبیب کو قبول نہ کیا او رفرمایا:”ہم ایسے لوگ ہیں کہ جب تک بھوک نہ لگے کھانا نہیں کھاتے او رسیر ہونے سے پہلے کھانے سے ہاتھ روک لیتے ہیں ، یھی چیز ہماری صحت و سلامتی کے لئے کافی ہے، شاید صحت کے اس عظیم اصول کے علاوہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طبیب کی وھاں موجودگی کو درست نہ سمجھتے ہوں کیونکہ وہ ایک متعصب عیسائی تھا لہٰذا آپ نہیں چاہتے تھے کہ اپنی او رمسلمانوں کی جان کا معاملہ اس کے سپرد کردیں۔
مقوقس نے جو سفیر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا احترام کیا،آپ کے لئے ہدیے بھیجے او رخط میں نام محمد اپنے نام سے مقدم رکھا یہ سب اس بات کی حکایت کرتے ہیں کہ اس نے آپ کی دعوت کو باطن میں قبول کرلیا تھا یا کم از کم اسلام کی طر ف مائل ہوگیا تھا لیکن اس بناء پرکہ اس کی حیثیت او روقعت کو نقصان نہ پہنچے ظاہری طو رپراس نے اسلام کی طرف اپنی رغبت کا اظھار نہ کیا ۔
قیصر روم کے نام خط
بسم اللّٰه الرحمن الرحیم
من: محمد بن عبداللّٰه
الی: هرقل عظیم الرّوم
سلام علی من اتبع الهدیٰ
اما بعد:فانی ادعوک بدعایةالاسلام
اسلم تسلم،یوتک اللّٰه اجرک مرتین، فان تولیت فانما علیکم اثم القبط،یا اهل الکتٰب تعالواالیٰ کلمة سواء بیننا و بینکم” ان لا نعبد الا اللّٰه ولا نشرک به شیئاً ولا تتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّٰه ،فان تولوا فقولوا اشهدوا بانا مسلمون“
اللہ کے نام سے جو بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔
منجانب: محمدبن عبد اللہ ۔
بطرف: ہرقل بادشاہ روم۔
”اس پر سلام ہے جو ہدایت کی پیروی کرے۔میں تجہے اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام لے آؤ تاکہ سالم رہو ۔ خدا تجہے دوگنا اجر دے گا ۔ (ایک خود تمھارے ایمان لانے پر اوردوسراان لوگوں کی وجہ سے جو تمھاری پیروی کرکے ایمان لائیں گے ) او راگر تو نے قانون اسلام سے روگردانی کی تو اریسوں کا گناہ بھی تیری گردن پر ہوگا۔اے اہل کتاب! ہم تمہیں ایک مشترک بنیادکی طرف دعوت دیتے ہیں او روہ یہ کہ ہم خدائے یگانہ کے سوا کسی کی پرستش نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں حق سے روگردانی نہ کریں تو ان سے کہو کہ گواہ رہو ہم تم مسلمان ہیں “۔
قیصر کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پیغام پہنچانے کے لئے ”دحیہ کلبی“ مامور ہوا سفیرپیغمبر عازم روم ہوا۔
قیصرکے دارالحکومت قسطنطنیہ پہنچنے سے پہلے اسے معلوم ہوا کہ قیصربیت المقدس کی زیارت کے ارادے سے قسطنطنیہ چھوڑ چکا ہے، لہٰذا اس نے بصریٰ کے گور نر حادث بن ابی شمر سے رابطہ پیداکیا اور اسے اپنامقصد سفر بتایا ظاہراً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی اجازت دے رکھی تھی کہ دحیہ وہ خط حاکم بصریٰ کو دیدے تاکہ وہ اسے قیصرتک پہنچادے سفیر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گورنر سے رابطہ کیا تو اس نے عدی بن حاتم کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ وہ دحیہ کے ساتھ بیت المقدس کی طرف جائے اور خط قیصر تک پہنچا دے مقام حمص میں سفیر کی قیصر سے ملاقات ہوئی لیکن ملاقات سے قبل شاھی دربار کے کارکنوں نے کھا:
”تمہیں قیصر کے سامنے سجدہ کرنا پڑے گا ورنہ وہ تمھاری پرواہ نہیں کرے گا “
دحیہ ایک سمجھدار آدمی تھا کہنے لگا :
”میں ان غیر مناسب بدعتوں کوختم کرنے کے لئے اتنا سفر کر کے آیا ہوں ۔ میں اس مراسلے کے بھیجنے والے کی طرف سے آیا ہوں تا کہ قیصر کو یہ پیغام دوں کہ بشر پرستی کو ختم ہونا چاہئے او رخدا ئے واحد کے سواکسی کی عبادت نہیں ہونی چاہئیے ، اس عقیدے کے باوجود کیسے ممکن ہے کہ میںغیر خدا کے لئے سجدہ کروں“۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قاصد کی قوی منطق سے وہ بہت حیران ہوئے ،درباریوں میں سے ایک نے کھا:
”تمہیں چاہئے کہ خط بادشاہ کی مخصوص میز پر رکھ کر چلے جاؤ، اس میز پر رکہے ہوئے خط کو قیصر کے علاوہ کوئی نہیں اٹھا سکتا“۔
دحیہ نے اس کا شکریہ اداکیا ،خط میز پر رکھا اورخودواپس چلا گیا،قیصر نے خط کھولا ،خط نے جو”بسم اللہ“ سے شروع ہوتا تھا اسے متوجہ کیا اور کہنے لگا۔
”حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط کے سوا آج تک میں نے ایسا خط نہیں دیکھا “
اس نے اپنے مترجم کو بلایا تا کہ وہ خط پڑہے او راس کا ترجمہ کرے ،بادشاہ روم کو خیال ہوا کہ ہو سکتا ہے خط لکھنے والا وھی نبی ہو جس کاوعدہ انجیل او رتوریت میں کیا گیا ہے، وہ اس جستجو میں لگ گیا کہ آپ کی زندگی کی خصوصیات معلوم کرے، اس نے حکم دیا کہ شام کے پورے علاقے میں چھان بین کی جائے،شاید محمد کے رشتہ داروںمیں سے کوئی شخص مل جائے جو ان کے حالات سے واقف ہو ،اتفاق سے ابوسفیان او رقریش کا ایک گروہ تجارت کے لئے شام آیا ہوا تھا، شام اس وقت سلطنت روم کامشرقی حصہ تھا، قیصر کے آدمیوں نے ان سے رابطہ قائم کیا او رانہیں بیت المقدس لے گئے،قیصر نے ان سے سوال کیا :
کیا تم میں سے کوئی محمد کا نزدیکی رشتہ دار ہے ؟
ابو سفیان نے کھا :
میںاور محمد ایک ھی خاندان سے ہیں او رہم چوتھی پشت میں ایک درسرے سے مل جاتے ہیں ۔
پہرقیصر نے اس سے کچھ سوالات کئے۔ دونوں میں یوں گفتگو ہوئی“
قیصر: اس کے بزرگوں میںسے کوئی حکمران ہوا ہے؟
ابوسفیان: نہیں ۔
قیصر: کیا نبوت کے دعویٰ سے پہلے وہ جھوٹ بولنے سے اجتناب کرتا تھا؟
ابوسفیان: ھاں محمد راست گو او رسچا انسان ہے۔
قیصر: کونسا طبقہ اس کا مخالف ہے اور کونسا موافق؟
ابوسفیان: اشراف اس کے مخالف ہیں ، عام او رمتوسط درجے کے لوگ اسے چاہتے ہیں ۔
قیصر: اس کے پیروکاروں میں سے کوئی اس کے دین سے پہرا بھی ہے؟
ابوسفیان: نہیں ۔
قیصر: کیا اس کے پیروکار روز بروز بڑھ رہے ہیں ؟
ابوسفیان:ھاں ۔
اس کے بعد قیصر نے ابوسفیان او راس کے ساتھیوں سے کھا:
”اگر یہ باتیں سچی ہیں تو پہر یقینا وہ پیغمبر موعود ہیں ، مجھے معلوم تھا کہ ایسے پیغمبر کا ظہور ہوگا لیکن مجھے یہ پتہ نہ تھا کہ وہ قریش میں سے ہوگا، میں تیار ہوں کہ اس کے لئے خضوع کروں او راحترام کے طور پر اس کے پاؤں دھووں ،میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ اس کا دین او رحکومت سرزمین روم پر غالب آئے گی“۔
پہر قیصر نے دحیہ کو بلایا او راس سے احترام سے پیش آیا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خط کا جواب لکھا او رآپ کے لئے دحیہ کے ذریعے ہدیہ بھیجااورآپ کے نام اپنے خط میں آپ سے اپنی عقیدت او رتعلق کا اظھار کیا۔
یہ بات جاذب نظر ہے کہ جس وقت پیغمبرا کرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قاصد آنحضرت کا خط لے کر قیصر روم کے پاس پہونچا تو اس نے خصوصیت کے ساتھ آپ کے قاصد کے سامنے اظھار ایمان کیا یہاں تک کہ وہ رومیوں کو اس دین توحید و اسلام کی دعوت دینا چاہتا تھا، اس نے سوچا کہ پہلے ان کی آزمائش کی جائے، جب اس کی فوج نے محسوس کیا کہ وہ عیسائیت کو ترک کردینا چاہتا ہے تو اس نے اس کے قصر کا محاصرہ کرلیا، قیصر نے ان سے فوراً کھا کہ میں تو تمہیں آزمانا چاہتا تھا اپنی جگہ واپس چلے جاؤ۔
جنگ ذات السلاسل
ہجرت کے آٹھویں سال پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر ملی کہ بارہ ہزار سوار سرزمین ”یابس“میں جمع ہیں ، اور انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ یہ عہد کیا ہے کہ جب تک پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم او رعلی علیہ السلام کو قتل نہ کرلیں او رمسلمانوں کی جماعت کو منتشر نہ کردیں آرام سے نہیں بیٹہیں گے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب کی ایک بہت بڑی جماعت کو بعض صحابہ کی سرکردگی میں ان کی جانب روانہ کیا لیکن وہ کافی گفتگو کے بعد بغیر کسی نتیجہ کے واپس آئے۔
آخر کار پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام کو مہاجرین وانصار کے ایک گروہ کثیر کے ساتھ ان سے جنگ کرنے کے لئے بھیجا، وہ بڑی تیزی کے ساتھ دشمن کے علاقہ کی طرف روانہ ہوئے او ررات بہر میں سارا سفر طے کر کے صبح دم دشمن کو اپنے محاصرہ میںلے لیا، پہلے تو ان کے سامنے اسلام کو پیش کیا، جب انہوں نے قبول نہ کیا تو ابھی فضا تاریک ھی تھی کہ ان پر حملہ کردیا اور انہیں درہم برہم کر کے رکھ دیا،ان میں سے کچھ لوگوں کو قتل کیا ، ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کرلیا او ربکثرت مال غنیمت کے طور پر حاصل کیا۔
سورہ ”والعادیات“نازل ہوئی حالانکہ ابھی سربازان اسلام مدینہ کی طرف لو ٹ کر نہیں آئے تھے ،پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دن نماز صبح کے لئے آئے تو اس سورہ کی نماز میں تلاوت کی،نمازکے بعد صحابہ نے عرض کیا، یہ تو ایسا سورہ ہے جسے ہم نے آج تک سنا نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ھاں! علی علیہ السلام دشمنوں پر فتح یاب ہوئے ہیں اور جبرئیل نے گزشتہ رات یہ سورہ لاکر مجھے بشارت دی ہے۔ کچھ دن کے بعد علی علیہ السلام غنائم او رقیدیوں کے ساتھ مدینہ میں وارد ہوئے۔
جنگ حنین
اس جنگ کی ابتداء یوں ہوئی کہ جب ”ہوازن“ جو بہت بڑا قبیلہ تھا اسے فتح مکہ کی خبر ہوئی تو اس کے سردار مالک بن عوف نے افراد قبیلہ کو جمع کیا او ران سے کھا کہ ممکن ہے فتح مکہ کے بعد محمد ان سے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہو، کہنے لگے کہ مصلحت اس میں ہے کہ اس سے قبل کہ وہ ہم سے جنگ کرے ہمیں قدم آگے بڑھا نا چاہئے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ اطلاع پہونچی تو آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ سر زمین ہوازن کی طرف چلنے کو تیار ہو جائیں ۔
۱ ہجری رمضان المبارک کے آخری دن تھے یا شوال کا مھینہ تھا کہ قبیلہ ہوازن کے افراد سردار ”مالک بن عوف “کے پاس جمع ہوئے اور اپنا مال ، اولاد او رعورتیں بھی اپنے ساتھ لے آئے تاکہ مسلمانوں سے جنگ کرتے دقت کسی کے دماغ میں بھاگنے کا خیال نہ آئے،اسی طرح سے وہ سرزمین ”اوطاس“ میں وارد ہوئے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لشکر کا بڑا علم باندھ کر علی علیہ السلام کے ہاتھ میں دیا او روہ تمام افراد جو فتح مکہ کے موقع پر اسلامی فوج کے کسی دستے کے کمانڈر تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم سے اسی پرچم کے نیچے حنین کے میدان کی طرف روانہ ہوئے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اطلاع ملی کہ ”صفوان بن امیہ“ کے پاس ایک بڑی مقدار میں زرہیں ہیں آپ نے کسی کو اس کے پاس بھیجا اور اس سے سو زرہیں عاریتاً طلب کی، صفوان نے پوچھا واقعاً عاریتاً یا غصب کے طور پر ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: عاریتاً ہیں اور ہم ان کے ضامن ہیں کہ صحیح و سالم واپس کریں گے ۔
صفوان نے زرہیں عاریتاً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کودےدیں اورخود بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ چلا ۔
فوج میں کچھ ایسے افراد تھے جنہوں نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا، ان کے علاوہ دس ہزار وہ مجاہدینِ اسلام تھے جو پیغمبر اکرم کے ساتھ فتح مکہ کے لئے آئے تھے ، یہ تعداد مجموعاً بارہ ہزار بنتی ہے، یہ سب میدان جنگ کی طرف چل پڑے ۔
دشمن کے لشکر کا مورچہ
”مالک بن عوف“ ایک مرد جری او رہمت و حوصلے والا انسان تھا، اس نے اپنے قبیلے کو حکم دیا کہ اپنی تلواروں کے نیام توڑ ڈالیں او رپھاڑ کی غاروں میں ، دروں کے اطراف میں او ردرختوں کے درمیان لشکر اسلام کے راستے میں کمین گاہیں بنائیں اور جب اول صبح کی تاریکی میں مسلمان وھاں پہنچیں تو اچانک اور ایک ھی بار ان پر حملہ کردیں اور اسے فنا کردیں ۔
اس نے مزید کھا :محمد کا ابھی تک جنگجو لوگوں سے سامنا نہیں ہوا کہ وہ شکست کا مزہ چکھتا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز صبح پڑھ چکے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ سر زمین حنین کی طرف چل پڑیں ،اس موقع پر اچانک لشکر” ہوازن“ نے ہر طرف سے مسلمانوں پرتیروں کی بوچھار کر دی، وہ دستہ جو مقدمہ لشکر میں تھا (اور جس میں مکہ کے نئے نئے مسلمان بھی تھے ) بھاگ کھڑا ہوا، اس کے سبب باقی ماندہ لشکر بھی پریشان ہوکر بھاگ کھڑا ہوا ۔
خداوندمتعال نے اس موقع پر دشمن کے ساتھ انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دیا او روقتی طور پر ان کی نصرت سے ہاتھ اٹھالیا کیونکہ مسلمان اپنی کثرت تعداد پر مغرور تھے، لہٰذا ان میں شکست کے آثار آشکار ہوئے، لیکن حضرت علی علیہ السلام جو لشکر اسلام کے علمبردار تھے وہ مٹھی بہر افراد سمیت دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہے او راسی طرح جنگ جاری رکہے رہے ۔
اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قلب لشکر میں تھے، رسول اللہ کے چچا عباس(رض) بنی ھاشم کے چند افراد کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گرد حلقہ باندہے ہوئے تھے، یہ کل افراد نو سے زیادہ نہ تھے دسویں ام ایمن کے فرزند ایمن تھے، مقدمہ لشکر کے سپاھی فرار کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے گزرے تو آنحضرت نے عباس(رض) کو جن کی آواز بلند او رزور دار تھی کو حکم دیا کہ اس ٹیلے پر جو قریب ہے چڑھ جائیں او رمسلمانوں کو پکاریں :
”یا معشر المہاجرین والانصار ! یا اصحاب سورةالبقرة !یا اہل بیعت الشجرة! الٰی این تفرون ھٰذا رسول اللہ ۔ “
اے مہاجرین وانصار ! اے سورہ بقرہ کے ساتھیو!
اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والو! کھاں بھاگے جارہے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو یہاں ہیں ۔ مسلمانوں نے جب عباس(رض) کی آواز سنی تو پلٹ آئے اور کہنے لگے:لبیک لبیک !
خصوصاً لوٹ آنے والوںمیں انصار نے پیش قدمی کی او رفوج دشمن پر ہر طرف سے سخت حملہ کیا اور نصرتِ الٰھی سے پیش قدمی جاری رکھی یہاں تک کہ قبیلہ ہوازن وحشت زدہ ہوکر ہر طرف بکہر گیا، مسلمان ان کا تعاقب کررہے تھے، لشکر دشمن میں سے تقریباً ایک سو افراد مارے گئے ،ان کے اموال غنیمت کے طور پر مسلمانوںکے ہاتھ لگے او رکچھ ان میں سے قیدی بنا لئے گئے ۔
لکھا ہے کہ اس تاریخی واقعہ کے آخر میں قبیلہ ہوازن کے نمائندے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے او راسلام قبول کرلیا،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے بہت محبت و الفت فرمائی، یہاںتک کہ ان کے سر براہ مالک بن عوف نے بھی اسلام قبو کر لیا، آپ نے اس کا مال او رقیدی اسے واپس کردئیے او راس کے قبیلہ کے مسلمانوں کی سرداری بھی اس کے سپرد کردی ۔
درحققت ابتداء میں مسلمانوں کی شکست کا اہم عامل غرور و تکبر جو کثرت فوج کی وجہ سے ان میں پیدا ہوگیا تھا، اسکے علاوہ دو ہزا رنئے مسلمانوں کا وجود تھا جن میں سے بعض فطری طور پر منافق تھے ، کچھ ان میں مال غنیمت کے حصول کے لئے شامل ہوگئے تھے او ربعض بغیر کسی مقصد کے ان میں شامل ہوگئے تھے۔
نھائی کامیابی کا سبب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، حضرت علی علیہ السلام اور بعض اصحاب کا قیام تھا، اور پہلے والوںکا عہد و پیمان اور خدا پر ایمان اور اس کی مدد پر خاص توجہ باعث بنی کہ مسلمانوں کو اس جنگ میں کامیابی ملی۔
بھاگنے والے کون تھے ؟
اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ میدان حنین میں سے اکثریت ابتداء میں بھاگ گئی تھی، جو باقی رہ گئے تھے ان کی تعداد ایک روایت کے مطابق دس تھی او ربعض نے تو ان کی تعداد چار بیان کی ہے بعض نے زیادہ سے زیادہ سو افراد لکہے ہیں ۔
بعض مشہور روایات کے مطابق چونکہ پہلے خلفاء بھی بھاگ جانے والوں میں سے تھے لہٰذا بعض اہل سنت مفسرین نے کوشش کی ہے کہ اس فرار کو ایک فطری چیز کے طور پر پیش کیا جائے ۔ المنار کے مولف لکھتے ہیں : ”جب دشمن کی طرف سے مسلمانوں پر تیروں کی سخت بوچھارہوئی توجو لوگ مکہ سے مسلمانوں کے ساتھ مل گئے تھے، اورجن میں منافقین اورضعیف الایمان بھی تھے اور جو مال غنیمت کے لئے آگئے تھے وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور انہوں نے میدان میں پشت دکھائی تو باقی لشکر بھی فطری طور پر مضطرب او رپریشان ہوگیا وہ بھی معمول کے مطابق نہ کہ خوف و ہراس سے ،بھاگ کھڑے ہوئے اوریہ ایک فطری بات ہے کہ اگر ایک گروہ فرار ہو جائے تو باقی بھی بے سوچے سمجھے متزلزل ہو جاتے ہیں ، لہٰذا ان کا فرار ہونا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدد ترک کرنے او رانہیں دشمن کے ہاتھ میں چھوڑ جانے کے طور پر نہیں تھا کہ وہ خداکے غضب کے مستحق ہوں، ہم اس بات کی تشریح نہیں کرتے او راس کا فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہیں “۔
جنگ تبوک
”تبوک“
کا مقام ان تمام مقامات سے دور تھا جھاں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی جنگوں میں پیش قدمی کی ۔ ”تبوک“اصل میںایک محکم اور بلند قلعہ کا نام تھا ۔ جو حجاز او رشام کی سرحد پر واقع تھا ۔ اسی وجہ سے اس علاقے کو سر زمین تبوک کہتے تھے ۔
جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کے تیز رفتار نفوذ کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شہرت اطراف کے تمام ممالک میں گونجنے لگی باوجود یہ کہ وہ اس وقت حجازکی اہمیت کے قائل نہیں تھے لیکن طلوع اسلام اور لشکر اسلام کی طاقت کہ جس نے حجاز کو ایک پرچم تلے جمع کرلیا، نے انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش میں ڈال دیا ۔
مشرقی روم کی سرحد حجاز سے ملتی تھی اس حکومت کو خیال ہوا کہ کہیں اسلام کی تیز رفتار ترقی کی وہ پہلی قربانی نہ بن جائے لہٰذا اس نے چالیس ہزار کی زبردست مسلح فوج جو اس وقت کی روم جیسی طاقتور حکومت کے شایان شان تھی‘ اکھٹی کی اور اسے حجاز کی سرحد پر لاکھڑا کیا یہ خبر مسافروں کے ذریعے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کانوں تک پہنچی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روم اور دیگر ہمسایوں کودرس عبرت دینے کے لئے توقف کئے بغیر تیاری کا حکم صادر فرمایاآپ کے منادیوںنے مدینہ اور دوسرے علاقوں تک آپ کا پیغام پہنچایا تھوڑے ھی عرصہ میں تیس ہزار افراد رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہوگئے ان میں دس ہزار سوار اور بیس ہزار پیادہ تھے ۔
موسم بہت گرم تھا، غلے کے گودام خالی تھے اس سال کی فصل ابھی اٹھائی نہیں گئی تھی ان حالات میں سفر کرنا مسلمانوں کے لئے بہت ھی مشکل تھا لیکن چونکہ خدا اور رسول کافرمان تھا لہٰذا ہر حالت میں سفر کرنا تھا اور مدینہ اور تبوک کے درمیان پرُ خطر طویل صحرا کو عبور کرنا تھا ۔
لشکر ی مشکلات
اس لشکر کو چونکہ اقتصادی طور پر بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا راستہ بھی طولانی تھا راستے میں جلانے والی زہریلی ہوائیں چلتی تہیں سنگریزے اڑتے تھے اور جھکڑچلتے تھے سواریاں بھی کافی نہ تہیں اس لئے یہ ”جیش العسرة“ (یعنی سختیوں والا لشکر ) کے نام سے مشہور ہوا ۔
تاریخ اسلام نشاندھی کرتی ہے کہ مسلمان کبھی بھی جنگ تبوک کے موقع کی طرح مشکل صورت حال، دباؤ اور زحمت میں مبتلا نہیں ہوئے تھے کیونکہ ایک تو سفر سخت گرمی کے عالم میں تھا دوسرا خشک سالی نے لوگوں کو تنگ اور ملول کررکھا تھا اور تیسرا اس وقت درختوں سے پھل اتارنے کے دن تھے اور اسی پر لوگوں کی سال بہر کی آمدنی کا انحصار تھا۔
ان تمام چیزوں کے علاوہ مدینہ اور تبوک کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ تھا اور مشرقی روم کی سلطنت کا انہیں سامنا تھا جو اس وقت کی سپر پاور تھی۔
مزید برآں سواریاں اور رسد مسلمانوں کے پاس اتنا کم تھا کہ بعض اوقات دوافراد مجبور ہوتے تھے کہ ایک ھی سواری پرباری باری سفر کریں بعض پیدل چلنے والوں کے پاس جوتاتک نہیں تھا اور وہ مجبور تھے کہ وہ بیابان کی جلانے والی ریت پرپا برہنہ چلیں آب وغذا کی کمی کا یہ عالم تھا کہ بغض اوقات خرمہ کا ایک دانہ چند آدمی یکے بعد دیگرے منہ میں رکھ کر چوستے تھے یہاں تک کہ اس کی صرف گٹھلی رہ جاتی پانی کا ایک گھونٹ کبھی چند آدمیوں کو مل کر پینا پڑتا ۔
یہ واقعہ نوہجری یعنی فتح مکہ سے تقریبا ایک سال بعد رونماہوا ۔مقابلہ چونکہ اس وقت کی ایک عالمی سوپر طاقت سے تھا نہ کہ عرب کے کسی چھوٹے بڑے گروہ سے لہٰذا بعض مسلمان اس جنگ میں شرکت سے خوف زدہ تھے اس صورت حال میں منافقین کے زہریلے پر وپیگنڈے اور وسوسوں کے لئے ماحول بالکل ساز گار تھا اور وہ بھی مومنین کے دلوں اور جذبات کوکمزور کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کررہے تھے ۔
پھل اتارنے اور فصل کاٹنے کا موسم تھا جن لوگوں کی زندگی تھوڑی سی کھیتی باڑی اور کچھ جانور پالنے پر بسر ہوتی تھی یہ ان کی قسمت کے اہم دن شمار ہوتے تھے کیونکہ ان کی سال بہر کی گزر بسر انہیں چیزوں سے وابستہ تھےں۔
جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں مسافت کی دوری اور موسم کی گرمی بھی روکنے والے عوامل کی مزید مدد کرتی تھی اس موقع پر آسمانی وحی لوگوں کی مدد کے لئے آپہنچی اور قرآنی آیات یکے بعد دیگر ے نازل ہوئیں اور ان منفی عوامل کے سامنے آکھڑی ہوئیں۔
تشویق ، سرزنش، اور دہمکی کی زبان
قرآن جس قدر ہوسکتی ہے اتنی سختی اور شدت سے جھاد کی دعوت دتیاہے ۔ کبھی تشویق کی زبان سے کبھی سرزنش کے لہجے میں اورکبھی دہمکی کی زبان میں ان سے بات کرتا ہے،اور انہیں آمادہ کرنے کے لئے ہر ممکن راستہ اختیار کرتا ہے۔ پہلے کہتا ہے:” کہ خدا کی راہ میں ،میدان جھاد کی طرف حرکت کرو تو تم سستی کا مظاہرہ کرتے ہو اور بوجھل پن دکھاتے ہو “۔
اس کے بعد ملامت آمیز لہجے میں قرآن کہتا ہے : ”آخرت کی وسیع اور دائمی زندگی کی بجائے اس دنیاوی پست اور ناپائیدار زندگی پر راضی ہوگئے ہو حالانکہ دنیاوی زندگی کے فوائد اور مال ومتاع آخرت کی زندگی کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور بہت ھی کم ہیں “۔
ایک عقلمند انسان ایسے گھاٹے کے سودے پر کیسے تیار ہوسکتا ہے اور کیونکہ وہ ایک نھایت گراں بھامتاع اور سرمایہ چھوڑکر ایک ناچیز اور بے وقعت متاع کی طرف جاسکتاہے ۔
اس کے بعد ملامت کے بجائے ایک حقیقی تہدید کا اندازاختیار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے :” اگر تم میدان جنگ کی طرف حرکت نہیں کرو گے تو خدا دردناک عذاب کے ذریعے تمہیں سزادے گا“۔
”اور اگر تم گمان کرتے ہو کہ تمھارے کنارہ کش ہونے اور میدان جھاد سے پشت پھیرنے سے اسلام کی پیش رفت رک جائے گی اور آئینہ الٰھی کی چمک ماند پڑجائے گی تو تم سخت اشتباہ میں ہو ،کیونکہ خدا تمھارے بجائے ایسے صاحبان ایمان کو لے آئے گا جو عزم مصمم رکھتے ہوں گے اور فرمان خدا کے مطیع ہوں گے“۔
وہ لوگ کہ جو ہر لحاظ سے تم سے مختلف ہیں نہ صرف ان کی شخصیت بلکہ انکا ایمان، ارادہ،دلیری اور فرماں برداری بھی تم سے مختلف ہے لہٰذا ” اس طرح تم خدا اور اس کے پاکیزہ دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے“ ۔
تنہاوہ جنگ جس میں حضرت علی نے شرکت نہ کی
اس لشکر کو چونکہ اقتصادی طور پر بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا راستہ بھی طولانی تھا راستے میں جلانے والی زہریلی ہوائیں چلتی تہیں سنگریزے اڑتے تھے اور جھکّڑچلتے تھے سواریاں بھی کافی نہ تہیں اس لئے یہ” جیش العسرة“ (یعنی سختیوں والا لشکر )کے نام سے مشہور ہوا اس نے تمام سختیوں کو جھیلا اور ماہ شعبان کی ابتداء میں ہجرت کے نویں سال سرزمین ”تبوک“ میں پہنچا جب کہ رسول اللہ حضرت علی کو اپنی جگہ پر مدینہ میں چھوڑآئے تھے یہ واحد غزوہ ہے جس میں حضرت علی علیہ السلام شریک نہیں ہوئے ۔
رسول اللہ کایہ اقدام بہت ھی مناسب اور ضروری تھا کیونکہ بہت احتمال تھا کہ بعض پیچہے رہنے والے مشرکین یامنا فقین جو حیلوں بھانوں سے میدان تبوک میں شریک نہ ہوئے تھے، رسول اللہ اور ان کی فوج کی طویل غیبت سے فائدہ اٹھائیں اور مدینہ پر حملہ کردیں، عورتوں اور بچوں کو قتل کردیں اور مدینہ کو تاراج کردیں لیکن حضرت علی کا مدینہ میں رہ جانا ان کی سازشوں کے مقابلے میں ایک طاقتور رکاوٹ تھی ۔
بہرحال جب رسول اللہ تبوک میں پہنچے تو وھاں آپ کو رومی فوج کا کوئی نام ونشان نظر نہ آیا عظیم سپاہ اسلام چونکہ کئی جنگوں میں اپنی عجیب وغریب جراءت وشجاعت کا مظاہرہ کرچکی تھی، جب ان کے آنے کی کچھ خبر رومیوں کے کانوں تک پہنچی تو انھوں نے اسی کو بہتر سمجھا کہ اپنے ملک کے اندرچلے جائیں اور اس طرح سے ظاہر کریں کہ مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے لشکر روم کی سرحدوں پر جمع ہونے کی خبر ایک بے بنیاد افواہ سے زیادہ کچھ نہ تھی کیونکہ وہ ایک ایسی خطرناک جنگ شروع کرنے سے ڈرتے تھے جس کا جواز بھی ان کے پاس کوئی نہ تھا لیکن لشکر اسلام کے اس طرح سے تیز رفتاری سے میدان تبوک میں پہنچنے نے دشمنانِ اسلام کو کئی درس سکھائے، مثلاً:
۱ ۔یہ بات ثابت ہوگئی کہ مجاہدین اسلام کا جذبہ جھاد اس قدر قوی ہے کہ وہ اس زمانے کی نھایت طاقت ور فوج سے بھی نہیں ڈرتے۔
۲ ۔ بہت سے قبائل اور اطراف تبوک کے امراء پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آئے اور آپ سے تعرض اور جنگ نہ کرنے کے عہدوپیمان پر دستخط کیے اس طرح مسلمان ان کی طرف سے آسودہ خاطر ہوگئے ۔
۳ ۔ اسلام کی لہریں سلطنت روم کی سرحدوں کے اندر تک چلی گئیں اور اس وقت کے ایک اہم واقعہ کے طور پر اس کی آواز ہر جگہ گونجی اور رومیوں کے اسلام کی طرف متوجہ ہونے کے لئے راستہ ہموار ہوگیا ۔
۴ ۔ یہ راستہ طے کرنے اور زحمتوں کو برداشت کرنے سے آئندہ شام کا علاقہ فتح کرنے کے لئے راہ ہموار ہوگئی اور معلوم ہوگیا کہ آخرکار یہ راستہ طے کرنا ھی ہے ۔
یہ عظیم فوائد ایسے تھے کہ جن کے لئے لشکر کشی کی زحمت برداشت کی جاسکتی تھی ۔
بہرحال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی سنت کے مطابق اپنی فوج سے مشورہ کیا کہ کیا پیش قدمی جاری رکھی جائے یاواپس پلٹ جایا جائے؟
اکثریت کی رائے یہ تھی، کہ پلٹ جانا بہتر ہے اور یھی اسلامی اصولوں کی روح سے زیادہ مناسبت رکھتا تھا خصوصاً جبکہ اس وقت طاقت فرسا سفر اور راستے کی مشقت وزحمت کے باعث اسلامی فوج کے سپاھی تھکے ہوئے تھے اور ان کی جسمانی قوت مزاحمت کمزور پڑچکی تھی، رسول اللہ نے اس رائے کو صحیح قرار دیا اور لشکر اسلام مدینہ کی طرف لوٹ آیا۔
ایک عظیم درس
”ابو حثیمہ “
اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سے تھا ،منافقین میں سے نہ تھا لیکن سستی کی وجہ سے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ میدان تبوک میںنہ گیا ۔
اس واقعہ کو دس دن گذر گئے ،ہوا گرم او رجلانے والی تھی،ایک دن اپنی بیویوں کے پاس آیا انھوں نے ایک سائبان تان رکھا تھا ، ٹھنڈا پانی مھیا کر رکھا تھا او ربہترین کھانا تیار کر رکھا تھا، وہ اچانک غم و فکر میں ڈوب گیا او راپنے پیشوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یاد اسے ستانے لگی ،اس نے کھا:رسول اللہ کہ جنھوںنے کبھی کوئی گناہ نہیں کیا او رخدا ان کے گذشتہ اور آئندہ کا ذمہ دار ہے ،بیابان کی جلا ڈالنے والی ہواؤں میں کندہے پر ہتھیار اٹھائے اس دشوار گذار سفر کی مشکلات اٹھارہے ہیں او رابو حثیمہ کو دیکھو کہ ٹھنڈے سائے میں تیار کھانے اور خوبصورت بیویوں کے پاس بیٹھا ہے ،کیا یہ انصاف ہے ؟
اس کے بعد اس نے اپنی بیویوں کی طرف رخ کیا او رکھا:
خدا کی قسم تم میں سے کسی کے ساتھ میں بات نہ کروں گا او رسائبان کے نیچے نہیں بیٹھوں گا جب تک پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نہ جاملوں ۔
یہ بات کہہ کر اس نے زادراہ لیا ،اپنے اونٹ پر سوار ہوااور چل کھڑا ہوا ،اس کی بیویوںنے بہت چاھا کہ اس سے بات کریں لیکن اس نے ایک لفظ نہ کھا او راسی طرح چلتا رھا یہاں تک کہ تبوک کے قریب جا پہنچا ۔
مسلماان ایک دوسرے سے کہنے لگے :یہ کوئی سوار ہے جو سڑک سے گذررھا ہے، لیکن پیغمبر اکرم نے فرمایا:اے سوار تم ابو حثیمہ ہو تو بہتر ہے۔
جب وہ قریب پہنچا او رلوگوںنے اسے پہچان لیا تو کہنے لگے : جی ھاں ؛ ابو حثیمہ ہے ۔
اس نے اپنا اونٹ زمین پر بٹھایا او رپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں سلام عرض کیا او راپنا ماجرابیان کیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے خوش آمدید کھا اور اس کے حق میں دعا فرمائی ۔
اس طرح وہ ایک ایسا شخص تھا جس کا دل باطل کی طرف مائل ہوگیا تھا لیکن اس کی روحانی آمادگی کی بنا ء پر خدا نے اسے حق کی طرف متوجہ کیا اور ثبات قدم بھی عطا کیا ۔
جنگ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین لوگ
مسلمانوں میں سے تین افراد کعب بن مالک ،مرارہ بن ربیع او ربلال بن امیہ نے جنگ تبوک میںشرکت نہ کی او رانھوںنے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سفر نہ کیا وہ منافقین میں شامل نہیں ہو نا چاہتے تھے بلکہ ایسا انھوںنے سستی اور کاہلی کی بنا پر کیا تھا،تھوڑا ھی عرصہ گذرا تھا کہ وہ اپنے کئے پر نادم اور پشیمان ہوگئے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میدان تبوک سے مدینہ لوٹے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معذرت کی لیکن رسول اللہ نے ان سے ایک لفظ تک نہ کھا اور مسلمانوں کو بھی حکم دیا کہ کوئی شخص ان سے بات چیت نہ کرے وہ ایک عجیب معاشرتی دباؤ کا شکار ہوگئے یہاں تک کہ ان کے چھوٹے بچے او رعورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئیں او راجازت چاھی کہ ان سے الگ ہو جائیں ،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں علیحدگی کی اجازت تو نہ دی لیکن حکم دیا کہ ان کے قریب نہ جائیں،مدینہ کی فضااپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی ،وہ مجبور ہوگئے کہ اتنی بڑی ذلت اوررسوائی سے نجات حاصل کرنے کے لئے شہر چھوڑدیں اوراطراف مدینہ کے پھاڑوں کی چوٹی پر جاکر پناہ لیں۔
جن باتوںنے ان کے جذبات پر شدید ضرب لگائی ان میں سے ایک یہ تھی کہ کعب بن مالک کہتا ہے :میںایک دن بازار مدینہ میں پریشانی کے عالم میں بیٹھا تھاکہ ایک شامی عیسائی مجھے تلاش کرتا ہوا آیا، جب اس نے مجھے پہچان لیا تو بادشاہ غسان کی طرف سے ایک خط میرے ہاتھ میںدیا ، اس میں لکھاتھا کہ اگر تیرے ساتھی نے تجہے دھتکاردیا ہے تو ہماری طرف چلے آؤ، میری حالت منقلب اور غیر ہوگئی ،اور میں نے کھا وائے ہو مجھ پر میرا معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ دشمن میرے بارے میں لالچ کرنے لگے ہیں ، خلاصہ یہ کہ ان کے اعزا ء واقارب ان کے پاس کھانالے آتے مگر ان سے ایک لفظ بھی نہ کہتے ،کچھ مدت اسی صورت میں گزر گئی او روہ مسلسل انتظار میں تھے کہ اس کی توبہ قبول ہو اورکوئی آیت نازل ہو جو ان کی توبہ کی دلیل بنے ، مگر کوئی خبر نہ تھی ۔
اس دوران ان میں سے ایک کے ذہن میںیہ بات آئی او راس نے دوسروں سے کھا اب جبکہ لوگوں نے ہم سے قطع تعلق کر لیا ہے ،کیا ھی بہتر ہے کہ ہم بھی ایک دوسرے سے قطع تعلق کرلیں (یہ ٹھیک ہے کہ ہم گنہ گار ہیں لیکن مناسب ہے کہ دوسرے گنہ گار سے خوش او رراضی نہ ہوں)۔
انھوں نے ایسا ھی کیا یہاں تک کہ ایک لفظ بھی ایک دوسرے سے نہیں کہتے تھے اوران میںسے کوئی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہتا تھا،اس طرح پچاس دن انھوںنے توبہ وزاری کی او رآخر کار ان کی توبہ قبول ہوگئی ۔
مسجد ضرار
کچھ منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے او رعرض کیا، ہمیں اجازت دیجیئے کہ ہم قبیلہ ”بنی سالم“ کے درمیان”مسحد قبا“کے قریب ایک مسجد بنالیں تاکہ ناتواں بیمار اور بوڑہے جو کوئی کام نہیں کرسکتے اس میں نماز پڑھ لیا کریں۔ اسی طرح جن راتوں میں بارش ہوتی ہے ان میں جو لوگ آپ کی مسجد میں نہیں آسکتے اپنے اسلامی فریضہ کو اس میں انجام دے لیا کریں۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب پیغمبر خد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنگ تبوک کا عزم کرچکے تھے آنحضرت نے انہیں اجازت دےدی۔
انھوں نے مزید کھا: کیا یہ بھی ممکن ہے کہ آپ خود آکر اس میں نماز پڑہیں ؟نبی اکرم نے فرمایا: اس وقت تو میں سفر کا ارادہ کر چکا ہوں البتہ واپسی پر خدا نے چاھا تو اس مسجد میں آکر نماز پڑھوں گا۔
جب آپ جنگ تبوک سے لوٹے تو یہ لوگ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہماری درخواست ہے کہ آپ ہماری مسجد میں آکر اس میں نماز پڑھائیں اورخدا سے دعا کریں کہ ہمیں برکت دے ۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی آنحضرت مدینہ کے دروازے میں داخل نہیں ہوئے تھے اس وقت وحی خدا کا حامل فرشتہ نازل ہوا اور خدا کی طرف سے پیغام لایا او ران کے کرتوت سے پردہ اٹھایا۔
ان لوگوںکے ظاہراًکام کو دیکھا جائے تو ہمیں شروع میں تو اس حکم پر حیرت ہوئی کہ کیا بیماروں اوربوڑھوں کی سہولت کے لئے اوراضطراری مواقع کے لئے مسجد بنانا برا کام ہے جبکہ یہ ایک دینی او رانسانی خدمت معلوم ہوتی ہے کیا ایسے کام کے بارے میں یہ حکم صادر ہوا ہے؟لیکن اگر ہم اس معاملہ کی حقیقت پر نظر کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ حکم کس قدر بر محل اور جچاتلا تھا۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ” ابو عامر“نامی ایک شخص نے عیسائیت قبول کرلی تھی اور راھبوں کے مسلک سے منسلک ہوگیا تھا ۔ اس کا شمار عابدوں میں ہوتا تھا ، قبیلہ خزرج میں اس کا گہرا اثرورسوخ تھا ۔
رسول اللہ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی او رمسلمان آپ کے گرد جمع ہوگئے تو ابو عامر جو خودبھی پیغمبر کے ظہور کی خبر دینے والوں میں سے تھا،اس نے دیکھا کہ اس کے ارد گرد سے لوگ چھٹ گئے ہیں اس پر وہ اسلام کے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ،وہ مدینہ سے نکلا اور کفار مکہ کے پاس پہنچا،اس نے ان سے پیغمبر اکرم کے خلاف جنگ کے لئے مدد چاھی اور قبائل عرب کو بھی تعاون کی دعوت دی ،وہ خود مسلمانوں کے خلاف جنگ احد کی منصوبہ بندی میںشریک رھا تھا،اور راہنمائی کرنے والوں میں سے تھا،اس نے حکم دیا کہ لشکر کی دو صفوں کے درمیان گڑہے کھوددے جائیں ۔اتفاقاً پیغمبر اسلامایک گڑہے میں گر پڑے ،آپ کی پیشانی پر زخم آئے اور دندان مبارک ٹوٹ گئے ۔
جنگ احد ختم ہوئی،مسلمانوں کو اس میدان میں آنے والی مشکلات کے باوجود اسلام کی آواز بلند تر ہوئی او رہر طرف صدا ئے اسلام گونجنے لگی، تو وہ مدینہ سے بھاگ گیا او ربادشاہ روم ہرقل کے پاس پہنچا تاکہ اس سے مددچاہے اور مسلمانوں کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر مھیا کرے۔
اس نکتے کا بھی ذکر ضروری ہے کہ اس کی ان کارستانیوں کی وجہ سے پیغمبر اسلام نے اسے ”فاسق“کالقب دے رکہاتھا۔
بعض کہتے ہیں کہ موت نے اسے مھلت نہ دی کہ وہ اپنی آرزو ہرقل سے کہتا لیکن بعض دوسری کتب میں ہے کہ وہ ہرقل سے جاکر ملا اور اس کے وعدوں سے مطمئن اورخوش ہوا۔
بہر حال اس نے مرنے سے پہلے مدینہ کے منافقین کو ایک خط لکھا اور انہیں خوشخبری دی کہ روم کے ایک لشکر کے ساتھ وہ ان کی مدد کوآئے گا۔اس نے انہیں خصوصی تاکید کی کہ مدینہ میں وہ اس کے لئے ایک مرکز بنائیں تاکہ اس کی آئندہ کی کارگذاریوں کے لئے وہ کام دے سکے لیکن ایسا مرکز چونکہ مدینہ میں اسلام دشمنوں کی طرف سے اپنے نام پر قائم کرنا عملی طور پر ممکن نہ تھا۔ لہٰذا منافقین نے مناسب یہ سمجھا کہ مسجد کے نام پر بیماروں اور معذوروں کی مدد کی صورت میں اپنے پروگرام کو عملی شکل دیں۔
آخر کار مسجد تعمیر ہوگئی یہاں تک کہ مسلمانوں میں سے ”مجمع بن حارثہ“ (یا مجمع بَن جاریہ)نامی ایک قرآن فہم نوجوان کو مسجد کی امامت کے لئے بھی چن لیا گیا لیکن وحی الٰھی نے ان کے کام سے پردہ اٹھادیا۔
یہ جو پیغمبر اکرم نے جنگ تبوک کی طرف جانے سے قبل ان کے خلا ف سخت کاروائی کا حکم نہیں دیا اس کی وجہ شاید ایک تو ان کی حقیقت زیادہ واضح ہوجائے او ردوسرا یہ کہ تبوک کے سفر میں اس طرف سے کوئی او رذہنی پریشانی نہ ہو۔ بہر حال جو کچھ بھی تھا رسول اللہ نے نہ صرف یہ کہ مسجد میں نماز نہیں پڑھی بلکہ بعض مسلمانوں (مالک بن دخشم،معنی بن عدی اور عامر بن سکر یا عاصم بن عدی)کو حکم دیا کہ مسجدکو جلادیں او رپہر اس کی دیواروں کو مسمار کروادیا۔ او رآخر کار اسے کوڑاکرکٹ پھیکنے کی جگہ قرار دےدیا۔
مسجد قبا ء
یہ بات قابل توجہ ہے کہ خدا وند عالم اس حیات بخش حکم کی مزید تاکید کے لئے خداوند متعال فرماتا ہے کہ اس مسجد میں ہرگز قیام نہ کرو اور اس میں نمازنہ پڑھو۔
”بلکہ اس مسجدکے بجائے زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس مسجد میں عبادت قائم کرو جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے“
نہ یہ کہ یہ مسجد جس کی بنیاد روز اول ھی سے کفر،نفاق،بے دینی اور تفرقہ پر رکھی گئی ہے۔
”مفسرین نے کھا ہے کہ جس مسجد کے بارے میں مندرجہ بالا جملے میں کھا گیا ہے کہ زیادہ مناسب یہ ہے کہ پیغمبر اس میں نماز پڑہیں اس سے مراد” مسجد قبا “ہے کہ جس کے قریب منافقین نے مسجد ضرار بنائی تھی“۔
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے :”کہ علاوہ اس کے کہ اس مسجد کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے ،مردوں کا ایک گروہ اس میں مشغول عباد ت ہے جو پسند کرتا ہے کہ اپنے آپ کو پاک وپاکیزہ رکہے اور خدا پاکباز لوگوں کو دوست رکھتا ہے “۔
سب سے پہلی نماز جمعہ
پہلا جمعہ جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب کے ساتھ پڑھا وہ اس وقت پڑھا گیا جب آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی ۔ جب آپ مدینہ میں وارد ہوئے تو اس دن پیر کا دن بارہ ربیع الاول او رظہر کا وقت تھا۔ حضرت چار دن تک”قبا “میں رہے او رمسجد قبا کی بنیاد رکھی ، پہر جمعہ کے دن مدینہ کی طرف روانہ ہوئے(قبااور مدینہ کے درمیان فاصلہ بہت ھی کم ہے اور موجودہ وقت میںقبا مدینہ کا ایک داخلی محلہ ہے)
اور نماز جمعہ کے وقت آپ محلہ”بنی سالم“میں پہنچے وھاں نماز جمعہ ادا فرمائی اور یہ اسلام میں پہلا جمعہ تھا جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اداکیا۔ جمعہ کی نماز میں آپ نے خطبہ بھی پڑھا۔ جو مدینہ میں آنحضرت کا پہلا خطبہ تھا۔
واقعہ غدیر
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کا آخری سال تھا”حجة الوداع “کے مراسم جس قدر باوقار و پرشکوہ ہو سکتے تھے اس قدر پیغمبر اکرم کی ہمراھی میں اختتام پذیر ہوئے۔ سب کے دل روحانیت سے سرشار تھے ابھی ان کی روح اس عظیم عبادت کی معنوی لذت کا ذائقہ محسوس کررھی تھی ۔ اصحاب پیغمبر جن کی تعداد بہت زیادہ تھی اس عظیم نعمت سے فیض یاب ہوئے او راس سعادت کے حاصل ہونے پر جامے میں پھولے نہیں سماتے تھے۔
نہ صرف مدینہ کے لوگ اس سفر میں پیغمبر کے ساتھ تھے بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر مختلف حصوں کے مسلمان بھی یہ عظیم تاریخی اعزازوافتخار حاصل کرنے کے لئے آپ کے ہمراہ تھے۔
سرزمین حجاز کا سورج دروں اور پھاڑوںپر آگ برسآرہا تھا لیکن اس سفرکی بے نظیر روحانی مٹھاس تمام تکلیفوں کو آسان بنارھی تھی۔ زوال کا وقت نزدیک تھا۔ آہستہ آہستہ ”حجفہ “کی سرزمین او راس کے بعد خشک اور جلانے والے”غدیرخم“ کے بیابان نظر آنے لگے۔
در اصل یہاں پر ایک چوراھا ہے جو حجاز کے لوگوں کوایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ شمالی راستہ مدینہ کی طرف دوسرا مشرقی راستہ عراق کی طرف،تیسرا مغربی ممالک او رمصر کی طرف اور چوتھا جنوبی راستہ سرزمین یمن کو جاتا ہے یھی وہ مقام ہے جھاں پر آخری مقصد او راس عظیم سفر کااہم ترین کام انجام پذیر ہوتا تھا تاکہ مسلمان پیغمبر کی اہم ذمہ داریوںمیںسے ان کا آخری حکم جان کر ایک دوسرے سے جداہوں ۔
جمعرات کا دن تھا اورہجرت کا دسواں سال۔ آٹھ دن عید قربان کو گزرے تھے کہ اچانک پیغمبر کی طرف سے ان کے ہمراھیوں کو ٹھہر جانے کا حکم دیا گیا۔ مسلمانوں نے بلندآواز سے ان لوگوں کو جو قافلے کے آگے چل رہے تھے واپس لوٹنے کے لئے پکارا اوراتنی دیر کے لئے ٹھہر گئے کہ پیچہے آنے والے لوگ بھی پہنچ جائیں۔ آفتاب خط نصف النھار سے گزر گیا تو پیغمبر کے موذن نے ”اللہ اکبر “کی صداکے ساتھ لوگوں کونماز ظہر پڑھنے کی دعوت دی ۔ مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوگئے ۔ لیکن فضاء اتنی گرم تھی کہ بعض لوگ مجبور تھے کہ وہ اپنی عبا کا کچھ حصہ پاؤں کے نیچے اور باقی سر کے اوپر لے لیں،ورنہ بیابان کی گرم ریت اور سورج کی شعاعیں ان کے سر اور پاؤں کو تکلیف دے رھی تہیں ۔
اس صحراء میں کوئی سائبان نظر نہ آتا تھا اور نہ ھی کوئی سبزہ یاگھاس صرف چند بے برگ وبار بیابانی درخت تھے جو گرمی کا سختی کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے کچھ لوگ انھی چند درختوں کا سھارا لئے ہوئے تھے اور انہوں نے ان برہنہ درختوں پر ایک کپڑاڈال رکھا تھا اور پیغمبر کے لئے ایک سائبان سا بنا رکھا تھا لیکن گرم ہوا اس سائبان کے نیچے سے گزرتی ہوئی سورج کی جلانے والی گرمی کو اس سائبان کے نیچے بھی پھیلا رھی تھی۔ بہر حال ظہر کی نماز پڑھ لی گئی۔
خطبہ غدیر
مسلمان ارادہ کررہے تھے کہ فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خیموں میں جاکر پناہ لیں جو انھوں نے اپنے ساتھ اٹھارکہے تھے لیکن رسول اللہ نے انہیں آگاہ کیا کہ وہ سب کے سب خداوندتعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار ہوں جسے ایک مفصل خطبے کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔
جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دور تھے وہ پیغمبر کا ملکوتی چہرہ اس عظیم اجتماع میں دور سے دیکھ نہیں پارہے تھے لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا۔پیغمبر اس کے اوپر تشریف لے گئے۔پہلے پروردگار عالم کی حمد وثنا بجالائے اور خدا پر بہروسہ کرتے ہوئے یوں خطاب فرمایا:میں عنقرب خداوندمتعال کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے تمھارے درمیان سے جآرہا ہوں ،میں بھی جوابدہ ہوںاورتم بھی جوابدہ ہو ،تم میرے بارے میں کیا گواھی دوگے لوگوں نے بلند آواز میں کھا :
”ہم گواھی دیں گے کہ آپ نے فریضہ رسالت انجام دیا اورخیر خواھی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ہماری ہدایت کی راہ میں سعی و کوشش کی،خدا آپکوجزا ئے خیر دے“۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت،میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اوراس دن مردوں کے قبروں سے مبعوث ہونے کی گواھی نہیں دیتے؟
سب نے کھا:کیوں نہیں ہم سب گواھی دیتے ہیں ۔
آپ نے فرمایا: خداوندگواہ رہنا۔
آپ نے مزید فرمایا:اے لوگو ! کیا تم میری آواز سن رہے ہو؟
انہوںنے کھا: جی ھاں۔
اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری ہوگیا۔ سوائے ہوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نہیں دیتی تھی ۔ پیغمبر نے فرمایا:دیکھو! میں تمھارے درمیان دوگرانمایہ اور گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جآرہا ہوں تم ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟
حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کھا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ دو گرانمایہ چیزیں کونسی ہیں ؟
تو پیغمبراکرم نے فرمایا: پہلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جو ثقل اکبر ہے۔ اس کا ایک سرا تو پروردگار عالم کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سراتمھارے ہاتھ میں ہے،اس سے ہاتھ نہ ہٹانا ورنہ تم گمراہ ہو جاؤگے۔ دوسری گرانقدر یادگار میرے اہل بیت (ع) ہیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبردی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آملیںگے۔
ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ھی ان سے پیچہے رہنا کہ اس صورت میں بھی تم ہلاک ہو جاؤگے۔
اچانک لوگوں نے دیکھا کہ ر سول اللہ اپنے ارد گرد نگاہیں دوڑارہے ہیں گویا کسی کو تلاش کر رہے ہیں جو نھی آپ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی فوراً ان کا ہاتھ پکڑلیا اور انہیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کے نیچے کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب لوگوں نے انہیں دیکھ کر پہچان لیاکہ یہ تو اسلام کا وھی سپہ سالار ہے کہ جس نے کبھی شکست کا منہ نہیں دیکھا۔
اس موقع پر پیغمبر کی آواز زیادہ نمایاں اوربلند ہوگئی اور آپ نے ارشاد فرمایا:
”ایها الناس من اولی الناس بالمومنین من انفسهم “
یعنی اے لوگو! بتاؤ وہ کون ہے جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود ان سے زیادہ اولیت رکھتا ہے ؟ اس پر سب حاضرین نے بہ یک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ہیں ۔
تو پیغمبر نے فرمایا: خداا میرا مولا اوررھبر ہے اور میں مومنین کا مولااوررھبر ہوں اور ان کے اوپر ان کی نسبت خود ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں(اور میرا ارادہ ان کے ارادے سے مقدم ہے)۔
اس کے بعد فرمایا:
”فمن کنت مولاه فهذا علی مولاه“
۔
”یعنی جس جس کا میں مولاہ ہوں علی (ع) بھی اس اس کے مولاہ اوررھبر ہے“۔
پیغمبر اکرم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی او ربعض راویوں کے قول کے مطابق پیغمبر نے یہ جملہ چار مرتبہ دہرایا اور اس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کر کے بارگاہ خداوندی میں عرض کی:۔
”اللّٰہم وال من والاہ وعاد من عاداہ واحب من احبہ و ابغض من ابغضہ و انصرمن نصرہ واخذل من خذلہ، وادرالحق معہ حیث دار۔“
یعنی بار الٰھا! جو اس کو دوست رکہے تو اس کو دوست رکھ او رجو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی رکھ۔ جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکہے تو اس سے بغض رکھ۔ جو اس کی مدد کرے تو اس کی مددکر ۔ جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مددسے محروم رکھ اور حق کو ادہرپھیردے جدہر وہ رخ کرے۔
اس کے بعد فرمایا:
” تمام حاضرین آگاہ ہوجائیں اس بات پر کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کوان لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں پر اور اس وقت موجود نہیں ہیں “۔
روز اکمال دین
پیغمبر کا خطبہ ختم ہوگیا پیغمبر پسینے میں شرابور تھے حضرت علی علیہ السلام بھی پسینے میں نھائے ہوئے تھے۔ دوسرے تمام حاضرین کے بھی سر سے پاؤں تک پسینہ بہہ رھا تھا۔
ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئی تہیں کہ جبرئیل (ع) امین وحی لے کر نازل ہوئے اور تکمیل دین کی پیغمبر کو بایں الفاظ بشارت دی:
”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی “
۔
”آج کے دن میں نے تمھارے لئے تمھارے دین اور آئین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا“۔
اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر نے فرمایا:
”اللّٰه اکبر اللّٰه اکبر علی اکمال الدین واتمام النعمة ورضی الرب برسالتی والولایةلعلی من بعدی“
۔
”ہر طرح کی بزرگی وبڑائی خداھی کے لئے ہے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ہم پر تمام کیا اور میری نبوت ورسالت اور میرے بعد کے لئے علی (ع) کی ولایت کے لئے خوش ہوا۔“
امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی ولایت کا پیغمبر کی زبان مبارک سے اعلان سن کر حاضرین میں مبارک باد کا شور برپا ہوا لوگ بڑھ چڑھ کر اس اعزازومنصب پر حضرت علی (ع) کو اپنی طرف سے مبارک باد پیش کررہے تھے ۔ معروف شخصیتوں میں سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی طرف سے مبارک باد کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں کہ انہوں نے کھا:
”بخٍ بخٍ لک یا بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولائی و مولاکل مومن و مومنةٍ “
”مبارک ہو ! مبارک ہو! اے فرزند ابی طالب کہ آپ(ع) میرے اور تمام صاحبان ایمان مردوں اورعورتوں کے مولا اور رھبر ہوگئے“۔
اس وقت ابن عباس نے کھا :بخدا یہ عہد وپیمان سب کی گردنوں میں باقی رہے گا“۔
فدک
فدک اطراف مدینہ میں تقریباً ایک سو چالیس کلو میٹر کے فاصلہ پر خیبر کے نزدیک ایک آباد قصبہ تھا۔جب سات ہجری میں خیبر کے قلعے یکے بعد دیگر افواج اسلامی نے فتح کرلئے اور یہودیوں کی مرکزی قوت ٹوٹ گئی تو فدک کے رہنے والے یہودی صلح کے خیال سے بارگاہ پیغمبر میں سرتسلیم خم کرتے ہوئے آئے اور انہوں نے اپنی آدھی زمینیں اور باغات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سپرد کردئیے اور آدہے اپنے پاس رکہے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے پیغمبر اسلام کے حصہ زمینوں کی کاشتکاری بھی اپنے ذمہ لی۔ اپنی کاشتکاری کی زحمت کی اجرت وہ پیغمبر اسلام سے وصول کرتے تھے،(سورہ حشر آیت)کے پیش نظراس کی طرف توجہ کرتے ہوئے یہ زمینیں پیغمبر اسلام کی ملکیت خاص تہیں ۔ ان کی آمدنی کو آپ اپنے مصرف میں لاتے تھے یا ان مدات میں خرچ کرتے تھے جن کی طرف اس سورہ کی آیت نمبر ۷ میں اشارہ ہوا ہے ۔
لہٰذا پیغمبر نے یہ ساری زمینیں اپنی بیٹی حضرت فاطمة الزہرا سلام اللہ علیھا کوعنایت فرمادیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے بہت سے شیعہ اور اہل سنت مفسرین نے تصریح کے ساتھ تحریر کیا ہے۔منجملہ دیگر مفسرین کے تفسیر درالمنثور میں ابن عباس(رض) سے مروی ہے کہ جس وقت آیت (فات ذاالقربیٰ حقہ)
نازل ہوئی تو پیغمبر نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کو فدک عنایت فرمایا:
کتا ب کنزالعمال جو مسند احمد کے حاشیہ پر لکھی گئی ہے،میں صلہ رحم کے عنوان کے ماتحت ابو سعید خدری سے منقول ہے کہ جس وقت مذکورہ بالاآیت نازل ہوئی تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فاطمہ سلام اللہ علیھا کو طلب کیا اور فرمایا:
” یا فاطمة لکِ فدک“
”اے فاطمہ(ع) فدک تیری ملکیت ہے“۔
حاکم نیشاپوری نے بھی اپنی تاریخ میں اس حقیقت کو تحریرکیا ہے۔
ابن ابی الحدید معتزلی نے بھی نہج البلاغہ کی شرح میں داستان فدک تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے اور اسی طرح بہت سے دیگر مورخین نے بھی،لیکن وہ افراد جو اس اقتصادی قوت کو حضرت علی علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کے قبضہ میں رہنے دینا اپنی سیاسی قوت کے لئے مضر سمجھتے تھے،انہوں نے مصصم ارادہ کیا کہ حضرت علی علیہ السلام کے یاور وانصار کو ہر لحاظ سے کمزور اور گوشہ نشیں کردیں۔ حدیث مجہول(نحن معاشر الانبیاء ولا نورث) کے بھانے انہوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور باوجود یکہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا قانونی طور پر اس پر متصرف تہیں اور کوئی شخص ”ذوالید“(جس کے قبضہ میں مال ہو)سے گواہ کا مطالبہ نہیں کرتا،جناب سیدہ سلام اللہ علیھا سے گواہ طلب کیے گئے ۔ بی بی نے گواہ پیش کیے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود انہیں فدک عطا فرمایا ہے لیکن انہوں نے ان تمام چیزوں کی کوئی پرواہ نہیں کی۔بعد میں آنے والے خلفاء میں سے جو کوئی اہلبیت (ع) سے محبت کا اظھار کرتا تو وہ فدک انہیں لوٹا دیتا لیکن زیادہ دیر نہ گزرتی کہ دوسرا خلیفہ اسے چھین لیتا اور دوبارہ اس پر قبضہ کرلیتا ۔ خلفائے بنی امیہ اور خلفائے بنی عباس بآرہا یہ اقدام کرتے رہے ۔
واقعہ فدک اور اس سے تعلق رکھنے والے مختلف النوع حوادث جو صدر اسلام میں اور بعد کے ادوار میں پیش آئے،زیادہ دردناک اورغم انگیز ہیں اور وہ تاریخ اسلام کا ایک عبرت انگیز حصہ بھی ہیں جو محققانہ طور پر مستقل مطالعہ کا متقاضی ہے تا کہ تاریخ اسلام کے مختلف حوادث نگاہوں کے سامنے آسکیں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت کے نامور محدث مسلم بن حجاج نیشاپوری نے اپنی مشہور و معروف کتاب ”صحیح مسلم“ میں جناب فاطمہ (سلام اللہ علیھا) کا خلیفہ اول سے فدک کے مطالبہ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے، اور جناب عائشہ کی زبانی نقل کیا ہے کہ جناب فاطمہ کو جب خلیفہ اول نے فدک نہیں دیا تو بی بی ان سے ناراض ہوگئی اور آخر عمر ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔(صحیح مسلم،کتاب جھاد ج ۳ ص ۱۳۸۰ حدیث ۵۲)
”نحن معاشر الانبیاء لا نورث“
اہل سنت کی مختلف کتابوں میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسوب ایک حدیث موجود ہے جو اس طرح کے مضمون پر مشتمل ہے:
”نحن معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکناه صدقة“
”ہم پیغمبر لوگ اپنی میراث نہیں چھوڑتے جو ہم سے رہ جائے اسے راہ خدا میں صدقے کے طور پر خرچ کردیا جائے“۔
اور بعض کتابوں میں ”لا نورث“کا جملہ نہیں ہے بلکہ”ما ترکناه صدقة“
کی صورت میں نقل کیا گیا ہے ۔
اس روایت کی سند عام طور پر ابوبکر تک جا کر ختم ہوجاتی ہے جنھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد مسلمانوں کی زمام امور اپنے قبضے میں لے لی تھی۔ اور جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا یا پیغمبر اکرم کی بعض بیویوں نے ان سے پیغمبر کی میراث کا مطالبہ کیا تو انھوں نے اس حدیث کا سھارا لےکر انہیں میراث سے محروم کردیا۔
اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح (جلد ۳ کتاب الجھاد والسیر ۔ص۔ ۱۳۷۹) میں ،بخاری نے جزو ہشتم کتاب الفرائض کے صفحہ ۱۸۵ ۔پر اور اسی طرح بعض دیگر افراد نے اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ مذکورہ کتابوں میں سے بخاری میں بی بی عائشہ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے:فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا اور جناب عباس بن عبد المطلب (رسول کی وفات کے بعد )ابو بکر کے پاس آئے اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا ۔ اس وقت انھوں نے اپنی فدک کی اراضی اور خیبر سے ملنے والی میراث کا مطالبہ کیا تو ابو بکر نے کھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا۔”ہم میراث میں کوئی چیز نہیں چھوڑتے،جو کچھ ہم سے رہ جائے وہ صدقہ ہوتا ہے“۔
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نے جب یہ سنا تو نا راض ہو کر وھاں سے واپس آگئیں اور مرتے دم تک ان سے بات نہیں کی۔
البتہ یہ حدیث مختلف لحاظ سے تجزیہ و تحلیل کے قابل ہے لیکن اس تفسیر میں ہم چند ایک نکات بیان کریں گے:
۱ ۔یہ حدیث،قرآنی متن کے مخالف ہے اور اس اصول اور کلیہ قاعدہ کی رو سے نا قابل اعتبار ہے کہ جو بھی حدیث کتاب اللہ کے مطابق نہ ہو اس پر اعتبار نہیں کرنا چاہئیے اور ایسی حدیث کو پیغمبر اسلام یا دیگر معصومین علیہم السلام کا قول سمجھ کر قبول نہیں کیا جا سکتا۔
ہم قرآنی آیات میں پڑھتے ہیں کہ حضرت سلیمان(ع) جناب داؤد (ع) کے وارث بنے اورآیت کا ظاہر مطلق ہے کہ جس میں اموال بھی شامل ہیں ۔ جناب یحییٰ(ع) اور زکریا (ع) کے بارے میں ہے:
(
یرثنی ویرث من اٰل یعقوب
)
”خداوندا! مجھے ایسا فرزند عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث بنے“۔
حضرت”زکریا(ع)“کے بارے میں تو بہت سے مفسرین نے مالی وراثت پر زور دیا ہے۔
اس کے علاوہ قرآن مجیدمیں”وراثت“کی آیات کا ظاہر بھی عمومی ہے کہ جو بلا استثناء سب کے لئے ہے۔
شاید یھی وجہ ہے کہ اہل سنت کے مشہور عالم علامہ قرطبی نے مجبور ہوکر اس حدیث کو غالب اور اکثر فعل کی حیثیت سے قبول کیا ہے نہ کہ عمومی کلیہ کے طور پر اور اس کے لئے یہ مثال دی ہے کہ عرب ایک جملہ کہتے ہیں :
”انا معشرالعرب اقری الناس للضیف“
۔
ہم عرب لوگ دوسرے تمام افراد سے بڑھ کر مہمان نوازہیں (حالانکہ یہ کوئی عمومی حکم نہیں ہے)۔
لیکن ظاہر ہے کہ یہ بات اس حدیث کی اہمیت کی نفی کررھی ہے کیونکہ حضرت سلیمان(ع) اور یحییٰ(ع) کے بارے میں اس قسم کا عذر قبول کرلئے تو پہر دوسرے کے لئے بھی یہ قطعی نہیں رہ جاتی۔
۲ ۔مندرجہ بالا روایت ان کے خلاف ہے جن سے معلوم ہوتا ہو کہ ابو بکر نے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کو فدک واپس لوٹا نے کا پختہ ارادہ کر کیا تھا لیکن دوسرے لوگ اس میںحائل ہوگئے تھے چنانچہ سیرت حلبی میں ہے:
فاطمہ بنت رسول ،ابو بکر کے پاس اس وقت آئیں جب وہ منبر پر تھے ۔ انھوں نے کھا:
”اے ابو بکر! کیا یہ چیز قرآن میں ہے کہ تمھاری بیٹی تمھاری وراث بنے لیکن میں اپنے باپ کی میراث نہ لوں“؟
یہ سن کر ابو بکر رونے لگے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے پہر وہ منبر سے نیچے اترے اور فدک کی واپسی کا پروانہ فاطمہ کو لکھ دیا۔ اسی اثناء میں عمر آگئے ۔ پوچھا یہ کیا ہے؟انھوں نے کھاکہ میں نے یہ تحریر لکھ دی ہے تا کہ فاطمہ کو ان کے باپ سے ملنے والی وراثت واپس لوٹا دوں!
عمر نے کھا: اگرآپ یہ کام کریں گے تو پہر دشمنوں کے ساتھ جنگی اخراجات کھاں سے پورے کریں گے؟
جبکہ عربوں نے آپ کے خلاف قیام کیا ہوا ہے ۔ یہ کھا اور تحریر لے کر اسے پارہ پارہ کردیا۔
یہ کیونکر ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم نے تو صریحی طور پر ممانعت کی ہو اور ابو بکر اس کی مخالفت کی جراءت کریں؟اور پہر عمر نے جنگی اخراجات کا تو سھارا لیا لیکن پیغمبر اکرم کی حدیث پیش نہیں کی۔
مندرجہ بالا روایت پر اگر اچھی طرح غور کیا جائے تو معلوم ہوگاکہ یہاں پر پیغمبر اسلام کی طرف سے ممانعت کا سوال نہیں تھا۔ بلکہ سیاسی مسائل آڑے تھے اور ایسے موقع پر معتزلی عالم ابن ابی الحدید کی گفتگو یادآجاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں :
میںنے اپنے استاد” علی بن فارقی“ سے پوچھا کہ کیا فاطمہ اپنے دعویٰ میں سچی تہیں ؟ تو انھوں نے کھا جی ھاں ! پہر میں نے پوچھا تو ابوبکر انہیں سچا اور بر حق بھی سمجھتے تھے ۔
اس موقع پر میرے استاد نے معنی خیز تبسم کے ساتھ نھایت ھی لطیف اور پیارا جواب دیا حالانکہ انکی مذاق کی عادت نہیں تھی،انھوں نے کھا:
اگر وہ آج انہیں صرف ان کے دعویٰ کی بناء پر ھی فدک دےدیتے تو پہر نہ تو ان کے لئے کسی عذر کی گنجائش باقی رہتی اور نہ ھی ان سے موافقت کا امکان“۔
۳ ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک مشہور حدیث ہے جسے شیعہ اور سنی سب نے اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے،حدیث یہ ہے:”العلماء ورثة الانبیاء“
۔ ”علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں “۔
نیز یہ قول بھی آنحضرت ھی سے منقول ہے:”ان الانبیاء لم یورثوا دیناراً ولا درهماً“
۔ ”انبیاء اپنی میراث میں نہ تودینار چھوڑتے ہیں اور نہ ھی درہم“۔
ان دونوں حدیثوں کو ملا کر پڑھنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا اصل مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو یہ بات باور کرائیں کہ انبیاء کے لئے سرمایہ افتخار ان کا علم ہے اور اہم ترین چیز جو وہ یادگارکے طور پر چھوڑ جاتے ہیں ان کا ہدایت و راہنمائی کا پروگرام ہے اور جو لوگ علم و دانش سے زیادہ بہرہ مند ہوں گے وھی انبیاء کے اصلی وارث ہوں گے۔ بجائے اس کے کہ ان کی مال پر نگاہ ہو اور اسے یادگار کے طور پر چھوڑجائیں ۔ اس کے بعد اس حدیث کے نقل بہ معنی کردیا گیا اور اس کی غلط تعبیریں کی گئیں اور شاید”ماترکناہ صدقة“ والے جملے کا بعض روایات میںاس پر اضافہ کردیا گیا۔
مباہلہ
خداوندعالم نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کوئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ (ع) کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے”مباہلہ“کی دعوت دو اور کہو کہ وہ اپنے بچوں،عورتوں اور نفسو ںکو لے آئے اور تم بھی اپنے بچوںکو عورتوں اور نفسں کو بلا لو پہر دعا کرو تاکہ خدا جھوٹوں کو رسوا کردے۔
بغیر کہے یہ بات واضح ہے جب کہ مباہلہ سے مراد یہ نہیں کہ طرفین جمع ہوں ،اور ایک دوسرے پر لعنت اور نفرین کریں اور پہر منتشر ہو جائیں کیونکہ یہ عمل تو نتیجہ خیز نہیں ہے۔
بلکہ مراد یہ ہے کہ دعا او رنفرین عملی طور پر اپنا اثر ظاہر کرے اور جو جھوٹا ہو فوراً عذاب میں گرفتار ہو جائے۔
آیات میں مباہلہ کا نتیجہ تو بیان نہیں کیا گیا لیکن چونکہ یہ طریقہ کار منطق و استدلال کے غیر موثر ہونے پر اختیار کیا گیا تھا اس لئے یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ مقصود صرف دعا نہ تھی بلکہ اس کا خاجی اثر پیش نظر تھا۔
مباہلہ کا مسئلہ عرب میں کبھی پیش نہیں آیا تھا،اور اس راستہ سے پیغمبر اکرم کو صدقت و ایمان کو اچھی سرح سمجھا جاسکتا تھا،کیسے ممکن ہے کہ جو شخص کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو وہ ایسے میدان کی طرف آئے اور مخالفین کو دعوت دی کہ آؤ! اکھٹے درگاہ خدا میں چلیں،اس سے درخواست کریں اور دعا کریسیں کہ وہ جھوٹے کو رسو اکردے اور پہر یہ بھی کہے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ خوددیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ہے او رعذاب کرتا ہے۔
یہ مسلم ہے کہ ایسے میدان کا رخ کرنا بہت خطرناک معاملہ ہے کیونکہ اگر دعوت دینے والے کی دعا قبول نہ ہوئی اور مخالفین کو ملنے والی سزا کا اثر واضح نہ ہوا تو نتیجہ دعوت دینے والے کی رسوائی کے علاوہ کچھ نہ ہوگا۔
کیسے ممکن ہے کہ ایک عقلمند اورسمجھ دار انسان نتیجے کے متعلق اطمینان کئے بغیر اس مرحلے میں قدم رکہے ۔ اسی لئے تو کھا جاتا ہے کہ پیغمبراکرم کی طرف سے دعوت مباہلہ اپنے نتائج سے قطع نظر،آپ کی دعوت کی صداقت اور ایمان کی دلیل بھی ہے۔
اسلامی روایات میں ہے کہ”مباہلہ“کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم کے پاس آئے اور آپ سے مھلت چاھی تا کہ اس بارے میں سوچ بچار کرلیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کرلیں۔ مشورہ کی یہ بات ان کی نفسیاتی حالت کی چغلی کھاتی ہے۔
بہر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے ما بین یہ طے پایاکہ اگر محمد شور وغل،مجمع اور دادوفریادکے ساتھ”مباہلہ“کے لئے آئیں تو ڈرا نہ جائے اورمباہلہ کرلیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پہر حقیقت کچھ بھی نہیں ،جب بھی شوروغل کا سھارا لیا جائے گا اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں،بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پہر جان لینا چاہئیے کہ وہ خدا کے پیغمبرہیں اور اس صورت میں اس سے ”مباہلہ“کرنے سے پرھیز کرنا چاہئیے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطرناک ہے!۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق عیسائی میدان مباہلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر اپنے بیٹے حسین(ع) کو گود میں لئے حسن(ع) کا ہاتھ پکڑے اور علی (ع) اور فاطمہ(ع) کو ہمراہ لئے آپہنچے ہیں اور انہیں فرمارہے ہیں کہ جب میں دعاکروں ،تم آمین کہنا۔
عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھی تو انتھائی پریشان ہوئے اور مباہلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لئے تیار ہوگئے اور اہل ذمہ کی حیثیت سے رہنے پر آمادہ ہوگئے ۔
عظمت اہل بیت کی ایک زندہ سند
شیعہ اورسنی مفسرین اور محدثین نے تصریح کی ہے کہ آیہ مباہلہ اہل بیت رسول علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جن افراد کو اپنے ہمراہ وعدہ گاہ کی طرف لے گئے تھے وہ صرف ان کے بیٹے امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) ،ان کی بیٹی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا اور حضرت علی (ع) تھے ۔ اس بناء پر آیت میں ”ابنائنا “سے مراد صرف امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) ہیں ۔”نسائنا“سے مراد جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا ہیں اور”انفسنا“ سے مراد صرف حضرت علی (ع) ہیں ۔
اس سلسلے میں بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں ۔ اہل سنت کے بعض مفسرین نے جوبہت ھی تعداد میں ہیں ۔ اس سلسلے میں وارد ہونے والی احادیث کا انکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاًمولفِ”المنار“نے اس آیت کے ذیل میں کھا ہے:
”یہ تمام روایات شیعہ طریقوں سے مروی ہیں ،ان کا مقصد معین ہے،انہوں نے ان احادیث کی نشرو اشاعت اور ترویج کی کوشش کی ہے۔ جس سے بہت سے علماء اہل سنت کو بھی اشتباہ ہوگیا ہے“!!۔
لیکن اہل سنت کی بنیادی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے تو وہ نشاندھی کرتی ہیں کہ ان میں سے بہت سے طریقوں کا شیعوں یا ان کی کتابوں سے ہرگز کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر اہل سنت کے طریقوںسے مروی ان احادیث کا انکار کیا جائے تو ان کی باقی احادیث اورکتب بھی درجہ اعتبار سے گرجائیں گی۔
اس حقیقت کو زیادہ واضح کرنے کے لئے اہل سنت کے طریقوں سے کچھ روایات ہم یہاںپیش کریں گے۔
قاضی نوراللہ شوستری اپنی کتاب نفیس ”احقاق الحق“
میں لکھتے ہیں :
”مفسرین اس مسئلے میں متفق ہیں کہ ”ابنائنا“سے اس آیت میں امام حسن(ع) او رامام حسین(ع) مراد ہیں ،”نسائنا“سے ”حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا“اور”انفسنا“میں حضرت علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے“۔
اس کے بعد کتاب مذکور کے حاشیے پر تقریباً ساٹھ بزرگان اہل سنت کی فہرست دی گئی ہے جنہوں نے تصریح کی ہے کہ آیت مباہلہ اہل بیت رسول علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
”غایة المرام“ میں صحیح مسلم کے حوالے سے لکھا“:
”ایک روز معاویہ نے سعد بن ابی وقاص سے کھا:“
تم ابو تراب ( علی (ع)) کو سب وشتم کیوں نہیں کرتے۔وہ کہنے لگا۔
جب سے علی (ع) کے بارے میں پیغمبر کی کھی ہوئی تین باتیں مجھے یاد آتی ہیں ،میں نے اس کام سے صرف نظرکرلیا ہے۔ان میں سے ایک یہ تھی کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو پیغمبر نے فاطمہ(ع)،حسن(ع)،حسین(ع)،اور علی (ع) کو دعوت دی۔اس کے بعد فرمایا”اللهم هٰولاء اهلی“
(یعنی خدایا! یہ میرے نزدیکی اور خواص ہیں )۔
تفسیر”کشاف“کے مولف اہل سنت کے بزرگوں میں سے ہیں ۔ وہ اس آیت کے ذیل میں کہتے ہیں ۔”یہ آیت اہل کساء کی فضیلت کو ثابت کرنے کے لئے قوی ترین دلیل ہے“۔
شیعہ مفسرین،محدثین اور مورخین بھی سب کے سب اس آیت کے ”اہل بیت “کی شان میں نازل ہونے پر متفق ہیں چنانچہ”نورالثقلین“ میں اس سلسلے میں بہت سی روایات نقل کی گئی ہیں ۔ ان میں سے ایک کتاب”عیون اخبار الرضا“ہے۔ اس میں ایک مجلس مناظرہ کا حال بیان کیا گیا ہے،جو مامون نے اپنے دربار میں منعقد کی تھی۔
اس میں ہے کہ امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام نے فرمایا:
”خدا نے اپنے پاک بندوں کو آیت مباہلہ میں مشخص کردیا ہے اور اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے:
(
فمن حاجک فیه من بعد ما جاء ک من العلم فقل
)
اس آیت کے نزول کے بعد پیغمبر ،علی (ع) ،فاطمہ(ع)،حسن(ع)،اور حسین(ع) کو اپنے ساتھ مباہلہ کے لئے لے گئے اور یہ ایسی خصوصیت اور اعزاز ہے کہ جس میں کوئی شخص اہل بیت علیہم السلام پر سبقت حاصل نہیں کرسکا اور یہ ایسی منزلت ہے جھاں تک کوئی شخص بھی نہیں پہنچ سکا اور یہ ایسا شرف ہے جسے ان سے پہلے کوئی حاصل نہیں کرسکا“۔
تفسیر”برھان“،”بحارالانوار“اور تفسیر”عیاشی“میں بھی اس مضمون کی بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں جو تمام اس امر کی حکایت کرتی ہیں کہ مندرجہ بالا آیت”اہل بیت“علیہم السلام کے حق میں نازل ہوئی ہے۔
زینب سے آنحضرت (ص) کی شادی
زمانہ بعثت سے پہلے اور اس کے بعد جب کہ حضرت خدیجة الکبریٰ(ع) نے پیغمبر اسلام سے شادی کی تو حضرت خدیجہ (ع) نے ”زید“ نامی ایک غلام خریدا،جسے بعد میں آنحضرت کو ھبہ کردیا۔
آپ نے اسے آزاد کردیا۔ چونکہ اس کے قبیلے نے اسے اپنے سے جدا کردیا تھا،لہٰذا رسول رحمت نے اسے اپنا بیٹا بنالیا تھا،جسے اصطلاح میں”تبنّی“ کہتے ہیں ۔
ظہور اسلام کے بعد زید مخلص مسلمان ہوگیا اور اسلام کے ہر اول دستے میں شامل ہوگئے اور اسلام میں ایک ممتاز مقام حاصل کرلیا۔ آخر میں جنگ موتہ میں ایک مرتبہ لشکر اسلام کے کمانڈر بھی مقرر ہوئے اور اسی جنگ میں شربت شھادت نوش کیا۔
جب سرکار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زید کا عقد کرنا چاھا تو اپنی پھوپھی زاد،بہن زینب بنت حجش “بنت امیہ بنت عبد المطلب سے اس کے لئے خواستگاری کی۔ زینب نے پہلے تو یہ خیال کیا کہ آنحضرت اپنے لئے اسے انتخاب کرناچاہتے ہیں ۔لہٰذا وہ خوش ہوگئی اور رضا مندی کا اظھار کردیا،لیکن بعدمیں جب اسے پتہ چلا کہ آپ کی یہ خواستگاری تو زید کے لئے تھی تو سخت پریشان ہوئیںاور انکار کردیا ۔ اس کے بھائی عبداللہ نے بھی اس چیز کی سخت مخالفت کی۔
یھی وہ مقام تھا جس کے بارے میں وحی الٰھی نازل ہوئی او رزینب اور عبداللہ جیسے افراد کو تنبیہ کی کہ جس وقت خدا اور اس کا رسول کسی کام کو ضروری سمجہیں تو وہ مخالقت نہیں کر سکتے۔
جب انھوں نے یہ بات سنی تو سر تسلیم خم کردیا ۔ (البتہ آگے چل کرمعلوم ہوگا کہ یہ شادی کوئی عام شادی نہیں تھی بلکہ یہ زمانہ جاہلیت کی ایک غلط رسم کو توڑنے کے لئے ایک تمھید تھی کیونکہ زمانہ جاہلیت میں کسی باوقار اور مشہور خاندان کی عورت کسی غلام کے ساتھ شادی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی تھی،چاہے وہ غلام کتنا ھی اعلی قدر وقیمت کا مالک کیوں نہ ہوتا۔
لیکن یہ شادی زیادہ دیرتک نہ نبھ سکی اور طرفین کے درمیان اخلاقی نا اتفاقیوں کی بدولت طلاق تک نوبت جا پہنچی ۔ اگر چہ پیغمبر اسلام کا اصرار تھا کہ یہ طلاق واقع نہ ہو لیکن ہوکر رھی۔
اس کے بعد پیغمبر اکرم نے شادی میں اس نا کامی کی تلافی کے طور پر زینب کو حکم خدا کے تحت اپنے حبالہ عقد میں لے لیا اور یہ بات یہیں پر ختم ہوگئی۔
لیکن دوسری باتیں لوگوں کے درمیان چل نکلیں جنہیں قرآن نے مربوط آیات کے ذریعے ختم کردیا۔ اس کے بعد زید اور اس کی بیوی زینب کی اس مشہور داستان کو بیان کیا گیا ہے جو پیغمبر اسلام کی زندگی کے حساس مسائل میں سے ایک ہے اور ازواج رسول کے مسئلہ سے مربوط ہے ۔
چنانچہ ارشاد ہوتاہے کہ:”اس وقت کو یاد کرو جب اس شخص کو جسے خدا نے نعمت دے رکھی تھی اور ہم نے ابھی ،اے رسول!اسے نعمت دی تھی او رتم کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو روکے رکھو اور خدا سے ڈرو“۔
نعمت خدا سے مراد وھی ہدایت اور ایمان کی نعمت ہے جو زید بن حارثہ کو نصیب ہوئی تھی اور پیغمبر کی نعمت یہ تھی کہ آپ نے اسے آزاد کیا تھا اور اپنے بیٹے کی طرح اسے عزت بخشی تھی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زید او رزینب کے درمیان کوئی جھگڑا ہوگیا تھا اور یہ جھگڑا اس قدرطول پکڑگیا کہ نوبت جدائی اور طلاق تک جاپہنچی ۔ اگرآیت میںلفظ”تقول“کی طرف توجہ کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ فعل مضارع ہے او راس بات پر دلالت کررھا ہے کہ آنحضرت بآرہا بلکہ ہمیشہ اسے نصیحت کرتے اور روکتے تھے۔
کیا زینب کا یہ نزاع زید کی سماجی حیثیت کی بناء پر تھا جو زینب کی معاشرتی حیثیت سے مختلف تھی؟کیونکہ زینب کا ایک مشہور ومعروف قبیلہ سے تعلق تھا اور زید آزاد شدہ تھا۔ یا زید کی اخلاقی سختیوں کی وجہ سے تھا؟یا ان میں سے کوئی بات بھی ،نہیں تھی بلکہ دونوں میں روحانی او راخلاقی موافقت اور ہماآہنگی نہیں تھی؟کیونکہ ممکن ہے دو افراد اچہے تو ہوں لیکن فکر ونظر اور سلیقہ کے لحاظ سے ان میں اختلاف ہوجس کی بناء پر اپنی ازدواجی زندگی کوآئندہ کے لئے جاری نہ رکھ سکتے ہوں؟
پیغمبر کی نظر میں تھا کہ اگر ان میاں بیوی کے درمیان صلح صفائی نہیں ہوپائی اور نوبت طلاق تک جاپہنچتی ہے تو وہ اپنی پھوپھی زادبہن زینب کی اس نا کامی کی تلافی اپنے ساتھ نکاح کی صورت میں کردیں گے،اس کے ساتھ آپ کو یہ خطرہ بھی لاحق تھا کہ لوگ دو وجوہ کی بناء پر آپ پر اعتراض کریں گے اور مخالفین ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کردیں گے۔
اس سلسلے میں قرآن کہتا ہے :”تم اپنے دل میں ایک چیز کو چھپائے ہوئے تھے جسے خدا آشکار کرتا ہے اور تم لوگوں سے ڈرتے ہوحالانکہ تمھارا پروردگارزیادہ حق رکھتا ہے کہ اس سے ڈرو“۔
پہلی وجہ تویہ تھی کہ زید آنحضرت کا منہ بولا بیٹا تھا،اور زمانہ جاہلیت کی رسم کے مطابق منہ بولے بیٹے کے بھی وھی احکام ہوتے تھے جو حقیقی بیٹے کے ہوتے ہیں ۔ منجملہ ان کے یہ بھی تھا کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے بھی شادی کرنا حرام سمجھاجاتا تھا ۔
دوسری یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیونکراس بات پر تیار ہوسکتے ہیں کہ وہ اپنے ایک آزاد کردہ غلام کی
مطلقہ سے عقد کریں جبکہ آپ کی شادی بہت بلندوبالاہے ۔
بعض اسلامی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ ارادہ حکم خداوندی سے کیا ہوا تھا اوربعد والے حصے میں بھی اس بات کا قرینہ موجود ہے۔
اس بناء پر یہ مسئلہ ایک تو اخلاتی اور انسانی مسئلہ تھا اور دوسرے یہ زمانہ جاہلیت کی غلط رسموں کو توڑنے کا ایک نھایت ھی موثر ذریعہ تھا (یعنی منہ بولے بیٹے کی مطلّقہ سے ازادکردہ غلام کی مطلّقہ سے عقد)۔
مسلم ہے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان مسائل میں نہ تو لوگوں سے ڈرنا چاہئے تھا اور نہ ھی فضا کے مکدر ہونے اور زہریلے پروپیگنڈے سے خوف ووحشت کا شکارھی ہوجاتے ،خاص کرجب یہ احتمال ہوکہ ایک جنجال کھڑاہوجائے گااور آپ اور آپ کے مقدس مشن کی ترقی اور اسلام کی پیش رفت کےلئے رکاوٹ کھڑی ہوجائے گی اور یہ بات ضعیف الایمان افراد کو متزلزل کردے گی اور ان کے دل میں شک وشبھات پیدا ہوجائیں گے ۔
اس لئے قرآن میںاس سلسلہ کے آخرمیں فرمایا گیا ہے:
” جس وقت زید نے اپنی حاجت کو پورا کرلیا اور اپنی بیوی کو چھوڑدیا تو ہم اسے تمھاری زوجیت میں لے آئے تاکہ منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے مطلّقہ ہونے کے بعد مومنین کو ان سے شادی کرنے میں کوئی مشکل نہ ہو“۔
یہ کام ایسا تھا جسے ا نجام پاجانا چاہئے تھا
”اور خدا کافرمان انجام پاکر رہتا ہے“۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن ہرقسم کے شک وشبہ کو دور کرنے کےلئے پوری صراحت کے ساتھ اس شادی کا اصل مقصد بیان کرتا ہے جو زمانہ جاہلیت کی ایک رسم توڑنے کے لئے تھی یعنی منہ بولے بیٹوں کی مطلقہ عورتوں سے شادی نہ کرنے کے سلسلے میں یہ خود ایک کلی مسئلہ کی طرف اشارہ ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مختلف عورتوں سے شادی کرنا کوئی عام سی بات نہیں تھی بلکہ اس میں کئی مقاصد کا ذکر کرنا مقصود تھا جو آپ کے مکتب کے مستقبل کے انجام سے تعلق رکھتا تھا ۔
ثعلبہ
”ثعلبہ بن حاطب انصاری“ ایک غریب آدمی تھا،روزانہ مسجد میں آیا کرتا تھا اس کا اصرار تھاکہ رسول اکرم دعا فرمائیں کہ خدا اس کو مالا مال کردے۔ حضور نے اس سے فرمایا:
”مال کی تھوڑی مقدار جس کا تو شکر ادا کر سکے مال کی کثرت سے بہتر ہے جس کا تو شکر ادا نہ کرسکے“۔
کیا یہ بہترنہیں ہے کہ تو خدا کے پیغمبرکی پیروی کرے اور سادہ زندگی بسر کرے ۔
لیکن ثعلبہ مطالبہ کرتا رھا او ر آخر کار اس نے پیغمبر اکرم سے عرض کیا کہ میں آپ کو اس خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ اگر خدا نے مجھے دولت عطا فرمائی تو میں اس کے تمام حقوق ادا کروں گا۔چنانچہ آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی۔
ایک روایت کے مطابق زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ اس کا ایک چچا زاد بھائی جو بہت مال دار تھا ، وفات پاگیا اور اسے بہت سی دولت ملی۔
ایک اور روایت میں ہے کہ اس نے ایک بھیڑ خریدی جس سے اتنی نسل بڑھی کہ جس کی دیکھ بھال مدینہ میں نہیں ہوسکتی تھی ۔ اس لئے انہیں مدینہ کے آس پاس کی آبادیوں میں لے گیا اور مادی زندگی میں اس قدر مصروف ہوگیا کہ نماز با جماعت تو کیا نماز جمعہ میں بھی نہ آتا تھا ایک مدت کے بعد رسول اکرم نے زکوٰةوصول کرنے والے عامل کو اس کے پاس زکوٰة لینے کے لئے بھیجا لیکن اس کم ظرف کنجوس نے نہ صرف خدائی حق کی ادائیگی میں پس وپیش کیا بلکہ شرع مقدس پر بھی اعتراض کیا اور کھا کہ یہ حکم جزیہ کی طرح ہے یعنی ہم اس لئے مسلمان ہوئے تھے کہ جزیہ دینے سے بچ جائیں۔ اب زکوٰة دینے کی شکل میں ہم میں اور غیر مسلموں میں کون سافرق باقی رہ جاتا ہے۔ حالانکہ اس نے نہ جزیہ کا مطلب سمجھا تھا اور نہ زکوٰة کا اور اگر اس نے سمجھا تھا تو دنیا پرستی جو اسے حقیقت کے بیان او راظھار حق کی اجازت نہیں دیتی تھی،غرض جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی باتیں سنیں تو فرمایا:
”یا ویح ثعلبه ! یا ویح ثعلبه“
۔
”وائے ہو ثعلبہ پر ہلاکت ہو ثعلبہ پر“۔
(منتخب از تفسیر نمونہ)