دوسرا باب
حضرت مختار کے مختصر خاندانی حالات
حضرت مختاربنی ہوازن کے قبیلہ ثقیف کے چشم وچراغ تھے ۔یہ قبیلہ جرات و ہمت شجاعت اور بہادری میں مشہور زمانہ تھا ۔آپ کے اجداد میں ثقیف نامی ایک عظیم شخصیت گزری ہے جس کی طرف قبیلہ ثقیف منسوب ہے جس کا تعلق نبی ہوازن سے ہے ۔ (صراح ص ۶۶ جلد ۲ مجمع البحرین ص ۳۷۰)
حضرت مختارکے دادا مسعود ثقفی تھے۔ یہ نہایت بزرگ شخص تھے اور ابوالحسن محدث مصنف فیض الباری کے ارشاد کے مطابق انہیں اصحاب میں بڑا درجہ حاصل تھا۔ (خیرالمال فی اسماء الرجال طبع لاہور ۱۳۱۸ ء ان کے والد عمر یا عمیر ثقفی تھے۔ (ناسخ التواریخ جلد ۲ ص ۶۶۶)
علامہ ابن نما لکھتے ہیں کہ عمیر ثقفی کے والد عقدہ اور ان کے والد غنرہ تھے ۔(ذوب الغفار ص ۴۰۱ ضمیمہ بحار ج ۱۰)
حضرت مختار کے والد جناب ابوعبید ہ ثقفی تھے میرے نزدیک انہیں بھی صحابی رسول ہونے کاشرف حاصل تھا علامہ شبلی نے الفاروق میں انہیں صحابی تسلیم نہیں کیا۔ یہ نہایت ہی شجاع اور بہادر تھے ان کی جرات و ہمت اور میدان قتال میں ان کی نبروآزمائی اہل کمال کی نگاہوں میں بڑی ممتاز حیثیت رکھتی تھی انہوں نے اکثر اسلامی جہادوں میں سپہ سالاری کی ہے اور شاندار کامیابی سے اسلام کو فروغ بخشا ہے میدان جنگ میں شب و روز گزارنے میں انہیں بڑی خوشی محسوس ہوتی تھی یہ اسلام کی امداد میں سر سے گزرنے کیلئے بے چین رہتے تھے مورخ ہروی کا بیان ہے کہ خلیفہ دوم حضرت عمر نے انہیں فتح عراق کے لیے سپہ سالار بنا کر بھیجا ۔ انہوں نے وہاں پہنچ کر دشمن کے دانت کھٹے کردئیے اور اپنی روایتی بہادری سے عظیم کارنامے کیے بالاآخر ہاتھیوں کے ایک بہت بڑے غول پر حملہ کرتے ہوئے ایک ہاتھی کے پیر سے کچل کرجان بحق تسلیم ہوگئے ۔ (رو ضۃ الصفاج ۳ ص ۷۴ مجالس المومنین ص ۳۵۶ رو ضۃ المجاہدین ص ۵ الفاروق ص ۴۴)
حضرت مختار کے چچا جناب مسعود کے بیٹے سعد تھے ۔جناب سعد بن مسعود ثقفی ،یہ بھی اپنی خاندانی روایات کے مطابق بڑے شجاع بہادر اور جرات و ہمت سے بھر پور تھے ۔انہوں نے بھی اکثر اسلامی جنگوں میں نبردآزمائی کی ہے اور بڑے کار نمایاں کیے ہیں اور انہوں نے اکثر گورنری کے فرائض بھی انجام دئیے ہیں فتح مدائن کے بعد خلیفہ ثانی حضرت عمر نے انہیں وہاں کا گورنر بنایا تھا۔یہ عہد ثالث میں بھی وہاں کے بدستور گورنر ہے اور عہد امیر المومنین میں بھی اسی عہد پر بحال رہے ۔(روضہ الصفا جلد ۳ ص ۷۴)
پھر جب معاویہ کا اقتدار قائم ہو گیا تو اس نے انہیں مدائن سے ہٹا کر موصل کا گورنر بنا دیا تھا ۔ نورالابصارص ۹ طبع لکھنو)جناب سعد دوستداران اہلبیت میں سے تھے اور آل محمد سے بڑی عقیدت رکھتے تھے ۔(مجالس المومنین ص ۳۵۷)
حضرت رسول کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی زبان اقدس پر ولادت مختار کی بشارت
علما کرام کا بیان ہے کہ حضرت علیعليهالسلام
نے ارشاد فرمایا ہے کہ حضرت رسول کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم
فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح بنی اسرائیل میں اچھے اور برے ،فرمانبردار اور نافرمان دونوں طرح لوگ تھے ۔اسی طرح میری امت میں بھی ہیں ۔بعض اچھے بعض برے بعض فرمانبردار بعض نافرمان ہیں اور جس طرح بنی اسرائیل کے لوگوں کو دنیا میں ان کے کردار کا بدلا دیا گیا تھا ۔اسی طرح میری امت میں بھی عمل اور کردار کا بدلا دیا جائے گا ۔آپ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں جو اطاعت گزار تھا اس کو اس کی جزا اور جو نافرمان تھا اس کی اس کو سزا دنیا میں دی گئی تھی ۔اور اس کا انداز یہ تھا کہ فرمانبرداروں کا درجہ بلند کر دیا گیا تھا اور نافرمانوں کو عذاب میں مبتلا کر دیا تھا ہماری امت میں بعض وہ ہیں جو عزت کے قابل ہیں اور بعض وہ ہیں جو سزا کے لائق ہیں ۔بعض نافرمان ہیں جو اطاعت گزار اور تابع فرمان ہیں ۔ان کی عزت خدا اور رسول کی نگاہ میں بہت زیادہ ہے اور جو عاصی و گنہگار ہیں وہ عتاب و عذاب کے مستحق ہیں اور دنیا میں بھی اس سے ضرور دو چار ہوں گے۔یہ سن کر اصحاب نے دست بستہ عرض کی ۔مولا ہم میں وہ لوگ ہیں جن کا شمار عاصیوں اور گنہگاروں میں ہے۔
فرمودند آنہائکہ بتعظیم مااہلبیت ورعایت حقوق مامامورشد ند پس مخالفت وانکار واستحفاف بآل ورزند واولاد رسول رابکشند
آپ نے فرمایا کہ وہ ایسے لوگ ہیں جن پر خداوند عالم نے ہم اہلیت کی تعظیم و تکریم واجب قرار دی ہے اور ہمارے حقوق کا لحاظ کرنا ان پر فرض فرمایا ہے لیکن وہ ان تما م فرائض واجبات سے بحب دنیا غفلت کرتے ہیں اور ہماری عزت کے بجائے ہماری توہین کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں ۔
اور وہ دن دور نہیں کہ اولاد رسو ل کو قتل کریں گے ۔یہ سن کر لوگوں نے نہایت تعجب سے پوچھا کہ مولا کیا واقعی ایسا ہو گا ۔آپ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک ہو گا اور ضرور ہو گا۔ اور سنو یہ میرے نور نظر اور روشنی بصر حسن و حسین جو تمہاری نگاہوں کے سامنے ہیں امت ناہنجار کے ہاتھوں قتل کیے جائیں گے ۔اور اے میرے اصحاب تمہیں بھی معلوم ہو کہ اس بے دردی سے قتل ہو ں گے کہ جس کا جواب نہ ہوگا پھر خداوند عالم جو عادل حقیقی ہے ان پر دنیا میں اسی طرح عذاب نازل کرے گا جس طرح اس نے قتل یحییٰ بن زکریا کی وجہ سے بنی اسرائیل پر نازل تھا۔اصحاب نے پوچھا ،مولا ان پر نزول عذاب کا کیا اندازہ ہو گا فرمایا کہ خدا ایک شخص کو پیدا کرے گا جو اپنی شمشیرآبدا ر سے انہیں کیفر کردار تک پہنچا کر دم لے گا ۔اور انہیں اچھی طرح عذاب میں مبتلا کردے گا اصحاب نے پھر پوچھا مولا وہ پیدا ہونے والا کون ہو گا ؟کس قبیلہ کا ہو گا اور اس کا نام کیاہو گا ۔آپ نے فرمایا کہ وہ بنی ثقتیف کا چشم و چراغ ہو گااور اس کا نام مختار ہو گا ۔ (نو ر الابصار ص ۱۴ جلاء العیون ص ۲۲۷ بجار الانورص ۳۹۸ جلد ۱)
حضرت شہید ثالث سید نور اللہ شو شتری بحوالہ قاضی میبندی شارح دیوان مرتضوی وتفسیر حضرت امام حسن عسکری رقمطراز ہیں ۔سیقتل ولدی الحسین وسیخرج غلامه وسیخرج غلامه من ثقیف ویقتل من اللذین ظلمو اثلاث مائة وثلاثة ثمانین الف رجل ،
گفتندمن هو
گفتهو مختار بن ابی عبیده ثققی
۔حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ عنقریب میرا فرزند حسین قتل کر دیا جائے گا ۔اس کے بعد بنی ثقیف کا ایک شخص خروج کرے گااور ان لوگوں میں سے جنہوں نے قتل حسین میں حصہ لیا ہو گا اسی ہزار تین سو تین افراد قتل کرے گا۔
لوگوں نے دریافت کیا مولا اس کا نام کیا ہو گا فرمایا مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی ۔ (مجالس المومنین ص ۳۵۹) حضرت مختار کے متعلق حضرت رسول کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی بشارت اور پیشگوئی حضرات علما ء اہلسنت بھی تسلیم کرتے ہیں اور انہوں نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے لیکن ان کے بیان میں کمال درجہ کا تعصب موجود ہے ۔اور شاید یہ انداز بیان ہے حکومت بنی امیہ کے دباؤ اور تاثر کا نتیجہ ہو ۔مختار کے متعلق رسول کریم کی پیشگوئی کے لیے ملاحظہ ہو منہاج السنۃ امام ابن تیمیہ حسین ویزید ص ۳۴ طبع و خیر المآل فی اسما ء الرجال السمی بہ ترجمہ الا کمال طبع لاہور ۱۳۱۸ ء ومشکوة شریف ص ۵۴۳ طبع لکھنو۔
ان کتابوں کے بعض مصنفین نے حضرت مختار پر یہ الزام بھی لگایاہے کہ وہ نزول وحی کے مدعی تھے ۔اس کی متعلق مورخ اسلام علامہ محمد خاوند پاشار قمطراز ہیں کہ مختار جو کچھ کہتے تھے وہی ہوتا تھا ۔جس سے جہلا نے یہ رائے قائم کر لی کہ ان پر وحی کا نزول ہوتا تھا اور اسی نزول کا انتساب ان کی طرف کر دیا ۔حالانکہ ایسا نہ تھا۔ان کا کہنا اس لیے درست ہوتا تھا کہ وہ ذہانت اور فراست کے درجہ کمال پر فائز تھے ۔(روضہ الصفا جلد ۳ ص ۸۴ طبع نو لکشور)
بشارت محمدیہ کے مطابق حضرت مختار کی ولادت حضرت امام زین العابدینعليهالسلام
ارشاد فرماتے ہیں کہ بعداندک مدت از بشارت دادن جناب امیر علیہ السلام مختار متولد شد حضرت علی علیہ السلام کے بشارت محمد یہ بیان کرنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی پیدا ہوئے تھے ۔ (جلا ء العیون ص ۳۴۷ ونورالابصار ص ۱۴ طبع لکھنو)
حضرت مختار کی ولادت باسعادت
تاریخ شاید ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھوں کارہائے نمایاں ظہور پذیر ہوئے یا جو مقرب بارگاہ بندے گزرے ہیں ۔ان کے کو ائف و حالات ابتدائے نشو ونما بلکہ اس سے بھی قبل سے عام انسانی حالات وصفات سے جداگانہ رہے ہیں ۔مثال کے لیے حضرت علی علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت عباس علمدار کے حالات دیکھے جاسکتے ہیں ۔(مناقب ابن شہر آشوب جلد ۱ ص ۲۲ وذکر العباس طبع لاہور )
حضرت علی کے متعلق خلیفہ دوم کا اعتراف تاریخوں میں موجود ہے وہ کہتے ہیں۔
عجزت النساء ان تلدن مثل علی بن ابی طالب
دنیا کی عورتیں علی ابن ابی طالب کی مثال پیدا کرنے سے عاجز ہیں (مناقب خوارزمی ص ۴۸ ینا بیع المودة ص ۶۲)
حضرت مختار کے ہاتھوں کارنمایاں عالم ظہور میں آنے والا تھا ۔اسی لیے ان کے بطن مادر میں مستقر ہو نے سے پہلے اور اس کے بعد عجیب و غریب حالات واقعات ظاہر ہوئے ہیں ۔حضرت علامہ شیخ جعفر بن محمد بن نما علیہ الرحمة تحریر فرماتے ہیں ۔
کان ابو عبیده والده تینوق فی طلب النساء تذکرله نساء قومه فابی ان یتزوج منهن فاتاه آت فی منامه فقال تزوج دومة الحسناء
۔
حضرت مختار کے والد ابو عبیدہ ایک نیک سیرت ،خوش سلیقہ عورت کی تلاش میں سرگرداں تھے ۔وہ چاہتے تھے کہ ایک خاندانی عورت دستیاب ہو جائے ۔لوگوں نے انہیں کی قوم کی بہت سی عورتوں کی نشاندہی کی لیکن انہوں نے ان سے ایک پر بھی رضا ظاہر نہ کی اور کسی ایک کو بھی پسند نہ کیا ۔ابو عبیدہ اپنے بستر پر اندرون خانہ سو رہے تھے کہ خواب میں ایک آنے والے نے ان سے کہا کہ اے ابو عبیدہ تم دومۃ الحسناء سے نکاح کرلو۔وہ تمہارے لیے ویسا ہی فرزند جنے گی جیسا تم چاہتے ہو کہ وہ ایسی عورت ہے جس کی تم کبھی کوئی برائی نہ دیکھو گے اور نہ سنو گے ۔خواب سے بیدار ہو کر ابو عبیدہ نے اس واقعہ کو اپنے اہل قبیلہ سے بیان کیا کہ ان لوگوں نے ان کے اس خواب کاستقبال کیا اور سب نے اس رشتہ کے لیے رائے قائم کر دی اور وہب بن عمر بن معتب کے پاس ان کی لڑکی دومۃ الحسناء کے لیے پیغام بھیج دیا گیا اور انہوں نے اس رشتہ کو نجوشی منظور کرکے ابو عبیدہ کے ساتھ اپنی لڑکی دومہ کی شادی کر دی ۔ دومۃالحسناء ابو عبیدہ کے ساتھ نہایت خوشی اور مسرت کے ایام گذار رہی تھیں کہ استقرار حمل ہو گیا اور مادر رحم میں اس بچے کا نقطہ وجود اور نطفہ شہود ونمود قائم ہو ا۔جس کے ہاتھوں کاتب تقدیر نے واقعہ کربلا کا بدلا لینا لکھا ہو اتھا اور جسے نصرت محمد وآل محمد کا شرف عظیم نصیب ہونے والا تھا ۔
دومۃ کا بیان ہے کہرایت فی النوم قائلایقول
کہ میں نے قیام نطفہ کے فوراً بعد خواب دیکھا کہ ایک شخص آیا ہے اور کہتا ہے ۔ابشری بالولد اشبهه شی بالاسد
اے دومۃتجھے بشارت ہو کہ تیرے بطن سے وہ بچہ پیدا ہونے والا ہے جو شیر کی مانند ہو گا۔ وہ بڑا بہادر اور زبردست نبردآزما ہو گا ۔وہ کہتی ہیں ۔فلما وضعت کہ جب حمل حمل ہوا اور بچہ پیدا ہو چکا تو وہی آنے والا جو بشارت دے گیا تھا پھر خواب میں آیا اور کہنے لگا ۔کہ اے دومہ یہ فرزند بڑا نہایت بہادر ہوگا ۔نبر دآزمائی میں اس کے قدم پیچھے نہ ہٹیں گے ۔اور دشمن کے مقابلہ میں یہ کامیاب ہو گا ۔اورمیدان جنگ میں بڑی دلیری سے کامیابی اور کامکاری حاصل کرے گا۔ (ذوب النضار فی شرح الثار ص ۴۰۱ ضمیمہ بحاالانوار طبع ایران ۱۸۲۷ ءء نورالابصار ص ۲۱)
بعض معاصرین لکھتے ہیں کہ ہاتف غیبی نے مختار کی ماں سے یہ کہا تھا کہ یہ بچہ اہل بیت پیغمبر کا دوست ہے اور آل محمد کے دشمنوں کو باامداد الہٰی قتل کرے گا۔
تاریخ ولادت
حضرت مختار کی تاریخِ ولادت کسی کتاب میں میری نظر سے نہیں گذری البتہ یہ مسلّم ہے کہ آپ سن ۱ ہجری میں پیدا ہوئے ہیں جیسا کہ ناسخ التواریخ جلد ۲ المآل فی اسماء الرجال محدث ابوالحسن طبع لاہور ۱۳۸۱ ء ذوب النصار شرح الثار ابن نماص ۴۰۱ طبع ایران ۱۲۸۷ ء ونور الابصار ص ۲۱ تاریخِ اسلام مسٹر ذاکر حسین جلد ۵ ص ۱۲۰ میں ہے بعض معاصرین کا کہنا ہے کہ مختار کی ماں کا نام حلیہ تھا۔ نیز یہ کہ مختار کا باپ مختار کے پیدا ہوتے ہی فوت ہو گیا تھا اور یہ کہ اس روز پیدا ہوئے تھے جس روز رسولِ خدا جنگ تبوک ۱ میں تشریف لے گئے تھے میرے نزدیک یہ سب امور غلط ہیں۔ مختار اور ان کے بھائی بہن کے اسماء علامہ ابن نما اورعلامہ محمد ابراہیم رقمطراز ہیں کہ مختار کی ولادت کے بعد ان کے والد ابو عبیدہ ثقفی نے ان کا نام مختار رکھا (ذوب النضار ۴۰۱ ونورالابصار ص ۲۱)
میرے نزدیک یہ نام قدرتی طور اس لیے قرار پایا کہ یہی خدا و رسول و ائمہ کی نگاہ میں واقعہ کربلا کا بدلہ لینے کے لیے چنے ہو ئے تھے ۔کیونکہ لفظ مختار کے معنی چنے ہوئے کہ ہیں علما نے کہا ہے کہ مختار کے چار اور سگے بھائی تھے جن کے نام یہ ہیں ۔ ۱ ۔جبیر ، ۲۔ابو جبیر، ۳۔ ابو الحکم ابوجبیر امیہ اور ایک بہن تھی جس کا نام صفیہ تھا جو عبد اللہ ابن عمر سے منسوب تھی (نور الابصار ص ۲۱) تواریخ میں ہے کہ آپ کی ایک بہن عمر سعد کے پاس تھی ۔
حضرت مختار کی کنیت
کتاب ذوب النضار فی شرح الثار علامہ جعفر بن نما ص ۴۰۱ و کتاب رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص ۷۸ میں ہے کنیتہ ابو اسحاق حضرت مختار کی کنیت ابو اسحاق تھی ۔حضرت مختار نے اس کنیت کا جوان ہونے کے بعد اکثر مواقع کا رکردگی میں ذکر کیا ہے اور علامہ خاوند شاہ ہروی اپنی کتاب رو ضۃ الصفا میں لکھتے ہیں کہ آغاز واقعہ انتقام کے موقع پر جب لوگ توثیق مختار کے لیے محمد بن حنیفہ کے پاس مدینہ جاکر واپس ہو ئے تھے تو مختار نے کمال مسرت کے ساتھ کہا تھا۔ اللّٰہ اکبر من ابو اسحاق ام کہ بہ تیغ آبدار من ظالمان خاکسار بادیہ پیما آتش دوزخ خواہند رفت۔ میں ابو اسحاق ہو ں میری تیغ آبدار سے عنقریب دشمنان آل محمد جہنم رسید ہوں گے ۔
حضرت مختار کا لقب
کتاب مجمع البحرین ص ۳۷۵ وجلا العیون ص ۲۴۷ میں ہے کہ حضرت مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کا لقب کیسان تھا۔صراح جلد ۲ ص ۲۴۲ میں ہے ۔کیسان بمعنی زیر کی است ،کیسان کے معنی عقل مندی اور ہوش مندی کے ہیں ۔المنجد ص ۷۵۱ طبع بیروت میں ہے کہ کیسان کیس سے مشتق ہے جس کے معنی عاقل اور ذہین کے ہیں اور اسی ذیل میں صاحب فہم اور صاحب ادب کے معنی بھی ہیں علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کا ارشاد ہے کہ یہ لقب حضرت علی علیہ السلام کا عنایت کردہ ہے (جلا ء العیون ص ۲۴۷ طبع ایران )
علامہ ابن نما ارشاد فرماتے ہیں کہ اسی لقب کی وجہ سے شیعوں کا فرقہ کیسا نیہ مختار کی طرف منسوب ہے (ذوب النضار ص ۴۰۲ وبحاالانورص ۴۰۰) ۔
علامہ ابو القاسم لاہوری تحریرفرماتے ہیں کہ مختار کی طرف شیعوں کا جو فرقہ منسوب تھا اسے مختاریہ کہتے تھے ۔وہ فرقہ علامہ شہر ستانی اسی کی تحریر کے مطابق محمد بن حنیفہ کو امام مانتا تھا لیکن صحیح یہ ہے کہ مختار اور ان کے ماننے والے حضرت امام زین العابدین کو امام زمانہ مانتے تھے اسی حالت میں مختار ہمیشہ رہے اور اسی اعتقا د پر ان کی شہادت واقع ہوئی ۔اعلیٰ اللہ مقامہ (معارف الملة الناجیہ والناریہ ص ۵۲ طبع لاہور ۱۲۹۶ ءء)
علامہ مجلسی کا فیصلہ یہ ہے کہ الکیسانیہ ہم المختاریہ کیسانیہ اور مختار یہ فرقہ ایک ہی ہے جو حضرت مختار کی طرف منسوب ہے (بحاالانوار جلد ۱۰ ص ۴۰۰)
میرے نزدیک کیسانیہ یا مختاریہ کوئی فرقہ نہ تھا ۔بلکہ مختار کے اس گروہ اور پارٹی کیسانیہ اور مختاریہ کہتے تھے جو واقعہ کربلا کا بدلہ لینی میں حضرت مختار کے ساتھ تھا۔