تیرہواں باب
حضرت مختار کا مدینہ میں قیام حضرت رسول کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا خط
حضرت مختار کا مدینہ میں قیام حضرت رسول کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا خط ،عزم مختار کی توانائی اور حضرت مختار کی حضرت امام زین العابدینعليهالسلام
سے اجازت طلبی کیلئے مکہ کو روانگی علماء مورخین کا بیان ہے کہ حضرت مختار عبداللہ ابن زبیر کی بیعت کرکے مکہ سے مدینہ منورہ واپس آگئے۔ اور وہیں اس وقت تک قیام پذیر رہے ۔
جب تک خداوندعالم کا حکم انتقام نافذ نہیں ہوگیا، امام اہل سنت علامہ عبداللہ بن محمد رقمطراز ہیں۔ثم ان المختار اقام فی المدینة الی ان احب الله ان ینتقم من ظالمی ال محمد صلوت الله علیهم اجمعین
۔ الخ
پھر حضرت مختار مدینہ میں اس وقت تک مقیم رہے جب تک خداوندعالم نے یہ نہیں چاہا کہ آل محمد پر ظلم کرنے والوں سے بدلہ لیا جائے اور انہوں نے ان کے جو حقوق غصب کیے ہیں اس کی سزادی جائے۔ (قرة العین ضمیمہ نور العین ص ۱۳۳ )
حضرت مختار مدینہ میں شب و روز اپنے منصوبے میں کامیابی کے اسباب پر غور و فکر کرتے رہتے تھے اورلوگوں سے مل کر اپنی کامیابی کے متعلق تبادلہ خیا لا ت کرتے رہتے تھے ۔
ان کاکوئی لمحہ ایسا گزرتا تھاجس میں وہ اپنے مقصد سے غافل رہتے رہے ہوں ۔آل محمد کے صفات واوصاف بیان کرنے اور ان کی نشرواشاعت رطب اللسان رہناان کی زندگی کاجزبن گیاتھا۔
حضرت مختا ر کو جو چیز متر ددکر تی تھی ۔وہ اہل کوفہ کی بیوفائی تھی اور انہیں اس کا بھی بڑا خیال تھا۔ کہ ساری دنیا مخالف ہے اور جس مقام پرمیں بد لہ لینے کاعزم کر چکا ہوں وہ کوفہ ہے اور کوفے کے تمام حسینی دلیر جن کی تعد اد تقر یبا ً پانچ ہزار ہے۔ سب جیلوں میں پڑے ہیں اور جیل بھی کوفے کی جس کامزہ مجھے معلوم ہے وہ اس پربھی بڑے تدبر سے غور کر رہے تھے کہ جبکہ کوفہ کی بڑی آبادی خون حسینی سے ہاتھ رنگین کیے ہوئے ہے اورہمیں انہیں کوقتل کرناہے۔ اور انہیں سے بدلہ لیناہے اور ہمارے مددگاروں کی تعداد بہت کم ہے پھر کیو ں کر کامیابی ہوگی۔
حضرت رسول کریم کا خط حضرت مختار کے نام
حضرت مختار یہی کچھ سوچ رہے تھے کہ ایک دن ایک شخض نے آکر آپ کی خدمت میں ایک خط پیش کیا۔ جب حضر ت مختا ر نے اُ سے کھو لا تو وہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفےصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا حظ تھا ۔
مورخ ہروی علامہ محمد خاوند شاہ لکھتے ہیں:
سبب جزم مختار با نتقام وتصمیم عزیمت اوبر محاربہ و قتل اہل ظلام وصول کتاب امیرالمومنین علی بود و مفصل ان مجمل انکہ شعبی ۱ روایت میکند کہ روزے در مجلس مختار ناصر اہل بیت رسول اللہ نشة بودم ناگاہ شخصے برہیت مسافران درآمد ہ گفتالسلام علیک یا ولی الله
ان گاہ مکتوبے سربمہر بیروں آور دوبدست مختار وادومعروض گردانید کہ این امانتی ست کہ امیرالمومنین علی بمن سپرد و فرمود بمختار رساں مختار گفت ترابخدای کہ جزاوخدائی نیست سوگندمی دہم کہ آنچہ گفتی مطابق واقعہ درست است آں شخص برصدق قول خود سوگندخوردہ مختار مہراز کاغذ برداشت و درآنجابود کہبسم الله الرحمن الرحیم السلام علیک
امابعد بداں اے مختار خدائے تعالیٰ محبت اہل بیت رادردل توافگندوخون مارا ازاہل بغی وطغیان وارباب تمردو عصیان طلب خواہی داشت باید کہ خاطر جمع داری وہیچ گونہ پریشانی بہ ضمیر خود راہ نہ دہی ومختار بعداز اطلاع بر مضمون ایں مکتوب مستظہر و قوی دل شدہ در قتل دشمنان خاندان رسالت ، مساعی جمیلہ مبذول داشت )رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص (۷۵ ونور الابصار ص ۸۳ و مجالس المومنین ص ۳۵۷
کہ انتقام خون حسین پر حضرت مختار کی جرات اور اس پر عزم بالجزم کی وجہ یہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین کا مرسلہ وہ مکتوب جو حضرت رسول نے رسال فرمایا تھا وہ مختار کو مل گیا اس اجمال کی تفصیل یہ ہے شعبی بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن حضرت مختار کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ناگاہ ایک شخص بصورت مسافر داخل مجلس ہوا اس نے آکر السلام علیک یاولی اللہ کہا اور سربمہر ایک مکتوب حضرت مختار کے ہاتھ میں دے کربولا کہ یہ حضرت امیرالمومنین کی امانت ہے وہ مجھے دے گئے تھے کہ میں آپ کی خدمت میں پہنچاؤں حضرت مختار نے اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ تم قسم کھاؤ کہ یہ جو بیان کررہے ہو بالکل درست ہے چنانچہ اس آنے والے نے قسم صداقت کھائی اس کے بعد حضرت مختار نے اس خط کی مہر توڑی اس میں لکھا تھا کہ خداوندعالم نے ہمارے اہل بیت کی محبت تمہارے دل میں ڈال دی ہے تم ہمارے اہل بیت کے دشمن سے عنقریب بدلہ لوگے دیکھو اس سلسلہ میں تم حیران و پریشان نہ ہونا اور دل جمعی کے ساتھ اپنا کام کرنا اس خط کو پانے کے بعد حضرت مختار نہایت قوی دل ہوگئے اور قتل دشمن میں دلیر ہو کر سامنے آنکلے اور پوری سعی سے واقعہ کربلا کا بدلہ لیا۔
اس خط کو پاتے ہی حضرت مختار کا جذبہ انتقام جوش مارنے لگا ان کی ہمت بلند اور ان کا حوصلہ جو ان ہوگیا لیکن چونکہ وہ سمجھتے تھے کہ انتقام لینا بغیر امام وقت کی اجازت کے صحیح نہ ہوگا اس لیے انہوں نے ضروری سمجھا کہ امام زمانہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے اجازت حاصل کریں اس مقصد کے لیے وہ مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوگئے کیونکہ امام علیہ السلام اس زمانہ میں مکہ ہی میں قیام پذیر تھے۔ (لواعج الاحزان)
حضرت مختار مدینہ سے روانہ ہوکر مکہ جارہے تھے کہ راستہ میں ابن عرق سے ملاقات ہوئی وہ کہتے ہیں کہ رایت المختار اشترالعین الخ میں نے مختار کو دیکھا کہ ان کی آنکھ پر چوٹ ہے تو ان سے پوچھا کہ یہ زخم کیسا ہے جو اچھا ہونے کو نہیں آتا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہی چوٹ ہے جوابن زیاد کی مار سے پیدا ہوگئی تھی اور اب اس نے ایسی شکل اختیار کرلی ہے کہ کسی صورت سے اچھی نہیں ہوتی ۔
اے ابن عرق میں تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ فتنہ ابھر گیا ہے اور فساد کی آگ تیار ہوگئی ہے اور دیکھو عنقریب وہ بھڑک اٹھے گی اور میں ابن زیاد کو اس کے کیفر کردار تک پہنچادوں گا ۔ (دمعۃ ساکبہ ص ۴۰۸ ، طبع ایران )
اس کے بعد حضرت مختار آگے بڑھے اور چلتے چلتے داخل مکہ ہوئے اور اس روایت کی بنا پر جس میں ظہور وخروج مختار تک کے لیے حضرت محمد حنفیہعليهالسلام
روپوش ہوگئے تھے حضرت مختار نے ان کو تلاش کرنا شروع کیا بالاخر ان سے ملاقات ہوئی ۔ مختار نے ان سے اپنے عزم وارادہ کو بیان کیا ۔ حضرت محمد حنفیہعليهالسلام
بے انتہا خوش ہوئے اور وہ یہ سمجھتے ہوئے کہ انتقام واقعہ کربلا بلا اجازت امام زمانہ درست نہیں ہے اور امام زمانہ اس وقت تک حضرت امام زین العابدینعليهالسلام
ہیں جن کو میں بھی قطعی طور پر امام زمانہ تسلیم کرتا ہوں (زوب النضار ابن نما ضمیمہ بحار جلد ۱۰ ص ۴۰۱)
ان سے دریافت کرنا چاہیے حضرت محمد حنفیہعليهالسلام
نے حضرت مختار سے کہا کہ جہاں تک میرا تعلق ہے میں واقعہ کربلا کے خون بہا کو واجب سمجھتا ہوں (تاریخ طبری جلد ۴ ص ۶۵۳ قرة العین ۱۴۳) اس کے بعد میرے تاریخی استنباط کے مطابق حضرت محمد حنفیہعليهالسلام
حضرت مختار کو لے کر حضرت امام زین العابدینعليهالسلام
کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے تمام حالات بیان کیے اور حضرت رسول کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خط کا حوالہ دیا ۔ حضرت مختار جو کہ خود بھی امام زین العابدین کی امامت کے قائل تھے۔ (معارف الملة الناجیة والناریہ ص ۵۶ )
حضرت امام زین العابدینعليهالسلام
سے اجازت کے طالب ہوئے اور امام علیہ السلام نے انہیں اجازت دے دی لیکن چونکہ بنی امیہ کا دور تھا اور حضرت امام ہر لمحہ خطرہ محسوس کررہے تھے لہٰذا انہوں نے اس مسئلہ میں اپنے کو سامنے لانا مناسب نہیں سمجھا (نورالابصار ص ۷)
اسی بنا پر حضرت محمد حنفیہعليهالسلام
کو اس واقعہ انتقام کا ولی امر بنادیا جیسا کہ اس واقعہ سے ظاہر ہے جب کہ مختار نے کوفہ میں علم انتقام بلند کیا اور پچاس افراد محمد حنفیہعليهالسلام
کے پاس تصدیق حال کے لیے آئے اور انہوں نے حضرت امام زین العابدینعليهالسلام
کے پاس لے جاکر پیش کیا تھا اور امامعليهالسلام
نے فرمایا قد ولیتک ھذا لامرفاصنع ماشتمیں نے آپ کو اس واقعہ انتقام میں ولی امر اور مختار بنا دیا ہے ۔
آپ جوچاہیں کریں (ذوب النضار فی شرح الثار ابن نما ص ۴۰۱)
چنانچہ وہ لوگ وہاں سے پلٹے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کوفہ پہنچ کرکہا کہ ہمیں امام زین العابدین اور محمد حنفیہعليهالسلام
نے اجازت انتقام دے دی ہے روایت کے عیون الفاظ یہ ہیں۔
قال لهم قوموابناالی امامی و امامکم علی بن الحسین علیهماالسلام دخل ودخلواعلیه اخبره خیرهم الذی جاوا الیه ولاجله قال یا عم لوان عبدا زبخیا تعصب لنا اهل البیت لوجب علی الناس موازرته ولقد ولیتک هذا لامر فاصنع فاصنع ماشت فخر جواوقد سمعوا کلامه وهم یقولون اَذِنَ لنازین العابدین علیه السلام وَ محمد بن الحنفیه عليهالسلام
(الخ دمعۃ ساکبہ ۴۰۸ وذوب النضار ص ۴۰۷ ) و محمد بن الحنفیة۔
(ترجمہ) "جب وہ لوگ حضرت محمد حنفیہعليهالسلام
کے پاس پہنچے تو انہوں نے لوگوں سے فرمایا کہ اٹھو اور ہمارے ساتھ حضرت امام زین العابدین کے پاس چلو جو ہمارے اور تمہارے امام ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ ان کی خدمت میں پہنچے اور ان سے سارا واقعہ بیان کیا۔ حضرت امام زین العابدینعليهالسلام
نے فرمایا کہ اے میرے چچا جہاں تک انتقام کا تعلق ہے میں یہ کہتا ہوں کہ اگر غلام زنگی بھی ہم اہلبیت کے بارے میں زیادتی کرے تو ہر مسلمان پر اس کا مواخذہ واجب ہے (اور اے چچا سنو !) میں نے اس کے بارے میں تم کو والی امر بنا دیا ہے اب تمہارا جوجی چاہے کرو یہ سن کر وہ لوگ وہاں سے روانہ ہوگئے اور انہوں نے کوفہ پہنچ کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہمیں انتقام لینے کی اجازت حضرت امام زین العابدین اور حضرت محمد حنفیہعليهالسلام
نے دے دی ہے۔
" الغرض حضرت محمد حنفیہعليهالسلام
حضرت امام زین العابدینعليهالسلام
سے ولایت امر حاصل کرنے کے بعد اپنے دولت کدہ پرواپس آئے اور انہوں نے حضرت مختار کو چالیس اعیان واشراف کوفہ کے نام خطوط حمایت لکھ کردئیے جن میں ایک خط حضرت ابراہیم ابن مالک اشتر کے نام کا بھی تھا یہ وہی خطوط ہیں جنہیں مختار نے کوفہ پہنچ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا ۔ (رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص ۷۸)
حجۃ الاسلام مولانا محمد ابراہیم مجتہد کی تحریر سے مستفاد ہوتا ہے کہ حضرت مختار حضرت امام زین العابدینعليهالسلام
کی خدمت میں پیش ہوئے اور چونکہ خاندان رسالت کی نمایاں حمایت کیے بغیر کام نہیں چل سکتا تھا۔ اس لیے حضرت محمد حنفیہعليهالسلام
کو پیش پیش رکھا۔ (نورالابصار ص ۶)
عالم اہل سنت علامہ عبداللہ ابن محمد لکھتے ہیں کہ حضرت محمد حنفیہعليهالسلام
نے اپنا دستخطی فرمان دے کر حضرت مختار کو کوفہ کی طرف روانہ کردیا ۔ اور اس میں یہ بھی لکھا کہ مختار میری طرف سے مازون اور ولی امر ہیں ان کی حمایت واطاعت کرو۔ (قرة العین ص ۱۴۶)
غرضیکہ حضرت امام زین العابدینعليهالسلام
نے حضرت مختار کو بالواسطہ اجازت دی اور وہ انتقامی مہم کے لیے کوفہ کو روانہ ہوگئے ۔ حضرت امام زین العابدین اپنے اصحاب سے اکثر اس کا ذکر فرمایا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بہت جلد مختار کامیاب ہوکر ابن زیاد اور عمر سعد وغیرہ ہما کا سرمیرے پاس بھیجیں گے ۔ (جلاء العیون علامہ مجلسی ص ۲۴۸)
یہ امر بھولنا نہیں چاہیے کہ حضرت مختار ابھی مکہ ہی میں تھے کہ یزید بن معاویہ کا انتقال ہوگیا اور ابن زبیر کی حکومت نے جڑ پکڑ لی اور اس کی حکومت حجاز ، بصرہ اور کوفہ میں مستقر و قائم ہوگئی۔ خبر انتقال یزید کے بعد حضرت مختار اپنی روانگی سے پہلے عبداللہ ابن زبیر کے پاس گئے۔ ان کے جانے کا مطلب یہ تھا کہ اس سے مل کر اس کا رخ دیکھیں اور اندازہ لگائیں کہ اس کے خیالات کیا ہیں ، حضرت مختار جب عبداللہ ابن زبیر سے ملے تو اسے بالکل بدلا ہوا پایا ۔ حکومت کے وسیع ہوجانے سے ابن زبیر اپنے وعدہ سے بھی پھر گیا اور انتقام خون حسینعليهالسلام
کا جو نعرہ لگاتا تھا اسے بھی بھلا بیٹھا ۔ حضرت مختار کو اس کا یہ رویہ سخت ناگوار ہوا اور آپ نے دل میں ٹھان لی کہ میں اس کے خلاف بھی خروج کروں گا۔ (نورالابصار ص ۸۵)
علامہ معاصر مولانا سید ظفر حسن لکھتے ہیں کہ یزید اور ابن زبیر کی کشمکش میں ۶۳ ھ ئتمام ہوا اور ۶۴ء کا آغاز ہونے لگا اس مدت میں ابن زبیر کی حکومت مکہ و مدینہ سے بڑھ کر یمن اور حضرموت تک جاپہنچی تھی ۔ کوفہ میں بھی اس کے اثرات کی برقی رودوڑنی لگی تھی ۔ یزید گھبرا اٹھا ابن زبیر بڑے توڑ جوڑ کے آدمی تھے ۔ انہوں نے بنی امیہ کے تمام حکمرانوں کو جویزید کے معین کیے ہوئے تھے ۔ مکہ اور مدینہ دونوں سے نکال باہر کیا اور خود ملکی انتظام کی باگ اپنے ہاتھ میں تھام لی اب تو یزید کے غیظ و غضب کی کوئی انتہا نہ رہی اس نے مسلم بن عقبہ اور حصین بن نمیر کی ماتحتی میں د س ہزار فوج مکہ و مدینہ کی طرف روانہ کی اور یہ تاکید کردی کہ پہلے حتی الامکان تین روز مدینے کو خوب لوٹا جائے ۔
پھر مکہ پر چڑھانی کی جائے یہ جرار لشکر منزلیں مارتا مدینہ میں داخل ہوگیا مسلم بن عقبہ نے بیعت کی بہت کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی ادھر ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ یزید نے ابن زیاد کو مکہ کی مہم پر بھیجنا چاہا وہ راضی نہ ہوا اور صاف صاف کہہ دیا کہ میرے لیے قتل حسینعليهالسلام
کا گناہ کافی ہے اس پر اہل مکہ کے قتل کا گناہ اضافہ کرنا نہیں چاہتا اس انکار سے یزید کا خطرہ اور بڑھ گیا اس نے مسلم بن عقبہ کو ایک خط اور بھیج کر یہ تاکید کی کہ مدینہ پہنچے تو امام زین العابدینعليهالسلام
سے کوئی تعرض نہ کرے ۔ بلکہ ان کی تعظیم و تکریم کا پورا لحاظ رکھے کیونکہ اس فساد میں ان کا ہاتھ نہیں۔ مسلم بن عقبہ تو اپنا ایمان جاہ و منصب کی قرباں گاہ پر پہلے ہی بھینٹ چڑھا چکاتھا اس کو مدینہ کی غارت گری میں کیا تامل ہوسکتا تھا وہ آندھی کی طرح حجاز میں آیا اور جنگ کا آغاز کرکے مدینہ رسول کے امن وا مان کو اپنے عسکری گرد و غبار میں لپیٹ لیا ۔ یہ لڑائی واقعہ حرہ کے نام سے مشہور ہے ۔
۲۸ ذی الحجہ ۶۴ ھ سے اس کا آغاز ہوا تھا پہلے تو اہل مدینہ نے بڑی دلیری سے فوج شام کا مقابلہ کیا لیکن جب ان کا سردار عبداللہ بن مطیع بھاگ کھڑا ہوا تو سب کے قدم بھی میدان سے اکھڑگئے ابن عقبہ مدینہ میں داخل ہوا اور حکم یزید کے مطابق تین دن متواتر قتل عام کرتا رہا نوبت یہ پہنچی کہ تمام اصحاب رسول گھروں سے نکل کر پہاڑوں اور جنگلوں میں جاچھپے تاہم سات سوبزرگان قریش جن میں قاریان قران کی ایک بڑی تعداد شامل تھی قتل کیے گئے اور عام طور پر مدینہ کی عورتوں کے ساتھ زنا کیا گیا جن کے بطن سے نوسوزنا زاد ے پیدا ہوئے دس ہزار غلام تلوار کے گھاٹ اتارے گئے جو لوگ بچ رہے تھے مسلم بن عقبہ نے ان سے یہ کہہ کر بیعت لی کہ ہم یزید کے غلام ہیں جس نے یہ کہنا پسند نہ کیا قتل کر ڈالا گیا مدینہ کی مہم سرکرتے ہی مسلم بن عقبہ بیمار ہوگیا اور اس کا مرض روز بروز بڑھنے لگا یزید کے حکم کے مطابق اس نے مکہ کی مہم ابن نمیر کے سپرد کردی اور یہ تاکید کردی کہ خانہ کعبہ کی حرمت کا کوئی خیال نہ کیا جائے اور جس طرح بنے وہاں کے لوگوں پرقبضہ کیا جائے امیروقت کی اطاعت خانہ کعبہ کی حرمت سے کہیں زیادہ ہے۔ (العیاذ باللہ) مسلم بن عقبہ مرگیا اور ابن نمیر نے پوری تیاری کے ساتھ مکہ پر دھاوا کیا ۔
ابن زبیر مقابلہ کیلئے نکلے ۔ بازار کا ر زار گرم ہوا منذر ابن زبیر مارا گیا اور فوج شام نے غلبہ پاکر اہل مکہ کو شکست دی ابن زبیر روپوش ہوگئے ۔ ابن نمیر نے فوج کو حکم دیا کہ منجنیقوں سے کعبہ پر پتھر برساؤ چنانچہ پتھروں کی بارش سے بہت سے شہر ی زخمی ہوئے سارا شہر محاصرہ میں تھا جس کا سلسلہ ماہ صفر سے آخر ربیع الاول تک قائم رہا۔
جب اہل شام پتھر برساتے برساتے تھک گئے تو انہوں نے منجنیقوں سے گندھک اور روئی میں آگ لگا کر پھینکنی شروع کی جس سے خانہ کعبہ کے پردے جل اٹھے ان کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں نذآتش ہوئیں۔ ابھی محاصرہ اٹھنے نہ پایا تھا کہ دمشق میں یزید لعین واصل جہنم ہوا مکہ میں خبر پہنچی تو ابن نمیر کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اب اسے ٹھہرنا دشوار ہوگیا چلتے وقت ابن زبیر کو کعبہ میں بلا کر کہا یزید تو مرگیا میں اپنے تمام لشکر کے ساتھ اس شرط پر تمہاری بیعت کرسکتا ہوں کہ ہمارے ساتھ دمشق چلے چلو وہاں ہم تمہیں تخت پر بیٹھا دیں گے۔اس نے کہا جب تک مکہ اور مدینہ والوں کے خون کا کل اہل شام سے بدلہ نہ لے لوں گا کوئی کام نہ کروں گا ابن نمیر ابن زبیر کی کج فہمی کو سمجھ گیا کہنے لگا کہ جو شخص تجھ کو صاحب عقل و ہوش سمجھے وہ خود بیوقوف ہے میں تجھے نیک صلاح دیتا ہوں اور تو مجھے دھمکاتا ہے۔ یزید کے مرنے سے ابن زبیر کے سرپرآئی بلاٹل گئی اس نے شکست خوردہ فوج کو پھر جمع کیا اور وہ شہر مکہ پر پھر بدستور قابض ہوگیا ۔ مدینہ والوں نے ابن عقبہ کے معین کیے ہوئے حاکم کو شہر سے نکال باہر کیا۔ ابن زبیر نے یہاں بھی قبضہ کرلیا ۔
اب بھلا ایسی صورت میں جب کہ ابن زبیر کا عروج بڑھ رہا تھا وہ حضرت مختار کی کیا پروا کرتا ۔
بالآخر انہوں نے حضرت مختار کی طرف سے بے رخی کی حضرت مختار اس کی روش سے سخت بددل ہوگئے مختار کو یہ بات سخت ناگوار تھی کہ ابن زبیر نے حکومت حاصل کرنے کے بعد خون حسین کے بدلہ لینے کا خیال مطلقاً ترک کردیا۔ مورخ ہروی کا بیان ہے کہ حضرت مختار نے ابن زبیر سے عہد وپیمان کرلیا تھا اور ان کا پورا ساتھ دے رہے تھے ۔ جب اس پر مصیبت آئی یہ اس کی مدد کرتے تھے چنانچہ جب عمر بن زبیر جو عبداللہ ابن زبیر کا بھائی تھا اپنے بھائی سے لڑنے کیلئے مکہ پر حملہ آور ہوا تو مختار کمر جدواجتہاد بستہ درجنگ سعی بسیار نمووتاعمر گرفتار گشت مختار نے کمال سعی و کوشش سے اس کا مقابلہ کیا اور اس درجہ اس سے جنگ کی کہ عمر گرفتار ہوگیا اسی طرح جب حصین ابن نمیر نے حکم یزید سے مکہ کا محاصرہ کیا تو مختار نے دفع لشکر شام میں کمال جرأت سے دادِ مردانگی دی اور جب یزید فوت ہوگیا اور ابن زبیر کی حکومت حجاز کوفہ بصرہ تک پہنچ گئی تو اس نے ان سے بے التفاتی شروع کی اور اپنے تمام وعدوں سے وہ پھر گیا اس کے طرز عمل سے مختار سخت بددل ہو گئے اور ابن زبیر کے خلاف بھی خروج کا تہیہ کرکے مکہ سے نکل کھڑے ہوئے۔ (رو ضۃ الصفا ج ۳ ص ۷۵)