مختار آل محمد

مختار آل محمد0%

مختار آل محمد مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ

مختار آل محمد

مؤلف: مولانا نجم الحسن کراروی
زمرہ جات:

مشاہدے: 28923
ڈاؤنلوڈ: 4504

تبصرے:

مختار آل محمد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 26 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28923 / ڈاؤنلوڈ: 4504
سائز سائز سائز
مختار آل محمد

مختار آل محمد

مؤلف:
اردو

تیسرا باب

حضرت مختار کے بچپن کے حالات

مثل مشہور ہے کہ ہو نہار بردے کے چکنے چکنے پات ،جس کا مستقبل روشن ہو تا ہے جس سے کارہائے نمایاں کا ظہور ہونے والا ہوتا ہے ا سکے بشرہ سے آیندہ کے آثار عالم طفلی میں ہی ظاہر ہونے لگتے ہیں عام لوگ چاہے اس خصوصیت کا ادراک نہ کرسکیں لیکن وہ نگاہیں جو بمفاد قرآن مجید، اعراف پر خطہ پیشانی پڑھ کر د خول جنت اور دخول جہنم کا حکم لگا سکیں گی ۔وہ یقینا دل کی گہرائیوں میں اپنی چھپی ہو ئی محبت کا مطالعہ کرکے اس کے اثرات کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

جناب مختار حضرت امیر المومنینعليه‌السلام کے زانوئے مبارک پر

علامہ ابو عمر محمد بن عمر ابن عبد العزیز الکشی اور علامہ محمد باقر مجلسی اور علامہ شیخ ابن نما ،اضبغ ابن نباة صحابی حضرت امیرا لمومنین علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ ان کا بیان ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت مختار کمال کمسنی کی حالت میں حضرت کے زانو پر بیٹھے ہو ئے ہیں اور وہ کمال محبت ورحمت سے ان کے سر پر ہاتھ پھیر رہے ہیں اور فرماتے جاتے ہیں اے عقل مند اور اے بہاد ر ہوشیار (رجال کشی ص ۸۴ بجارالانوار ص ۴۰۰ جلد ۱ ذوب النضار ص ۲۰۲)

اس واقعہ کی تفصیل حافظ عطا الدین حسام الواعظ بحوالہ شیخ ابو جعفر ابن بابویہ القمی یوں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب مدینہ کی ایک ایسی گلی سے گذررہے تھے جس میں چھوٹے چھوٹے بچے کھیل رہے تھے ۔انہیں کھیلنے والوں میں مختار بھی تھے ۔مختار کے کندھوں پر گیسو لہرا رہے تھے ۔حضرت علی کی جو نہی نگاہ مختار پر پڑی آپ ٹھہر گئے اور آپ نے پوچھا یہ بچہ کس کا ہے ۔کہا گیا کہ ابو عبیدہ صحابی رسول کا ہے ۔یہ سن کر حضرت علی آگے بڑھے اور بڑھ کر مختار کو آغوش میں اٹھا لیا پھر اپنے زانو پر بیٹھا کر دست مبارک ان کے سر پر پھرنے لگا ۔اس کے بعد فرمایا اے پسرمن کے باشند کہ تو خون مارا ازا عادی ما باز خواہی۔اے میرے فرزند وہ زمانہ کب آئے گا کہ ہمارے دشمنوں سے بدلا لے گا ۔(رو ضۃ المجاہدین ص ۳ طبع ایران )

عہد طفلی اور کسب کمالات میں شوق وانہماک

حضرت مختار کو بڑے ہو کہ چونکہ ایک بہت بڑے کام کو پروان چڑھانا تھا ۔لہذا قدرتی طور پر انہیں کسب کمالات میں دلچسپی لابدی اور لازمی و ضروری تھی یہی وجہ ہے کہ وہ بچپن سے ایسے کمالات حاصل کرنے میں منہمک رہے جو آگے چل کر ان کے قدرتی منصوبہ میں ممد اور معاون ثابت ہو ئے ۔علامہ محمد احمدنجفی بحوالہ زیدابن قدامہ لکھتے ہیں کہ مختار نے چار سال کی عمر سے لکھنا پڑھنا شروع کرکے علم وقرآن وحدیث اور دینیات حاصل کرنے کے بعد فن شہسواری ،تیر اندازی ،نیزہ بازی اور پیراکی میں تیرہ سال کی عمر سے پہلے پہلے کمال حاصل کر لیا اور ان کمالات کے مظاہرے کو واقعہ قیس الناطف میں بروئے کار لا کر اپنے والد ابو عبید اور چچا سعد کو خوش کیا۔ (مختار نامہ ص ۲۶۳)

فاضل معاصر مولا نا سید ظفر حسن صاحب قبلہ تحریر فرماتے ہیں کہ مختار کو فن سپاہ گری میں کمال حاصل تھا تیر اندازی میں اپنا مثل نہ رکھتے تھے ۔(ملاحظہ ہو مختصر مختار نامہ ص ۳۰)

۱۳ سال کی عمر میں جذبہ نبرد آزمائی

علامہ شیخ جعفر بن محمد بن نما تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کی عمر جب تیرہ سال کی ہوئی تو آپ میں جذبہ اظہار شجاعت کمال کو پہنچ گیا ۔اتفاقاً اسی دوران میں واقعہ قیس الناطف ظہور ٍپذیر ہوا حضرت مختار اس معرکہ میں اپنے والد اور چچا کے ہمراہ موجود تھےوکان ینقلت للقتال جب معرکہ تیز ہوا تو مختار بے تحاشا میدان کا رزار کی طرف دوڑے اور جنگ کی آگ میں کو د پرنے کے لیے بے چین ہو گئے ۔ فیمنعہ سعد بن مسعودعمہ یہ دیکھ کر مختار کے چچا سعد بن مسعو د نے بڑھ کر اس شیر ہیجا کو قابو میں کیا اور جنگ کرنے سے روکا ۔(ذوب النضار فی شرح الثار ص ۴۰۱) یہ واقعہ فتح ایران کے سلسلے ہیں ۱۳ ھئمیں وقوع پذیر ہوا ہے ۔اس جنگ کو جنگ ِقیس ناطف یا واقعہ جسر کہتے ہیں (تاریخ اسلام جلد ۲ ص ۷۲)

حضرت مختارکے سر سے باپ کا سایہ اُٹھ گیا

(جنگ عراق میں ابو عبیدہ کی موت ) علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ فارس کی حکومت کا چوتھا دور جو ساسانی کہلاتا ہے نو شیرواں عادل کی وجہ سے بہت نام آور تھا ۔آنحضرت کے زمانہ میں اسی کا پوتا پرویز تخت نشین تھا ۔اس مغرور بادشاہ کے زما نے تک سلطنت نہایت قوی اور زور آور رہی لیکن اس نے مرنے کے ساتھ دفعة ایسی ابتری پیدا ہو گئی کہ ایوان حکومت مدت تک متزلزل رہا ۔شیرویہ اس کے بیٹے نے کل آٹھ مہینے حکومت کی اور اپنے بھائیوں کو جو کم و بیش ۱۵ تھے قتل کرا دیا ،اس کے بعد اس کا بیٹا اردشیر ۷ سات برس کی عمر میں تخت پر بیٹھا ۔لیکن ڈیڑھ برس کے بعد دربار کے ایک افسرنے اس کو قتل کر دیا ،اور آپ بادشاہ بن بیٹھا سن ہجری کا بارہواں سال تھا ۔چند روز کے بعد درباریوں نے اس قتل کرکے جواں شیر کو تخت نشین کیا وہ ایک برس کے بعد قضا کر گیا ۔اب چونکہ خاندان میں یزدجرد کے سوا جو نہایت صغیر السن تھا۔اولاد ذکور باقی نہیں رہی تھی ۔پوران وخت کو اس شرط پر تخت نشین کیا گیا کہ یز دجرد سن شعور کو پہنچ جائے گا تو وہی تاج وتحت کا مالک ہو گا ۔

پرویز کے بعد جو انقلاب حکومت ہوتے رہے اس کی وجہ سے ملک میں جا بجابے امنی پھیل گئی ۔

چنانچہ پوران کے زمانے میں یہ مشہور ہو گیا کہ فارس میں کوئی وارث تاج وتحت نہیں۔برائے نام ایک شخض کو ایوان شاہی میں بیٹھا رکھا ہے ۔اس خبر کی شہرت کے ساتھ عراق میں قبیلہ وائل کے دوسرداروں مثنی شیبانی اور سوید عجلی نے تھوڑی تھوڑی جمعیت بہم پہنچا کر عراق کی سرحد حیرہ وابلہ کی طرف غارت گری شروع کی (اخبار الطوال ابو حنیفہ دنیوری) یہ حضرت ابو بکرکی خلافت کا زمانہ تھا اور خالد یمامہ اور دیگر قبائل عرب کی مہمات سے فارع ہو چکا تھا ۔مثنی نے حضرت ابو بکر کی خدمت میں حاضر ہو کر عراق پر حملہ کرنے کی اجازت حاصل کی مثنی خود اگرچہ اسلام لا چکے تھے لیکن اس وقت تک ان تمام کا قبیلہ عیسائی یا بت پرست تھا ۔حضرت ابو بکر کی خدمت سے واپس آکر انہوں نے اپنے قبیلہ کو اسلام کی ترغیب دی ۔اور قبیلہ کا قبیلہ مسلمان ہو گیا (فتوح البلدان بلاذری ص ۲۴۱)

ان نو مسلموں کا بڑا گروہ لے کر عراق کا رخ کیا ادھر حضرت ابو بکر نے خالد کو مدد کے لیے بھیجا خالد نے عراق کے تمام سرحدی مقامات فتح کر لیے اور حیرہ پر علم فتح نصب کیا ۔یہ مقام کوفہ سے تین میل کے فاصلے پر ہے اور چونکہ نعمان بن منذر نے خورنق میں ایک مشہور محل بنایا تھا ۔وہ ایک یاد گار مقام خیال کیا جاتا تھا ۔

حضرت ابو بکر نے ربیع الثانی ۳۱ ھء ۶۳۴ ء میں (بلاذری ص ۲۵۰)

خالد کو حکم بھیجا کو فوراً شام کو روانہ ہوں اور مثنی کو اپنا جانشین کرتے جائیں اور خالد ادھر روانہ ہو ئے اور عراق کی فتوحات دفعة رک گئیں ۔حضرت عمر مسند خلافت پر بیٹھے سب سے پہلے عراق کی مہم پر توجہ کی ۔بیعت خلافت کے لیے تمام اطراف دیار سے بے شمار آدمی آئے تھے اور تین دن تک ان کا تانتا بندھا رہا تھا۔حضرت عمر نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور مجمع عام میں جہاد کا وعظ کیا لیکن چونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ عراق حکومت فارس کا پایہ تخت ہے اور وہ خالد کے بغیر فتح نہیں ہو سکتا ۔اس لیے سب خاموش رہے ۔عمر نے کئی دن تک وعظ کیا لیکن کچھ اثر نہ ہو ا۔آخر چوتھے روز اس جوش سے تقریر کی کہ حاضرین کے دل ہل گئے ۔مثنی شیبانی نے اٹھ کر کہا۔مسلمانو میں نے مجوسیوں کو آزمالیا ہے ۔وہ مرد میدان نہیں ہیں ۔عراق کے بڑے بڑے اضلاع کو ہم نے فتح کر لیا ہے اور عجم ہمارا لوہا مان گئے ہیں ۔ حاضرین میں ابو عبیدہ ثقفی بھی تھے جو قبیلہ ثقیف کے سردار تھے اور وہ جو جوش میں آکر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ انا لہذا یعنی اس کا م کے لیے میں ہوں ۔ابو عبیدہ کی ہمت نے تمام حاضرین کو گرما دیا ۔

ہر طرف سے غلغلہ اٹھا کہ ہم بھی حاضر ہیں ۔حضرت عمر نے مدینہ منورہ اور مضافات سے ہزارہا آدمی انتخاب کیے اور ابو عبیدہ کو سپہ سالا ر مقررکیا ۔(بلاذری ) حضرت ابو بکر کے عہد میں عراق پر جو حملہ ہو ااس نے ایرانیوں کو چونکا دیا تھا ۔پوران دخت نے رستم کو جو فرخ زاد گورنر خراسان کا بیٹا اور نہایت شجاع اور صاحب تدبیر تھا۔دربار میں طلب کیا اوروزیر حرب مقرر کرکے کہا کہ تو سیاہ سفید کا مالک ہے یہ کہہ کر اس کے سر تاج رکھا ۔اور درباریوں کو جن میں تمام امرا اور اعیان سلطنت شامل تھے ۔

تاکید کی کہ رستم کی اطاعت سے کبھی انحراف نہ کریں ۔چونکہ اہل فارس اپنی نا اتفاقیوں کا نتیجہ دیکھ چکے تھے ۔انہوں نے دل سے ان احکام کی اطاعت کی۔اس کا اثر یہ ہو ا۔کہ چند روز میں تمام بد انتطامیاں مٹ گئیں ۔اور سلطنت نے پھر وہی زور و قوت پیدا کر لی ۔جو ہر مز وپرویز کے زمانے میں اس کو حاصل تھی ۔

رستم نے پٍہلی تدبیر یہ کی کہ اضلاع عراق میں ہر طرف ہر کارے اور نقیب دوڑائے جنہوں نے مذہبی حمیت کا جوش دلا کر تمام ملک میں مسلمانوں کے بر خلاف بغاوت پھیلادی چنانچہ ابو عبیدہ کے پہنچنے سے پہلے فرات کے تمام اضلاع میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔

اور جو مقامات مسلمانوں کے قبضہ میں آچکے تھے ۔ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔پوران دخت نے رستم کی اعانت کے لیے ایک اور فوج گراں تیار کی۔نرسی و جاپان کو سپہ سالار مقرر کیا ۔جاپان عراق کا ایک مشہور رئیس تھا ۔اور عرب سے اس کو خاص عداوت تھی ۔نرسی کسری کا خالہ زاد بھائی تھا اور عراق کے بعض اضلاع قدیم سے اس کی جا گیر تھی۔یہ دونوں افسر مختلف راستوں سے عراق کی طرف بڑھے ادھر ابو عبیدہ اور مثنی حیرہ تک پہنچ چکے تھے کہ دشمن کی تیاریوں کا حال معلوم ہوا مصلحت دیکھ کر خفافان کو ہٹ آئے ۔جاپان نمارق پہنچ کر خیمہ زن ہوا ۔ ابو عبیدہ نے اس اثنا میں فوج کو سازوسامان سے آراستہ کر لیا اور پیش قدمی کرکے خود حملے کے لیے بڑھے۔نمارق پر دونوں فوجیں صف آرا ہوئیں۔جاپان کے میمنہ اور میسرہ پر جوش شاہ اور مردان شاہ د و مشہور افسر تھے ۔جو بڑی ثابت قدمی سے لڑے لیکن بالاخر شکست کھائی اور عین معرکہ میں گرفتار ہو گئے۔مردان شاہ بد قسمتی سے اسی وقت قتل کر دیا گیا ۔جاپان اس حیلے سے بچ گیا کہ جس شخص نے اس کو گرفتار کر لیا تھا وہ ا س کو پہنچانتا نہ تھا ۔

جاپان اس بڑھاپے میں میں تمہارے کس کام کا ہوں مجھ کوچھوڑ دو۔اور معاوضے میں مجھ سے دو غلام لے لو ۔اس نے منظور کر لیا۔ بعد میں لوگوں نے جاپان کو پہچاناتو غل مچا یا کہ ہم ایسے دشمن کو چھوڑنا نہیں چاہتے ۔لیکن ابو عبیدہ نے کہا کہ اسلام میں بد عہدی جائز نہیں۔ ابو عبیدہ نے اس معرکہ کے بعد کسکر کا رخ کیا ۔

جہاں نرسی فوج لیے ٹھہرا تھا ۔سقاطیہ میں دونوں فوجیں مقابل ہوئیں ۔نرسی کے ساتھ بہت بڑا لشکر تھا ۔اور خودکسریٰ کے دو ماموں زاد بھائی بندویہ وتیر ویہ میمنہ اور میسرہ پر تھے ۔تاہم نرسی اس وجہ سے لڑائی میں دیر کر رہا تھا کہ پایہ تخت سے امدادی فوجیں روانہ ہو چکی تھیں۔ابو عبیدہ کو بھی یہ خبر ٍپہنچ چکی تھی ۔انہوں نے بڑھ کر جنگ شروع کر دی بہت بڑے معرکے کے بعد نرسی کو شکست فاش ہوئی اور ابو عبیدہ نے خود سقاطیہ میں مقام کیا اور تھوڑی سی فوجیں ہر طرف بھیج دیں ۔کہ ایرانیوں نے جہاں جہاں پناہ لی ہے ان کو وہاں سے نکال دیں ۔ فرخ اور فراونداد جو بادوسما اور زوابی کے رئیس تھے مطیع ہو گئے چنانچہ اظہار خلوص کے لئے ایک دن ابو عبیدہ کو نہایت عمدہ عمدہ کھانے پکوا کر بھیجے ابو عبیدہ نے دریافت کیا کہ یہ سامان کل فوج کے لیے ہے یا صرف میرے لئے ؟فرخ نے کہا کہ اس جلدی میں ساری فوج کا اہتمام نہیں ہو سکتا تھا ۔

ابو عبیدہ نے دعوت کے قبو ل کرنے سے انکار کر دیا ۔

اور کہا کہ مسلمانوں میں ایک کو دوسرے پر کچھ ترجیح نہیں ۔اس شکست کی خبر سن کر رستم نے مردان شاہ کو جو عرب سے دلی عداوت رکھتاتھا اور جس کو نوشیرواں نے تقدس کے لحاظ سے بہمن کا خطاب دیا تھا ۔چار ہزار فوج کے ساتھ اس سامان سے روانہ کیا کہ درفش کا دیانی جو کئی ہزار برس سے کیانی خاندان کی یاد گار چلا آتا تھا اور فتح و ظفر کا دیباچہ سمجھا جاتا تھا ۔اس کے سر پر سایہ کرتاجاتا تھا ۔مشرقی فرات کے کنارے ایک مقام پر جس کا نام مروحہ تھا ۔دونوں حریف صف آرا ہوئے چونکہ بیچ میں دریا حائل تھا۔بہمن نے کہلا بھیجا کہ یا تم اس پار اتر کر آؤ یا ہم آئیں ۔ابو عبیدہ کے تمام سرداروں نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم کو اسی طرف رہنا چاہیئے لیکن ابو عبیدہ جو شجاعت کے نشہ میں سرشاد تھے سمجھے کہ یہ نامردی کی دلیل ہے سرداروں نے کہا یہ نہیں ہو سکتا کہ جانبازی کے میدان میں مجوسی ہم سے آگے بڑھ جائیں۔ مروان شاہ جو پیغام لے کر آیا تھا ۔اس نے کہا کہ ہماری فوج میں عام خیال ہے کہ عرب مرد میدان نہیں ہیں۔

اس جملہ نے اور بھی اشتعال دلایا اور ابو عبیدہ نے اسی فوج کو کمر بندی کا حکم دے دیا کشتیوں کا پل باندھا گیا اور تمام فوج پار اتر کر غنیم سے معرکہ آرا ہوئی ۔پار کا میدان تنگ اور ناہموار تھا اس لیے مسلمانوں کو موقع نہیں مل سکتا تھا کہ فوج کو ترتیب سے آراستہ کر سکتے ۔ ایرانی فوج کا نظارہ نہایت مہیب تھا ۔بہت سے کوہ پیکر ہاتھی جن پر گھنٹے لٹکتے تھے ۔اور بڑے بڑے زور سے بجتے چلے جاتے تھے ۔گھوڑوں نے یہ مہیب نظارہ بھی نہیں دیکھا تھا ۔بدک کر پیچھے ہٹے ابو عبیدہ نے دیکھا کہ ہاتھیوں کے سامنے کچھ زور نہیں چلتا ۔گھوڑے سے کود پڑے اور ساتھیوں کا للکارا!کہ جانبازو ہاتھیوں کو بیچ میں لے لو اور ہودوں کو سواروں سمیت الٹ دو ۔

اس آواز کے ساتھ سب گھوڑوں سے کود پڑے اور ہودوں کی رسیاں کاٹ کر فیل نشینوں کو خاک پر گرا دیا۔لیکن ہاتھی جس طرف جھکتے تھے ۔صف کی صف پس جاتی تھی ۔ابو عبیدہ یہ دیکھ کر پیل سفید پر جو سب کا سردار تھا حملہ آور ہوئے اور سونڈ پر تلوار ماری کہ مستک سے الگ ہو گئی ۔ہاتھی نے بڑھ کر ان کو زمین پر گرا دیا اور سینے پر پاؤں رکھ دئیے ے کہ ہڈیاں تک چور چور ہو گئیں ۔ابو عبیدہ کے مرنے پر ان کے بھائی حکم نے علم ہاتھ میں لیا اور ہاتھی پر حملہ آور ہوئے ۔اس نے ابو عبیدہ کی طرح ان کو بھی پاؤں میں لپیٹ کر مسل دیا ۔

اسی طرح سات آدمیوں نے جو سب کی سب ابو عبیدہ کے ہم نسب اور خاندان ثقیف سے تھے ۔باری باری علم ہاتھ میں لیے اور مارے گئے ۔آخر میں مثنی نے علم ہاتھ میں لیا ۔

لیکن اس وقت لڑائی کا نقشہ بدل چکا تھا اور فوج میں بھاگڑ پڑ چکی تھی ۔یہ واقعہ حسب بیان بلاذری ہفتہ کے دن رمضان ۱۳ ھء میں واقع ہوا۔(الفاروق ص ۴۴ تا ۴۹ طبع دہلی ۱۸۹۸ ءء)

مورخ اعظم اسلام مسٹر ذاکر حسین لکھتے ہیں کہ اس لڑائی میں مسلمانوں کے ۹ ہزار آدمی تھے ۔چار ہزار لڑنے اور ڈوبنے میں ضائع ہوئے د وہزار بھاگ گئے ۔اور تین ہزار باقی رہ گئے تھے ۔لشکر فارس کے چھ ہزار آدمی کام آئے ۔یہ واقعہ ماہ شعبان ۱۳ ھء (تاریخ اسلام جلد ص ۷۳ طبع دہلی ۱۹۱۳ ء )

علامہ خاوند شاہ لکھتے ہیں کہ جس دن ابو عبیدہ قتل ہو ئے ہیں اس شب میں ابو عبیدہ کی بیوی نے خواب میں دیکھاکہ آسمان سے ایک شخص جام خوشگوار لیے ہوئے اترا ہے ۔

ا ور اس نے وہ جام ابو عبیدہ کو دیا ۔انہوں نے خود نوش کیا اور اپنے کئی ساتھیوں کو پلایا۔

ابو عبیدہ نے جب یہ خواب سنا تو کہا کہ میں اور میری بہت سے ساتھی اس جنگ میں شربت شہادت نوش کریں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔(رو ضۃ الصفاء جلد ۲ ص ۲۴۴ طبع نو لکشور)

حضرت مختار کے والد کی وفات کے بعد واقعہ جسر یعنی قیس الناطف میں اظہار شجاعت اور والد کے انتقال و وفات کے بعد حضرت مختار اپنے چچا سعد بن مسعود کے ہمراہ کو فہ میں قیام پذیر ہو گئے اور وہیں ایام حیات گزار رہے تھے تا اینکہ حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت واقع ہوئی ۔(رو ضۃ المجاہدین ص ۵)

فتح مدائن کے بعد گورنری کا مسئلہ اور حضرت مختار حضرت مختار اپنے والد ابو عبیدہ کی موت کے بعد کوفہ میں تھے کہ صفر ۱۶ ھء میں مدائن فتح کر لیا گیا ۔(تاریخ ابو الفداء )

فتح مدائن کے بعد وہاں کی گورنری کا مسئلہ زیر بحث لایا گیا ۔بالاخر فیصلہ ہو اکہ حضرت مختار کو ان کی والد کی خدمات کے لحاظ سے وہاں کی گورنری تفویض کی جائے۔

چون مدائن رابکشاوندا میری مدائن رابمختار دادندچنانچہ وہاں کی گورنری ان کے حوالہ کر دی گئی ۔(رو ضۃ المجاہدین حافظ عطا الدین حسام الواعظ ص ۵ طبع ایران )

لیکن چونکہ ان سے زیادہ کا رآزمودہ ابو عبیدہ کے بھائی اور حضرت مختار کے چچا سعد ابن مسعود تھے ۔لہذا انہیں اس منصب پر بمشورہ مختار فائز کر دیا گیا ۔علامہ خاوند شاہ ہروی لکھتے ہیں۔ چوں مدائن درتحت تسخیر اسلام آمد عمر امارت آل دیار رابسعد بن مسعود کہ عم مختار بودار زانی داشتکہ جب مدائن اہل اسلام کے قبضہ میں آگیا تو خلیفہ دوم نے وہاں کی گورنری مختار کے چچا سعد کے سپرد کر دی ۔سعد ۱۶ ھء میں وہاں کے گورنر مقر ر ہوئے ۔اور حضرت عثمان اور حضرت امیر المومنین کے عہد میں بھی بد ستوار اسی عہد ٍپر مدائن میں کام کرتے رہے ۔(رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص ۷۴ رو ضۃ المجاہدین ص ۳)

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں تحریر فرماتا ہے کہ حضرت امام حسنعليه‌السلام نے بھی انہیں مدائن کی گورنری کے عہدے پر فائز رکھا ۔( دمعۃساکبہ ص ۲۳۹)

علامہ محمد ابراہیم مجہتد بحوالہ کتاب نقض الفضائح علامہ رازی قزوینی تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مختار کے چچا جناب سعد عہد معاویہ میں موصل کے گورنر مقر ر کر دئیے گئے ۔(نور الابصار ص ۹ طبع لکھنو ء)