مختار آل محمد

مختار آل محمد0%

مختار آل محمد مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ

مختار آل محمد

مؤلف: مولانا نجم الحسن کراروی
زمرہ جات:

مشاہدے: 28928
ڈاؤنلوڈ: 4504

تبصرے:

مختار آل محمد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 26 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28928 / ڈاؤنلوڈ: 4504
سائز سائز سائز
مختار آل محمد

مختار آل محمد

مؤلف:
اردو

چھٹا باب

حضرت مختارعلما ء کرام کی نگاہ میں

حضرت مختار کے متعلق خداوندعالم ، حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرات معصومینعليه‌السلام کے نظریات کو پیش کرنے میں حضرات علماء کرام کے نظریات بھی ایک گونہ واضح ہوگئے ہیں لیکن ہم زیر عنوان بالا اس کی مزید وضاحت کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے ممدوح ہونے میں کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہ جائے۔ واضح ہوکہ ہمارے وہ علماء جن پر ہمارے مذہب حقہ اثنا عشریہ کی بنیادیں استوار ہوئی تھیں۔یعنی جن کا وجود بنیادی نقطہ نگاہ سے ہمارے مذہب میں عظیم سمجھا جاتا ہے ان میں سے تقریباً کل کے کل کی نظروں میں حضرت مختار کو اونچا مقام نصیب ہوا ہے میری نظر سے ہمارے کسی بڑے عالم کی ایک تحریر بھی ایسی نہیں گزری جس میں انہوں نے اپنا نظریہ مختار کے خلاف پیش کیا ہو یہ اور بات ہے کہ انہوں نے نقل قول یا نقل روایات اپنی کتابوں میں کی ہو یعنی ایسا تو ضرور ہے کہ روایات مدح وذم دونوں نقل کردی گئی ہیں لیکن اپنا ذاتی نظریہ کسی نے بھی مخالفت مختار میں نہیں پیش کیا بلکہ اکثر نے ایسا کیا ہے کہ مخالفت کی روایات کی تاویلات کی ہیں البتہ بعض علماء روایت حب شخین سے نجات کلی میں متوقف ہوگئے ہیں لیکن انہوں نے کارنامہ مختار میں ان کے نیک نیتی پر کسی قسم کا شبہ نہیں کیا میرے نزدیک روایت حب شخین تاویل شدہ ہے اور ان کے حسن عقیدہ میں گنجائش کلام نہیں ہے۔

علامہ شہید ثالث رحمة اللہ علیہ رقمطراز ہیں درحسن عقیدہ اودر شیعہ راسخنی نیست حضرت مختار کے حسن عقیدہ میں کسی شیعہ کو کلام و اعتراض کی گنجائش نہیں علامہ کا بیان ہے کہ حضرت علامہ حلی کے نزدیک حصرت مختار مقبول اصحاب میں تھے۔ (مجالس المومنین ص ۳۵۶)

علامہ مجلسی کتاب خلاصة المقال فی علم الرجال کے ص ۳۲ پر تحریر فرماتے ہیں کہ مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی ثقہ تھے ،

علامہ معاصر مولانا سعادت حسین مجتہد رقمطراز ہیں کہ علامہ مامقانی تنقیح القال کی جلد ۳ میں حضرت مختار کے متعلق طویل بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کے بارے میں تحقیق اس کی مقتضی ہے کہ ہم دو حیثیتوں سے بحث کریں پہلی یہ کہ جناب مختار کا عقیدہ اور مذہب کیا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مسلمان بلکہ شیعہ امامی تھے اس پر شیعہ ، سنی دونوں کا اتفاق ہے میرے نزدیک امرحق یہ ہے کہ جانب مختار امامت حضرت زین العابدینعليه‌السلام کے قائل تھے اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے حضرت امیرالمومنینعليه‌السلام سے یہ سنا تھا کہ اتنے ہزار اعوان و انصار بنی امیہ کو موت کے گھاٹ اتاردیں گے یہ کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ کوئی سنی امیرالومنینعليه‌السلام کے لیے یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ آپ عواقب و انجام کو خداوندعالم کے اذن سے جانتے تھے یہ مخصوص عقیدہ مذہب شیعہ کا ہے اس لیے جناب مختار کا حتم و جزم ویقین سے یہ خبر دینا کہ میں کوفہ کا حاکم بنوں گا۔عبیداللہ ابن زیاد مجھے قتل نہیں کر سکتا ۔جب تک میں بنی امیہ کی مدد گار وں میں اتنی آدمیوں کو قتل نہ کردوں ۔اگر یہ مجھے قتل بھی کر دے گا تو خدا وند مجھے زندہ کر لے گا، یہ عقیدہ اہل سنت کے مذہب کے موافق نہیں ہے اور فرقہ حقہ مذہب امامیہ کے لیے مخصوص ہے اس لیے کہ آئمہ کے لیے قائل ہیں کہ وہ عواقب و انجام سے باخبر ہیں۔ جیسا کہ آئمہ کے حا لات کو دیکھنے کے بعد وجدان صحیح اس کو معلوم کر سکتا ہے۔ بلکہ حالات کے دیکھنے سے یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ آئمہ نے اپنے مخصوص اصحاب کو بھی بعض امور کے اسرار و رموز وانجام کو بتلا دیا تھا اور مطلع کر دیا تھا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے ۔

جیسا کہ حبیب ابن مظاہر کو یہ مطلع کر دیا تھا کہ کر بلا میں کیا ہونے والا ہے۔ اور مثیم تمار کو یہ بتا دیا تھا کہ امیر المومنین پر کیا واقعات گزرنے والے ہیں ،بلکہ خود جناب مختار کو جناب مثیم تمار نے بتا دیا تھا کہ تم قید سے رہا ہو جاؤ گے اور امام حسین کے خون کا عوض لو گے ۔ بلکہ ان کے علاوہ بہت سی باتیں اصحاب آئمہ کو معلوم تھیں جو متواتر احادیث سے ثابت ہیں اور کتب و تواریخ ان سے بھری پڑی ہیں۔ جناب کے اس یقین سے کہ وہ بنی امیہ کے حمایت کرنے والوں میں سے اتنے ہزار افراد کو قتل کریں گے پتہ چلتا ہے کہ وہ اعتقاد رکھتے تھے کہ اگر قتل بھی کر دیئے گئے تو خداوند عالم ان کو زندہ کرے گا ۔

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جناب مختار،مسلم ،موحد اور شیعہ امامی تھے ۔ بلکہ اقوی و اظہر یہ کہ وہ امامت امام زین العابدین وغیرہعليه‌السلام کے قائل تھے ۔ علامہ ما مقانی فرماتے ہیں ۔کہ مختار کے حالات پر بحث کا دوسرا عنوان یہ ہے کہ آیا ان کی حکومت باطل تھی یا امام کی اجازت سے قائم ہوئی تھی ۔ ظاہر یہ ہے ، کہ انہوں نے امام کی رضامندی حاصل کرنے کے بعد حکومت قائم کی تھی ۔ جیسا کہ علامہ ابن نما علیہ الرحمتہ نے اس طرح کی ایک روایت تحریر کی ہے علاوہ بریں آئمہ علیہم السلام ان کے افعال سے راضی تھے ۔ انہوں نے بنی امیہ اور ان کے مدد گاروں کو قتل کیا ،گرفتار کیا ، ان کے اموال لوٹے ۔ جیسا کہ اس کے طرف ان روایات میں اشارہ ہو چکا ہے ۔ جو ان کی مدح و ثنا ، ان کے افعال پر اظہار تشکر و امتنان ، جزاے خیر دئیے جانے کی دعا اور دعائے نزول رحمت پر دلالت پر کرتی ہیں۔ علامہ مامقانی نے ان تمام رویات کو نقل کیا ہے ۔اور آخر میں فرماتے ہیں کہ یہ تمام باتیں جو ہم نے ذکر کیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ جناب مختار شیعہ امامی تھے ۔ان کی سلطنت امام کی اجازت سے قائم ہوئی تھی ۔بہر حال علامہ حلی نے جناب مختار کی روایت پر اعتماد کیا ہے ۔اسی سبب سے ان کو قسم اول کے راویوں میں شمار کیا ہے ۔ یہ بھی ان کے شیعہ ہونے کی دلیل ہے ۔اس لیے کہ جو شخص علامہ کے خلاصہ کا مطالعہ کرے۔اسے واضح ہو جائے گا ۔کہ قسم اول میں انہوں نے صرف شیعوں کو تحریر فرمایا ہے ۔ جناب علامہ ابن طاؤس علیہ الرحمہ نے بھی نص کر دی ہے کہ جناب مختار کی روایات پر عمل کیا جائے گا۔علامہ حائری اور علامہ ابن نما تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مختار امام زین العابدین کے قائل تھے ۔نیز محمدحنفیہعليه‌السلام امام زین العابدینعليه‌السلام کی امامت پر ایمان رکھتے تھے ۔(معارف الملة الناجیہ والناریہ ص۵۲وذوب النضار ضمیمہ بحار جلد ص ۴۰۱طبع ایران )

حضرت مختار کے کردار پر غلط نگاہ

جیساکہ میں نے حضرات معصومین اور علماء کرام کے اقوال سے واضح و ثابت کر دیا کہ حضرت مختار کا کردار نہایت مستحسن اور قابل ستائش تھا ۔ان کی زندگی کے لمحات عقیدے کی خوشگواری میں گزرے پھر کھلے لفظوں میں کہتا ہوں کہ حضرت مختار نیک عقیدہ ،خوش کردار ،نیک نیت ،نیک چلن، بلند ہمت اور جملہ صفات حسنہ کے مالک تھے ۔نہایت افسوس ہے کہ بنی امیہ کے پرستاروں نے اس پاک باز اور نیک سرشت شخصیت کو بدنام کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا یا ہے۔ اس وقت میرے پیش نگاہ ایک رسالہ ہے جس کا نام ہے تجدید عہد ،جو زیرادارت غلام نبی انصاری ماہنامہ کی صورت میں لاہور سے نکلتا ہے ۔یہ پرچہ ربوبیت نمبر ہے ۔اس کی تاریخ اشاعت اپریل ۱۹۹۵ ء ہے ۔اس میں حضرت مختار کے خلاف پوری زہر چکانی کی گئی ہے ۔اور ان کی مخالفت میں آئیں بائیں شائیں جو کچھ سمجھ میں آیا ہے لکھ مارا ہے ۔میں اس میں سے صرف چند جملے نقل کرتا ہوں۔

مولف مختار آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دعویٰ

مجھے مسرت ہے کہ دنیائے اسلام میں ابن سباء کے وجود سے سب سے پہلے میں نے اپنی مورخانہ سوجھ بوجھ اور تحقیق کے ذریعہ سے انکار کیا تھا ۔ اب اس کے بعد بڑے بڑے علماء یہی کچھ کہہ رہے ہیں ۱۹۳۷ ء میں میں نے عبداللہ ابن سبا کی حقیقت کے زیر عنوان الواعظ لکھنو میں ایک مسلسل مضمون لکھا تھا جس کی آخری قسط میں تحریرکیا تھا کہ ابن سبا ایک فرضی نام ہے اور واقعہ جمل و صفین پر پردہ ڈالنے کیلئے سطح دہرپر نمایاں کیا گیا ہے ۔

الخ اس بیان کا حوالہ میرے مضمون سعد و نحس مطبوعہ اخبار شیعہ مورخہ ۸ نومبر ۱۹۴۵ ء میں موجود ہے۔ عالم اہل سنت علامہ ڈاکٹر طہ حسین جو مصر کے اساطین علم میں سے ہیں تحریر فرماتے ہیں کہ ابن سبا بالکل فرضی اور من گھڑت چیز ہے اور جب فرقہ شیعہ اور دیگر اسلامی فرقوں میں جھگڑے چل رہے تھے تو اس وقت اسے جنم دیا گیا شیعوں کے دشمنوں کا مقصد یہ تھا کہ شیعوں کے اصول مذہب میں یہودی عنصر داخل کردیا جائے۔ یہ سب کچھ بڑی چالبازی اور مکروفریب کی صورتیں تھیں ۔

محض شیعوں کو زچ کرنے کیلئے امویوں اور عباسیوں کے دور حکومت میں شیعوں کے دشمنوں نے عبداللہ ابن سباء کے معاملہ میں بہت مبالغہ آمیزی سے کام لیا اس کے حالات بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیے اس سے ایک فائدہ تو یہ تھا کہ حضرت عثمان اور آن کے عمال حکومت کی طرف سے جن خرابیوں کی نسبت دی جاتی ہے اور ناپسندیدہ باتیں جو ان کے متعلق مشہور ہیں کو سن کر لوگ شک و شبہ میں پڑجائیں دوسرا فائدہ یہ کہ علیعليه‌السلام اور ان کے شیعہ لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہوں نہ معلوم شیعوں کے دشمنوں نے شیعوں پر کتنے الزاما ت لگائے اور نہ جانے شیعوں نے کتنی غلط باتیں اپنے دشمنوں کی طرف عثمان وغیرہ کے معاملہ میں منسوب کیں۔ (الفتنۃ الکبری جلد ۱ ص ۱۳۲ طبع مصر)

اس ضمن میں ایک مشہور قصہ کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے جسے بعد میں آنے والے راویوں نے بہت اہمیت دی ہے اور خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے یہاں تک کہ بہت سے قدیم وجدید مورخین نے اس قصہ کو حضرت عثمان کے خلاف رونما ہونے والی بغادت کا سرچشمہ قرار دے لیا ہے جو مسلمانوں میں ایک ایسے افتراق کا باعث ہوئی کہ تاحال مٹ نہیں سکا۔ یہ قصہ عبداللہ ابن سباء ہے جو عربی دنیا میں ابن السودا کے نام سے مشہور ہے۔ میرا خیال ہے کہ جو لوگ ابن سبا کے معاملہ کو اس حد تک اہمیت دیتے ہیں وہ نہ صرف اپنے آپ پر بلکہ تاریخ پر بھی شدید ظلم کرتے ہیں اس سلسلہ میں سب سے پہلی غور طلب چیز یہ ہے کہ ان تمام اہم ماخذمیں جو حضرت عثمان کے خلاف رونما ہونے والی شورش پر روشنی ڈالتے ہیں ہمیں ا بن سبا کا ذکر ہی نہیں ملتا مثلاً ابن سعد نے جہاں خلافت عثمان اور ان کے خلاف بغاوت کا حال رقم کیا ہے وہاں ابن سبا کا کوئی تذکرہ نہیں کیا

اسی طرح بلاذری نے بھی انساب الاشراف میں اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ابن سبا کی یہ داستان طبری نے سیف بن عمر کی روایت سے بیان کی ہے اور معلوم یہی ہوتا ہے کہ مابعد کے جملہ مورخین نے اس روایت کو طبری ہی سے لیا ہے ۔ (الفتنۃ الکبری ص ۲۸۲ ، ۲۸۵ طبع لاہور) عالم اہل تشیع ، ملت جعفریہ کے عظیم محقق حضرت حجۃ الاسلام علامہ شیخ محمد حسنین آل کاشف العظاء (نجف اشرف) تحریر فرماتے ہیں۔ اس سلسلہ میں بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ عبداللہ ا بن سبا ء مجنوں عامری اور ابوہلال وغیرہ داستان سراوں کے خیالی ہیرو ہیں اموی اور عباسی سلطنتوں کے وسطی دور میں عیش وعشرت اور لہو و لعب کو اتنا فروغ حاصل ہوگیا تھا کہ فسانہ گوئی ، محل نشینوں اور آرام طلبوں کا جزو زندگی بن گئی چنانچہ اس قسم کی کہانیاں بھی ڈھل گئیں۔ (اصل الشیعہ واصولہا ص ۲۵)

مختصر یہ کہ ابن سبا کا افسانہ مورخ طبری نے سب سے پہلے سیف بن عمر کے حوالے سے نقل کیا ہے اور سیف بن عمرراوی کے متعلق علماء علم رجال کا اتفاق ہے کہ یہ گمنام اور مجہول الحال لوگوں سے روایت کرتا ہے ۔ یہ ضعیف روایات بیان کرتا ہے ۔ متروکہ احادیث گڑھا کرتا ہے۔ ساقط الروایت ہے،۔ من گڑھت حدیثیں معتبر لوگوں کی طرف منسوب کرکے بیان کرتا ہے ۔ اس کی اکثر روایات ناقابل قبول ، وضعی اور پراز کفر و زندقہ ہوتی ہیں (فہرست ابن ندیم ص ۱۳۷ میزان الاعتدال ج ۱ص ۴۳۸ تہذیب الترہیب جلد ۴ ص ۹۵ ) وغیرہ ، بنا برین اس کے بیان اور اس کی روایت کی اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ میں کہتا ہوں کہ صاحب تجدید عہد نے حضرت مختار کے کردار کی عمارت جس بنیاد پر قائم کی تھی اس کا وجود ہی نہ تھا لہٰذا ان کی قرضی تعمیر منہدم ہوکے رہ گئی۔

ساتواں باب

جنگِ صفین کے سلسلہ میں حضرت علیعليه‌السلام کا کربلا میں ورود اور سعد بن مسعود سے کارنامہ مختار کا تذکرہ

صفین نام ہے اس مقام کا جو فرات کے غربی جانب رقہ اور بالس کے درمیان واقع ہے۔(معجم البلدان ص ۳۷باب ص طبع مصر ۱۹۰۶ء)

یہیں اسلام کی وہ قیامت خیز جنگ عالم وقوع میں آئی ہے ۔جو جنگ صفین کے نام سے مشہور ہے ۔اس جنگ کے اسباب میں معاویہ کی چیرہ دستیوں اور اس کے تمرد اور اس کی سرکشی کو پوراپور ا دخل ہے ۔ معاویہ عہد عمری سے شام کا گورنر تھا ۔وفات عثمان کے بعد جب امیر المومنین خلیفہ ظاہری تسلیم کیے گئے اور عنان حکومت آپ کے دست میں آئی تو آپ نے معاویہ سے کہلا بھیجا کہ مجھ پر جو قتل عثمان کی سازش کا الزام لگا کر شامیوں کو برافروز کر رہے ہو ۔

اور اپنے کو رسول خدا کا منصوص خلیفہ ظاہر کر رہے ہو ۔(سیر الائمہ ص۴۵)

یہ تمہاری حرکت افسوسناک ہے اس سے باز آؤ۔ معاویہ نے اس کا الٹا سیدھا جواب دیا۔

حضرت علی نے باربار فہمائش کی ۔مگر معاویہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔یہاں تک کہ آپ کو یقین کامل ہو گیا کہ یہ میری بات کسی طرح نہ مانے گا ۔پھر اس کے علاوہ آپ کو اس امر کا علم قطعی ہو گیا کہ وہ مجھ سے برسرپیکار ہونے کی پوری پوری تیاری کر رہا ہے تو آپ نے برسرمنبر فرمایا ۔میں نے حاکم وقت ہونے کی حیثیت سے معاویہ کو معزول کر دیا ہے اور اب اسے حاکم شام تسلیم نہ کیا جائے ۔(اکسیر التواریخ ص(۷۵ معاویہ جو خود حضرت علی کو منصب خلافت کے حدود میں دیکھنا پسند نہیں کررہا تھا اسے جب اس معزولی کی خبر ملی تو اس نے آپ سے مقابلہ کی ٹھا ن لی ۔

چنانچہ جنگ جمل اسی کا ایک شاخسانہ تھا ۔جو حضرت عائشہ کی زیرسر کردگی ظاہر ہوا ۔جنگ جمل کے بعد آپ نے اس کو سمجھانے میں بڑے مبالغہ سے کام لیا ۔مگر کتے کی دم سیدھی نہ ہو سکی ۔اور وہ مرغ کی ایک ہی ٹانگ پر قائم رہا ۔معاویہ کھل کر میدان میں آنے کے لیے بے چین تھا۔ بنا یریں ایک لاکھ بیس ہزار کا لشکرلے کر حضرت علی پر حملہ کرنے کے لیے چل کھڑا ہوا اور مقام صفین پر آ پہنچا ۔علامہ دمیری لکھتے ہیں اجمعو علی قتالہ قاتلھم اللہ خدا معاویہ اور اس کے ساتھیوں کو غارت کرے کہ ان لوگوں نے حضرت امیر المومنینعليه‌السلام سے جنگ پر ایکا کر لیا ۔(حیوٰة الحیون جلد ۱ص۵۶)

جب حضرت امیر علیہ السلام کو پتہ چلا کر معاویہ ایک لاکھ بیس ہزار بروایت ایک لاکھ ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر مقام صفین تک آ پہنچا ہے ۔تو آپ نے بھی ۹۰ہزار کی فوج سمیت حرکت فرمائی۔(تاریخ اسلام ص۲۰) آپ بارادہ صفین تشریف لے جارہے تھے کہ راستہ میں مقام کربلا آگیا ۔آپ نے پوچھا اس زمین کو کیا کہتے ہیں ۔کہا گیا کربلا یہ سن کر آپ اتنا روئے کہ زمین آنسو سے تر ہو گئی۔ اصحاب نے رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا ۔ میں ایک دفعہ رسول کریم کی خدمت میں ایسی حالت میں پہنچا کہ وہ رو رہے تھے میں نے پوچھا رونے کا سبب ؟ آپ نے جواب دیا کہ ابھی ابھی جبرئیل آئے تھے

وہ کہہ رہے تھے کہ تمہارے حسین کربلا میں شہید کر دیا جائے گا ۔یہ کہہ کر انہوں نے مجھے تھوڑی سی مٹی دی ۔اور کہا کہ اسے سونگھو ،میں نے جو نہی اسے سونگھا میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ (صواعق محرقہ ص۱۱۰منار الہدیٰ ص۱۹۲،روائح القرآن ص ۴۹۸)

امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اسی سر زمین پر آل محمد کا ایک برگزیدہ گروہ قتل کیا جائے گا جس کے غم میں زمین وآسمان روئیں گے۔(مسند جلد ۱ ص۸۵سرالشہادتین ص۱۱۷اخبار ص۱۰۷حیواة الحیوان ص۵۱۱۲۰)

علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت علی جب نینوا کے قریب پہنچے تو آپ کے لشکر کا پانی ختم ہو گیا ہر چند سعی آب کی مگر پانی دستیاب نہ ہوا ۔

ناگاہ ایک دیر راہب پر نظر پڑا وہاں پہنچ کر طلب آب کیا راہب نے کہا یہاں پانی نہیں ہے آپ آگے بڑھیں ۔

دو فرسخ چل کر آپ نے جانب قبلہ ایک مقام کھدوایا تو ٹھنڈے پانی کا چشمہ برآمد ہوا ۔لیکن اس کے دہانے پر بڑ ا پتھر تھا آپ نے اسے بر طرف کیاچشمہ جاری ہوا ۔راہب نے اسلام قبول کیا ۔اس کے بعد آپ کربلا پہنچ کر وہاں بہت روئے ۔(کشف الانوار ص۱۱۲حبیب اسیر جلد ۱ص۵۶جامع التواریخ ص۲۳۸) مجاہد کوفہ جنابسلیمان بن صرد خزاعی کا بیان ہے کہ میں جنگ صفین کے سلسلہ میں حضرت علیعليه‌السلام کے ہمرکاب تھا ۔جب آپ کی سواری کربلا پہنچی تو آپ بے ساختہ رونے لگے ۔میں نے پوچھا مولا کیوں رو رہے ہو۔ آپ نے فرمایا کہ کیوں نہ روؤں اس مقام پر میرے فرزند میں سے بہت سے افراد اس مقام پر اتریں گے ،قیام کریں گے اور قتل کر دئیے جائیں گے ۔دشمنوں اور ظالموں کا گروہ ان پر پانی بند کر دے گا ۔اور اسی زمین پر ان کا خون بے دریغ بہایا جائے گا ۔

یہ فرما کہ آپ نے امام حسینعليه‌السلام کی طرف رخ کیا اور فرمایا اے میرے بیٹے حسین یہ واقعہ ہائلہ تیرے ساتھ ہوگا ۔

اور ایسا سنگین ہو گا کہ آسمان اس کے صدمے سے سرخ ہو جائے گا اور شفق کی صورت میں افق پر سرخی ظاہر ہو گی ۔ جو قیامت تک رہے گی ۔ ایں سرخی شفق کہ بریں چرخ بے وفاست ہر شام عکس خون شہید ان کربلا ست حضرت کامل کراروی بزہان اردو کہتے ہیں اگر سمجھے تو ماتم زا فضائے آسمانی ہے شفق کہتے ہیں کہ جس کو خون بیکس کی نشانی ہے الغرض حضرت علیعليه‌السلام کے ارشاد کے جواب میں حضرت امام حسینعليه‌السلام نے عرض کیا ۔بابا جان آپ رنجیدہ نہ ہوں۔ہماری زندگی کا زیور ،رضائے پٍرودگار عالم ہے یہ سن کر حضرت علیعليه‌السلام جناب سعد بن مسعود ثقفی کی طرف متوجہ ہوئے ۔جو حضرت مختار علیہ الرحمہ کے چچا تھے ۔اور ان سے فرمایا کہ برادرزادہ ات مختار کشند گان فرزندان مرابکشد ،تمہارا بھتیجا مختار میرے فرزند کے قاتلون کو قتل کرے گا ۔دیکھو اس کی حفاطت سے غفلت نہ کرنا تاکہ وہ اس کارنامے کا مظاہر ہ کرسکے۔ ( رو ضۃ المجاہدین حضرت علیعليه‌السلام کے وردِ کربلا کا واقعہ ماہ ذی الحجہ ۳۶ ھء تاریخ ابو الفداء)

حضرت امام حسنعليه‌السلام پر فوجیوں کی یورش اور حضرت مختار کی مواسات کا ایک روشن پہلو

حضرات محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وآل محمدعليه‌السلام سے جو عقیدت و محبت اور الفت حضرت مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کو تھی اسے وہ اپنی زندگی کے ہر دور میں بروئے کار لا کر ہمیشہ اس کا مظاہر ہ کرتے رہے ۔ان کی کوشش ہوتی تھی کہ کوئی ایسا موقع نظر انداز نہ ہو جائے جس میں عقیدت کیشی کو برسرکار لانا ضروری ہو ۔حضرت امام حسنعليه‌السلام پر جب مصائب کی یورش ہوئی تو مختار اپنے فطری جذبہ سے مجبور ہو کر مظاہر ہ عقیدت کیشی کے لیے سامنے آگئے ۔

کتاب چودہ ستارے ص۱۱۹میں ہے کہ مورخین کا بیان ہے کہ حضرت امام حسینعليه‌السلام کے والد بزرگوار حضرت علیعليه‌السلام کے سر مبارک پر بمقام مسجدکوفہ ۱۹رمضان ۴۰ھء بوقت امیر معاویہ کی سازش سے عبد الرحمن ابن ملجم مرادی نے زہر میں بجھی ہوئی تلوار لگائی جس کے صدمہ سے آپ نے ۲۱رمضان المبارک ۴۰ ء بوقت صبح شہادت پائی ۔ اس وقت امام حسن کی عمر ۳۷ سال ۶ ماہ کی تھی۔ حضرت علیعليه‌السلام کی تکفین و تدفین کے بعد عبداللہ ابن عباس کی تحریک سے بقول ابن اثیر ، قیس ابن سعد ابن عبادہ انصاری نے امام حسن کی بیعت کی اور ان کے بعد تمام حاضرین نے بیعت کرلی جن کی تعداد چالیس ہزار تھی ۔ یہ واقعہ ۲۱ رمضان ۴۰ھء یوم جمعہ کا ہے کفایۃ الاثرعلامہ مجلسی میں ہے کہ اس وقت اپ نے ایک فصیح وبلیغ خطبہ پڑھا ۔ جس میں آپ نے حمد و ثنا کے بعد بارہ امام کی خلافت کا ذکر فرمایا

اور اس کی وضاحت کی کہ آنحضرت نے فرمایا ہے کہ ہم میں کاہر ایک یا تلوار کے گھاٹ اترے گا یا زہردغا سے شہید ہوگا ۔ اس کے بعد آپ نے عراق ایران ، خراسان ، حجاز اور یمن و بصرہ کے عمال کے تقرر کی طرف توجہ کی اور عبد اللہ ابن عباس کو بصرہ کا حاکم مقرر فرمایا ۔ معاویہ کو جو نہی یہ خبر پہنچی کہ بصرہ کے حاکم ابن عباس مقرر کردیئے گئے ہیں تو اس نے دو جاسوس روانہ کیے ایک قبیلہ حمیر کا کوفہ کی طرف اور دوسرا قبیلہ قین کا بصرہ کی طرف اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ امام حسن سے منحرف ہوکر میری طرف آجائیں لیکن وہ دونوں جاسوس گرفتار کرلیے گئے۔

حقیقت یہ ہے کہ جب عنان حکومت امام حسنعليه‌السلام کے ہاتھوں میں آئی تو زمانہ بڑا پرآشوب تھا حضرت علی جن کی شجاعت کی دھاک سارے عرب میں بیٹھی ہوئی تھی دنیا سے کوچ کرچکے تھے ان کی دفعتہ شہادت نے سوئے ہوئے فتنوں کو بیدار کردیا تھا اور ساری مملکت میں سازشوں کی کھچڑی پک رہی تھی خود کوفہ میں اشعث ابن قیس ، عمر بن حریث ، شیث ابن ربعی وغیرہ کھلم کھلا برسرعناد اور آمادہ فساد نظر آتے تھے معاویہ نے جابجا جاسوس مقرر کردیئے تھے جو مسلمانوں میں پھوٹ ڈلواتے تھے اور حضرت کے لشکر میں اختلاف وتشتت کا بیج بوتے تھے ۔ اس نے کوفہ کے بڑے بڑے سرداروں سے اس سلسلہ میں نامہ و پیام شروع کیا اور انہیں بڑی بڑی رشوتیں دے کر توڑ لیا تھا۔ بحارالانوار میں علل الشرائع کے حوالہ سے منقول ہے کہ معاویہ نے عمر بن اشعث ابن قیس حجرابن حجر شیث ابن ربعی کے پاس علیحدہ علیحدہ یہ پیام بھیجا کہ جس طرح ہوسکے حسن بن علی کو قتل کرا دو جو منچلا یہ کام کرگزرے گا ۔ اسے دو لاکھ درہم نقد انعام دوں گا اور اپنی فوج کی سرداری عطا کروں گا نیزاپنی کسی لڑکی سے اس کی شادی کردوں گا اس انعام کے حاصل کرنے کیلئے لوگ شب وروز موقعہ کی تاک میں رہنے لگے حصرت کو اطلاع ملی تو آپ نے کپڑوں کے نیچے زرہ پہننی شروع کردی یہاں تک کہ نماز جماعت پڑھانے کیلئے بھی جب باہر نکلتے تو زرہ پہن کرنکلتے تھے۔ معاویہ نے ایک طرف تو خفیہ توڑ جوڑ کیے دوسری طرف ایک بڑا لشکر عراق پر حملہ کرنے کیلئے بھیج دیا جب حملہ آورلشکر حدود عراق میں دور تک آگے بڑھ آیا تو حضرت نے اپنے لشکر کو حرکت کرنے کا حکم دیا ۔ حجر بن عدی کو تھوڑی سی فوج کے ساتھ آگے بڑھنے کیلئے فرمایا۔

آپ کے لشکر میں بھیڑ بھاڑ تو کافی نظر آنے لگی ۔ مگر سردار جو سپاہیوں کو لڑاتے ہیں کچھ تو معاویہ کے ہاتھوں بک چکے تھے کچھ عافیت کوشی میں مصروف تھے ۔ حضرت علیعليه‌السلام کی شہادت نے دوستوں کے حوصلے پست کردئیے تھے اور دشمنوں کو جرات وہمت دلادی تھی۔

مورخین کا بیان ہے کہ معاویہ ۶۰ ہزار کی فوج لے کر مقام مسکن میں جااترا جوبغداد سے دس فرسخ تکریت کی جانب اوانا کے قریب واقع ہے امام حسنعليه‌السلام کو جب معاویہ کی پیش قدمی کا علم ہوا تو آپ نے بھی ایک بڑے لشکر کے ساتھ کوچ کردیا اور آپ کوفہ سے ساباط میں چاپہنچے اور ۱۲ ہزار کی فوج قیس ابن سعد کی ماتحتی میں معاویہ کی پیش قدمی روکنے کیلئے روانہ کردی پھر ساباط سے روانہ ہوتے وقت آپ نے ایک خطبہ پڑھا جس میں فرمایا۔ "لوگو تم نے مجھ سے اس شرط پر بیعت کی ہے کہ صلح اور جنگ دونوں حالتوں میں میرا ساتھ دوگے میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے کسی شخص سے بغض وعداوت نہیں میرے دل میں کسی کو ستانے کا خیال نہیں میں صلح کو جنگ سے اور محبت کو عداوت سے کہیں بہتر سمجھتا ہوں" لوگوں نے حضرت کے اس خطاب کا مطلب یہ سمجھا کہ حضرت امام حسنعليه‌السلام ، امیرمعاویہ سے صلح کرنے کی طرف مائل ہیں اور خلافت و حکومت سے دستبرداری کا ارادہ دل میں رکھتے ہیں ، اسی دوران میں معاویہ نے امام حسنعليه‌السلام کے لشکر کی کثرت سے متاثر ہو کر بمشورہ عمروبن عاص ، کچھ لوگوں کو امام حسنعليه‌السلام کے لشکر میں اور کچھ کوقیس ابن سعد کے لشکر میں بھیج کر ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈا کرادیا ۔

امام حسنعليه‌السلام کے لشکر والے سازشیوں نے قیس کے متعلق یہ شہرت دی کہ اس نے معاویہ سے صلح کرلی ہے اور قیس ابن سعد کے لشکر میں جوسازشی گھسے ہوئے تھے ، انہوں نے تمام لشکریوں میں یہ چرچا کردیا کہ امام حسنعليه‌السلام نے معاویہ سے صلح کرلی امام حسن کے دونوں لشکروں میں اس غلط افواہ کے پھیل جانے سے بغاوت اور بدگمانی کے جذبات ابھر نکلے امام حسنعليه‌السلام کے لشکر کا وہ عنصر جسے پہلے ہی سے شبہ تھا کہ یہ مائل بہ صلح ہیں کہنے لگا کہ امام حسنعليه‌السلام بھی اپنے باپ حضرت علیعليه‌السلام کی طرح کافر ہوگئے ہیں ۔ بالاخر فوجی آپ کے بالکل خلاف ہوکر آپ کے خیمہ پر ٹوٹ پڑے ۔ آ

پ کا کل اسباب لوٹ لیا ۔ آپ کے نیچے سے مصلی تک گھسیٹ لیا دوش مبارک پر سے رداتک اتارلی اور بعض نمایاں قسم کے افراد نے آپ کو معاویہ کے حوالہ کردینے کا پلان تیار کیا ۔ آخر کار آپ ان بدبختوں سے مایوس ہوکر مدائن کے گورنر سعد کی طرف روانہ ہوگئے جو حضرت مختار کے حقیقی چچا تھے اور جنہیں حضرت علیعليه‌السلام نے گورنر مدائن بنایا تھا جو عہد امام حسنعليه‌السلام میں بھی اسی عہدہ پر فائز تھے (تنزیہہ الانبیاء سید مرتضیٰ علم الہدی )راستے میں ایک خارجی جراح ابن قبیضہ اسدی نے آپ کور ان مبارک پر کمینگاہ سے ایسا خنجر لگایا جس نے ہڈی تک کو شدید مجروح کردیا ۔ (تاریخ کامل جلد ۳ ص ۱۶۱ و تاریخ ائمہ ص ۳۳۳ فتح الباری شرح صحیح بخاری و تاریخ طبری طبع مصرا) شرح ابن ابی الحدید میں ہے کہ جب حضرت امام حسنعليه‌السلام گھوڑے پر سوار ہوکر روانہ ہورہے تھے تو جراح ابن سنان نے لگام پکڑ کر کہا کہ اپنے باپ کی طرح تم بھی کافر ہوگئے ہو یہ کہہ کر پوری طاقت سے آپ کی ران پر خنجر مارا جس کے صدمہ سے آپ زمین پر گر پڑے پھر ہمدان اور ربیعہ کے لوگوں نے آپ کو اٹھا کرقصرا بیض میں پہنچایا ۔ (دمعۃ ساکبہ ص ۲۳۹)

آپ نے گورنر مدائن کے پاس پہنچ کر قصر ابیض میں قیام فرمایا۔ (رو ضۃ الصفا جلد ۳)

تاریخ اسلام مسٹر ذاکر حسین جلد ۱ ص ۲۷ میں ہے کہ امام حسن کی فوج میں بغاوت پھیل گئی فوجی آپ کے کیمپ پر ٹوٹ پر ٹوٹ پڑے ۔ آپ کا سب مال و متاع لوٹ لیا ، آپ کے نیچے سے مصلیٰ تک گھسیٹ لیا۔ ردابھی دوش پر سے اتارلی مگر یہ ربیعہ اور ہمدان کے بعض بہادروں نے آپ کے بچا لیا اور بعض گمراہوں نے معاویہ سے سازش کرکے اورر شوتیں لے کر ارادہ کرلیا کہ آپ کو گرفتار کرکے معاویہ کے حوالے کر دیں اور ان کے بعض رئیسوں نے خفیہ خط و کتابت کرکے معاویہ کی اطاعت قبول کر لی اور اسے لکھا کہ بہت جلد عراق چلے آئیے ۔ ہم ذمہ لیتے ہیں کہ امام حسن کو پکڑ کر آپ کے حوالے کریں گے ۔ الخ (حبیب السیروابن اثیر)

بہرحال ان حالات میں جب حضرت امام حسنعليه‌السلام حضرت مختار کے چچا سعد بن مسعود ثقفی کے پاس جا کرٹھہرے تو جیسا کہ علماء اور موثق مورخین کے بیان سے مستفاد ہوتا ہے محب آل محمد حضرت مختار کو انتہائی تردد پیدا ہوگیا وہ یہ سوچنے لگے کہ ایسے حلات میں جب کہ امام حسنعليه‌السلام کے بڑے بڑے افسران نے یہ سازش کر رکھی تھی کہ انہیں گرفتار کرکے معاویہ کے سپرد کردیں ۔ اور نتیجہ میں حضرت کا یہ حال ہوگیا کہ جان بچانی دو بھر ہوگئی اگر ہمدان اور ربیعہ کے چند بہادروں نے امداد نہ کی ہوتی تو آپ لازما قتل ہوجاتے اور اگر قتل سے بچ جاتے تو معاویہ کے قید و بند میں ہوتے جس کا انجام آخری بھی قتل ہی ہوتا اب جب کہ یہ ہمارے چچا کے پاس آگئے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی سازش یہاں بھی روبکا رہوجائے اور میرے مولا کو کوئی صدمہ پہنچ جائے۔حضرت مختار اسی اضطراب اور پپریشانی میں گھبرائے پھر رہے تھے کہ یک بہ یک یہ خیال آیا کہ چلو ، شریک اعور حارثی سے اس کے متعلق گفتگو کریں اور کوئی راستہ ان کے تحفظ کا بروئے کارلامیں شریک چونکہ شیعہ تھے اور ان کا عقلا روز گار میں شمار تھا ۔ حضرت مختار مشورہ طلبی کیلئے ان کے پاس گئے اور ان سے سارا واقعہ اور ماجرا بیان کیا ۔ شریک چونکہ خود اپنے مقام پر حالات کی روشنی میں امام حسنعليه‌السلام کے متعلق کسی کی طرف سے مطمئن نہ تھے ان کو بجائے خود اسی قسم کا خدشہ اور اندیشہ تھا لہٰذا حضرت مختار کے تردد سے اور زیادہ متاثر ہوگئے ۔

بالاخر انہوں نے سوچ بچار کے بعد حضرت مختار کو رائے دی کہ تم تنہائی میں حالات کا جائزہ لینے اور تصورات کا اندازہ لگانے کیلئے اپنے چچا سے ملو اور ان سے کہو کہ اس وقت معاویہ کی چل رہی ہے ۔ ہوا کے رخ کا تقاضہ ہے کہ حضرت امام حسنعليه‌السلام کو (جو تمہارے قبضہ میں ہیں بے دست وپایعنی بلایا رو مددگار ہونے کی وجہ سے یہاں سے نکل کر جا نہیں سکتے) معاویہ کے حوالے کردیں اس سے آپ کو بے انتہا فائدہ پہنچ جائے گا اگر سعد کے خلافت امام حسنعليه‌السلام کی طرف سے اچھے اور پاکیزہ ہوں گے تو وہ تمہیں ڈانٹ دیں گے اور اگر ان کے خیالات و تصورات میں گندگی ہوگی تو تمہاری رائے پر غور کرنے لگیں گے اور مناسب سمجھیں گے تو تمہاری رائے کی تائید میں اظہار خیال کردیں گے ۔ شریک نے کہا کہ تم ان سے گفتگو کے بعد اپنی پہلی فرصت میں مجھ سے ملنا تاکہ ان کے خیالات کے مطابق اطمینان حاصل کیاجائے یار د عمل سوچا جائے ۔ شریک اعور کے مشورے کے مطابق حضرت مختار اپنے چچاسعد بن مسعود گورنر مدائن کی خدمت میں حاضر ہوئے ا ور سے تنہائی میں عرض پرداز ہوئے اور کہا کہ چچا موقع اچھا ہے اگر آپ مناسب سمجھیں تو حضرت امام حسنعليه‌السلام کو معاویہ کے سپرد کردیں یا انہیں قتل کرکے معاویہ کو آگاہ فرمادیں اس سے یہ ہوگا کہ معاویہ آپ کی گورنری میں وسعت دے گا اور اس کی نظر میں آپ کی عزت بڑھ جائے گی۔ مختار کی زبان سے یہ کچھ سن کر سعد بن مسعود برہم ہوگئے اور کہنے لگے کہ تجھ جیسے عقیدت مند سے ایسے خیالات تعجب خیز اور افسوسناک ہیں بھلا یہ کیونکر ہوسکتا ہے کے ہم فرزند رسول کو دشمن کے سپرد کردیں۔ یہ سن کر حضرت مختار مطمئن ہوگئے اور انہوں نے شریک اعور سے واقعہ بیان کردیا جس کی وجہ سے انہیں بھی اطمینان ہوگیا۔ (نورالابصار ص ۹ طبع لکھئنو)

اس مقام پر مورخ محمد خداوند شاہ ہروی لکھتے ہیں کہ مختار نے اپنے چچا سعد بن مسعود سے پوری بدنیتی کے ساتھ کہا کہ امام حسنعليه‌السلام کو گرفتار کرکے معاویہ کے سپرد کردینا چاہیے الخ (رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص ۷۴ طبع لکھنئو)

یہی کچھ تنزیہ الانبیاء اور علل الشرائع میں بھی ہے۔ (دمعۃ ساکبہ ص ۲۳۹ ) اس کا جواب محقق اجل علامہ عبدالجلیل رازی نے اپنی کتاب نقض الفضائح میں یہ دیا ہے کہ مختار کی ذات وہ تھی جس کی طرف عہد طفولیت میں ہی حصرت امیرالمومنین کی خصوصی نگاہ تھی آپ نے ان کو دعائیں دیں ہیں اور ان کی مدح و ثنا فرمائی ہے اور ان کی امداد کا وعدہ فرمایا ہے ۔ مختار نے امیرالمومنین کے اس ارشاد کی تصدیق کی ہے کہ یہ ہزاروں دشمنان آل محمد کو قتل کرے گا اور اس خدمت کے صلہ میں وہ جنت کے مستحق بن گئے ہیں۔ پھر کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ایسی ذات حضرات آئمہ طاہرینعليه‌السلام کی عظیم فرد حضرت امام حسنعليه‌السلام کے متعلق ایسی رائے قائم کرے جس پر عمل یقینا موجب جہنم ہو ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب امام حسنعليه‌السلام سعد بن مسعود کے پاس قیام پذیر ہوئے تو مختار ازصفائے عقیدہ و نور مودت برحضرت امام حسنعليه‌السلام بترسید کہ مباداعم جہت خاطر معاویہ آسیبی باو رسانداپنے صفائے باطن اور عقیدہ نیک اور اس نور کی وجہ سے جوان کے دل میں ال محمد کی طرف سے تھا یہ خوف پیدا ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے چچا معاویہ کی خاطر سے حضرت امام حسنعليه‌السلام کو کوئی صدمہ پہنچادیں اسی بنا پردہ شریک اعور کے پاس گریاں و غمناک روتے پیٹتے پہنچے جو شیعہ اور فہیم زمانہ تھے ان سے مختار نے اندیشہ ظاہر کیا۔

شریک نے رائے دی کہ تم مخالف بن کر ان سے گفتگو کرو تاکہ ان کے دل کا راز معلوم ہوجائے ۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور ان کو محب ال رسول پاکر اطمینان حاصل کرلیا ، مختار نے جو یہ ترکیب کی اس سے ان کی مذمت نہیں نکلتی بلکہ ان کی مدح کا پہلو روشن ہوتا ہے اور ان کے مواسات حسنی کی بے نظیر مثال قائم ہوتی ہے ۔ (مجالس المومنین شہید ثالث ص ۳۵۷) میرے خیال میں مختار کا یہ اندیشہ بے معنی نہ تھا کیونکہ معاویہ کی ایسی حرکتیں بہت شہرت پاچکی تھیں اور وہ ایسے سازشی کا موں میں طاق تھے۔ ان ہی نے حضرت مالک اشتر کو اسی طرح شہید کرایا تھا ۔ حضرت علیعليه‌السلام کو درجہ شہادت پر پہنچایا تھا اور بالاخر اسی ترکیب سے امام حسن کو ۵۰ء میں شہیدکرادیا۔ (ملاحظہ ہوکتاب ذکر العباس ، مروج الذہب مسعودی ص ۳۰۳ جلد ۲ مقاتل الطالبین ص ۵۱ ابوالفداء جلد ۱ ص ۱۸۳ ، رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص ۷ ، حبیب السیر جلد ۲ ، ۸۱ ، تاریخ طبری ص ۶۰۴ فارسی استیعاب جلد ۱ ص ۱۴۴)