مختار آل محمد

مختار آل محمد0%

مختار آل محمد مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ

مختار آل محمد

مؤلف: مولانا نجم الحسن کراروی
زمرہ جات:

مشاہدے: 28956
ڈاؤنلوڈ: 4506

تبصرے:

مختار آل محمد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 26 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28956 / ڈاؤنلوڈ: 4506
سائز سائز سائز
مختار آل محمد

مختار آل محمد

مؤلف:
اردو

گیارہواں باب

زندانِ کوفہ میں حضرت مختار کی حالتِ زار حضرت میثم تمّار سے ملاقات

زندانِ کوفہ میں حضرت مختار کی حالتِ زار حضرت میثم تمّار سے ملاقات اور مُعلّم کوفہ عمیر بن عامر ہمدانی کا واقعہ اور حضرت مختار کی رہائی حضرت مختار محبت آلِ محمد کے جرم میں قیدخانہ کوفہ کی سختیاں نہایت دلیری کے ساتھ جھیل رہے ہیں۔ مختار کو اس دن کے بعد سے جس دن اہلِ حرم دربار کوفہ میں تھے اور مختار کو بلایا گیا تھا پھر مختار کو روشنی دیکھنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ انہیں ایسے قید خانہ میں محبوس کیا گیا تھا جو خاص شیعیانِ علیعليه‌السلام ابن ابی طالبعليه‌السلام کے لیے خصوصیت کے ساتھ تعمیر ہوا تھا ۔وہ ایسا قید خانہ تھا جس میں نہ دھوپ کی روشنی پہنچتی تھی اور نہ ٹھیک طریقے پر اس میں ہوا کا گذر ہو سکتا تھا۔ وہ قید خانہ جس میں لوہے کے در لگے ہوئے تھے۔ اور جس کے قُفل پر ابن زیاد کی مہر لگی ہوئی تھی۔ اور اس کی تاریکی اور گہرائی کے لیے مورخین لکھتے ہیں کہ سطح زمین سے ایک روایت کی بنا پر پچاس ہاتھ نیچے اور ایک روایت کی بنا پر پچیس ہاتھ نیچے تھا۔ اس میں داخلہ کے وقت پچاس یا بیس سیڑھیاں طے کرنا پڑتی تھیں۔ اس قید خانہ میں کوئی ایک دوسرے کو پہچان نہ سکتا تھا اس قید خانہ میں عرصہ درازسے چار ہزار پانچ سو محبان امیرالمومنینعليه‌السلام مقید تھے۔ جن میں حضرت میثم تمّار بھی تھے۔ حضرت مسلم نے دورانِ قیامِ کوفہ میں بھی طے کیا تھا کہ ایک ذرا غلبہ نصیب ہوتے ہی سب سے پہلے ان لوگوں کو رہا کرانا ہے۔ (نورالابصار ص ۵۶)

حضرت مختار اسی شدید ترین قیدخانہ میں محبوس کیے گئے تھے۔ اور اُن کے ساتھ ایک خاص ظلم یہ تھا کہ ان کے ہاتھ پشت کی جانب سے بندھے ہونے تھے اور سارا جسم زنجیروں سے جکڑا ہوا تھا گلے میں طوق گرا نبار اور پیروں میں سخت قسم کی بیڑیاں تھیں ۔ حضرت مختار کی حالت یہ تھی کہ انہیں گردن پھرانے کا بھی امکان نہ تھا ۔مزید برآں یہ کہ ان کو قید خانے کے آخری کونے میں ڈالا گیا تھا۔ (اخذ الثار وانتصار المختار ابی مخنف ص ۴۸۰ضمیمہ بحار طبع ایران)

حضرت مختار کے ہمراہ عبداللہ ابن حارث بن عبدالمطلب بھی تھے۔قید خانے میں پہنچ کر بہت دنوں تک حضرت مختار کے قید خانہ میں ہو نے سے اہلِ قید خانہ بے خبرتھے۔ ایک دن نہ جانے کس طرح حضر ت میثم تمار نے محسوس کر لیا کہ مختا ر ابن ابی عبیدہ ثقفی بھی اسی قید خانہ میں ہیں۔ بالا خر دونوں میں ملا قات ہوگئی اور ایک ہی جر م کے مجرم میثم تمار ومختارآپس میں ہمکلام ہوے۔ گفتگوہوتے ہوتے یہ بات بھی ہوئی کہ اب آئندہ کیا ہونا ہے ۔عبد اللہ ابن حارث نے کہاکہ میں تو انپے جسم کے بال صاف کر نا چاہتا ہوں۔ کیونکہ عنقریب مجھے پھانسی دی جائے گی ۔ حضرت مختار نے کہا کہ تم اس کا خیال بھی نہ کرو ابن زیاد نہ مجھے پھانسی دے سکتا ہے اور نہ تمہیں سپرد دار کرسکتا ہے عنقریب تم رہا ہوکر بصرہ کے حاکم بنوگے یہ سن کر حضرت میثم تمار نے فرمایا اے مختار ! تم واقعاً قتل نہ ہوگے اور ضرور رہا کیے جاؤ گے کیونکہ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا تمہیں نے واقعہ کربلا کا بدلا لینا ہے تم قید سے ضرور چھوٹو گے اور بے شمار دشمنان آل محمد کو قتل کروگے۔( دمعۃ ساکبہ ص ۴۰۵)

حجۃ الاسلام علامہ محمد ابراہیم تحریر فرماتے ہیں کہ مختار کی غذا قطر ان قرار دی گئی جو سیاہ رنگ کی چیز ہوتی ہے خارشتی ناقہ کے پشت پر ملی جاتی ہے جس کی شدید حرارت سے جگر شق ہوتا ہے اور آنکھوں سے پانی جاری رہتا ہے ۔ (نورالابصار ص ۲۷)

بہرحال حضرت مختار قید خانہ کی سختیاں جھیل ہی رہے تھے کہ دفعة ایک دن عمر بن عامر ہمدانی کا قید خانہ میں داخلہ ہوا انہیں چونکہ اسی قید خانہ میں مختار کے مقید ہونے کی خبر تھی لہٰذا انہوں نے داخل قید خانہ ہوکر حضرت مختار کو تلاش کیا اور ان کے قریب جاکر انہیں سلام کیا حضرت مختار نے سراٹھا کر عمر بن عامر کو دیکھنے کی سعی کی مگر گردن نہ اٹھ سکی پوچھا تم کون ہو کہا میں عامر بن ہمدانی ہوں پوچھا کس جرم میں یہاں لائے گئے ہو ۔عرض کی محبت آل محمد کے جرم میں اس کے بعد انہوں نے اپنے اوپر گزرے ہوئے واقعہ کو تفصیل سے بیان کیا۔

معلم کوفہ عمیر بن عامر ہمدانی کی سرگذشت

معلم کوفہ عمیر بن عامر ہمدانی کی سرگذشت حضرت امام عبداللہ ابن محمد اپنی کتاب قرة العین فی اخذ ثار الحسین ص ۱۲۰ طبع بمبئی ۱۲۹۲ء میں اور علامہ عطاالدین حسام الواعظ اپنی کتاب ،رو ضۃ المجاہد ین ص۶۳ میں اور مورخ اعظم ابو مخنف لو ط بن یحییٰ ازدی ، اپنی کتاب اخذالثار وانتصاالمختار علی الطغاة الفجار ضمیمہ بحار جلد ۱۰ ص ۴۸۰ طبع ایران میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام حسینعليه‌السلام جب درجہ شہادت پر فائز ہوچکے اور بنی امیہ کا اقتدار بلند ہوچکا اور شیعیان علی بن ابی طالب ابن زیاد کے ظلم و جورکی فراوانی کی وجہ سے شرق و غرب عالم میں منتشر ہو چکے تو ابن زیاد بدنہاد نے کوفہ و بصرہ میں اعلان عام کرادیا کہ جو علی بن ابی طالب اور ان کی اولاد کو خیر کے ساتھ یاد کرے گا۔ اسے قتل کردیا جائے گا۔ اسی دوران میں یہ واقعہ ہوا کہ کوفہ کے ایک معلم عمر بن عامر ہمدانی جو آل محمد کے شیعوں میں سے تھے۔ اور مخفی طور پر اپنے ایمان کو چھپائے زندگی کے دن گزار رہے تھے اور اپنے دل میں دعائیں کرتے تھے ۔ خدایا مجھے ایسے شخص کی امداد کا موقع عنایت فرما جو قاتلان حسینعليه‌السلام کو قتل کرنے والا ہو شب دروز یہی دعائیں کرتے تھے اور قید خانہ میں مختا رپر جو گزر رہی تھی ۔

اس سے بڑے دل تنگ تھے لیکن کچھ نہ کرسکتے تھے یہ معلم نہایت متقی اور پرہیز گار شخص تھے۔ اور بے انتہازیرک اور ہوش مند اتفاقاً ایسے وقت میں جب کہ آپ مشغول تدریس تھے اور کوفہ کے تمام بڑے بڑے لوگوں کے لڑکے زیر درس تھے ایک شخص سے پانی طلب کیا اس نے ٹھنڈے پانی کا جام حاضر عمر بن عامر کیا آپ نے جو نہی اسے نوش کیا ۔ واقعہ کربلا کا نقشہ نگاہوں میں پھر گیا اور بے ساختہ منہ سے یہ نکل گیا کہ خدایا امام حسینعليه‌السلام کے قاتلوں اور ان پر پانی بند کرنے والوں پر لعنت کر اس کے بعد کوزہ واپس کردیا اور ایک درہم پانی پلانے والے کو بھی دیا وہ تو چلا گیا لیکن معلم سے ضبط گریہ نہ ہوسکا ۔ وہ بآواز بلند رونے لگا۔ معلم کے پاس جو بچے زیر تعلیم تھے اور اس وقت حاضر تھے ان میں سنان بن انس نخعی کا فرزند بھی تھا اس نے جب معلم سے قاتلان حسین پر لعنت کرتے سنا تو اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ تو مجھے اور میرے والد کو نہیں جانتا کہ ہم لوگ کون ہیں تو نے اتنی بڑی جسارت کی کہ ہمارے سامنے حسین کے قاتلوں پر لعنت کردی کیا تجھے نہیں معلوم کہ حسینعليه‌السلام کا قاتل ابن زیاد اس وقت حاکم کوفہ ہے جس نے عمر سعد کی کمان میں امام حسینعليه‌السلام کو بحکم یزید قتل کرایا ہے

اور قتل کے بعد میرے باپ سنان ابن انس نے ان کاسرنیزے پر بلند کیا تھا اب تیری اتنی مجال ہوگئی کہ تو ہمارے سامنے ان لوگوں پر لعنت کرے ۔

اور انہیں گالیاں دے سن میں اسے کسی صورت میں برداشت نہیں کرسکتا یہ سننا تھا کہ معلم عمر بن عامر کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی اس کے ہاتھ سے طوطے اُڑ گئے ہکا بکا ، حیران کھڑا فرزند سنان بن انس کا منہ تکنے لگا۔ تھوڑ ی دیر کے بعد حواس بجا ہوئے تو اس سے کہا کہ بیٹے میں نے جوکچھ ہے اور تو سمجھا کچھ ہے ، تیرا جو خیال ہے وہ میرا منشا نہیں ہے۔ میں نے تو کسی پر لعنت نہیں کی نہ جانے میں نے کیا کہا اور تو نے کیا سنا۔ غرضیکہ معلم نے ابن سنان بن انس کو نہایت نرمی اور شفقت سے سمجھا بجھا دیااور اس سے خواہش کی کہ ان باتوں کا کسی سے تذکرہ نہ کرنا۔ اس لڑکے نے فی الحال معلم کے کہنے سے خاموشی اختیار کرلی مگر چونکہ نسل میں کھوٹ تھا اس لیے وہ اسے بالکلیہ فراموش نہ کرسکا اسے جب یقین ہوگیا کہ معلم کے ذہن سے اب واقعہ محو ہوگیا ہوگا تو ایک عرصہ کے بعد ایک خرابہ (کھنڈر) میں گیا جو مکتب کے قریب ہی تھا۔ اس میں پہنچ کر اس نے یہ حرکت کی کہ سب سے پہلے اپنے کپڑے پھار ڈالے اور صافہ کے شملہ میں ایک پتھر باندھ لیا ۔

پھر اس پتھر سے اپنے سراور جسم کو اس درجہ زخمی کیا کہ لہولہان ہوگیا جب جسم کے مختلف اطراف سے خون بہنے لگا تو روتا پیٹتا دارالامارہ میں گیا جہاں اس کا باپ کرسی اقتدار پر بیٹھا تھا ۔ باپ نے اسے دیکھا گھبرا کر پوچھا خیر تو ہے اس نے کہا خیر کیا ہے ،

واقعہ یہ ہوا کہ معلم عمیر بن عامر ہمدانی نے پانی پی کر قاتلان حسینعليه‌السلام پر لعنت کی اور ان لوگوں پر بھی لعنت کی جن لوگوں نے ان پر پانی بند کیا تھا اور جنہوں نے ان کا حق غصب کیا ہے یہ سن کر میں نے اس سے کہا کہ تو جو کچھ کہہ رہا ہے اسے سمجھ کرکہتا ہے یا یونہی بول رہاہے اس نے جواب دیا میں بہت سمجھ کر کہہ رہا ہوں اور اب سن لے ، خدا لعنت کرے ۔ یزید ابن زید ، سنان پر اور تجھ پر ، میں نے کہا کہ اے شیخ کیا یزید سے زیادہ حسین مستحق خلافت ہے جو تو ایسی باتیں کرتا ہے۔ اس نے مجھے اس کے جواب میں گردن سے پکڑلیا اور مجھے گھیسٹ کر ایک تاریک کمرہ میں لے گیا اور مجھے رسی سے بہت مستحکم طریقہ پر باندھ دیا اس کے بعد مجھے مارنا شروع کیا اور اس درجہ مارا کہ میں مرنے کے قریب پہنچ گیا ۔ دفعة رسی ٹوٹ گئی اور میں جان بچا کر بھاگ نکلا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر رسی نہ ٹوٹتی تو میں آج قتل کردیا جاتا یہ سننا تھا کہ سنان بن انس آگ بگولا ہوگیا اور حضرت علیعليه‌السلام اور ان کے شیعوں کے حق میں اول فول بکنے لگا ۔

پھر نہایت غصہ کے عالم میں ابن زیاد کے پاس پہنچا اور اپنے لڑکے کو ہمراہ لے جاکر اس کے سامنے اس کی پیٹھ کھولی اور سارے زخم اسے دکھلائے اور اس نے کہا کہ اے امیر عمیر ابن عامر نے میرے لڑکے پر بڑا ظلم کیا ہے ۔ اس نے پوچھا کیا ہوا اس نے کہا کہ عمیر بن عامر نے پانی پی کر قاتلان حسین پر لعنت بھیجی اور اس کے اس فعل پر میرے لڑکے نے ٹوکا تو اس نے اس کا یہ حال بنا دیا ۔ یہ سننا تھا کہ ابن زیاد کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور اس نے دربان سے کہا کہ عمیر کو اس کے گھر سے پکڑ کر میرے پاس حاضر کر اور اگر اس کے لانے میں کوئی مزاحمت کرے تو اسے قتل کردے اور اس کا گھر پھونک دے۔ حکم ابن زیاد پاتے ہی دربان ،عمیر بن عامر کی تلاش میں نکل پڑا اور اس کے گھر جا کر اس کو وہ جس حال میں تھا گرفتار کرلیا اس کے گلے میں عمامہ کا پٹہ ڈال کر گھسیٹتے ہوئے ابن زیاد کی خدمت میں حاضر کیا، تو ابن زیاد نے کہا کہ اے عمیر خدا تجھے غارت کرے تو نے ہی قاتلان حسینعليه‌السلام پر لعنت کی ہے اور تو ہی حسین کا مداح ہے یہ کہہ کر ابن زیاد نے غلاموں کو حکم دیا کہ اسے مارو، چنانچہ سب نے مل کر اس کاحلیہ بگاڑ دیا ۔ اس کے منہ کے سارے دانت توڑ دئیے۔

جب کافی مار پڑگی تو عمیر نے اپنی خطادریافت کی کہا گیا کہ خطا کیا پوچھتا ہے تو نے قاتلان حسین پر لعنت کی ہے اس کی تجھے سزا مل رہی ہے۔ عمیر بن عامر نے جب اپنی خطا سنی تو کہا خدا کی قسم میں نے کچھ نہیں کہا اور اس لڑکے کے ساتھ کچھ نہیں کیا۔ خدا کی قسم اس نے مجھ پر افترا کیا اور بہتان باندھا ہے ۔ حضور میرے امر میں جلدی نہ کریں اور کسی کے قول کو باور نہ فرمائیں ۔ میں نے کچھ نہیں کہا۔ سنئے اگر ایک شخص بھی اس امر کی گواہی دے دے کہ میں نے کچھ کہا یا کچھ کیا ہے تو میری جان اور میرا مال تیرے لئے حلال ہے یہ سن کر ابن زیاد کا غصہ قدرے فرد ہوگیا لیکن حکم دے دیا کہ اسے قید کردیا جائے۔

حکم ابن زیاد پاتے ہی کارندوں نے اسے اسی قید خانہ میں پہنچا دیا جو شیعیان علی بن ابی طالب کیلئے بنایا گیا تھا ۔ معلم عمیر بن عامر ہمدانی کا بیان ہے کہ حکم ابن زیاد پانے کے بعد مجھے ایسے قید خانے میں لے گئے جو زمین کے اندر تھا اور اس پر قُفْل لگے ہوئے تھے اور نگہبان مقررومعین تھے وہ قید خانہ اتنا تاریک تھا کہ رات اور دن میں کوئی فرق نہ تھا میں ایسا سمجھ رہا تھا کہ جیسے مجھے تحت الثری میں پہنچا دیا ہے ۔ اس قید خانے میں سطح زمین سے نیچے کیطرف پچاس زینے تھے ۔ جب میں آخری زینے پر پہنچا تو مجھے بالکل ہی کچھ بھی دکھائی نہ دیا اور سوا لوگوں کی آوازوں کے جو چیخ و پکار اور فریاد کررہے تھے اور کچھ سنائی نہ دیتا تھا میں سخت حیرانی کی حالت میں اس میں دن گزارنے لگا۔

ایک دن میں نے محسوس کیا کہ قید خانہ کے آخری گوشہ سے آواز آرہی ہے اور زنجیریں ہل رہی ہیں میں نے قریب جاکر ایک ایسے شخص کا ادر اک کیا جس کے دونوں پیروں میں بڑی بڑی بیڑیاں پڑی ہیں اور اس کے دونوں ہاتھ پس گردن سے بندھے ہیں اور زنجیروں میں اس طرح جکڑا ہوا ہے کہ دائیں بائیں ہل نہیں سکتا اور نہ زمین پر آسانی سے لیٹ سکتا ہے ۔

اس شخص کے چہرہ پر ایک زخم ہے جس سے مواد جاری ہے ، میں نے اس سے زیادہ سختی میں کسی ایک کا بھی ادراک نہیں کیا۔ میں نے اسے اس حال میں دیکھ کر اس پر سلام کیا اس نے جواب سلام دیا اور سراٹھا کر میری طرف دیکھا اس کے بعد آہ سرد کھینچ کر میری طرف متوجہ ہوا ۔

میں نے نہایت قریب سے دیکھا کہ اس کے سر کے بال آنکھوں کو بندکیے ہوئے ہیں ۔ اس کی حالت دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے۔ میں نے پوچھا کہ اے شخص تو نے کون سی خطا کی ہے جس کی تجھے اتنی سخت سزادی گئی ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ تجھ سے زیادہ سختی میں کوئی اور قیدی نہیں ہے ۔ اس نے جواب دیا خدا کی قسم محبت آل محمد کے سوا میرا کوئی گناہ نہیں ہے میں نے پوچھا تمہارا کیا نام ہے اس نے کہا مجھے مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کہتے ہیں۔

یہ سننا تھا کہ میں ان کے قدموں پر گر پڑا اور ان کے پیروں کا بوسہ دینے لگا ۔ یہ دیکھ کر مختار نے مجھے دعائیں دیں اور مجھ سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے میں نے کہا عمیر بن عامر ہمدانی معلم اطفال کوفہ۔ حضرت مختار نے کہا کہ سبحان اللہ ! یہ کیا بات ہے کہ تم تو ان کے بچوں کو تعلیم دیتے ہوں پھر ایسے سخت قید خانے میں کیسے آگئے۔ یہ ایسے لوگوں کی جگہ ہے جو آل محمد کے دوست دار ہوں اور بنی امیہ کو ان سے خدشہ ہوکہ کہیں ان کی حکومت کا تختہ نہ پلٹ دیں۔ اور خون حسینعليه‌السلام کا بدلہ لینے پر آمادہ نہ ہوجائیں۔ معلم کوفہ کا بیان ہے کہ میں کئی روزتک ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا اور بات چیت کرتا رہا یہاں تک کہ ایک دن انہوں نے فرمایا کہ اے عمیر ہمدانی تم عنقریب قید سے رہا ہوجاؤ گے ابومخنف کا بیان ہے کہ حضرت مختار کا یہ فرمانا بالکل درست ثابت ہوا کیونکہ اس ارشاد کے چند ہی دنوں کے بعد معلم رہا ہوگیا اس کی رہائی کے متعلق مرقوم ہے کہ معلم کی گرفتاری کے بعد اس کے وہ بھتیجی جو کہ ابن زیاد کی لڑکی کی دا یہ تھی جس کا نام "بستان" تھا ۔ اسے جب اطلاع ملی کہ میرا چچا گرفتار ہوگیا ہے تو اس نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور بال بکھیرلیے اور اسی حالت میں ابن زاد کی لڑکی کے پاس گئی ابن زیاد اس لڑکی کو دل و جان سے چاہتا تھا ۔

اس نے جب اپنی دایہ کو اس حال میں دیکھا تو کہا خیر تو ہے تو نے یہ کیا حالت بنائی ہے اس نے جواب دیا اے میری مالکہ میرے چچا عمیر بن عامر ہمدانی پر کسی بچے نے بہتان لگا کر امیر سے شکایت کردی ہے اور امیر نے اسے گرفتار کرادیا ہے۔ حالانکہ وہ معلم ہونے کی حیثیت سے ہر ایک کا خادم ہے اور اس کا سب پر حق ہے اسے میری مالکہ اس کو جس طرح قید میں رکھا ہے اگر اسی طرح وہ مقید رہا تو بہت جلد مرجائے گا میں آپ کے پاس اس لیے آئی ہوں کہ آپ میری خدمت کا لحاظ کرکے اپنے والد سے سفارش کردیجئے ۔ اور میرے چچا کو رہا کرادیجئے۔ ابن زیاد کی لڑکی نے کہا کہ گھبراؤ مت میں بڑی خوشی سے سفارش کروں گی اور اسے رہا کرا چھوڑوں گی ۔ یہ کہہ کر وہ اسی وقت اٹھی اور اپنے باپ کے پاس گئی اور اس سے کہنے لگی۔ بابا جان میری دایہ کا چچا عمیر بن عامر ہمدانی ایک مرد ضعیف اور کبیر السن ہے جو معلم کو فہ ہے جس کے پاس کوفہ کے تمام بچے پڑھتے رہے ہیں ،

اس کے خلاف کسی بچے نے افتراپردازی کرکے اسے گرفتار کرادیا ہے اور آپ نے اس پر عاید کردہ الزام کو درست تسلیم کرلیا ہے بابا اس کے تمام اہل کوفہ پر بڑے حقوق ہیں ۔ اگر اسے قید میں مزید رکھا گیا تو وہ اپنی کمزوری اور بڑھاپے کی وجہ سے ہلاک ہوجائے گا۔ بابا جان میں چاہتی ہوں کہ آپ اسے میرے حوالے کردیجئے اور اس کو مجھے بخش دیجئے اور جلد سے جلد اسے رہا کردیجئے۔ ابن زیاد نے اپنی لڑکی کی گفتگو سن کر کہہ دیا کہ جا۔ میں نے اُسے رہا کردیا ، لڑکی اٹھ کر چلی گئی اور اس نے داروغہ محبس کو بلوا کر حکم دے دیا کہ عمیر بن عامر ہمدانی کو رہا کردو، چنانچہ اس نے زندان بان کو حکم دے دیا اور وہ قید خانہ میں جاکر قفل کھولنے لگا قفل کھلنے کی جیسے آواز آئی۔ حضرت مختار نے عمیر سے کہا کہ درزنداں تیری رہائی کیلئے کھل رہا ہے ۔

یہ سن کر معلم اٹھ کھڑا ہوا اور فوراًدوڑ کر حضرت مختار کے گلے لگ گیا اور کہنے لگا اے میرے مولا! خدا ایسے گھر میں پھر کبھی نہ لائے لیکن آپ کی جدائی مجھے بہت شاق ہے ۔ دل یہی چاہتا ہے کہ آپ کا ساتھ نہ چھوٹے ۔ حضرت مختار نے فرمایا اے عمیر خدا تم کو جزائے خیر دے سنو! مجھے تم سے ایک حاجت ہے اگر تم اسے پوری کردوگے تو میں تم کو اس کے جزادوں گا اور اگر مجھ سے جزا دینا ممکن نہ ہوسکا تو خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جزائے خیردیں گے ۔ معلم عمیر بن عامر ہمدانی نے دست بستہ عرض کی مولا ،فرمائے ، زہے نصیب کہ مجھے آپ کے ارشاد کی تعمیل کا موقع مل سکے ۔ میں ضرور آپ کے ارشاد کی تعمیل کروں گا۔ حضرت مختار نے فرمایا کہ اے عمیر اگر تم بخیریت اپنی جگہ پہنچ جانا تو میرے لیے کسی صورت سے ایک تھوڑا سا کاغذ، ایک قلم اور دوات فراہم کرکے میرے پاس بھیجنے کی سعی کرنا ، معلم نے کہا ۔

حضور بسروچشم اس کی سعی بلیغ کروں گا۔ابھی ان دونوں میں بات چیت ہورہی تھی کہ قید خانہ کا دروازہ کھل گیا اور دربان نے آکر آواز دی کہ اے معلم عمیر بن عامر ہمدانی ، امیر ابن زیاد تم سے راضی ہوگیاہے اور اس نے تمہاری رہائی کا حکم دے دیا ہے ۔ معلم یہ سن کر اٹھ کھڑا ہو ااور دوڑ کر حضرت مختار کے گلے لگ کر نہایت بدحواسی سے رونے لگا۔ اس کے بعد ان سے رخصت ہوکر زندان بان کے ہمراہ روانہ ہوگیا قید خانہ سے نکل کر معلم، امیرابن زیاد کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ابن زیاد کی نظر جو نہی معلم پر پڑی کہنے لگا کہ اے معلم !میں نے اپنی لڑکی کے کہنے سے تیرا گناہ معاف کردیا ہے۔ دیکھ اب آئندہ ایسا جرم عظیم (لعنت برقاتلان حسینعليه‌السلام ) نہ کرنا۔ معلم نے کہا کہ حضور میں بارگاہ خداوندی میں توبہ کرتا ہوں کہ اب کبھی بچوں کو تعلیم نہ دوں گا۔ اور اب کسی مکتب اور مدرسہ میں برائے تدریس نہ بیٹھوں گا ۔

ابن زیاد نے کہا اچھا جاؤ میں نے تم کو رہا کر دیا ہے معلم ابن زیاد کو سلام کرکے وہاں سے روانہ ہوگیا۔

قید خانہ میں حضرت مختار کو قلم و دوات پہنچانے کی سعی

معلم عمیر بن عامرہمدانی قید خانہ سے چھوٹنے کے بعد اپنے گھر پہنچے انہوں نے محض اس خیال سے کہیں راز فاش نہ ہوجائے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ۔ بروایت اس نے کہا کہ اگر تم چاہو طلاق لے لو اور چاہو تو میرے ساتھ رہو لیکن میرے راز کی حفاظت کرو بروایت ابواسحاق اسفرائنی معلم نے اپنی بیوی کو طلاق دے کر اس کا مہر ادا کردیا۔ اور اس کو اس کے باپ کے گھر بھیج دیا ۔ اور خود ارشاد مختار کی تعمیل کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوگئے ایک روایت میں ہے کہ بیوی نے طلاق لینی پسند نہیں کی اور وہ عمیر کے پاس ہی رہی اس کے بعد عمیر نے پانچ سواشرفی ایک رومال میں باندھی اور اسی رومال کے دوسرے گوشہ میں ایک ہزار درہم باندھا اور ایک موٹا گوسفند بھنوایا اور بہت سی روٹیاں پکوائیں اور بہت سی مٹھائی منگوائی اور بہت کافی فروٹ منگوایا اور جب رات کی تاریکی چھا گئی تو اسے اپنے سر پر اٹھا کر خودلے جاکر زندان بان کے مکان پر پہنچے ۔ عمیر اگرچہ بہت مالدار اور کوفہ کے نمایاں افراد میں سے تھے ، لیکن اپنی پوزیشن کا خیال کیے بغیر سب کچھ اپنے سر پر اس لیے لادکر لے گئے کہ کسی کو راز معلوم نہ ہوسکے۔

زنداں بان کے دروازے کو کھٹکھٹایا تو اس کی بیوی نے کہا کہ وہ کہیں باہر گیا ہوا ہے عمیر نے سارا سامان اس کی بیوی کے حوالے کردیا اور اس سے کہہ دیا کہ جب آئے تو بعد سلام میری طرف سے کہنا کہ معلم نے نذر مانی تھی آج اس نے اسے ادا کیا ہے اس لیے یہ سامان تم کو دیا گیا ہے یہ کہہ کروہ اپنے گھر واپس آیا۔ جب صبح ہوئی زنداں بان اپنی ڈیوٹی سے واپس آیا ، آکر سارا سامان دیکھ کر پوچھنے لگا کہ یہ کس نے دیا ہے ۔ زوجہ نے عمیر معلم کی ساری گفتگو دہرادی۔ زنداں بان نے کہا خدا کی قسم کوئی نذرنہ تھی لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کے ذیل میں کسی حاجت کی تکمیل چاہتا ہے ۔ زندان بان حضرت امام حسینعليه‌السلام کے دوست داران میں سے تھا اور امام حسینعليه‌السلام کے مصائب سے بے حد متاثر تھا اس کے محب آل محمد ہونے کی اطلاع عمیر کو نہ تھی۔ دوسری رات عمیر نے پھر پہلے قسم کے تحائف زنداں بان کے گھر پہنچا دئیے اور وہی پہلی بات جو نذر سے متعلق تھی۔ اسے زوجہ کے ذریعے سے کہلادیا جب صبح ہوئی اور وہ گھر پلٹ کر آیا تو زوجہ نے سب ، ماجرا اس سے بیان کیا اس نے پھر کہا کہ خدا کی قسم اس کی کوئی نذر نہیں ہے وہ ضرور کوئی حاجت رکھتا ہے ۔

زندان بان عمیر معلم کے اس ترکیب سے بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ وہ مجھے اتنی عزت دے رہا ہے کہ اگر خدا کی قسم اس کی کوئی بھی حاجت ہوئی تو میں ضرور اسے پوری کروں گا چاہے اس کی تکمیل میں ہلاک ہی کیوں نہ ہونا پڑے ۔ زنداں بان نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ حضرت مختار کی رہائی کی بھی خواہش رکھتا ہوگا تو میں یہ بھی کروں گا چاہے مجھ پر کچھ ہی کیوں نہ گزر جائے۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ آج کی شب بھی آئے گا اور سب کچھ مثل سابق لائے گا آج میں چھٹی لے کر گھر میں اس کا انتظار کروں گا ۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ جب رات ہوئی اور معلم اپنے ہدایا سمیت آیا تو اس نے اٹھ کر خود دروازہ کھولا اور اس کو بڑی تعظیم کے ساتھ اچھی جگہ پر بٹھایا اور اس سے کہنے لگا کہ خدا و رسول (ص)اور علیعليه‌السلام ابن ابی طالبعليه‌السلام کی قسم اگر تو مجھ سے کوئی حاجت رکھتا ہو تو بیان کر میں بقسم کہتا ہوں کہ اگر تیری حاجت روائی میں میری جان، میرا مال، میری اولاد بھی قربان ہو جائے گی تب بھی میں اس کی تکمیل و تعمیل کروں گا۔ اور اے معلم ! سن اگر تو مختار جیسے قیدی کی بھی رہائی کا خواہش مند ہوگا تو میں وہ بھی کروں گا۔ یہ سن کر معلم کے حوصلے بلند ہو گئے اور اس کے دل کو اطمینان حاصل ہوگیا۔

معلم مطمئن ہونے کے بعد اس سے کہنے لگا کہ بات یہ ہے کہ میں نے زمانہ قید میں حضرت مختار کو ایسی حالت میں دیکھا ہے کہ میرا دل پارہ پارہ ہے جب میں قید سے چھوٹ کر چلنے لگا تھا تو انہوں نے مجھ سے یہ خواہش کی تھی کہ کسی صورت سے قلم و دوات اور کاغذ میں ان تک پہنچادوں ۔ میں تم سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ تم کسی صورت سے میری یہ حاجت پوری کردو اور یہ چیزیں جو مختار کے مطلوبہ ہیں پہنچادو۔ زندان بان نے کہا کہ اگرچہ یہ نہایت سخت معاملہ ہے لیکن میں ضرور کوشش کروں گا۔ بات یہ ہے کہ قید خانہ پر چالیس افراد معین ہیں اور تیس تو ایسے ہیں جو ہر وقت میرے ساتھ لگے رہتے ہیں اور بات بات کی خبر ابن زیاد تک پہنچاتے ہیں ۔ میں ایک ترکیب بتلا تا ہوں اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔ شاید خدا کامیابی عنایت فرمائے اور وہ یہ ہے کہ جب صبح ہو تو سکباج تیار کراؤ جو سرکہ زعفران اور گوشٹ سے بنتا ہے ۔ (مجمع البحرین) اور بہت سی روٹیاں خریدو۔

روٹیاں ایسی ہوں جن کے کنارے شکستہ ہوں اور بہت سا کھیرا جوزاور خرمہ جمع کرلو ، ایک کھیرے میں چھوٹا سا قلم اور بادام میں تھوڑی سی روشنائی رکھ کر ٹھیک سے بند کردو۔ اور ایک کھیرے میں کاغذ رکھ دو ۔ یہ سب سامان رکھ کر ایک مزدور پر لدوا کردرزنداں پر لے آؤ۔ جب تم میرے پاس پہنچوگے تو میں تم سے مقصد دریافت کرنے کے بعد تم کو بھی ماروں گا اور مزدور کو بھی زدوکوب کروں گا ۔ تمہارے کپڑے پھاڑوں گا اور تمہیں بُرا بھلا کہوں گا اور اتنا شور کروں گا کہ تمام لوگ جمع ہوجائیں گے اور تمہارے ساتھ ہمدردی کریں گے اور مجھ سے کہیں گے کہ کیوں غریب بوڑھے کو مارتے ہوا اور برا بھلا کہتے ہو جب ان کی ہمدردی تمہارے ساتھ بہت ہوجائے گی

اور لوگ انصاف کی خواہش کریں گے اور فیصلہ کرنے پر آمادہ ہوجایں تو تم سب سے کہنا کہ یہ دربان نے جانے کیسا آدمی ہے اس کو حیا ء نہیں آتی کہ اس نے بلاجرم و خطا مجھے مارا ہے اور گالیاں دیتا ہے۔

جب لوگ واقعہ پوچھیں تو تم کہنا کہ میں جس زمانہ میں قیدتھامیں نے اس قیدخانہ میں ایک شخص کو بری طرح مقید دیکھا تھا ، میں نے اس سے اپنی رہائی کے وقت یہ دریافت کیا تھا کہ اگر کوئی حاجت باہر کے متعلق ہو تو بیان کرو۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میر اجی چاہتا ہے کہ میں مرنے سے پہلے سکباج کھیرا اور بادام جی بھر کر کھا ؤں اگر تم سے ہوسکے تو یہ چیزیں مجھے پہنچا دینا میں نے اس سے خدا کو گواہ کرکے وعدہ کیا تھا کہ اگر ممکن ہوسکا تو ضرور پہنچاؤں گا ابھی میری رہائی کا فیصلہ نہ ہونے پایا تھا اور میں اس سے بات چیت کرہی رہا تھا کہ زندان کا دروازہ کھلا اور میں رہا کردیا گیا۔ اب جب کہ میں رہا ہوکر آگیا ہوں تو چاہتا ہوں کہ خدا کو حاضر ناظرجان کر جو نذر کی ہے اور جو وعدہ کیا ہے اس سے سبکدوش ہوجاؤں۔ اور خدا سے اپنا عہد وفا کروں میں بوڑھا ہوں میری تمنا ہے کہ یہ بارلے کردنیا سے نہ جاؤں اسی لیے یہ سب چیزیں لایا ہوں اور کچھ تم لوگوں کے واسطے بھی لے آیا ہوں ۔ جب لوگ تمہاری یہ باتیں سنیں گے تو مجھ سے خواہش کریں گے کہ میں تم سے نرمی کروں تو میں ان سے اس کے جواب میں کہوں گا کہ میں اس بوڑھے پر نرمی ضرور کرتا مگر ڈرتا ہوں کہ کہیں تم لوگ مجھ پر کوئی بلانہ نازل کردو مجھے اگر تمہاری طرف سے اطمینان ہو تو میں اسے اجازت دے سکتا ہوں کہ یہ چیزیں مختار تک پہنچا دے وہ لوگ مجھے جواب دیں گے کہ ہم میں کوئی چغل خوری کرنے والا نہیں ہے بے شک تم اجازت دے سکتے ہو تمہارا راز کوئی افشا نہ کرے گا۔

یہ سن کر میں تم سے کہوں گا کہ جو کچھ پہنچانا چاہتے ہو مختار کے پاس پہنچا دو پھر تم سب چیزیں ان کے پاس لے جانا وہ بہت ہوشیار شخص ہیں وہ جو چیزیں خفیہ لکھیں گے اسے میں دوسرے دن ان سے حاصل کرکے تمہارے پاس پہنچادوں گا۔ زنداں بان کی یہ بات سن کر معلم عمیر اس کے پیروں پر گرپڑا اور اس کے پاؤں کا بوسہ دینے لگا پھر وہاں سے نکل کر نہایت خوشی کے عالم میں گھرآیا اور اسی وقت سارا سامان مہیا کرکے اس کی تیاری شروع کردی ساری رات تیاری میں گزری صبح ہوتے ہی سارا سامان مزدور کے سر پر رکھ کر دروازہ قید خانہ پر پہنچا۔

زندان بان نے پوچھا کیا لائے ہو معلم نے کہا خدا تجھ پر رحم کرے بات یہ ہے کہ جب میں ایک لڑکے کے بہتان کی وجہ سے جیل میں آیا تھا تو میں نے ایک شخص کو ایسے عذاب میں دیکھا تھا جس میں کوئی دوسرا مبتلا نہ تھا میری اور اس کی محبت سی ہوگئی تھی ۔ اس نے چلتے وقت مجھے سے خواہش کی تھی کہ میں یہ سکباج وغیرہ سے پہنچانے کی کوشش کروں اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں چاہتا ہوں کہ اس نذر سے سبکدوشی حاصل کرلوں وغیرہ وغیرہ یہ سننا تھا کہ زندان بان اپنے مقام سے اٹھا اور اس کے قریب آکر اس کا سارا سامان پلٹ کر دیا اور زدوکوب کرنے کے بعد اس کا پیرا ہن پھاڑ ڈالااور اس کے عمامہ میں اس کی گردن پھنسا کر گھیسٹنے لگا ۔ وہ کہنے لگا کہ میں تم کو اسی وقت ابن زیاد کے پاس لے چلوں گا تو نے یہ سامان غلط فراہم کیا ہے میں ہرگز اسے مختار تک نہ پہنچنے دوں گا ابن زیاد جس کو چاہتا ہے سختی میں رکھتا ہے تم اس کے پاس عمدہ عمدہ چیزیں پہنچانا چاہتے ہو یہ کبھی نہ ہوگا۔ یہ حالت دیکھ کر سب زنداں بانوں نے بیک زبان کہا کہ دیکھ یہ بڑا شریف آدمی ہے اس کے سب پر حقوق ہیں کوفہ کا کوئی امیر و غریب ایسا نہیں ہے جس کے بچوں نے اس سے تعلیم حاصل نہ کی ہو یہ تو کیا کررہا ہے اس غریب پر اتنی سختی روا نہیں ہے خدا را اس سے نرمی کر یا اس کی خواہش پوری کردے یا اسے نرمی سے واپس کردے سختی کا تجھے کوئی حق نہیں ہے۔ زندان بان نے کہا کہ میں اس کی خواہش پوری کردیتا مگر میں تم سے ڈرتا ہوں کہ اگر تم نے رپورٹ کردی تو میری زندگی خراب ہوجائے گی ۔

ان لوگوں نے کہا ہم یزید بن معاویہ کی بیعت کی قسم کھاتے ہیں کہ ہم ہرگز اوپر رپورٹ نہ کریں گے۔ جب زندان بان مطمئن ہوگیا تو معلم عمیر بن عامر ہمدانی سے کہنے لگا کہ اچھا لاکیالایا ہے میں اسے مختار کے پاس پہنچادوں۔ چنانچہ وہ سب سامان لے کر مختار کے پاس پہنچادیا اور انہیں بتا دیا کہ اسی سامان میں قلم و دوات وغیرہ ہے۔ یہ دیکھ کر مختار نہایت مسرور ہوئے اور شکر خدا کرنے لگے ابومخنف کا بیان ہے کہ مختار کے پاس قلم و دوات پہنچاہی تھا کہ ابن زیاد سے چغلی کردی گئی اور چغلی کرنے والا خود زندان بان کا لڑکا تھا اس کا واقعہ یہ ہے کہ زندان بان نے ایک پڑا ہوالڑکا پایا تھا اس کی اس نے پرورش کی تھی وہ جوان ہوچکا تھا جس وقت معلم اور زندان بان میں مختار کو قلم و دوات دینے کی گفتگو ہورہی تھی وہ سن رہا تھا جس صبح کو زنداں بان نے قلم و دوات مختار تک پہنچایا اسی صبح کو زندان بان کے لڑکے نے ابن زیاد کے پاس جاکر چغلی کردی اور سارا واقعہ اس سے بیان کردیا حسام الواعظ لکھتے ہیں کہ لڑکے کا نام بشارت تھا۔ زندان بان نے ابھی سامان مختار تک پہنچایا ہی تھا کہ ابن زیاد بیس فوجیوں کو ہمراہ لے کر درزندان پر پہنچ گیا ۔ ابن زیاد جس وقت درزندان پر پہنچا اس کے بدن پر دیباج کی چادراور سر پر عدن کی چادر تھی جس کے بندکھلے ہوئے تھے ۔ زندان باناں ، خادماں اور خبر دہندگان نے جس وقت ابن زیاد کو اس ہیت سے دیکھا ، ہیبت کے مارے تھراکر اٹھ کھڑے ہوئے۔

ابن زیاد زندان بان کی طرف متوجہ ہوا اور اس کو اس زور سے تازیانہ مارا کہ اس کی پشت زخمی ہوگئی اور حکم دے دیا کہ زنداں بان کو قتل کردیا جائے اور قتل سے پہلے اسے خوب مارا جائے ۔ چنانچہ لوگوں نے اسے مارنا شروع کیا اور اس درجہ کہ وہ لہولہان ہوگیا۔ اس کے بعد معلم کو بلوایا اور اسے بھی خوب پٹوایا پھر دونوں کوقتل کردینے کا حکم دے کر جانے لگا تو زندان بان آگے بڑھا اور عرض پرواز ہوا کہ حضور میرا قصور بتادیا جائے ابن زیاد نے کہا کہ تو یہ سمجھتا ہے کہ میں تیری حرکتوں سے غافل ہوں تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ میں تیری تمام حرکتوں سے واقف ہوں زندان بان نے کہا کہ حضور میں خطا ہی جاننا چاہتا ہوں ۔

ابن زیاد نے کہا کہ تیری خطا یہ ہے کہ تو مختار کے پاس قلم دوات پہنچانے میں معلم کا مدد گار ہے تو چاہتا ہے کہ میری سلطنت کا تخت پلٹ جائے زندان بان نے کہا کہ حضور نہ گھوڑا دور نہ میدان میں بھی حاضر ہوں ۔ معلم بھی موجود ہے مختار قید میں پڑا ہے اور یہ معلم اس وقت سے پہلے کبھی میرے پاس آیا بھی نہیں ۔ اسی وقت آیا ہے ،آپ مختار کی تلاشی کرالیجئے اگر اس کے پاس قلم دوات وغیرہ نکل آئے تو بے شک آپ ہم سب کو قتل کرادیجئے ابن زیاد نے اس کی بات مان لی اور حکم دیا کہ مختار کی تلاشی لی جائے چنانچہ لوگ شمع لے کر قید خانہ میں داخل ہوئے اور مختار کی باقاعدہ تلاشی لی مگر کوئی چیز بر آمد نہ ہوئی، رپورٹ ملنے پر ابن زیاد سخت متحیر اور پریشان و پشیمان ہوا تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بولا کہ اس لڑکے کو میرے پاس حاضر کیا جائے جس نے یہ دروغ بیانی کی ہے ۔ چنانچہ لوگوں نے اسے فوراً حاضر کیا ابن زیاد نے کہا اے ملعون ! تو نے دروغ بیانی کی ہے اب تیری سزا یہ ہے کہ تو قتل کردیا جائے اس کے بعد اس کے قتل کا حکم دیا ۔ یہ دیکھ کر زندان بان آگے بڑھا اور اس نے ابن زیاد سے کہا کہ حضور بات یہ ہے کہ یہ لڑکا جو سامنے کھڑا ہے میرا پروردہ ہے میں نے اسے سڑک پر پڑاپایا تھا ۔

میں نے اس کی پرورش کی یہاں تک کہ یہ جوان ہوا جوان ہوتے ہی یہ میری بیوی کی طرف سے بدنظر ہوگیا ۔ میں نے اس چیز پر کنٹرول کرلیا چونکہ یہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوا لہٰذا اس نے اس دشمنی میں یہ سب کچھ کیا ہے ۔ ابن زیاد نے یہ سن کر معلم اور زندان بان کو چھوڑ دیا اور حکم دیا کہ مختار کی سختی کم کردی جائے اور معلم و زندان بان کو خلعت عطا کی جائے اور لڑکے کو قتل کردیا جائے۔ علماء کا بیان ہے کہ مختار نے قلم اور دوات و کاغذ اس خوبصورتی سے چھپا دیا تھا کہ تجسس کرنے والے برآمد نہ کرسکے تھے اسی وجہ سے ابن زیاد کو پشیمان ہونا پڑا۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ اس واقعہ کے دوسرے دن زنداں بان حضرت مختار کے پاس حاضر ہوا مختار نے اس کا غذا کے دو ٹکٹرے کرکے دو خط تحریر کیے تھے ایک اپنے بہنوئی ، عبداللہ بن عمر کے نام اور دوسرا اپنی بہن عاتکہ یا صفیہ کے نام ۔ مختار نے وہ دونوں خطوط زندان بان کے حوالے کردئیے۔

زندان بان نے انہیں معلم عمیر بن عامر ہمدانی کے پا س پہنچادیا۔ معلم نے امانت کی وجہ سے ان خطوط کو پڑھا نہیں خطوط پاتے ہی معلم حمام گیا اور غسل کیا بال ترشوائے احرم باندھا اور قصر ابن زیاد کے پاس پہنچا وہاں پہنچ کر اس نے تلبیہ کیا اس وقت ابن زیاد دربار میں بیٹھا ہوا تھا ۔ معلم کے تلبیہ کی آواز سن کر اس نے کہا کہ یہ تلبیہ کہنے والا کون ہے ، لوگوں نے کہا کہ یہ وہی معلم ہے جسے تو نے قید کیا تھا اور اس نے منت مانی تھی کہ جب قید سے رہا ہوں گا تو حج کروں گا ابن زیاد نے حکم دیا کہ اسے میرے سامنے حاضر کرو۔ جب وہ آیا تو اس نے پوچھا کہ پہلے مدینہ جاؤگے یا مکہ ۱ اس نے کہا کہ حج کامل کروں گا ۔ یعنی دونوں جگہ جاؤں گا ۔ ابن زیاد نے حکم دیا کہ اسے ایک ہزار درہم دے دئیے جائیں۔ بروایت ایک ہزار درہم اور ایک ہزار دینار دے دئیے جائیں معلم نے رقم حاصل کی گھرآکر اسے فقراء و مساکین پر تقسیم کردیا۔

اور اپنی رقم سے سفر کی تیاری کی ۔ راحلہ کرایہ پر لیا اور مدینہ کے لیے روانہ ہوگیا۔ معلم عمیر ابن عامر ہمدانی نہایت عجلت کے ساتھ قطع منا زل طے مراحل کرتا ہوا واردِ مدینہ ہوا۔ یہ اسی وقت مدینہ پہنچ کر ابن عمر کے گھر پہنچا ۔ جس وقت وہاں عمدہ عمدہ کھانوں سے دسترخوان مرصع تھا بن عمر اپنی بیوی کو کھانے کیلئے دسترخوان پر بلا رہا تھا اور وہ دسترخوان پر آنے سے یہ کہہ کر انکار کر رہی تھیں۔ کہ واللّٰہ لااکلت لذیذ الطعام الاان اخبرت بخبراخی ۔ خدا کی قسم میں اچھے کھانے اس وقت تک نہ کھاؤں گی جب تک مجھے یہ نہ معلوم ہوجائے کہ میرے بھائی مختار کس حال میں ہیں اور کہاں ہیں اتنے میں عمیر بن عامر نے دق الباب کیا یعنی دستک دی عبداللہ بن عمر نے فورا، لونڈی بھیج کر معلوم کیا کہ دروازہ پر کون ہے اس نے کہا میرا نام عمیرہمدانی ہے میں کوفہ سے آیا ہوں ۔ اور ایک اہم حاجت لایا ہوں۔ یہ سننا تھا کہ صفیہ اشتیاق مختار میں زمین پر گرکر بیہوش ہوگئی۔ جب ہوش آیا تو کہا کہ اے عبداللہ ! تم خود دروازے پر جاؤ ۔ شاید آنے والا میرے بھائی مختار کی خبر لایا ہو ۔

عبداللہ ابن عمر اپنے مقام سے اٹھے اور دروازے کے قریب پہنچے۔ دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص روشن روخوش لباس کھڑا ہے ۔ عبداللہ نے سلام کیا ۔ عمیر نے جواب دیا اس کے بعد اسے بیٹھک میں لے آئے اور بڑی عزت و توقیر کے ساتھ اس کا خیر مقدم کیا۔ کھانا چنا ہوا تھا ۔ عبداللہ اور عمیر نے کھانا کھایا اس کے بعد عبداللہ نے عمیر ہمدانی سے آنے کا سبب پوچھا اس نے حضرت مختار کے دونوں خطوط نکال کردیئے۔ عبداللہ نے جیسے ہی خط پڑھا رونا شروع کردیا پھر اٹھ کر اپنی زوجہ صفیہ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ تمہارے بھائی حضرت مختار کے زندان کوفہ سے دو خط ارسال کیے ہیں وہ قید میں ہیں انہوں نے مجھے لکھا ہے کہ میں ان کی رہائی کیلئے یزید کو خط لکھوں صفیہ جن کے گریہ گلوگیر تھا اپنے شوہر سے کہنے لگیں کہ مجھے اجازت دوکہ میں اس مسافر کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں جس نے میرے بھائی سے ملاقات کی ہے اور اس سے سارے واقعات دریافت کروں ، عبداللہ نے اجازت دی وہ چادر اوڑھ کر عمیر کے پاس گئی اور کہنے لگی اے شخص تجھے خدا کی قسم ہے مجھے اس محب حسین ، مختار کے صحیح حالات وواقعات بتادے۔

میرا دل اس کی جدائی میں کباب ہوگیا میں اس کے فراق میں اپنے آپے سے باہر ہوں ۔ اے شخص تجھے امام حسینعليه‌السلام کی قسم ہے مجھ سے کچھ پوشیدہ نہ کرنا یہ سن کر عمیر ہمدانی نے قید خانے کے سارے واقعات صفیہ کے سامنے بیان کردئیے جو نہی صفیہ نے یہ سنا کہ مختار زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور ان کے جسم سے خون جاری ہے برداشت نہ کرسکی اور اس درجہ روئی کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ پھر اس کے پاس سے اٹھ گئی اور گھر کے اندر جا کر اپنے سر کے سارے بال نوچ ڈالے ماں کو دیکھ کر لڑکیوں نے بھی بال نوچ ڈالے اور ان بالوں کو سامنے رکھ کر گریہ و ماتم کرنے لگی۔

عبداللہ نے شورگریہ سنا تودوڑے ہوئے گھر کے اندر آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ سرکے بال نوچ کر صفیہ اور لڑکیوں نے سامنے رکھا ہوا ہے سب محو گریہ ہیں کہنے لگے ارے تم نے یہ کیا کیا۔ صفیہ بولی اے عبداللہ اب میں تمہارے گھر میں چین سے نہیں بیٹھ سکتی ہائے میرا بھائی سخت ترین قید میں مقید ہے ، اے عبداللہ تمہاری غیرت و حمیت پدرانہ کو کیا ہوگیا ہے ۔

ارے کیا یزید تم سے بہتر ہے خدا کیلئے جلدی میرے بھائی کورہا کراؤ۔ ورنہ میں جان دے دوں گی۔ عبداللہ ابن عمر نے یہ سن کر کہا اے صفیہ خدا کی قسم اگر مجھے جلد سے جلد خط پہنچانے والا کوئی بھی مل گیا تو میں اسے جلد سے جلد رہا کرالوں گا پس تاخیر اتنی ہوگی کہ میرا خط یزید کے پاس پہنچے اور اس کا خط ابن زیاد کے پاس پہنچے یقین کرو کہ میری بات وہ کسی صورت سے ٹال نہیں سکتا۔ یہ سننا تھا کہ معلم عمیر ہمدانی بول اٹھا۔ اے ابن عمر میں یزید کے پاس اور اس کے بعد ابن زیاد کے پاس خود خط لے کر نہایت سرعت کے ساتھ جاؤں گا ۔ چاہے وہ دنیا کے کسی گوشے میں ہی کیوں نہ ہو میں خط انہیں پہنچاؤں گا ابن عمر نے کہا کہ تم میرا خط یزید کے پاس لے جاؤ گے اور اس کا جواب لاؤ گے ۔

معلم نے کہا بے شک میں ایسا کروں گا میں نے تو مختار کی رہائی کی کوشش کیلئے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا بھی فیصلہ کیا تھا میں اس خدمت سے بہتر دنیا میں کوئی خدمت نہیں سمجھتا۔ عبداللہ ابن عمر نے یہ سن کر نہایت مسرت کا اظہار کیا اور قلم ودوات و کاغذ منگوا کر یزید کو ایک خط لکھا جس میں پندونصیحت اور خوف خدا کا حوالہ دے کر لکھا کہ تم ابن زیاد حاکم کوفہ کو جلد سے جلد حکم دے کر مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کو قید خانہ سے رہا کراؤ ۔ اس خط کا عنوان یہ تھا۔ عبداللہ ابن عمر بن خطاب کی طرف سے یزید ابن معاویہ ابن ابی سفیان کے نام پھر دیباج سپاہ کا ایک ٹکٹرا منگوایا اس میں اس مکتوب کو لپٹیا اور اسی میں اپنی بیوی اور لڑکیوں کے سر کے بال بھی رکھ دئیے اور اسے باندھ کر معلم عمیر ہمدانی کے حوالہ کیا اور اسے تیز رونا قہ اور زادراہ دے کر روانہ کردیا ۔ عمیر ہمدانی ابن عمر کا خط لیے ہوئے نہایت سرعت کے ساتھ چل کر دمشق پہنچے۔ وہاں پہنچ کر داخل دربار یزید ہونا چاہا لوگوں نے داخلہ سے روک دیا وہ حیران و پریشان اس مقام سے واپس ہوکر مسجد کے قریب ایک کمرہ کرایہ پر لیا اور اسی میں قیام پذیر ہوگیا اور پابندی کے ساتھ مسجد میں جاکر نماز پڑھنے لگا اور ہر نماز کے بعد لوگوں سے اس دعا کی درخواست کرتا تھا کہ خدا ان لوگوں پر رحم کرے جو میری حاجت برآری کریں لوگ اس کی حاجت برآری کے لیے برابر دعا کرتے تھے یہ روزانہ مسجد میں دعا کر اکر دربار یزید میں داخلہ کے لئے جاتا اور وہاں سے محروم واپس آتا اسی طرح کئی روز گزر گئے۔

ایک دن امام مسجد نے اپنے مقتدیوں سے کہا کہ لوگ یہ غلط کہتے ہیں کہ اہل کوفہ بے وفا ہوتے ہیں میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک کوفی روزانہ لوگوں کیلئے دعا کرتا ہے اور وہ اپنی ایک حاجت کا حوالہ بھی دیتا ہے لیکن ہم نے کبھی اس سے یہ نہ پوچھا کہ اس کی حاجت کیا ہے اس سے دریافت حال کرنا چاہیے لوگوں نے کہا کہ اس کے لیے آپ سے زیادہ موزوں اور کون شخص ہے ۔ آپ اس سے دریافت فرمائیں کہ اس کی کیا حاجت ہے ایک دن اپنی حسب عادت جب عمیر ہمدانی نے دعا کرائی تو لوگوں نے امام جماعت سے کہا کہ آپ اپنے لڑکوں کو لے کر اس کے قیام گاہ پر جائیں اور اس سے حاجت دریافت فرمائیں ۔ اس نے کہا بہتر ہے۔ جب نماز کے بعد لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے تو امام جماعت مسجد سے نکل کر عمیر ہمدانی کی قیام گاہ پر گیا ۔ عمیر نے اس کی بڑی عزت کی بالاخر اس سے حاجت دریافت کی اور کہا کہ بھائی اگر تم قرضدار ہو تو ہم قرضہ ادا کریں اگر احسان کا خواہش مند ہے تو ہم احسان کریں اگر کسی سے خوفزدہ ہو تو ہم تیری حفاظت کریں ۔

اگر مال دنیا کا خواہش مند ہو تو ہم تیری اس خواہش کو پوری کریں اور اگر کوئی اور حاجت ہو تو اسے بیان کرتا کہ ہم تدارک کی سعی کریں۔ عمیر ہمدانی نے کہا کہ میں ان میں سے کوئی حاجت نہیں رکھتا اور کچھ کہہ بھی نہیں سکتا۔

ان لوگوں نے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی مرتضیٰعليه‌السلام اور حسینعليه‌السلام کی قسم دی کہ اپنی حاجت بتادے عمیر ہمدانی جب ان کی گفتگو سے مطمئن ہوا تو کہنے لگا کہ میں یزید کے نام عبداللہ بن عمر کا ایک خط لایا ہوں اور اس تک پہنچانا چاہتا ہوں بروایت اس نے ساری داستان حضرت مختار سے متعلق بیان کردی

امام جماعت جو بروایت آقائے دربندی شیعہ اور محب آل محمد تھا ۔ عمیر ہمدانی سے کہنے لگا کہ مجھے تم سے پوری پوری ہمدردی ہے تم اگر یزید سے ملنا چاہتے ہو تو اس کی صورت یہ ہے کہ تم اپنی ہئیت اور شباہت بدل دو ۔ اور جس طرح میں کہوں اس طرح کا لباس پہنو معلم نے کہا نہایت بہتر ہے جیسا آپ فرمائیں گے میں کروں گا امام مسجد نے کہا تم سفید دیباج کی قمیض پہنو اور سفید دیباج ہی کا پائجامہ پہنو اور دیباج سفید کی چادر سر پر ڈالو اور سفید جوتیاں پہنو اس کے بعد قصر یزید میں جاؤ جب تم وہاں پہنچو گے تو تم کو ایک ہزار سے زیادہ مسلح لوگ پہلی ڈیوڑھی میں ایسے ملیں گے جو شمشیر برہنہ لئے کھڑے ہوں گے تم نہ ان کی طرف دیکھو اور نہ ان کو سلام کرو۔ اور وہاں سے اور آگے بڑھ جاؤ پھر دوسری ڈیوڑھی میں تمہیں پہلی ڈیوڑھی سے زیادہ لوگ مسلح نظر آئیں گے تم ان کی طرف بھی متوجہ نہ ہو اور سلام کیے بغیر آگے بڑھ جاؤ پھر تیسری ڈیوڑھی میں داخل ہو وہاں تمہیں دوسری سے بھی زیادہ مسلح لوگ نظر پڑیں گے تم ان کی طرف مثل سابق التفات نہ کرو ۔اور بلاسلام کیے ہوئے آگے بڑھ جاؤ پھر چوتھی ڈیوڑھی میں داخل ہوجاؤ وہاں تم کو پانچ سوار نظر آئیں گے جو دیوان خانے کے عمال ہوں گے تم ان کی طرف بالکل توجہ نہ کرو اور سلام کیے بغیر آگے بڑھ جاؤپھر پانچویں ڈیوڑھی میں داخل ہو وہاں تم کو پہلے سے زیادہ سوار نظر آئیں گے ان کی طرف مطلقاً متوجہ نہ ہو اور بالکل بے خوف آگے بڑھ جاؤاور چھٹی ڈیوڑھی میں داخل ہوجاؤ۔ وہاں پہنچ کر تم بے شمار سوار وں کودیکھو گے کہ دو بڑے چوڑے چبوترے بنے ہوئے ہیں اور ان پر مروارید کے ایسے فرش بچھے ہوں گے جو مطلا ہوں گے اور ہر ایک پر تین تین افراد بیٹھے ہوں گے جو شراب سے مخمور لہو و لعب میں مشغول ہوں گے ۔

یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے امام حسینعليه‌السلام کا سرطشت طلا میں رکھ کر یزید کے سامنے پیش کیا تھا اور یزید نے خوش ہوکر انہیں بلند مقام عطا کیا ہے ۔ ان لوگوں کو طشتیہ کہتے ہیں تم جب ان کے قریب پہنچو تو بلاتوجہ والتفات بلاسلام کیے ہوئے ان کے پاس سے گذر جاؤ اور بالکل خوف و ہر اس نہ کرو اور آگے بڑھ جاؤ ، جب آٹھویں ڈیوڑھی میں پہنچو تو دو چبوترے پہلے سے بھی زیادہ چوڑے تم کو نظر آئیں گے اور ان پر جوفرش ہوں گے وہ پہلے سے زیادہ قیمتی اور مرصع ہوں گے مگران فرشوں پر کوئی بیٹھا ہوا نہ ہوگا جب وہ چبوترے اور فرش تمہیں خالی نظر آئیں تو تم اپنی نظر بچا کر بے توجہی کے ساتھ وہاں سے گزر جاؤ اور ہرگز ان چبوتروں کی طرف حیرت سے نظر نہ کرو ورنہ خادمان یزید تم کو اجنبی سمجھیں گے

اس کے بعد جب دسویں ڈیوڑھی میں داخل ہوتو تم کو ایک نہایت حسین اور خوبصورت جوان نظر آے گا ۔ وہ سیاہ لباس پہنے ہوگاوہ محب امام حسینعليه‌السلام ہوگا اس کا واقعہ یہ ہے کہ جس دن امام حسینعليه‌السلام شہید ہوئے ہیں اسی دن سے اس نے سیاہ لباس پہن لیا ہے اور ہمیشہ لباس غم میں رہتا ہے ، اکثر رویا کرتا ہے اے عمیر جس وقت تم اس کے سامنے پہنچو گے تمہارا مقصد پورا ہوجائے گا ۔ وہ ایسا ہے کہ آزاربند بن کر اپنی روزی پیدا کرتا ہے ۔ یزید سے مطلقاً کچھ نہیں لیتا۔ یہ باتیں سن کر عمیر بن عامر ہمدانی خوش و مسرور ہوگئے اور امام مسجد کو دعائیں دینے لگے امام مسجد یزید سے ملنے کی ترکیب بتا کر عمیر ہمدانی سے رخصت ہوگیا۔ رات گذری صبح ہوئی ، عمیر ہمدانی نے اپنا بکس منگوایا اور اس میں سے دو دیباج کے جامے نکالے ۔ اور ایک رومی جامہ نکالا اور اسے پہنا پھر اس کے اوپر خزکاجامہ پہنا اور خزکوفی کا عمامہ باندھا اور دو چمڑے کے موزے پہنے اور اپنے کو مختلف قسم کی خوشبو سے معطر کیا اور عبداللہ بن عمر کا وہ خط جس میں اس کی بیوی اور لڑکیوں کے سر کے بال بھی تھے ہمراہ لیا اور نکل کھڑے ہوئے بالاخر یزید کے محل سرا میں جاپہنچے۔

معلم عمیر ہمدانی کہتے ہیں کہ میں نے وہی کچھ دیکھا جو امام مسجد نے بتایا تھا میں ایک کے بعد دوسری ڈیوڑھی کواسی طرح طے کر تاہوا جس طرح امام مسجد نے بتایا تھا دسویں ڈیوڑھی پر جاپہنچا جب اس میں داخل ہو تو جوان خوشرو سے ملاقات ہوئی میں نے اسے سلام کیا اس نے جواب میں سلام کے بعد کہا ۔لا اله الا الله والله اکبر ۔ ارے تو اٹھارہ دن تک کہاں تھا اے عمیر میں ۱۸ دن سے تمہارا انتظار کررہا ہوں میں نے کہا اے میرے سردار میں تو بار بار آتا رہا لیکن دربان داخل نہیں ہونے دیتے تھے۔ پھر امام مسجد نے مجھے ایک ترکیب بتائی جس کے بعد میں تم تک پہنچامعلم کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں نے جوان خوشرو کو قسم دے کر پوچھا کہ یہ بتاؤ کہ جب کہ میں پہلے پہل یہاں پہنچا ہوں تم نے میرا نام کیسے جانا ۔ اس نے کہا کہ جس دن تم دمشق میں پہنچے ہواسی دن حضرت امام حسین علیہ السلام نے مجھے خواب میں حکم دیا ہے کہ تمہارے پاس عمیر ہمدانی ایک خاص حاجت لے کر آرہے ہیں تم ان کی مقصد برآری جلد سے جلد کردو۔ حجۃ الاسلام علامہ محمد ابراہیم لکھتے ہیں کہ یہ وہی شخص ہے جس نے ایک لاکھ اشرفیوں کا سر امام حسینعليه‌السلام خرید کر کربلا میں جسم کے ساتھ دفن کرنے کیلئے بھیجا تھا۔

عمیر ہمدانی کہتے ہیں کہ ملاقات کے بعد اس جوان خوشرو نے مجھے بڑی عزت سے اپنے پہلو میں بٹھایا ،

میں اس کے پہلو میں بیٹھا ہی تھا کہ دیکھا کہ ۱۰۰ آدمی ہاتھوں میں گلاب پاش اور مجمرطلائی لیے ہوئے میرے سامنے سے گزرے میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں اس نے کہا کہ یزید کے حمام کو معطر کرنے والے ہیں جب یزید حمام جاتا ہے تو یہ لوگ اس کے حمام میں داخل ہونے سے پہلے حمام کو معطر کرتے ہیں ۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد دیکھا کہ پانچ سو خوبصورت لونڈے جن کی عمر دس سال اور سات سال کی ہوگی وہ گزرے ، میں نے پوچھا یہ کون ہیں اس نے کہا کہ یہ یزید کے گرد جمع رہنے والے لوگ ہیں۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ یزید آرہا ہے وہ دیباج کا لباس پہنے ہے اس کے سر پر ایک چادر ہے جو سونے سے مزین ہے اس کے پاؤں میں سونے کی جوتی ہے جس کا تسمہ مروارید اور چاندی کا بنا ہوا ہے اور اس کے بغل میں ریشم کا بند ہے ۔ وہ ہاتھ میں ایک عصا لئے ہوئے ہے جس پرلااله الا الله محمد رسول الله ۔ یزید امیرالمومنین لکھا ہوا ہے ۔

خداوندعالم نے دنیا ہی میں اس کا منہ سیاہ کیا ہوا ہے ۔ اس کی ناک پر کسی چوٹ کا نشان نمایاں ہے اس کیلئے محل سرا سے حمام تک زریں کرسیاں بچھی ہوئی ہیں۔ عمیر بن عامر ہمدانی کا بیان ہے کہ جب میں نے اس کی شان و شوکت دیکھی آنکھوں میں کربلا کا نقشہ پھر گیا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔ یزید کو دیکھ کر جوان خوشرو نے میرے ہاتھ سے عبداللہ ابن عمر کا لفافہ لے لیا اور حمام میں داخل ہونے سے پہلے وہ لفافہ یزید کے ہاتھ میں دیا اور کہا کہ تو نے اپنے باپ کے حق کی قسم کھا کر مجھ سے کہا ہوا ہے کہ تو میرے ہر حاجت پوری کرے گا تجھے معلوم ہے کہ میں نے آج تک تجھ سے کوئی خواہش نہیں کی ،

یزید نے کہا کہ کیا کوئی حاجت اس وقت رکھتا ہے ، اس نے کہا کہ ہاں! میری خواہش یہ ہے کہ اس نامہ کو پڑھ کر اسی وقت اس کی تعمیل کردے۔ یہ سن کر یزید نے نامہ ابن عمر ہاتھ میں لیا اور اس کو کھول کر پڑھا پھر پوچھا کہ جو شخص یہ نامہ لایا ہے وہ کہاں ہے جوان نے کہا وہ یہ حاضر ہے ۔ عمیر ہمدانی کہتا ہے کہ جب میں یزید کے سامنے پیش ہوا تو اس نے کہا کہ عبداللہ ابن عمر کی یہ خواہش ہے کہ میں ابن زیاد حاکم کوفہ کو یہ لکھ دوں کہ وہ مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کو رہا کردے ۔ عمیر نے کہا جی ہاں یزید نے کہا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ تم امام حسینعليه‌السلام کے شیعوں میں سے ہو۔ میں نے کہا حضور میں تو ایک کرایہ کا آدمی ہوں مجھے ابن عمر نے یہ خط دے کر اجرت پر آپ کے پاس بھیجا ہے۔

یزید نے خط پڑھا ، اس کا رنگ اڑگیا ۔ چہرہ زرد ہوگیا ، کہنے لگا ابن عمر نے نہایت اہم مسئلہ کے متعلق لکھا ہے لیکن کیا کروں کہ میں اس کی بات رد نہیں کرسکتا جوان خوشرونے کہا اے خلیفہ وقت تیرا کیا نقصان ہے تو تو ابن عمر کی خواہش پوری کرے گا اگر اس کی درخواست مان لے گا اس سے کیا بحث کہ خط لانے والا شیعہ حسین ہے یا کون ہے یہ سن کر ابن معاویہ نے ابن زیاد کو خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ میرا خط پاتے ہی مختار کو رہا کر دے اور نہایت عزت و احترام کے ساتھ اسے ابن عمر کے پاس مدینہ بھیج دے اور اسے اور اس معلم عمیر ہمدانی کو انعام واکرام دے اور ان لوگوں کو ہرگز کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔ اس کے بعد اس جوان خوشرد کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے تمہاری خواہش پوری کردی اور سنو اگر تم دو لاکھ روپے مانگتے تو مجھے اتنا نہ کھلتا جتنا اس خط کی تعمیل مجھے کھلی ہے لیکن دو وجہوں سے میں نے اس کے مضمون کی تعمیل کردی ہے ایک یہ کہ عبداللہ بن عمر کے مجھ پر حقوق ہیں دوسرے تم سفارش کرنے والے ہو۔

عمیر ہمدانی کہتے ہیں کہ یہ کہنے کے بعد یزید نے حکم دیا کہ میرے لیے ایک عمدہ قسم کی سواری مہیا کی جائے اور مجھے پانصددرہم دئیے جائیں اور خلعت عطا کی جائے حکم کو ابھی دیر نہ ہوئی تھی کہ سب کچھ حاضر کردیا گیا۔ میں بے انتہا خوش ہوا اور قصر یزید سے باہر نکلا اور اسی ناقہ پر سوار ہوکر جو یزید نے دیاتھا کوفہ کی طرف روانہ ہوگیا

اور نہایت تیزی سے چل کر کوفہ پہنچ گیا وہاں پہنچ کر ایک چادر سر میں اس طرح لپٹ کر کہ آنکھوں کے سوا کچھ نظر نہ آئے دارالامارة پروارد ہوا ابن زیاد کے دربان سے اجازت داخلہ مانگی ۔ انہوں نے پوچھا تم ہوکون میں نے کہا کہ میں یزید کافر ستادہ ہوں یہ سن کردربانوں نے اجازت دی میں ابن زیاد کے پاس حاضر ہوا اور منہ کھول کر اس کے سامنے یزید کا خط پیش کیا یزید کے خط کو پڑھ کر ابن زیاد نہایت غیظ و غضب کی حالت میں کچھ دیر خاموش رہ کرہنس پڑا اور کہنے لگا کہ کم بخت عمیر تو نے یہ کیا کیا میں نے کہا کہ ہاں میں نے کیا ہے اور یہ کچھ کرنا دل سے چاہتا تھا ابن زیاد کی عادت یہ تھی کہ وہ یزید کا خط پاتے ہی اپنے ماتھے پر اسے رکھتا تھا اور اسے بوسہ دیتا تھا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا تھا عرضیکہ خط پڑھنے کے بعد اس نے کہا کہ حکم یزید سرآنکھوں پر۔

اس کے فوراً بعد حکم دیا کہ مختار کو عزت و توقیر کے ساتھ میرے سامنے پیش کیا جائے ، پھر تھوڑی ہی دیر کے بعد مختار ابن زیاد کے سامنے پیش کردئیے گئے ابن زیاد نے جو نہی مختار کو دیکھا سروقد تعظیم کیلئے کھڑا ہوگیا اور فورا ًایک طبیب کو بلوا کر ان کے اس زخم کا علاج کرایا جو اسی کی ضرب سے ہوگیا تھا۔ پھر حکم دیا کہ مختار کو حمام میں لے جایا جائے اور انکے بال اور ناخن کاٹے جائیں اور خلعت فاخرہ انہیں پہنایا جائے۔ جب مختار حمام وغیرہ سے فارغ ہوئے تو حکم دیا کہ انہیں نہایت عمدہ سواری کے ذریعہ سے مدینہ منورہ پہنچا دیا جائے اور یہ حکم دیا کہ ایک ناقہ پر زاد راہ اور عطا یا رکھے جائیں اور ایک ناقہ پانی کا ساتھ کیا جائے اور دس ہزار دینا ر نقد دئیے جائیں ۔ الغرض حکم ابن زیاد کے مطابق مختار کو تمام چیزیں دے دی گئیں اور بروایت رو ضۃ الصفا ان کو حکم دے دیا گیا کہ تین دن میں کوفہ چھوڑ دیں۔ ایک روایت کی بنا پر عمیر ہمدانی کو بھی بہت کچھ دیا گیا ۔ اس کے بعد یہ دونوں دارالامارة ابن زیاد سے برآمد ہوکر روانہ ہوئے ۔ عمیر ہمدانی کا بیان ہے کہ میں حصرت مختار کے ہمراہ وہاں سے نکل کر اپنے مکان پر پہنچا اور نہایت عمدہ کھانا تیار کرا کر حصرت مختار کہ خدمت میں پیش کیا حصرت مختار نے فرمایا ۔

اے عمیر اب میں لذید کھانا کیا کھاؤں گا سنو ! خدا کی قسم اب میں اس وقت تک نہ لذیذ کھانا کھاؤں گا نہ عورت کے پاس جاؤں گا

اور نہ دنیا میں خوشی کا کوئی کام کروں گا جب تک بنی امیہ سے حضرت امام حسینعليه‌السلام کے واقعہ کربلا کا بدلہ نہ لے لوں جب میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤں گا سب کچھ کروں گا میری خواہش ہے کہ میں دل بھر کر بنی امیہ کو قتل کروں انہیں پامال کروں ۔ ان کے سروں پر بیٹھوں ان کی لاشوں پر بساط فرح و سرور بچھا کر سکوں کی سانس لوں اس کے بعد لذیذ کھانا کھاؤں۔ عمیر ہمدانی کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے معمولی کھانا کھایا اس کے بعد حضرت مختار کی خدمت میں میں نے سواری حاضر کی اس کے بعد ہم دونوں ناقوں پر سوار ہوکر کوفہ سے باہر نکلے حضرت مختار نے شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا اب عمیر خداحافظ اب میں جاتا ہوں تم واپس جاؤ میں نے کہا میرے مولا آپ نے یہ کیا کہا ارے اب میں بھلا آپ سے جدا ہوسکتا ہوں ۔

میں تو اب آپ کے قدموں سے تاحیات لپٹا رہوں گا مختار نے فرمایا بہتر ہے اس کے بعد انہوں نے مجھے اپنے ہودج میں بٹھا لیا اور ہم دونوں مدینہ کیلئے روانہ ہوگئے۔ قطع منازل وطے مراحل کرتے ہوئے جلد سے جلد مدینہ منورہ پہنچے وہاں پہنچ کر عبداللہ ابن عمر کے مکان کی جانب روانہ ہوئے ہم لوگ جس وقت ابن عمر کے مکان پر پہنچے ، انہوں نے ہریسہ پکوایا ہوا تھا اور وہ دسترخوان پر رکھا ہوا تھا ۔ وہ اپنی بیوی کو جنہیں بہت چاہتے تھے پکار رہے تھے کہ آؤ کھانا کھالو وہ کہہ رہی تھیں کہ میں ا س وقت تک گوشت کا استعمال نہ کروں گی جب تک اپنے بھائی مختار کی شکل نہ دیکھ لوں ابھی یہ باتیں زن وشوہر میں ہورہی تھیں کہ حضرت مختار نے دق الباب کیا ۔ ہمشیرہ مختار ، صفیہ نے پوچھا کون ہے ۔ حضرت مختار نے کہا "میں مختار ہوں" یہ سننا تھا کہ صفیہ اپنے مقام سے اٹھی اور بے تحاشا دروازے کی طرف دوڑی اور دروازہ کھول کر مختار کو گلے سے لگا لیا ۔ بھائی بہن گلے لگ کر فرط مسرت سے دونوں رونے لگے۔یہاں تک دونوں بیہوش ہو گئے اور قریب تھاکہ دونوں ہلاک ہو جاہیں۔اکثر روایت کی بنا پر حضرت مختار کو ہوش آگیا لیکن صفیہ کو ہوش نہ آیا جب انہیں ہوش میں لانے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ہے۔ یہ حال دیکھ کر حضرت مختار اور ابن عمر بہت غمگین اور رنجیدہ ہوئے

اور سخت افسوس اور غم کی حالت میں ان کی تجہیز و تکفین کا بندوبست کیا حضرت مختار مدینہ میں اس وقت تک مقیم رہے جب تک حکم خدا وندی واقعہ کربلا کے بدلا لینے کا نہیں ہوا (نورالابصار فی اخذ الثار ص ۲۶ تا ص ۵۴ طبع لکھنو ، اصدق الاخبار فی الاخذ بالثار ص ۳۴ طبع دمشق ، رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص ۷۴ ، ذوب النضار فی شرح الثار ابن نما ص ۴۰۱ ، ضیمہ بحار جلد ۱۰ طبع ایران)

علامہ محمد باقر تحریر فرماتے ہیں کہ مختار کے ساتھ عبداللہ ابن حارث بھی رہا ہوگئے تھے کیونکہ ان کی سفارش ہندبنت ابی سفیان نے کی تھی جوان کی خالہ تھی اس کے بعد لکھتے ہیں کہ حضرت مختار کو ابن زیاد نے رہا کرنے کے بعد کہہ دیا تھا کہ اگر تم تین یوم میں کوفہ چھوڑ نہ دو گے تو قتل دئیے جاؤ گے حضرت مختار اسی وجہ سے مدینہ کی طرف تیزی سے جارہے کہ مقام واقصہ میں قصعب بن زہیر ازدی ملے انہوں نے پوچھا کہ تمہاری آنکھ کو کیا ہوگیا ہے ۔ حضرت مختار نے فرمایا کہ ابن زیاد نے ا س پر ضرب لگائی ہے اور اس نے مجھے سخت ترین قید میں ایک عرصہ سے رکھ چھوڑا تھا اب میں رہا ہوکر اپنی بہن صفیہ زوجہ عبداللہ ابن عمر کے پاس مدینہ جارہا ہوں اے قصعب سنو میں عنقریب انشاء اللہ ابن زیاد کو قتل کردوں گا۔

قتلنی الله ان لم اقتله اگر میں اسے قتل نہ کروں تو خدا مجھے قتل کرا دے میں اس کے اعضا وجوارح ٹکڑے ٹکڑے کروں گا حضرت امام حسین کے واقعہ کا اس طرح بدلا لوں گا کہ دنیا انگشت بدنداں ہوگی میں نے تہیہ کرلیا ہے کہ حضرت یحییٰ بن زکریا کے قتل پر جس طرح ستر ہزار قتل کیے تھے میں بھی کم از کم ستر ہزار ہی و شمنان آل محمد کو قتل کروں گا فرمایا۔

والذی انزل القران وبین الفرقان و نذع الادیان و کره العصیان لاقتلن القضاة من ازدوعمان و ملوحج و همدان ونهد و خولان وبکر وهران ونقل ویتهان وعیس وزبیان و قبائل قیس وغیلان غضبا لابن بنی الرحمن ۔

اس ذات کی قسم جس نے قرآن مجید نازل کیا اور فرقان حمید کو ظاہر کیا اور دین کی راہ کھولی اور گناہوں کو بڑی نگاہ سے دیکھا میں ضرور ضرور ان گناہگاروں جنہوں نے امام حسینعليه‌السلام کے خون سے ہاتھ کو رنگین کیاہے قتل کروں گا ، چاہے وہ قبیلہ ازوکے ہوں یا عمان کے مدحج کے ہوں یا ہمدان کے نہد کے ہوں یا خولان کے بکر کے ہوں یا ہران کے نقل کے ہوں یا تیہان کے عبس کے ہوں یا غیلان کے (یعنی کسی دشمن کو بھی نظر انداز نہ کروں گا۔ (دمعۃ ساکبہ ص ۴۰۵ طبع ایران)

واضح ہوکہ اس واقعہ کے سلسلہ میں بعض حضرات نے معلم عمیر بن عامر ہمدانی کا نام کثیر بن عامر لکھا ہے جو میرے نزدیک صحیح نہیں ہے۔