فلسفۂ انتظار

فلسفۂ انتظار0%

فلسفۂ انتظار مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

فلسفۂ انتظار

مؤلف: آیۃ اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 7098
ڈاؤنلوڈ: 4172

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 11 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7098 / ڈاؤنلوڈ: 4172
سائز سائز سائز
فلسفۂ انتظار

فلسفۂ انتظار

مؤلف:
اردو

انتظار

سارے کے سارے مسلمان ایک ایسے "مصلح" کے انتظار میں زندگی کے رات دن گذارے رہے ہیں جس کی خصوصیات یہ ہیں:۔

(۱) عدل و انصاف کی بنیاد پر عالم بشریت کی قیادت کرنا، ظلم و جور، استبداد و فساد کی بساط ہم یشہ کے لئے تہ کرنا۔

(۲) مساوات و برادری کا پرچار کرنا۔

(۳) ایمان و اخلاق، اخلاص و محبّت کی تعلیم دینا۔

(۴) ایک علمی انقلاب لانا۔

(۵) انسانیت کو ایک حیاتِ جدید سے آگاہ کرانا۔

(۶) ہر قسم کی غلامی کا خاتمہ کرنا۔

اس عظیم مصلح کا اسم مبارک مھدی (عج) ہے، پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد میں ہے۔

اس کتابچے کی تالیف کا مقصد یہ نہیں ہے کہ گزشتہ خصوصیات پر تفصیلی اور سیر حاصل بحث کی جائے، کیونکہ ہر ایک خصوصیت ایسی ہے جس کے لئے ایک مکمل کتاب کی ضرورت ہے۔

مقصد یہ ہے کہ "انتظار" کے اثرات کو دیکھا جائے اور یہ پہچانا جاسکے کہ صحیح معنوں میں منتظر کون ہے اور صرف زبانی دعویٰ کرنے والے کون ہیں، اسلامی روایات و احادیث جو انتظار کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں، یہ انتظار کو ایک عظیم عبادت کیوں شمار کیا جاتا ہے۔؟

غلط فیصلے

سب سے پہلے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ انتطار کا عقیدہ، کیا ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے یا یہ عقیدہ شکست خوردہ انسانوں کی فکر کا نتیجہ ہے۔؟ یا یوں کہا جائے کہ اس عقیدہ کا تعلق انسانی فطرت سے ہے، یا یہ عقیدہ انسانوں کے اوپر لادا گیا ہے۔؟

بعض مستشرقین کا اس بات پر اصرار ہے کہ اس عقیدے کا تعلق انسانی فطرت سے نہیں ہے بلکہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کی پیداوار ہے۔

بعض مغرب زدہ ذہنیتوں کا نظریہ ہے کہ یہ عقیدہ خالص اسلامی عقیدہ نہیں ہے بلکہ یہودی اور عیسائی طرز فکر سے حاصل کیا گیا ہے۔

مادّہ پرست اشخاص کا کہنا ہے ک اس عقیدے کی اصل و اساس اقتصادیات سے ہے۔ صرف فقیروں، مجبوروں، ناداروں اور کمزوروں کو بہلانے کے لئے یہ عقیدہ وجود میں لایا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے ک اس عقیدے کا تعلق انسانی فطرت سے ہے اور یہ ایک خالصِ اسلامی نظریہ ہے، دوسرے نظریات کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس عقیدہ کے بارے میں اظھار رائے کیا ہے، اگر ان کو متعصب اور منافع پرست نہ کہا جاسکے تو یہ بات بہر حال مانی ہوئی ہے کہ ان لوگوں کی معلومات اسلامی مسائل کے بارے میں بہت زیادہ محدود ہیں۔ ان محدود معلومات کی بنا پر یہ عقیدہ قائم کرلیا ہے کہ ہم نے سب کچھ سمجھ لیا ہے اور اپنے کو اس بات کا مستحق قرار دے لیتے ہیں کہ اسلامی مسائل کے بارے میں اظھار نظر کریں، اس کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جسے آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ بدیہی بات ہے کہ محدود معلومات کی بنیادوں پر ایک آخری نظریہ قائم کرلینا کہاں کی عقلمندی ہے، آخری فیصلہ کرنے کا حق صرف اس کو ہے جو مسئلے کے اطراف و جوانب سے باقاعدہ واقف ہو۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم یں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اس عقیدے کی بنیاد کیا ہے، ہم ارا سوال تو صرف یہ ہے کہ اس عقیدے کا فائدہ کیا ہے؟ اور اس کے اثرات کیا ہیں؟

ہم نے جو دیکھا وہ یہ ہے کہ جو لوگ اس عقیدے کو دل سے لگائے ہوئے ہیں وہ ہم یشہ رنج و محن کا شکار ہیں اور ان کی زندگیاں مصائب برداشت کرتے گذرتی ہیں ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے بھاگتے ہیں، فساد کے مقابل ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رھتے ہیں اور اس کی سعی و کوشش بھی نہیں کرتے کہ فساد ختم بھی ہوسکتا ہے ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا جاسکتا ہے، ایسے عقیدے رکھنے والوں کو ایسی کوئی فکر ہی نہیں۔

اس عقیدے کی بنیاد جو بھی ہو مگر اس کے فوائد و اثرات خوش آیند نہیں ہیں یہ عقیدہ انسان کو اور زیادہ کاہل بنا دیتا ہے۔

اگر ایک دانش ور کسی مسئلے میں فیصلہ کرنا چاھتا ہے اور صحیح نظریہ قائم کرنا چاھتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کے اطراف و جوانب کا باقاعدہ مطالعہ کرے، اس کے بعد ہی کوئی صحیح نظریہ قائم ہوسکتا ہے۔

آئیے پہلے ہم خود اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں کہ اس عقیدے کی بنیاد کیا ہے؟ کیا واقعاً یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کے افکار کا نتیجہ ہے؟ یا اس کی بنیاد اقتصادیات پر ہے؟ یا پھر اس کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے؟ اس عقیدے کے اثرات مفید ہیں یا نقصان رساں؟۔

انتظار اور فطرت

بعض لوگوں کا قول ہے کہ اس عقیدے کی بنیاد فطرت پر نہیں ہے بلکہ انسان کے افکار پریشاں کا نتیجہ ہے اس کے باوجود اس عقیدے کی اصل و اساس انسانی فطرت ہے، اس نظریے کی تعمیر فطرت کی بنیادوں پر ہوئی ہے۔

انسان دو راستوں سے اس عقیدے تک پہونچتا ہے۔ ایک اس کی اپنی فطرت ہے اور دوسرے اس کی عقل۔ فطرت و عقل دونوں ہی انسان کو اس نظریے کی دعوت دیتے ہیں۔

انسان فطری طور پر کمال کا خواھاں ہے، جس طرح سے فطری طور پر اس میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ جن چیزوں کو نہیں جانتا ان کے بارے میں معلومات حاصل کرے، اسی طرح وہ فطری طور پر اچھائیوں کو پسند کرتا ہے اور نیکی کو پسند کرتا ہے۔

بالکل اسی طرح سے انسان میں کمال حاصل کرنے کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے، اسی جذبے کے تحت انسان اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرسکے کیونکہ وہ جتنا زیادہ علم حاصل کرے گا اتنا ہی زیادہ اس میں کمال نمایاں ہوگا۔ اسی جذبے کے تحت اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ لوگوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نیکی کرے، انسان فطری طور پر نیک طینت اور نیک اشخاص کو پسند کرتا ہے۔

کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ تقاضے ایک شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ ہیں، یا ان کی بنیاد اقتصادیات پر ہے، یا ان کا تعلق وراثت اور ترتیب وغیرہ سے ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ وراثت اور ترتیب ان تقاضوں میں قوت یا ضعف ضرور پیدا کرسکتی ہیں لیکن ان جذبات کو ختم کردینا ان کے بس میں نہیں ہے کیونکہ ان کا وجود ان کا مرھونِ منّت نہیں ہے۔ ان تقاضوں کے فطری ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ تاریخ کے ہر دور اور ہر قوم میں یہ تقاضے پائے جاتے ہیں کیونکہ اگر یہ تقاضے فطری نہ ہوتے تو کہیں پائے جاتے اور کہیں نہ پائے جاتے۔ انسانی عادتوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ ایک قوم کی عادت دوسری قوم میں نہیں پائی جاتی، یا ایک چیز جو ایک قوم میں عزّت کی دلیل ہے وہی دوسری قوم میں ذلّت کا باعث قرار پاتی ہے۔

کمال، علم و دانش، اچھائی اور نیکی سے انسان کا لگاؤ ایک فطری لگاؤ ہے جو ہم یشہ سے انسانی وجود میں پایا جاتا ہے، دنیا کی تمام اقوام اور تمام ادوار تاریخ میں ان کا وجود ملتا ہے۔ عظیم مصلح کا انتظار انھیں جذبات کی معراجِ ارتقاء ہے۔

یہ کیوں کر ممکن ہے کہ انسان میں یہ جذبات تو پائے جائیں مگر اس کے دل میں انتظار کے لئے کوئی کشش نہ ہو، انسانیت و بشریت کا قافلہ اس وقت تک کمالات کے ساحل سے ہم کنار نہیں ہوسکتا جب تک کسی ایسے مصلح بزرگ کا وجود نہ ہو۔

اب یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ انسانی ضمیر کی آواز ہے اس کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے۔

ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسانی بدن کا ہر حصہ انسان کے جسمی کمالات پر اثر انداز ہوتا ہے ہم یں کوئی ایسا عضو نہیں ملے گا جو اس کی غرض کے پورا کرنے میں شریک نہ ہو، ہر عضو اپنی جگہ انسانی کمالات کے حاصل کرنے میں کوشاں ہے۔ اسی طرح روحی اور معنوی کمالات کے سلسلے میں روحانی خصوصیات اس مقصد کے پورا کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔

انسان خطرناک چیزوں سے خوف کھاتا ہے یہ روحانی خصوصیت انسان کے وجود کو ہلاکت سے بچاتی ہے اور انسان کے لئے ایک سپر ہے حوادث کا مقابلہ کرنے کے لئے

غصہ انسان میں دفاعی قوت کو بڑھا دیتا ہے، تمام طاقتیں سمٹ کو ایک مرکز پر جمع ہوجاتی ہیں جس کی بناء پر انسان چیزوں کو تباہ ہونے سے بچا تا ہے اور فائدہ کو تباہ ہونے سے محفوظ رکھتا ہے، دشمنوں پر غلبہ حاصل کرتا ہے۔

اسی طرح سے انسان میں روحی اور معنوی طور پر کمال حاصل کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے، انسان فطری طور پر عدل و انصاف، مساوات اور برادری کا خواھاں ہے، یہ وہ جذبات ہیں جو کمالات کی طرف انسان کی رہبری کرتے ہیں۔ انسان میں ایک ایسا ولولہ پیدا کردیتے ہیں، جس کی بناء پر وہ ہم یشہ روحانی و معنوی مدارج ارتقاء کو طے کرنے کی فکر میں رہتا ہے، اس کے دل میں یہ آرزو پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ دن جلد آئے جب ساری دنیا عدل و انصاف مساوات و برادری، صدق و صفا، صلح و مروت سے بھر جائے ظلم و جور کی بساط اس دنیا سے اٹھ جائے اور ستم و استبداد رختِ سفر باندھ لے۔

یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ انسان کا وجود اس کائنات سے الگ نہیں ہے بلکہ اسی نظام کائنات کا ایک حصہ ہے، یہ ساری کائنات انسان سمیت ایک مکمل مجموعہ ہے جس میں زمین ایک جزو آفتاب و ماہتاب ایک جزء اور انسان ایک جزء ہے۔

چونکہ ساری کائنات میں ایک نظام کار فرما ہے لھٰذا اگر انسانی وجود میں کوئی جذبہ پایا جاتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس جذبے کا جواب خارجی دنیا میں ضرور پایا جاتا ہے۔

اسی بناء پر جب ہم یں پیاس لگتی ہے تو ہم خود بخود پانی کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اسی جذبے کے تحت ہم یں اس بات کا یقین ہے کہ جہاں جہاں پیاس کا وجود ہے وھاں خارجی دنیا میں پیاس کا وجود ضرور ہوگا۔ اگر پانی کا وجود نہ ہوتا تو ہرگز پیاس نہ لگتی۔ اگر ہم اپنی کوتاہیوں کی بناء پر پانی تلاش نہ کرپائیں تو یہ اس بات کی ہرگز دلیل نہ ہوگی کہ پانی کا وجود نہیں ہے، پانی کا وجود ہے البتہ ہم اری سعی و کوشش ناقص ہے۔

اگر انسان میں فطری طور پر علم حاصل کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے تو ضرور خارج میں اس شے کا وجود ہوگا جس کا علم انسان بعد میں حاصل کرے گا۔

اسی بنیاد پر اگر انسان ایک ایسے عظیم مصلح کے انتظار میں زندگی بسر کر رہا ہے جو دنیا کے گوشے گوشے کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ چپہ چپہ نیکیوں کا مرقع بن جائے گا، تو یہ بات واضح ہے کہ انسانی وجود میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے، یہ انسانی سماج ترقی اور تمدن کی اس منزلِ کمال تک پہونچ سکتا ہے تبھی تو ایسے عالمی مصلح کا انتظار انسان کی جان و روح میں شامل ہے۔

عالمی مصلح کے انتظار کا عقیدہ صرف مسلمانوں کے ایک گروہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ سارے مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے۔ اور صرف مسلمانوں ہی تک یہ عقیدہ منحصر نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ہے۔

اس عقیدے کی عمومیت خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ ہی اقتصادیات کی پیداوار ہے کیونکہ جو چیزیں چند خاص شرائط کے تحت وجود میں آتی ہیں ان میں اتنی عمومیت نہیں پائی جاتی۔ ہاں صرف فطری مسائل ایسی عمومیت کے حامل ہوتے ہیں کہ ہر قوم و ملّت اور ہر جگہ پائے جائیں۔ اسی طرح سے عیقدے کی عمومیت اس بات کی زندہ دلیل ہے کہ اس عقیدے کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے۔ انسان فطری طور پر ایک عالمی مصلح کے وجود کا احساس کرتا ہے جب اس کا ظھور ہوگا تو دنیا عدل و انصاف کا مرقع ہوجائے گی۔

عالمی مصلح اور اسلامی روایات

ایک ایسی عالمی حکومت کا انتظار جو ساری دنیا میں امن و امان برقرار کرے، انسان کو عدل و انصاف کا دلدادہ بنائے، یہ کسی شکست خوردہ ذہنیت کی ایجاد نہیں ہے، بلکہ انسان فطری طور پر ایسی عالمی حکومت کا احساس کرتا ہے۔ یہ انتظار ضمیر انسانی کی آواز ہے ایک پاکیزہ فطرت کی آرزو ہے۔

بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ یہ عقیدہ ایک خالص اسلامی عقیدہ نہیں ہے بلکہ دوسرے مذاہب سے اس کو اخذ کیا گیا ہے، یا یوں کہا جائے کہ دوسروں نے اس عقیدے کو اسلامی عقائد میں شامل کردیا ہے۔ ان لوگوں کا قول ہے کہ اس عقیدے کی کوئی اصل و اساس نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ فکر واقعاً ایک غیر اسلامی فکر ہے جو رفتہ رفتہ اسلامی فکر بن گئی ہے؟ یا در اصل یہ ایک خالص اسلامی فکر ہے۔

اس سوال کا جواب کس سے طلب کیا جائے۔ آیا ان مستشرقین سے اس کا جواب طلب کیا جائے جن کی معلومات اسلامیات کے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ہیں۔ یہیں سے مصیبت کا آغاز ہوتا ہے کہ ہم دوسروں سے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اس آدمی سے پانی طلب نہ کرے جو دریا کے کنارے ہے بلکہ ایک ایسے شخص سے پانی طلب کرے جو دریا سے کوسوں دُور ہے۔

یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ مستشرقین کی باتوں کو بالکل کفر و الحاد تصور کیا جائے اور ان کی کوئی بات مانی ہی نہ جائے، بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ "اسلام شناسی" کے بارے میں ان کے افکار کو معیار اور حرفِ آخر تصور نہ کیا جائے۔ اگر ہم تکنیکی مسائل میں علمائے غرب کا سہارا لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم اسلامی مسائل کے بارے میں بھی ان کے سامنے دستِ سوال دراز کریں۔

ہم علمائے غرب کے افکار کو اسلامیات کے بارے میں معیار اس لیے قرار نہیں دے سکتے کہ ایک تو ان کی معلومات اسلامی مسائل کے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ہے، جس کی بنا پر ایک صحیح نظریہ قائم کرنے سے قاصر ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ تمام اسلامی اصول کو مادی اصولوں کی بنیاد پر پرکھنا چاھتے ہیں، ہر چیز میں مادی فائدہ تلاش کرتے ہیں۔ بدیہی بات ہے کہ اگر تمام اسلامی مسائل کو مادیت کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو ایسی صورت میں اسلامی مسائل کی حقیقت کیا سمجھ میں آئے گی۔

اسلامی روایات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ "انتظار" کا شمار ان مسائل میں ہے جن کی تعلیم خود پیغمبر اسلام (ص) نے فرمائی ہے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی انقلابی مہم کے سلسلے میں روایات اتنی کثرت سے وارد ہوئی ہیں کہ کوئی بھی انصاف پسند صاحبِ تحقیق ان کے "تواتر" سے انکار نہیں کرسکتا ہے۔ شیعہ اور سُنّی دونوں فرقوں کے علماء نے اس سلسلے میں متعدد کتابیں لکھی ہیں اور سب ہی نے ان روایات کے "متواتر" ہونے کا اقرار کیا ہے۔ ہاں صرف "ابن خلدون" اور "احمد امین مصری" نے ان روایات کے سلسلے میں شک و شبہ کا اظھار کیا ہے۔ ان کی تشویش کا سبب روایات نہیں ہیں بلکہ ان کا خیال ہے کہ یہ ایسا مسئلہ ہے جسے اتنی آسانی سے قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اس سلسلہ میں اس سوال و جواب کا ذکر مناسب ہوگا جو آج سے چند سال قبل ایک افریقی مسلمان نے مکہ معظمہ میں جو عالمی ادارہ ہے، اس سے کیا تھا۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ ارادہ وھابیوں کا ہے اور انھیں کے افکار و نظریات کی ترجمانی کرتا ہے۔ سب کو یہ بات معلوم ہے کہ وھابی اسلام کے بارے میں کس قدر سخت ہیں، اگر یہ لوگ کسی بات کو تسلیم کرلیں تو اس سے اندازہ ہوگا کہ یہ مسئلہ کس قدر اہم یت کا حامل ہے اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس جواب سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت امام مہدی (ع) کا انتظار ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر دنیا کے تمام لوگ متفق ہیں، اور کسی کو بھی اس سے انکار نہیں ہے۔ وھابیوں کا اس مسئلہ کو قبول کرلینا اس بات کی زندہ دلیل ہے کہ اس سلسلہ میں جو روایات وارد ہوئی ہیں ان میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ذیل میں سوال اور جواب پیش کیا جاتا ہے۔

حضرت امام مہدی (ع) کے ظھور پر زندہ دلیلیں

چند سال قبل کینیا (افریقہ) کے ایک باشندے بنام "ابو محمد" نے "ادارہ رابطہ عالم اسلامی" سے حضرت مہدی (ع) کے ظھور کے بارے میں سوال کیا تھا۔

اس ادارے کے جنرل سکریٹری "جناب محمد صالح اتغزاز" نے جو جواب ارسال کیا، اس میں اس بات کی با قاعدہ تصریح کی ہے کہ وھابی فرقے کے بانی "ابن تیمیہ" نے بھی ان روایات کو قبول کیا ہے جو حضرت امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ اس جواب کے ذیل میں سکریٹری موصوف نے وہ کتابچہ بھی ارسال کیا ہے جسے پانچ جید علمائے کرام نے مل کر تحریر کیا ہے۔ اس کتابچے کے اقتباسات قارئین محترم کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں: ۔۔۔۔

عظیم مصلح کا اسم مبارک مھدی (ع) ہے۔ آپ کے والد کا نام "عبد اللہ" ہے اور آپ مكّہ سے ظھور فرمائیں گے۔ ظھور کے وقت ساری دنیا ظلم و جور و فساد سے بھری ہوگی۔ ہر طرف ضلالت و گمراہی کی آندھیاں چل رہی ہوں گی۔ حضرت مہدی (ع) کے ذریعہ خداوندعالم دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، ظلم و جور و ستم کانشان تک بھی نہ ہوگا۔"

رسول گرامی اسلام (ص) کے بارہ جانشینوں میں سے وہ آخری جانشین ہوں گے، اس کی خبر خود پیغمبر اسلام (ص) دے گئے ہیں، حدیث کی معتبر کتابوں میں اس قسم کی روایات کا ذکر باقاعدہ موجود ہے۔"

حضرت مہدی (ع) کے بارے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں خود صحابۂ کرام نے ان کو نقل فرمایا ہے ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں:۔

(۱) علی ابن ابی طالب (ع)، (۲) عثمان بن عفان، (۳) طلحہ بن عبیدہ، (۴) عبد الرحمٰن بن عوف، (۵) عبد اللہ بن عباس، (۶) عمار یاسر، (۷) عبد اللہ بن مسعود، (۸) ابوسعید خدری، (۹) ثوبان، (۱۰) قرہ ابن اساس مزنی، (۱۱) عبد اللہ ابن حارث، (۱۲) ابوھریرہ، (۱۳) حذیفہ بن یمان، (۱۴) جابر ابن عبد اللہ (۱۵) ابو امامہ، (۱۶) جابر ابن ماجد، (۱۷) عبد اللہ بن عمر (۱۸) انس بن مالک، (۱۹) عمران بن حصین، (۲۰) ام سلمہ۔

پیغمبر اسلام (ص) کی روایات کے علاوہ خود صحابہ کرام کے فرمودات میں ایسی باتیں ملتی ہیں جن میں حضرت مہدی (ع) کے ظھور کو باقاعدہ ذکر کیا گیا ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں اجتہاد وغیرہ کا گذر نہیں ہے جس کی بناء پر بڑے اعتماد سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ تمام باتیں خود پیغمبر اسلام (ص) کی روایات سے اخذ کی گئی ہیں۔ ان تمام باتوں کو علمائے حدیث نے اپنی معتبر کتابوں میں ذکر کیا ہے جیسے:۔

سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، ابن ماجہ، سنن ابن عمر والدانی، مسند احمد، مسند ابن یعلی، مسند بزاز، صحیح حاکم، معاجم طبرانی (کبیر و متوسط)، معجم رویانی، معجم دار قطنی، ابو نعیم کی "اخبار المھدی"۔ تاریخ بغداد، تاریخ ابن عساکر، اور دوسری معتبر کتابیں۔

علمائے اسلام نے حضرت مھدی (ع) کے موضوع پر مستقل کتابیں تحریر کی ہیں جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں:

اخبار المھدی؛ تالیف: ابو نعیم

القول المختصر فی علامات المھدی المنتظر؛ تالیف: ابن ھجر ھیثمی

التوضیح فی تواتر ماجاء فی المنتظر والد جال والمسیح؛ تالیف: شوکانی

المھدی؛ تالیف: ادریس عراقی مغربی

الوہم المکنون فی الرد علی ابن خلدون؛ تالیف: ابو العباس بن عبد المومن المغربی

مدینہ یونی یورسٹی کے وائس چانسلر نے یونی ورسٹی کے ماہنامہ میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے، ہر دور کے علماء نے اس بات کی باقاعدہ تصریح کی ہے کہ وہ حدیثیں جو حضرت مھدی (ع) کے بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ متواتر ہیں جنھیں کسی بھی صورت سے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ جن علماء نے حدیثوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کیا ہے ان کے نام اور کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں، جن میں تواتر کا ذکر کیا گیا ہے:۔

۱۔ السخاوی اپنی کتاب فتح المغیث میں

۲۔ محمد بن السنادینی اپنی کتاب شرح العقیدہ میں

۳۔ ابو الحسن الابری اپنی کتاب مناقب الشافعی میں

۴۔ ابن تیمیہ اپنے فتوؤں میں

۵۔ سیوطی اپنی کتاب الحاوی میں

۶۔ ادریس عراقی مغربی اپنی کتاب المھدی میں

۷۔ شوکانی اپنی کتاب التوضیح فی تواتر ماجاء میں

۸۔ شوکانی اپنی کتاب فی المنتظر والدجال والمسیح میں

۹۔ محمد جعفر کنانی اپنی کتاب نظم المتناثر میں

۱۰۔ ابو العباس عبد المومن المغربی اپنی کتاب الوہم المکنون میں

ھاں ابن خلدون نے ضرور اس بات کی کوشش کی ہے کہ ان متواتر اور ناقابل انکار حدیثوں کو ایک جعلی اور بے بنیاد حدیث لا مھدی الا عیسیٰ (حضرت عیسیٰ کے علاوہ اور کوئی مھدی نہیں ہے) کے ہم پلّہ قرار دے کر ان حدیثوں سے انکار کیا جائے۔ لیکن علمائے اسلام نے اس مسئلہ میں ابن خلدون کے نظریے کی باقاعدہ تردید کی ہے خصوصاً ابن عبد المومن نے تو اس موضوع پر ایک مستقل کتاب الوہم المکنون تحریر کی ہے۔ یہ کتاب تقریباً ۳۰ برس قبل مشرق اور مغرب میں شائع ہوچکی ہے۔

حافظان حدیث اور دیگر علمائے کرام نے بھی ان حدیثوں کے متواتر ہونے کی صراحت فرمائی ہے۔

ان تمام باتوں کی بنا پر ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ حضرت مھدی کے ظھور پر ایمان و عقیدہ رکھے۔ اہل سنت والجماعت کا بھی یہی عقیدہ ہے اور ان کے عقائد میں سے ایک ہے۔

ھاں وہ اشخاص تو ضرور اس عقیدے سے انکار کرسکتے ہیں جو روایات سے بے خبر ہیں، یادین میں بدعت کو رواج دینا چاھتے ہیں، (ورنہ ایک ذی علم اور دیندار کبھی بھی اس عقیدے سے انکار نہیں کرسکتا۔)"

سکریٹری انجمن فقۂ اسلامی

محمد منتصر کنانی

اس جواب کی روشنی میں یہ بات کس قدر واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت مھدی (ع) کے ظھور کا عقیدہ صرف ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے کسی بھی دوسرے مذہب سے یہ عقیدہ اخذ نہیں کیا گیا ہے۔

ایک بات ضرور قابل ذکر ہے وہ یہ کہ اس جواب میں حضرت امام مھدی (ع) کے والد بزرگوار کا اسمِ مبارک عبد اللہ ذکر کیا گیا ہے۔ جب کہ اہل بیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ہوئی ہیں۔ ان میں بطور یقین حضرت کے والد بزرگوار کا اسم مبارک حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ہے

اس شبہ کی وجہ وہ روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں "اسم ابیه اسم ابی " (ان کے والد کا نام میرے والد کا نام ہے) جبکہ بعض دوسری روایات میں ابی (میرے والد) کے بجائے ابنی (میرا فرزند) ہے، صرف نون کا نقطہ حذف ہوجانے یا کاتب کی غلطی سے یہ اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ اسی بات کو "گنجی شافعی" نے اپنی کتاب "البیان فی اخبار صاحب الزمان" میں ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ

۱۔ یہ جملہ اہل سنت کی اکثر روایات میں موجود نہیں ہے

۲۔ ابن ابی لیلیٰ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:اسمه اسمی اسم ابیه اسم ابنی ۔ (اس کا نام میرا نام ہے، اس کے والد کا نام میرے فرزند کا نام ہے) فرزند سے مراد حضرت امام حسن علیہ السلام ہیں۔

۳۔ اہل سنت کی بعض روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ امام زمانہ کے والد بزرگوار کا نام حسن ہے۔

۴۔ اہلبیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ہوئی ہیں جو تواتر کی حد کو پہونچتی ہیں ان میں صراحت کے ساتھ یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ حضرت امام مھدی علیہ السلام کے والد بزرگوار کا اسم مبارک حسن ہے۔

انتظار کے اثرات

گذشتہ بیانات سے یہ بات روشن ہوگئی کہ عظیم مصلح کا انتظار ایک فطری تقاضہ ہے اور انسان دیرینہ آرزو کی تکمیل ہے۔ یہ عقیدہ ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے یہ عقیدہ صرف فرقہ شیعہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اسلام کے تمام فرقے اس میں برابر کے شریک ہیں۔ اس سلسلے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں وہ "تواتر" کی حد تک پہونچی ہوئی ہیں۔(۱)

ھاں وہ حضرات جن کی معلومات کا دائرہ محدود ہے اور ہر بات کو مادیت اور اقتصادیات کی عینک لگاکر دیکھنا چاھتے ہیں، یہ حضرات ضرور یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک اسلامی عقیدہ نہیں ہے، یا یہ طرز فکر ایک شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ ہے۔

ایک بات باقی رہ جاتی ہے۔ وہ یہ کہ اگر قبول بھی کرلیا جائے کہ یہ عقیدہ ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے اور خالص اسلام کے انداز فکر کا نتیجہ ہے مگر اس عقیدے کا فائدہ کیا ہے، عظیم مصلح کے انتظار میں زندگی بسر کرنے سے انسان کی زندگی پر کیا اثرات رونما ہوتے ہیں۔۔؟ انسان کے طرز فکر میں کون سی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔؟

یہ عقیدہ انسان کو ایک ذمہ دار شخص بناتا ہے یا لا اُبالی؟

یہ عقیدہ انسان میں ایک جوش پیدا کرتا ہے یا اس کے احساسات پر مایوسی کی اوس ڈال دیتا ہے۔؟

انسانی زندگی کو ایک نیا ساز عطا کرتا ہے یا اس کی زندگی کو بے کیف بنا دیتا ہے۔؟

یہ عقیدہ انسان کو ایک ایسی قوت عطا کرتا ہے جس سے وہ مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکے یا انسان کو ضعیف و کمزور بنا دیتا ہے۔؟

یہ بات بھی توجہ کے قابل ہے کہ ذوق اور سلیقے کے مختلف ہونے کی بنا پر ہوسکتا ہے کہ ایک ہی چیز سے دو مختلف نتیجے اخذ کئے جائیں۔ ایک آدمی ایسے نتائج برآمد کرلے جو واقعاً مفید اور کار آمد ہوں اور دوسرا آدمی اسی چیز سے ایسے نتائج اخذ کرے جو بے کار اور مضر ہوں۔ ایٹمی توانائی کو انسان ان چیزوں میں بھی استعمال کرسکتا ہے جو حیات انسانی کے لئے مفید اور ضروری ہیں اور اسی ایٹمی توانائی کو انسانیت کی ہلاکت کے لئے بھی استعمال کرسکتا ہے بلکہ کررہا ہے۔

یہی حال ان رواتیوں کا ہے جو انتظار کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض بے خبر یا خود غرض لوگوں نے ایسے نتائج اخذ کئے ہیں جس کی بنا پر اعتراضات کی ایک دیوار قائم ہوگئی۔

انتظار کے اثرات بیان کرنے سے پہلے قارئین کی خدمت میں چند روایتیں پیش کرتے ہیں جن سے انتظار کی اہم یت کا اندازہ ہوجائے گا۔ بعد میں انھیں روایات کو اساس و بنیاد قرار دیتے ہوئے فلسفۂ انتظار کے بارے میں کچھ عرض کریں گے۔ ان روایات کا ذرا غور سے مطالعہ کیجئے تاکہ آئندہ مطالب آسان ہوجائیں۔

۱) ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا۔ وہ شخص جو ائمہ کی ولایت کا قائل ہے اور حکومت حق کا انتظار کر رہا ہے ایسے شخص کا مرتبہ اور مقام کیا ہے۔؟

امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے: "هو بمنزلة من کان مع القائم فی فسطاطه ۔" ( وہ اس شخص کے مانند ہے جو امام کے ساتھ اس ان کے خیمے میں ہو)۔

امام نے تھوڑی دیر سکوت کے بعد پھرمایا:۔ "هو کمن کان مع رسول الله "۔ وہ اس شخص کے مانند ہے جو رسول اللہ کے ہم راہ (جنگ میں) شریک رہا ہو۔(۲)

اسی مضمون کی متعدد روایتیں ائمہ علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں۔

۲) بعض روایات میں ہے: "بمنزلة الضارب بسیفه فی سبیل الله ۔" اس شخص کے ہم رتبہ ہے جو راہ خدا میں شمشیر چلا رہا ہو۔(۳)

۳) بعض روایات میں یہ جملہ ملتا ہے: :کمن قارع معه بسیفه ۔"(۴) اس شخص کے مانند ہے جو رسول خدا (ص) کے ہم راہ دشمن کے سرپر تلوار لگا رہا ہو۔

۴) بعض میں یہ جملہ ملتا ہے: "بمنزلة من کان قاعداً تحت لوائه ۔" اس شخص کے مانند ہے جو حضرت مھدی علیہ السلام کے پرچم تلے ہو۔(۵)

۶) بعض روایات میں یہ جملہ ملتا ہے:۔ "بمنزلة مجاهدین بین یدی رسول الله ۔" اس شخص کے مانند ہے جو پیغمبر اسلام (ص) کے سامنے راہ خدا میں جہاد کر رہا ہو۔(۶)

۷) بعض دوسری روایتوں میں ہے:۔ "بمنزلة من استشهد مع رسول الله " اس شخص کے مانند ہے جو خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم راہ درجۂ شھادت پر فائز ہوا ہو۔(۷)

ان روایتوں میں جو سات قسم کی تشبیہات کی گئی ہیں ان میں غور وفکر کرنے سے انتظار کی اہم یت کا باقاعدہ انداز ہوجاتا ہے اور یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ انتظار اور جہاد میں کس قدر ربط ہے۔ انتظار اور شھادت میں کتنا گہرا تعلق ہے۔

بعض دوسری روایتوں میں ملتا ہے کہ "انتظار کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔" اس مضمون کی روایتیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام (ص) کی ایک حدیث کے الفاظ ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "افضل اعمال امتی انتظار الفرج من الله عزوجل(۸)

ایک دوسری روایت میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے: "افضل العبادة انتظار الفرج ۔"(۹)

یہ تمام روایتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ انتظار اور جھاد میں کتنا گہرا لگاؤ ہے۔ اس لگاؤ اور تعلق کا فلسفہ کیا ہے، ا سکے لئے ذرا صبر سے کام لیں۔

____________________

۱. تفصیلی بحث کے لئے ملاحظہ ہو "منتخب الاثر" تحریر آیت الله لطف اللہ صافی۔ ص۲۳۱۔ ۲۳۶

۲. بحار الانوار ج ۵۲ ص۱۲۵ طبع جدید

۳. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۲۶

۴. بحار الانوار جلد ۵۲ ص ۱۲۶

۵. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۴۲ طبع جدید

۶. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲

۷. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۴۲

۸. بحار الانوار ج۵۲ ص۱۲۸

۹. بحار الانوار ج۵۲ ص۱۲۵