فلسفۂ انتظار

فلسفۂ انتظار40%

فلسفۂ انتظار مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 11 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7489 / ڈاؤنلوڈ: 4641
سائز سائز سائز
فلسفۂ انتظار

فلسفۂ انتظار

مؤلف:
اردو

انتظار کا مفھوم

انتظار اس حالت کو کہتے ہیں جب انسان اپنی موجودہ حالت سے کبیدہ خاطر ہو اور ایک تابناک مستقبل کی تلاش میں ہو، جیسے ایک مریض جو اپنے مرض سے عاجز آچکا ہو صحت و سلامتی کی امید میں رات دن کوشاں ہے، ایک تاجر جو کساد بازاری سے پریشان ہو اس کی ساری تجارت ٹھپ ہو کر رہ گئی ہو، وہ اس انتظار میں ہے کہ کس طرح یہ کساد بازاری ختم ہو اور اس کی تجارت کو فروغ حاصل ہو، اسی امید میں وہ ہم یشہ سعی و کو شش کرتا رہتا ہے۔

انتظار کے دو پہلو ہیں، اور دونوں پہلو غور طلب ہیں:

۱) منفی: انسان کا اپنی موجودہ حالت سے کبیدہ خا طر ہونا۔

۲) مثبت: تابناک مستقبل کے لئے کو شاں رہنا۔

جب تک انسان کی ذات میں یہ دونوں پہلو نہ پائے جاتے ہوں، اس وقت تک اسے یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ وہ کسی کا منتظر ہے۔ کیونکہ جو شخص موجودہ حالت پر راضی و خوشنود ہوگا اسے مستقبل کے بارے میں کیا فکر ہوسکتی ہے اور اگر وہ موجودہ حالت سے تو راضی نہیں ہے مگر اسے مستقبل کی بھی کوئی فکر نہیں ہے تو ایسی صورت میں یہ شخص کس چیز کا انتظار کرے گا۔

جس قدریہ دونوں پہلو انسانی وجود میں جڑ پکڑتے جائیں گے اسی اعتبار سے اس کی عملی زندگی میں فرق پڑتا جائے گا، کیونکہ جو بات دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے اعضاء و جوارح اپنے عمل سے اس کا اظھار ضرور کرتے ہیں۔

انتظار کے دونوں پہلو انسان کی زندگی کے لئے مفید ہیں جب انسان زمانے کی موجودہ حالت سے کبیدہ خاطر ہوگا تو اس بات کی کوشش کرے گا کہ اپنے کو ہر قسم کے گناہ سے دور رکھے، ظلم و فساد سے کنارہ کشی اختیار کرلے، جور و استبداد کے ختم کرنے کی ہر امکانی کوشش کرے۔ اسی کے ساتھ ساتھ نیکی کی طرف قدم بڑھا رہا ہو اپنے کو نیک صفات سے آراستہ کرنے کی فکر میں ہو۔

اب آپ خود ہی فیصلہ کرلیں انتظار کا یہ مفہوم انسان سے احساس ذمہ داری کو چھین لیتا ہے یا احساس ذمہ داری کو اور بڑھا دیتا ہے۔ اس بیان کی روشنی میں گذشتہ روایتوں میں ذکر شدہ باتیں کس قدر روشن ہوجاتی ہیں، انسان میں جس قدر آمادگی پائی جاتی ہے اور جس قدر وہ اپنے کو انقلاب عظیم کے لئے تیار کرچکا ہے اسی اعتبار سے وہ فضیلت کے مرتبہ پر فائز ہے آمادگی کے مراتب کو دیکھتے ہوئے روایتوں میں فضیلت و عظمت کو بیان کیا گیا ہے

جس طرح سے ایک جنگ میں شرکت کرنے والوں کے مراتب مختلف ہیں کوئی وہ ہے جو رسول خدا (ص) کے ساتھ ان کے خیمے میں ہے، کوئی جنگ کے لئے آمادہ ہورہا ہے۔ کوئی میدانِ جنگ میں کھڑا ہے، کوئی تلوار چلا رہا ہے کوئی دشمن سے برسر پیکار ہے اور کوئی جنگ کرتے کرتے شھید ہوچکا ہے۔ انھیں مراتب کے اختلاف کی بنا پر جنگ میں شرکت کرنے والوں کے ثواب اور مراتب میں بھی اختلاف ہے۔

ہی صورت ان لوگوں کی بھی ہے جو ایک عظیم مصلح کے انتظار میں زندگی کے شب و روز گذار رہے ہیں، ایک عالمی انقلاب کی امید لگائے ہوئے ہیں جس کے بعد دنیا امن و امان، سکون و اطمینان کا گہوارہ ہوجائے گی۔ ظلم و جور و استبداد کی تاریکی کافور ہوجائے گی اب جس میں جتنی آمادگی، جذبۂ فدا کاری، شوق شھادت اور عزم و استقلال پایا جاتا ہے اسی اعتبار سے روایتیں اس کے شاملِ حال ہوتی جائیں گی۔

وہ شخص جو پیغمبر اسلام (ص) کے ہم راہ خیمے میں موجود ہے وہ کبھی بھی حالات سے غافل نہیں رہ سکتا، وہ ہم یشہ حالات پر نگاہ رکھے گا، ماحول کو باقاعدہ نظر میں رکھے گا، کیوں کہ وہ ایسی جگہ پر ہے جہاں غفلت اور لاپروائی سے دامن چھڑا کر یہاں آیا ہے۔ اسے اس بات کا احساس ہے کہ اس کی غفلت سے کیا نتائج برآمد ہوں گے، اس کی معمولی سی چوک کس قدر تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔

وہ شخص جو میدان جنگ میں برسرِ پیکار ہے اسے کس قدر ہوشیار ہونا چاہئے، معمولی سے معمولی چیز سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے، ہر لمحہ کو غنیمت شمار کرنا چاہئے۔ فتح حاصل کرنے کے لئے ہر امکانی کوشش کرنی چاہیئے، اگر یہی شخص غافل ہوجائے، فرصت سے استفادہ نہ کرے، لمحات کو غنیمت نہ شمار کرے اس کا لازمی نتیجہ ہزیمت اور شکست ہوگی۔

ہی صورت ان لوگوں کی ہے جو "انتظار" میں زندگی بسر کررہے ہیں اور منتظر کو مجاھد کا جو درجہ دیا گیا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ منتظر کو مجاھد کی طرح ہم یشہ ہوشیار رہنا چاہیئے۔ ماحول پر فتح حاصل کرنے کے لئے ہر امکانی کوشش کرنا چاہئے۔ فساد کی بساط تہ کرنے کے لئے ہم یشہ کوشاں رہنا چاہیئے۔ تاکہ انقلاب عظیم کے مقدمات فراہم ہوسکیں۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ انسان اسی وقت میدان جنگ میں ایک بہادر اور دلیر ثابت ہوگا جب باطنی اور روحی طور پر بھی اس میں شجاعت اور دلیری پائی جاتی ہو ورنہ اگر دل ہی بُزدل ہے تو تیغ بُراں بھی بیکار ہے، حقیقی انتظار کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے کو باطنی طور پر اس قدر آمادہ کرلے کہ وقتِ انقلاب اس کا شمار مجاھدین میں ہو۔

اس بیان کی روشنی میں "ہر سچّا منتظر" روایات میں اپنی جگہ ڈھونڈھ لے گا۔

قارئین خود ہی فیصلہ کرلیں کہ انتظار کا یہ مفہوم انسانی زندگی کے لئے ضروری ہے یا نہیں، اس کے ضمیر کی آواز ہے کہ نہیں۔؟

انتظار، یا آمادگی

اگر میں خود ہی ظالم اور ستم گر ہوں تو کیونکر ایسے انقلاب کا متمنی ہوسکتا ہوں جس میں ظالم اور ستم گر پہلے ہی حملے میں نیست و نابود ہوجائیں گے۔

اگر میں خود ہی گناھگار، بدکار اور بداخلاق ہوں تو کیونکر ایسے انقلاب کی آرزو

کرسکتا ہوں جس میں گناھگاروں کے لئے کوئی خاص گنجائش نہ ہو۔

وہ فوج جو آمادۂ جنگ ہے کیونکر اس کے سپاہی غافل اور بے پروا ہوسکتے ہیں، فوج ہم یشہ اس فکر میں رھتی ہے کہ معمولی سے معمولی کمزوری کو جلد از جلد دور کیا جائے اور ہم اری فوج میں کوئی بھی ضعف باقی نہ رہے اور جو ضعف ہیں ان کی فوراً اصلاح کرلی جائے۔

انسان کو جس چیز کا انتظار ہوتا ہے اسی اعتبار سے وہ خود کو آمادۂ استقبال کرتا ہے۔

اگر کسی مسافر کے آنے کا انتظار ہے تو ایک قسم کی تیاری ہوگی، اگر بہت ہی قریبی، اور جگری دوست آرہا ہے تو دوسرے قسم کی تیاریاں ہوں گی۔ اور اگر کسی طالب علم کو اپنے امتحان کا انتظار ہے تو اب اس کی تیاریاں ایک خاص قسم کی ہوں گی، اگر صحیح معنوں میں اسے امتحان کا انتظار ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے جسے امتحان کا انتظار ہو وہ گھر کی صفائی اور اس کے نظم و ضبط میں منہمک ہو اور جسے ایک مسافر کا انتظار ہو وہ اپنی کاپی، کتاب کی اصلاح اور ترتیب میں مصروف و مشغول ہو، اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم کس کا انتظار کر رہے ہیں اور کس انقلاب کی آس لگائے ہیں۔

انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو زمین کے کسی خطے سے مخصوص نہیں۔

انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس میں جغرافیائی حدود کی کوئی قید و شرط نہیں۔

انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو زندگی کے خاص شعبے میں محدود نہیں۔

انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اتنا عظیم انقلاب جس کی مثال تاریخ بشریت کے دامن میں نہ ہو۔

انقلاب۔ اور اتنا انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو سیاست کو ایک نیا رخ دے، جو علم و ھنر میں ایک تازہ روح پھونک دے۔

انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اقتصادی الجھنوں کو دور کردے

انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اخلاقی قدروں کو سرفراز کردے

اب دیکھنا یہ ہے کہ ایسے انقلاب کے انتظار میں زندگی گزارنے کے اثرات کیا ہیں۔ یہ بات پہلے ذکر کی جاچکی ہے کہ انتظار کے دو پہلو ہیں (۱) منفی (۲) مثبت

انتظار کی طرح انقلاب کے بھی دو پہلو ہیں: (۱) منفی (۲) مثبت

۱) منفی: موجودہ حالت کو ختم کرنا، فساد و تباہی کو ان کی آخری حد تک پہونچانا۔

۲) مثبت: ایک جدید اور زندگی بخش نظام کو پرانے اور فرسودہ نظام کا جانشین قرار دینا۔

اب جو لوگ واقعاً منتظر ہیں اور صحیح معنوں میں ایک "عالمی انقلاب" کی اُمّید لگائے ہوئے ہیں، صرف زبانی اور خیالی جمع خرچ میں مبتلا نہیں ہیں، تو ان لوگوں میں کچھ صفات ضرور پائے جائیں گے ان میں سے چند صفتیں نذر قارئین ہیں۔

۱) انفرادی اصلاح ۔ اِصلاحِ نفس

اس عظیم انقلاب کے لئے ایسے افراد کی ضرورت ہے جن کا ذہن عالمی اصلاحات کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ضرورت ہے ایسے افراد کی جو میدان علم کے شھسوار ہوں، افکار میں گہرائی ہو، دل میں وسعت ہو کہ دشمن کو بھی جگہ مل سکے، ضمیر زندہ اور بیدار ہو، اخلاق و مروت کے پرستار ہوں، ایسے افراد کی ضرورت ہے، جو تنگ نظر نہ ہوں، کج فکر اور کج خلق نہ ہوں، کینہ و حسد سے دور ہوں، اختلاف کی خانماں سوز آگ کو صلح و صفا و اخوت کے پانی سے بُجھا چکے ہوں۔

کیوں ۔۔۔ اس لئے کہ اگر کوتاہ فکر ہوں گے تو عالمی اصلاحات کو قبول کرنے سے انکار کردیں گے یا پھر اسے ایک دشوار گذار مرحلہ تصوّر کریں گے، اگر دل میں وسعت اور قلب میں محبّت نہ ہوگی، تو اپنے علاوہ دوسرے کے فائدے کو پسند نہیں کریں گے اگر آپس میں نفاق اور اختلاف ہوگا تو ایک عالمی حکومت سے تعاون نہیں کریں گے، اور دنیا میں افراتفری پھیلائیں گے۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ انتظار کرنے والے کی حیثیت صرف ایک تماشہ دیکھنے والے کی حیثیت ہو، اور اس کو انقلاب سے کوئی سروکار نہ ہو، یا تو وہ اس عالمی انقلاب کا موافق ہوگا یا پھر مخالف۔ کسی تیسری صورت کی گنجائش نہیں ہے۔

بیدار ضمیر اور روشن فکر شخص جب کبھی اس انقلاب کے بارے میں فکر کرے گا اور اس کے نتائج پر نظر رکھے گا تو کبھی وہ مخالفین کی صف میں نہ ہوگا، کیونکہ اس انقلاب کے اصول اس قدر فطرت اور ضمیر کے نزدیک ہیں کہ ہر وہ شخص جس کے پہلو میں انسان کا دل ہے وہ ان اصولوں کو ضرور قبول کرے گا۔ مخالفت صرف وہی کریں گے جو ظلم و فساد کے دلدادہ ہوں، یا مظالم ڈھاتے ڈھاتے ظلم کرنا ان کی فطرت ثانیہ بن گئی ہو۔

جب انسان اس "عالمی انقلاب" کے طرفداروں میں ہوگا اور ہر انصاف پسند طرفدار ہوگا، ان لوگوں کے لئے ناگزیر ہے کہ انفرادی طور پر اپنی اصلاح کرلیں اور نیک اعمال بجالانے کے خوگر بنیں، عمل سے زیادہ نیت میں پاکیزگی ہو، تقویٰ دل کی گہرائیوں میں جاگزیں ہو علم و دانش سے سرشار ہو۔

اگر ہم خود فکری یا عملی طور پر ناپاک ہیں تو کیونکر ایسے انقلاب کے متمنی ہیں جس کی پہلی ہی لپیٹ ایسے لوگوں کو نگل جائے گی۔ اگر ہم خود ظالم اور ستم گر ہیں تو کیونکر ایسے انقلاب کا انتظار کررہے ہیں جس میں ظالم اور ستم گر کے لئے کوئی جگہ نہ ہوگی۔

اگر ہم خود مفسد ہیں اور فساد پھیلانے میں لگے رھتے ہیں تو کیوں ایسے انقلاب کی امید میں زندگی کے شب و روز گذار رہے ہیں جس میں مفسد اور فساد پھیلانے والے نیست و نابود ہوجائیں گے۔

خود فیصلہ کرلیجئے کیا اس عالمی انقلاب کا انتظار انسان کو باعمل اور باکردار بنا دینے کے لئے کافی نہیں ہے۔؟ یہ انتظار کی مدّت کیا اس بات کی مہلت نہیں ہے کہ انسان آمد انقلاب سے پہلے خود اپنی اصلاح کرلے اور خود کو انقلاب کے لئے آمادہ کرلے۔

وہ فوج جو ایک قوم اور ملّت بلکہ ایک ملک کو ظلم و ستم سے آزادی دلانا چاھتی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہم یشہ مستعد رہے، اپنے اسلحوں کو پرکھ لے، اگر کوئی اسلحہ خراب ہوگیا ہے یا زنگ آلود ہوگیا ہے تو اس کی فوراً اصلاح کرلے، حفاظتی اقدام میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھے، اپنی چوکیوں کو مضبوط کرلے، اور جو مضبوط ہیں انھیں مضبوط تر بنالے سپاہیوں کا شمار کرلے، ان کی قوت آزمالے، ان کے جذبات کا جائزہ لے لے، جن کی ہم تیں پست ہوں ان میں ایک تازہ روح پھونکی جائے۔ ہر ایک کو اس کی ہم ت اور جذبہ کے مطابق کام سونپا جائے۔ اگر فوج ان خصوصیات کی حامل ہے تب تو اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگی، ورنہ اس کے تمام دعوے جھوٹے اور تمام منصوبے محض خواب و خیال ہوں گے۔

اسی طرح وہ لوگ جو اپنے کو حضرت امام زمانہ علیہ السلام کا منتظر کہتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں کہ ایک امام غائب کے انتظار میں زندگی بسر کر رہے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے کو اس عالمی انقلاب کے لئے آمادہ کریں۔ اپنے نفوس کا خود امتحان لے لیں، اپنے جذبات کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھ لیں، کیونکہ الخ

ایک قوم جو ہم یشہ اپنی اصلاح میں منہمک ہو، نہایت شوق و ولولے کے ساتھ نیک اعمال بجا لارہی ہو، سچے جذبات اور خلوص نیت کے ساتھ کردار کے اعلیٰ مراتب طے کر رہی ہو وہ قوم اور سماج کس قدر عالی اور بلند ہوگا، وہ ماحول کس قدر روح افزا اور وہ فضا کس قدر انسانیت ساز ہوگی، وہ صبح کس قدر تابناک ہوگی جس میں ایک ایسی عظیم قوم جنم لے گی۔ وہ قوم کوئی اور نہیں ہوگی بلکہ ہم اور آپ ہی ہوں گے بشرطیکہ متوجہ ہوجائیں اور اصلاحات میں لگ جائیں۔

یہ ہیں اس انتظار کے معنی جس کے بارے میں روایتیں وارد ہوئی ہیں، اور یہ ہے وہ "سچّا منتظر" جس کو روایت میں "مجاھد" اور "شھید" کا درجہ دیا گیا ہے۔

ضرورت ہے ایسے افراد کی جن کے ارادے کے سامنے مصائب کا طوفان خود چکر میں آجائے، جن کے عزم کے سامنے پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں، جن کی امید کے سامنے مایوسی کی چٹانیں پاش پاش ہوجائیں۔ فکر اس قدر وسیع ہوکہ آسمان اور زمین کی وسعتیں کم ہوں، اخلاق اس قدر بلند ہوکہ دشمن بھی کلمہ پڑھیں۔ کردار اتنا مستحکم ہوکہ ملائک بھی سجدہ ریز ہوں۔

۲) سماج کی اصلاح

سچّا منتظر وہ ہے جو صرف اپنی اصلاح پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسروں کی بھی اصلاح کی فکر کرے۔

کیونکہ جس انقلاب کا انتظار ہم کررہے ہیں، اس میں صرف جزوی اصلاحات نہیں ہوں گی بلکہ سماج کے سبھی افراد اس میں برابر کے شریک ہوں گے، لھذا سب مل کر کوشش کریں، ایک دوسرے کے حالات سے آگاہ رہیں، ایک دوسرے کے شریک رہیں اور شانے سے شانہ ملاتے ہوئے انقلاب کی راہ پر گامزن رہیں۔

جب کام سب مل کر انجام دے رہے ہوں تو اس میں کوئی ایک دوسرے سے غافل نہیں رہ سکتا۔ بلکہ ہر ایک کا فریضہ ہے کہ دوسروں کا بھی خیال رکھے۔ اطراف و جوانب کا بھی علم رکھتا ہو، جہاں پر کوئی معمولی سی کمزوری نظر آئے، فوراً اس کی اصلاح کرے۔ کوئی کمی ہوتو فوراً اس کو پورا کیا جائے۔

اسی بناء پر جہاں ہر انتظار کرنے والے کا یہ فریضہ ہے کہ خود کی اصلاح کرے، کردار کے جوھر سے آراستہ ہو وھاں اس کا یہ بھی فریضہ ہے کہ دوسروں کی بھی اصلاح کرے، سماج میں اخلاقی قدروں کو اجاگر کرے۔

صحیح انتظار کرنے کا یہ دوسرا فلسفہ ہے، ان باتوں کو پیش نظر رکھ کر روایات کا مطالعہ کیا جائے تو معنی کس قدر صاف اور روشن ہوجاتے ہیں۔ منتظر کو کہیں مجاھد کا درجہ، کہیں راہ خدا میں شمشیر بکف کا درجہ، اور کہیں پر فائز بہ شھادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ بدیہی بات ہے اپنی اصلاح یا دوسروں کی اصلاح، انفرادی زندگی کے ساتھ حیات اجتماعی کو بھی سنوارنا کس قدر دشوار گذار مرحلہ ہے۔ ان مراحل میں وہی ثابت قدم رہ سکتا ہے جو عزم و عمل کا شاھکار ہو، جس کے قدم ثبات و استقلال کی آپ اپنی مثال ہوں۔

ایک اعتراض

دنیا کے بارے میں ہم اری معلومات محدود ہیں، اور نہ ہم یں موجودہ حکم فرما نظام کی حقیقت معلوم ہے اور نہ ہم اس کے نتائج سے باخبر ہیں، اس بناء پر ہم خیال کرتے ہیں کہ ظلم و فساد میں ابھی کچھ کمی ہے۔ اگر صحیح طور سے دیکھا جائے تو آج بھی دنیا فساد سے بھری ہوئی ہے آج بھی دنیا ظلم و ستم کی آما جگاہ بنی ہوئی ہے"۔

دنیا میں کچھ ایسے بھی موجودہ ہیں جو ہم یشہ اس فکر میں رھتے ہیں کہ کس طرح ایک اصلاحی بات سے بھی فساد کا پہلو نکالا جائے۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہر چیز میں اس کا منفی پہلو اُبھارا جائے، اصلاح کو بھی فساد کا جامہ پہنا دیا جائے، تاکہ ان کی دُکان ٹھپ نہ ہونے پائے۔ زیر بحث مسئلہ بھی ان لوگوں کی سازش سے محفوظ نہ رہ سکا۔

ان لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت مھدی علیہ السلام کے ظھور میں شرط یہ ہے کہ آپ اس وقت ظھور فرمائیں گے جب دنیا ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی، دور دور تک کہیں اچّھائیوں کا نام تک نہ ہوگا، نیکی کی شمع کوسوں دور بھی نظر نہ آتی ہوگی۔

اگر ہم لوگ اصلاح کے راستے پر قدم بڑھائیں گے، ظلم و جور کو مٹانے کی کوشش میں لگے رہیں گے تو حضرت کے ظھور میں خواہ مخواہ تاخیر ہوگی، لھذا کیوں نہ ہم لوگ مل کر فساد کی آگ کو اور بھڑکادیں، ظلم و ستم کے شعلوں کی لپک کو اور تیز کردیں، استبداد کی بھٹی کو کیوں نہ اور گرم کردیں، جو کچھ تھوڑی بہت کسر رہ گئی ہے، اسے جلد از جلد پورا کریں تاکہ حضرت کا ظھور جلد ہوسکے۔

اسی اعتراض کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے:

وہ حضرات جو ظھور حضرت مھدی علیہ السلام کے انتظار میں زندگی بسر کر رہے ہیں، انھیں یہ انتظار کوئی تقویت نہیں پہونچاتا بلکہ رہی سہی قوت ارادی کو بھی چھین لیتا ہے گنے چُنے جو نیک لوگ ہیں انھیں بھی یہ انتظار نیک باقی نہیں رھنے دیتا۔ فقر و فاقہ کی زندگی میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے، کیونکہ جو لوگ کم مایہ اور فقیر ہیں وہ اس امید میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں کہ جب حضرت کا ظہور ہوگا، اس وقت ہم اری حالت "خود بخود" بدل جائے گی، فقر و فاقہ دور ہوجائے گا، زندگی کا ایک حصہ تو گذر چکا ہے بقیہ بھی اسی امید میں گذر جائے گا۔ سرمایہ داروں کو تو چاندی ہوجائے گی۔ وہ اسی بہانے اپنی تجوریاں بھرتے چلے جائیں گے، لوگوں کو اپنا دست نگر بنانے میں کامیاب ہوتے رہیں گے۔ یہ عقیدہ انسانی زندگی کے لئے آبِ حیات ہے یا صحیح معنوں میں زھر ھلاہل۔؟

یہ ہے وہ اعتراض جسے مخالفین کافی آب و تاب سے بیان کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے

خود دل سے اس اعتراض کو قبول نہ کرتے ہوں، مگر اپنے ناپاک مقاصد کے لئے، اپنی شخصیت کو چھپانے کے لئے اس اعتراض کو "بطور نقاب" استعمال کرتے ہوں۔

جو بھی صورت حال ہو، اس اعتراض کے جواب کے لئے ان باتوں کی طرف توجہ فرمایئے:

۱۔ صف بندی اور تشخیص

اس عالمی انقلاب میں یا تو لوگ موافقین کی فہرست میں ملیں گے یا پھر مخالفین کی فہرست میں، تماشائی کی حیثیت کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ دنیا میں جتنے بھی انقلاب آتے ہیں سب کی صورت حال یہی ہے۔ کیونکہ دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے ہیں وہ دو صورتوں سے خالی نہیں ہیں۔ انقلاب سماج کے لئے فائدہ مند ہوگا یا فائدہ مند نہیں ہوگا اگر انقلاب سماج کے لئے فائدہ مند ہے تو ہر آدمی کا فریضہ ہے کہ اس میں شرکت کرے، اگر یہ انقلاب سماج کے لئے نقصان کا باعث ہے تو سب کا فریضہ ہے کہ مل کر اس کی مخالفت کریں اور اس کو کامیاب نہ ہونے دیں۔ یہ بات دور از عقل ہے کہ انقلاب تو آئے لیکن سماج کے لئے نہ فائدہ مند ہو نہ باعثِ نقصان۔

جب یہ بات تو ہم یں چاہیئے کہ ہم ابھی سے یہ طے کرلیں کہ ہم یں کس صف میں رہنا ہے ہم اپنے کو خود آزمالیں کہ ہم یں کس کا ساتھ دینا ہے۔

اگر آج ہم فساد کی آگ کو ہوا دے رہے ہیں تو کل کیونکر اصلاح کرنے والوں کی صف میں آجائیں گے اور فساد کو آگ بجھا رہے ہوں۔؟ اگر آج ہم ارا دامن ظلم و جور سے آلودہ ہوگا تو کل یقیناً ہم ارا شمار مخالفین کی فہرست میں ہوگا۔ کیونکہ یہ بات تو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مھدی علیہ السلام کے ظھور کے بعد جو انقلاب آئے گا اس میں ظلم و جور کا نشان تک باقی نہ رہے گا۔ ہم کو ان ظالموں کی صف میں اپنے کو شمار کرنا چاہئے جن کی گردنوں کا بوسہ عدل و انصاف کی شمشیر لے گی۔ فساد پھیلانا تو بالکل ایسا ہی ہے کہ ہم ایک ایسی آگ بھڑکائیں جس کا پہلا شعلہ ہم یں ہی خاکستر کردے۔

اگر اس اعتراض کو قبول بھی کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم جس قدر اپنے اعمال بد کے ذریعہ حضرت مھدی علیہ السلام کے ظھور کو نزدیک کریں گے اتنا ہی ہم اپنی نابودی اور فنا سے بھی قریب تر ہوجائیں گے، اپنے ہی ہاتھوں اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لیں گے۔

اگر ہم باقی رہنا چاھتے ہیں اور اس عالمی انقلاب کے نتائج سے لطف اندوز اور بہرہ مند ہونا چاھتے ہیں تو اپنے دامن کو آلودگیوں سے دور رکھیں، ظلم و جور سے تمام رشتوں کو توڑدیں، ضلالت و گمراہی کے سمندر سے نکل کر ہدایت کے ساحل پر آجائیں۔

۲۔ مقصد آمادگی ہے، فساد نہیں

جو چیز حضرت مھدی علیہ السلام کے ظھور کو کسی حد تک نزدیک کرسکتی ہے وہ ہے وہ ظلم وجور و فساد نہیں ہے بلکہ ہم اری آمادگی ہے، ہم ارا اشتیاق ہے۔ کیا ہم یں حضرت کا اسی طرح انتظار ہے جس طرح سے ایک پیاسے کو پانی کا۔

ھاں یہ اور بات ہے، جس قدر ظلم و جور، فساد اور بربادی میں اضافہ ہوتا جائے گا اتنا ہی لوگ موجودہ نظام اور ضابطۂ حیات سے عاجز ہوتے جائیں گے۔ رفتہ رفتہ لوگوں کو اس بات کا یقین ہوتا جائے گا کہ موجودہ ضابطۂ حیات میں سے کوئی ایک بھی ہم اری مشکلات کا حل پیش نہیں کرسکتا بلکہ جتنے بھی نظام رائج ہیں وہ سب کے سب ہم اری مشکلات میں اضافہ تو کرسکتے ہیں مگر کمی نہیں کرسکتے۔ یہی یقین اس بات کا سبب ہوگا کہ لوگ ایک ایسے نظام کے منتظر ہوں گے جو واقعاً ان کی مشکلات کا حل پیش کرسکتا ہے جس قدر یہ یقین مستحکم ہوتا جائے گا، اتنا ہی انسان کا اشتیاق بڑھتا جائے گا۔

دھیرے دھیرے یہ بات بھی روشن ہوتی جائے گی اور لوگوں کو یقین ہوتا جائے گا کہ دنیا کی جغرافیائی تقسیم مشکلات کا سر چشمہ ہے۔ یہی جغرافیائی تقسیم ہے جس کی بنا پر بے پناہ سرمایہ اسلحہ سازی میں خرچ ہورہا ہے، انسان کی گاڑھی کمائی کے پیسے سے خود اس کی تباہی کے اسباب فراہم کئے جارہے ہیں۔ جغرافیائی تقسیم اور حد بندی کا نتیجہ ہے جس کی بنا پر ہر قوی اور طاقت ور ملک ضعیف اور فقیر ملک کو اپنے قبضہ میں کرلیتا ہے۔ ان کے پاس جو خدا داد نعمتیں ہیں ان کو ہتھیانے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ یہ جغرافیائی تقسیم اور حد بندی کا نتیجہ ہے جس کی بنا پر ملکوں میں آپس میں ایک حسد اور تعصب پایا جاتا ہے۔ یہی وہ باتیں ہیں جو انسانی مشکلات کا سرچشمہ ہیں، جس قدر یہ حققیت انسانی ذہن میں اترتی جائے گی اتنا ہی انسان ایک ایسی حکومت کی فکر میں ہوگا، جس میں یہ قصّہ ہی نہ ہو، جہاں پر کوئی حد بندی نہ ہو۔ اگر حد بندی ہو تو صرف انسانیت اور آدمیت کی۔ جب ایک عالمی حکومت کا قیام ہوگا تو وہ بے پناہ سرمایہ جو اسلحہ کے اوپر خرچ ہورہا ہے، وہ انسان کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ ہوگا، اب نہ حسد کا سوال ہوگا اور نہ رقابت کا، بلکہ سب مل کر شانے سے شانہ ملاکر ہاتھ میں ہاتھ دے کر، عدل و انصاف، صدق و صفا، برادری، اخلاص و ایثار، اخلاق و کردار، مروت و شرافت کی بنیاد پر قصر آدمیت و انسانیت کو تعمیر کریں گے۔

۳۔ تاریکی کا عُروج

دنیا تو مدت ہوئی ظلم و جور سے بھر چکی ہے۔ یہ جنگیں یہ قتل و غارت، لوٹ مار خوں ریزیاں اس بات کی نشانی نہیں ہیں کہ دنیا ظلم و جور سے بھری ہوئی ہے۔ یہ کینہ و حسد ایک دوسرے کو تباہ و برباد کرنے کے لئے ایک سے ایک اسلحہ بنانا، طاقت کے گہم نڈ میں غریبوں اور کمزوروں کو کچل کے رکھ دینا، دنیا سے اخلاقی قدروں کو مٹ جانا جہاں کردار کی بھیک مانگے سے نہ ملتی ہو، جہاں شرم و حیا نام کی کوئی چیز نہ ہو تو اب بھی ظلم و جور میں کوئی کمی باقی رہ جاتی ہے۔؟

ھاں جس چیز کی کمی ہے وہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک موجودہ نظام ھائے حکومت کی حقیقتوں سے واقف نہیں ہوئے ہیں، ابھی ہم ان ضابطۂ حیات کے نتائج سے باقاعدہ آگاہ نہیں ہوئے۔ ابھی تک یہ بات بالکل روشن نہیں ہوئی ہے کہ واقعاً ہم اری مشکلات کا سرچشمہ کیا ہے، جس کی بناء پر ہم اپنے وجود میں اس جذبے کا احساس نہیں کرتے جو ایک پیاسے کو پانی کا ہوتا ہے، ایک مریض کو شفا کی آرزو۔

جس قدر ہم ارے جذبات میں اضافہ ہوتا جائے گا، جتنا ہم میں آمادگی پیدا ہوتی جائے گی، جس قدر حضرت (ع) کے ظھور کی ضرورت اور عالمی انقلاب کا احساس ہوتا جائے گا، اتنا ہی حضرت کا ظھور نزدیک ہوتا جائے گا۔

۴۔ سچّا منتظر کون۔؟

انتظار کے اثرات و فوائد میں سے دو کا ذکر کیا جاچکا ہے۔ ۱ انفرادی اصلاح یا اصلاح نفس ۲ سماج کی اصلاح۔

انتظار کے اثرات صرف انھیں دو میں منحصر ہیں بلکہ اور بھی ہیں، ان میں سے ایک اور قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔

جس وقت فساد وباکی طرح عام ہوجائے گا، ہر طرف فساد ہی فساد نظر آئے، اکثریت کا دامن فساد سے آلودہ ہو، ایسے ماحول میں اپنے دامن کو فساد سے محفوظ رکھا ایک سچّے اور حقیقی منتظر کا کام ہے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جس وقت نیک اور پاک سیرت افراد روحی کش مکش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کبھی بھی یہ خیال ذہنوں میں کروٹیں لینے لگتا ہے کہ اب اصلاح کی کوئی امید نہیں ہے۔ یہ مایوسی کردار کے لئے ایک مہلک زھر ثابت ہوسکتی ہے۔ انسان یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ اب اصلاح کی کوئی امید نہیں ہے، اب حالات سدھرنے والے نہیں ہیں، اب کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، بلکہ حالات بد سے بدتر ہوجائیں گے، ایسی صورت میں اگر ہم اپنے دامن کردار کو بچائے بھی رکھیں تو اس کا کیا فائدہ جب کہ اکثریت کا دامن کردار گناھوں سے آلودہ ہے۔ اب تو زمانہ ایسا آگیا کہ بس "خواہی نشوید رسوا ہم رنگ جماعت باش"۔۔ اگر رسوائی اور بدنامی سے بچنا چاھتے ہو تو جماعت کے ہم رنگ ہوجاؤ۔

ھاں! اگر کوئی چیز ان لوگوں کو آلودہ ہونے سے محفوظ رکھ سکتی ہے اور ان کے دامن کردار کی حفاظت کرسکتی ہے تو وہ صرف یہی عقیدہ کہ ایک دن آئے گا جب حضرت مھدی سلام اللہ علیہ کا ظھور ہوگا اور دنیا کی اصلاح ہوگی جیسا کہ رسول گرامی (ص) کا ارشاد ہے: "اگر آنے میں صرف ایک ہی دن باقی رہ جائے گا تو خداوند عالم اس دن کو اس قدر طولانی کردے گا کہ حضرت مھدی سلام اللہ علیہ کا ظھور ہوجائے"۔(۱۱) جب ایک دن اصلاح ہوگی اور ضرور ہوگی تو کیوں نہ ہم اپنے دامن کردار کو محفوظ رکھیں، دوسروں کی اصلاح کی فکر کیوں نہ کریں۔ اس سعی و کوشش کی بنا پر ہم اس لائق ہوسکیں گے کہ وقت انقلاب موافقین کی صف میں ہوں اور ہم ارا بھی شمار حضرت کے اعوان و انصار میں ہو۔

تعلیماتِ اسلامی میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ سب سے عظیم گناہ اگر کوئی چیز ہے تو وہ "رحمت الٰہی سے مایوسی ہے"۔ اس کی وجہ بھی صاف واضح ہے۔ جب انسان رحمتِ الٰہی سے مایوسی ہوجائے گا تو کبھی بھی اصلاح کی فکر نہیں کرے گا۔ وہ یہی خیال کرے گا کہ جب کافی عمر گناہ کرتے گزری تو اب چند دنوں کے لئے گناہ سے کنارہ کشی اختیار کرنے سے کیا فائدہ۔ جب ہم گناھوں کے بوجھ سے دبے ہوئے ہیں تو کیا ایک اور کیا دس۔ اب تو پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے، ساری دنیا میں بدنامی ہوچکی، اب کاھے کی پرواہ، اپنے اعمال کے ذریعہ دوزخ خرید چکا ہوں۔ جب آتش جہنم میں جلنا ہے تو باقاعدہ جلیں گے اب ڈر کس بات کا۔

اگر انسان کی ساری عمر گناہ کرتے گزری ہو، اور اسے اس بات کا یقین ہو کہ میرے گناہ یقیناً بہت زیادہ ہیں، لیکن رحمتِ الٰہی اس سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ میرے لاکھ گناہ سھی مگر اس کی رحمت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، اس کی ذات سے ہر وقت امید ہے، اگر میں سدھر جاؤں تو وہ آج بھی مجھے بخش سکتا ہے۔ اگر میں اپنے کئے پر نادم ہوجاؤں تو اس کی رحمت شامل حال ہوسکتی ہے۔ یہی وہ تصور اور عقیدہ ہے جو انسان کی زندگی میں ایک نمایاں فرق پیدا کرسکتا ہے، ایک گناھگار کو پاک و پاکیزہ بنا سکتا ہے۔

اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ امید انسانی زندگی کے لئے بہت ضروری چیز ہے۔ امید کردار سازی میں ایک مخصوص درجہ رکھتی ہے۔ اصلاح کی امید فساد کے سمندر میں غرق ہونے سے بچا لیتی ہے، اصلاح کی امید انسانی کردار کے لئے ایک مستحکم سپر ہے۔

جس قدر دنیا فاسد ہوتی جائے گی اسی اعتبار سے حضرت کے ظھور کی امید میں اضافہ ہوتا جائے گا، جس قدر یہ امید بڑھتی جائے گی اسی اعتبار سے انفرادی اور اجتماعی اصلاح ہوتی جائے گی۔ ایک صالح اور با کردار اقلیت کبھی بھی فسادی اکثریت کے سمندر میں غرق نہیں ہوگی۔

یہ ہے انتظار کا وہ فائدہ جو کردار کو فاسد ہونے سے محفوظ رکھتا ہے، ایک سچّے اور با کردار منتظر کا دامنِ عفت گناھوں سے آلودہ نہیں ہوگا۔

مختصر یہ کہ

اگر انتظار کو صحیح معنوں میں پیش کیا جائے تو انتظار انسان کی زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اخلاقی قدروں کو اجاگر رکھنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ انتظار بے حس انسان کو ذمہ دار بنا دیتا ہے۔ بے ارادہ انسانوں کو پہاڑوں جیسا عزم و استقلال عطا کرتا ہے۔

ھاں اگر انتظار کے مفھوم کو بدل دیا جائے، اس کی غلط تفسیر کی جائے تو اس صورت میں انتظار ضرور ایک بے فائدہ چیز ہوگی۔

انتظار کبھی بھی انسان کو بے عمل نہیں بناتا۔ اور نہ بد اعمالی کی دعوت دیتا ہے، اس بات کی زندہ دلیل وہ روایت ہے جو اس آیتہ کریمہ کے ذیل میں وارد ہوئی ہے:وَعدَ اللهُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَ عَمِلُوۡا الصّٰلِحٰتِ لِیَسۡتَخۡلِفَنَّهُمۡ فی الارض "وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور عمل صالح بجالاتے ہیں ان سے خدا کا یہ وعدہ ہے کہ خدا ان کو روئے زمین پر حکومت عطا کرے گا۔" امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اس آیت سے مرادالقائم واصحابه (۱۱) اس سے مراد حضرت مھدی (ع) اور ان کے اصحاب ہیں۔

ایک دوسری روایت میں ہےنزلت فی المهدی (۱۲) یہ آیتہ کریمہ حضرت مھدی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ اس آیتہ کریمہ میں جو حضرت کے اصحاب کی صفت بیان کی گئی ہے ان میں ایک ایمان ہے اور دوسرا عمل صالح يقیناً اس عالمی انقلاب کے لئے ایسے افراد کی ضرورت ہے جن کے ایمان پختہ ہوں، عقائد مستحکم ہوں، عقیدے کی ہر منزل کامل ہو، عمل کے میدان میں مرد میداں ہوں۔ جو لوگ ابھی انتظار کی گھڑیاں گذار رہے ہیں، ان میں گزشتہ باتوں کا پایا جانا ضروری ہے اور جن میں یہ صفات موجود ہوں گے وہی سچّے منتظر ہوں گے۔

وہ لوگ جن کے ایمان کامل نہیں ہیں یا عمل صالح میں کورے ہیں تو وہ ظھور سے پہلے اپنی اصلاح کرلیں ورنہ بغیر اصلاح کئے ہوئے اگر کسی چیز کا انتظار کر رہے ہیں تو وہ بس اپنی ہی فنا اور نابودی ہے۔

انتظار کا حق اسے ہے جس کا دل ایمان سے لبریز ہو، جو عزم و استقلال کا مالک ہو۔ وہ کیا انتظار کرے گا جو ہم یشہ اونگھا کرتا ہے۔

سچا منتظر وہ ہے جو ہم یشہ اپنی اصلاح میں لگا رہتا ہے اور اسی کے ساتھ سماجی اصلاح کی فکر میں غرق رہتا ہے اجتماع کی فلاح و بہبود میں ہم یشہ کوشاں رہتا ہے۔

ھاں یہ ہے سچا منتظر اور یہ ہیں انتظار کے حقیقی معنی۔

____________________

۱۰. بحار الانوار، جلد۵۱ ص۷۴ طبع جدید

۱۱. بحار الانوار ج۵۱، ص۵۸ طبع جدید

انتظار

سارے کے سارے مسلمان ایک ایسے "مصلح" کے انتظار میں زندگی کے رات دن گذارے رہے ہیں جس کی خصوصیات یہ ہیں:۔

(۱) عدل و انصاف کی بنیاد پر عالم بشریت کی قیادت کرنا، ظلم و جور، استبداد و فساد کی بساط ہم یشہ کے لئے تہ کرنا۔

(۲) مساوات و برادری کا پرچار کرنا۔

(۳) ایمان و اخلاق، اخلاص و محبّت کی تعلیم دینا۔

(۴) ایک علمی انقلاب لانا۔

(۵) انسانیت کو ایک حیاتِ جدید سے آگاہ کرانا۔

(۶) ہر قسم کی غلامی کا خاتمہ کرنا۔

اس عظیم مصلح کا اسم مبارک مھدی (عج) ہے، پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد میں ہے۔

اس کتابچے کی تالیف کا مقصد یہ نہیں ہے کہ گزشتہ خصوصیات پر تفصیلی اور سیر حاصل بحث کی جائے، کیونکہ ہر ایک خصوصیت ایسی ہے جس کے لئے ایک مکمل کتاب کی ضرورت ہے۔

مقصد یہ ہے کہ "انتظار" کے اثرات کو دیکھا جائے اور یہ پہچانا جاسکے کہ صحیح معنوں میں منتظر کون ہے اور صرف زبانی دعویٰ کرنے والے کون ہیں، اسلامی روایات و احادیث جو انتظار کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں، یہ انتظار کو ایک عظیم عبادت کیوں شمار کیا جاتا ہے۔؟

غلط فیصلے

سب سے پہلے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ انتطار کا عقیدہ، کیا ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے یا یہ عقیدہ شکست خوردہ انسانوں کی فکر کا نتیجہ ہے۔؟ یا یوں کہا جائے کہ اس عقیدہ کا تعلق انسانی فطرت سے ہے، یا یہ عقیدہ انسانوں کے اوپر لادا گیا ہے۔؟

بعض مستشرقین کا اس بات پر اصرار ہے کہ اس عقیدے کا تعلق انسانی فطرت سے نہیں ہے بلکہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کی پیداوار ہے۔

بعض مغرب زدہ ذہنیتوں کا نظریہ ہے کہ یہ عقیدہ خالص اسلامی عقیدہ نہیں ہے بلکہ یہودی اور عیسائی طرز فکر سے حاصل کیا گیا ہے۔

مادّہ پرست اشخاص کا کہنا ہے ک اس عقیدے کی اصل و اساس اقتصادیات سے ہے۔ صرف فقیروں، مجبوروں، ناداروں اور کمزوروں کو بہلانے کے لئے یہ عقیدہ وجود میں لایا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے ک اس عقیدے کا تعلق انسانی فطرت سے ہے اور یہ ایک خالصِ اسلامی نظریہ ہے، دوسرے نظریات کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس عقیدہ کے بارے میں اظھار رائے کیا ہے، اگر ان کو متعصب اور منافع پرست نہ کہا جاسکے تو یہ بات بہر حال مانی ہوئی ہے کہ ان لوگوں کی معلومات اسلامی مسائل کے بارے میں بہت زیادہ محدود ہیں۔ ان محدود معلومات کی بنا پر یہ عقیدہ قائم کرلیا ہے کہ ہم نے سب کچھ سمجھ لیا ہے اور اپنے کو اس بات کا مستحق قرار دے لیتے ہیں کہ اسلامی مسائل کے بارے میں اظھار نظر کریں، اس کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جسے آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ بدیہی بات ہے کہ محدود معلومات کی بنیادوں پر ایک آخری نظریہ قائم کرلینا کہاں کی عقلمندی ہے، آخری فیصلہ کرنے کا حق صرف اس کو ہے جو مسئلے کے اطراف و جوانب سے باقاعدہ واقف ہو۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم یں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اس عقیدے کی بنیاد کیا ہے، ہم ارا سوال تو صرف یہ ہے کہ اس عقیدے کا فائدہ کیا ہے؟ اور اس کے اثرات کیا ہیں؟

ہم نے جو دیکھا وہ یہ ہے کہ جو لوگ اس عقیدے کو دل سے لگائے ہوئے ہیں وہ ہم یشہ رنج و محن کا شکار ہیں اور ان کی زندگیاں مصائب برداشت کرتے گذرتی ہیں ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے بھاگتے ہیں، فساد کے مقابل ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رھتے ہیں اور اس کی سعی و کوشش بھی نہیں کرتے کہ فساد ختم بھی ہوسکتا ہے ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا جاسکتا ہے، ایسے عقیدے رکھنے والوں کو ایسی کوئی فکر ہی نہیں۔

اس عقیدے کی بنیاد جو بھی ہو مگر اس کے فوائد و اثرات خوش آیند نہیں ہیں یہ عقیدہ انسان کو اور زیادہ کاہل بنا دیتا ہے۔

اگر ایک دانش ور کسی مسئلے میں فیصلہ کرنا چاھتا ہے اور صحیح نظریہ قائم کرنا چاھتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کے اطراف و جوانب کا باقاعدہ مطالعہ کرے، اس کے بعد ہی کوئی صحیح نظریہ قائم ہوسکتا ہے۔

آئیے پہلے ہم خود اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں کہ اس عقیدے کی بنیاد کیا ہے؟ کیا واقعاً یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کے افکار کا نتیجہ ہے؟ یا اس کی بنیاد اقتصادیات پر ہے؟ یا پھر اس کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے؟ اس عقیدے کے اثرات مفید ہیں یا نقصان رساں؟۔

انتظار اور فطرت

بعض لوگوں کا قول ہے کہ اس عقیدے کی بنیاد فطرت پر نہیں ہے بلکہ انسان کے افکار پریشاں کا نتیجہ ہے اس کے باوجود اس عقیدے کی اصل و اساس انسانی فطرت ہے، اس نظریے کی تعمیر فطرت کی بنیادوں پر ہوئی ہے۔

انسان دو راستوں سے اس عقیدے تک پہونچتا ہے۔ ایک اس کی اپنی فطرت ہے اور دوسرے اس کی عقل۔ فطرت و عقل دونوں ہی انسان کو اس نظریے کی دعوت دیتے ہیں۔

انسان فطری طور پر کمال کا خواھاں ہے، جس طرح سے فطری طور پر اس میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ جن چیزوں کو نہیں جانتا ان کے بارے میں معلومات حاصل کرے، اسی طرح وہ فطری طور پر اچھائیوں کو پسند کرتا ہے اور نیکی کو پسند کرتا ہے۔

بالکل اسی طرح سے انسان میں کمال حاصل کرنے کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے، اسی جذبے کے تحت انسان اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرسکے کیونکہ وہ جتنا زیادہ علم حاصل کرے گا اتنا ہی زیادہ اس میں کمال نمایاں ہوگا۔ اسی جذبے کے تحت اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ لوگوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نیکی کرے، انسان فطری طور پر نیک طینت اور نیک اشخاص کو پسند کرتا ہے۔

کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ تقاضے ایک شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ ہیں، یا ان کی بنیاد اقتصادیات پر ہے، یا ان کا تعلق وراثت اور ترتیب وغیرہ سے ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ وراثت اور ترتیب ان تقاضوں میں قوت یا ضعف ضرور پیدا کرسکتی ہیں لیکن ان جذبات کو ختم کردینا ان کے بس میں نہیں ہے کیونکہ ان کا وجود ان کا مرھونِ منّت نہیں ہے۔ ان تقاضوں کے فطری ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ تاریخ کے ہر دور اور ہر قوم میں یہ تقاضے پائے جاتے ہیں کیونکہ اگر یہ تقاضے فطری نہ ہوتے تو کہیں پائے جاتے اور کہیں نہ پائے جاتے۔ انسانی عادتوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ ایک قوم کی عادت دوسری قوم میں نہیں پائی جاتی، یا ایک چیز جو ایک قوم میں عزّت کی دلیل ہے وہی دوسری قوم میں ذلّت کا باعث قرار پاتی ہے۔

کمال، علم و دانش، اچھائی اور نیکی سے انسان کا لگاؤ ایک فطری لگاؤ ہے جو ہم یشہ سے انسانی وجود میں پایا جاتا ہے، دنیا کی تمام اقوام اور تمام ادوار تاریخ میں ان کا وجود ملتا ہے۔ عظیم مصلح کا انتظار انھیں جذبات کی معراجِ ارتقاء ہے۔

یہ کیوں کر ممکن ہے کہ انسان میں یہ جذبات تو پائے جائیں مگر اس کے دل میں انتظار کے لئے کوئی کشش نہ ہو، انسانیت و بشریت کا قافلہ اس وقت تک کمالات کے ساحل سے ہم کنار نہیں ہوسکتا جب تک کسی ایسے مصلح بزرگ کا وجود نہ ہو۔

اب یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ انسانی ضمیر کی آواز ہے اس کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے۔

ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسانی بدن کا ہر حصہ انسان کے جسمی کمالات پر اثر انداز ہوتا ہے ہم یں کوئی ایسا عضو نہیں ملے گا جو اس کی غرض کے پورا کرنے میں شریک نہ ہو، ہر عضو اپنی جگہ انسانی کمالات کے حاصل کرنے میں کوشاں ہے۔ اسی طرح روحی اور معنوی کمالات کے سلسلے میں روحانی خصوصیات اس مقصد کے پورا کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔

انسان خطرناک چیزوں سے خوف کھاتا ہے یہ روحانی خصوصیت انسان کے وجود کو ہلاکت سے بچاتی ہے اور انسان کے لئے ایک سپر ہے حوادث کا مقابلہ کرنے کے لئے

غصہ انسان میں دفاعی قوت کو بڑھا دیتا ہے، تمام طاقتیں سمٹ کو ایک مرکز پر جمع ہوجاتی ہیں جس کی بناء پر انسان چیزوں کو تباہ ہونے سے بچا تا ہے اور فائدہ کو تباہ ہونے سے محفوظ رکھتا ہے، دشمنوں پر غلبہ حاصل کرتا ہے۔

اسی طرح سے انسان میں روحی اور معنوی طور پر کمال حاصل کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے، انسان فطری طور پر عدل و انصاف، مساوات اور برادری کا خواھاں ہے، یہ وہ جذبات ہیں جو کمالات کی طرف انسان کی رہبری کرتے ہیں۔ انسان میں ایک ایسا ولولہ پیدا کردیتے ہیں، جس کی بناء پر وہ ہم یشہ روحانی و معنوی مدارج ارتقاء کو طے کرنے کی فکر میں رہتا ہے، اس کے دل میں یہ آرزو پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ دن جلد آئے جب ساری دنیا عدل و انصاف مساوات و برادری، صدق و صفا، صلح و مروت سے بھر جائے ظلم و جور کی بساط اس دنیا سے اٹھ جائے اور ستم و استبداد رختِ سفر باندھ لے۔

یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ انسان کا وجود اس کائنات سے الگ نہیں ہے بلکہ اسی نظام کائنات کا ایک حصہ ہے، یہ ساری کائنات انسان سمیت ایک مکمل مجموعہ ہے جس میں زمین ایک جزو آفتاب و ماہتاب ایک جزء اور انسان ایک جزء ہے۔

چونکہ ساری کائنات میں ایک نظام کار فرما ہے لھٰذا اگر انسانی وجود میں کوئی جذبہ پایا جاتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس جذبے کا جواب خارجی دنیا میں ضرور پایا جاتا ہے۔

اسی بناء پر جب ہم یں پیاس لگتی ہے تو ہم خود بخود پانی کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اسی جذبے کے تحت ہم یں اس بات کا یقین ہے کہ جہاں جہاں پیاس کا وجود ہے وھاں خارجی دنیا میں پیاس کا وجود ضرور ہوگا۔ اگر پانی کا وجود نہ ہوتا تو ہرگز پیاس نہ لگتی۔ اگر ہم اپنی کوتاہیوں کی بناء پر پانی تلاش نہ کرپائیں تو یہ اس بات کی ہرگز دلیل نہ ہوگی کہ پانی کا وجود نہیں ہے، پانی کا وجود ہے البتہ ہم اری سعی و کوشش ناقص ہے۔

اگر انسان میں فطری طور پر علم حاصل کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے تو ضرور خارج میں اس شے کا وجود ہوگا جس کا علم انسان بعد میں حاصل کرے گا۔

اسی بنیاد پر اگر انسان ایک ایسے عظیم مصلح کے انتظار میں زندگی بسر کر رہا ہے جو دنیا کے گوشے گوشے کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ چپہ چپہ نیکیوں کا مرقع بن جائے گا، تو یہ بات واضح ہے کہ انسانی وجود میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے، یہ انسانی سماج ترقی اور تمدن کی اس منزلِ کمال تک پہونچ سکتا ہے تبھی تو ایسے عالمی مصلح کا انتظار انسان کی جان و روح میں شامل ہے۔

عالمی مصلح کے انتظار کا عقیدہ صرف مسلمانوں کے ایک گروہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ سارے مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے۔ اور صرف مسلمانوں ہی تک یہ عقیدہ منحصر نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ہے۔

اس عقیدے کی عمومیت خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ ہی اقتصادیات کی پیداوار ہے کیونکہ جو چیزیں چند خاص شرائط کے تحت وجود میں آتی ہیں ان میں اتنی عمومیت نہیں پائی جاتی۔ ہاں صرف فطری مسائل ایسی عمومیت کے حامل ہوتے ہیں کہ ہر قوم و ملّت اور ہر جگہ پائے جائیں۔ اسی طرح سے عیقدے کی عمومیت اس بات کی زندہ دلیل ہے کہ اس عقیدے کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے۔ انسان فطری طور پر ایک عالمی مصلح کے وجود کا احساس کرتا ہے جب اس کا ظھور ہوگا تو دنیا عدل و انصاف کا مرقع ہوجائے گی۔

عالمی مصلح اور اسلامی روایات

ایک ایسی عالمی حکومت کا انتظار جو ساری دنیا میں امن و امان برقرار کرے، انسان کو عدل و انصاف کا دلدادہ بنائے، یہ کسی شکست خوردہ ذہنیت کی ایجاد نہیں ہے، بلکہ انسان فطری طور پر ایسی عالمی حکومت کا احساس کرتا ہے۔ یہ انتظار ضمیر انسانی کی آواز ہے ایک پاکیزہ فطرت کی آرزو ہے۔

بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ یہ عقیدہ ایک خالص اسلامی عقیدہ نہیں ہے بلکہ دوسرے مذاہب سے اس کو اخذ کیا گیا ہے، یا یوں کہا جائے کہ دوسروں نے اس عقیدے کو اسلامی عقائد میں شامل کردیا ہے۔ ان لوگوں کا قول ہے کہ اس عقیدے کی کوئی اصل و اساس نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ فکر واقعاً ایک غیر اسلامی فکر ہے جو رفتہ رفتہ اسلامی فکر بن گئی ہے؟ یا در اصل یہ ایک خالص اسلامی فکر ہے۔

اس سوال کا جواب کس سے طلب کیا جائے۔ آیا ان مستشرقین سے اس کا جواب طلب کیا جائے جن کی معلومات اسلامیات کے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ہیں۔ یہیں سے مصیبت کا آغاز ہوتا ہے کہ ہم دوسروں سے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اس آدمی سے پانی طلب نہ کرے جو دریا کے کنارے ہے بلکہ ایک ایسے شخص سے پانی طلب کرے جو دریا سے کوسوں دُور ہے۔

یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ مستشرقین کی باتوں کو بالکل کفر و الحاد تصور کیا جائے اور ان کی کوئی بات مانی ہی نہ جائے، بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ "اسلام شناسی" کے بارے میں ان کے افکار کو معیار اور حرفِ آخر تصور نہ کیا جائے۔ اگر ہم تکنیکی مسائل میں علمائے غرب کا سہارا لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم اسلامی مسائل کے بارے میں بھی ان کے سامنے دستِ سوال دراز کریں۔

ہم علمائے غرب کے افکار کو اسلامیات کے بارے میں معیار اس لیے قرار نہیں دے سکتے کہ ایک تو ان کی معلومات اسلامی مسائل کے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ہے، جس کی بنا پر ایک صحیح نظریہ قائم کرنے سے قاصر ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ تمام اسلامی اصول کو مادی اصولوں کی بنیاد پر پرکھنا چاھتے ہیں، ہر چیز میں مادی فائدہ تلاش کرتے ہیں۔ بدیہی بات ہے کہ اگر تمام اسلامی مسائل کو مادیت کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو ایسی صورت میں اسلامی مسائل کی حقیقت کیا سمجھ میں آئے گی۔

اسلامی روایات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ "انتظار" کا شمار ان مسائل میں ہے جن کی تعلیم خود پیغمبر اسلام (ص) نے فرمائی ہے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی انقلابی مہم کے سلسلے میں روایات اتنی کثرت سے وارد ہوئی ہیں کہ کوئی بھی انصاف پسند صاحبِ تحقیق ان کے "تواتر" سے انکار نہیں کرسکتا ہے۔ شیعہ اور سُنّی دونوں فرقوں کے علماء نے اس سلسلے میں متعدد کتابیں لکھی ہیں اور سب ہی نے ان روایات کے "متواتر" ہونے کا اقرار کیا ہے۔ ہاں صرف "ابن خلدون" اور "احمد امین مصری" نے ان روایات کے سلسلے میں شک و شبہ کا اظھار کیا ہے۔ ان کی تشویش کا سبب روایات نہیں ہیں بلکہ ان کا خیال ہے کہ یہ ایسا مسئلہ ہے جسے اتنی آسانی سے قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اس سلسلہ میں اس سوال و جواب کا ذکر مناسب ہوگا جو آج سے چند سال قبل ایک افریقی مسلمان نے مکہ معظمہ میں جو عالمی ادارہ ہے، اس سے کیا تھا۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ ارادہ وھابیوں کا ہے اور انھیں کے افکار و نظریات کی ترجمانی کرتا ہے۔ سب کو یہ بات معلوم ہے کہ وھابی اسلام کے بارے میں کس قدر سخت ہیں، اگر یہ لوگ کسی بات کو تسلیم کرلیں تو اس سے اندازہ ہوگا کہ یہ مسئلہ کس قدر اہم یت کا حامل ہے اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس جواب سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت امام مہدی (ع) کا انتظار ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر دنیا کے تمام لوگ متفق ہیں، اور کسی کو بھی اس سے انکار نہیں ہے۔ وھابیوں کا اس مسئلہ کو قبول کرلینا اس بات کی زندہ دلیل ہے کہ اس سلسلہ میں جو روایات وارد ہوئی ہیں ان میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ذیل میں سوال اور جواب پیش کیا جاتا ہے۔

حضرت امام مہدی (ع) کے ظھور پر زندہ دلیلیں

چند سال قبل کینیا (افریقہ) کے ایک باشندے بنام "ابو محمد" نے "ادارہ رابطہ عالم اسلامی" سے حضرت مہدی (ع) کے ظھور کے بارے میں سوال کیا تھا۔

اس ادارے کے جنرل سکریٹری "جناب محمد صالح اتغزاز" نے جو جواب ارسال کیا، اس میں اس بات کی با قاعدہ تصریح کی ہے کہ وھابی فرقے کے بانی "ابن تیمیہ" نے بھی ان روایات کو قبول کیا ہے جو حضرت امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ اس جواب کے ذیل میں سکریٹری موصوف نے وہ کتابچہ بھی ارسال کیا ہے جسے پانچ جید علمائے کرام نے مل کر تحریر کیا ہے۔ اس کتابچے کے اقتباسات قارئین محترم کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں: ۔۔۔۔

عظیم مصلح کا اسم مبارک مھدی (ع) ہے۔ آپ کے والد کا نام "عبد اللہ" ہے اور آپ مكّہ سے ظھور فرمائیں گے۔ ظھور کے وقت ساری دنیا ظلم و جور و فساد سے بھری ہوگی۔ ہر طرف ضلالت و گمراہی کی آندھیاں چل رہی ہوں گی۔ حضرت مہدی (ع) کے ذریعہ خداوندعالم دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، ظلم و جور و ستم کانشان تک بھی نہ ہوگا۔"

رسول گرامی اسلام (ص) کے بارہ جانشینوں میں سے وہ آخری جانشین ہوں گے، اس کی خبر خود پیغمبر اسلام (ص) دے گئے ہیں، حدیث کی معتبر کتابوں میں اس قسم کی روایات کا ذکر باقاعدہ موجود ہے۔"

حضرت مہدی (ع) کے بارے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں خود صحابۂ کرام نے ان کو نقل فرمایا ہے ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں:۔

(۱) علی ابن ابی طالب (ع)، (۲) عثمان بن عفان، (۳) طلحہ بن عبیدہ، (۴) عبد الرحمٰن بن عوف، (۵) عبد اللہ بن عباس، (۶) عمار یاسر، (۷) عبد اللہ بن مسعود، (۸) ابوسعید خدری، (۹) ثوبان، (۱۰) قرہ ابن اساس مزنی، (۱۱) عبد اللہ ابن حارث، (۱۲) ابوھریرہ، (۱۳) حذیفہ بن یمان، (۱۴) جابر ابن عبد اللہ (۱۵) ابو امامہ، (۱۶) جابر ابن ماجد، (۱۷) عبد اللہ بن عمر (۱۸) انس بن مالک، (۱۹) عمران بن حصین، (۲۰) ام سلمہ۔

پیغمبر اسلام (ص) کی روایات کے علاوہ خود صحابہ کرام کے فرمودات میں ایسی باتیں ملتی ہیں جن میں حضرت مہدی (ع) کے ظھور کو باقاعدہ ذکر کیا گیا ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں اجتہاد وغیرہ کا گذر نہیں ہے جس کی بناء پر بڑے اعتماد سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ تمام باتیں خود پیغمبر اسلام (ص) کی روایات سے اخذ کی گئی ہیں۔ ان تمام باتوں کو علمائے حدیث نے اپنی معتبر کتابوں میں ذکر کیا ہے جیسے:۔

سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، ابن ماجہ، سنن ابن عمر والدانی، مسند احمد، مسند ابن یعلی، مسند بزاز، صحیح حاکم، معاجم طبرانی (کبیر و متوسط)، معجم رویانی، معجم دار قطنی، ابو نعیم کی "اخبار المھدی"۔ تاریخ بغداد، تاریخ ابن عساکر، اور دوسری معتبر کتابیں۔

علمائے اسلام نے حضرت مھدی (ع) کے موضوع پر مستقل کتابیں تحریر کی ہیں جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں:

اخبار المھدی؛ تالیف: ابو نعیم

القول المختصر فی علامات المھدی المنتظر؛ تالیف: ابن ھجر ھیثمی

التوضیح فی تواتر ماجاء فی المنتظر والد جال والمسیح؛ تالیف: شوکانی

المھدی؛ تالیف: ادریس عراقی مغربی

الوہم المکنون فی الرد علی ابن خلدون؛ تالیف: ابو العباس بن عبد المومن المغربی

مدینہ یونی یورسٹی کے وائس چانسلر نے یونی ورسٹی کے ماہنامہ میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے، ہر دور کے علماء نے اس بات کی باقاعدہ تصریح کی ہے کہ وہ حدیثیں جو حضرت مھدی (ع) کے بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ متواتر ہیں جنھیں کسی بھی صورت سے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ جن علماء نے حدیثوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کیا ہے ان کے نام اور کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں، جن میں تواتر کا ذکر کیا گیا ہے:۔

۱۔ السخاوی اپنی کتاب فتح المغیث میں

۲۔ محمد بن السنادینی اپنی کتاب شرح العقیدہ میں

۳۔ ابو الحسن الابری اپنی کتاب مناقب الشافعی میں

۴۔ ابن تیمیہ اپنے فتوؤں میں

۵۔ سیوطی اپنی کتاب الحاوی میں

۶۔ ادریس عراقی مغربی اپنی کتاب المھدی میں

۷۔ شوکانی اپنی کتاب التوضیح فی تواتر ماجاء میں

۸۔ شوکانی اپنی کتاب فی المنتظر والدجال والمسیح میں

۹۔ محمد جعفر کنانی اپنی کتاب نظم المتناثر میں

۱۰۔ ابو العباس عبد المومن المغربی اپنی کتاب الوہم المکنون میں

ھاں ابن خلدون نے ضرور اس بات کی کوشش کی ہے کہ ان متواتر اور ناقابل انکار حدیثوں کو ایک جعلی اور بے بنیاد حدیث لا مھدی الا عیسیٰ (حضرت عیسیٰ کے علاوہ اور کوئی مھدی نہیں ہے) کے ہم پلّہ قرار دے کر ان حدیثوں سے انکار کیا جائے۔ لیکن علمائے اسلام نے اس مسئلہ میں ابن خلدون کے نظریے کی باقاعدہ تردید کی ہے خصوصاً ابن عبد المومن نے تو اس موضوع پر ایک مستقل کتاب الوہم المکنون تحریر کی ہے۔ یہ کتاب تقریباً ۳۰ برس قبل مشرق اور مغرب میں شائع ہوچکی ہے۔

حافظان حدیث اور دیگر علمائے کرام نے بھی ان حدیثوں کے متواتر ہونے کی صراحت فرمائی ہے۔

ان تمام باتوں کی بنا پر ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ حضرت مھدی کے ظھور پر ایمان و عقیدہ رکھے۔ اہل سنت والجماعت کا بھی یہی عقیدہ ہے اور ان کے عقائد میں سے ایک ہے۔

ھاں وہ اشخاص تو ضرور اس عقیدے سے انکار کرسکتے ہیں جو روایات سے بے خبر ہیں، یادین میں بدعت کو رواج دینا چاھتے ہیں، (ورنہ ایک ذی علم اور دیندار کبھی بھی اس عقیدے سے انکار نہیں کرسکتا۔)"

سکریٹری انجمن فقۂ اسلامی

محمد منتصر کنانی

اس جواب کی روشنی میں یہ بات کس قدر واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت مھدی (ع) کے ظھور کا عقیدہ صرف ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے کسی بھی دوسرے مذہب سے یہ عقیدہ اخذ نہیں کیا گیا ہے۔

ایک بات ضرور قابل ذکر ہے وہ یہ کہ اس جواب میں حضرت امام مھدی (ع) کے والد بزرگوار کا اسمِ مبارک عبد اللہ ذکر کیا گیا ہے۔ جب کہ اہل بیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ہوئی ہیں۔ ان میں بطور یقین حضرت کے والد بزرگوار کا اسم مبارک حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ہے

اس شبہ کی وجہ وہ روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں "اسم ابیه اسم ابی " (ان کے والد کا نام میرے والد کا نام ہے) جبکہ بعض دوسری روایات میں ابی (میرے والد) کے بجائے ابنی (میرا فرزند) ہے، صرف نون کا نقطہ حذف ہوجانے یا کاتب کی غلطی سے یہ اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ اسی بات کو "گنجی شافعی" نے اپنی کتاب "البیان فی اخبار صاحب الزمان" میں ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ

۱۔ یہ جملہ اہل سنت کی اکثر روایات میں موجود نہیں ہے

۲۔ ابن ابی لیلیٰ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:اسمه اسمی اسم ابیه اسم ابنی ۔ (اس کا نام میرا نام ہے، اس کے والد کا نام میرے فرزند کا نام ہے) فرزند سے مراد حضرت امام حسن علیہ السلام ہیں۔

۳۔ اہل سنت کی بعض روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ امام زمانہ کے والد بزرگوار کا نام حسن ہے۔

۴۔ اہلبیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ہوئی ہیں جو تواتر کی حد کو پہونچتی ہیں ان میں صراحت کے ساتھ یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ حضرت امام مھدی علیہ السلام کے والد بزرگوار کا اسم مبارک حسن ہے۔

انتظار کے اثرات

گذشتہ بیانات سے یہ بات روشن ہوگئی کہ عظیم مصلح کا انتظار ایک فطری تقاضہ ہے اور انسان دیرینہ آرزو کی تکمیل ہے۔ یہ عقیدہ ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے یہ عقیدہ صرف فرقہ شیعہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اسلام کے تمام فرقے اس میں برابر کے شریک ہیں۔ اس سلسلے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں وہ "تواتر" کی حد تک پہونچی ہوئی ہیں۔(۱)

ھاں وہ حضرات جن کی معلومات کا دائرہ محدود ہے اور ہر بات کو مادیت اور اقتصادیات کی عینک لگاکر دیکھنا چاھتے ہیں، یہ حضرات ضرور یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک اسلامی عقیدہ نہیں ہے، یا یہ طرز فکر ایک شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ ہے۔

ایک بات باقی رہ جاتی ہے۔ وہ یہ کہ اگر قبول بھی کرلیا جائے کہ یہ عقیدہ ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے اور خالص اسلام کے انداز فکر کا نتیجہ ہے مگر اس عقیدے کا فائدہ کیا ہے، عظیم مصلح کے انتظار میں زندگی بسر کرنے سے انسان کی زندگی پر کیا اثرات رونما ہوتے ہیں۔۔؟ انسان کے طرز فکر میں کون سی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔؟

یہ عقیدہ انسان کو ایک ذمہ دار شخص بناتا ہے یا لا اُبالی؟

یہ عقیدہ انسان میں ایک جوش پیدا کرتا ہے یا اس کے احساسات پر مایوسی کی اوس ڈال دیتا ہے۔؟

انسانی زندگی کو ایک نیا ساز عطا کرتا ہے یا اس کی زندگی کو بے کیف بنا دیتا ہے۔؟

یہ عقیدہ انسان کو ایک ایسی قوت عطا کرتا ہے جس سے وہ مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکے یا انسان کو ضعیف و کمزور بنا دیتا ہے۔؟

یہ بات بھی توجہ کے قابل ہے کہ ذوق اور سلیقے کے مختلف ہونے کی بنا پر ہوسکتا ہے کہ ایک ہی چیز سے دو مختلف نتیجے اخذ کئے جائیں۔ ایک آدمی ایسے نتائج برآمد کرلے جو واقعاً مفید اور کار آمد ہوں اور دوسرا آدمی اسی چیز سے ایسے نتائج اخذ کرے جو بے کار اور مضر ہوں۔ ایٹمی توانائی کو انسان ان چیزوں میں بھی استعمال کرسکتا ہے جو حیات انسانی کے لئے مفید اور ضروری ہیں اور اسی ایٹمی توانائی کو انسانیت کی ہلاکت کے لئے بھی استعمال کرسکتا ہے بلکہ کررہا ہے۔

یہی حال ان رواتیوں کا ہے جو انتظار کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض بے خبر یا خود غرض لوگوں نے ایسے نتائج اخذ کئے ہیں جس کی بنا پر اعتراضات کی ایک دیوار قائم ہوگئی۔

انتظار کے اثرات بیان کرنے سے پہلے قارئین کی خدمت میں چند روایتیں پیش کرتے ہیں جن سے انتظار کی اہم یت کا اندازہ ہوجائے گا۔ بعد میں انھیں روایات کو اساس و بنیاد قرار دیتے ہوئے فلسفۂ انتظار کے بارے میں کچھ عرض کریں گے۔ ان روایات کا ذرا غور سے مطالعہ کیجئے تاکہ آئندہ مطالب آسان ہوجائیں۔

۱) ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا۔ وہ شخص جو ائمہ کی ولایت کا قائل ہے اور حکومت حق کا انتظار کر رہا ہے ایسے شخص کا مرتبہ اور مقام کیا ہے۔؟

امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے: "هو بمنزلة من کان مع القائم فی فسطاطه ۔" ( وہ اس شخص کے مانند ہے جو امام کے ساتھ اس ان کے خیمے میں ہو)۔

امام نے تھوڑی دیر سکوت کے بعد پھرمایا:۔ "هو کمن کان مع رسول الله "۔ وہ اس شخص کے مانند ہے جو رسول اللہ کے ہم راہ (جنگ میں) شریک رہا ہو۔(۲)

اسی مضمون کی متعدد روایتیں ائمہ علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں۔

۲) بعض روایات میں ہے: "بمنزلة الضارب بسیفه فی سبیل الله ۔" اس شخص کے ہم رتبہ ہے جو راہ خدا میں شمشیر چلا رہا ہو۔(۳)

۳) بعض روایات میں یہ جملہ ملتا ہے: :کمن قارع معه بسیفه ۔"(۴) اس شخص کے مانند ہے جو رسول خدا (ص) کے ہم راہ دشمن کے سرپر تلوار لگا رہا ہو۔

۴) بعض میں یہ جملہ ملتا ہے: "بمنزلة من کان قاعداً تحت لوائه ۔" اس شخص کے مانند ہے جو حضرت مھدی علیہ السلام کے پرچم تلے ہو۔(۵)

۶) بعض روایات میں یہ جملہ ملتا ہے:۔ "بمنزلة مجاهدین بین یدی رسول الله ۔" اس شخص کے مانند ہے جو پیغمبر اسلام (ص) کے سامنے راہ خدا میں جہاد کر رہا ہو۔(۶)

۷) بعض دوسری روایتوں میں ہے:۔ "بمنزلة من استشهد مع رسول الله " اس شخص کے مانند ہے جو خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم راہ درجۂ شھادت پر فائز ہوا ہو۔(۷)

ان روایتوں میں جو سات قسم کی تشبیہات کی گئی ہیں ان میں غور وفکر کرنے سے انتظار کی اہم یت کا باقاعدہ انداز ہوجاتا ہے اور یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ انتظار اور جہاد میں کس قدر ربط ہے۔ انتظار اور شھادت میں کتنا گہرا تعلق ہے۔

بعض دوسری روایتوں میں ملتا ہے کہ "انتظار کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔" اس مضمون کی روایتیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام (ص) کی ایک حدیث کے الفاظ ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "افضل اعمال امتی انتظار الفرج من الله عزوجل(۸)

ایک دوسری روایت میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے: "افضل العبادة انتظار الفرج ۔"(۹)

یہ تمام روایتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ انتظار اور جھاد میں کتنا گہرا لگاؤ ہے۔ اس لگاؤ اور تعلق کا فلسفہ کیا ہے، ا سکے لئے ذرا صبر سے کام لیں۔

____________________

۱. تفصیلی بحث کے لئے ملاحظہ ہو "منتخب الاثر" تحریر آیت الله لطف اللہ صافی۔ ص۲۳۱۔ ۲۳۶

۲. بحار الانوار ج ۵۲ ص۱۲۵ طبع جدید

۳. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۲۶

۴. بحار الانوار جلد ۵۲ ص ۱۲۶

۵. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۴۲ طبع جدید

۶. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲

۷. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۴۲

۸. بحار الانوار ج۵۲ ص۱۲۸

۹. بحار الانوار ج۵۲ ص۱۲۵


3

4

5