ظھور کی علامتیں
اس عالمی انقلاب کی کچھ علامتیں بھی ہیں کہ انتا عظیم انقلاب کب برپا ہوگا۔؟
ہم اس عظیم انقلاب سے نزدیک ہو رہے ہیں یا نہیں۔؟
اس عظیم انقلاب کو اور قریب کیا جاسکتا ہے؟
اگر یہ ممکن ہے تو اس کے اسباب و وسائل کیا ہیں۔َ
تمام سوالوں کے جواب مثبت ہیں۔
دنیا میں کوئی بھی طوفان ایکا ایکی نہیں آتا ہے۔ سماج میں انقلاب رونما ہونے سے پہلے اس کی علامتیں ظاھر ہونے لگتی ہیں۔
اسلامی روایات میں اس عظیم انقلاب کی نشانیوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ نشانیاں اور علامتیں دو طرح کی ہیں:
۱) عمومی علامتیں جوھر انقلاب سے پہلے (انقلاب کے تناسب سے) ظاھر ہوتی ہیں۔
۲) جزئیات جن کو معمولی و اطلاع کی بنیاد پر نہیں پرکھا جاسکتا ہے بلکہ ان جزئیات کی حیثیت ایک طرح کی اعجازی ہے۔
ذیل کی سطروں میں دونوں قسم کی علامتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
ظلم و فساد کا رواج
سب سے پہلی وہ علامت جو عظیم انقلاب کی آمد کی خبر دیتی ہے۔ وہ ظلم و فساد کا رواج ہے۔ جس وقت ہر طرف ظلم پھیل جائے، ہر چیز کو فساد اپنی لپیٹ میں لے لے۔ دوسروں کے حقوق پامال ہونے لگیں، سماج برائیوں کا گڑھ بن جائے اس وقت عظیم انقلاب کی آھٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ جب دباؤ حد سے بڑھ جائے گا تو دہم اکہ ضرور ہوگا یہی صورت سماج کی بھی ہے جب سماج پر ظلم و فساد کا دباؤ حد سے بڑھ جائے گا تو اس کے نتیجہ میں ایک انقلاب ضرور رونما ہوگا۔
اس عظیم عالمی انقلاب اور حضرت مھدی (عج) کے ظھور کے بارے میں بھی بات کچھ اسی طرح کی ہے۔
منفی انداز فکر والوں کی طرح یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ظلم و فساد کو زیادہ سے زیادہ ہوا دی جائے تاکہ جلد از جلد انقلاب آجائے بلکہ فساد اور ظلم کی عمومیت کو دیکھتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی فکر کرنا چاہیے، تاکہ صالح افراد کی ایک ایسی جماعت تیار ہوسکے جو انقلاب کی علمبردار بن سکے۔
اسلامی روایات میں اس پہلی علامت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:۔
کما ملئت ظلما وجوراً
" جس طرح زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ "ظلم و جور" مترادف الفاظ ہیں یا معانی کے اعتبار سے مختلف۔
دوسروں کے حقوق پر تجاوز دو طرح ہوتا ہے۔
ایک یہ کہ انسان دوسروں کے حقوق چھین لے اور ان کی محنت سے خود استفادہ کرے اس کو "ظلم" کہتے ہیں۔
دوسرے یہ کہ دوسروں کے حقوق چھین کر اوروں کو دے دے، اپنے اقتدار کے استحکام کے لئے اپنے دوستوں کو عوام کے جان و مال پر مسلط کردے اس کو "جور" کہتے ہیں۔
ان الفاظ کے مد مقابل جو الفاظ ہیں وہ ہیں ظلم کے مقابل "قسط" اور جور کے مقابل "عدل" ہے۔
اب تک بات عمومی سطح پر ہورہی تھی کہ ہر انقلاب سے پہلے مظالم کا وجود انقلاب کی آمد کی خبر دیتا ہے۔
قابل غور بات تو یہ ہے کہ اسلامی روایات نے سماجی برائیوں کی جزئیات کی نشاندھی کی ہے۔ یہ باتیں اگر چہ ۱۳۔ ۱۴ سو سال پہلے کہی گئی ہیں لیکن ان کا تعلق اس زمانے سے نہیں ہے بلکہ آج کل ہم اری دنیا سے ہے۔ یہ جزئیات کچھ اس طرح بیان کیے گئے ہیں گویا بیان کرنے والا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو، اور بیان کررہا ہو۔ یہ پیشین گوئیاں کسی معجزے سے کم نہیں ہیں۔
اس سلسلے میں ہم متعدد روایتوں میں سے صرف ایک روایت کو ذکر کرتے ہیں۔ یہ روایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے۔ اس روایت میں سیاسی، سماجی اور اخلاقی مفاسد کا ذکر کیا گیا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے بعض اصحاب سے ارشاد فرمایا ہے:
۱۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ ہر طرف ظلم و ستم پھیل رہا ہے۔
۲۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ قرآن فرسودہ کردیا گیا ہے اور دین میں بدعتیں رائج کردی گئی ہیں۔
۳۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ دین خدا اس طرح اپنے مفاہیم سے خالی ہوگیا ہے جس طرح برتن الٹ دیا گیا ہو۔
۴۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ اہل باطل صاحبانِ حق پر مسلط ہوگئے ہیں۔
۵۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ مرد مرد پر اور عورتیں عورتوں پر اکتفا کر رہی ہیں۔
۶۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ صاحبانِ ایمان سے خاموشی اختیار کرلی ہے۔
۷۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ چھوٹے بڑوں کا احترام نہیں کر رہے ہیں۔
۸۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ رشتہ داریاں ٹوٹ گئی ہیں۔
۹۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ چاپلوسی کا بازار گرم ہے۔
۱۰۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ شراب اعلانیہ پی جارہی ہے۔
۱۱۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ خیر کے راستے اُجاڑ اور شر کی راہیں آباد ہیں۔
۱۲۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا جارہا ہے۔
۱۳۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ احکامِ دین کی حسبِ منشا تفسیر کی جارہی ہے۔
۱۴۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ صاحبان ایمان ہے آزادی اس طرح سلب کرلی گئی ہے کہ وہ اپنے دل کے علاوہ کسی اور سے اظھار نفرت نہیں کرسکتے۔
۱۵ جس وقت تم یہ دیکھو کہ سرمایہ کا بیشتر حصّہ گناہ میں صرف ہورہا ہے۔
۱۶۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ حکومتی ملازمین کے درمیان رشوت عام ہوگئی ہے۔
۱۷۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ حساس و اہم منصبوں پر نااہل قبضہ جمائے ہیں۔
۱۸۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ (بعض مرد) اپنی عورتوں کی ناجائز کمائی پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔
۱۹۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ قمار آزاد ہوگیا ہے (قانونی ہوگیا ہے)
۲۰۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ ناروا تفریحیں اتنی عام ہوگئی ہیں کہ کوئی روکنے کی ہم ت نہیں کر رہا ہے۔
۲۱۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ قرآنی حقائق کا سننا لوگوں پر گراں گذرتا ہے۔
۲۲۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ پڑوسی پڑوسی کی زبان کے ڈر سے اس کا احترام کر رہا ہے۔
۲۳۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ مسجدوں کی آرائش کی جارہی ہے۔
۲۴۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ غیر خدا کے لئے حج کیا جارہا ہے۔
۲۵۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ عوام سنگ دل ہوگئے ہیں۔
۲۶۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ عوام اس کے حامی ہوں جو غالب آجائے (خواہ حق پر ہو خواہ باطل پر)
۲۷۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ حلال کے متلاشی افراد کی مذمّت کی جائے اور حرام کی جستجو کرنے والوں کی مدح۔
۲۸۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ لہو و لعب کے آلات مكّہ مدینہ میں (بھی رائج ہوں۔
۲۹۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ مسجد ان لوگوں سے بھری ہے جو خدا سے نہیں ڈرتے۔
۳۰۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ لوگوں کی ساری توجہ پیٹ اور شرمگاہ پر مرکوز ہے۔
۳۱۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ مادی اور دنیاوی وسائل کی فراوانی ہے، دنیا کا رخ عوام کی طرف ہے۔
۳۲۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ اگر کوئی امر بمعروف اور نہی از منکر کرے تو لوگ اس سے یہ کہیں کہ یہ تمھاری ذمہ داری نہیں ہے۔
۳۳۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ عورتیں اپنے آپ کو بے دینوں کے حوالے کر رہی ہیں۔
۳۴۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ حق پرستی کے پرچم فرسودہ ہوگئے ہیں۔
۳۵۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ بربادی آبادی پر سبقت لے جارہی ہے۔
۳۶۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ بعض کی روزی صرف کم فروشی پر منحصر ہے۔
۳۷۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ ایسے افراد موجود ہیں جنھوں نے مال کی فراوانی کے باوجود اپنی زندگی میں ایک مرتبہ بھی زکات نہیں دی ہے۔
۳۸۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ لوگ صبح و شام نشہ میں چور ہیں۔
۳۹۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ لوگ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور بروں کی تقلید کرتے ہیں۔
۴۰۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ ہر سال نیا فساد اور نئی بدعت ایجاد ہوتی ہے۔
۴۱۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ عوام اپنے اجتماعات میں خود پسند سرمایہ داروں کے پیروکار ہیں۔
۴۲۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ جانوروں کی طرح سب کے سامنے جنسی افعال انجام دے رہے ہیں
۴۳۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ غیر خدا کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے میں کوئی تکلف نہیں کرتے لیکن خدا کی راہ میں معمولی رقم بھی صرف نہیں کرتے۔
۴۴۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ ایسے افراد بھی ہیں کہ جس دن گناہ کبیرہ انجام نہ دیں اس دن غمگیں رھتے ہیں۔
۴۵۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ حکومت عورتوں کے ہاتھوں میں چل گئی ہے۔
۴۶۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ ہوائیں منافقوں کے حق میں چل رہی ہیں، ایمان داروں کو اس سے کچھ حاصل نہیں ہے۔
۴۷۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ قاضی احکامِ الٰہی کے خلافِ فیصلہ دے رہا ہے۔
۴۸۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ بندوں کو تقویٰ کی دعوت دی جارہی ہے مگر دعوت دینے والا خود اس پر عمل نہیں کر رہا ہے۔
۴۹۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ لوگ اوقات نماز کو اہم یت نہیں دے رہے ہیں۔
۵۰۔ جس وقت تم یہ دیکھو کہ ضرورت مندوں کی امداد بھی پارٹی کی بنیاد پر کی جارہی ہے، کوئی خدائی عنصر نہیں ہے۔
ایسے زمانے میں اپنے آپ کی حفاظت کرو، خدا سے نجات طلب کرو کہ تمھیں مفاسد سے محفوظ رکھے (انقلاب نزدیک ہے)۔
اس طولانی حدیث میں (جس کو ہم نے بطور اختصار پیش کیا ہے) جو برائیاں اور مفاسد بیان کئے گئے ہیں انھیں تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
۱) وہ برائیاں اور مفاسد جو دوسروں کے حقوق اور حکومتوں سے متعلق ہیں جیسے باطل کے طرفداروں کی کامیابی، زبان و عمل پر پابندیاں، وہ بھی اتنی سخت پابندیاں کہ صاحبانِ ایمان کسی سے اظھار رائے نہ کرسکیں بربادی کے سلسلے میں سرمایہ گذاری، رشوت کی گرم بازاری، اعلیٰ اور حساس منصبوں کی نیلامی، جاہل عوام کی طرف سے صاحبانِ اقتدار کی حمایت۔
جنگ کا میدان گرم رکھنے کے لئے سرمایہ کی افراط، تباہ کن اسلحوں کی دوڑ (آج وہ رقم جو اسلحوں پر صرف ہورہی ہے وہ اس رقم سے کہیں زیادہ ہے جو تعمیری اور فلاح و بہبود کے کاموں پر صرف ہوتی ہے)۔
برائیوں کے اس ھجوم میں کسی کو اپنی ذمہ داری کا احساس تو در کنار، ایک دوسرے کو یہ نصیحت کی جارہی ہے کہ ایسے ماحول میں بے طرف رہنا چاہئے۔
۲) اخلاقی برائیاں، جیسے چاپلوسی، تنگ نظری، حسد، ذلیل کاموں کے لئے آمادگی۔ (جیسے مرد اپنی زوجہ کی ناجائز کمائی سے زندگی بسر کرے)۔ شراب و قمار کی عمومیت غیر اخلاقی تفریحیں، اعمال پر تقریریں اور بے عمل مقررین، ریا کاری، ظاھر داری ہر چیز میں پارٹی بازی، شخصیت کا معیار دولت کی فراوانی
۳) وہ برائیاں جن کا تعلق مذہب سے ہے، جیسے خواہشات کو قرآنی احکام پر ترجیح دینا، اسلامی احکام کی حسب منشاء تفسیر، مذہبی معاملات کو مادی اور دنیاوی معیاروں پر پرکھنا، مسجدوں میں گناہگاروں کی اکثریت، مسجدوں کی آرائش، تقویٰ اور پرہیز گاری سے بے بہرہ نمازی، نماز کو اہم یت نہ دینا۔
اگر غور کیا جائے اور منصفانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو آج کے سماج میں یہ ساری برائیاں نظر آئیں گی۔
یہ تمام برائیاں انقلاب کی پہلی اور آخری شرط نہیں ہیں بلکہ ظلم و جور کی فراوانی انقلاب کے لئے زمین ہم وار کر رہی ہے۔ یہ برائیاں مست اور خوابیدہ انسانوں کو بیدار کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ سوئے ہوئے ضمیر کے حق میں تازیانہ ہیں تاکہ لوگ بیدار ہوں اور انقلاب کے لئے آمادہ ہوجائیں۔
دنیا والے ایک نہ ایک دن ضرور ان برائیوں کے علل و اسباب تلاش کریں گے اور اس کے نتائج پر غور کریں گے یہ تلاش عمومی سطح پر آگاہی فراہم کرے گی جس کے بعد ہر ایک کو اس بات کا یقین ہوجائے گا کہ اصلاح کے لئے انقلاب ضروری ہے۔ عالمی اصلاح کے لئے عالمی انقلاب درکار ہے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ اگر دنیا کا کوئی گوشہ ان برائیوں سے پاک صاف ہے، یا بعض افراد ان مفاسد میں ملوث نہیں ہیں تو اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ کیونکہ جو بات بیان کی گئی ہے وہ عمومی سطح پر اور اکثریت کو پیش نظر رکھتے ہوئے بیان کی گئی ہے۔
خاص علامتیں
۱) دجّال
جب کبھی دجال کا تذکرہ ہوتا ہے، ذہن پُرانے تصورات کی بنا پر فوراً ایک خاص شخص کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے جس کے صرف ایک آنکھ ہے جس کا جسم بھی افسانوی ہے اور سواری بھی۔ جو حضرت مھدی (عج) کے عالمی انقلاب سے پہلے ظاھو
ھوگا۔
لیکن دجال کے لغوی معنی
اور احادیث سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ دجال کسی خاص فرد سے مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک عنوان ہے جو ہر دھوکہ باز اور حیلہ گر پر منطبق ہوتا ہے۔ اور ہر اس شخص پر منطبق ہوتا ہے جو عالمی انقلاب کی راہ میں رکاوٹیں ایجاد کرتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک مشھور حدیث ہے:
انه له یکن نبی بعد نوح الا انذر قومه الدجال وانی انذر کموه
۔
"جناب نوح (ع) کے بعد ہر نبی نے اپنی قوم کو دجال کے فتنہ سے ڈرایا ہے میں بھی تمھیں اس سے ہوشیار کرتا ہوں۔"
یہ بات مسلم ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قوم کو کسی ایسے فتنے سے نہیں ڈراتے تھے جو ہزاروں سال بعد آخری زمانہ میں رونما ہونے والا ہو۔
اسی حدیث کا یہ آخری جملہ خاص توجہ کا طالب ہے کہ:
فوصفه لنا رسول الله فقال لعله سیدرکه بعض من رأنی او سمع کلامی
رسول خدا (ص) نے ہم ارے لئے اس کے صفات بیان فرمائے اور فرمایا کہ ہوسکتا ہے وہ لوگ اس سے دوچار ہوں جنھوں نے مجھے دیکھا ہے یا میری بات سنی ہے۔"
اس بات کا قوی احتمال ہے کہ حدیث کا یہ آخری جملہ ان فریب کاروں، سرکشوں، حیلہ گروں، مكّاروں کی نشاندھی کر رہا ہو جو آنحضرت (ص) کے بعد بڑے بڑے عنوان کے ساتھ ظاھر ہوئے۔ جیسے بنی امیہ اور ان کے سرکردہ معاویہ، جہاں "خال المومنین" اور "کاتب وحی" جیسے مقدس عناوین لگے ہوئے ہیں ان لوگوں نے عوام کو صراط مستقیم سے منحرف اور ان کو جاہلی رسومات کی طرف واپس لانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی، متقی اور ایمان دار افراد کو کنارے کردیا، اور عوام پر بدکاروں، جاہلوں اور جابروں کو مسلط کردیا۔
صحیح ترمذی کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ آنحضرت (ص) نے دجال کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ:
"ما من نبی الا وقد انذر قومه ولٰکن ساقول فیه قولا لم یقله نبی لقومه تعلمون انه اعور
۔ (وہی مآخذ)
ھر نبی نے اپنی قوم کو دجال کے فتنہ سے ڈرایا ہے، لیکن اس کے بارے میں، میں ایک ایسی بات کہہ رہا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم سے نہیں کہا، اور وہ یہ کہ وہ کانا ہے۔"
بعض حدیثوں میں ملتا ہے کہ حضرت مھدی (عج) کے ظھور سے پہلے تیس دجال رونما ہوں گے۔
انجیل میں بھی دجّال کے بارے میں ملتا ہے کہ:
تم کو معلوم ہے کہ دجال آنے والا ہے۔ آج کل بھی کافی دجال ظاھر ہوتے ہیں۔"
اس عبارت سے صاف ظاھر ہے کہ دجال متعدد ہیں۔
ایک دوسری حدیث میں آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ:
لا تقوم الساعة حتی یخرج نحوستین کذا بکلهم یقولون انا نبی
۔
قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک ساٹھ ۶۰ جھوٹے پیدا نہ ہوجائیں جن میں سے ہر ایک اپنے پیغمبر بتائے گا۔"
اس روایت میں گرچہ دجال کا لفظ نہیں ہے لیکن اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں جھوٹے دعوے داروں کی تعداد ایک دو پر منحصر نہیں ہوگی۔
یہ ایک حقیقت ہے ک جب بھی کسی معاشرے میں انقلاب کے لئے زمین ہم وار ہوتی ہے تو غلط افوا ہیں پھیلانے والوں، فریب کاروں، حیلہ گروں اور جھوٹے دعوے داروں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ یہی لوگ ظالم اور فاسد نظام کے محافظ ہوتے ہیں ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ عوام کے جذبات، احساسات اور ان کے افکار سے غلط فائدہ اٹھایا جائے۔
یہ لوگ انقلاب کو بدنام کرنے کے لئے خود بھی بظاھر انقلابی بن جاتے ہیں اور انقلابی نعرے لگانے لگتے ہیں ایسے ہی لوگ انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
یہ وہ دجال ہیں جن سے ہوشیار رھنے کے بارے میں ہر نبی نے اپنی امت سے نصیحت کی ہے۔
حضرت مھدی (عج) کا انقلاب صحیح معنوں میں عالمی انقلاب ہوگا۔ اس عالمی انقلاب کے لیے عوام میں جس قدر آمادگی بڑھتی جائے گی جتنا وہ فکری طور س آمادہ ہوتے جائیں گے ویسے ویس دجّالوں کی سرگرمیاں بھی تیز ہوتی جائیں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ انقلاب کی راہ میں روڑے اٹکا سکیں۔
ھوسکتا ہے کہ ان تمام دجالوں کی سربراہی ایک بڑے دجّال کے ہاتھوں میں ہو، اور اس دجال کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ علامتی صفات ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ علامہ مجلسی (رح) نے بحار الانوار میں ایک روایت امیر المومنین علیہ السلام سے نقل فرمائی ہے جس میں دجال کی صفات کا ذکر ہے وہ صفات یہ ہیں:
۱) اس کے صرف ایک آنکھ ہے، یہ آنکھ پیشانی پر ستارۂ صبح کی طرح چمک رہی ہے۔ یہ آنکھ اس قدر خون آلود ہے گویا خون ہی سے بنی ہے۔
۲) اس کا خچر (سواری) سفید اور تیزرو ہے، اس کا ایک قدم ایک میل کے برابر ہے۔ وہ بہت تیز رفتاری سے زمین کا سفر طے کرے گا۔
۳) وہ خدائی کا دعویٰ کرے گا۔ جس وقت اپنے دوستوں کو آواز دے گا تو ساری دنیا میں اس کی آواز سنی جائے گی۔
۴) وہ دریاؤں میں ڈوب جائے گا۔ وہ سورج کے ساتھ سفر کرے گا، اس کے سامنے دھنویں کا پہاڑ ہوگا اور اس کی پشت پر سفید پہاڑ ہوگا۔ لوگ اسے غذائیں مواد تصور کریں گے۔
۵) وہ جس وقت ظاھر ہوگا اس وقت لوگ قحط میں اور غذائی مواد کی قلت میں مبتلا ہوں گے۔
یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ ہم یں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم قرآن اور احادیث میں بیان شدہ مطالب کو "علامتی عنوان" قرار دیں کیونکہ یہ کام ایک طرح کی تفسیر بالرائے ہے جس کی شدّت سے مخالفت کی گئی ہے۔ لیکن یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ عقلی اور نقلی قرینوں کی موجودگی میں لفظ کے ظاھری مفھوم سے چپکے رہیں۔
آخری زمانے کے بارے میں جو روایتیں وارد ہوئی ہیں ان میں "علامتی عنوان" بکثرت موجود ہیں۔
مثلا ایک روایت میں ہے کہ اس وقت مغرب سے آفتاب آئے گا۔ اگر اس حدیث کے ظاھری معنی مراد لئے جائیں تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آفتاب ایکا ایکی مغرب سے طلوع کرے تو اس صورت میں منظومہ شمسی کی حرکت بالکل معکوس ہوجائے گی جس کے نتیجہ میں نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا۔ دوسرے یہ کہ آفتاب رفتہ رفتہ مغرب سے طلوع کرے۔ تو اس صورت میں رات دن اس قدت طولانی ہوجائیں گے جس سے نظام زندگی میں درہم ی پیدا ہوجائے گی واضح رہے کہ یہ دونوں ہی معنی حدیث سے مراد نہیں ہیں۔ کیونکہ نظام درہم برہم ہونے کا تعلق سے ہے آخری زمانے سے نہیں، جیسا کہ صعصعہ بن صوحان کی روایت کے آخری فقرے سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ حدیث ایک علامتی عنوان ہے امام زمانہ کے بارے میں۔
نزال بن سیدہ جو اس حدیث کے راوی ہیں، انھوں نے صعصعہ بن صوحان سے دریافت کیا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے دجال کے بارے میں بیان کرنے کے بعد یہ کیوں ارشاد فرمایا کہ مجھ سے ان واقعات کے بارے میں نہ دریافت کرو جو اس کے بعد رونما ہوں گے۔"
صعصعہ بن صوحان نے فرمایا:۔
جس کے پیچھے جناب عیسیٰ (ع) نماز ادا کریں گے وہ اہل بیت علیہم السلام کی بارھویں فرد ہوگا اور امام حسین علیہ السلام کی صلب میں نواں ہوگا۔ یہ وہ آفتاب ہے جو اپنے کو مغرب سے طلوع کرے گا۔
لہٰذا یہ بات بہت ممکن ہے کہ دجال کی صفات "علامتی عنوان" کی حیثیت رکھتی ہوں جن کا تعلق کسی خاص فرد سے نہ ہو بلکہ ہر وہ شخص دجال ہوسکتا ہے جو ان صفات کا حامل ہو یہ صفات مادی دنیا کے سر براھوں کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہیں، کیونکہ:
۱) ان لوگوں کی صرف ایک آنکھ ہے، اور وہ ہے مادی و اقتصادی آنکھ ۔ یہ لوگ دنیا کے تمام مسائل کو صرف اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مادی مقاصد کے حصول کی خاطر جائز و ناجائز کے فرق کو یکسر بھول جاتے ہیں۔
ان کی یہی مادی آنکھ بہت زیادہ چمکدار ہے، کیونکہ ان لوگوں نے صنعتی میدان میں چشم گیر ترقی کی ہے۔ زمین کی حدوں سے باھر نکل گئے ہیں۔
۲) تیز رفتار سواریاں ان کے اختیار میں ہیں۔ مختصر سی مدّت میں ساری دنیا کا چكّر لگا لیتے ہیں۔
۳) یہ لوگ خدائی کے دعوے دار ہیں۔ کمزور اور غیر ترقی یافتہ ممالک کی قسمت سے کھیلنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
۴) جدید ترین آبدوزوں کے ذریعہ سمندر کی تہوں میں سورج کے ساتھ سفر کرتے ہیں، ان کی نگاہوں کے سامنے دیو پیکر کارخانے، دھویں کا پہاڑ، اور ان کے پیچھے غذائی مواد کا انبار سفید پہاڑ، (جس کی عوام غذائی اشیاء تصور کرتے ہیں، جب کہ وہ صرف پیٹ بھراؤ چیزیں ہیں، ان میں غذائیت نہیں ہے)۔
۵) قحط، خشک سالی، استعماریت، جنگ کے لئے سرمایہ گذاری، اسلحہ کے کمرشکن مصارف قتل و غارت گری ان چیزوں کی بنا پر غذائی اشیاء میں شدید قلت پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے بعض لوگ بھکمری کا شکار ہوجاتے ہیں۔
یہ حالات دجال کے منصوبہ بند پروگرام کا نتیجہ ہیں جس سے وہ حسب منشاء استفادہ اٹھاتا ہے۔ کمزوروں، غریبوں اور زحمت کشوں کی امداد کے بہانے اپنے اقتدار کو استحکام عطا کرتا ہے۔
بعض روایتوں میں ہے ک دجّال کی سواری کے ہر بال سے مخصوص قسم کا ساز سنائی دے گا یہ روایت آج کل کی دنیا پر کس قدر منطبق ہو رہی ہے کہ دنیا کے گوشہ گوشہ میں موسیقی کا جال بچھا ہوا ہے کوئی گھر سازو آواز سے خالی نہیں ہے۔
خواہ دجال ایک مخصوص شخص کا نام ہو، خواہ دجال کی صفات "علامتی عنوان" کی حیثیت رکھتی ہوں، بہر حال عالمی انقلاب کے منتظر افراد، اور حضرت مھدی (عج) کے جانبازوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دجال صفت افراد سے مرعوب نہ ہوں اور ان کے دام فریب میں گرفتار ہوں۔ انقلاب کے لئے زمین ہم وار کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے رہیں، اور کسی وقت بھی ناکامی اور سستی کے احساس کو اپنے قریب نہ آنے دیں۔
۲) سفیانی کا ظھور
دجال کی طرح سفیانی کا بھی تذکرہ شیعہ اور سنّی روایات میں ملتا ہے۔ عالمی انقلاب کے نزدیک زمانے میں سفیانی کا ظھور ہوگا۔
بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ سفیانی ایک معین شخص کا نام ہے جو ابوسفیان کی نسل سے ہوگا۔ لیکن بعض دوسری روایتوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ سفیانی صرف ایک فرد کا نام نہیں ہے بلکہ یہ نام ان تمام افراد کو شامل ہے، جن میں سفیانی صفات پائی جاتی ہیں۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک روایت ہے جس سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ سفیانی شخص سے زیادہ صفات کا نام ہے۔ سفیانی بھی ایک علامتی عنوان ہے کہ ہر مصلح کے مقابلے میں کوئی نہ کوئی سفیانی ضرور ظاھر ہوگا۔
وہ روایت یہ ہے:
امر السفیانی حتم من الله ولا یکون قائم الا بسفیانی
"سفیانی کا ظھور لازمی اور ضروری ہے۔ اور ہر قیام کرنے والے کے مقابلے میں ایک سفیانی موجود ہے۔"
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت نقل ہوئی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:
انا واٰل ابی سفیان اهل بیتین تعادینا فی الله! قلنا صدق الله وقالوا کذب الله! قاتل ابوسفیان رسول الله و قاتل معاویة علی ابن ابی طالب و قاتل یزید بن معاویة الحسین بن علی والسفیانی یقاتل القائم
"ہم اور آل ابوسفیان دو خاندان ہیں جنھوں نے اللہ کی راہ میں ایک دوسرے کی مخالفت کی۔ ہم نے الہی پیغامات کی تصدیق کی اور انھوں نے الٰہی پیغامات کی تکذیب، ابوسفیان نے رسول خدا (ص) سے جنگ کی، معاویہ نے حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کی، معاویہ کے بیٹے یزید نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا اور سفیانی قائم (عج) سے برسر بیکار ہوگا۔"
گذشتہ صفحات میں بیان کیا جاچکا ہے کہ تعمیری اقدامات کے مقابلہ میں دجال صفت افراد کس طرح سرگرم رہیں گے، ذیل کی سطروں میں سفیانیوں کی سرگرمیاں ملاحظہ ہوں۔ سفیانیوں کی شاہ فرد اور اس ناپاک سلسلے کی ابتداء کا نام ہے ابوسفیان! جس میں یہ خصوصیات تھیں:۔
۱) لوٹ مار، ڈاکہ، قتل، غارت گری کے ذریعہ سرمایہ دار بنا تھا۔ دوسروں کے حقوق چھین چھین کر مالدار ہوگیا تھا۔
۲) شیطانی حربوں سے قدرت و طاقت حاصل کی تھی۔ مکہ اور مضافات کی ریاست اسی کے ہاتھوں میں تھی۔
۳) جاہلی اور طبقاتی نظام کا مکمل نمونہ تھا۔ وہ جی جان سے بتوں اور بت پرستی کی حمایت کرتا تھا تفرقہ اندازی اس کا بہترین مشغلہ تھا، اور یہی اس کی حکومت کا راز تھا۔
اسلام ان تمام باتوں کا شدت سے مخالف تھا اور ہے۔ اسلام کے آنے کے بعد اس کی ساری شخصیت پر پانی پڑگیا۔ اس کی سرمایہ داری، طاقت اور ریاست سب ختم ہوگئی۔ کیونکہ اسلام نے وہ تمام ذرائع یکسر ختم کردیے جن کے ذریعہ ابوسفیان سرمایہ دار، قدرت مند اور سردار قوم بنا تھا۔ اسی لئے وہ برابر اسلام سے جنگ کرتا رہا مگر ہر مرتبہ ہزیمت اٹھاتا رہا۔ اس طرح ابوسفیان کے جیتے جی اس کی شخصیت زندہ درگور ہوگئی فتح مکہ کے بعد ابوسفیان نے بادل ناخواستہ اسلام تو قبول کرلیا، مگر اسلام دشمنی میں کوئی کمی نہیں آئی، اور اسلام دشمنی نسلاً بعد نسل اس کی اولاد میں منتقل ہوتی رہی ۔ معاویہ کو ورثہ میں اسلام اور آل محمد (ص) کی دشمنی ملی اور معاویہ نے یزید میں یہ جراثیم منتقل کردیے۔
جس وقت حضرت مھدی (عج) کا ظھور ہوگا اس وقت بھی ابوسفیان کی نسل کا ایک سفیانی، یا ابوسفیان کی صفات کا ایک مجسمہ ایک سفیانی حضرت کے خلاف صف آراء ہوگا۔ اس کی بھرپور کوشش یہ ہوگی کہ انقلاب نہ آنے دے یا کم از کم انقلاب کی راہ میں رکاوٹیں ایجاد کرکے انقلاب کو جلدی نہ آنے دے۔
دجّال اور سفیانی دونوں کا مقصد ایک ہی ہے، مگر جو فرق ہوسکتا ہے وہ یہ کہ دجال کی سرگرمیاں پوشیدہ پوشیدہ ہوں گی جبکہ سفیانی کھلے عام مخالف اور جنگ کرے گا۔
بعض روایت کے مطابق سفیانی زمین کے آباد حصوں پر حکمرانی کرے گا۔ جس طرح ابوسفیان معاویہ، یزید نے حکومتیں کی ہیں۔
آخری زمانے کا یہ سفیانی بھی اس طرح ہزیمت اُٹھائے گا جس طرح اس کے قبل ابوسفیان اور بقیہ سفیانیوں نے اپنے اپنے زمانے کے مصلح سے ہزیمت اٹھائی ہے۔
ہاں پر ہم ایک بار پھر یہ بات گوش گزار کریں گے کہ آخری زمانے کے انتظار کرنے والوں اور حضرت مھدی (عج) کے جانباز سپاہیوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ ہر طرح کے دجالوں اور سفیانیوں سے ہوشیار رہیں خواہ وہ کسی لباس، کسی صورت اور کسی انداز سے کیوں نہ پیش آئیں کیونکہ سفیانیوں کی ہم یشہ یہ کوشش رہی ہے کہ شائستہ افراد، متقی و پرہیز گار اور مصلحین سماجی سرگرمیوں سے بالکل کنارہ کش ہوجائیں، تاکہ یہ لوگ بے روک ٹوک اپنے منصوبوں کو عملی بنا سکیں جس کی مثالیں معاویہ کی حکومت میں بے شمار ہیں۔
۳) طولانی غیبت
علامات ظھور کے ذیل میں ابھی یہ تذکرہ کرچکے ہیں کہ ظلم و استبداد کی ہم ہ گیری کسی عالمی مصلح کی آمد کی خبر دے رہی ہے۔ شب کی سیاہی سپیدۂ سحری کا مژدہ سنا رہی ہے۔
اس صورت میں ایک سوال ذہن میں کروٹیں لیتا ہے اور وہ یہ کہ جب ظلم اتنا پھیل چکا ہے تو ظھور میں تاخیر کیوں ہورہی ہے؟ استبداد کی ہم ہ گیری کے باوجود غیبت طولانی کیوں ہورہی ہے؟
اس سوال کے جواب کے لئے یہ باتیں قابل غور ہیں۔
(۱) گزشتہ انبیاء اور رسولوں کے انقلاب کی طرح حضرت مھدی (عج) کا انقلاب بھی طبیعی علل و اسباب پر مبنی ہوگا۔ اس انقلاب کی کوئی اعجازی شکل و صورت نہ ہوگی۔ معجزات تو خاص خاص صورتوں سے مخصوص ہیں۔ جس طرح پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی ۲۳ سالہ تبلیغی زندگی میں خاص مواقع کے علاوہ ہر جگہ عام علل و اسباب سے کام لیا ہے۔
اسی لئے ہم یں ملتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنے مشن کی تبلیغ و توسیع میں روز مرّہ کے وسائل سے استفادہ کرتے تھے مثلاً افراد کی تربیت، مسائل میں مشورہ، منصوبہ کی تشکیل، جنگ کے لیے نقشہ کشی خلاصہ یہ کہ ہر مادی اور معنوی وسائل سے استفادہ کرتے اور اسی سے اپنے مشن کو آگے بڑھاتے تھے۔ وہ میدان جنگ میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی معجزے کا انتظار نہیں کرتے تھے، بلکہ خدا پر بھروسہ کر کے اپنی طاقت سے جنگ لڑتے تھے اور کامیاب ہوتے تھے۔
اسی طرح حضرت مھدی (عج) اپنے عالمی انقلاب میں روز مرہ کے وسائل سے استفادہ کریں گے۔ الٰہی منصوبوں کو عملی بنائیں گے ان کا کام الٰہی پیغام کی تبلیغ ہی نہیں بلکہ وہ الٰہی احکام کو ان کی صحیح شکل میں نافذ کریں گے۔ وہ دنیا سے ہر طرح کا ظلم و جور کا خاتمہ کردیں گے اتنا بڑا کام صرف یونہی نہیں ہوجائے گا بلکہ اس کے لئے بہت سی چیزیں ضروری ہیں۔
(۲) گذشتہ بیان سے یہ بنیادی بات واضح ہوگئی کہ انقلاب سے پہلے بعض چیزوں کا وجود ضروری ہے۔ عوام میں کئی اعتبار سے آمادگی درکار ہے۔
ایک: قبولیت
دنیا کی نا انصافیوں کی تلخیوں کو دنیا والے باقاعدہ احساس کریں۔ انسان کے خود ساختہ قوانین کے نقائص اور اس کی کمزوریوں کو بھی سمجھیں۔
لوگوں کو اس حقیقت کا باقاعدہ احساس ہوجائے کہ مادی قوانین کے سایہ میں حیاتِ انسانی کو سعادت نصیب نہیں ہوسکتی ہے۔ انسان کے خود ساختہ قوانین کے لئے کوئی "نفاذی ضمانت" نہیں ہے بلکہ انسان کے خود ساختہ قوانین مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں کمی نہیں۔ یہ احساس بھی ہونا چاہئے کہ موجودہ افراتفری کا سبب خود ساختہ نظام ھائے حیات ہیں۔
لوگوں کو اس بات کا بھی احساس ہونا چاہئے کہ یہ دنیا اسی وقت سدھر سکتی ہے جب میں ایسا نظام نافذ ہوگا جس کی بنیاد معنویت، انسانی اور اخلاقی اقدار پر ہو، جہاں معنویت اور مادیت دونوں کو جائز حقوق دیے گئے ہوں۔ جس میں انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو بہ حد اعتدال سیراب کیا گیا ہو۔
اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی باور ہوجائے کہ صنعت اور ٹکنالوجی کے میدانوں میں چشم گیر اور حیرت انگیز ترقیاں انسان کو سعادت عطا نہیں کرسکتی ہیں۔ البتہ شقادت ضرور تقسیم کرسکتی ہیں۔ ہاں اس صورت میں ضرور مفید ثابت ہوسکتی ہیں جب یہ ترقیاں معنوی، انسانی اور اخلاقی اصولوں کے زیر سایہ حاصل کی جائیں۔
مختصر یہ کہ جب خوب تشنہ نہیں ہوں گے اس وقت تک چشمہ کی تلاش میں تگ و دو نہیں کریں گے۔
یہ تشنگی کچھ تو رفتہ رفتہ وقت گذرنے سے حاصل ہوگی اور کچھ کے لیے تعلیم و تربیت درکار ہوگی، یہ دنیا کے مفکرین کا کام ہے کہ ہر ایک میں یہ احساس بیدار کردیں کہ انسان کے خود ساختہ قوانین دنیا کی اصلاح نہیں کرسکتے ہیں بلکہ اس کے لئے ایک عالمی انقلاب درکار ہے۔ بہر حال اس میں وقت لگے گا۔
دو۔ ثقافتی اور صنعتی ارتقاء
ساری دنیا کے لوگ ایک پرچم تلے جمع ہوجائیں، حقیقی تعلیم و تربیت کو انتا زیادہ عام کیا جائے کہ فرد فرد اس بات کا قائل ہوجائے کہ زبان، نسل، علاقائیت ہرگز اس بات کا سبب نہیں بن سکتے کہ تمام دنیا کے باشندے ایک گھر کے افراد کی طرح زندگی بسر نہ کرسکیں۔
دنیا کی اقتصادی مشکلات اسی وقت حل ہوسکتی ہیں جب ثقافت اور افکار میں ارتقاء اور وسعت پیدا ہو۔ اسی کے ساتھ صنعت بھی اتنا ترقی یافتہ ہوکہ دنیا کا کوئی گوشہ اس کی دسترس سے دور نہ ہو۔
بعض روایتوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت مھدی (عج) کے ظھور کے بعد صنعت خاص طور پر ٹرانسپورٹ اتنی زیادہ ترقی یافتہ ہوجائے گی کہ یہ وسیع و عریض دنیا نزدیک شھروں کے مانند ہوجائے گی۔ مشرق و مغرب میں بسنے والے اس طرح زندگی بسر کریں گے جس طرح ایک گھر کے افراد زندگی بسر کرتے ہیں۔
ظھور کے بعد ہوسکتا ہے کہ ترقیاں انقلابی صورت میں رونما ہوں مگر اتنا ضرور ہے کہ ظھور کے لئے علمی طور پر آمادگی ضروری ہے۔
تین: انقلابی گروہ
ایسے افراد کی موجودگی ضروری ہے جو انقلاب میں بنیادی کردار ادا کرسکیں، ایسے افراد کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو، مگر عملی اعتبار سے ہر ایک بھرپور انقلابی ہو اور انقلابی اصولوں پر جی جان سے عامل ہو، غیر معمولی شجاع، دلسوز، فداکار، جانباز اور جاں نثار ہو۔
اس دھکتی ہوئی دنیا اور خزاں رسیدہ کائنات میں ایسے پھول کھلیں جو گلستاں کا مقدمہ بن سکیں جو بہار کا پیش خیمہ ہوسکیں۔ انسانوں کے ڈھیر سے ایسے عالی صفت افراد نکلیں جو آئندہ انقلاب کی مکمل تصویر ہوں۔
ایسے افراد کی تربیت خود معصوم رہبر کے سپرد ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ ایسے افراد کی تربیت کا انتظام کریں۔ چونکہ ہر کام معجزے سے نہیں ہوگا، لھٰذا یہاں بھی وقت درکار ہے۔
بعض روایتوں میں حضرت مھدی (عج) کی غیبت کے طولانی ہونے کا سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ خالص ترین افراد سامنے آجائیں، جو ہر طرح کے امتحانوں میں کامیاب ہوچکے ہوں۔
اس بات کی وضاحت کی ضرورت ہے کہ الٰہی امتحان اور آزمائش کا مطلب ممتحن کے علم میں اضافہ کرنا نہیں ہے بلکہ امتحان دینے والوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کا اظھار ہے یعنی وہ استعداد جو قوت کی منزل میں ہے اسے فعلیت عطا کرنا ہے۔
گذشتہ بیان سے یہ بات کسی حد تک ضرور واضح ہوگئی ک حضرت مھدی (عج) کے ظھور میں تاخیر کیوں ہورہی ہے تاخیر کا سبب ہم ارے نواقص اور کمزوریاں ہیں، ورنہ اس طرف سے کوئی تاخیر نہیں ہے۔ جس وقت ہم اپنے نواقص کو ختم اور کمزوریوں کو دور کرلیں گے اس وقت ظھور ہوجائے گا۔ جس قدر جلد ہم اس مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے اتنا ہی جلد ظھور ہوگا۔
زمانۂ غیبت میں وجودِ امام کا فائدہ
حضرت مھدی عجل اللہ فرجہ کی غیبت کا جب تذکرہ ہوتا ہے تو یہ سوال ذہنوں میں کروٹیں لینے لگتا ہے کہ امام یا رہبر کا وجود اسی صورت میں مفید اور قابل استفادہ ہے جب وہ نگاہوں کے سامنے ہو اور اس سے رابطہ برقرار ہوسکتا ہے لیکن اگر امام نظروں سے غائب ہو، اس تک پہونچنا ممکن نہ ہو، ایسی صورت میں وجود امام سے کیا حاصل ؟
بعض کے لئے ہوسکتا ہے کہ یہ سوال نیا معلوم ہو اور کسی "دانشمند" ذہن کی اُپج معلوم ہو مگر خوش قسمتی یا بد قسمتی سے یہ سوال بہت پرانا ہے۔ یہ سوال حضرت مھدی (عج) کی ولادت سے پہلے کیا جاچکا ہے کیونکہ جب حضرت مھدی (عج) اور ان کی غیبت کے بارے میں رسول خدا (ص) یا ائمہ علیہم السلام بیان فرماتے تھے اس وقت بعض لوگ یہی سوال کرتے تھے۔
احادیث میں اس سوال کا جواب متعدد انداز سے دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث قابلِ غور ہے۔ آنحضرت (ص) نے زمانہ غیبت میں حضرت مھدی (عج) کے وجود کا فائدہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ای والذی بعثنی بالنبوة انهم ینتفعون بنور ولایته فی غیبته کانتفاع الناس بالشمس وان جللها السحاب
"
قسم ہے اس ذات اقدس کی جس نے مجھے نبوت پر مبعوث فرمایا، لوگ ان کے نورِ ولایت سے اس طرح فائدہ اٹھائیں گے جس طرح لوگ سورج سے اس وقت استفادہ کرتے ہیں جب وہ بادلوں کی اوٹ میں ہوتا ہے۔"
اس حدیث کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم پہلے یہ سمجھیں کہ نظام کائنات میں آفتاب کیا کردار ادا کرتا ہے۔
آفتاب دو طرح اپنا نور پھیلاتا ہے ایک بلا واسطہ اور دوسرے بالواسطہ۔ دوسرے لفظوں میں ایک واضح اور دوسرے پوشیدہ۔
جس وقت آفتاب بلا واسطہ اور واضح نور پھیلاتا ہے، اس وقت اس کی شعاعیں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ زمین کے گرد ہوا کی دبیز چادر شعاعوں کی حرارت میں کمی کر دیتی ہے اور ان کے زھریلے اثرات کو ختم کرتی ہے۔ لیکن ہوا کی یہ دبیز چادر آفتاب کو بلا واسطہ نور پھیلانے سے نہیں روکتی۔
لیکن بالواسطہ اور بطور مخفی نور افشانی کی صورت میں بادل آفتاب کے چہرے کو چھپا لیتا ہے اس صورت میں روشنی تو ضرور نظر آتی ہے مگر آفتاب دکھائی نہیں دیتا۔
اس کے علاوہ آفتاب کا نور اور اس کی شعاعیں نظام کائنات میں اہم کردار ادا کرتی ہیں یہ نور اور شعاعیں،
زندہ چیزوں کا رشد و نمو،
غذا اور بقائے نسل،
حس و حرکت،
خشک زمینوں کی آبیاری،
دریا کی موجوں کا جوش و خروش،
نسیم سحر کی اٹکھیلیاں،
پژمردگی کو حیات نو عطا کرنے والی بارش،
آبشاروں کے نغمے،
مرغانِ چمن کی خوش الحانیاں،
پھولوں کی نزاکت اور طراوٹ،
انسان کی رگوں میں خون کی گردش اور دل کی دھڑکن،
ذہن بشر میں فکر کی جولانیاں،
طفلِ شیر خوار کی طرح کیوں کی مسکراھٹ۔
یہ ساری کرشمہ سازی آفتاب کے نور اور اس کی شعاعوں کی بدولت ہے۔ اگر لمحہ بھر بھی زمین کا رشتہ آفتاب سے منقطع ہوجائے تو پھر نور پر ظلمتوں کا راج ہوجائے اور نظام کائنات درہم برہم ہوجائے۔
ہاں ایک سوال کیا جاسکتا ہے۔ یہ ساری باتیں صرف اس صورت میں ہیں جب آفتاب بلا واسطہ نور پھیلا رہا ہو۔؟
ھر شخص نفی میں جواب دے گا۔ جب آفتاب کا نور بالواسطہ زمین تک پہونچ رہا ہو اس وقت بھی آثار حیات باقی رھتے ہیں۔ بالواسطہ نور افشانی کی صورت میں صرف وہی آثار ختم ہوتے ہیں جن کا تعلق بلا واسطہ نور افشانی سے ہوتا ہے، بالواسطہ نور افشانی میں وہ جراثیم ضرور پھیل جاتے ہیں جن کے حق میں بلا واسطہ نور افشانی زھر ھلاہل ہے۔
اب تک بادلوں کی اوٹ میں آفتاب کے اثرات کا تذکرہ تھا۔ اب ذرا یہ دیکھیں، کہ غیبت کے زمانے میں دینی رہبروں کے فوائد کیا ہیں اور اس کے اثرات کیا ہیں۔
غیبت کے زمانے میں وجود امام کی نامرئی شعاعیں مختلف اثرات رکھتی ہیں۔
۱) اُمّید
میدان جنگ میں جاں نثار بہادر سپاہیوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی بھی صورت پرچم سرنگوں نہ ہونے پائے جبکہ دشمن کی پوری طاقت پرچم سرنگوں کرنے پر لگی رھتی ہے کیونکہ جب تک پرچم لہراتا رہتا ہے، سپاہیوں کی رگوں میں خون تازہ دوڑتا رہتا ہے۔
اسی طرح مرکز میں سردار لشکر کا وجود سردار خاموش ہی کیوں نہ ہو سپاہیوں کو نیا عزم اور حوصلہ عطا کرتا رہتا ہے۔
اگر لشکر میں یہ خبر پھیل جائے کہ سردار قتل ہوگیا تو اچھا خاصا منظم لشکر متفرق ہوجاتا ہے سپاہیوں کے حوصلے منجمد ہوجاتے ہیں۔
قوم شیعہ جس کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کے امام زندہ ہیں، اگر چہ بظاھر امام نظر نہیں آتے ہیں، اس کے باوجود یہ قوم خود کو کبھی تنہا محسوس نہیں کرتی۔ اسے اس بات کا یقین کہ اس کا رہبر موجود ہے جو ان کے امور سے واقف ہے ہر روز رہبر کی آمد کا انتظار رہتا ہے یہ انتظار قوم میں تعمیری جذبات کو بیدار رکھتا ہے۔ ماھرین نفسیات اس حقیقت سے خوب واقف ہیں کہ انسان کے حق میں جس قدر "مایوسی" زھر ھلاہل ہے اسی قدر "امید" تریاق، ہے۔
اگر رہبر کا کوئی خارجی وجود نہ ہو بلکہ لوگ اس کے تولد کا انتظار کر رہے ہوں تو صورت حال کافی مختلف ہوجائے گی۔
اگر ایک بات کا اور اضافہ کردیا جائے تو بات کافی اہم ہوجائے گی اور وہ یہ کہ شیعہ روایات میں کافی مقدار میں اس بات کا تذکرہ ملتا ہے کہ غیبت کے زمانے میں امام علیہ السلام اپنے ماننے والوں کی باقاعدہ حفاظت کرتے ہیں۔ ہر ہفتہ اُمّت کے سارے اعمال امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش کردیے جاتے ہیں۔
یہ عقیدہ ماننے والوں کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ ہم یشہ اپنے اعمال کا خیال رکھیں کہ ان کا ہر عمل امام علیہ السلام کی نظر مبارک سے گزرے گا۔ لھٰذا اعمال ایسے ہوں جو امام علیہ السلام کی بارگاہ اقدس کے لائق ہوں جن سے امام خوش ہوں۔ یہ طرز فکر کس قدر تعمیری ہے اس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔
۲) دین کی حفاظت
حضرت علی علیہ السلام نے ایک مختصر سے جملے میں امام کی ضرورت کو بیان فرمایا ہے اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ زمین کسی بھی صورت میں الٰہی نمائندے سے خالی نہیں رہ سکتی ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں:
اللهمّ بلیٰ لاتخلوا الارض من قائم لله بحجّة اما ظاهراً مشهورا او خائفا مغمورا لئلا تبطل حجج الله وبیناته
ھاں واللہ زمین کبھی بھی الٰہی دلیل، قائم اور حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی خواہ یہ حجت ظاھر و آشکارا ہو اور خواہ پوشیدہ و مخفی۔ تاکہ اللہ کی دلیلیں اور اس کی نشانیان ضائع نہ ہونے پائیں۔
ھر روز ہی شخصی نظریات کو مذہب کا رنگ دیا جارہا ہے خود غرض اور فتنہ پرداز افراد آسمانی تعلیمات کی حسب خواہش توضیح و تفسیر کر رہے ہیں جس کی بنا پر اصلی اسلام میں اتنی خرافات شامل ہوگئی ہیں کہ ایک عام انسان کے لئے صحیح اسلام کی تلاش محال نہیں تو دشوار ضروری ہے۔
وحی کے ذریعہ آسمان سے نازل شدہ آب حیات میں اجنبی نظریات کی آمیزش سے وہ تازگی اور بالیدگی نہ رہی جو صدر اسلام میں تھی۔ ایسی صورت میں ایک ایسے فرد کی موجودگی سخت ضروری ہے جس کے پاس آسمانی اسناد اپنی اصلی صورت میں ہوں۔ اب کسی پر وحی تو نازل ہوگی نہیں۔ کیونکہ آنحضرت (ص) کی وفات کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا لھٰذا اس زمانے میں بھی ایک معصوم فرد کا وجود لازمی ہے جو اسلامی تعلیمات کا تحفظ کرسکے، جس کے پاس ہر طرح کی خرافات سے پاک صاف دین موجود ہو۔ اسی حقیقت کی طرف مولائے کائنات نے اشارہ فرمایا ہے کہ "تاکہ اللہ کی دلیلیں اور نشانیاں ضائع نہ ہونے پائیں۔" اور اس طرح حقیقت کے متلاشی افراد حقیقت تک پہونچ سکیں اور ہدایت کے پیاسے سرچشمۂ ہدایت و حیات سے سیراب ہوسکیں۔
۳) فداکاروں کی تربیت
بعض افراد کا خیال ہے کہ غیبت کے زمانے میں امام (ع) کا کوئی تعلق عوام سے نہیں ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل بر خلاف ہے۔ اسلامی روایات میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ غیبت کے زمانے میں بھی امام علیہ السلام سے ایک ایسے خاص گروہ کا رابطہ ضرور برقرار رہے گا جس کا ہر فرد عشق الٰہی سے سرشار، اخلاص کا پیکر، اعمال و اخلاق کی منھ بولتی تصویر اور دلوں میں عالم کی اصلاح کی تمنا لیے ہوئے ہے اسی طریقے سے ان لوگوں کی رفتہ رفتہ تربیت ہورہی ہے، انقلابی امنگیں ان کی روح میں جذب ہوتی جارہی ہیں۔
یہ لوگ اپنے علم و عمل اور تقویٰ و پرہیز گاری سے اتنی بلندی پر ہیں جہاں ان کے
اور آفتابِ ہدایت کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے حقیقت بھی یہی ہے اگر آفتاب بادلوں کی اوٹ میں چلا جائے تو اس کی زیارت کے لئے آفتاب کو نیچے کھینچا جاسکتا بلکہ خود بادلوں کو چیر کر اوپر نکلنا ہوگا تب آفتاب کا رخ دیکھ سکیں گے۔ گذشتہ صفحات میں ہم یہ حدیث نقل کرچکے ہیں کہ پیغمبر اسلام (ص) نے غیبت کی مثال بادلوں میں چھپے ہوئے آفتاب سے دی ہے۔
۴) نامرئی تاثیر
ہم سب جانتے ہیں کہ سورج کی شعاعیں دو طرح کی ہیں، ایک وہ شعاعیں جو دکھائی دیتی ہیں اور دوسرے وہ جو دکھائی نہیں دیتی ہیں۔ اسی طرح آسمانی رہبر اور الٰہی نمائندے دو طرح عوام کی تربیت کرتے ہیں ایک اپنے قول اور عمل کے ذریعے اور دوسرے اپنے روحانی اثرات کے ذریعے۔ اصطلاحی طور پر پہلے طریقے کو "تربیت تشعریعی" اور دوسرے طرز کو "تربیت تکوینی" کہا جاسکتا ہے۔ دوسری صورت میں الفاظ و حروف نہیں ہوتے بلکہ جاذبیت اور کشش ہوتی ہے۔ ایک نگاہ اثر انداز سے روح و جسم میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔ اس طرح کی تربیت کی بے شمار مثالیں اسلامی تاریخ کے صفحات پر جابجا نظر آتی ہیں۔ شاھد کے طور پر جناب زھرقین، جناب حر، جناب ابو بصیر کے پڑوسی (حکومت بنی امیہ کا سابق کارندہ)، قیدخانہ بغداد میں ھارون کی فرستادہ مغنیّہ
۵) مقصد تخلیق
کوئی بھی عقلمند بے مقصد قدم نہیں اٹھاتا ہے۔ ہر وہ سفر جو علم و عقل کی روشنی میں طے کیا جائے اس کا ایک مقصد ضرور ہوگا۔ فرق صرف یہ ہے کہ جب انسان کوئی با مقصد کام انجام دیتا ہے تو اس کا مقصد اپنی ضروریات پورا کرنا ہوتا ہے لیکن جب خدا کوئی کام انجام دیتا ہے تو اس میں بندوں کا فائدہ پوشیدہ ہوتا ہے کیونکر خدا ہر چیز سے بے نیاز ہے۔
اب ذرا اس مثال پر توجہ فرمائیے:
ایک زرخیز زمین میں ایک باغ لگایا جاتا ہے جس میں طرح طرح کے پھل دار درخت اور رنگ برنگ کے خوشنما اور خوشبودار پھول ہیں، ان درختوں کے درمیان کچھ بیکار قسم کی گھاس بھی اُگی ہوئی ہے۔ لیکن اس باغ کی آبیاری کی جائے گی تو گھاس کو بھی فائدہ پہونچے گا۔
ہاں دو مقصد سامنے آتے ہیں:
اصلی مقصد: پھل دار درختوں کی اور پھولوں کی آبیاری،
ثانوی مقصد: گھاس کی آبیاری،
بغیر کسی شک و تردید کے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آبیاری کا سبب اصلی مقصد ہے ثانوی مقصد نہیں۔
اگر اس باغ میں صرف ایک پھل دار درخت باقی رہ جائے جس سے تمام مقاصد پورے ہورہے ہوں، تب بھی آبیاری ہوتی رہے گی اور اس بنا پر کوئی عقل مند آبیاری سے دستبردار نہیں ہوگا کہ ایک درخت کی خاطر کتنی بیکار چیزیں سیراب ہورہی ہیں۔ البتہ اگر باغ میں ایک درخت بھی نہ رہ جائے تو اس صورت میں آبیاری ایک بے مقصد کام ہوگا۔
یہ وسیع و عریض کائنات بھی ایک سر سبز و شاداب باغ کی مانند ہے۔ انسان اس باغ کے درخت ہیں۔ وہ لوگ جو راہ راست پر گامزن ہیں اور روحانی و اخلاقی ارتقاء کی منزلیں طے کر رہے ہیں، وہ اس باغ کے پھل دار درخت ہیں اور خوشبو دار پھول ہیں۔ لیکن وہ افراد جو راہ راست سے منحرف ہوگئے اور جنھوں نے گناہ کی راہ اختیار کی، ارتقاء کے بجائے پستیوں میں گرتے چلے گئے، یہ لوگ اس باغ کی گھاس وغیرہ کہے جاسکتے ہیں۔
یہ چمکتا ہوا آفتاب، یہ نسیم جانفزا، یہ آسمان و زمین کی پے پناہ برکتیں، گناھگاروں اور ایک دوسرے سے دست و گریباں افراد کے لیے پیدا نہیں کی گئی ہیں، بلکہ یہ ساری کائنات اور اس کی تمام نعمتیں خدا کے نیکو کار بندوں کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور وہ دن ضرور آئے گا جب یہ کائنات ظالموں کے ہاتھ سے نکل کر صالحین کے اختیار میں ہوگی۔
ان الارض یرثها عبادی الصالحون
قیناً میرے صالح بندے اس زمین کے وارث ہوں گے۔"
یہ صحیح ہے کہ دنیا میں ہر طرف گناھگاروں اور خدا ناشناس افراد کی اکثریت ہے لیکن کائنات کا حسنِ نظام بتا رہا ہے کہ کوئی ایسی فرد ضرور موجود ہے جس کی خاطر یہ دنیا سجی ہوئی ہے۔ حدیث میں اس بات کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے:
بیمنہ رزق الوریٰ و بوجودہ ثبتت الارض والسماء
ان کی (حجت خدا کی) برکت سے لوگوں کو رزق ملتا ہے اور ان کے وجود کی بنا پر زمین و آسمان قائم ہیں۔"
اسی بات کو خداوند عالم نے حدیث قدسی میں پیغمبر اسلام (ص) کو مخاطب کرکے بیان فرمایا ہے:
لولاک لما خلقت الافلاک
اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمانوں کو نہ پیدا کرتا۔"
زمانۂ غیبت میں وجود امام علیہ السلام کا ایک فائدہ اس کائنات ھستی کی بقاء بھی ہے۔
وہ لوگ جو حقائق سے بہت دور ہیں وہ زمانۂ غیبت میں وجود امام (ع) کے لئے صرف شخصی فائدے کے قائل ہیں اور اس عقیدے کے سلسلے میں شیعوں پر طرح طرح کے اعتراضات کیا کرتے ہیں جبکہ وہ اس بات سے بالکل غافل ہیں کہ خود ان کا وجود امام علیہ السلام کے وجود کی بنا پر ہے۔ یہ کائنات اس لئے قائم ہے کہ امامِ قائم (عج) پردۂ غیبت میں موجود ہیں اگر امام نہ ہوتے تو نہ یہ دنیا ہوتی اور نہ اس دنیا کے بسنے والے
___________________