اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں

اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں0%

اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 69

اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات: صفحے: 69
مشاہدے: 21687
ڈاؤنلوڈ: 3790

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 69 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 21687 / ڈاؤنلوڈ: 3790
سائز سائز سائز
اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں

اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اہلبیت (ع) کے بارے میں غلو

غلو پر تنبیہ

1230۔ امام علی (ع)! خبردار ہمارے بارے میں غلو نہ کرنا، یہ کہو کہ ہم بندہ ہیں اور خدا ہمارا رب ہے، اس کے بعد جو چاہو ہماری فضیلت بیان کرو، (خصال 614 /10 روایت ابوبصیر و محمدبن مسلم عن الصادق (ع) ، غرر الحکم نمبر 2740 ، تحف العقول 104 ، نوادر الاخبار ص 137)۔

1231۔ اما م حسین (ع)! ہم سے اسلام کی محبت میں محبت رکھو کہ رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ خبردار میرے حق سے زیادہ میری تعریف نہ کرنا کہ پروردگار نے مجھے رسول بنانے سے پہلے بندہ بنایاہے۔( المعجم الکبیر 3 ص 128 / 2889 روایت یحییٰ بن سعید)۔

1232۔ امام صادق (ع)! جس نے ہمیں نبی قرار دیا اس پر خدا کی لعنت ہے اور جس نے اس مسئلہ میں شک کیا اس پر بھی خدا کی لعنت ہے۔( رجال کشی (ر) 2 ص 590 / 540 روایت حسن وشاء)۔

1233۔ امام صادق (ع)! ان غالیوں میں بعض ایسے جھوٹے ہیں کہ شیطان کو بھی ان کے جھوٹ کی ضرورت ہے۔( رجال کشی (ر) 2 ص 587 / 536 روایت ہشام بن سالم )۔

1234 ۔ مفضل بن عمر ! میں اور قاسم شریکی اور نجم بن حطیم اور صالح بن سہل مدینہ میں تھے اور ہم نے ربوبیت کے مسئلہ میں بحث کی تو ایک نے دوسرے سے کہا کہ اس بحث کا فائدہ کیا ہے، ہم سب امام سے قریب ہیں اور زمانہ بھی تقیہ کا نہیں ہے، چلو، چل کر انھیں سے فیصلہ کرالیں۔

۴۱

چنانچہ جیسے ہی وہاں پہنچے حضرت بغیر رداء اور نعلین کے باہر نکل آئے اور عالم یہ تھا کہ غصہ سے سرکے سارے بال کھڑے تھے۔

فرمایا ، ہرگز نہیں ۔

ہرگز نہیں، اے مفضل ، اے قاسم، اے نجم، ہم خدا کے محترم بندے ہیں جو کسی بات میں اس پر سبقت نہیں کرتے ہیں اور ہمیشہ اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔( کافی 8 ص 231 / 303)۔

1235۔ امام صادق (ع)! غالیوں کی مذمت کرتے ہوئے۔

خدا کی قسم، ہم صرف اس کے بندہ ہیں جس نے ہمیں خلق کیا ہے اور منتخب کیا ہے، ہمارے اختیار میں نہ کوئی نفع ہے اور نہ نقصان، مالک اگر رحمت کرے تو یہ اس کی رحمت ہے اور اگر عذاب کرے تو یہ بندوں کا عمل ہے، خدا کی قسم ہماری خدا پر کوئی حجت نہیں ہے اور نہ ہمارے پاس کوئی پروانہ برائت ہے، ہمیں موت بھی آتی ہے، ہم دفن بھی ہوتے ہیں ہم قبر سے دوبارہ نکالے بھی جائیں گے، ہمیں عرصہ محشر میں کھڑا کرکے ہم سے حساب بھی لیا جائے گا ۔( رجال کشی 2 ص 49 / 403 روایت عبدالرحمان بن کثیر )۔

1236۔ صالح بن سہل، میں امام صادق (ع) کے بارے میں ان کے رب ہونے کا قائل تھا تو ایک دن حضرت کے پاس حاضر ہوا تو دیکھتے ہی فرمایا صالح ! خدا کی قسم ہم بندہ مخلوق ہیں اور ہمارا ایک رب ہے جس کی ہم عبادت کرتے ہیں اور نہ کریں تو وہ ہم پر عذاب بھی کرسکتاہے ۔( رجال کشی 2 ص 632 / 632، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 219)۔

۴۲

1237۔ اسماعیل بن عبدالعزیز ! امام صادق (ع) نے فرمایا کہ اسماعیل وضو کیلئے پانی رکھو میں نے رکھدیا تو حضرت وضو کے لئے داخل ہوئے ، میں سوچنے لگا کہ میں تو ان کے بارے میں یہ خیالات رکھتاہوں اور یہ وضو کررہے ہیں۔

اتنے میں حضرت نکل آئے اور فرمایا اسماعیل ! طاقت سے اونچی عمارت نہ بناؤ کہ گر پڑے، ہمیں مخلوق قراردو، اس کے بعد جو چاہو کہو۔( بصائر الدرجات 236 / 5 ، الخرائج والجرائح 2 ص 735 / 45 ، الثاقب نی المناقب 452 / 330 ، کشف الغمہ 2 ص 403)۔

1238۔ کامل التمار ! میں ایک دن امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا کہ آپ نے فرمایا، کامل ! ہمارا ایک رب قرار دو جس کی طرف ہماری بازگشت ہے، اس کے بعد جو چاہو بیان کرو۔

میں نے کہا کہ آپ کا بھی رب قرار دیں جو آپ کا مرجح ہو اور اس کے بعد چاہیں کہیں تو بچا کیا ؟

یہ سن کر آپ سنبھل کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ آخر کیا کہنا چاہتے ہو، خدا کی قسم ہمارے علم میں سے ایک الف سے زیادہ تم تک نہیں پہنچاہے۔(مختصر بصائر الدرجات ص 59 ، بصائر الدرجات 507 / 8)۔

1239۔ امام صادق (ع) ! خبردار غالی کے پیچھے نماز نہ پڑھنا چاہے وہ تمھاری جیسی بات کرتاہو اور مجہول الحال کے یپچھے اور کھلم کھلا فاسق کے پیچھے چاہے میانہ روہی کیوں نہ ہو ۔( تہذیب 3 ص 31 / 109 روایت خلف بن حماد ، الفقیہ 1 ص 379 / 1110)۔

۴۳

1240 ۔ امام صادق (ع) !اپنے نوجوانوں کے بارے میں غالیوں سے ہوشیار رہنا یہ انھیں برباد نہ کرنے پائیں کہ غالی بدترین خلق خدا ہیں، جو خدا کی عظمت کو گھٹاتے ہیں اور بندوں کو خدا بناتے ہیں، خدا کی قسم ، غالی یہود ونصاریٰ اور مجوس و مشرکین سے بھی بدتر ہیں ۔( امالی طوسی (ر) 650/ 1349 روایت فضل بن یسار)۔

1241۔ امام رضا (ع)! ہم آل محمد و ہ نقطہ اعتدال ہیں جسے غالی پانہیں سکتاہے اور پیچھے رہنے والا اس سے آگے جا نہیں سکتاہے۔( کافی 1 ص 101 / 3 روایت ابراہیم بن محمد النخزار و محمد بن الحسین )۔

غالیوں سے برات

1242۔ امام علی (ع)! خدایا میں غالیوں سے بری اوربیزار ہوں جس طرح کہ عیسیٰ (ع) بن مریم نصاریٰ سے بیزار تھے۔

خدایا انھیں بے سہارا کردے اور ان میں سے کسی ایک کی بھی مدد نہ کرنا (امالی طوسی (ر) 650 / 1350 روایت اصبغ بن نباتہ، مناقب ابن شہر آشوب ! ص 263)۔

1243۔ امام علی (ع)۔ خبردار ہمارے بارے میں بندگی کی حد سے تجاوز نہ کرنا، اس کے بعد ہمارے بارے میں جو چاہو کہہ سکتے ہو کہ تم ہماری حد تک نہیں پہنچ سکتے ہو اور ہوشیار رہو کہ ہمارے بارے میں اس طرح غلو نہ کرنا جس طرح نصاریٰ نے غلو کیا کہ میں غلو کرنے والوں سے بری اور بیزار ہوں۔(احتجاج 2 ص 453 / 314 ، تفسیر عسکری 50 / 24)۔

۴۴

1244۔ زین العابدین (ع)! یہودیوں نے عزیر سے محبت کی اور جو چاہا کہہ دیا تو نہ ان کا عزیز سے کوئی تعلق رہا اور نہ عزیر کا ان سے کوئی تعلق رہا، یہی حال محبت عیسیٰ میں نصاریٰ کا ہوا ، ہم بھی اسی راستہ پر چل رہے ہیں، ہمارے چاہنے والوں میں بھی ایک قوم پیدا ہوگی جو ہمارے بارے میں یہودیوں اور عیسائیوں جیسی بات کہے گی تو نہ ان کا ہم سے کوئی تعلق ہوگا اور نہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہوگا ۔( رجال کشی (ر) 1 ص 336 / 191 روایت ابوخالد کابلی)۔

1245 ۔ الہروی ! میں نے امام (ع) رضا سے عرض کیا کہ فرزند رسول ! یہ آخر لوگ آپ کی طرف سے کیا نقل کررہے ہیں؟

فرمایا کیا کہہ رہے ہیں؟

عرض کی کہ لوگ کہہ رہے ہیں آپ حضرات لوگوں کو اپنا بندہ تصور کررہے ہیں ! آپ نے فرمایا کہ خدایا، اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے اور حاضر و غائب کے جاننے والے ! تو گواہ ہے کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی اور نہ میرے آباء و اجداد نے کہی ہے ، تجھے معلوم ہے کہ اس امت کے مظالم ہم پر کس قدر زیادہ ہیں یہ ظلم بھی انھیں میں سے ایک ہے۔

اس کے بعد میری طرف رخ کرکے فرمایا، عبدلاسلام ! اگر سارے بندے ہمارے ہی بندے اور غلام ہیں تو ہم انھیں کس کے ہاتھ فروخت کریں گے ؟ میں نے عرض کیا کہ آپ نے سچ فرمایا۔

اس کے بعد فرمایا کہ خدا نے جو ہمیں حق ولایت دیاہے کیا تم اس کے منکر ہو؟

میں نے عرض کیا کہ معاذ اللہ ۔ میں یقیناً آپ کی ولایت کا اقرار کرنے والاہوں۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 184 / 6)۔

گویا ظالموں نے اس حق ولایت الہیہ کی غلط توجیہہ کرکے اس کا مطلب یہ نکال لیا اور اسے اہلبیت (ع) کو بدنام کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے ۔ جوادی

۴۵

1246۔ الحسن بن الجہم ! میں ایک دن مامون کے دربار میں حاضر ہوا تو حضرت علی بن موسی الرضا (ع) بھی موجود تھے اور بہت سے فقہاء ور علماء علم کلام بھی موجود تھے، ان میں سے بعض افراد نے مختلف سوالات کئے اور مامون نے کہا کہ یا اباالحسن ! مجھے یہ خبر ملی ہے کہ ایک قوم آپ کے بارے میں غلو کرتی ہے اور حد سے آگے نکل جاتی ہے۔

آپ نے فرمایا کہ میرے والد بزرگوار حضرت موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) نے اپنے والد جعفر (ع) بن محمد (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد محمد (ع) بن علی (ع)سے اور انھوں نے اپنے والد علی (ع) بن الحسین (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد حسین بن علی (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد علی (ع) بن ابی طالب (ع) سے رسول اکرم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ خبردار مجھے میرے حق سے اونچا نہ کرنا کہ پروردگار نے مجھے نبی بنانے سے پہلے بندہ بنایاہے اور اس کا ارشاد ہے ” کسی بشر کی یہ مجال نہیں ہے کہ خدا اسے کتاب و حکمت و نبوت عطا کرے اور وہ بندوں سے یہ کہہ دے کہ خدا کو چھوڑ کر میری بندگی کرو، ان سب کا یپغام یہ ہوتاہے کہ اللہ والے نبو کہ تم کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور اسے پڑھتے ہو اور وہ یہ حکم بھی نہیں دے سکتاہے کہ ملائکہ یا انبیاء کو ارباب قرار دیدو، کیا وہ مسلمانوں کو کفر کا حکم دے سکتاہے۔( آل عمران آیت 79 ، 80)۔

اور حضرت علی (ع) نے فرمایاہے کہ میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوجائیں گے اور اس میں میرا کوئی قصور نہ ہوگا، حد سے آگے نکل جانے والا دوست اور حد سے گرا دینے والا دشمن اور میں خدا کی بارگاہ میں غلو کرنے والوں سے ویسے ہی برات کرتاہوں جس طرح عیسٰی نے نصاریٰ سے برائت کی تھی۔

۴۶

جب پروردگار نے فرمایا کہ ” عیسیٰ (ع)! کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیاہے کہ خدا کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو خدا مان لو اور انھوں نے عرض کی کہ خدایا تو خدائے بے نیاز ہے اور میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں کوئی خلاف حق بات کہوں، اگر میں نے ایسا کہا ہے تو تجھے خود ہی معلوم ہے کہ تو میرے دل کے راز بھی جانتاہے اور میں تیرے علم کو نہیں جانتاہوں، تو تمام غیب کا جاننے والا ہے، میں نے ان سے وہی کہا ہے جس کا تو نے حکم دیا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی رب ہے اور میں ان کا نگراں تھا جب تک ان کے درمیان رہا، اس کے بعد جب تو نے میری مدت عمل پوری کردی تو اب تو ان کا نگراں ہے اور ہر شے کا شاہد اور نگراں ہے“۔ (مائدہ نمبر 116 ، 117)۔

اور پھر مالک نے خود اعلان کیاہے کہ مسیح بن مریم صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں اور ان کی ماں صدیقہ ہیں اور یہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔( مائدہ نمبر 75)۔ ” مسیح بندہ خدا ہونے سے انکار نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ملائکہ مقربین اس بات کا انکار کرسکتے ہیں۔( نساء 172)۔

لہذا جو بھی انبیاء کے بارے میں ربوبیت کا ادعا کرے گا یا ائمہ کو رب یا نبی قرار دے گا یا غیر امام کو امام قرار دے گا ہم اس سے بری اور بیزار رہیں گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔(عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 200 / 1)۔

1247۔ امام رضا (ع) مقام دعا میں ! خدایا میں ہر طاقت و قوت کے ادعاء سے بری ہوں اور طاقت و قوت تیرے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے میں ان تمام لوگوں سے بھی بری ہوں جو ہمارے حق سے زیادہ دعویٰ کرتے ہیں اور ان سے بھی بری ہوں جو وہ کہتے ہیں جو ہم نے اپنے بارے میں نہیں کیاہے۔

۴۷

خدایا خلق و امر تیرے لئے ہے، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔

خدایا ! تو ہمارا بھی خالق ہے اور ہمارے آباء و اجداد کا بھی خالق ہے۔

خدایا ربوبیت کے لئے تیرے علاوہ کوئی سزاوار نہیں ہے اور الوہیت تیرے علاوہ کسی کے لئے سزاوار نہیں ہے۔

خدایا ان نصاریٰ پر لعنت فرما جنھوں نے تیری عظمت کو گھٹا دیا اور ایسے ہی تمام عقیدہ والوں پر لعنت فرما۔

خدایا ہم تیرے بندے اورتیرے بندوں کی اولاد ہیں، تیرے بغیر اپنے واسطے نفع، نقصان، موت و حیات اور حشر و نشر کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے ہیں ۔

خدایا ! جس نے یہ خیال کیا کہ ہم ارباب ہیں ہم ان سے بیزار ہیں اور جس نے یہ کہا کہ تخلیق ہمارے ہاتھ میں ہے یا رزق کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے ہم اس سے بھی بیزار ہیں جس طرح عیسیٰ (ع) نصاریٰ سے بیزار تھے۔

خدایا ہم نے انھیں ان خیالات کی دعوت نہیں دی ہے لہذا ان کے مہملات کا ہم سے مواخذہ نہ کرنا اور ہمیں معاف کردینا ۔

خدایا زمین پر ان کافروں کی آبادیوں کو باقی نہ رکھنا کہ اگر یہ رہ گئے تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی اولاد بھی فاجر اور کافر ہوگی۔( الاعتقادات ، صدوق (ر) ص 99)۔

۴۸

غالیوں کا کفر

1248۔ رسول اکرم ! میری امت کے دو گروہ ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہمارے اہلبیت(ع) سے جنگ کرنے والے اور دین میں غلو کرکے حد سے باہر نکل جانے والے۔( الفقیہ 3 ص 408 / 2425)۔

1249۔ امام صادق (ع)! کم سے کم وہ بات جو انسان کو ایمان سے باہر نکال دیتی ہے یہ ہے کہ کسی غالی کے پاس بیٹھ کر اس کی بات سنے اور پھر تصدیق کردے۔

میرے پدر بزرگوار نے اپنے والد ماجد کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم نے فرمایاہے کہ میری امت کے دو گروہوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے غالی اور قدریہ ۔( خصال 72 / 109 روایت سالم)۔

غالی:

وہ لوگ جو کسی بھی ہستی کو اس کی حد سے آگے بڑھادیتے ہیں اور بندہ کے بارے میں خالق و رازق ہونے کا عقیدہ پیدا کرلیتے ہیں۔

۴۹

قدریہ

جو لوگ کہ خیر و شر سب کا ذمہ دار خدا کو قرار دیتے ہیں یا بقولے تقدیر الہی کے سرے سے منکر ہیں۔

تشبیہ

جو لوگ خالق کو مخلوق کی شبیہ اور اس کے صفات کو مخلوقات کے صفات جیسا قرار دیتے ہیں انھیں مشبہ کہا جاتاہے۔

تفویض

کائنات کے تمام اختیارات کو بندہ کے حوالہ کرکے خدا کو معطل کردینا۔

1250۔ امام (ع) صادق نے مفضل سے ابوالخطاب کے اصحاب اور دیگر غالیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا، مفضل ! خبردار ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اور مصافحہ و تعلقات نہ رکھنا ۔( رجال کشی (ر) 2 ص 586 / 525)۔

1251۔ امام صادق (ع)! خدا مغیرہ بن سعید پر لعنت کرے کہ وہ میرے والد پر بہتان باندھتا تھا، خدا نے اسے لوہے کا مزہ چھکادیا، خدا ان تمام افراد پر لعنت کرے جو ہمارے بارے میں وہ کہیں جو ہم خود نہیں کہتے ہیں اور خدا ان افراد پر لعنت کرے جو ہمیں اس اللہ کی بندگی سے الگ کردیں جس نے ہماری تخلیق کی ہے اور جس کی بارگاہ میں ہم کو واپس جاناہے اور جس کے قبضہ قدرت میں ہماری پیشانیاں ہیں۔( رجال کشی (ر) 2 ص 590 / 542 روایت ابن مسکان)۔

1252۔ ہاشم جعفری ! میں نے امام رضا (ع) سے غالیوں اور تفویض والوں کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ غالی کافر ہیں اور تفویض کرنے والے مشرک ہیں جو ان کے ساتھ بیٹھتا ہے یا کھاتا پیتاہے یا تعلقات رکھتاہے یا شادی بیاہ کا رشتہ کرتاہے یا انھیں پناہ دیتاہے یا ان کے پاس امانت رکھتاہے یا ان کی بات کی تصدیق کرتاہے یا ایک لفظ سے ان کی مدد کرتاہے وہ ولایت خدا ولایت رسول اور ولایت اہلبیت (ع) سے خارج ہے۔ ( عیون اخبار الرضا 2 ص 203 / 4)۔

۵۰

1253۔ حسین بن خالد امام رضا (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جو شخص تشبیہ اور جبر کا عقیدہ رکھتاہے وہ کافر و مشرک ہے اور ہم دنیا و آخرت میں اس سے بیزار ہیں ابن خالد ! ہماری طرف سے تشبیہ اور جبر کے بارے میں غالیوں نے بہت سی روایتیں تیار کی ہیں اور ان کے ذریعہ عظمت پروردگار کو گھٹایا ہے لہذا جو ان سے محبت کرے وہ ہمارا دشمن ہے اور جو ان سے دشمنی رکھے وہی ہمارا دوست ہے، جو ان کا موالی ہے وہ ہمارا عدو ہے اور جو ان کا عدو ہے وہی ہمارا موالی ہے جس نے ان سے تعلق رکھا اس نے ہم سے قطع تعلق کیا اور جس نے ان سے قطع تعلق کیا اس نے ہم سے تعلق پیدا کیا ۔

جس نے ان سے بدسلوکی کی اس نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کیا اور جس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اس نے ہمارے ساتھ برا سلوک کیا ، جس نے ان کا احترام کیا اس نے ہماری توہین کی اور جس نے ان کی توہین کی اس نے ہمارا احترام کیا ، جس نے انھیں قبول کرلیا اس نے ہمیں رد کردیا اور جس نے انھیں رد کردیا اس نے ہمیں قبول کرلیا، جس نے ان کے ساتھ احسان کیا اس نے ہمارے ساتھ برائی کی اور جس نے ان کے ساتھ برائی کی اس نے ہمارے ساتھااحسان کیا ، جس نے ان کی تصدیق کی اس نے ہماری تکذیب کی اور جس نے ان کی تکذیب کی اس نے ہماری تصدیق کی ، جس نے انھیں عطا کیا اس نے ہمیں محروم کیا اور جس نے انھیں محروم کیا اس نے ہمیں عطا کیا ۔

فرزند خالد ! جو ہمارا شیعہ ہوگا وہ ہرگز انھیں اپنا دوست اور مددگار نہ بنائے گا ۔( عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 143 / 45 ، التوحید ص 364 ، الاحتجاج 2 ص 400)۔

۵۱

غالیوں کی ہلاکت

1254۔ امام علی (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کے بارے میں دو گروہ ہلاک ہوں گے، حد سے زیادہ تعریف کرنے والا اور بیہود ہ افترا پردازی کرنے والا۔( السنتہ لابن ابی عاصم 475 / 1005)۔

1255۔ امام علی (ع)! میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوجائیں گے، افراط کرنے والا غالی اور دشمنی رکھنے والا کینہ پرور، (فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 571 / 964 روایت ابن مریم ، نہج البلاغہ حکمت نمبر 117 ، خصائص الائمہ ص 124 ، شرح نہج البلاغہ معتزلی 20 ص 220)۔

1256۔ امام علی (ع) عنقریب میرے بارے میں دو گروہ ہلاک ہوجائیں گے، افراط کرنے والا دوست جسے محبت غیر حق تک کھینچ لے جائے گی اور گھٹانے والا دشمن جسے بغض ناحق خیالات تک لے جائے گا، میرے بارے میں بہترین افراد اعتدال والے ہیں لہذا تم سب اسی راستہ کو اختیار کرو۔ ( نہج البلاغہ خطبہ نمبر 127)۔

1257۔ رسول اکرم ! یا علی (ع) ! تمھارے اندر ایک عیسیٰ (ع) بن مریم کی مشابہت بھی ہے کہ انھیں قوم نے دوست رکھا تو دوستی میں اس قدر افراط سے کام لیا کہ بالآخر ہلاک ہوگئے اور ایک قوم نے دشمنی میں اس قدر زیادتی کی کہ وہ بھی ہلاک ہوگئے، ایک قوم حد اعتدال میں رہی اور اس نے نجات حاصل کرلی ، ( امالی طوسی (ر) ص 345 روایت عبید اللہ بن علی ، تفسیر فرات ص 404 کشف الغمہ 1 ص 321)۔

1258۔ امام علی (ع) ! مجھ سے رسول اکرم نے فرمایا کہ تم میں ایک عیسیٰ (ع) کی مثال بھی پائی جاتی ہے کہ یہودیوں نے ان سے دشمنی کی تو ان کی ماں کے بارے میں بکواس شروع کردی اور نصاریٰ نے محبت کی تو انھیں وہاں پہنچا دیا جو ان کی جگہ نہیں تھی۔

۵۲

دیکھو میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوں گے، حد سے زیادہ محبت کرنے والا جو میری وہ تعریف کرے گاجو مجھ میں نہیں ہے اور مجھ سے دشمنی کرنے والا جسے عداوت الزام تراشی پر آمادہ کردے گی ۔( مسند ابن حنبل 1 ص 336 / 1376 ، صواعق محرقہ ص 123 ، مسند ابویعلیٰ 1 ص 274 / 530 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 237 / 742 ، امالی طوسی (ر) 256 / 462 ، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 63 / 263 ، مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 560۔

غلو کی جعلی روایات

1259۔ ابراہیم بن ابی محمود ! میں نے امام رضا (ع) سے عرض کیا کہ فرزند رسول ! ہمارے پاس امیر المومنین (ع) کے فضائل اور آپ کے فضائل میں بہت سے روایات میں جنھیں مخالفین نے بیان کیا ہے اور آپ حضرات نے نہیں بیان کیاہے کیا ہم ان پر اعتماد کرلیں؟

فرمایا ابن ابی محمود، مجھے میرے پدر بزرگوار نے اپنے والد اور اپنے جد کے حوالہ سے بتایا ہے کہ رسول اکرم کا ارشاد ہے کہ جس نے کسی کی بات پر اعتماد کیا گویا اس کا بندہ ہوگیا، اب اگر متکلم اللہ کی طرف سے بول رہاہے تو یہ اللہ کا بندہ ہوگا اوراگر ابلیس کی بات کہہ رہاہے تو یہ ابلیس کا بندہ ہوگا۔

اس کے بعد فرمایا، ابن ابی محمود! ہمارے مخالفین نے ہمارے فضائل میں بہت روایات وضع کی ہیں اور انھیں تین قسموں پر تقسیم کیا ہے ایک حصہ غلو کاہے، دوسرے میں ہمارے امر کی توہین ہے اور تیسرے میں ہمارے دشمنوں کی برائیوں کی صراحت ہے۔

لوگ جب غلو کی روایات سنتے ہیں تو ہمارے شیعوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہماری ربوبیت کے قائل ہیں اور جب تقصیر کی روایات سنتے ہیں تو ہمارے بارے میں یہی عقیدہ قائم کرلیتے ہیں اورجب ہمارے دشمنوں کی نام بنام برائی سنتے ہیں تو ہمیں نام بنام گالیاں دیتے ہیں جبکہ پروردگار نے خود فرمایا ہے کہ غیر خدا کی عبادت کرنے والوں کے معبودوں کو برا نہ کہو ورنہ وہ عداوت میں بلاکسی علم کے خدا کو بھی برا کہیں گے۔

۵۳

ابن ابی محمود! جب لوگ داہنے بائیں جارہے ہوں تو جو ہمارے راستہ پر رہے گا ہم اس کے ساتھ رہیں گے اور جو ہم سے الگ ہوجائیگا ہم اس سے الگ ہوجائیں گے، کم سے کم وہ بات جس سے انسان ایمان سے خارج ہوجاتاہے یہ ہے کہ ذرہ کو گٹھلی کہہ دے اور اسی کو دین بنالے اور اس کے مخالف سے برات کا اعلان کردے۔

ابن ابی محمو د! جو کچھ میں نے کہا ہے اسے یاد رکھنا کہ اسی میں نے دنیا و آخرت کا سارا خیر جمع کردیاہے۔(عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 304 / 63، بشارة المصطفیٰ ص 221)۔

۵۴

کون اہلبیت (ع) سے ہے اور کون نہیں ہے؟

اہلبیت (ع) والوں کے صفات

” جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہوگا“ ( سورہ ابراہیم آیت 36)۔

1260۔ رسول اکرم ۔ ہر متقی انسان میرے وابستگان میں شمار ہوتاہے۔ (الفردوس 1 ص 418 / 1691 روایت انس بن مالک)

1261۔ انس ! رسول اکرم سے دریافت کیا گیا کہ آل محمد سے کون افراد مراد ہیں؟

فرمایا ہر متقی اور پرہیزگار۔

پروردگار نے فرمایا ہے کہ اس کے اولیاء صرف متقین ہیں۔( المعجم الاوسط 3 ص 338 / 2332)۔

1262۔ ابوعبیدہ امام باقر (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جو ہم سے محبت کرے وہ ہم اہلبیت(ع) سے ہے تو میں نے عرض کی میں آپ پر قربان میں بھی آپ سے ہوں؟

فرمایا بیشک کیا تم نے حضرت ابراہیم (ع) کا قول نہیں سناہے کہ جو میرا اتباع کرے وہ مجھ سے ہے۔( تفسیر عیاشی 2 ص 231 / 32)۔

1263۔ امام صادق (ع)! جو تم میں سے تقویٰ اختیار کرے اور نیک کردار ہوجائے وہ ہم اہلبیت سے ہے ۔ راوی نے عرض کی کہ آپ سے فرزند رسول ؟

۵۵

فرمایا بیشک ہم سے ، کیا تم نے پروردگار کا ارشاد نہیں سناہے کہ ” جو ان سے محبت کرے گا وہ ان سے ہوگا“ ( مائدہ 51)۔

اور حضرت ابراہیم (ع) نے کہا ہے کہ جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہوگا، ( دعائم الاسلام 1 ص 62 ، تفسیر عیاشی 2 ص 231 / 33 روایت محمد الحلبئ)۔

1264 ۔ حسن بن موسیٰ الوشاء البغدادی، میں خراسان میں امام رضا (ع) کی مجلس میں حاضر تھا اور زید بن موسیٰ بھی موجود تھے جو مجلس میں موجود ایک جماعت پر فحر کررہے تھے کہ ہم ایسے ہیں اور ایسے ہیں اور حضرت دوسری قوم سے گفتگو کررہے تھے، آپ نے زید کی بات سنی تو فوراً متوجہ ہوگئے۔

فرمایا ۔ زید ! تمھیں کوفہ کے بقالوں کی تعریف نے مغرور بنادیا ہے، دیکھو حضرت فاطمہ (ع) نے اپنی عصمت کا تحفظ کیا تو خدا نے ان کی ذریت پرجہنم کو حرام کردیا لیکن یہ شرف صرف حسن (ع) و حسین (ع) اور بطن فاطمہ (ع) سے پیدا ہونے والوں کے لئے ہے۔

ورنہ اگر موسیٰ بن جعفر (ع) خدا کی اطاعت میں دن میں روزہ رکھیں رات میں نمازیں پڑھیں اور تم اس کی معصیت کرو اور اس کے بعد دونوں روز قیامت حاضر ہوں اور تم ان سے زیادہ نگاہ پروردگار میں عزیز ہوجاؤ، یہ ناممکن ہے ، کیا تمھیں نہیں معلوم کہ امام زین العابدین (ع) فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے نیک کردار کے لئے دہرا اجر ہے اور بدکردار کے لئے دہرا عذاب ہے۔

حسن وشاء کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت نے میری طرف رخ کرکے فرمایا۔

حسن ! تم اس آیت کو کس طرح پڑھتے ہو؟

” پروردگار نے کہا کہ اے نوح (ع) یہ تمھارے اہل سے نہیں ہے، یہ عمل غیر صالح ہے۔( ہود نمبر 46)۔

۵۶

تو میں نے عرض کی کہ بعض لوگ پڑھتے ہیں ” عمل غیر صالح “ اور بعض لوگ پڑھتے ہیں ” عمل غیر صالح“ اور اس طرح فرزند نوح ماننے انکار کرتے ہیں۔

آپ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں ۔

وہ نوح (ع) کا بیٹا تھا لیکن جب خدا کی معصیت کی تو خدا نے فرزندی سے خارج کردیا۔

یہی حال ہمارے چاہنے والوں کا ہے کہ جو خدا کی اطاعت نہ کرے گا وہ ہم سے نہ ہوگا اور تم اگر ہماری اطاعت کروگے تو ہم اہلبیت(ع) میں شمار ہوجاؤگے۔(معانی الاخبار 106 /1 ، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 232 / 1)۔

بیگانوں کے اوصاف

1265۔ رسول اکرم ! جو شخص ہنسی خوشی ذلت کا اقرار کرلے وہ ہم اہلبیت (ع) سے نہیں ہے۔( تحف العقول ص 58)۔

1266۔ رسول اکرم ! جو ہمارے بزرگ کا احترام نہ کرے اور چھوٹے پر رحم نہ کرے اور ہمارے فضل کی معرفت نہ رکھتاہو وہ ہم اہلبیت(ع) سے نہیں ہے( جامع الاحادیث قمی ص 112 روایت طلحہ بن زید ، الجعفریات ص 183 ، امالی مفید 18 / 6 روایت ابوالقاسم محمد بن علی ابن الحنفیہ ، کافی 2 ص 165 / 2 روایت احمد بن محمد)۔

1267۔ رسول اکرم ! جو بزرگ کا احترام نہ کرے اور چھوٹے پر رحم نہ کرے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرے وہ ہم سے نہیں ہے۔( مسند ابن حنبل 1ص554 /2329 روایت ابن عباس)۔

۵۷

1268۔ رسول اکرم ! ایہا الناس ۔ ہم اہلبیت(ع) وہ ہیں جنھیں پروردگار نے ان امور سے محفوظ رکھاہے کہ ہم نہ فتنہ کرتے ہیں اور نہ فتنہ میں مبتلا ہوتے ہیں ، نہ جھوٹ بولتے ہیں، نہ کہانت کرتے ہیں، نہ جادو کرتے ہیں نہ خیانت کرتے ہیں نہ بدعت کرتے ہیں نہ شک و ریب میں مبتلا ہوتے ہیں، نہ حق سے روکتے ہیں نہ نفاق کرتے ہیں لہذا اگر کسی میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں تو اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور خدا بھی اس سے بیزار ہے اور ہم بھی بیزار ہیں اور جس سے خدا بیزار ہوجائے اسے جہنم میں داخل کردے گا جو بدترین منزل ہے۔ (تفسیر فرات کوفی 307 / 412 روایت عبداللہ بن عباس)۔

1269۔ رسول اکرم ! جس کی اذیت سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ رہے وہ ہم سے نہیں ہے۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 24 / 2 روایت ابراہیم بن ابی محمود عن الرضا (ع) ، عوالی اللئالی 1 ص 259 / 33)۔

1270۔ رسول اکرم ! جو ہم کو دھوکہ دے وہ ہم سے نہیں ہے۔( مسند ابن حنبل 5 ص 544 16489 روایت ابی بردہ بن ینار۔ سنن ابن ماجہ 2 ص 49 / 2224، مستدرک حاکم 11 ص 2153 ، کافی 5 ص 160 / 1 تہذیب 7 ص 12 / 48 روایت ہشام بن سالم عن الصادق (ع) )

1271۔ رسول اکرم ! جو کسی مسلمان کو دھوکہ دے وہ ہم سے نہیں ہے۔( الفقیہ 3 ص 273 / 3986 ، عیون اخبار الرضا 2 ص 29/ 26 ، مسند زید ص 489 ، فقہ الرضا (ع) ص 369)۔

1272۔ رسول اکرم ! جو امانت میں خیانت کرے وہ ہم سے نہیں ہے۔( کافی 5 ص 133/7 روایت سکونی عن الصادق (ع) )۔

۵۸

1273۔ امام صادق (ع)! یاد رکھو کہ جو ہمسایہ کے ساتھ اچھا برتاؤ نہ کرے وہ ہم سے نہیں ہے۔( کافی 2 ص 668 / 11 ،روایت ابی الربیع الشامی)۔

1274۔ امام صادق (ع)! جو نماز شب نہ پڑھے وہ ہم سے نہیں ہے۔( المقنع ص 131 المقنعہ ص 119 ، روضة الواعظین ص 321)۔

1275۔ امام صادق (ع)! اگر شہر میں ایک لاکھ آدمی ہیں اور کوئی ایک بھی اس سے زیادہ متقی ہے تو وہ ہم سے نہیں ہے۔( کافی 2 ص78 / 10 روایت علی بن ابی زید)۔

1276۔ امام صادق (ع) ! وہ ہم سے نہیں ہے جو دنیا کو آخرت کے لئے چھوڑ دے یا آخرت کو دنیا کے لئے چھوڑ دے۔( الفقیہ3 ص 156 / 3568 ، فقہ الرضا (ع) ص 337)۔

1277۔ امام صادق (ع) ! جو زبان سے ہمارے موافق ہو اور اعمال و آثار میں ہمارے خلاف ہو وہ ہم سے نہیں ہے۔( مشکوة الانوار ص 70 ، مستطرفات السرائر 147 / 21 روایت محمد بن عمر بن حنظلہ)۔

1278۔ ابوالربیع شامی ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو گھر اصحاب سے چھلک رہا تھا جہاں شام ، خراسان اور دیگر علاقوں کے افراد موجود تھے کہ مجھے بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ملی، ایک مرتبہ حضرت ٹیک لگاکر بیٹھے اور فرمایا کہ اے شیعہ آل محمد ! یاد رکھو کہ وہ ہم سے نہیں ہے جو غصہ میں نفس پر قابو نہ پاسکے اور ساتھی کے ساتھ اچھا برتاؤ نہ کرے، حسن اخلاق اور حسن رفاقت اور حسن مزاج کا مظاہرہ نہ کرے۔

اے شیعہ آل محمد ! جہاں تک ممکن ہو خدا سے ڈرو، اس کے بعد ہر قوت و طاقت اللہ ہی کے سہارے ہے۔( کافی 2 ص637 / 2 ، الفقیہ 2 ص 274 /2423 ، المحاسن 2 ص 102 / 270 ، تحف العقول ص 380 ، مستطرفات السرائر 61/ 33)۔

۵۹

1279۔ امام صادق (ع)! پروردگار عالم نے تم پر ہماری محبت اور موالات واجب قرار دی ہے اور ہماری اطاعت کو فرض قرار دیا ہے لہذا جو ہم سے ہے اسے ہماری اقتدا کرنی چاہیئے اور ہماری شان ورع و تقویٰ، سعی عمل، ہر شخص کی امانت کی واپسی ، صلہ رحم، مہمان نوازی، درگذر ہے اور جو ہماری اقتدا نہ کرے وہ ہم سے نہیں ہے۔(اختصاص ص 241)۔

1280۔ امام کاظم (ع)! وہ ہم سے نہیں ہے جو روزانہ اپنے نفس کا حساب نہ کرے کہ اگر عمل اچھا کیاہے تو خدا سے اضافہ کی دعا کرے اور اگر برا کیا ہے تو استغفار اور توبہ کرے۔( کافی 2 ص 453 / 2 ، روایت ابراہیم بن عمریمانی، تحف العقول ص 396 ، اختصاص ص 26 ، 243 ، مشکٰوة الانوار 70 / 247 ، الزہد للحسین بن سعید ص 76 / 203۔

1281۔ امام رضا (ع) ! جو ہم سے قطع تعلق رکھے یا تعلقات رکھنے والے سے قطع تعلق کرلے یا ہماری مذمت کرنے والے کی تعریف کرے یا مخالف کا احترام کرے وہ ہم سے نہیں ہے اور ہم بھی اس سے نہیں ہیں۔( صفات الشیعہ 85 / 10 روایت ابن فضال)۔

1282۔ الہروی! میں نے امام رضا (ع) سے عرض کی کہ فرزند رسول ! ذرا جنت و جہنم کے بارے میں فرمائیے کہ کیا ان کی تخلیق ہوچکی ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ بیشک ! رسول اکرم شب معراج جنت میں جاچکے ہے اور جہنم کو دیکھ چکے ہیں۔

میں نے عرض کی کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دونوں علم خدا میں ہیں لیکن ان کی تخلیق نہیں ہوئی ہے ، فرمایا یہ لوگ ہم سے نہیں ہیں اور نہ ہم ان سے ہیں جس نے جنت و جہنم کی خلقت کا انکار کیا اس نے رسول اکرم کو جھٹلایا اور ہماری تکذیب کی اور اس کا ہماری ولایت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کا ٹھکانا ہمیشہ کے لئے جہنم ہے جس کے بارے میں پروردگار نے فرمایاہے کہ ” یہ وہ جہنم ہے جس کو مجرمین جھٹلارہے تھے اب اس کے اور کھولتے پانی کے درمیان چکر لگارہے ہیں۔( رحمان 43 ، 44 (توحید 18/21 ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 116 / 3 ، احتجاج 2 ص 381 / 286)۔

۶۰