شمیم رحمت

شمیم رحمت66%

شمیم رحمت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 8 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5077 / ڈاؤنلوڈ: 4401
سائز سائز سائز
شمیم رحمت

شمیم رحمت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

شمیم رحمت

مؤلف : آیت اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی)

مترجم: شیخ ہاد ی حسن فیضی

حضرت امام مہدی (عج) کی معرفت کی ضرورت

تمام مسلمانوں کے وظائف و تکالیف میں سے ایک وظیفہ و تکلیف یہ ہے کہ پہلے انھیں چاہئے کہ اپنے زمانے کے امام کو پہچانیں اور پھر ان کی اطاعت کریں اس وظیفہ و تکلیف کے اہم ترین نقلی دلائل میں سے ایک مشہور و متواتر روایت : ”مَنْ مَاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِهِ مَاتَ مَیْتَةً جَاهِلِیَّةً “ہے ۔

اس حدیث کی بنا پر جو لوگ اپنے امام زمانہ کی معرفت کے بغیر مر جائیں وہ ایسے ہیں کہ عہد جاہلیت میں مرے ہیں اور اسلام و آئین اسلام سے کوئی رابطہ و نسبت نہیں رکھتے ۔ یہ حدیث نہایت معتبر احادیث میں سے ہے اور شیعہ اور اہلسنت دونوں نے اس کے تواتر پر تصریح کی ہے ۔ علماء شیعہ سے شیخ مفید ان افراد میں سے ہیں جو اپنی عظیم کتاب ” الافصاح “ میں لکھتے ہیں:

یہ حدیث متواتر طور پر حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے روایت کی گئی ہے ۔( ۱)

شیخ مفیداسی طرح اپنی ایک دوسری کتاب ” الرسالۃ الاولیٰ فی الغیبۃ “ میں تحریر فرماتے ہیں :

یہ حدیث: ”مَنْ مَاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِهِ مَاتَ مَیْتَةً جَاهِلِیَّةً “ صحیح روایت ہے اور اہل آثار کا اجماع اس کی گواہی دیتا ہے( ۲) ۔ علماء اہل سنت میں سے سلیمان بن ابراہیم قندوزی حنفی کا نام لے سکتے ہیں کہ جنھوں نے صریحی طور پر لکھا ہے کہ حدیث : ”مَنْ مَاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِهِ مَاتَ مَیْتَةً جَاهِلِیَّةً “ پر تمام علماء خاصہ و عامہ کا اتفاق ہے ۔( ۳)

حضرت رسول خدا (ص) نے جو امام زمانہ (عج) کی معرفت نہ رکھنے کو شرک و الحاد و کفر کے مرادف قرار دیا ہے ، یہ اس سبب سے ہے کہ انسان جب اپنے حقیقی و واقعی امام کو نہ پہنچانے گا تو وہ صحیح راستے سے بھٹک جائے گا اور صراط مستقیم سے دور ہوجائے گا اور نتیجہ میں جتنا وہ آگے بڑھتا جائے گا اتنا ہی زیادہ مقصد و منزل حق سے دور ہوتا جائے گا۔

پس اس لئے کہ ہم گمراہی کا شکار نہ ہوں اور صراط مستقیم سے ہٹنے نہ پائیں ، پہلے مرحلہ میں ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ اپنے زمانہ کے امام کو پہنچانیں ، اور ہمارا امام ، امام زمانہ حضرت امام مہدی (عج) کے علاوہ کوئی نہیں ہے ، حضرت امام مفترض الطاعہ کی فرد کے تنہا مصداق ہیں کہ خدا کے اذن و امر سے زندہ ہیں اور تمام لوگوں کے خصوصاً شیعوں کے اور بالاخص علماء و طلاب کے اعمال و افعال کے شاہد و ناظر ہیں ۔

افسوس ہے کہ حضرت امام مہدی (عج) کی صحیح معرفت نہ رکھنے اور حضرت کی انفرادی و اجتماعی سیرت سے آشنا نہ ہونے کے باعث ایک گروہ کے اندر غلط فکریں پیدا ہوگئی ہیں اور وہ سب انجانے میں یا جان بوجھ کر حضرت کی ذات پاک پر ایسے ناروا اتہامات لگاتے ہیں جو ایک عالم و معمولی انسان کی شان میں بھی جائز نہیں ہیں۔ ایک کلی تقسیم بندی کے طور پر ان اتہامات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ، ایک حصہ حضرت امام مہدی (عج) کی سیرت اور تشکیل حکومت کی کیفیت کے متعلق ہے اور دوسرا حصہ حضرت کے ظہور اور دنیا پر حاکمیت پانے کے بعد کے زمانہ میں حضرت کی روش حکومت کے متعلق ہے ۔

حکومت کی تشکیل میں حضرت مہدی (عج) کی روش

افسوس ہے کہ مسلمانوں کی عام ذہنیت یہ ہے کہ حضرت امام مہدی (عج) ایک غضب ناک چہرے کے ساتھ ظہور فرمائیں گے اور تلوار کے ذریعہ نیز اپنے مخالفین کے قتل و خون کے ذریعہ حکومت کی تشکیل اور قدرت کی تحصیل میں کامیاب ہوں گے ۔ اس ذہنیت کی جڑ وہ روایات ہیں جو اس انداز سے پائی جاتی ہیں اور کتابوں میں نیز منبروں پر لوگوں کے سامنے بیان کی جاتی ہیں ۔ ان روایات میں سے بعض روایتوں کے اعتبار سے حضرت امام مہدی (عج) ظہور کے وقت لوگوں کے ساتھ اتنی سختی و خشونت سے پیش آئیں گے کہ ان کی اکثریت آرزو کرتی ہے کہ کاش ان کو ہرگز نہ دیکھیں ، اور ان میں سے بہت سارے لوگ حضرت (عج) کے نسب میں شک کرنے لگتے ہیں اور آپ کو آل محمد علیہم السلام سے نہیں سمجھتے ۔

جھوٹی روایتیں اور محمد بن علی کوفی

ان روایتوں کی تعداد پچاس سے زیادہ تک پہنچتی ہے ، ان میں تقریباً تیس روایتوں کی سند ایک شخص بنام محمد بن علی کوفی تک پہنچتی ہے جو کہ بدنام اور جھوٹا ہے اور تمام علمائے رجال نے اس کی روایتوں کی بے اعتباری کا حکم لگایا ہے ، یہ شخص حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانہ میں تھا اور جناب فضل بن شاذان کے معاصرین میں سے ہے ، اور فضل بن شاذان بزرگان شیعہ میں سے اور عظیم راوی ہیں کہ ان کی جلالت و قدر و منزلت میں کوئی شک نہیں پایا جاتا ۔ یہاں تک کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ان کی تعریف و توصیف میں فرماتے ہیں کہ :

انی اغبط اهل الخراسان لمکان الفضل “ یعنی فضل کے خراسانی ہونے کی وجہ سے میں بھی آرزو رکھتا ہوں کہ اہل خراسان میں سے ہوں ۔ اب فضل بن شاذان ، محمد بن علی کوفی کے صفات بیان کرتے ہیں :

رجل کذاب “ یہ بہت زیادہ جھوٹا شخص ہے ، اور دوسری جگہ اس طرح اظہار خیال فرمایا ہے کہ : ”کدت اقنت علیه “ یعنی نزدیک تھا کہ میں قنوت نماز میں اس پر بد دعا کروں ۔

اب ہم نمونہ کے طور پر ان چند روایتوں کو پیش کرتے ہیں :

پہلی روایت

وہ روایت ہے کہ بحار الانوار کے ایک صفحہ سے زیادہ پر مشتمل ہے ، اس روایت میں آیا ہے :

” حضرت مہدی (عج) ظہور کے بعد مسلمانوں کے ایک گروہ کا پیچھا کریں گے ، وہ سب بھی بھاگ کر روم کے نصاریٰ کی پناہ لیںگے ، نصاریٰ ان سے کہیں گے کہ اگر چاہتے ہو کہ ہم تمہیں پناہ دیں تو تمہیں صلیب گردن میں لٹکانا پڑے گا اور عیسائی ہونا پڑے گا ، یہ گروہ امام زمانہ (عج) کے خوف سے عیسائی ہوجائے گا ، حضرت (عج) ان بھگوڑے مسلمانوں کو عیسائیوں کے پنجے سے نکالیں گے ، ان کے مردوں کو قتل کرڈالیں گے اور ان کی حاملہ عورتوں کے شکم کو چاک کردیں گے ۔

فیقتل الرجال و یبقر بطون الحبالیٰ “ معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت امام مہدی (عج) مرتبہ امامت کے حامل ہیں ، اور ہر شخص سے زیادہ احکام اسلام کو جانتے ہیں ۔ دین اسلام میں اگر کوئی حاملہ عورت کسی جرم و گناہ کی مرتکب ہو اور اس پر حد جاری کرنا واجب ہو ، مثال کے طور پر اگر زنا کرائے اور چار شاہد عادل اس کے زنا کرانے پر گواہی دیں ( وہ بھی اسلام کے ایسے سخت شرائط کے ساتھ کہ جن کا حصول بہت مشکل ہے ، کیونکہ کوئی ہوشیار زنا کو ملا عام میں انجام نہیں دیتا ) لیکن ان سب کے باوجود اگر ثابت ہوگیا کہ کسی حاملہ عورت نے زنا کرایا ہے اور طے ہوجائے کہ اس پر حد جاری کریں تو جب تک یہ عورت حاملہ ہے اس پر حد جاری کرنا حرام ہے ، لازم ہے کہ بچہ جننے تک صبر کریں اور اس کے بعد اس پر حد جاری کریں ۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت ولی عصر (عج) حاملہ عورت کے شکم کو چاک کریں گے ؟ آیا یہ روایت جھوٹی اور گڑھی ہوئی نہیں ہے ؟

دوسری روایت (۴)

بحار الانوار میں کتاب غیبت نعمانی سے اس سند کے ساتھ ذکر ہوئی ہے :

عن علی بن الحسین ( ۵) عن محمد العطار عن محمد بن الحسن الرازی ( مجهول الهویّة ) عن محمد بن علی الکوفی عن البزنطی عن ابن ابی بکیر عن ابیه عن زرازة عن ابی جعفر علیه السلام : اٴیسیر ( الحجة ) بسیرة النبی (ص) ؟ فقال : ” هیهات انّ رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم سار فی امته باللّین و الغائب یسیر بالقتل

زرارہ نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا کہ : ” آیا حضرت امام مہدی (عج) حضرت رسول خدا (ص) کی سیرت کے مطابق عمل کریں گے ؟ تو امام نے فرمایا: ” ہرگز نہیں ، حضرت رسول خدا (ص) نے اپنی امت میں نرمی کی روش اختیار کی حالانکہ حضرت امام مہدی (عج) قتل کی روش سے استفادہ کریں گے “ ۔

یہ روایت ایک تو ضعیف السند ہے دوسرے ان صحیح روایتوں سے تعارض رکھتی ہے جو حضرت امام عصر (عج) کی سیرت کے حضرت رسول اکرم (ص) کی سیرت سے شباہت رکھنے کے متعلق پائی جاتی ہیں اور بعد میں بیان کی جائیں گی ۔

تیسری روایت

تیسری روایت بھی اسی قبلی روایت کی سند( ۶) کے ساتھ ہے :

عن محمد بن علی الکوفی عن البزنطی عن العلاء “ اس سند مغیرہ بن سعید بھی آیا ہے ، کہ جس کے متعلق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ : ”لعن الله المغیرة بن سعید انّه دسّ فی احادیث ابی کثیراً “ یعنی خدا لعنت کرے مغیرہ ابن سعید پر کہ اس نے میرے بابا کی احادیث میں بہت زیادہ تحریف اور پھیر بدل کیا ہے ۔ اس روایت میں بھی پہلے کی روایتوں کی طرح قتل کی بات ذکر ہوئی ہے اور اس بات کو امام (ع) کی طرف نسبت دیتے ہیں کہ : ”سمعت ابا جعفر علیه السلام یقول : ” لو یعلم الناس ما یصنع الغائب اذا خرج لاٴحب اکثرهم ان لا یروه مما یقتل الناس

” اگر لوگ جان لیں کہ حضرت امام مہدی (عج) ظہور کے بعد کیا کریں گے تو ان میں سے اکثر افراد چاہیں گے کہ حضرت کو نہ دیکھیں کیونکہ وہ لوگوں کو قتل کریں گے ۔ “

ایسی بات کی ایک جھوٹے آدمی کی طرف سے امام معصوم کی طرف نسبت دی گئی ہے اور یہ کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے ، کیونکہ عقلمند انسان اگر جھوٹے انسان کی بات فلان مومن کی شراب خواری کے متعلق سنے تو یقین نہ کرے گا اور خود اس بات کو کبھی نقل نہ کرے گا ، تو پھر بھلا امام معصوم کے متعلق جھوٹی بات کو کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے ، اس روایت کے ذیل میں اس طرح آیا ہے کہ :

” یقول کثیر من الناس لیس هٰذا من آل النبی (ص) لو کان لرحم “ یعنی امام زمانہ (عج) اس قدر قتل کریں گے کہ لوگ کہیں گے وہ آل نبی (ص) سے نہیں ہیں ، کیونکہ اگر آل نبی (ص) سے ہوتے تو رحیم و مہربان ہوتے اور قتل و قتال نہ کرتے ۔

یہ بات کس کے متعلق ہے ؟ آیا حجاج بن یوسف ثقفی کے متعلق بھی ایسی بات کہی جاتی ہے ؟

چھوتی روایت

اسی روایت کے بعد حدیث نمبر ۱۱۴ ہے :

عن محمد بن علی الکوفی عن لابزنطی عن عاصم بن حمید الحناف عن ابی بصیر قال ابو جعفر علیه السلام : لیس شانه الا بالسیف لا یستتیب احداً

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ : ” حضرت امام مہدی (عج) کا سرو کار تلوار کے علاوہ کسی اور چیز سے نہیں ہے اور وہ کسی کی توبہ قبول بھی نہ کریں گے “۔ آیا یہ حضرت رسول خدا (ص) کی سیرت کی شبیہ ہے ؟ اہم نکتہ یہ ہے کہ محمد بن علی کذاب اپنی روایتوں کو ثقہ و معتبر افراد کی طرف نسبت دیتا ہے تا کہ اس کی روایتیں لوگ صحیح تصور کریں ، جیسا کہ یہاں بھی سلسلہ سند میں ” حناف “ کا نام آیا ہے جو کہ ثقات میں سے ہیں ۔

پانچویں روایت

اس بار ابن محبوب سے ( اصحاب اجماع سے ) عن البطائنی عن ابی بصیر عن ابی عبد اللہ علیہ السلام “ راوی کہتا ہے میں نے امام (ع) سے پوچھا کہ : امام مہدی (عج) کب ظہور فرمائیں گے ؟فقال : ” ما تستعجلون بخروج الغائب فو الله ما هو الا السیف و الموت تحت ظل السیف( ۷) یعنی کیوں غائب ( امام زمانہ ) کے ظہور کے متعلق جلدی کر رہے ہو ، خدا کی قسم وہ فقط تلوار اور موت سے سروکار رکھیں گے ۔

چھٹی روایت

علی بن ابی حمزہ بطائنی شیخ الواقفیہ سے ہے جو کہ حضرت امام موسی بن جعفر علیہما السلام کی امامت کی خاتمیت کا قائل ہے ، وہ کہتا ہے کہ آپ ( امام موسی بن جعفر علیہما السلام) ہی امام غائب ہیں اور اصلاً وہ بارہویں امام کا قائل نہیں ہے ۔ حضرت امام علی الرضا علیہ السلام سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے جو کہ اس شخص کے دفن کے بعد فرمایا ہے کہ : منکر و نکیر نے اس پر آگ کا ایک ستون مارا ہے کہ:

امتلاٴ قبره ناراً الیٰ یوم القیامة

” اس کی قبر قیامت تک آگ سے بھری رہے گی “ ۔ یعنی اب تک کہ تقریباً بارہ سو سال ہورہے ہیں وہ اپنی قبر میں جل رہا ہے ۔ بہر حال وہ روایت یہ ہے :

عن ابی بطائنی عن ابیه عن ابی بصیر عب عبد الله علیه السلام قال: ” اذا خرج الغائب لم یکن بینه و بین العرب و قریش الا السیف ما یاٴخذ منها الا السیف( ۸)

یعنی جب وہ غائب (امام زمانہ ) آئیں گے تو اس کے اور عرب و قریش کے درمیان تلوار ہی حاکم ہوگی اور وہ قریش سے تلوار کے علاوہ کوئی چیز دریافت نہیں کرےں گے ۔

یہ ان روایتوں کے چند نمونے ہیں جو اس سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں ، محمد بن علی الکوفی سے قطع نظر ، ان روایتوں کے دوسرے بہت سارے راوی بھی کسی صورت میں قابل اعتبار نہیں ہیں اور ان کی روایتیں قابل قبول نہیں ہےں۔

سندی اشکالات و اعتراضات کے علاوہ یہ تمام روایتیں دلالت کے اعتبار سے بھی ناتمام ہیں اور قابل قبول نہیں ہیں ۔ اس لئے کہ ان میں سے بہت سی روایتوں کا مفاد و مطلب مذہب و شریعت کے ضروریات سے تعارض و اختلاف رکھتا ہے اور کسی عنوان سے ان کی توجیہ نہیں کی جاسکتی ۔

اصولاً حضرت امام مہدی (عج) اس لئے ظہور فرمائیں گے تا کہ عدالت قائم کریں اور جور و جفا ، ظلم و ستم کی بساط الٹ دیں اس بناپر ممکن نہیں ہے کہ حضرت (عج) ظلم کے راستے سے عدل تک پہنچیں ، یا ایجاد بدعت کے ذریعے ، اپنے جد حضرت محمد مصطفی (ص) کی سنت کو زندہ کریں ۔ حضرت رسول خدا (ص) کی سنت یہ تھی کہ آنحضرت (ص) اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ کسی حاملہ عورت پر حد جاری کریں یا اس سے قصاص لیں ۔ لیکن اس روایت کے مطابق جو محمد بن علی الکوفی نے نقل کیا ہے ، حضرت امام مہدی (عج) ان حاملہ عورتوں کے شکم کو جوکہ ڈر سے اور اپنی جان کی حفاظت کی خاطر عیسائی ہوگئی ہیں ، پارہ کردیں گے ۔

صحیح روایتیں

ایسی روایتوں کے بے اعتبار ہونے کی دوسری دلیل وہ صحیح و معتبر احادیث ہیں جو ان کے مقابل و خلاف مفہوم پر دلالت کرتی ہیں اور واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ حضرت امام ولی عصر (عج) کی حکومتی روش بالکل حضرت رسول خدا (ص) اور امیر المؤمنین علیہ السلام کی روش کے مانند ہوگی ۔ ان روایتوں کے چند نمونوں کی طرف توجہ فرمائیے :

۱۔ بحار الانوار میں ایک مؤثق و حَسَن روایت کتاب غیبت نعمانی سے ذکر ہوئی ہے :

عن ابن عقدة عن علی بن الحسن ( ابن فضال ) عن ابیه عن رفاعة عن عبد الله بن عطاء قال : سئلت ابا جعفر الباقر علیه السلام : ” فقلت اذا قام الحجة بایّ سیرة یسیر فی الناس ؟ فقال علیه السلام : یهدم ما قبله کما صنع رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم و یستاٴنف الاسلام جدیداً( ۹)

راوی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کرتا ہے کہ حضرت حجت (عج) ظہور کے بعد کون سی سیرت و روش حکومت اپنائیں گے ؟ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام جواب دیتے ہیں کہ : ” جس طرح کہ حضرت رسول خدا (ص) نے بعثت کے بعد وہ تمام چیزیں جو آنحضرت (ص) سے پہلے دین کے عنوان سے موجود تھیں جیسے یہودیت ، عیسائیت و مجوسیت و غیرہ ، ان سب کو بے اعتبار اعلان کردیا ، اسی طرح حضرت مہدی (عج) بھی ظہور کے بعد جو کچھ بھی دین و اسلام کے نام سے دنیا پر حاکم ہے لیکن دین و اسلام کی بنیاد کے مخالف ہے ، ان سب کو مٹادیں گے اور حقیقی اسلام کو دوبارہ برپا کریں گے “۔

حضرت رسول خدا (ص) نے قرآن مجید کے بقول( ۱۰) نرمی اور عدم شدت کے ساتھ اپنی ماقبل چیزوں کو بے اعتبار کیا ، رسول (ص) کی یہ سیرت مسلمانوں سے مخصوص نہ تھی ، حضرت امام زمانہ (عج) بھی کافروں کے متعلق وہی سیرت اور وہی نرمی و مہربانی اختیار کریں گے جو حضرت رسول خدا (ص) کی سیرت تھی مسلمانوں کی بات تو الگ ہے ۔

۲ ۔عن ابن عباس عن النبی صلی الله علیه و آله و سلم قال : ” التاسع منهم ( من اولاد الحسین علیه السلام ) من اهل بیتی و مهدی امّتی ، اشبه الناس بی فی شمائله و اقواله و افعاله “۔( ۱۱)

ہمارا شاہد و دلیل لفظ ” افعالہ “ ہے ، یعنی حضرت مہدی (عج) کے شمائل و اقوال رسول خدا (ص) کی شبیہ ہونے کے علاوہ حضرت کے افعال و اعمال بھی حضرت رسول خدا (ص) کی شبیہ ہیں ۔

۳۔ بحار الانوار( ۱۲) میں تقریباً ایک صفحہ بحوالہ اعلام الوریٰ ، شیخ طبرسی( ۱۳) کا بیان اس روایت کے ذیل میں ذکر کیا گیا ہے کہ جس کا ایک حصہ یہ ہے :

اگر حضرت ولی عصر (عج) کی حکومت کی کیفیت کے متعلق سوال ہو کہ کس طرح ہوگی ؟ آیا شدت و سختی کے ساتھ ہوگی تو اس کا جواب یہ دینا چاہئے کہ : ”فان کان ورد بذالک خبر فهو غیر مقطوع به “ حضرت کی حکومت ہرگز شدت و سختی کے ساتھ نہ ہوگی پس اگر کوئی روایت اس سلسلہ ( حضرت کی حکومت میں سختی کے بارے ) میں پائی جائے تو وہ صحیح نہیں ہے ، اور ایسی کوئی صحیح روایت وجود نہیں رکھتی کہ حضرت شدت و سختی کے ساتھ عمل کریں گے ۔

علامہ طبرسی مشہور محدثین میں سے اور فن حدیث میں معروف تھے ، ان تمام روایتوں کو جو اس باب میں وارد ہوئی ہیں اس جملہ ”ان کان یعنی اگر ایسی روایتیں پائی جائیں تو وہ صحیح نہیں ہیں “کے ذریعہ غلط اور جھوٹی قرار دیا ہے ، اور وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی روایت اس سلسلہ ( حضرت کی حکومت میں شدت یا سختی کے بارے ) میں پائی جائے تو نہ تو اس کا مدلول معتبر ہے اور نہ وہ حجیت رکھتی ہے ۔

۴۔ بحار الانوار( ۱۴) میں ایک روایت کتاب کافی سے اس عبارت کے ساتھ نقل ہوئی ہے : ”کلینی عن العدة عن البرقی عن ابیه عن محمد بن یحییٰ عن حماد عن عثمان عن الصادق علیه السلام : اذا قام الحجة سار بسیرة امیر المؤمنین علی علیه السلام

یعنی جس وقت حضرت امام مہدی (عج) ظہور فرمائیں گے تو بالکل امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی سیرت پر عمل کریں گے ۔

اس روایت کی سند صحیح ہے ، اور اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کیونکہ اس کے روای ایک دوسرے سے بہتر ہیں اور اس کا متن بھی معصومین علیہم السلام کی سیرت کے موافق ہے ۔

ان روایتوں کا مدلول یہ ہے کہ جس وقت حضرت امام مہدی (عج) ظہور فرمائیں گے تو تمام لوگ خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے ، بوڑھے ہوں یا جوان ، حضرت سے محبت رکھیں گے اور تہِ دل سے آپ کو دوست رکھیں گے ، حضرت رسول خدا (ص) نے ارشاد فرمایا ہے کہ :

” میں تم سب کو مہدی (عج) کی ، جو قریش سے ہوگا ، بشارت دیتا ہوں کہ تمام آسمان و زمین کے رہنے والے اس کی خلافت و حکومت سے خوشنود ہوں گے “۔( ۱۵)

اسی طرح آنحضرت (ص) سے روایت ہوئی ہے کہ :

” میری امت سے ایک ایسا شخص قیام کرے گا کہ زمین و آسمان کے تمام لوگ اس کو دوست رکھیں گے “۔( ۱۶)

اسی طرح آنحضرت (ص) سے ایک دوسری روایت ہوئی ہے کہ جس میں آپ نے ارشاد فرمایا:

” میں تم سب کو مہدی (عج) کی بشارت دیتا ہوں جو لوگوں کی طرف مبعوث کیا جائے گا اور زمین و آسمان کے تمام ساکنین اس سے خوشنود ہوں گے “۔( ۱۷)

اور حضرت علی علیہ السلام سے بھی نقل ہوا ہے کہ حضرت (ع) نے ارشاد فرمایا :

” جس وقت میرے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ظہور کرے گا تو ایسی گشائش ، لوگوں کے کام میں پیدا ہوگی کہ حتیٰ مُردے بھی ایک دوسرے کی زیارت کو جائیں گے اور آپس میں اس کے ظہور کی مبارکباد پیش کریں گے “۔( ۱۸)

جمع روایات

متعارض روایات ( ایک دوسرے کے خلاف روایات ) کے درمیان جمع کے متعلق خود آئمہ علیہم السلام نے ضروری ہدایات دئیے ہیں ۔ البتہ دو مخالف روایتیں اس وقت باہم تعارض میں قرار پائی ہیں جبکہ باب تعارض سے متعلق لازمی شرائط کی حامل ہوں ، اس طرح سے کہ اولاً دونوں روایتوں کی سند معتبر ہو ، نہ یہ کہ ایک طرف محمد بن علی کوفی جیسا جھوٹا ہو اور دوسری طرف علی بن ابراہیم اور محمد بن مسلم جیسے ائمہ علیہم السلام کے معتمد اور ثقہ ہوں ۔

ان دنوں کے درمیان مقایسہ عقلاً و شرعاً جائز نہیں ہے ۔ پس ہم اسے پہلے ہی زینے پر جو کہ سند کی بحث ہے مشکل رکھتے ہیں ، کیونکہ جو روایتیں محمد بن علی کوفی سے نقل ہوئی ہیں ، وہ امام زمانہ (عج) کو معاذ اللہ ایک قاتل و آدم کش کی صورت میں پیش کرتی ہیں کہ ان کے زمانے میں فتنہ و فساد ہوں گے اور فقہاء کہتے ہیں کہ حتیٰ شرعی احکام اگر فتنہ و فساد کے باعث ہوں تو ساقط ہوجاتے ہیں اور پھر واجب نہیں رہ جاتے ، تو بھلا کیسے حضرت امام زمانہ (عج) جو کہ خود دین و احکام دین کے صاحب و مالک ہیں ، فتنہ و فساد اور ہرج و مرج کے باعث ہوں گے ؟

پس اس پہلے ہی مرحلہ میں تعارض کی بحث منتفی و ختم ہوجاتی ہے اس لئے کہ ایک جھوٹا شخص بزرگان حدیث و ثقہ کے معارض نہیں ہوسکتا اور ان سے ٹکّر نہیں لے سکتا ۔

سند صحیح ہونے کے فرض کی بناپر اس مرحلہ سے آگے بڑھیں گے تو دو متعارض روایتوں کے درمیان ترجیح کے ملاحظہ کی باری آئے گی ، اس مرحلہ میں ان دونوں روایتوں کو دوسری صحیح روایتوں سے اور سنت و سیرت و کتاب ( قرآن ) سے مقایسہ کیا جائے گا اور ان دونوں میں سے جو ان کے موافق ہوگی وہ معتبر ہوگی ۔ اس جہت سے بھی جو روایتیں امام زمانہ (عج) کی سیرت حضرت رسول خدا (ص) اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی سیرت سے مشابہت کو بیان کرتی ہیں ، وہ رجحان و ترجیح کی حامل ہیں ، کیونکہ وہ روایتیں معصومین علیہم السلام کی سیرت کے موافق ہیں اور سچّے قرائن زیادہ رکھتی ہیں ۔ اس مرحلہ کے بعد بالفرض اگر دونوں روایتیں کتاب و سیرت کے مطابق ہوں اور اصطلاح میں ” متکافی “ ہوں ، تو نوبت دلالت و ظہور تک پہنچے گی کہ آیا دونوں روایتیں ظہور و دلالت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے مساوی ہیں یا نہیں ۔

اس مرحلہ میں اگر متعارض روایتوں میں سے ایک دلالت کے لحاظ سے زیادہ صریح اور واضح ہوگی ، تو ہم اسی کو اختیار کریں گے ، اور اس صورت میں دلالت کے اعتبار سے بھی دونوں روایتیں یکساں ہوں تو پھر تساقط کی نوبت آجائے گی اور دونوں روایتیں اعتبار سے گرجائیں گی ، گویا اصلاً کوئی روایت وارد ہی نہیں ہوئی ہے ۔ تعارض کے باب میں یہی فقہی مبنیٰ و اصول ہے ۔

____________________

(۱)۔ الافصاح،ص/۳۸

(۲)۔ مصنفات الشیخ المفید ،ج/۷ص/۱۲

(۳)۔ ینابیع المودۃ ،ج/۳ص/۴۵۶

(۴) ۔ بحار الانوار : ج/۵۲، ص/۳۵۳، حدیث ۱۰۹

(۵)۔ شیخ صدوق کے والد بزرگوار

(۶) ۔ بحار الانوار : ج/۵۲ ، ص/۳۵۳ ، ح/۱۱۳

(۷) ۔ الخرائج ، ج/۳، ص/۱۵۵۔ غیبۃ الطوسی ، ص/۴۵۹

(۸) ۔ شیخ طوسی ۔ الغیبۃ ص۴۵۹۔ الخرائج ، ج/۳، ص۱۱۵

(۹) ۔ بحار الانوار : ج/۵۲، ص/ ۳۵۳ ، ح/ ۱۱۲ ، طبع بیروت

(۱۰) ۔ آل عمران /۱۵۹

(۱۱) ۔ بحار الانوار : ج/۵۲ ، ص/۳۷۹، ح/۱۸۷

(۱۲) ۔ بحار الانوار : ج/۵۲ ، ص/۳۷۹، ح/۱۸۷

(۱۳) ۔ امین الدین ، امین الاسلام ابو علی فضل بن حسن بن فضل (۵۴۸ق) شیعہ فقیہ ، محدث ، مفسر اور لغوی ہیں ، آپ شیخ طبرسی کے نام سے مشہور ہیں ، نیز چھٹی صدی ہجری میں عظیم علماء شیعہ میں سے ہیں کہ آپ خود اور آپ کے بیٹے حسن بن فضل صاحب مکارم الاخلاق اور آپ کے پوتے علی بن حسن صاحب مشکۃ الانوار یہ تمام حضرات علماء بزرگ میں سے ہیں ، روضات الجنات ، ج/۵ ، ص/۳۴۲ ؛ طبقات اعلام الشیعہ قرن ۶، ص۲۱۶ و ۲۱۷۔

(۱۴) ۔ بحار الانوار : ج/۴۷، ص/۵۴

(۱۵) ۔ ینابیع المودۃ : ص/۴۳۱ ، اثبات الھدۃ : ج/۲، ص/۵۲۴

(۱۶) ۔ احقاق الحق : ج/۱۹، ص/۶۶۳

(۱۷) ۔ جامع احادیث الشیعۃ : ج/۱، ص / ۳۴

(۱۸) ۔ صدوق ، کمال الدین :ج۲، ص ۲۵۳۔ مجلسی ، بحار الانوار ، ج/۵۲، ص/ ۳۲۸

امام زمانہ (عج) کی سیرت وہی رسول خدا (ص) کی سیرت ہے

مذکورہ بالا بیانات کی بناپر حضرت امام زمانہ (عج) کی سیرت بالکل وہی حضرت رسول خدا (ص) کی سیرت و روش ہے ، یہاں تک کہ حضرت (عج) کے شمائل (شکل و صورت ) بھی رسول خدا (ص) کے نورانی شمائل کے مانند ہیں ، جیسا کہ شیعہ و سنی کی بہت سی روایتوں میں آیا ہے اور حتی عیسائی مورخین نے بھی لکھا ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) کا چہرہ مبارک اس قدر جذاب اور دلکش تھا کہ حتی آنحضرت (ص) کے سخت سے سخت دشمنوں کی نظر بھی جس وقت آپ (ص) کے چہرہ منور پر پڑتی تھی تو آنحضرت (ص) کے جمال پُر نور کو دیکھ کر ایسا محو ہوجاتے تھے کہ اپنے تمام ہم و غم بھلا دیتے تھے ، حضرت امام زمانہ (عج) کا چہرہ پُر نور بھی ایسا ہی ہے ۔

تاریخ و روایات کے علاوہ سب سے زیادہ اہم سند جو حضرت رسول خدا (ص) کی سیرت و سنت کے متعلق ہمارے پاس ہے ، وہ قرآن کریم ہے ، جو نقشہ قرآن کریم حضرت رسول خدا (ص) کے چہرہ مبارک کا کھینچا ہے وہ اس طرح ہے :

( فبما رحمة من الله لنت لهم و لو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک ) ( ۱)

اے رسول ! رحمت الٰہی ( کی برکت ) سے آپ ان لوگوں پر نرم و مہربان ہیں اور اگر بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو وہ سب آپ کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے ۔

اور دوسر ی جگہ فرماتا ہے :

( لقد جائکم رسول من انفسکم ، عزیز علیه ما عنتّم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم ) ( ۲)

یقینا تمہارے پاس وہ رسول آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے وہ تمہاری نجات اور ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مؤمنین پر بہت ہی مہربان اور رحیم ہے ۔

حضرت رسول خدا (ص) کی شفقت و محبت لوگوں کی نسبت اس حد تک تھی کہ حتیٰ بہت سے لوگوں نے اسی مسئلہ کو آنحضرت (ص) کے آزار کا ایک وسیلہ و ذریعہ بنالیا تھا :

( و منهم الذین یؤذون النبی و یقولون هو اذن قل اذن خیر لکم یؤمن بالله و یؤمن للمؤمنین و رحمة للّذین آمنوا منکم )( ۳)

ان میں سے وہ بھی ہیں جو پیغمبر (ص) کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو صرف کان ( خوش باور ، یعنی سب کی سن لیتے ) ہیں ، آپ کہہ دیجئے کہ تمہارے حق میں بہتری کے کان ہیں ( یعنی خوش باور ہونا تمہارے نفع میں ہے ) ، ( لیکن جان لو کہ ) وہ صرف خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنین کی تصدیق کرتے ہیں ( ان کی سن لیتے ہیں ) اور صاحبان ایمان کے لئے رحمت ہیں ، اور جو لوگ رسول خدا (ص) کو اذیت دیتے ہیں ان کے واسطے دردناک عذاب ہے ۔

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں وارد ہوا ہے کہ ایک منافق ، حضرت رسول خدا (ص) کا مذاق اور استہزاء کر رہا تھا ، جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ (ص) ! فلاں منافق کو بلایئے اور اس سے پوچھئے کہ کیوں ایسے کام کر رہا ہے ۔

یہ ایک استثنائی مورد تھا ، اس کے علاوہ آپ کوئی دوسرا موقع نہیں بتا سکتے کہ پیغمبر (ص) نے کسی کو اپنی شان میں مسخرہ و مذاق کرنے کے سبب طلب کیا ہو ، یہ مورد بھی مصلحت کی بناپر تھا اور پیغمبر (ص) کو حکم ملا تھا ۔

اس قضیہ میں پیغمبر (ص) نے اس شخص کو بلایا اور اس سے توضیح چاہی ، اس نے عرض کیا : ” یا رسول اللہ ! جس نے بھی یہ بات کہی ہے ، جھوٹ کہی ہے ، میں نے ایسا کام نہیں کیا ہے ، ” پیغمبر اسلام (ص) نے کچھ نہیں فرمایا اور خاموش ہوگئے ، یہ منافق بھی یہ سمجھا کہ رسول خدا (ص) نے اس کی بات کو باور کر لیا ہے ، حالانکہ یہ محال ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) خداوند تعالیٰ اور جبرئیل امین کی بات کے بر خلاف اس منافق کی بات کو باور کریں ، لیکن پیغمبر (ص) نہیں چاہتے تھے کہ حتیٰ ایسے منافق شخص کے ساتھ بھی ترش روئی اختیار کریں ۔

یہ منافق لوگوں کے درمیان گیا اور کہنے لگا کہ یہ عجیب پیغمبر (ص) ہیں ، جبرئیل ان کے ایک کان میں کہتے ہیں کہ میں نے ان کا مسخرہ کیا ہے ، باور و یقین کرلیتے ہیں ، دوسرے کان میں ، میں کہتا ہوں کہ ایسا کام نہیں کیا ہے یہ بات بھی باور کرلیتے ہیں ۔

خداوند تعالیٰ نے ان بیہودہ گوئیوں اور بکواسوں کے جواب میں قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ :

قل اذن خیر لکم( ۴) یہ تمھاری باتوں کو ( ظاہراً ) مان لینا اور خاموش ہوجانا خود تمہارے لئے بہتر ہے اور تمہارے فائدے میں ہے ۔

یہ حضرت رسول خدا (ص) کا فعل و عمل ہے اور حضرت امام مہدی (عج) حضرت رسول خدا (ص) سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں ۔

پیغمبر اسلام (ص) ”فبما رحمة من الله لنت لهم( ۵) کے مصداق کامل ہیں ۔ لہٰذا حضرت امام مہدی (عج) بھی انہیں صفات کے مالک ہوں گے ، حضرت کافروں کے ساتھ نرم سلوک اختیار کریں گے تو پھر مسلمانوں کی بات تو الگ ہے ۔

اصولاً حضرت امام مہدی (عج) عدل و انصاف برپا کرنے کے لئے ظہور فرمائیں گے ، اور عدالت انسانوں کی ایک فطری اور طبیعی خواہش ہے ، اس بناپر یہ ممکن نہیں ہے کہ حضرت (عج) ایسی روش اپنائیں کہ لوگ آرزو کریں کہ کاش ان کو نہ دیکھتے ، یا ان سختیوں کے سبب جو انجام دیں گے ، لوگ کہیں کہ وہ آل محمد (ص) سے نہیں ہیں اور وہ اہل بیت پیغمبر علیہم السلام سے ربط نہیں رکھتے ۔ اور اسی طرح جب حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : ” محال ہے کہ میں ظلم کے راستے سے چاہوں کہ کامیابی حاصل کروں اور ظلم کے وسیلہ سے طلب نصرت کروں “ ۔( ۶) ، تو یقیناً حضرت امام مہدی (عج) بھی اسی سیرت و روش کی پیروی کریں گے ، اور یہ ممکن نہیں ہے کہ ظلم و ستم کے ذریعہ لوگوں پر حکومت حاصل کریں ۔

حضرت امام مہدی (عج) کی قضاوتی سیرت

ایک دوسرا مسئلہ جو حضرت امام زمانہ (عج) کے متعلق بیان کیا جاتا ہے ، وہ حضرت کی قضاوت اور فیصلہ کرنے کی کیفیت ہے۔

بعض افراد معتقد ہیں کہ حضرت امام زمانہ (عج) کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ حضرت (عج) قضاوت کے موقع پر طرفین دعویٰ سے شاہد و بینہ ( گواہ و دلیل ) کے بغیر صرف اپنے ( غیبی ) علم کے ذریعہ حکم صادر فرمائیں گے۔

یہ افراد اپنے مدعا کے لئے کچھ دلیلیں بھی پیش کرتے ہیں منجملہ ان دلیلوں کے وہ احادیث ہیں جو اس سلسلہ میں پائی جاتی ہیں اور ان کا مدلول یہ ہے کہ امام مہدی (عج) اپنے علم کے مطابق اور حضرت داود علیہ السلام کے مانند جھگڑوں کو حل اور اختلاف کو دور فرمائیں گے۔

ان روایتوں کا ایک نمونہ مندرجہ ذیل ہیں :

عبد اللہ بن عجلان نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ امام نے فرمایا: ”اذا قام آل محمد علیهم السلام حکم بین الناس بحکم داود لا یحتاج الیٰ بینةٍ یلهمه الله فیحکم بعلمه( ۷)

جس وقت قائم آل محمد علیہم السلام قیام فرمائیں گے ، تو حضرت داود نبی علیہ السلام کے مانند لوگوں کے درمیان قضاوت و فیصلہ کریں گے ، اور وہ دلیل و برہان کے محتاج نہ ہوں گے ، خدا ان کو حقیقت کا الہام کرے گا اور وہ اپنے علم کے اعتبار سے حکم دیں گے ۔

اس روایت کے مطابق جو تفسیر نور الثقلین میں مذکور ہے :

اولاً : فقط ایک مرتبہ حضرت داود علیہ السلام نے قضاوت کے موقع پر اپنے علم کے مطابق عمل کیا کہ وہ بھی مشکل سے دوچار ہوگئے اور اس کے بعد ہمیشہ حکم خدا سے طرفین سے گواہ و دلیل مانگتے تھے اور دلیل و قسم ہی کی بنیاد پر حکم صادر فرماتے تھے ۔

دوسرے: یہ روش حضرت رسول خدا (ص) کی قضاوتی روش سے منافات رکھتی ہے ، اس لئے کہ حضرت رسول خدا (ص) ہمیشہ فرماتے تھے کہ :

انما اقضیٰ بینکم بالبینات و الایمان “ میں فقط شواہد و گواہی اور قسم کی بنیاد پر تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں ، اس بناپر اگر کسی موقع پر میں نے حکم صادر کیا کہ مثلاً فلاں زمین فلاں شخص کی ہے ، لیکن واقع میں ایسا نہ ہو تو وہ اس میں حق تصرف نہیں رکھتا اور میرا حکم اس کو زمین کا مالک نہیں بنائے گا ۔

اس بناپر اس بات کے پیش نظر کہ حضرت امام مہدی (عج) حضرت رسول خدا (ص) سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں اور حضرت (عج) کا ظہور آنحضرت (ص) کی شریعت و سنت کے اجراء اور احیاء کے لئے ہے ، یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) کی روش کے علاوہ کوئی اور روش اختیار کریں گے اور دلیل و شاہد کی طلب کے بغیر لوگوں کے درمیان قضاوت و فیصلہ فرمائیں گے۔

حضرت امام مہدی (عج) کی اجرائی سیرتیں

حضرت امام مہدی (عج) کی اجرائی سیرتوں میں سے ایک سیرت یہ ہے کہ حضرت جتنا لوگوں اور مسکینوں کی نسبت رحیم و مہربان ہیں ، اتنا ہی اپنے حکومتی عہدہ داروں اور کارندوں پر حد سے زیادہ سخت اور حساس ہیں :

المهدی جواد بالمال ، رحیم بالمساکین ، شدید علی العمّال “ مہدی (عج) حکومت کے عاملوں ، کارگزاروں پر بہت زیادہ سخت گیر ہوں گے ۔ حضرت علی علیہ السلام ایک حدیث میں اس کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :

الاوفی غد و سیاٴتی غد بما لا تعرفون ، یاٴخذ الوالی من غیرها عمّا لها علی مساوی اعمالها( ۸)

” آگاہ ہو جاؤ کہ کل کے دن جب کہ وہ (مہدی ) ظہور فرمائے گا ، وہ کل ( آئندہ ) جس سے تم نا واقف ہو دوسرے حاکموں کے بر خلاف اپنے عاملوں اور کارندوں کو ان کے برے کردار اور جرم کی سزا دے گا ان کی بد اعمالیوں کی نسبت مواخذہ کرے گا “ ۔

البتہ حضرت (عج) خود سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اپنے اوپر سختی اختیار کریں گے اور اس بات کے بر خلاف کہ تمام لوگ حضرت کی حکومت کے زیر سایہ رفاہ و آرام میں رہیں گے ، اپنے جد امیر المؤمنین علیہ السلام کے مانند درشت اور خشن پوشاک اور غیر لذیذ کھانے پر اکتفا فرمائیں گے :

فو الله ما لباسه الا الغلیظ و لا طعامه الا الجشب( ۹) قسم بخدا مہدی (عج) کا لباس درشت اور کھانا سوکھا اور بغیر سالن کے ہوگا۔

میں امید رکھتا ہوں کہ خود حضرت ولی عصر (عج) کی برکت سے خداوند عالم ہم سب کی عمر کو حضرت کے ظہور سے متصل فرمادے گا ، ان شاء اللہ ۔ اس بات کی ذکر ضروری ہے کہ حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی دام ظلہ العالی نے یہ موضوع ” حضرت امام مہدی (عج) کی حکومتی سیرت “ کو حوزہ علمیہ قم المقدسہ کے علماء و طلاب محترم کے مجمع کے درمیان چند جلسوں اور نشستوں میں مفصل طور پر علمی تنقید و تحقیق کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، اور دسیوں روایتوں سے زیادہ پر چار موضوع( ۱۰) کے تحت مفصل طور پر مختلف جہتوں کے ساتھ حجیت روایات کی بحث کی ، جیسے سندی و دلالی جہات ( علم حدیث ، رجال ، درایۃ ) پر محققانہ تقریر فرمائی ہے۔ لیکن اختصار کے پیش نظر چونکہ افسوس ہے کہ معظم لہ کی تقریروں کو تفصیلاً ٹیپ نہ کرسکے لہٰذا اسی مختصر مقدار پر ہم نے اکتفا کیا ۔ (ناشر)

____________________

(۱) ۔ آل عمران /۵۹

(۲) ۔ توبہ / ۱۲۸

(۳) ۔ توبہ /۶۱

(۴) ۔ توبہ /۶۱

(۵) ۔ آل عمران / ۱۵۹

(۶) ۔ نہج البلاغہ

(۷) ۔ کلینی ، اصول کافی :ج/۱ ، ص/۳۹۷۔ بصائر الدرجات : ج۵، ص۲۵۹

(۸) ۔ نہج البلاغہ : خطبہ ۱۳۸

(۹) ۔ نعمانی ، الغیبۃ ص/ ۲۳۳ ۔ بحار الانوار : ج/۵۲ ، ص/ ۳۵۴

(۱۰) ۔ وہ چار موضوع یہ ہیں : ۱۔ حضرت امام مہدی (عج) کا ظہور اور تشکیل حکومت کی کیفیت ( اعم از روایات صحیح و غیر صحیح ) ۲۔ حکومت کرنے کی روش ۳۔ حضرت (عج) کے عامل اور کارندے ۴۔ حضرت کی قضاوتی سیرت و روش۔


3