امام زمانہ (عج) کی سیرت وہی رسول خدا (ص) کی سیرت ہے
مذکورہ بالا بیانات کی بناپر حضرت امام زمانہ (عج) کی سیرت بالکل وہی حضرت رسول خدا (ص) کی سیرت و روش ہے ، یہاں تک کہ حضرت (عج) کے شمائل (شکل و صورت ) بھی رسول خدا (ص) کے نورانی شمائل کے مانند ہیں ، جیسا کہ شیعہ و سنی کی بہت سی روایتوں میں آیا ہے اور حتی عیسائی مورخین نے بھی لکھا ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) کا چہرہ مبارک اس قدر جذاب اور دلکش تھا کہ حتی آنحضرت (ص) کے سخت سے سخت دشمنوں کی نظر بھی جس وقت آپ (ص) کے چہرہ منور پر پڑتی تھی تو آنحضرت (ص) کے جمال پُر نور کو دیکھ کر ایسا محو ہوجاتے تھے کہ اپنے تمام ہم و غم بھلا دیتے تھے ، حضرت امام زمانہ (عج) کا چہرہ پُر نور بھی ایسا ہی ہے ۔
تاریخ و روایات کے علاوہ سب سے زیادہ اہم سند جو حضرت رسول خدا (ص) کی سیرت و سنت کے متعلق ہمارے پاس ہے ، وہ قرآن کریم ہے ، جو نقشہ قرآن کریم حضرت رسول خدا (ص) کے چہرہ مبارک کا کھینچا ہے وہ اس طرح ہے :
(
فبما رحمة من الله لنت لهم و لو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک
)
اے رسول ! رحمت الٰہی ( کی برکت ) سے آپ ان لوگوں پر نرم و مہربان ہیں اور اگر بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو وہ سب آپ کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے ۔
اور دوسر ی جگہ فرماتا ہے :
(
لقد جائکم رسول من انفسکم ، عزیز علیه ما عنتّم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم
)
یقینا تمہارے پاس وہ رسول آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے وہ تمہاری نجات اور ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مؤمنین پر بہت ہی مہربان اور رحیم ہے ۔
حضرت رسول خدا (ص) کی شفقت و محبت لوگوں کی نسبت اس حد تک تھی کہ حتیٰ بہت سے لوگوں نے اسی مسئلہ کو آنحضرت (ص) کے آزار کا ایک وسیلہ و ذریعہ بنالیا تھا :
(
و منهم الذین یؤذون النبی و یقولون هو اذن قل اذن خیر لکم یؤمن بالله و یؤمن للمؤمنین و رحمة للّذین آمنوا منکم
)
“
ان میں سے وہ بھی ہیں جو پیغمبر (ص) کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو صرف کان ( خوش باور ، یعنی سب کی سن لیتے ) ہیں ، آپ کہہ دیجئے کہ تمہارے حق میں بہتری کے کان ہیں ( یعنی خوش باور ہونا تمہارے نفع میں ہے ) ، ( لیکن جان لو کہ ) وہ صرف خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنین کی تصدیق کرتے ہیں ( ان کی سن لیتے ہیں ) اور صاحبان ایمان کے لئے رحمت ہیں ، اور جو لوگ رسول خدا (ص) کو اذیت دیتے ہیں ان کے واسطے دردناک عذاب ہے ۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں وارد ہوا ہے کہ ایک منافق ، حضرت رسول خدا (ص) کا مذاق اور استہزاء کر رہا تھا ، جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ (ص) ! فلاں منافق کو بلایئے اور اس سے پوچھئے کہ کیوں ایسے کام کر رہا ہے ۔
یہ ایک استثنائی مورد تھا ، اس کے علاوہ آپ کوئی دوسرا موقع نہیں بتا سکتے کہ پیغمبر (ص) نے کسی کو اپنی شان میں مسخرہ و مذاق کرنے کے سبب طلب کیا ہو ، یہ مورد بھی مصلحت کی بناپر تھا اور پیغمبر (ص) کو حکم ملا تھا ۔
اس قضیہ میں پیغمبر (ص) نے اس شخص کو بلایا اور اس سے توضیح چاہی ، اس نے عرض کیا : ” یا رسول اللہ ! جس نے بھی یہ بات کہی ہے ، جھوٹ کہی ہے ، میں نے ایسا کام نہیں کیا ہے ، ” پیغمبر اسلام (ص) نے کچھ نہیں فرمایا اور خاموش ہوگئے ، یہ منافق بھی یہ سمجھا کہ رسول خدا (ص) نے اس کی بات کو باور کر لیا ہے ، حالانکہ یہ محال ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) خداوند تعالیٰ اور جبرئیل امین کی بات کے بر خلاف اس منافق کی بات کو باور کریں ، لیکن پیغمبر (ص) نہیں چاہتے تھے کہ حتیٰ ایسے منافق شخص کے ساتھ بھی ترش روئی اختیار کریں ۔
یہ منافق لوگوں کے درمیان گیا اور کہنے لگا کہ یہ عجیب پیغمبر (ص) ہیں ، جبرئیل ان کے ایک کان میں کہتے ہیں کہ میں نے ان کا مسخرہ کیا ہے ، باور و یقین کرلیتے ہیں ، دوسرے کان میں ، میں کہتا ہوں کہ ایسا کام نہیں کیا ہے یہ بات بھی باور کرلیتے ہیں ۔
خداوند تعالیٰ نے ان بیہودہ گوئیوں اور بکواسوں کے جواب میں قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ :
”قل اذن خیر لکم
“
یہ تمھاری باتوں کو ( ظاہراً ) مان لینا اور خاموش ہوجانا خود تمہارے لئے بہتر ہے اور تمہارے فائدے میں ہے ۔
یہ حضرت رسول خدا (ص) کا فعل و عمل ہے اور حضرت امام مہدی (عج) حضرت رسول خدا (ص) سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں ۔
پیغمبر اسلام (ص) ”فبما رحمة من الله لنت لهم
“
کے مصداق کامل ہیں ۔ لہٰذا حضرت امام مہدی (عج) بھی انہیں صفات کے مالک ہوں گے ، حضرت کافروں کے ساتھ نرم سلوک اختیار کریں گے تو پھر مسلمانوں کی بات تو الگ ہے ۔
اصولاً حضرت امام مہدی (عج) عدل و انصاف برپا کرنے کے لئے ظہور فرمائیں گے ، اور عدالت انسانوں کی ایک فطری اور طبیعی خواہش ہے ، اس بناپر یہ ممکن نہیں ہے کہ حضرت (عج) ایسی روش اپنائیں کہ لوگ آرزو کریں کہ کاش ان کو نہ دیکھتے ، یا ان سختیوں کے سبب جو انجام دیں گے ، لوگ کہیں کہ وہ آل محمد (ص) سے نہیں ہیں اور وہ اہل بیت پیغمبر علیہم السلام سے ربط نہیں رکھتے ۔ اور اسی طرح جب حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : ” محال ہے کہ میں ظلم کے راستے سے چاہوں کہ کامیابی حاصل کروں اور ظلم کے وسیلہ سے طلب نصرت کروں “ ۔
، تو یقیناً حضرت امام مہدی (عج) بھی اسی سیرت و روش کی پیروی کریں گے ، اور یہ ممکن نہیں ہے کہ ظلم و ستم کے ذریعہ لوگوں پر حکومت حاصل کریں ۔
حضرت امام مہدی (عج) کی قضاوتی سیرت
ایک دوسرا مسئلہ جو حضرت امام زمانہ (عج) کے متعلق بیان کیا جاتا ہے ، وہ حضرت کی قضاوت اور فیصلہ کرنے کی کیفیت ہے۔
بعض افراد معتقد ہیں کہ حضرت امام زمانہ (عج) کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ حضرت (عج) قضاوت کے موقع پر طرفین دعویٰ سے شاہد و بینہ ( گواہ و دلیل ) کے بغیر صرف اپنے ( غیبی ) علم کے ذریعہ حکم صادر فرمائیں گے۔
یہ افراد اپنے مدعا کے لئے کچھ دلیلیں بھی پیش کرتے ہیں منجملہ ان دلیلوں کے وہ احادیث ہیں جو اس سلسلہ میں پائی جاتی ہیں اور ان کا مدلول یہ ہے کہ امام مہدی (عج) اپنے علم کے مطابق اور حضرت داود علیہ السلام کے مانند جھگڑوں کو حل اور اختلاف کو دور فرمائیں گے۔
ان روایتوں کا ایک نمونہ مندرجہ ذیل ہیں :
عبد اللہ بن عجلان نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ امام نے فرمایا: ”اذا قام آل محمد علیهم السلام حکم بین الناس بحکم داود لا یحتاج الیٰ بینةٍ یلهمه الله فیحکم بعلمه
“
جس وقت قائم آل محمد علیہم السلام قیام فرمائیں گے ، تو حضرت داود نبی علیہ السلام کے مانند لوگوں کے درمیان قضاوت و فیصلہ کریں گے ، اور وہ دلیل و برہان کے محتاج نہ ہوں گے ، خدا ان کو حقیقت کا الہام کرے گا اور وہ اپنے علم کے اعتبار سے حکم دیں گے ۔
اس روایت کے مطابق جو تفسیر نور الثقلین میں مذکور ہے :
اولاً : فقط ایک مرتبہ حضرت داود علیہ السلام نے قضاوت کے موقع پر اپنے علم کے مطابق عمل کیا کہ وہ بھی مشکل سے دوچار ہوگئے اور اس کے بعد ہمیشہ حکم خدا سے طرفین سے گواہ و دلیل مانگتے تھے اور دلیل و قسم ہی کی بنیاد پر حکم صادر فرماتے تھے ۔
دوسرے: یہ روش حضرت رسول خدا (ص) کی قضاوتی روش سے منافات رکھتی ہے ، اس لئے کہ حضرت رسول خدا (ص) ہمیشہ فرماتے تھے کہ :
”انما اقضیٰ بینکم بالبینات و الایمان
“ میں فقط شواہد و گواہی اور قسم کی بنیاد پر تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں ، اس بناپر اگر کسی موقع پر میں نے حکم صادر کیا کہ مثلاً فلاں زمین فلاں شخص کی ہے ، لیکن واقع میں ایسا نہ ہو تو وہ اس میں حق تصرف نہیں رکھتا اور میرا حکم اس کو زمین کا مالک نہیں بنائے گا ۔
اس بناپر اس بات کے پیش نظر کہ حضرت امام مہدی (عج) حضرت رسول خدا (ص) سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں اور حضرت (عج) کا ظہور آنحضرت (ص) کی شریعت و سنت کے اجراء اور احیاء کے لئے ہے ، یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) کی روش کے علاوہ کوئی اور روش اختیار کریں گے اور دلیل و شاہد کی طلب کے بغیر لوگوں کے درمیان قضاوت و فیصلہ فرمائیں گے۔
حضرت امام مہدی (عج) کی اجرائی سیرتیں
حضرت امام مہدی (عج) کی اجرائی سیرتوں میں سے ایک سیرت یہ ہے کہ حضرت جتنا لوگوں اور مسکینوں کی نسبت رحیم و مہربان ہیں ، اتنا ہی اپنے حکومتی عہدہ داروں اور کارندوں پر حد سے زیادہ سخت اور حساس ہیں :
”المهدی جواد بالمال ، رحیم بالمساکین ، شدید علی العمّال
“ مہدی (عج) حکومت کے عاملوں ، کارگزاروں پر بہت زیادہ سخت گیر ہوں گے ۔ حضرت علی علیہ السلام ایک حدیث میں اس کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :
”الاوفی غد و سیاٴتی غد بما لا تعرفون ، یاٴخذ الوالی من غیرها عمّا لها علی مساوی اعمالها
“
” آگاہ ہو جاؤ کہ کل کے دن جب کہ وہ (مہدی ) ظہور فرمائے گا ، وہ کل ( آئندہ ) جس سے تم نا واقف ہو دوسرے حاکموں کے بر خلاف اپنے عاملوں اور کارندوں کو ان کے برے کردار اور جرم کی سزا دے گا ان کی بد اعمالیوں کی نسبت مواخذہ کرے گا “ ۔
البتہ حضرت (عج) خود سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اپنے اوپر سختی اختیار کریں گے اور اس بات کے بر خلاف کہ تمام لوگ حضرت کی حکومت کے زیر سایہ رفاہ و آرام میں رہیں گے ، اپنے جد امیر المؤمنین علیہ السلام کے مانند درشت اور خشن پوشاک اور غیر لذیذ کھانے پر اکتفا فرمائیں گے :
”فو الله ما لباسه الا الغلیظ و لا طعامه الا الجشب
“
قسم بخدا مہدی (عج) کا لباس درشت اور کھانا سوکھا اور بغیر سالن کے ہوگا۔
میں امید رکھتا ہوں کہ خود حضرت ولی عصر (عج) کی برکت سے خداوند عالم ہم سب کی عمر کو حضرت کے ظہور سے متصل فرمادے گا ، ان شاء اللہ ۔ اس بات کی ذکر ضروری ہے کہ حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی دام ظلہ العالی نے یہ موضوع ” حضرت امام مہدی (عج) کی حکومتی سیرت “ کو حوزہ علمیہ قم المقدسہ کے علماء و طلاب محترم کے مجمع کے درمیان چند جلسوں اور نشستوں میں مفصل طور پر علمی تنقید و تحقیق کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، اور دسیوں روایتوں سے زیادہ پر چار موضوع
کے تحت مفصل طور پر مختلف جہتوں کے ساتھ حجیت روایات کی بحث کی ، جیسے سندی و دلالی جہات ( علم حدیث ، رجال ، درایۃ ) پر محققانہ تقریر فرمائی ہے۔ لیکن اختصار کے پیش نظر چونکہ افسوس ہے کہ معظم لہ کی تقریروں کو تفصیلاً ٹیپ نہ کرسکے لہٰذا اسی مختصر مقدار پر ہم نے اکتفا کیا ۔ (ناشر)
____________________