مقدمہ مؤلف
(
وَنُرِيدُ انْ نَمُنَّ عَلَي الَّذِينَ استُضْعِفُوافِي الْارْضِ وَنَجْعَلَهُمْ ائِمَّةً وَنَجْعَلَهُمْ الْوَارِثِينَ
)
۔
ہميشہ سے يہ گفتگو رہي ہے كہ حكومت كي بہترين شكل كون سي شكل ہے، اور حكومت كے وہ بنيادي اصول كياہيں جو انسانيت كو سعادت و خوشبختي سے ہمكنار كر كے انسانيت كو تاريخي ظلم وستم سے نجات دلاسكتے ہيں؟ غيرمسلم محققين عام طور پر اس بحث كے دوران دواہم عناصر سے غافل رہے ہيں جو بہترين طريقہ حكومت كي تشخيص ميں كليدي حيثيت كے حامل ہيں، اور وہ اخروي سعادت اور خوشنودي پرودگار كا حصول ہے۔
طويل تجربات كي روشني ميں يہ ثابت ہو چكا ہے اور وقت گزرنے كے ساتھ اس كي حقانيت مزيد نكھر كر سامنےآئے گي كہ دنياوي سعادت فقط ايسي حكومت كے سايہ ميں ممكن ہے جو خداوند متعال كي وحي اور احكام كي روشني ميں قائم كي جائے، وہ خدا جو بشريت كي مشكلات اور ان كے راہ حل سے مكمل طور پرآگاہ ہے، اخروي سعادت يا پروردگار كي خوشنودي كا حصول بھي بہ درجہ اولي خداوند متعال كے احكام كي پيروي كئے بغير ممكن نہيں ہے۔
آج ہم ديكھ رہے ہيں كہ دنيا ظلم و استبداد كے سمندر ميں غرق ہے اور اسے ہران تباہي و بربادي كے خطرات لاحق ہيں، حالانكہ دنياكے دانشوروں نے تاريخ كے طويل دور ميں حاصل ہونے والے معاشرتي تجربات كي روشني ميں حكومت كرنے كے مختلف طريقے اور متعدد نظام اوراسلوب بيان كئے ہيں، علاوہ برايں انسانيت كے آرام و آسايش كے تمام ترمادي وسائل بھي فراہم ہيں، اورصنعت و ٹيكنالوجي حيران كن حد تك ترقي كر چكي ہے، پھر بھي سختياں روز بروز بڑھتي جارہي ہيں اور بشريت گرداب ہلاكت ميں مزيد اسير ہوتي جارہي ہے ۔
جي ہاں يہ تمام (مادي ترقياں) بشريت كو تباہي و بربادي سے نجات دلانے كي صلاحيت نہيں ركھتيں لہٰذا ان حالات ميں ضرورت اس امر كي ہے كہ بارگاہ خداوندي ميں دست نياز دراز كريں اور اس كي پر نور آسماني تعليمات سے راہنمائي حاصل كريں۔
”جمہوريت“بنيادي طور پر سرمايہ دارانہ نظام حكومت پر استوار ہے اور جيسا كہ خود”جمہوريت“ پر اعتقاد ركھنے والوں كا ادّعاہے ”جمہوريت” معاشري كے تمام افراد كومكمل جمہوري حقوق عطا كرتي ہے جب كہ ماركسسٹ اشتراكي نظام فقط مزدور طبقے يا خود حكمران اشتراكي پارٹي كي جمہوريت كا نعرہ لگاتا ہے اور معاشري كے تمام طبقوں كي كامل آزادي كا مخالف ہےان كي نظر ميں محنت كش طبقے كي ڈكٹيٹر شپ قائم كرنا ضروري ہے، ماركسيزم معتقد ہے كہ فقط محنت كش طبقہ ہي ايك آئيڈيل اشتراكي نظام كي برقراري كي ضمانت فراہم كرتاہے، اور قوموں كو تاريخ بشريت كي ترقي يا فتہ ترين مرحلہ يعني اشتراكي نظام تك پہنچنے كے لئے آمادہ و تيار كرتا ہے، جب كہ معاشري كے دوسري طبقے اس ہدف كے حصول كي راہ ميں ركاوٹيں ايجاد كرتے ہيں اسے اپنے حقيقي راستے سے منحرف كرتے ہيں اور اس كے فطري عمل كے خلاف آواز اٹھاتے اور تحريك چلاتے ہيں۔
بنابر اين محنت كش طبقے كے علاوہ دوسري طبقات كو حكومت كے جمہوري حقوق نہيں ملنے چاہئے اور نہ ہي انھيں معاشري كے امور چلانے ميں شريك كرنا چاہئے، دنيا ميں رائج انسانوں كے ناپختہ افكار كے ايجاد كردہ نظام حكومت كے مقابل اسلام كا عالمي نظام حكومت ہے، جس كا بنيادي نعرہ يہ ہے كہ ”حكمراني كاحق خداوند متعال كي جانب سے ہي تفويض ہوتا ہے كيونكہ خداوند متعال ہي دنيا كا حقيقي حاكم ومالك اور قانون ساز ہے اور خدا كے علاوہ كسي دوسري كو حق حكمراني اور حق قانون سازي حاصل نہيں ہے۔
اسلام كے مطابق نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پيغام الٰہي پہنچانے كے ساتھ ساتھ امت كے پيشوا اور ولي وسرپرست بھي ہيں اور مومنين كي جانوں پر خود ان سے زيادہ تصرف كا حق ركھتے ہيں، ليكن نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي رحلت كے بعد نظام حكومت كس طرح كاہوگا؟
اس سلسلے ميں بعض شيعہ و سني محققين نے تفصيلي بحثيں كي ہيں اور كتابيں تحرير كي ہيں، بعض اہل سنت علماء اور صاحبان قلم كا دعويٰ ہے كہ ”شوري”يا منتخب افراد پر مشتمل ايك كميٹي كي حكومت خدا كي طرف سے معين ہونے والا نظام حكومت ہے، اس نظريہ كي تائيد ميں انھوں نے قران مجيد، سنت نبوي اور سيرت صحابہ سے دلائل بھي پيش كئے ہيں البتہ شوريٰ كي بنياد پر قائم ہونے والا نظام حكومت مغربي جمہوريت سے مكمل طور پر مختلف ہے، كيونكہ اسلامي نظام حكومت ميں بنيادي قوانين واحكام انتخابات يا عوامي نمائندوں كے تعين سے وابستگي نہيں ركھتے جب كہ جمہوريت ميں بنيادي قوانين كي بنياد انتخابات اور عوامي نمائندگي پر استوار ہے، اسلام ميں حكومت كے لئے اسلام كے مقرر كردہ اصولوں كے دائري ميں چلنا ضروري ہے كيونكہ اسلام كي رسالت تمام زمانوں اور تمام نسلوں كے لئے ہے، جہاں تك عالم تشيع كا سوال ہے، ان كا ايمان و عقيدہ ہے كہ پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اپني رحلت كے بعد كے لئے امت كے درميان ايك مستقل نظام امامت كو معين كر ديا ہے اور يہ امامت كا سلسلہ منصوص من اللہ ہے ۔
اس الٰہي نظام كي پہلي شكل امام علي بن ابي طالب عليہ السلام كي صورت ميں سامنےآئي جن كے متعلق متعدد شرعي نصوص موجود ہيں كہ انھيں نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے خدا كے حكم مطابق امت كا ولي اور احكام بيان كرنے والا پيشوا قرار ديا ہے، يہ سلسلہ الٰہي نص كے تحت يكے بعد ديگري بارہويں امام حضرت مہدي عليہ السلام تك چلتا رہا ہے جو اس وقت بھي لوگوں كي نظروں سے پوشيدہ، اور زندہ ہيں اور خدا سے رزق پارہے ہيں، جب دنيا ظلم وجور سے بھر جائے گى، خداوند متعال امام مہدي عليہ السلام بقيہ اللہ الاعظم عليہ السلام كے توسط سے حق و انصاف كي حكومت قائم كرے گا جس كے نتيجے ميں دنيا عدل وانصاف كا گہوارہ بن جائے گي۔
اب جب كہ شيعوں كے نزديك حكومت كي بنياد معلوم ہوگئي تو ظاہر ہے اسلامي حكومت سے متعلق ہماري بحث وگفتگو امام مہدي عليہ السلام كے زمانہ غيبت سے تعلق ركھتي ہے۔
شيعي دنيا كے علمي منابع وماخذ اور مكتب اہل بيت عليہ السلام كے بعض فقہاء و مجتہدين كے فتوؤں كي روشني ميں جو چيز سامنے آتي ہے وہ زمانہ غيبت ميں اسلامي نظام حكومت كا نظريہ ”ولايت فقيہ، ، ہے، البتہ مخصوص حالات جب مہيا ہو جائيں تو اس كو عملي جامہ پہنانا ضروري ہے (جب فقيہ ميں لازم شرائط و خصوصيات موجود ہوں) ۔
محترم قارئين كے پيش نظر يہ مختصر تحرير جمہوريت، شوريٰ اور ولايت فقيہ كے تقابلي جائزے پر مشتمل ہے۔
اس كتاب كے تين باب ہيں۔
باب اول: اس ميں جمہوريت اور ضمني طور پر ڈكٹيٹر شپ كے متعلق مختصر گفتگو ہوگي ۔
باب دوم: اس ميں شوريٰ كے متعلق بحث ہوگي۔
باب سوم: ولايت فقيہ سے متعلق بحثوں پر مشتمل ہے۔
دعا ہے كہ خداوند متعال ميري اس حقير كوشش كو شرف قبوليت بخشے اور اسے اپني خوشنودي كے حصول كي مخلصانہ كوشش قرار دے۔
وما توفيقي الا بالله عليه توكلت واليه انيب
السيد كاظم حائرى
۶ محرم الحرام ۱۳۹۹ھ
____________________
۱