باب اوّل: جمہوريت
حكومت كي ضرورت
كسي بھي معاشري ميں نظم و ضبط كے لئے ايك (حكومتي) ڈھانچے كي شديد ضرورت ہے جو زندگي كے مختلف شعبوں ميں ہم آہنگي ايجاد كرے اور قومي امور كي باگ ڈور سنبھالے تاكہ طرح طرح معاشرتي مسائل، ضروريات كو پورا كرنے كے وسائل كے درميان ہماہنگي قائم رہے، اور مفيد و كار آمد قوتوں كو جمع كركے انھيں صحيح رخ پر لگائے تاكہ وہ اپني توانائياں معاشري كے مصالح و مفادات كے حصول كي راہ ميں استعمال كر سكيں اسي طرح عدل وانصاف كي بر قراري اور دوسروں كے حقوق پر ڈاكہ ڈالنے والے ظالم و جابر افراد سے مقابلہ اس كاايك اہم كام ہے اس كے ساتھ ہي ساتھ ايك معاشرہ كو اس لئے بھي كسي (حكومتي) ڈھانچے كي ضرورت ہے كہ جب ايك مضبوط، مؤثر اور قدرتمند اجتماعى موقف كي ضرورت پيش آئے وہاں يہ (حكومتي) ڈھانچہ مختلف آراء وافكار ميں ہماہنگي ايجاد كركے ايك مؤثر اور قوي و مفيد موقف اختيار كر سكے ايسا موقف جو فيصلہ كن حقائق پر مبني اور قابل اثر ہو، اس كے علاوہ اور بھي ديگر امور ہيں جو ايك معاشرہ ميں حكومت كي شديد ضرورت كو نماياں كرتے ہيں اور كسي كے لئے شك و شبہ كي گنجائش باقي نہيں رہتي۔
جب ايك مختصر سے خاندان كو (جو عظيم معاشري كي ہي ايك بنيادي اكائي ہے) ايك ايسے سر پرست كي ضرورت ہوتي ہے جو خاندان كے تمام امور كي نگراني كر ے، مختلف افراد كے فرائض اور ان كے امور ميں ہماہنگي ايجاد كر سكے تو اس عظيم معاشري كے لئے جو مختلف سماجي اكائيوں، اور مختلف احساسات و جذبات اور مختلف افكار وخواہشات كے حامل گروہوں اور سياسي جماعتوں سے تشكيل پاتا ہے بدرجہ اولي ايك (حكومتي) ڈھانچے كي ضرورتي آشكار ہوجاتي ہے۔
ولايت (سرپرستي و حكومت)
يہ ايك اہم حقيقت جو تمام اعلي مرتبہ حكومتي عناصر يا حكومت ميں نماياں نظر آتي ہے يہ ہے كہ تمام حكام اور ارباب اقتدار ميں كچھ خصوصيات كا ہونا ضروري ہے تاكہ ان كي بنياد پر ان كا حكم نافذ ہو سكے وہ اپنے اہداف كي تكميل كر سكيں اور اپنے طريقہ كار اور اقدامات كے لئے جواز اور قانوني حيثيت ثابت كر سكيں۔
ظاہر ہے حكومت كو اپنے مقاصد كي راہ ميں معاشري كے افراد يا گروہوں كو زندگي كے مختلف شعبوں ميں بعض ايسے امور سے بھي منع كرنا پڑتا ہے كہ اگر حكومت منع نہ كرتي تو وہ ضروريہ كام انجام ديتے، اسي طرح ان كو بعض ايسے كاموں كي انجام دہي پر مجبور كرنا پڑتا ہے كہ اگر حكومت نہ ہوتي تو وہ ہرگز ان كاموں كو انجام نہ ديتے، چنانچہ اسي طرح كے امور كے لئے حكومت كو بعض اختيارات كي ضرورت ہے ۔
ياد رہے اخلاقي طور پر انسان پوري طرح آزاد ہے كہ وہ اپنے لئے كسي بھي راستے كا انتخاب كرے اور جو كام چاہے انجام دے، كيونكہ تخليقي طور پر انسان آزاد پيدا ہوا ہے كسي چيز كا چاہنا اور كسي چيز كا نہ چاہنا اس كي طبيعت اور فطرت ميں شامل ہے، معلوم ہواانساني ضمير انسان كي كسي كام سے نہيں روكتا اور نہ ہي اس كي آزادي كو سلب كرتا ہے مگر يہ كہ مندرجہ ذيل دو حالتوں ميں سے كوئي ايك پيش آجائے گي۔
۱) خدا كي طرف سے امر و نہى
انسان مومن خدا كے حقيقي مالك اور ولي و حكمران ہونے پر ايمان و يقين ركھتا ہے اور جانتا ہے كہ انسان كو خدا كے اوامر و نواہي كي نافرماني كا حق حاصل نہيں ہے اس عقيدہ كے پر تو ميں آگاہ و بيدار انساني ضمير انسان كو فقط اس حد تك آزادي عطاكرتا ہے كہ جہاں تك خدا نے اجازت دي ہے، دوسري الفاظ ميں ايك انساني ضمير انسان كو دوسري انسانوں كے مقابلے ميں تو آزادي وخود مختاري عطا كرسكتا ہے، خدا مقابلے ميںنہيں۔
۲) دوسروں كي آزادي
انساني ضمير حكم كرتا ہے كہ انسان كو اسي حد تك آزادي حاصل ہے كہ وہ دوسروں كي آزادي ميں خلل ايجاد نہ كرے لہٰذا جب بھي انسان اس حد سے آگے بڑھتا ہے اسے اس كا اپنا ضمير خبردار كرتا ہے كہ تم خطا كر رہے ہو اور اپني حدوں سے آگے بڑھ رہے ہو، ان دونوں حالتوں كے علاوہ كوئي اور وجداني قوت، فطري آزادي ميں ركاوٹ نہيں ايجاد كر سكتي جب كہ ہم ديكھتے ہيں كہ فطري طورپر حكومت تقاضا كرتي ہے كہ بہت سي آزاديوں كو نظر انداز كردينا اور صرف وجدان كے تقاضوں تك محدود نہ ركھنا ضروري ہے پابنديوں كا دائرہ اس اسے وسيع تر ہونا چاہئے۔
مثلاًحكومت بعض كاموں كو عمومي سطح پر ممنو ع كر ديتي ہے اور بعض امور (دوسروں كے خاطر) انجام دينے كا حكم ديتي ہے جيسا كہ ٹريفك وغيرہ كے قوانين ميں نظرآتا ہے دوسري
طرف حكمراں جماعت (ايك ايسے معاشري ميں جو شخصي ملكيت كا قائل ہو) بعض اوقات مجبور ہوتي ہے كہ وہ لوگوں كي ملكيت كے دائروں كو محدود كردے مثلاً چيزوں كي قيمت معين كردے كہ اس كے مطابق فلاں جنس كي خريدو فروخت ضروري ہے۔
اس قسم كے اور بہت سے كام جو بظاہر شخصي ملكيت كے ساتھ ميل نہيں كھاتے اور اپنےمال پر اختيار باقي نہيں رہنے ديتے اب ايك ايسے معاشري ميں جو اس بات كاقائل ہے كہ لوگ اپني اشياء كےمالك ہيں اور ان ميں ہر قسم كے تصرف كا حق ركھتے ہيں اگر ارباب حكومت اس اختيار كو سلب كرنا چاہتے ہيں اور شخصي ملكيت كے خلاف حكم نافذ كرنا چاہتے ہيں تو حكومت كے لئے اپنے اقدامات كے جواز ميں كوئي راہ نكالنا ضروري ہے جس پر عوام اور حكومت دونوں متفق ہوں ۔
يہاں پر ايك اور نكتہ بھي قابل ذكر ہے كہ متعدد امور ميں حكومت كے لئے اس كے علاوہ كوئي چارہ كار نہيں ہوتا كہ لوگوں پر سختي كرے اور انھيں بعض ايسي پابندياں قبول كرنے پر مجبوركرے جن ميں لوگ آزاد رہنا پسند كرتے ہيں، يا لوگ اپنا فريضہ سمجھتے ہيں كہ ايك كام نہ كريں، ليكن حكومت مجبور كرتي ہے كہ يہ كام قومي اتحاد ويكجہتي كي خاطر يا كسي دوسري ھدف كے حصول كي خاطر ضرور كيا جائے، مثال كے طورپر حكومت سمجھتي ہے كہ ملك كي فوجي قوت كو قوي كرے تاكہ بيروني حملے كي صورت ميں پوري قوت سے دشمن پر كاري ضرب لگائي جاسكے اس دوران ممكن ہے ايك گروہ كا خيال ہو كہ فوجي بجٹ ميں اضافہ صحيح نہيں ہے كيوں كہ يہ اقدام ملك كي اقتصادي ترقي كي راہ ميں ركاوٹ بنے گا۔
اس ميں كوئي شك نہيں كہ ان حالات ميں حكومت اس گروہ كو ان كے حال پر آزاد نہيں چھوڑ سكتي كہ وہ اپنے خيال كے مطابق جو چاہيں كريں ليكن سوال يہ ہے كہ حكومت كو وہ حق اور ختيار كيسے ملا كہ جس كي بنياد پر لوگوں كو ان كي خواہشات و ميلانات كے خلاف موقف اختيار كرنے پر مجبور كرے چنانچہ اگر حكومت كا معاملہ نہ ہوتا تو افراد پر اس طرح كا دباؤ ڈالنا ممنوع ہوتا ۔مختصر يہ كہ يہ ممكن ہي نہيں ہے ايك معاشري ميں اعليٰ اختيار كي حامل حكمراں كو نسل موجود ہو اور اس كے باوجود معاشري كے تمام افراد ذاتي ملكيت كي بنياد پر ہرقسم كے تصرفات ميں شخصي طورپر آزاد ہوں، اور اپني ذاتي آراء و خواہشات كے مطابق جو روش اپنانا چاہيں، انتخاب كريں۔
بنابرايں ايك ايسي حكومت كا وجود ضروري ہے جو حكم دے كہ فلاں كام انجام ديا جائے اور فلاں كام انجام نہ ديا جائے جو قوانين و ضوابط معين كرے اور جو معاشري كوايك معين رخ عطاكرے، جب يہ ايك ناقابل انكار حقيقت ہے تو سوال پيدا ہوتا ہے كہ حكومت كو يہ حق كيسے حاصل ہوا ور ارباب اقتدار كي حكمراني كا سر چشمہ كيا ہو؟ كہ جس كي بنياد پر حكومت كو جائز قرار ديا جا سكے؟
اب ہم اس سوال كا”حكومت كي بنياد “يا”سر چشمہ ولايت” كے عنوان سے جائزہ ليں گے تاكہ معلوم ہو جائے كہ ايك حكومت كو عوام اور معاشري پر حكمراني اور تسلط واقتدار كا حق كيسے حاصل ہوتا ہے اور وہ كس حق كي بنياد پر لوگوں كي بنيادي آزاديوں كو قانوني دائروں ميں محدود كرتي ہے، اس منزل ميں يہ بحث ناگريز ہے كہ حكومت كو وسيع بنيادوں پر حكمراني و تسلط كا حق كہاں سے حاصل ہوا اور حكمراني و اقتدار كا وہ كون سا جواز ہے؟ جس نے اسے ايك ظالمانہ واستبدادي نظام حكومت سے الگ كر ديا ہے؟ !
حكومت كي اساس
كسي بھي حكومت كي برقراري كاتصور اس وقت تك نہيں كيا جا سكتاجب تك اس كي بنياديں دو اہم ستونوں پر استوار نہ ہوں ان دونوں ستونوں كا استحكام كہ جن كي حقيقت كو غير محسوس طور پر خود انساني ضمير دل كي گہرائيوں سے قبول كرتا ہے اور عوام كے درميان حكومت كي برقرار ي كے لئے ضروري ہے ۔
۱) جس كي طرف گذشتہ بحثوں ميں اشارہ ہو چكا ہے يعني حكومت كا كوئي محكم و استوار سر چشمہ ہونا بے حدضروري ہے تاكہ حكومت اپني ولايت اور اقتدار كا جواز اس سے حاصل كرسكے ۔
۲) دوسرا يہ كہ حكومت كا نفاذ اور حكومت كي پاليسياں اور منصوبے سماجي مصلحتوں اور بھلائيوں كے ساتھ ميل كھاتي ہوں۔
ڈكٹيٹر شپ اور جبر استبداد
اس منطقي بحث ميں ”ڈكٹيٹر شپ” جو جبرو استبداد پر استوار ہوتي ہے كوئي مفہوم نہيں ركھتي كيونكہ اس ميں اپنا اقتدار وتسلط برقرار ركھنے اور معاشري كو اپنے احكام و فرامين ماننے پر مجبور كرنے كے لئے ظلم و استبداد اور قوت وغلبہ كا سہارا ليا جاتا ہے، طاقت كي زبان كے علاوہ استبدادي حكومتوں كے حق ميں كسي قسم كي منطقي دليل پيش كرنا ممكن نہيں ہے كيونكہ ذكر شدہ دونوں ستونوں سے محروم ہوتي ہے نہ تو اس كو معاشري پر حكمراني كا كوئي قانوني و شرعي حق حاصل ہوتا ہے اور نہ ہي اس كے منصوبے اور پاليسياں سماجي اور معاشرتي بھلائيوں كے ساتھ ميل كھاتي ہيں ۔
يقينا بعض اوقات استبدادي حكومت بھي دعويٰ كرتي ہے كہ اس كے پاس انساني بنيادوں پر عقل و وجدان كو مطمئن كرنے والا حكمراني كاجواز اور دليل موجود ہے اور وہ يہ كہ ہم ظلم و ستم كے شكار لوگوں كو ظالم كے ظلم سے نجات دينا اور ظلم وستم كے ہاتھوں كو عدل و انصاف كي تلوار سے كاٹ دينا چاہتے ہيں اور كہتے ہيں كہ ہم نے معاشري ميں بعض لوگوں پر بعض دوسري افراد كے ناروا سلوك كو ختم كردينے كے لئے حكومت سنبھالي ہے، يا اس قسم كي دوسري باتيں، اسي طرح يہ بھي ممكن ہے كہ اہل استبداد دعويٰ كريں كہ وہ عقلي اصولوں كي بنياد پر شخصي ملكيتوں كو ايك ايسے دائري ميں محدود كرنا چاہتے ہيں جو عملي طور پر قابل اجراء ہوں، ظاہر ہے اس طرح كے نظريات ميں اگر واقعي طورپر قومي مفادات پيش نظر ركھے جائيں تو ملكيتوں ميں انساني تصرفات و اختيارات كو محدود كيا جا سكتا ہے اور حكومت كو دوام واستحكام بھي مل سكتا ہے، جيسا كہ ہماري گذشتہ بحثوں سے واضح ہو چكا ہے كہ حكومت كے احكام اور تسلط كا دائرہ ان حدود سے آگے بڑھ جاتا ہے كہ جس كا وہ دعويٰ كرتے ہيں اور انساني عقل و وجدان كي نظر ميں جو پابندياں جائز كہي جاتي ہيں معلوم ہوا عام طورپر رائج استبدادي حكومت ضرورت سے زيادہ اپنا پاؤں پھيلاليتي ہے خاص طورپر بڑے اور پيچيدہ معاشروں ميں يہ بات بخوبي قابل مشاہدہ ہے۔
پس استبدادي حكومت لوگوں پر تسلط واقتدار كے قانوني جواز سے پوري طرح محروم ہے اور طاقت و قدرت كے استعمال كے علاوہ حكمراني كا كوئي اور چارہ اس كے پاس نہيں ہے، (طاقت و قدرت ہي سے استفادہ كرتي ہے)
بنابرايں استبدادي نظام حكومت كے پہلے ستون (عوام الناس پر حق حكومت كي) قانوني بنياد سے عاري ہے اور صرف اس بات كا دعويٰ كر سكتي ہے كہ وہ دوسري ستون يعني عوام الناس كي بھلائي كو پيش نظر ركھتي ہے (اور اس بنياد پر استوار ہے) ان كاتمام ہم وغم معاشري كي ترقي اور فلاح و بہبود ہے ليكن كيا كيجئے گا ان كے پاس اس دعوے كي بھي كوئي دليل نہيں ہے ڈكٹيٹر حكمران طاقت واقتدار كے ذريعے تخت حكومت پر براجمان ہو كر اپنے تمام تر اعليٰ مقاصد بھول جاتے ہيں، انساني وجدان و ضميربھي اس طرز فكر كي مخالفت كرتا ہے، انساني وجدان كا تقاضا كرتا ہے كہ حكومت اور عدل وانصاف كي برقراري كے لئے صحيح راہ سے قانوني جواز حاصل ہو نا چاہئے، صرف معاشري كي فلاح و بہبودكے بہانے قہر وغلبہ سے حكومت كرنا صحيح نہيں ہے۔
انسانوں ميں حب ذات كا مرض بھي بہت شديد ہے اور اس مادي دنياميں ايك دوسري كے شخصي مفادات اور مصالح بھي آپس ميں متصادم ہيں، ان تمام امور كو پيش نظر ركھتے ہوئے يہ تصور كرلينا معقول نہيں ہے كہ ايك ڈكٹيٹر پوري معاشري كے مفادات كو شخصي مفادات پر مقدم ركھنے كا پابند رہےگا، بلكہ عام طور پر سبھي انسان اپنے مفادات كو دوسروں كے تمام امور (قومي مفادات) پر ترجيح ديتے ہيں۔
اور بعيد نہيں كہ ضمير ووجدان كي نگاہ ميں بھي اس كا يہ كام غلط اور ناروا محسوس نہ ہوكيونكہ قہر وغلبہ اور طاقت كے بل بوتے پر قائم ہونے والي حكومت خود كو كسي بھي قانو ن اور جواز كا پابند نہيں سمجھتي لہٰذا جو كسي بھي قسم كے جواز كے بغير خلاف وجدان لوگوں كا حكمران بن بيٹھا ہے اگر اپنے ذاتي مفادات كو عوام الناس كي فلاح و ترقي پر ترجيح دے تو كوئي بعيد بات نہ ہوگي۔
ولايت واقتدار كا سر چشمہ
كسي بھي معاشري پر حكمراني كے لئے ولايت واقتدار كے استحكام كي اساس و بنياد صرف دو چيزوں پر قائم ہوتي ہے۔
۱) عوام كي راى
۲) خداوند متعال كا انتخاب
كہا جاتا ہے كہ جب عوام كسي فرد خاص يا جماعت كو معاشري كا نظم ونسق اور معاشري كي حكمراني اپنے اختيار وانتخاب سے سونپ ديں تو اس فرد يا جماعت كي حكومت ذكر شدہ قانوني جواز اور مصلحتوں كے تحفظ دونوں ستونوں پراستوار ہوگى، حكمراني كي اس قسم كو ”جمہوريت”كہا جاتا ہے، البتہ لفظ جمہوريت كي متعدد تعريفيں كي گئي ہيں اور اس منزل ميں جمہوريت سے ہمارا مقصود يہ ہے كہ راہ و روش كے تعين كا حق عوام كے ہاتھ ميں ہو اور خود عوام ارادہ و اختيار سے نظم و نسق قائم كريں، قانون سازي كريں اور قانون پر عمل درآمد كے لئے افراد كاانتخاب كريں خواہ يہ كام عوام بلا واسطہ خود انجام ديں يا بالواسطہ منتخب نمايندوں كے ذريعہ انجام پائے، يا دونوں طريقوں سے يہ كام انجام ديا جائے۔
جمہوريت كي اصطلاح ”جان جاك روسو”نے ايك خاص معني ميں استعمال كي ہے، ان كي نظر ميں جب حكمران كونسل كے اركان كي تعداد پوري عوام پر يا عوام كي اكثريت پر يا عوام كي نصف تعداد پر مشتمل ہو (تو وہ جمہوري حكومت كہي جائے گي) ”جان جاك روسو” كے الفاظ ميں”حكمران كونسل حكومت كے امور كو پوري ملت كو يا عوام كي واضح اكثريت كواس طرح سونپ سكتي ہے كہ حكمراني ميں شريك شہريوں كي تعداد غير متعلقہ شہريوں (حكمراني ميں شريك نہ ہونے والوں) كي تعداد سے زيادہ ہو تو حكومت كے اس طرز كو (جمہوريت) كانام دياجاتا ہے ۔
اسي طرح ارباب حكومت كويہ بھي حق حاصل ہے كہ زمام حكومت ايك اقليت كے حوالے اس طورپر كرديں كہ غير متعلقہ شہريوں كي تعداد حكومت كے امورميں شريك شہريوں كي تعداد سے زيادہ ہو تو اس طرز حكومت كو ارسٹوكريسي
كہا جاتا ہے اسي طرح يہ بھي ممكن ہے كہ زمام اقتدار كسي شخصي واحد كے حوالے كر ديا جائے اور باقي تمام لوگ حكومت كے امور ميں اپنے قانوني عہدے (قانوني جواز) اسي فرد واحد سے حاصل كريں اور حكومت كي يہ قسم جو باقي تمام كي نسبت زيادہ رائج ہے ”بادشاہت” يا ”شاہي حكومت” كے نام سے معروف ہے۔
يہاں پر اس امر كو مدنظر ركھنا ضروري ہے كہ مذكورہ تمام اقسام حكومت ”يا كم از كم پہلي دو قسموں ميں حكومت كے دائروں ميں بڑے پيمانے پر كمي و زيادتي ممكن ہے اور اہل اقتدار ان دونوں قسموں ميں عملي طور پر وسيع حد تك تصرف ميں آزاد ہيں كيونكہ جمہوريت كے دائري ميں يہ صلاحيت اور گنجائش موجود ہے كہ قوم كے تمام لوگوں كو (امر حكومت ميں) ساتھ ركھيں ان كي تعداد گھٹا كر عوام كي صرف نصف تعداد كو ساتھ ملائيں اسي طرح” يعني امراء كي حكومت ميں بھي يہ صلاحيت اور گنجائش موجود ہے كہ حكومت كے امور ميں دخيل لوگوں كي تعداد ايك بڑے دائري يعني آدھے لوگوں سے گھٹا كر چند افراد كي قليل تعداد تك محدود كر دي جائے (كسي بھي طرح كي كوئي پابندي نہيں ہے)
حتي حكومت كي تيسري قسم يعني ”بادشاہت”ميں بھي تقسيم بندي ممكن ہے مثال كے طورپر ”اسپارٹيوں” كے اپنے ملكي آئين كے مطابق ہميشہ بيك وقت دو بادشاہ ہوا كرتے تھے، ياسلطنت روم كے فرمانرواؤں كي تعداد كبھي كبھي ايك ہي وقت آٹھ افراد تك پہنچ گئي ہے بغير اس كے كہ خود سلطنت مستقل خود مختار آٹھ حصو ں ميں تقسيم ہوئي ہو۔
اس ذيل ميں ايك قابل غوربات كہ حكومت كي مذكورہ تينوں اقسام ممكن ہے كہيں ايك دوسري سے مخلوط اور ملي جلي نظرآئى، كيونكہ ہم ديكھتے ہيں كہ عوام كي مشاركت كے لحاظ سے حكومت كي مذكورہ بالا تينوں قسميں جمہوريت، ارسٹوكيسي اور بادشاہت مختلف شكلوں ميں قابل مشاہدہ ہيں بلكہ اس سے بھي بڑھ كر حكومت كے يہ سبھي طريقے اپني جگہ كئي پہلوؤں سے وسيع ہونے اور اجزاء ميں تقسيم كئے جانے كي صلاحيت ركھتے ہيں چنانچہ اس كے مختلف اجزاء ميں شيوہ٘ حكمراني بھي مختلف و متفاوت ہو سكتا ہے اس طرح مذكورہ تينوں طر زحكومت كي آميزش سے كچھ ايسے نئے طرز حكومت پيش كئے جا سكتے ہيں جو مختلف ہونے كے باوجود مذكورہ كسي نہ كسي قسم كے ساتھ منطبق كئے جا سكتے ہيں ۔
تاريخ كے تمام ادوار ميں ہميشہ حكومت كي بہترين قسم كے متعلق معركۃالآراء بحثيں ہوتي رہي ہيں ليكن كبھي اس نكتے كي طرح توجہ نہيں دي گئي ہے كہ مذكورہ بالا تمام اقسام كي حكومتيں بعض شرايط اور حالات ميں ممكن ہے بہترين اور مناسب ترين ہوں ليكن بعض شرائط و حالات ميں بدترين ثابت ہوں حكمران اور محكوم طبقے كے درميان نسبت كا معكوس ہونا ضروري ہے
تو اس قاعدے كے مطابق ”جمہوريت “چھوٹي مملكتوں كے لئے مناسب ہے ارسٹوكرےسي”مخصوص طبقے يعني امراء كي حكومت”متوسط ملكوں كے لئے ٹھيك ہے اور ”باد شاہت “بڑي بڑي حكومتوں كے لئے مناسب ہوگى، يہ قاعدہ كليہ ان ہي اصول و قواعد كي بنياد پر اخذ كيا گيا ہے (جو گذشتہ بحثوں ميں ثابت ہو چكے ہيں)
(ليكن سوال يہ ہے كہ) ان مخصوص حالات اور مخصوص زمان ومكان كے تقاضوں كا كسي طرح محاسبہ لگكيا جائے جو غيرمعمولي حالات اور مستثنيات كا سبب بنتے ہيں؟
يہ جو كچھ آپ نے پڑھا پوري تفصيل سے جان جاك روسو نے اپني كتاب پيمان معاشرت كے تيسري باب ميں ذكر كيا ہے۔
كيونكہ جان جاك روسونے جمہوريت كي جو تعريف كي ہے اس كے تحت اس كادعويٰ ہے كہ كسي بھي وقت حقيقي جمہوريت كا حصول ممكن نہيں ہے۔
جان جاك روسو كے الفاط ہيں”جب ہم جمہوريت كا اس كے كسي بھي معني ميں دقت نظر سے جائزہ ليتے ہيں تو پتہ چلتا ہے كہ حقيقي جمہوريت نہ تو كبھي وجود ميں آئي ہے اور نہ كبھي وجود ميں آئے گي كيونكہ يہ چيز نظام فطرت كے خلاف ہے كہ اكثريت حكمراني كرے اور اقليت محكوم ہو علاوہ ازايں يہ تصور كرنا بھي ممكن نہيں ہے كہ پوري قوم امور عامہ كے حل اور صلاح و مشورہ كے لئے ہر روز اكھٹاہوسكے اور اگر اس بات كي اساني كے لئے اپني طرف سے مختلف كميشن تشكيل ديں گے تو حكومت كے امور چلانے كے لئے نظام كي شكل تبديل كرنا پڑے گي (اور وہ شكل) ڈيموكرےسي كے علاوہ كوئي اور شكل ہوگي ۔
جب حكمراں كونسل سے مراد صرف وہ لوگ ہيں جو معاشري اور ملك كے نظام ميں براہ راست مشغول ہيں تو (ا س تعريف كے مطابق) اس گروہ ميں تمام لوگ شامل نہيں ہوسكتے جو صرف اظہار نظر كي حد تك مداخلت كا حق ركھتے ہوں لہٰذا يہ تصور كوئي معني نہيں ركھتا كہ معاشري كے تمام افراد يا ان كي اكثريت يا كم از كم ان كي نصف تعداد حكومت كے تمام امور ميں دخيل ہو سكتي ہے !!
مگريہ كہ يہ صورت ايك نہايت ہي مختصر معاشري كے باري ميں تصور كريں، جس معاشري كي كوئي اہميت نہ ہو ليكناس كے باوجوديہ دعويٰ كيا جا سكتا ہے كہ جمہوريت اس معني ميں جوہم نے آغاز ميں گفتگو پيش كيا ہے، چھوٹے بڑے تمام ممالك اور معاشروں ميں قابل عمل اور مناسب ہے بلكہ اس سے بڑھ كرےہ دعويٰ بھي كيا جا سكتا ہے كہ عصر حاضر ميں، تمام ممالك كے لئے جمہوريت ہي بہترين شيوہ حكومت ہے ۔
بہر حال جمہوريت ايك مغربي اصطلاح ہے جس ميں عوام ہي بيك وقت قانون ساز بھي ہيں اور قانون پر عمل درآمد كرانے والے بھي۔
بعيد نہيں ہے كہ جمہوريت كے طرفدار اپنے نظريہ كے دفاع ميں جمہوريت كو گذشتہ ستونوں (يعني سرچشمہ حكومت اور قومي مفادات كا تحفظ) كے ساتھ ہماہنگ بنانے كے لئے يہ كہيں كہ درحقيقت جمہوريت ايك شخص كي دوسري شخص پر حكمراني كے معني ميں نہيں ہے بلكہ جمہوريت سے مراد تمام لوگوں كو تمام لوگوں پر حكومت ہے يعني عوام خود عوام پر حكمران ہوں، لہٰذا كسي قسم كا تسلط، اقدار اور زور زبر دستي كا مسئلہ نہيں ہے تاكہ يہ سوال پيدا ہو كہ اس تسلط و حكمراني كا سر چشمہ اور اس حكمراني كا جواز كيا ہے؟ بہ الفاظ ديگر جمہوريت ميں حكمران ٹولہ نے حكمراني كا حق اور جواز خود عوام سے ہي اجتماعى معاہدے كي بنياد پر حاصل كيا ہے اور اس معاہدے كے مطابق خو د عوام نے يہ قوانين بنائے ہيں اور اس قانون پر عمل در آمد كے لئے نمايندے منتخب كئے ہيں۔
چنانچہ اس ميں بھي كوئي شك نہيں كہ خود انساني ضمير ووجدان مختلف افراد اور معاشري پر ضروري قرار ديتا ہے كہ وہ معاہدے كي پابندي كريں اور اس كو بروئے كار لانے كي پوري كوشش كريں ۔
اس دعوے كے جواب ميں مخالفين كا كہنا يہ ہے كہ جمہوريت ميں تمام عوام كو راضي ركھنے كي صلاحيت نہيں ہے اور نہ ہي تمام عوام كي راي اور افكار كے مطابق عمل كرسكتي ہے بہت كم ديكھنے ميں آتا ہے كہ تمام عوام كسي خاص مسئلے پر متفق اور ہم آوازہوں نتيجہ ميں اكثريت كي راي پر عمل كے سواكوئي چارہ نہيں ہے۔
اور اس صورت ميں اقليت كے حقوق پامال ہو جاتے ہيں اور نہ چاہتے ہوئے بھي اقليت كو اكثريت كي اطاعت كرنا پڑتي ہيں جسے انساني ضمير و وجدان قبول نہيں كرتا مگر يہ كہ جمہوريت كے طرفدار يہ دعويٰ كريں كہ ايك اساسي اور بنيادي مسئلے پر قومي اتفاق پايا جاتا ہے اور وہ يہ كہ فيصلوں ميں اكثريت كي راي كو معيار قرار ديا جائے گا اور پھر اس عوامي معيار كو قبول كر لينے كے بعد اتفاق راي كے فيصلوں پر عمل، ضمير و وجدان كے مطابق ہوگا (اقليت اپني مخالفت كے باوجود) اكثريت كي راي كا احترام كرے گي اور اكثريت كے فيصلے كو قبول كر لے گي ۔
بعض اوقات مخالفين كہتے ہيں كہ شايد كسي معاشري ميں ايك ايسي اقليت موجود ہو جو اس امر كو قبول نہ كرتي ہو كہ قومي فيصلوں ميں معياور وملاك اكثريت كي خواہش كوبنايا جائے يا فرض كريں وہ اقليت ايك ايسے دين ومكتب كي پيرو ہو جو اس معيار كو قبول نہ كرتي ہو يا وہ لوگ اس معيار كو اپنے مفادات كے منافي سمجھتے ہوں، يا كسي اور وجہ سے اس معيار كو قبول نہ كرتے ہوں، تو اب اس اقليت كے سلسلے ميں كيا موقف اختيار كيا جائے گا؟ كيا انہيں ان كے حال پرآزاد چھوڑ ديا جائے كہ جوچاہيں انجام ديں اور اس بات كو بہانہ بنا كر كہ انہوں نے اس قرارداد كو قبول نہيں كيا تھا انھيں حكومت كے فيصلوں كا پابند نہيں بناياجا سكتا چانچہ اگر ايساہوا تو معاشري ميں ہرج ومرج ايجاد ہوگا، يا انہيں مجبور كيا جائے كہ وہ اجتماعى معاشري كے نتيجے ميں وضع ہونے والے قوانين كي پابندي كريں، ليكن ايسا كرنا انساني ضمير و وجدان كے خلاف ہوگا جيسا كہ پہلے بيان ہو چكا ہے۔
جمہوريت كے طرفدار اس كے جواب ميں زور دے كر كہتے ہيں كہ اس طرح كے افراد جمہوريت كے راستے ميں ركاوٹ نہيں بن سكتے كيونكہ اجتماعى معاہدوں كي مخالفت خود اس اقليت كو معاشري ميں الگ تھلگ اور تنہا كردينے كا باعث بنے گي اور وہ معاشري ميں زندگي گذارنے والے ان بيگانوں كي مانند تصور كئے جائيں گے كہ جنھوں نے خود كو (اكثريت كي آراء) كو قبول كرنے والي اكثريت كے ساتھ كھڑا كر ليا ہوتو ان كا ان حالات كے باوجود معاشري ميں زندگي گذارنا اس بات كے مترادف ہوگا كہ وہ بھي اجتماعى معاہدے كے تحت بنائے جانے والے قوانين كو قبول كر رہے ہيں كيونكہ ان كا اس معاشري ميں مكمل آزادي وا ختيار كے ساتھ رہنا قوانين سے راضي ہونے كي علامت ہے ۔
جان جاك روسو نے اپني كتاب ”پيمان معاشرت “ميں لكھا ہے اگر كچھ لوگ اجتماعى معاہدہ كے وقت اس كے مخالف ہوں تو ان كي مخالفت اس معاہدے كو باطل نہيں كر سكتي۔بلكہ اس كا مطلب فقط يہ ہوگا كہ وہ لوگ معاشري كے ہم پيمانوں كي صف سے الگ ہيں اور اس صورت ميں مخالفين ان بيروني عناصر كےمانند ہوجائيں گے جو ايك خاص طرز كي حكومت كے پابند افراد كے درميان زندگي بسر كرنا قبول كرليں، پس ان كا اس معاشري ميں رہنا اس حكومت كے قوانين سے راضي ہونے كي دليل ہے كيونكہ كسي بھي مملكت ميں سكونت اختيار كرنا اس ملك كے قوانين كے سامنے سر تسليم خم كرنے كے مترادف ہے۔
يہ بات ڈيموكرےسي كےماننے والے اس كے قانوني جواز كے دفاع ميں جو حكومت كا پہلا ستون ہے، كہتے ہيں۔
اب رہي حكومت كے دوسري ستون يعني معاشرہ كي مفادات كے تحفظ كي بات تو اس سلسلے ميں بنيادي مسئلہ يہ ہے كہ جب جمہوريت سے عوام پر خود عوام كي حكومت مراد ہے تو قدرتي طور پر جمہوري حكومت كو معاشري كے مفادات كے لئے تگ و دو كرني چاہئے۔
كيونكہ عوام اپني مفادات و مصالح كے سوا اور كچھ نہيں چاہتے ہم نے فرض يہ كيا ہے كہ حكمران طبقہ عوام سے جدا نہيں (بلكہ حاكم و محكوم دونوں عوام سے ہيں) لہٰذا يہ تصورنہيں كيا جا سكتا كہ حاكم اپنے ذاتي مفادات كو قومي مفادات پر ترجيح دے گا اور يہ چيز بتاتي ہے كہ قومي مفادات ومصالح كے تحفظ كي ضمانت فراہم كرنے كے لئے جمہوريت سے بہتر كوئي اور طريقہ حكومت نہيں پايا جاتا۔
اس طرح ہم ديكھتے ہيں كہ ”جمہوريت” كے طرفدار اپنے نظريہ كي تائيد اور اس كي منطقي بنيادوں كے دفاع ميں كہ يہ طرز حكومت دونوں ستون (حكومت كي قانوني حيثيت اور معاشري كے مفادات) كي حامل ہے اجتماعى معاہدوں كا سہارا ليتے ہيں۔
جمہوريت كے طرفدار دوسري لوگ تو ”قومي مفادات” كوہي جمہوري طريقہ حكومت كي قانوني حيثيت اور جواز كے لئے مستقل دليل قرار ديتے ہيں جيسا كہ ڈاكٹر عبد الحميد متولي نے پروفيسر آزمن كي عبارت سے مطلب نكالا ہے ڈاكٹر عبد الحميد متولي لكھتے ہيں“ چونكہ قيادت اور حكمراني كي فلسفي بنياد اس امر پر استوار ہے كہ حكومت ايك ايسا الٰہي حق ہے (يا خدا نے ارباب اقتدار كو تفويض كياہے) لہٰذا حكمراني كي بنياديں فلسفي اعتبار سے روسو كے”پيمان معاشرت” كے نظريہ كي طرف پلٹتي ہيں۔
ليكن پروفيسر آزمن كي مانند بعض فرانسوي مفكرےن نے اس سے مختلف نظريہ پيش كيا وہ كہتے ہيں: حكمراني كا ايك اور جواز ہے وہ يہ كہ عوامي حكومت كي ضرورت صرف ا س لئے ہے كہ قومي مفادات محفوط رہيں، اور اسي لئے ضروري ہے كہ قوم اپني حكومت پر نظر ركھے كہ وہ كيا كر رہي ہے۔
اس عبارت سے صاف معلوم ہوتاہے كہ يہ كہنے والا حكومت كي بر قرار ي كوايك مسلم امرمانتا ہے اور اس بات پر زور ديتاہے كہ حكومت كي تشكيل قومي مفادات اور ان كي ضروريات كي تكميل كے لئے وجود ميں آتي ہے لہٰذا ارباب حكومت پر نظر ركھنے كے لئے قومي كنٹرول ضروري ہے۔
ليكن ہمارا اصلي سوال حكومت كے اصل جواز سے متعلق ہے ورنہ ہم اس بات كو قبول كرتے ہيں كہ حكومت چونكہ قومي مفادات كي تكميل كے لئے وجود ميں آتي ہے لہٰذا اس كي كار كردگي پر قوم كا كنٹرول اور نگراني ضروري ہے ليكن يہ مسئلہ حكومت كي اصل بنياد اور تسلط كے جواز كي دليل نہيں بن سكتا ولو ہم حكومتي امور ميں قوم كي نگراني كے حق كو قبول بھي كرليں۔جي ہاں اگر ہم فرض بھي كر ليں كہ قوم كو حكومت كي نگراني كا حق حاصل ہے كيونكہ حكومت قومي مفادات كي تكميل كي غرض سے وجود ميں آئي ہے پھر بھي اصل سوال باقي رہتا ہے كہ حكمرانوں كو حكومت كرنے يا قانون جاري كرنے، اپنا اثرو رسوخ استعمال كرنے اور عقل و جدان كے فيصلوں كے خلاف ابتدائي ترين آزاديوں كو محدود كرنے اور معرض خطر ميں ڈالنے كا يہ حق كہاں سے حاصل ہوا؟ اور اس كا سر چشمہ كيا ہے؟ اجتماعى معاہدے كے علاوہ كيا كوئي اور چيز ہونا ممكن ہے؟ !
اس سے قبل ڈكٹيٹر شپ كے طرفداروں كے اس دعوے كے جواب ميں كہ ہم قومي مفادات كي تكميل كے لئے كام كرتے ہيں، ہم عرض كر چكے ہيں كہ فقط قومي مفادات كے لئے كام كرنا حكومت كي قانوني حيثيت اور جواز كي دليل قرار پائے اس كو انساني وجدان قبول نہيں كرتا ۔
جمہوريت كي مشكلات
ہم يہاں جمہوري نظام كي چند اہم مشكلات كا ذكر كرتے ہيں جن كے لئے مناسب راہ حل اور جواب تلاش كرنے كي ضرورت ہے۔
۱) اكثريت كي جہالت اور خواہشات كا غلبہ
اس ميں كوئي شك نہيں كہ عوام كي اكثريت معاشري كے لئے مفيد امور سے جاہل ہوا كرتي ہے عوام كي اكثريت جذباتي اور نفساني خواہشات سے مغلوب ہوتي ہے اگر ہم ملك و قوم كي باگ ڈور (جاہل) عوام كے سپرد كرديں تو اس كي كوئي ضمانت نہيں دي جا سكتي كہ عوام غلط راستوں پرگامزن نہيں ہوں گے اور خواہشات نفساني كي پيروي نہيں كريں گے، اسي وجہ سے كہا گيا ہے كہ”جب صدائيں زيادہ ہوں تو حق ضائع ہوجاتاہے” اس مشكل كو بر طرف كرنے كي بہترين راہ يہ ہے كہ تجربہ كار، اور پختہ آراء كے حامل ارباب حل و عقد پر مشتمل ايك مجلس قومي اور ملكي وغيرملكي امور اور تعلقات پر بحث و گفتگو اور تبادلہ خيال كے بعد ايك دوسري كي مدد سے ضروري قانون مرتب كريں، اس مشكل كے لئے نظام جمہوريت ميں كہا گيا ہے كہ قانون سازي كي ذمہ داري دو طريقوں سے عوام كے سپرد كي جا سكتي ہے۔
الف) بلاواسطہ شركت: (ريفرنڈم) يعني معاشري كے تمام افراد قانون سازي كےتمام مراحل ميں براہ راست شريك ہوں۔
ب) بالواسطہ شركت: عوام اپنے منتخب نمايندوں كے ذريعے بالواسطہ طورپر قانون سازي كے عمل ميں شريك ہوں يعني عوام اہل حل وعقد كي ايك جماعت كو منتخب كريں جو اشتراك عمل كے ذريعہ قانون بنانے كے مختلف طور طريقوں پر غورو فكر كر كے بہترين اور مفيد ترين روش كا انتخاب كريں۔اس طرح پہلي مشكل حل كي جاسكتي ہے اور كسي كا حق ضائع ہوئے بغير جمہوريت كي روح بھي باقي ركھي جا سكتي ہے۔كيونكہ عوام ہي در حقيقت حكمراني كے لئے اپنے نمايندے منتخب كريں گے اور ان سے كہيں گے كہ ان كے لئے مفيد قانون مرتب كريں، (البتہ اس صورت ميں عوام كي تمام امور ميں براہ راست مشاركت ممكن ہے قومي مفادات اور مصالح كے لئے نقصان دہ ثابت ہو) لہٰذا اس مشكل كو رفع كرنے كے لئے تمام قومي امور كو دو حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے جن امور ميں عوام كي براہ راست شركت قومي مفادات كے لئے نقصان دہ نہ ہو ان ميں تمام لوگوں كو براہ راست مداخلت كا حق ديديا جائے اور عوام قانون سازي كے عمل ميں شركت كريں ليكن وہ امور جن ميں ماہرين كي نظر ضروري ہے عوام بالواسطہ شريك ہوں يعني عوام كے قابل اعتماد منتخب نمايندوں كے ذريعے قانون سازي ہو۔
۲) ووٹوں كي خريد و فروخت
اس مشكل كا شكار تقريبا وہ تمام ممالك ہيں كہ جن ميں جمہوري طرز حكومت رائج ہے ہميشہ گنتي كے كچھ لوگ جن كے ہاتھ ميں اقتدار اور مادي وسائل ہوتے ہيں كہ اكثريت كے ووٹوں كو اپنے مفادات كي تكميل كے لئے خريد ليتے ہيں يہ كام پيسے تقسيم كر كے گمراہ كن پروپيگنڈے اور كبھي كبھي كھوكھلےمالي اور سياسي وعدوں، دھمكيوں اور اثر رسوخ كے ذريعے اساني سے ممكن ہوجاتا ہے ۔
ان حالات ميں ہم ديكھتے ہيں ايك اقليت اكثريت كے ووٹ اپنے حق ميں خريد ليتي ہے اور اس كو مخصوس مقاصد مفادات كي تكميل اور اپني نفساني خواہشات كے حصول كے لئے استعمال كرتي ہے اور عوام الناس كے قومي و معاشرتي مفادات كو مكمل طور پر نظرانداز كرديتي ہے۔
جمہوريت كے طرفدار اس مشكل كي بر طرف كرنے كے لئے آزادي كے ساتھ ساتھ مالي مساوات كي بات كرتے ہيں اور كہتے ہيں كہ اگر پورا معاشرہ مال و ثروت كے اعتبار سے يكساں ہو توان كے معيارات بھي يكساں ہو جائيں گے بنا بر ايں جس جگہ مالي وسائل يكساں نہ ہوں آزادي فقط نام كي حد تك ہي باقي رہے گي آزادي كي حقيقي روح ختم ہو جائے گي كيونكہ اقليت اساني سے اكثريت پر مسلط ہوكر اكثريت سے قوت و اختيار سلب كر لے گي اور وہ اپنے مفادات كے حصول ميں كمزرو پڑجائيں گے ليكن اگر معاشري ميں مالي مساوات قائم ہو جا ئے خواہ مساوات (كميونسٹوں كے اشتراكي نظام كے مطابق) مالي مشاركت كے معني ميں ہو يا مساوات سے مرادمال و ثروت كے اعتبار سے طبقاتي تفاوت اور اختلاف ختم ہوجانے كے معني ميں ہو يعني كوئي بھي شہري نہ اتنامالدار ہو كہ دوسري شہريوں كو خريد سكے اور نہ ہي كوئي شہري اتنا فقير و تنگدست ہو كہ ايك وقت كي روٹي كے بدلے اپنے آپ كو فروخت كردے۔
اگر ہم معاشري ميں اس طرح كا مساوات قائم كرنے ميں كامياب ہو جائيں تو كسي بھي قسم كے استحصال اور لوگوں كے ووٹوں كي خريد و فروخت كئے بغير حقيقي معني ميں آزادي بر قرار ہو سكتي ہے۔
جان جاك روسو اسي نكتہ كي تشريح كر تے ہوئے كہتے ہيں”ضروري نہيں كہ اس لفظ ”مساوات “سے يہ سمجھا جائے كہ تمام لوگ قدرت و توانائي اور مال و ثروت ميں پوري طور پر يكساں اور برابر ہوں بلكہ طاقت و قدرت ميں توازن سے ہمارا مقصود يہ ہے كہ كوئي بھي طاقت و قدرت اور قہر غلبہ كے بل بوتے پر قانون اپنے ہاتھ ميں نہ لے سكے بلكہ سب قانون كے دائري ميں حركت كريں اسي طرح مال و ثروت ميں مساوات سے ہماري مراد يہ ہے كہ كوئي بھي شہري اس حد تك ثروتمند نہ ہو كہ اس كے ذريعے دوسري شہري كو خريد سكے، اور نہ ہي دوسري طرف كوئي شہري تنگدستي كي اس حد كو پہنچ جائے كہ (اپني ضروريات زندگي كي تكميل كي خاطر) اپنے آپ كو خريد و فروخت كرنے پر مجبور ہو جائے دوسري الفاظ ميں اہل دولت و ثروت بھي قوت و رسوخ كے لحاظ سے اعتدال ميں رہيں اور كمزور و نادار افراد بھي بخل و طمع كے اعتبار سے حداعتدال ميں رہيں ۔
۳) نمائندوں كے ذاتي مفادات
وہ نمائندے جنہيں عوام منتخب كرتے ہيں اور قانون بنانے كا اختيار ديتے ہيں اكثر وبيشتر قومي مفادات كو نظر انداز كر كے اپنے اختيارات سے فائدہ اٹھا كر ذاتي وسائل پوري كرنے كي كوشش كرتے ہيں كيونكہ ايك طرف تو ان كو قانون بنانے اور نافذ كرنے كے وسيع اختيارات مل جاتے ہيں دوسري طرف ان كے اپنے ذاتي مفادات بھي انھيں گھيري ہو تے ہيں جو عوام كي جانب سے منتخب ہو جانے اور وسيع اختيارات ہاتھ ميں آجانے كے سبب ذاتي مفادات كي تكميل اور انحراف كے وسائل ميں اضافہ كر ديتے ہيں ايسي صورتحال ميں اطمينان نہيں كيا جا سكتا كہ يہ عوامي نمائندے جس وقت قومي مفادات اور ذاتي مفادات ميں تعارض پيش آئے گا ذاتي مفادات كو قومي مفادات پر ترجيح نہيں ديں گے ۔خاص طور پر جب كہ ہماري گفتگوماديات كے دائري ميں ہے جہاں انسان كو بد ہواسي پر كنٹرول كرنے والي كوئي قوت وجود نہيں ركھتى، انسان كے سامنے فقط يہي مادي دنيا ہوتي ہے جس پر حكومت كے تصورميں وہ كھويا ہوتا ہے اور اپنے ذاتي ميلانات تمناؤں اور آرزوؤں كو حاصل كر نے كے سوا كچھ اور نہيں سوچتا ۔
جب اتنے بڑے خطرے كا امكان موجود ہو تو ارباب حل وعقد كے انتخاب كا يہ طريقہ كار اور تمام امور چند افراد كے ہاتھوں ميں دے ديئے جانا ذاتي اغراض و مقاصد كي تكميل كا راستہ ہموار كرنے كا وسيلہ بن سكتا ہے دوسري طرف اس خطري سے بچنے كے لئے اگر معاشري پر عوامي حكومت كو ہمہ گير بنانے كے لئے بلا واسطہ انتخاب كا طريقہ اپنايا جائے تو وہ دشواري اور مشكل سامنے آكھڑي ہوگي كہ جس كا ہم آغاز بحث ميں ذكر كرچكے ہيں ۔
شايد (جمہوريت كي راہ ميں موجود) ان ہي مشكلات نے جمہوريت كے طرفداروں كوقوۂ مقننہ (قانون ساز اسمبلي) اور قوۂ مجريہ (حكومتي كابينہ كے اراكين) كو الگ الگ، مستقل عنوان دينے پر مجبور كيا ہے اور وہ اسے ايك امر ضروري قرار ديتے ہيں يعني قانون سازي كا اختيار عوام كے منتخب نمايندوں كو ديا جائے ليكن قانون پر عمل در آمد كے لئے كچھ اور نمايندے منتخب ہوں، اس طرح كا محتاط اقدام قانون ساز اسمبلي كا مقتدارنہ تسلط اور قدرت كا ذاتي مفادات اور ذاتي اغراض و مقاصد كے لئے غلط استعمال ممكن نہيں رہ جاتا اسي روشني ميں يہ لوگ عدليہ اور قوۂ مجريہ كے استقلال و خود مختاري كي بھي توجيہ وتاويل كرتے ہيں۔
بہر حال قوت واقتدار كي اس احتياط تقسيم كے بعد بھي تينوں قوتوں كے درميان گٹھ جوڑ كا امكان جوں كا توں باقي رہ جاتا ہے اور اسي طرح يہ امكان بھي موجود ہوتا ہے كہ قانون ساز اسمبلي يا ملك كي عدليہ اپنے ذاتي مفادات كي تكميل كے لئے اس اعتماد كے ساتھ اقدام كر سكتي ہے كہ حكومت كي كابينہ ”قوۂ مجريہ،، كو بہر حال ان كے فيصلوں پر عمل كرنا لازم وضروري ہے يعني اس كا احتمال يہ كہ قوۂ مجريہ پر قوۂ مقننہ يا قوۂ عدليہ كا تسلط قائم ہو جائے ۔علاوہ از ايں بعض اوقات حكومت كو تين مستقل قوتون ميں تقسيم كردينے كے طرفدار حضرات (جوايك جمہوري طريقہ كار كے حامي ہيں) كے مقابلے ميں جو حكومت واقتدار ايك ہي ذات ميں مركوز قرار دينے كے قائل ہيں، اپنے نظريہ كے حق ميں دوسري دليليں بھي بيان كرتے ہيں اگر چہ ان كي سب ہي دليلوں ميں اسي طرح كي مشكل موجود ہے مثلاً كہتے ہيں ”كہ قوت واقتدار قدرتي طور پر آدمي كے دل ميں سامراجيت اور طغيان و سركشي ايجاد كرتا ہے اور انسان كو اپني خواہشات كي پيروي پر اكساتا ہے اور ذاتي مفادات اور خواہشات كي تكميل كے لئے آمادہ كر ديتا ہے اور بالآخر جس حد تك بھي ممكن ہو آدمي كو ظلم و استبداد كي طرف كھينچ ليے جاتا ہے،، ليكن طاقت و اقتدار كي مختلف مراكز ميں تقسيم خود قوت و قدرت ميں كمي كا سبب بنتا ہے اور ذاتي مفادات (كي تكميل كا رجحان) بھي كم ہو جاتا ہے اور جبرو استبداد كي روش جس كے بُري نتائج بيان ہوئے ہيں ختم ہو جاتي ہے يہ بھي كہا جاتا ہے كہ ہم تين الگ الگ مستقل قوتوں ميں اقتدار كي تقسيم كے ذريعے تينوں قوتون ميں اندروني طور پر ايك دوسري پر كنٹرول اور نظر ركھنے كي روح ايجاد كرديتے ہيں جس كے نتيجے ميں ہر قوت دوسرروں كے كاموں كي نگراني كرتي ہے اور قوم كے سامنے اس كو جواب كے لئے كھڑا كر ديتي ہے اس طرح ظلم واستبداد اور ڈكٹيٹر شپ كا سد باب ہو جاتا ہے۔
ايك اور بات جو ذاتي مفادات پر توجہ اور طغيان و سركشي كي روح پيدا ہونے كے مواقع كم كردينے كے سلسلے ميں بيان كي جاتي ہے اقتدار كي مدت كم ہونے كي بات ہے البتہ مقصد كي تكميل كے لئے اختيارات كي حدود، اختيارا ت كے مؤثر استعمال كے لئے مقررہ مدت، اجتماعى مشكلات كے مقابلے كے لئے توانائى، جبرو استبداد اور انانيت كے خطرات كے درميان توازن پيش نظر ركھنا ضروري ہے۔
انتخابات كي ميعاد مختصر ہونے كا نظريہ ايك طرف ارباب حكومت كے قوت و اقتدار كے دائري كو كم كر ديتا ہے كہ جس كے ذريعے صاحب اقتدار نمائندے راي عامہ كے ساتھ كھيلتے اور خود كو دوسروں سے ممتاز اور بڑا سمجھ كر تكبر و غرور ميں متبلا ہوجاتے ہيں دوسري طرف عوامي نمائندوں كوذاتي مفادات پر قومي مفادات مقدم قرار دينے اور قومي مصلحتوں كو ترجيح دينے پر ابھارتا ہے ورنہ دوبارہ ووٹ حاصل كر كے اقتدار حاصل نہيں كر سكيں گے۔
دين كے ساتھ جمہوريت كا رشتہ
واضح سي بات ہے كہ ايك فعال و حيات آفرين دين ميں جو انساني زندگي كے دونوں پہلوؤں ميں قانون سازي اور قانون كا نفاذ خداوند متعال سے مخصوس جانتا ہے ايك ايسي جمہوريت كے لئے كوئي گنجائش نہيں ہے كہ جس كے مطابق قانون سازي اور قانون كے نفاذ كا حق پوري طرح انسان كو عطا كر ديا جاتا ہے اور كم از كم اجتماعى زندگي كے مسائل ميں خداوند متعال كا كوئي كردار اور عمل دخل قابل قبول نہيں سمجھاجاتا اس منزل ميں مناسب نہ ہوگااگر دين اور مدني معاشري ميں دين كے كردار كے متعلق جان جاك روسو كے نظريات بيان كر ديئے جائيں تاكہ دين سے متعلق مغربي طرف تفكر اور نظريات كا ايك گوشہ واضح و آشكار ہو جائے ۔
جان جاك روسو كا كہنا ہے
دين اور معاشري كے درميان جو رشتہ ہے خواہ وہ عمومي سطح كا ہو يا خصوصي سطح كا دو قسموں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے۔
۱ (ايك مستقل) انسان كا دين
۲ (معاشرہ كے ايك) باشندے كا دين
۱ايك ايسے انسان كا دين جومعاشرہ سے بالكل آزاد ہو عبادت گاہوں اور مسجد ومحراب كے مذہبي اصول و قواعد سے بھي آزاد عبادت وبندگي ميں خداوند متعال سے رشتے اور اخلاقيات كے ناقابل تغيير مسلمہ اصولوں كي بجا اور ي پر اكتفاء كرتا ہو اسے ہم الٰہي دين فطرت كا نام دے سكتے ہيں۔
۲) كسي مخصوس قوم وملت كا معاشرتي دين: يہ كسي خاص قوم وملت ميں رائج اور مقبول دين ہے جس كا پيرو اپنے خداؤں اور معبودوں كو اپني قوم اور جماعت سے مخصوس سمجھتا ہے، يہ دين مخصوس عقائد، شعائر اور اصول وقوانين كي روشني ميں خاص طرز پر عبادت اور ديگر مذہبي فرائض انجا م ديتا ہے، اس دين ميں، اپنے ہم مذہبوں كے علاوہ باقي سب لوگ كافر، جنگلي اور غيرشمار ہوتے ہيں اور سماجي حقوق اور شہري ذمہ داريوں سے محروم ہوتے ہيں، اس دين كو ہم الٰہي دين معاشرت كا نام دے سكتے ہيں اس دين ميں انسان كے لئے واجبات اور حقوق كا دائرہ عباد ت گاہوں تك محدود ہوتا ہے۔
دين كي تيسري قسم بھي موجود ہے جو پہلي دو قسموں سے زيادہ عجيب و غريب ہے كيونكہ يہ دين لوگوں كے لئے دو طرح كے قانون، دو سر براہ اور دو وطنوں كا قائل ہے اور لوگوں كو دو متضاد فرائض كي ادائگي پر مجبور كرتا ہے اور اس بات كي اجازت نہيں ديتا كہ ايك انسان ايك ہي وقت ميں ديندار مومن بھي ہو اور وطن پرست شہري قوانين كا پابند دنيادار انسان بھي۔
اس طرح كا دين بودھ لاماؤں LAMA اور، جاپانيوں نيز رومي عيسائيوں كا ہے اس كو مذہبي قائدين كا دين كہا جاسكتا ہے، اس دين كي بنياد خلط ملط آپس ميں الجھے ہوئے ايسے قوانين پر قائم ہے كہ جس كو كوئي نام نہيں ديا جاسكتا، جب ہم سياسي نطقہ نظر سے ان تين قسموں كے اديان كا جائزہ ليتے ہيں تو پتہ چلتا ہے ان تينوں قسموں كے دين ميں كمياں اور نقائص موجود ہيں۔
تيسري قسم كے دين ميں موجود خرابياں اس قدر واضح اور نماياں ہيں كہ اس كي خرابيوں اور نقائص كے باري بحث كرنا وقت ضائع كرنے كے مترادف ہوگا۔
دين كي دوسري قسم اس پہلو سے كہ اس ميں خدا پرستي كا جذبہ قوانين كے احترام كے ساتھ جڑا ہوا ہے بڑي حد تك ٹھيك ہے، يہ دين لوگوں كو تعليم ديتا ہے كہ ملك و وطن كي حكومت كے ذريعے خدمت اس ملك كے خداؤں كي خدمت ہے اور وطن كي راہ ميں موت شہادت كا درجہ ركھتي ہے اور قوانين كي خلاف ورزي شرك و الحاد ہے، ليكن اس طرح كے دين كي خرابي ہے كہ ا س نے اپني بنياد جھوٹ اور بشريت كو فريب دينے پر ركھي ہے اہل مذہب كو وہم و خرافات پر جلدي سے يقين كر لينے كا عادي اور عبادت كو كھوكلي رسومات كي بھينٹ چڑھا ديتا ہے اس كي ايك اور خرابي يہ ہے كہ يہ آدمي كوتنگ نظر اور سركش بنا ديتا ہے اور يہ چيز لوگوں كو خونخوار اور متعصب بناديتي ہے اور وہ كشت و خونريزي كي فكر ميں رہتے ہيں اور دوسري مذاہب كے افراد كا قتل ايك مقدس عمل سمجھنے لگتے ہيں چنانچہ اگر كوئي شخص اس دين پر ايمان نہ لائے تو اس دين كے مطابق واجب القتل ہے۔ اس طرح كي قوميں دوسري اقوام كے ساتھ ہميشہ جنگ و دشمني كي حالت ميں رہتي ہيں اور خود ان كي سلامتي بھي ہميشہ خطري ميں رہتي ہے۔
باقي رہ گئي پہلي انفرادي يا دروني دين كي قسم جسے دين انسانيت يا دين مسيحيت كہا جا سكتا ہے، البتہ موجودہ عيسائي مذہب نہيں جو اصل انجيل كي تعليمات سے ميلوں دور ہو چكا ہے اس مقدس دين اور اس كے پاكيزہ آئين كے مطابق جو ايك اكيلا حقيقي دين سمجھا جاتا ہے تمام لوگ اپنے آپ كو خدا كا بيٹا تصور كرتے ہيں اور آپس ميں بھائي اور براردي كا رشتہ ركھتے ہيں جس معاشري كو مل كر تعمير كرتے ہيں موت كي منزلوں تك بكھرنے نہيں پاتا ليكن اس دين كا سياسي امور اور حكمرانوں سے كوئي تعلق و رابطہ نہيں ہوتا قوانين كو اپنے حال پر چھور ديتے ہيں۔
قانون كي مزيد تقويت كي كوئي فكر نہيں كرتا، اس طرح انسان جو ايك دوسري سے جڑے ہوئے ہيں اكٹھا ہوتے ہيں ليكن يہ رشتہ اور اجتماع ان كي زندگي ميں كوئي اثر مرتب نہيں كرتے بلكہ اس سے بڑھ كر دين مسيحيت (عيسائي مذہب) كي مشكل يہ ہے كہ اس ميں نہ صرف يہ كہ ہم وطنوں كا حكومت كے امور سے كوئي رابطہ ايجاد كرنانہيں چاہتا بلكہ ان كے درميان فاصلہ بڑھانے كي كوشش كرتا ہے بلكہ تمام دنياوي امور كي نسبت اپنے پيرؤں كے دل ميں يہي تصور پيدا كرتا ہے، كہا جاتا ہے كہ اصل عيسائي قوم قابل تصور حد تك كامل ترين معاشرہ ہے مگر ہماري خيال ميں اس تصور كے بر خلاف ”يہ كامل معاشرہ “ايك انساني معاشرہ كے خصوصيات سے محروم ہے بلكہ اس طرح كامعاشرہ ميري نظر ميں اس طرح كا معاشرہ نہ قوت ركھتا ہے نہ دوام اور نہ ہي اس كے عوام كے درميان كوئي مستحكم رشتہ پايا جاتا ہے اور يہي بے عيب ونقص ہونا اس كے زوال اور خاتمہ كا باعث بنے گا۔
يقينا اس طرح كے معاشري ميں ہر شخص اپنا فريضہ انجام دے گا قوم قانون كو مقدس سمجھے گي سر براہان مملكت انصاف پسند اور خوش اخلاق ہوں گے حكمران نيك نيت اور سچائي پر گامزن ہوں گے، فوجوں ميں موت سے خوف نہيں ہوگا عوام ميں تكبر اور غرور نہيں ہوگا، يہ سب وہ خوبياں ہيں جو معاشري ميں حسن پيدا كرتي ہيں ليكن ہم بحث كي گہرائي ميں جانے كي اجازت طلب كريں گے۔
عيسائيت مكمل طور پر ايك معنوي دين ہے جو فقط آخرت اور اسماني امور پر نگاہ ركھتا ہے جس كے مطابق يہ دنياانسان كا حقيقي وطن نہيں ہے اگر چہ عيسائي اپنے معاشرتي فرائض پر عمل كرتے ہيں ليكن اس كا كوئي مقصد نہيں ہوتا كيونكہ اس دين كے مطابق ان كے انجام دينے كا كوئي اچھا يا بُرا نتيجہ مرتب ہونے والا نہيں ہے بس شرط يہ ہے كہ خود انسان اپني جگہ مرتكب گناہ نہ ہو۔ايك عيسائي كے لئے يہ امر بالكل اہميت نہيں ركھتا كہ دنياوي امور حسن و خوبي كے ساتھ آگے بڑھيں گے يا خرابي كے ساتھ، كيونكہ مملكت خوشحال ہو اور اسائش وآرام كے تمام وسائل فراہم ہوں تو بھي ايك عيسائي اس اسائش سے بہرہ مند نہيں ہو سكتا ۔
كيونكہ اسے خوف لاحق ہتا ہے كہ اگر اپنے ملكي افتخارات پر فخر ومباہات كرے گا تو ايك ناقابل معافي گناہ اور تكبر كا مرتكب ہوجائے گا اگر مملكت ويران اور تباہ و برباد ہوجائے تو گناہگار بندوں كو ان كے اعمال كي سزا ملنے اور ہلاك ہوجانے پر خداكا شكر اداكرتا ہے ايك ايسے معاشري ميں فلاح و بہبود اور نظم ونسق كي بر قراري كے لئے ضروري ہے كہ مملكت كے تمام باشندے كسي بھي استثناء كے بغير پوري طورپر اچھے عيسائي بن جائيں ۔اگر خدانخواستہ ان ميں كوئي ايك شخص بھي خود غرضي جاہ ومقام كا حريص پيدا ہوجائے تو پاكيزہ نفس باشندوں كو دھوكاديكر اپنے مذموم مقاصد كے حصول كے لئے زمين ہموار كر لے گا كيونكہ نيك سادہ دل عيسائي اساني سے اپنے ايك ہم مذہب بھائي كے متعلق بد گماني كي اجازت نہيں دے سكتا، اور جب مكر وفريب كے ذريعے ايك ايسا شخص اپنا تسلط قائم كرے گا اور قوت و اقتدار اس كے ہاتھ ميں آجائے گا تو اپنے لئے بلند وبالا مقام كا قائل ہوگا اور لوگوں سے كہے گا كہ ميرا حترام كرو مجھے بڑا سمجھو اب اگر اس نے اپنے اقتدار سے غلط فائدہ اٹھكيا تو لوگ كہيں گے خدا كي يہي مصلحت ہے كہ اس كے ذريعے لوگوں كي تنبيہ كرے گويا يہ خدائي لاٹھي ہے جس كے ذريعے خدا پنے بندوں كو سزا دے رہا ہے۔
اس طرح ايك عيسائي كا ضميرو وجدان اجازت نہيں ديتا كہ اس غاصب انسان كو (اقتدارسے) بر طرف كر دے كيونكہ اگر ايسا كيا جائے تو لوگوں كے آرام و اسائش ميں خلل واقع ہو گا اسے اقتدار سے ہٹانے كے لئے طاقت كا استعمال كرنا پڑے گا جس سے خونريزي ہوگي عيسائيوں كي نرم دلي اور امن پسندي كے ساتھ يہ چيز ميل نہيں كھاتي۔
علاوہ از ايں ايك عيسائي كي نظر ميں اس چيز كي كوئي اہميت نہيں كہ انسان رنج و الم كي اس فاني دنيا ميں آزاد رہے يا غلام بن كر رہے؟ اصل ہدف و مقصد تومحبت ہے جس كے حصول كا راستہ تسليم ورضا ہے ۔اب اگر كسي دوسري قوم سے جنگ چھڑ گئي تو تمام عيسائي باشندے بڑي اساني سے ميدان جنگ ميں نكل آئيں گے كسي كے ذہن ميں فرار كي فكرپيدا نہيں ہوگي كيونكہ انھيں اپنا مذہبي فريضہ انجام دينا ہے ليكن اس كے ساتھ ہي ان كے دلوں ميں فتح و كاميابي كا نشہ بھي نہيں ہوتا وہ كاميابي سے زيادہ اس امر كي مہارت ركھتے ہيں كہ كيسے مراجائے؟
ان كي نظر ميں فتح و شكست كي كوئي اہميت نہيں!كيا خدا سے زيادہ كوئي ان كي مصلحت سےآگاہ ہے؟ اب يہ ديكھنا ہے كہ ايك معاشرتي دين كے عقائد كيا اور كيسے ہوں؟
جواب يہ ہے كہ معاشرتي دين كے عقائد اسان و مختصر اور دائري معين وو اضح ہوجانے چاہئے كسي تفسير و تشريح كي ضرورت نہ ہو ايك حكيم و فرزانہ قوي و قادر، محسن و كريم، بصير و دور انديش مدبر وآگاہ، خداپرايمان، اخروي زندگى، نيكو كاروں كي سعادت و خوشبختي اور بدكاروں پر عذاب كا يقين معاشرتي معاہدہ اور قوانين كے تقدس پر ايمان و اعتقاد يہ وہ امور ہيں جو معاشرتي دين كے بنيادي عقائد ہونے چاہئے۔اس كے ساتھ ہي ساتھ ديگر تمام اديان سے نرم روي وخوش رفتاري بھي ضروري ہے ليكن ان ہي كے ساتھ جو خود بھي اس اصول پر يقين ركھتے ہوں ليكن جو شخص معاشرتي امور ميں خوش رفتاري اور ديني امور ميں نرمي و سہل انگاري كے درميان فرق كا قائل ہے اور فقط معاشرتي ميدان ميں حسن خلق اور نرمي كا قائل ہے غلطي پر ہے دونوں كو جدا كرنا ممكن نہيں ہے سياسى، عقائد، مذہبي عقائد كے ساتھ وابستہ ہيں يا دونوں ميدانوں ميں سخت رويہ اپنايا جائے گا يا دونوں ميں سہل انگاري سے كام ليا جائے گا۔
ايسے لوگوں كے ساتھ امن و محبت كے ساتھ زندگي گذارنا محال ہے كہ جن كو يقين ہو آخرت كا عذاب اور سزا ان كو مقدر بن چكا ہے كيونكہ ايك ايسے شخص سے محبت كا مطلب يہ ہوگا كہ خدا سے جنگ و دشمني مول لي جائے كہ جس نے اسے عذاب ميں مبتلا كر نے كا فيصلہ كيا ہے، پس ضروري ہے كہ ايسے لوگوں كو ياتو راہ راست پر لكيا جائے اور وہ سچا دين قبول كر ليں يا انھيں سزا دي جائے۔
ليكن عصر حاضر ميں كوئي ايك خطۂ ارض ايسانہيں جہاں پر فقط ايك ہي قومي دين رائج ہو لہٰذا ضروري ہے كہ ان تمام اديان كے ساتھ جو دوسري اديان كے پيرؤں سے نرمي اور خوش رفتاري سے پيش آتے ہيں خوش رفتاري كا رويہ اختيار كيا جائے بشرطيكہ اپنے دين و عقائد اور قوم ووطن كے تئيں فرايض كو ضررو نقصان نہ پہنچے ۔
جان جاك روسو كي (دين سے متعلق) اس تحرير كو پڑھ كر يہ حقيقت آشكار ہوجاتي ہے كہ ”روسو”نے دين كو انسان كے خود ساختہ اصولوں اور تحريف شدہ آئين و دستور كي روشني ميں ديكھا ہے ايسے آئين جو دين كي حقيقي روح سے بے بہرہ ہيں اور انساني تمدن اور زندگي كے اصولوں سے دور كچھ خشك تعليمات كے سوا كچھ نہيں ہيں۔اسلام اس طرح كے كھوكھلے تصورات سے بيزار ہے اور اگر ہم دين اسلام كي حيات آفريں تعليمات كي روشني ميں ”روسو” كي اس گفتگو كا جائزہ ليں تو اس ميں متعدد كمياں اور كمزورياں موجود مليں گي ان ميں سے بعض كي طرف ہم يہاں اشارہ كرتے ہيں تاكہ حقيقت واضح ہو سكے۔
۱) روسو نے اديان كي تقسيم كرتے ہوئے دين كي تيسري قسم كے باري ميں لكھا ہے كہ”اس طرح كا دين حكومت كے نظام قوانين اور وطن سے مختلف نظام قوانين اور وطن كا تصور پيش كرتا ہے اور انسان دونظام دو وطن اور دو حكمران كے درميان سر گرداں اور تقسيم ہو جاتا ہے جس كا نتيجہ بدعنواني اور انحراف كے سوا كچھ نہيں ہو سكتا، يہ چيز معاشرہ كو صحيح سمت ميں حركت سے روك ديتي ہے۔
اسلام ميں ايسا غلط تصور نہيں پايا جاتا ہے اس طرح كي دوگانگي اسلام ميں كہيں نہيں ملے گي اسلام كے مطابق صرف خداوند متعال كو قانون ساز ي كا حق اور اختيار حاصل ہے اور صرف خدا ہي دنيا كا حقيقي حاكم ہے اور اسي نے امت واحدہ كے لئے صحيح سمت ميں حركت كي راہ معين كي ہے، جس طرح خدا كي ذات ميں كوئي اس كا شريك نہيں اسي طرح عبوديت و تشريع يعني بندگي اور قانون سازي كے حق ميں اس كا كوئي شريك نہيں ہے۔
بنا برايں دين اسلام نے ہرگز امت اسلاميہ كو دو نظاموں ميں سرگرداں نہيں چھوڑا ہے، اسلام ميں فقط ايك ہي نظام ہے جو ايك پوري معاشري كي اجتماعى سعادت اور فلاح و نجات كا ضامن ہے اور انسان كے لئے حقيقي كمال كے راستے كي نشان دہي كرتا ہے، انساني زندگي كے مختلف پہلوؤں اور شعبوں كو صحيح رخ ديتا ہے اور خداوند متعال كے لامحدود علم كي روشني ميں انسان كي تمام مشكلات كا حل پيش كرتا ہے اسلام صرف عالم تخليق اور انسان كے اندر محدود نہيں ہے، بنا برايں ايك حقيقي مسلم معاشرہ وہ معاشرہ ہے جس ميں اسلام كي حكمراني ہے اور كسي بھي قسم كے غير اسلامي تسلط و حكمراني كو قبول نہيں كرتا غيروں كي دست درازي سے ”اسلامي چہار ديواري” كي پوري طرح حفاظت ركھتا ہے۔
۲) روسوكي گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے كہ انھوں نے دين كي حقيقت كو ايك حكومت كے لئے اس كي افاديت كے پر تو ميں پركھا ہے كہ دين معاشر ے كے امور كو آگے بڑھنے كے لئے حكومت كو كس قدر وسائل فراہم كرتا ہے يعني ان كي نظر ميں دين كي پركھ كا اعليٰ ترين معيار يہ ہے كہ دين سياسي اور معاشرتي نظام كي گاڑي آگے بڑھانے ميں كس قدر كامياب ہے!!گويا انھوں نے معيارہي كو الٹ ديا ہے!! دين كي شناخت اور اس كي حقانيت پر ايمان كے لئے دين كے عقلي و فطري سرچشموں كو معيار قراردينا چاہئے اگر ايك دين كے معتقدات اور آئين و دستور قابل قبول منطقي ماخذ اور مسلم عقلي دلائل پر استوار و ثابت ہوں اور خداوند متعال كي طرف دين كا منسوب ہونا درست ہو اور دين كي حقانيت پوري طرح ثابت ہو جائے تو انسان اپنے امور كي باگ ڈور دين كے سپرد كر دے گا اور اس الٰہي دين سے زندگي گذارنے كے طريقے اور پروگرام طلب كر ے گا، نہ يہ كہ پہلے اسماني تعليمات سے بي نياز ہو كر نظام بنائيں اور پھر كسي دين كو اس وقت تك قبول نہ كريں جب تك وہ دين خود ہماري تيار كردہ نظام كے رائج كرنے ميں مدد گار نہ ہو اور ہماري طور طريقے كي تائيد نہ كرے۔
۳) روسونے اديان كي دوسري قسم بيان كرتے ہوئے كہا ہے كہ يہ دين لوگوں كو خرافات اور توہمات ميں مبتلا كر ديتا ہے اور پروردگار كي عبادت كو كھوكھلے طور طريقوں كا اسير بنا ديتا ہے، ليكن ہم ديكھتے ہيں كہ اسلام كے لئے ہرگز يہ بات صادق نہيں آتى، اسلام ميں عبادات كا نظام اور انساني كمال اور تہذيب و تمدن كي ترقي ميں اسلام كا تعميري كردار بت پرستي اور اسكيم انند ہر قسم كے توہمات و خرافات سے بالكل پاك ہے اور يہي بات كافي ہے كہ ہم اس طرح كے تصورات كي حقيقي الٰہي دين كے بھي گنجائش كي نفي كرديں كسي سلسلے ميں، يہ حقيقت اس وقت مزيد آشكار ہو جاتي ہے جب ہم اسلامي نظام كے حدود اربعہ كا جائزہ ليتے ہيں اور ديكھتے ہيں كہ اس پيكر الٰہي كے وجود اور حيات ميں عبادات كا كس قدر اہم كردار ہے پھر بھي شفاعت اور شفاعت كرنے والوں سے متعلق روسو نے جو اشارہ كيا ہے اسلام ميں اس كا ايك تعميري اور حيات آفريں پہلو ہے اور وسيع نتائج كا حامل ہے ۔اسلام نے بيہودہ قسم كي وہم و خرافات پر مبني (بتوں كي) شفاعت كو قبول نہيں كيا ہے بلكہ شفاعت كا وہ تصور ديا ہے جو مثبت اور تعميري ہے جو انسان كو اہم اھداف ومقاصد كے حصول كي طرف رغبت دلائے اور اسے اميد وار بنائے۔
۴) روسو نے اديان كي عالمي حيثيت كو بيان كرتے ہوئے كہا ہے كہ ان اديان كے پيرو فتح و كامراني كي نسبت موت كي زيادہ مہارت ركھتے ہيں اور اس تصور كي تائيد ميں عيسائي دين اور آئين سے استفادہ كيا ہے كيونكہ عيسائيت اپنے پيرووں كو تعليم ديتي ہے كہ دنيا سے كنارہ كش رہيں اور اپني روح كو دنيا كي فاني لذتوں سے پاك ركھيں اور فتح و كاميابي كي اميدميں معاشرتي اہداف كي تكميل كے لئے شركت نہ كريں۔
يہ تصورات و نظريا ت جو روسو نے دنيائے عيسائيت كو سامنے ركھ كر بيان كئے ہيں اسلام سے ان كا دور كا بھي واسطہ نہيں ہے اسلام نے خدا كے دين كي حكمراني اسلامي مقاصد كي تكميل اور اسلام معاشري كي عزت و سر بلندي كے لئے جہاد كو بہترين عبادت قرار ديا ہے، بيشك اس راہ ميں حركت كے اسباب و عوامل فتح و كامراني كي لذتوں سے كہيں زيادہ بلند محركات كے حامل ہوتے ہيں اور وہ خاموش بيٹھے رہنے كي اجازت نہيں ديتے مسلمان كے نزديك فتح كا مطلب يہ ہے كہ انساني كمال و ارتقاء كي گاڑي تاريخ كے ہر دور ميں اپنے اعلي مقاصد اور عظيم اہداف كے حصول كے لئے ہميشہ آگے بڑھتي رہے، اس كا اصل مقصد ايك كامل توحيد پر ست معاشرہ تشكيل دينا ہے جو تمام پہلوؤں سے سعادت و كامراني كا حامل ہو اسي حقيقت كے تحت ہر مسلما ن پر فرض ہے كہ اس ہدف كے حصول كے لئے ہر ممكن كوشش كرے ايك لمحے كے لئے بھي غفلت سے كام نہ لے۔ چنانچہ اس ھدف كے حصول كے لئے ہروقت آمادہ و تيار رہنے پر جن كيات و روايات زور دياگيا ہے بہت فراوان ہيں، نمونے كے طور پر قران كہتا ہے:(
وَاَعِدُّوا لَهُم ما استطعتم من قوه ورباط الخيل
)
۔
”اور تم سب ان كے مقابلہ كے لئے امكاني قوت اور گھوڑوں كي صف بندي كا انتظام كرو”
انسان مومن اجتماعى مفادات كے لئے كام كرنا ذاتي مفادات كي تكميل سے مقدم سمجھتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے كہ اسلام ميں زہد اور دنيا سے دوري كا مطلب اس كے سوا كچھ نہيں ہے كہ انسان خود كومادي دنيا كي حقير لذتون سے آزاد كر لے اور معنويت كي روحاني فضاؤں ميں پرواز كرے تاكہ اگر كوئي مادي چيز ہاتھ سے چلي جائے تو اس كے لئے افسوس نہ كرے اور اگر كوئي چيز حاصل ہو جائے تو اس پر فخر و مباحات نہ كرے، اسلامي نظام ميں انساني زندگي ميں نظم و ضبط ايجاد كرنے، زندگي كے كاروان كو رواں دوان ركھنے عدل و انصاف قائم كرنے اور معاشري كو بہترين انداز ميں سعادت اور كمال و ترقي سے ہمكنار كر نے كي تمام راہيں دكھائي گئي ہيں ۔اگر چہ يہ موضوع وسيع بحث كا طالب ہے اور اس كتاب ميں اس كي گنجائش نہيں ہے اس كتاب ميں صرف ”اسلام ميں حكومت كي بنياد” كے متعلق بحث كرنا مقصود ہے لہٰذا جس حد تك يہ موضوع حكومت كي بحث سے مربوط ہے اسي حد تك ہم بحث و گفتگو كريں گے۔
۵) روسو نے دين كي دوسري قسم بيان كرنے كے ضمن ميں كہا ہے كہ اس طرح كے دين آئين دوسري اديان سے دشمني و عداوت كو رواج ديتے ہيں اور انساني معاشري ميں بد گماني اور جنگ و نزاع كي ذہنيت ايجا د كرتے ہيں ۔
جب كہ حقيقت يہ ہے كہ يہ صورت حال اسي وقت ممكن ہے جب ايك معاشرتي نظام ميں توسيع پسندانہ مادي معيارات كارفرما ہوں، ليكن اگر ہم اسلام پر نظر ڈاليں اور خوشنودي پروردگار پر مركوز اس كے توحيدي نظام ميں انساني محركات كا جائزہ ليں تو دين سے دشمني و عداوت كے بجائے مفاہمت اور امن و آشتي كي توقع وابستہ نظراي گي۔
علاوہ ازايں اسلام قبول كرنے والوں كے متعلق اسلام كے موقف اس موقف سے مختلف ہے جو روسونے متمدن اديان كے متعلق تصور كيا ہے اسلام اگر چہ اپنے مخالفين كو دشمن تصور كرتا ہے ليكن اس كا مطلب يہ نہيں كہ اسلام اپنے دشمنوں كو قتل كر دينے كا خواہشمند ہے جب اسلام انسانيت كے دشمن مشركين سے در گذر كرتا ہے تو بدرجہ اوليٰ اسماني كتابوں پر ايمان ركھنے والے دين دار افراد كو عدالت پر مبني بعض معين شرائط كے تحت اپنے دين كے مطابق زندگي گذارنے كي اجازت ديتا ہے حتي بعض اوقات اسلام نے ان (كافر كتابي) كے ساتھ نيكي كرنے كو قابل ستائش اور پسنديدہ قرار ديا ہے جوا پنے مقام پر بيان ہوا ہے ۔
لہٰذا اس دشمني وعداوت كي منطقي دليل اور توجيہ و تاويل موجود ہے اس دليل كي طرف ہم نے اس وقت اشارہ كيا جب ہم نے بحث كي كہ دين كي قدرو قيمت درج ذيل دو امور كي روشني ميں معلوم كي جا سكتي ہے:
(۱) دين كس حد تك واقعيت پر مبني ہے
(۲) دين كس حد تك عدالت كي ضمانت فراہم كرتا ہے اور معاشري كو سعادت و خوشبختي سے ہمكنار كرتا ہے۔
جب دين كي حقانيت ثابت ہوجائے اور يہ بھي ثابت ہو جائے كہ كي بنياديں عدالت، حقيقي مصلحتوں اور مفادات پر استوارہيں تو دين كي ہر قسم كي مخالفت حقيقي عدالت اور انسانيت كي حقيقي مصلحتوں اور مفادات كي مخالفت كے مترادف ہوگي۔
اس كے بعد ہم كہيں گے: اسلام نے اپنے دامن ميں موجود خصوصيات اور خوبيوں كي وجہ سے ديني اور دنياوي حكمراني ميں اتحاد و ہماہنگي ايجاد كرنے كے ميدان ميں عظيم كاميابي حاصل كي ہے ليكن مسيحيت اس ميدان ميں ناكام رہي ہے (جيسا كہ روسو نے اس كي تصديق كي ہے، روسو نے اس كاميابي پر نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم مدح ستائش كي ہے كيونكہ روسو نے گمان كيا كہ يہ سب كاميابياں حضرت محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي ذاتي مہارت دور اندشي اور تدبير امور كا نتيجہ تھيں ليكن روسو اس امر سے غافل رہا ہے كہ يہ ميدان مہارت ذہانت، دور انديشي اور تدبير كا نہيں بلكہ اس كي بنياديں اسلام كي حقيقي روح اور اسلام كي فطري حقانيت پر استوار ہيں، وہ اسلام جو وحي كي صورت ميں نبي اكرم حضر ت محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا۔
روسو كہتا ہے كيونكہ ہر دور ميں حكومت اور مدني قوانين موجود رہي ہيں لہٰذا مخلوط حكمراني اور تسلط كا نتيجہ يہ بر آمد ہوا كہ ہميشہ سے كشمكش اور نزاع بھي موجود رہي جو صحيح نظام اور بہترين پاليسياں مرتب كرنے كي راہ ميں ركاوٹ بني۔
لہٰذ لوگ نہ سمجھ سكے كہ كيا حاكم كي اطاعت ضروري ہے يا پاپ كي اطاعت؟
حضرت محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے نظريات اور ان كي پاليسياں بہترين تھيں اور انھوں نے بہترين سياسي نظام مرتب كيا جب تك ان كي حكومت خلفاء كے زير سايہ رہي ايك ايسي حكومت تھي جو مكمل طور پر ان امور سے نمٹنے كي صلاحيت ركھتي تھے ۔
جب عربوں نے ترقي كى، تہذيب و تمدن سے آشنائي كے نتيجہ ميں ثقافت يافتہ اور تہذيب و تمدن يافتہ ہوئے تو نازك مزاج اور سست وكاہل بن گئے لہٰذا بربري نژاد لوگ ا ن پر مسلط ہوگئے، يہي وقت تھا نئے سري سے دو حكمرانوں (حكمران اور پاپ كي حكمراني) كے درميان تقسيم اور جدائي شروع ہوئي ۔بہرحال يہ تقسيم بندي اور جدائي مسيحيت كي نسبت مسلمانوں ميں كم تھي جگہ جگہ مسلمانوں ميں يہ تقسيم قابل مشاہدہ ہے بالخصوص علي كے پيروكاروں ميں، فارس حكومتون ميں يہ تقسيم بندي اور جدائي قابل مشاہدہ ہے۔
روسو نے ان دو حكمرانوں كے درميان جدائي كے مسئلہ كے لئے راہ حل پيش كرتے ہوئے كہا ہے: ”دين حكمراني كو فقط شخصي مسائل تك محدود كر كے پس پشت ڈال ديا جائے،،
اگر روسو مسيحيت كو مد نظر ركھتے ہوئے يہ راہ حل پيش كرے تو يہ راہ حل درست اور قابل قبول ہے، ليكن مجموعي طور پر اس مشكل كا حقيقي علاج اور صحيح راہ حل ان دوحكمرانوں (حكمران اور پاپ كي حكمراني) كے درميان اتحاد وہماہنگي ايجاد كرنا ہے جسے اسلام نے حضرت محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي مہارت اور بالغ نظري كے نتيجہ ميں نہيں بلكہ تعليمات الٰہي كي روشني ميں پيش كيا ہے
وطن
وطن سے مراد كيا ہے؟ روسو كي مذكورہ بالا عبارت سے ظاہر ہوتا ہے كہ وطن سے مراد زمين كا ايسا حصہ ہے جس پر افراد زندگي بسر كرتے ہيں، اور پيمان معاشرت كي اكائيوں كو تشكيل ديتے ہيں اور حكومت كي اقسام ميں سے كسي ايك قسم كو نافذ كرتے ہيں، حكومت سے متعلق اسلامي تصور وطن كي اس تعريف كو قبول نہيں كرتا (چنانچہ عنقريب بحث آئے گي) اسلام ميں وطن سے مراد وہ تمام مسلم ممالك ہيں جن ميں ايك ايسي اسلامي حكومت حكم فرما ہو جو اسماني تعليمات ك بنياد پر بنائے ہوئے قوانين كے مطابق حكمراني كرے، يہ حكومت پيمان معاشرت كي بنياد پر استوار نہ ہو امام (معصوم عليہ السلام) كے دور ميں متعدد اسلامي حكومتوں كا تصور ممكن نہيں ہے ليكن امام عليہ السلام كي غيبت كے زمانے ميں متعدد علاقے (ممالك) قابل تصور ہيں جن ميں ايسے حكمرانوں كي حكومت ہو جو اسلامي نظام اور اسلامي قوانين كو نافذ كرنے والے ہوں، اور ان حكمرانوں كي حكومت كا جواز يہ ہو كہ يہ ساري حكمران، امام كي نيابت اور نمايندگي ميں حكمراني كرتے ہيں، اسي بنياد پر اسلام ميں متعدد وطن متصور نہيں ہيں۔
بلكہ فقط ايك اسلامي وطن قابل تصور ہے جسے اسلامي فقہ كي اصطلاح ميں ”دارالاسلام”كہا جاتا ہے۔
وطن كي اصطلاح كے متعلق ايك تجويز
ہمارا مشورہ ہے كہ اسلامي سر زمين كي بجائے ”دارالاسلام”كي اصطلاح استعمال كي جائے اور وطن كي تعبير فقط وہاں پر استعمال كي جائے جہاں پر مسافر اور غير مسافر كے فقہي احكام بيان كرنا مقصود ہوں كيونكہ اگر شخص وطن (وہ جگہ جہاں پر وہ رہائش پذير ہے) ميں ہو تو اس كے (نمازو روزے) كے احكام كچھ اور ہيں جب كہ سفر ميں ہو تو اس كے احكام كچھ اور ہيں۔
ہم نے يہ تجويز اس لئے پيش كي ہے كيونكہ وطن كي اصطلاح ميں بعض مغربي رنگ اور
ابہامات پائے جاتے ہيں جس كي بنياد پر دو ايسے علاقے (ممالك) كہ جن ميں لوگ زندگي گذاري رہے ہوں (دو عليحدہ عليحدہ) پيمان معاشرت كي بنياد پر دو وطن شمار ہوتے ہيں، يا قوميت كي بنياد پر، يا جغرافيائي حدود كي بنياد پر يا بعض دوسري عناصر كي بنياد پر دو وطن شما ر ہوتے ہيں۔
كيونكہ ان ميں درج ذيل امتيازات اور فرق پائے جاتے ہيں لہٰذا ان امتيازات كي بنياد پر ان كے لئے متعدد وطن قابل تصور ہيں:
۱) پيمان معاشرت
۲) قوميت ونژاد
۳) جغرافيائي حدود
۴) فوجي اثرو رسوخ
جب كہ اسلام ميں دو وطنوں كے درميان حقيقي فرق اور حد فاصل اسلام اور كفر ہے (كفر كي بنياد پر ايك وطن اور اسلام كي بنياد پر دوسرا وطن)
نظريہ جمہوريت پر اعتراضات
اب تك ہم جمہوري طرز تفكر، جمہوريت كے جواز كے دلائل، جمہوريت كي راہ ميں موجود ركاوٹوں اور مشكلات كے راہ حل اور جمہوريت سے متعلق دين كے موقف سےآشنا ہو چكے ہيں اب ايك اور زاويئے سے جمہوريت كي راہ ميں موجود ركاوٹوں اور جمہوريت پر كئے جانے والے اعتراضات كو بيان كررہے ہيں ۔ہم وضاحت كريں گے كہ جمہوريت كے پاس ان اعتراضات كا كوئي (قابل قبول) جواب موجود نہيں ہے۔وہ اشكالات اوراعتراضات در ج ذيل ہيں:
۱) اقليت كے حقوق كي پامالى
جمہوريت كے نتيجہ ميں اقليت كے حقوق پامال ہو جاتے ہيں كيونكہ كوئي ضمانت فراہم نہيں كي جا سكتي كہ كسي بھي مسئلے پر مكمل اتفاق راي ہو سكتا ہے، يہاں تك كہ اس بنيادي اور كلي اصول پر بھي اتفاق راي نہيں ہوتا كہ اكثريت آراء كو معيار قرار ديا جائے، اگر عوام كي كچھ تعداد اس بنيادي اصول (اكثريت آراء معيار ہو) كو قبول نہ كرے (اگر چہ ان كي تعداد كم ہو) تو ايسے لوگوں كے ساتھ (جمہوريت) كا رويہ كيا ہوگا؟
اس سلسلے ميں جان جان روسو كہتے ہيں: ”حكومت فقط ان لوگوں كے درميان قائم ہوتي ہے جو پيمان معاشرت ميں شريك ہوتے ہيں اور اس پيمان كے مخالفين كو ملك كے شہريوں كے درميان اجنبي اور بيگانے لوگوں كي حيثيت حاصل ہوتي ہے، اگر يہ اقليت مكمل اختيار كے ساتھ اس ملك ميں سكونت اختيار كرے تو اس كامطلب يہ ہے كہ وہ پيمان معاشرت ميں شريك ہے۔
يہ مخالفين اس پيمان معاشرت كے نتيجہ ميں قائم ہونے والي حكومت كے سامنے سر تسليم خم كرتے ہيں۔لہٰذا ہماري سامنے اقليت كے مسئلہ كے نام سے كوئي ركاوٹ اور مشكل موجود نہيں ہے (يعني در حقيقت ہماري پاس اس كاراہ حل موجود ہے) ليكن حيران كن (لاجواب) سوال يہ ہے كہ اس اقليت نے كس بنياد پر اس ملك ميں رہنے كا فيصلہ كيا ہے؟ آپ كس اختيار كي بنياد پر اس اقليت كو دو چيزوں ميں سے ايك كو اختيار كرنے پر مجبور كرتے ہوئے كہتے ہيں: ”اگر اس ملك ميں رہائش اختيار كروگے تو اس كا مطلب يہ ہوگا كہ تم لوگ حكومت كي اطاعت كرتے ہو ورنہ دوسري صورت يہ ہے كہ اس ملك كو چھوڑ كر چلے جاؤ “سوال يہ ہے كہ اس اقليت كو يہ اختيار كيوں حاصل نہيں ہوتا كہ تيسري صورت (اس ملك ميں رہتے ہوئے پيمان معاشرت ميں شامل نہ ہو اور اس پر حكومت كي اطاعت بھي ضروري نہ ہو) كو اختيار كر سكے؟
كيا يہ اقليت اس حكومت كو قبول كرتي ہے؟ كيا ان كي نظر ميں حكومت كو يہ حق حاصل ہے كہ انھيں دو صورتوں ميں سے كسي ايك صورت كو اختيار كرنے پر مجبور كرے؟ يہ ايك بے معني فرض ہے كہ پيمان معاشرت ميں شريك نہ ہونے والا فرد يا جماعت (جوايك ملك ميں رہائش پذير ہے) كے روابط پيمان معاشرت ميں شريك ہوكر حكومت تشكيل دينے والي جماعت سے مكمل طور پر كٹ جائيں، اب يہ كہنا كہ كيونكہ ايك دوسري سے ان دوجماعتوں كے روابط مكمل طور پر كٹ چكے ہيں لہٰذا اقليت نامي كوئي مسئلہ ہي موجود نہيں ہے (تاكہ اسے حل كرنے كي ضرورت محسوس ہو)
يہ نا معقول بات ہے كيونكہ ہر حكومت كي ذمہ داري ہے كہ اپنے باشندوں اور شہريوں پيمان (جومعاشرت ميں شامل ہوئے ہوں) كے دوسري لوگوں كے ساتھ روابط وتعلقات كي نوعيت كو مشخص كرے، يہ معين كرنا بھي حكومت كي ذمہ داري ہے كہ اگر كچھ اور لوگ (جو قرار داد ميں شامل نہيں ہوئے) اس ملك ميں سكونت اختيار كرنا چاہيں تو اس كاطريقہ كيا ہوگااور ان لوگوں پر كون سے قوانين لاگو ہوں گے؟
جب صورت حال يہ ہے تو دوبارہ يہ سوال اٹھ كر سامنے آتا ہے كہ حكومت اس شخص كي آزاديوں كو كس جواز كي بنياد پر محدود كرتي ہے جس نے پيمان معاشرت كو قبول نہيں كيا، اور اس حكومت كو اس شخص پر اپنے قوانين لاگو كرنے كا حق كہاں سے حاصل ہوا ہے يہ شخص نہ تو حكومت كو قبول كرتا اور نہ ہي اس پيمان ميں شريك ہواہے جس كي بنياد پر حكومت قائم ہوئي ہے۔
جمہوريت كے پاس اس سوال كا كوئي معقو ل جوا ب نہيں ہے۔
۲) اقليت كي حكومت
ہم نے پہلے اعتراض كے ضمن ميں ملاحظہ كيا كہ جمہوري نظام ميں كسي معقول دليل كے بغير اكثريت، اقليت پر حكمراني كرتي ہے ليكن يہاں پر صورت حال بر عكس ہے جس كي وجہ سے جمہوريت پر اعتراض ميں مزيد شدت آجاتي ہے كيونكہ آخركار اقليت اكثريت پر حكومت كرتي ہے آپ سوال كريں گے يہ كيسے ممكن ہے۔؟
ہم جانتے ہيں معاشري ميں مال و دولت، تعليم اور سياسى، اجتماعى، ديني اثرو رسوخ نيز مہارت و ذہانت كے اعتبار سے طبقاتي فاصلہ پاياجاتا ہے ممكن ہے مندرجہ بالا وسائل (طبقاتي فاصلوں كے اسباب) ايك خاص اقليت كے ہاتھ ميں ہوں۔ يہ بھي ممكن ہے كہ اقليتي گروہ مالي سياسي ديني وسائل اور پرپگنڈہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں كے ووٹ خريدلے يا يہ كہ ان وسائل كو بروئے كار لاتے ہوئے اپنے اغراض ومقاصد كے حصول كے لئے عوامي آراء كو استعمال كرے اور آخر كار يہ نتيجہ سامنے آئے كہ (يہ اقليت) اكثريت كے آراء (فيصلوں) پر اثر انداز ہو۔
جمہوريت كے پيروركار اس اعتراض كا جواب مال ودولت اور قدرت و طاقت كے اعتبار سے لوگوں ميں نسبي مساوات اور برابري كے ذريعے ديتے ہيں، (جب مال و دولت اور قدرت وطاقت كے اعتبار سے لوگ مساوي ہوں گے تو اقليت، اكثريت كي آراء پر تسلط حاصل نہيں كر سكے گي) ليكن يہ راہ حل ہماري اعتراض كا جواب فراہم نہيں كر سكتا كيونكہ مساوات كا قانون اس صورت ميں رائج اور نافذ ہو سكتا ہے جب حكومت وسيع سطح پر اقتصادي نظام وضع كرے اور متعدد طريقوں سے مختلف قوتوں ميں ہماہنگي ايجا د كرے ۔ليكن پھر وہي سوال سامنے آتا ہے كہ حكومت كو ان امور كي انجام دہي اور لوگوں پر حكمراني كا حق كہاں سے حاصل ہوا ہے؟
غير اشتراكي معاشري ميں معمولي فاصلے (ولو نسبي فاصلے) كا فرض كيا جائے تو يہ احتمال ديا جا سكتا ہے كہ لالچ دينے اور فريب و دھوكہ جيسے ہتھكنڈوں كے ذريعے لوگوں كے ووٹوں كو خريدا جا سكتا ہے۔
جمہوريت كے طرفداروں كادعويٰ ہے كہ حكومت اس مخصوص گروہ (ثر وتمند اقليتي گروہ) كوچھوٹ نہيں ديتي كہ يہ گروہ مختلف سياسي ومالي وسائل كے ذريعے عوام كے ووٹ خريد سكے، ليكن ہم پھر وہي سوال دہرائيں گے: حكومت كي حكمراني كا جواز كيا ہے؟ يہ دعويٰ كيونكر كيا جا سكتا ہے كہ حكومت اپنے اقتدار اور طاقت و قوت كے ذريعے صاف و شفاف انتخابات منعقد كرواسكتي ہے، جب كہ حكومت كواثر و رسوخ استعمال كرنے كا قانوني حق حاصل نہيں ہے ۔
فرض كريں ايك ايسي حكومت موجود ہے جو اقليت كو اكثريت كے خلاف مالي وسياسي وسائل سے ناجائز فائدہ اٹھانے كي اجازت نہيں ديتي ليكن كيا ضمانت دي جاسكتي ہے كہ خود حكومتمالي وسائل، سياسي اثر روسوخ اور پروپگنڈہ جيسے وسائل كو اپنے حق ميں استعمال نہيں كرے گي۔!!
ليكن اشتراكي معاشرہ، جس ميں فرض يہ ہوتا ہے كہ حكومت كا وجود نہيں ہے (اگر چہ فقط يہ ايك فرضيہ ہے كيونكہ كوئي نہ كوئي حكومت موجود ہوتي ہے) ہماري بحث سے خارج ہے كيونكہ ہماري بحث كو موضوع حكومت كي شكل اور حكومت كي كيفيت ہے اور اس معاشري ميں فرض يہ ہے كہ كوئي حكومت ہي نہيں ہوتي تاكہ اس كي شكل و كيفيت كے باري ميں بحث كي جائے، ليكن اگر اس معاشرہ ميں حكومت كے معدوم ہونے سے پہلے والے مرحلہ كو مدنظر ركھا جائے تو كم از كم ايك حكمران قوت موجود ہوتي ہے اور وہ قوت اقليتي پارٹي كي صورت ميں موجود ہوتي ہے جو اكثريت كے ووٹوں كو اپني مرضي كے مطابق استعمال كرتي ہے البتہ اس امر سے چشم پوشي كرتے ہوئے كہ اشتراكيت كا رواج (جو حكومت كے معدوم ہونے كا مقدمہ ہے) بھي قدرتمند حكومت ہي كے ذريعے ممكن ہے ہم پھر وہي سوال دہرائيں گے كہ حكومت كے اقتدار اور امت پر حكومت كے احكام و قوانين كے واجب ہونے كا عقلي و قانوني جواز كياہے؟
ہم نے جو اعتراضات جمہوريت پر كئے ہيں در حقيقت محنت كش طبقے كي حكومت كہ اشتراكي نظام جس حكومت كا نعرہ لگاتا ہے اس پر بھي يہي اشكالات واعتراضات كئے جا سكتے ہيں كيونكہ اشتراكي نظام كا دعويٰ ہے: محنت كش طبقے كي حكومت در حقيقت محنت كش طبقے ميں جمہوري حكومت ہے اور محنت كش طبقے كادوسري طبقوں پر ايك قسم كا استبداد اور ڈكٹيٹر شپ ہے، اس لئے استبداد ي حكومت پر كئے جانے والے اعتراضاتِ اس حكومت پر بھي وارد ہوں گے۔
ليكن يہ حكومت ان اعتراضات سے بالاتر ہے كيونكہ اشتراكي نظام كے حامي جبر تاريخ كے قائل ہيں اور ان كي حكومت كي بنياد بھي جبر تاريخ پر استوار ہے جيسا كہ (مادّيت تاريخ) كا نظريہ ہے ۔لہٰذا جو چيز دائرہ اختيار سے خارج ہو اس سے متعلق يہ بحث ممكن نہيں كہ كيا يہ ظلم ہے يا عدل وانصاف؟ اس نظريے كے مطابق ہر زمانے ميں عدالت وہي ہے جس كا جبر تاريخ تقاضاكرے اور ظلم وہ ہے جسے جبر تاريخ ٹھكرادے، اپنے مقام پر جبر تاريخ كے نظريے كو اعتراض و تنقيد كا نشانہ بناياگيا ہے اور ثابت ہوچكا ہے كہ تاريخ سازي ميں انسانيت اور انساني ارادے كا نہايت اہم كردار ہے ايسا نہيں كہ اس كا واحدسبب ٹيكنالوجي اور مادي ترقي ہے۔
۱) اگر ہم حكومت كي اقسام كو مذكورہ اقسام ميں منحصر سمجھيں تو يہ اعتراض جمہوريت كي بعض اقسام كو شامل ہے جب كہ بعض اقسام كو شامل نہيں ہے۔
اعتراض و اشكال يہ ہے كہ عوام كي راي حاصل كرنا اور آراء كي جمع اور ي اگر چہ اپني جگہ پرمفيد ہے (دوسري اعتراضات سے قطع نظر) ليكن اس كا فائدہ صرف يہ ہے كہ قانون سازي كرتے وقت قانون سازي كرنے والے افراد قلبي طور پر مطمئن ہوں كہ انھيں عوامي تائيد حاصل ہے،
ووٹنگ اجتماعى مفادات و مصالح كي حفاظت كے لئے بہترين اور كامياب راہ حل كي تشخيص اور مفيد نظام كي حفاظت كا سبب نہيں بن سكتى، بلكہ اس سے بہتر طريقہ يہ ہے كہماہر، تجربہ كار صاحب نظر سلجھے اور ملجھے ہوئے افراد كا انتخاب كيا جائے اور انھيں يہ اختيار ديا جائے كہ تبادلہ خيال اور بحث و گفتگو كر كے اجتماعى مشكلات كا بہترين حل تلاش كريں ۔
ليكن تمام عوام كي طرف رجوع كرنا اور ان كي راي معلوم كرنے كا مطلب يہ ہے كہ اتني بڑي اكثريت كو اجتماعى مشكلات كا مناسب راہ حل تلاش كرنے كا ذمہ داري سونپي جائے كہ جس كے افكار و خيالات پر جہالت اور ذاتي اغراض و مقاصد كا غلبہ ہے، ايسي صورت حال ميں احتمال ديا جا سكتا ہے كہ كثرت آراء اور شور وغل كے نتيجے ميں حق ضائع ہو جائے گا، يہ صورت ميں ہے كہ جب قانون سازي كے لئے بلا واسطہ طور پر عوام سے رجوع كيا جائے ليكن اگر لوگوں كو ايسے نمايندے منتخب كرنے كا حق ديا جائے جو لائق، اپنے فن ميں ماہر، صاحب نظر اور اس امر كے لئے موزون و مناسب ہوں تو يہ مشكل بہت حد تك كم ہو جائے گى، ليكن پھر بھي ضمانت نہيں دي جا سكتي كہ منتخب افراد اس ذمہ داري كو نبھانے كے لئے موزوں ومناسب ہوں گے خواہ عوام انھيں قرعہ اندازي كے ذريعے معين كرے خواہ انتخابات كے ذريعے ۔يہ بات معقول نہيں كہ قرعہ اندازي كے ذريعے منتخب ہونے والا نمايندہ دوسروں سے بہتر ہوگا اور اسي طرح انتخابات كے نتيجے ميں منتخب ہونے والے نمايندگان بھي ضروري نہيں كہ دوسروں كي نسبت بہتر صفات و شرائط كے حامل ہوں گے كيونكہ انھيں ايك ايسي اكثريت ووٹ ديتي ہے جن پر جہالت اور ذاتي اغراض ومقاصد كا غلبہ ہوتا ہے۔
بہر حال خدائي راہ حل سے قطع نظر، اہل فن اور صاحب نظر نمايندگان كے انتخاب كا طريقہ باقي طريقوں سے بہتر ہے۔
ہم سوال كرتے ہيں كہ حكومت كے ساتھ قرار داد باندھنے والا كون ہے كيا موجودہ زندہ لوگ ہيں (تاكہ انھيں قوم و ملت كا نام ديا جائے) يا طرف قرار داد معنوي شخص ہے كہ جس كا دائرہ موجودہ زندہ افراد سے وسيع تر ہے اور كم از كم گذشتہ افراد كو شامل ہے (تاكہ اسے امت كا نام ديا جائے) پس حكمراني كا حق كس كوحاصل ہے؟ قوم وملت كو يا امت كو؟ جمہوريت ميں يہي دو مختلف مسلك و مكتب پائے جاتے ہيں۔
ڈاكٹر عبدالمجيد متولي نے اپني كتاب”اسلام اور نظام حكومت كي بنياديں" ميں ملت كي حاكميت اور امت كي حاكميت ميں موجودہ فرق كي اہميت كو بيان كرتے ہوئے كہا ہے
”يہ اہميت دو مسئلوں ميں ظاہر ہوتي ہے۔”
۲) قوم وملت كي حكمراني كے نظريہ كے مطابق انتخاب ايك حق شمار كيا جاتا ہے كيونكہ حكمراني موجودہ اہل وطن كي ملكيت شمار ہوتي ہے يعني ہر اہل وطن حكمراني و اقتدار كے ايك جزء كامالك ہوتا ہے لہٰذا اسے حكمراني كے امور ميں شركت كا حق حاصل ہوتا ہے ۔ليكن اگر امت كي حكمراني كے نظريے كو مد نظر ركھا جائے تو (قدري بہتر راي كے مطابق) انتخاب يا ايك فرض كي حيثيت ركھتا ہے يا بعض فرانسوي دانشوروں كي تعبير كے مطابق انتخاب قانوني حكمراني ہے ۔اس نظريہ كے مطابق ووٹرامت كے فرد كي حيثيت سے انتخاب كو انجام ديتا ہے اپنے مخصوص حق كے طور پر انتخاب ميں شركت نہيں كرتا گويا وہ اپنا عمومي فرض انجام ديتا ہے (انتخاب كے نتيجے ميں) قانون ساز كو حق حاصل ہوتا ہے كہ وہ اپنے فرائض كو كما حقہ انجام دينے كي خاطرفرد كے لئے (اسے ووٹر اور راي دہندہ فرض كرتے ہوئے) شرائط اور قيود وضع كرے۔
۳) نہايت اہم نتيجہ جواس اختلاف (حق حكمراني ملت كو حاصل ہے يا امت كو) پر مرتب ہوتا ہے يہ ہے كہ دونوں نظريوں كے مطابق جمہوريت كي ايك شكل سامنے نہيں آتي بلكہ ہر ايك نظريے كے نتيجے ميں جمہوريت كي مختلف شكليں سامنے آتي ہے، ملت كي حكمراني كا نظريہ ركاوٹيں ايجاد كرنے اور سياسي توازن بر قرار كر نے جيسي روشوں كي اجازت نہيں ديتا جب كہ امت كي حكمراني كا نظريہ يہ روشيں اختيار كرنے كي اجازت ديتا ہے۔
الف) مذكورہ بالا نكتہ كي وضاحت يہ ہے (امت كي حكمراني كے نظريہ كے مطابق) جائز ہے كہ پارلماني اكثريت كے فيصلوں اور تجاويز كے مقابلے ميں (ان كے فيصلوں كو روكنے كي خاطر) قوانين وضع كئے جائيں تاكہ پارليمنٹ عارضي اور وقتي عوامل كي بنياد پر قوانين پاس نہ كر سكے، اور اطمينان حاصل ہو سكے كہ پارليمنٹ كے فيصلے غور وخوض كرنے كے بعد حاصل ہونے والے مستحكم و پائيدار ارادہ سے وجود ميں آئے ہيں وقتي اور عارضي رجحانات كے نتيجے ميں وجود ميں نہيں آئے ہيں دوسري لفظوں ميں ان قوانين اور فيصلوں كے پس پردہ ايك ايسا ارادہ كار فرما تھا جس ميں قومي مفادات كو مدنظر ركھا گيا تھا اور يہ ارادہ (چنانچہ ہم پہلے ذكر كر چكے ہيں (كہ امت كا دائرہ آيندہ نسلوں كو بھي شامل ہے) امت كا ارادہ تھا۔
بنابرايں امت كي حكمراني كے نظريہ كے حامي جائز سمجھتے ہيں كہ پاليمنٹ كے فيصلوں كے مقابلے ميں قوہ مجريہ (حكومت كي كابينہ كے اراكين) كو اعتراض كا حق”ويٹو"
حاصل ہے ۔
اسي طرح امت كي حكمراني كے نظريہ كے مطابق يہ بھي جائز ہے كہ پارليمنٹ امت كي منتخب نمايندہ اسمبلي كے علاوہ ايك دوسري اسمبلي (ايوان بالا يا سينٹ) پر مشتمل ہو، تاكہ اطمينان حاصل ہو سكے كہ پارليمنٹ كے فيصلے قومي ارادے اور خواہشات كے مطابق ہيں چنانچہ ہم اس كي طرف اشارہ كر چكے ہيں (يا فرانسوي دانشوروں كے مطابق) اكثراوقات ايوان بالا (سينٹ) قومي اسمبلي كے ساتھ اختلاف راي ركھتي ہے اس صورت حال ميں كہا جا سكتا ہے كہ:
ب) ليكن ملت كي حكمراني كے نظريے (جس نظريے كا سر چشمہ روسو ہے چنانچہ اس كا تذكرہ ہو چكا ہے)
كے مطابق صورت حال بر عكس ہے كيونكہ اس نظريہ كے مطابق اكثريت كے ارادہ كا احترام اور نفاذ ضروري ہے اور اس نظريہ كے مطابق يہ بحث كرنا ضروري نہيں كہ پارليماني قوانين كا سر چشمہ ہماگير اور مصمم ارادہ ہو جو امت سے جاري ہوتا ہے، بنابراين اس نظريہ كو قبول كرنے والوں كي نظر ميں جائزنہيں ہے كہ قوہ مجريہ كو (پارليمنٹ كے مقابلے ميں) ويٹو كا حق حاصل ہو اور يہ بھي جائز نہيں كہ پارليمنٹ دو اسمبليوں (قومي اسمبلي اور ايوان بالا يعني سينٹ) پر مشتمل ہو بلكہ پارليمنٹ كي تشكيل كے لئے ايك ہي اسمبلي پر اكتفاء كياجائے مگر فيڈرل اور متحدہ رياستي حكومتوں ميں متعدد اسمبليوں كي ضرورت ہو سكتي ہے۔
ج) روسو كا عقيدہ ہے كہ ملت كے (منتخب) نمايندوں كو قومي ارادے كے سامنے سر تسليم خم كرنا رہتا ہے اور راي دہندگان انھيں اپني خواہشات و تقاضوں سے آگاہ كرتے ہيں اور نمايندے ان ہي خواہشات و تقاضوں كو عملي جامہ پہناتے ہيں راي دہندگان كو حق حاصل ہوتا ہے كہ جب چاہيں نمايندوں كو بر طرف كر ديں اس سے معلوم ہوتا ہے كہ روسو حتمي وكالت كے نظريے كا قائل ہے جو نظريہ جمہوريت كے متعلق مغربي نظريہ سے منافي ہے جس ميں حكمران قوم كا نمايندہ ہوتا ہے۔
ڈاكٹر عبد الحميد متولي كي عبارت كا يہي حصہ نقل كرنا مقصود تھا۔
بہر حال اگر جمہوريت كے طرفدار يہ كہيں كہ پيمان معاشرت كي طرف ملت (موجودہ لوگ) ہے تو آيندہ انے والے لوگوں كے حقوق سے متعلق سوال پيدا ہوتا ہے اور اسي طرح ان لوگوں كے حقوق سے متعلق سوال پيدا ہوتا ہے جن ميں (پيمان برقرار ہوتے وقت) راي (ووٹ) دينے كي شرائط موجود نہيں تھيں مثلاً ان كي عمر ووٹر كي قانوني عمر سے كم تھى، كس دليل كي بنياد پر حكمراني كا حق فقط موجودہ افراد سے مخصوص ہے جن ميں راي (ووٹ) دينے كي شرائط پائي جاتي ہيں؟ اگر يہ جواب ديا جائے كہ آيندہ انے والے اور مستقبل ميں راي دينے كي شرائط پر پورا اترنے والے لوگ اگر محسوس كريں كہ فلاں قانون ان كے مفادات كے خلاف ہے تو يہ لوگ موجودہ قانون كو تبديل كر سكتے ہيں شرط يہ ہے كہ انھيں اكثريت كي حمايت حاصل ہو ليكن اگراكثريت حاصل نہ كرسكيں تب بھي كوئي حرج نہيں (يعني اس سابقہ قانون كو تسليم كريں) يہاں پر ہم سابقہ بات (اشكال) كو دہرائيں گے كہ اكثريت، اقليت كے حقوق پامال كرتي ہے اور يہ كہاجائےگا كہ يہ اقليت (آيندہ انے والے لوگ) موجودہ قانون پر راضي نہيں ہے اور يہ بھي قبول نہيں كرتي كہ اكثريت آراء كو معيار قرار ديا جائےاور اس محور پر اكثريت سے ہم عقيدہ نہيں ہے۔
۴) فرض كيا جاسكتا ہے (اگر چہ عقلي احتمال كے طور پر) كہ تمام ملت مكمل طور پر اس عام قانون پر متفق ہو جائے كہ معيار اكثريت كي راي ہوگي ليكن يہ فرض ہماري مورد بحث اقليت كے باري ميں صحيح نہيں ہے كيونكہ ضمانت نہيں دي جاسكتي كہ آيندہ انے والے افراد اور مستقبل ميں بالغ ہونے والے افراد موجودہ افراد كے فيصلے سے اتفاق كريں گے اگر وہ اتفاق نہ كريں تو كس طرح پيمان معاشرت معقول مدت تك قائم رہ سكے گا؟
۵) كبھي كبھار قاصر
كا قصور (نقص) واضح ہوتا ہے مثلاً اتنا كم سن بچہ جو اچھے كو بري سے تميز نہ دے سكے اور كبھي كبھار اس كا نقص اور قصور واضح نہيں ہوتا لہٰذا ہميں جامع قانون كي ضرورت ہے جو قاصر كو غير قاصر سے تميز دے سكے ۔جب تك يہ قانون پاس نہ ہوجائے ہميں معلوم نہيں ہوتا كہ راي (ووٹ) دينے كي اہليت ركھنے والے افراد كي تعداد كتني ہے؟ كيونكہ ہميں بالغ افراد (ووٹ كي اہليت ركھنے والے) كي تعداد معلوم نہيں ہو سكتي كيسے دعويٰ كيا جاسكتا كہ فلاں قانون پراتفاق راي پايا جاتا ہے۔حتي اس جامع اور بنيادي قانون پر بھي اتفاق راي كا دعويٰ نہيں كيا جاسكتا ہے جس كے مطابق اكثريت كي آراء معيار قرارپاتي ہيں؟ !
۶) آيندہ نسل ياآيندہ ووٹ كي اہليت حاصل كرنے والے افراد بتدريج اكثريت حاصل كرليں گے اور ممكن ہے وہ اپني خواہشات اور اپنے مفادات كے مطابق موجودہ قانون كو تبديل كرديں تاكہ (كم ازكم) مستقبل ميں اپنے حقوق كي پامالي كا سد باب كر سكيں اور اپنے مفادات كا تحفظ كر سكيں انہوں نے جو نقصان سابقہ قوانين كے نتيجے ميں اٹھكياہے اس كي تلافي كس طرح كريں گے واضح ہو كہ ماضي ميں ہونے والے نقصان اور ماضي ميں پامال ہونے والے حقوق كي تلافي اور ازالہ ممكن نہيں ہے۔
مثال كے طور پر ايك علاقے ميں تيل كے ذخائر موجود ہوں موجودہ اكثريت تمام ذخائر كو فروخت كردے يعني ذخائر سے اتنا استفادہ كيا جائے كہ ذخائر ختم ہو جائيں جب كہ آيندہ نسل كو تيل كي شديدضرورت ہو اور وہ عالمي منڈي سے مہنگے داموں تيل خريدنے پر مجبورہوں؟
اسي طرح اگر موجودہ نسل جنگلات كي كٹائي كر كے جنگلات كا صفكيا كردے جب كہ جنگلات ماحول كوآلودگي سے بچانے ميں اہم كردار ادا كرتے ہيں اور اسي طرح تجارت اور سياست كے ميدان ميں طويل الميعاد معاہدے وغيرہ (بھي آيندہ نسلوں كے حقوق كوپامال كرتے ہيں) يہ سب اعتراضات پہلے نظريہ كو قبول كرنے كے صورت ميں سامنے آتے ہيں جس نظريہ كے مطابق قوم و ملت پيمان معاشرت كا ايك فريق اور طرف ہوتي ہے، ليكن اگر دوسري نظريہ كو قبول كيا جائے (جس كے مطابق طرف پيمان امت ہے اور ملت آيندہ نسلوں كو بھي شامل ہے) تو اس سوال كے كے لئے زمين ہموار ہوگي كہ آيندہ نسلوں اور مستقبل ميں ووٹ كي صلاحيت حاصل كرنے والے افراد كے حقوق كے تحفظ كي ضمانت كس طرح فراہم كي جاسكتي ہے؟ جمہوريت پر ضروري ہے كہ اس سوال كا جواب دينے كي غرض سے بعض ايسے قدم اٹھائے جن كے ذريعےآيندہ نسلوں كے حقوق كے تحفط كي ضمانت فراہم ہو سكے ۔
مثال كے طور پر درج ذيل اقدامات كرے جو ڈاكٹر عبد الحميد متولي كي اس عبارت سے سمجھے جاتے ہيں جسے ہم گذشتہ صفحات پر نقل كر چكے ہيں:
۷) راي دہندگان فقط اپنے مفادات و خواہشات كو مدنظر نہ ركھيں بلكہ پوري امت كے مشتركہ مفادات اور مصلحتون كو مد نظر ركھيں (امت موجودہ نسل كے علاوہ آيندہ نسلوں كو بھي شامل ہے) ۔كيونكہ آيندہ نسليں بھي قدرتي وسائل اور معدني ذخائر ميں شريك ہيں اور آيندہ نسليں اجتماعى زندگي ميں شريك ہوں گي عوامي نمايندے بھي فقط ان افراد كے مفادات كے تحفظ پر اكتفاء نہ كريں جنھوں نے انھيں منتخب كيا ہے بلكہ ان كا زاويہ نگاہ وسيع ہوناچاہئے اور پوري امت كے مفادات اور مصلحتوں كو مد نظر ركھيں۔
۸) اركان پارليمنٹ كو راي دہندگان سے ہٹ كر بھي كچھ اور ختيارات حاصل ہونے چاہئيں تاكہ آيندہ نسلوں كے حقوق كو بھي مد نظر ركھ سكيں اور ان كا مطمع نظر فقط ان افراد كے حقوق كا تحفظ نہ ہو جنھوں نے انھيں منتخب كيا ہے۔
۹) قانون بنانے والا، راي دہندگان كے لئے بعض قيودو شرائط معين كرے تاكہ راي دہندگان اپنا فريضہ بخوبي انجام دے سكيں اور پوري امت كے مفادات كو مدنظر ركھتے ہوئے فيصلہ كريں ۔
۱۰) پارليمنٹ دواسمبليوں پر مشتمل ہو ۹۱منتخب قومي اسمبلي جو نمايندگان پر مشتمل ہو!! سينٹ ياايوان بالا، جس كے اركان مہارت طويل تجربات اور لياقت و اہليت كي بنياد پر منتخب ہوں تاكہ طويل الميعاد مصلحتوں اور مفادات كے باري ميں سوچ بچار كر سكيں۔
۱۱) آيندہ نسلوں كے حقوق كے تحفظ كي خاطر قوہ مجريہ (كابينہ كے اراكين) كو پارليمنٹ ميں پاس ہونے والے بلوں كو رد كرنے كے لئے ويٹو كا حق ديا جائے ۔
مندرجہ بالا امور مذكورہ مشكل كے لئے موثر اور كامياب راہ حل پيش نہيں كر سكتے حتي اگراس امر سے چشم پوشي بھي كرلي جائے كہ يہ فرضيہ معقول نہيں كہ ملت (موجودہ نسل) اور حكومت، آيندہ نسلوں سميت پوري امت كي مصلحتوں اور مفادات كو مدنظر ركھتے ہوئے حركت كرے گي يہ ضمانت فراہم كرنا بھي معقول نہيں كہ ملت اس راستے (پوري امت كے مفادات) سے منحرف نہيں ہوگي كيونكہ ملت كے فيصلوں اور اقدامات ميں دين كا ذرہ برابر بھي عمل دخل نہيں ہوتا بلكہ ان اقدامات كا سر چشمہ محدودمادي اور دنياوي مقاصد كا حصول ہوتا ہے اور صحيح معني ميں دين كاكوئي عمل دخل نہيں ہوتا۔
ہاں اگر ان امور كي طرف توجہ نہ كريں تو (پيمان معاشرت كے وجود ميں انے كي كيفيت سے متعلق سوال بدستو رباقي رہتا ہے) جب آيندہ نسل خود اس وقت موجود نہيں ہے كون اس كي نمايندگي كرتے ہوئے پيمان معاشرت ميں شريك ہو كر اسے قبول كرتا ہے۔؟!
يہ دعويٰ ممكن نہيں كہ موجودہ ملت يا اس كے بعض افرادآيندہ نسلوں كي نمانيدگي كرتے ہيں كيونكہ اس نمايندگي كے لئے بھي ايك پيمان اور معاہدے كي ضرورت ہے جو نمايندگي دينے والوں اور نمايندگي لينے والوں كے درميان بر قرار ہو اگر يہ كہاجائے كہ اس قسم كے پيمان، كفالت اور نمايندگي كي بالكل ضرورت ہي نہيں ہے تو جواب ميں كہا جا سكتا ہے كہ حكومت كي حكمراني كے لئے بھي اس پيمان كي كوئي ضرورت نہيں ہے جو ملت (موجودہ افراد) كي رضامندي سے وجود ميں آتا ہے، لہٰذا اس صورت ميں ہماري لئے استبداد ي حكومت كي طرف رجوع كرنا ممكن ہو گا۔ اب تك آپ كي كوششيں يہ ثابت كرنے پر مركوز تھيں كہ حكومت كي بنياد پيمان معاشرت پر استوار ہے لہٰذا ہر صورت ميں آپ كو مذكورہ بالا ركاوٹ اور مشكل كا سامنا كرنا پڑے گا اور آپ اس مشكل سے چھٹكارا حاصل نہيں كر سكتے اور اس ركاوٹ كو بر طرف نہيں كر سكتے كيونكہ ايسے پيمان معاشرت كا تحقق ممكن نہيں جس ميں وہ لوگ شامل ہوں جو في الحال موجود نہيں ہيں، اگر چہ يہ شموليت نمايندوں ہي كے ذريعے ہو۔پس ہم نے ملاحظہ كيا كہ ہم حكومت كي ايسي بہتر قسم يا شكل تك دسترسي حاصل نہيں كر سكے جو انساني عقل اور انساني وجدان وضمير كے لئے قابل قبول ہو۔خواہ يہ جمہوريت ہو ياڈكٹيٹر اور استبدادي حكومت۔حتي اگر ہم حكومت كو اسلامي نقطہ نگاہ سے نہ بھي ديكھيں تب بھي ہم عقل و وجدان كے لئے قابل قبول حكومت كي بہتر قسم تك دسترسي حاصل نہيں كر سكتے۔
اسلام اور جمہوريت
اگر ہم مسلمان ہونے كے ناطے جمہوريت كا مطالعہ كريں تو جمہوريت پرگذشتہ اعتراضات كے علاوہ درج ذيل اعتراضات اور اشكا لات بھي سامنے آتے ہيں ۔
۱) مكمل اور مطلق ولايت فقط خداوند وحدہ لاشريك كو حاصل ہے ۔خداوند متعال كي ولايت كے مقابلے ميں كسي كو بطور مستقل ولايت حاصل نہيں ہے اور اگر كسي كو ولايت حاصل ہے تو اس كا منبع اور سر چشمہ خداوند متعال كي ولايت ہے، يعني خداوند متعال ہي سے يہ ولايت حاصل ہوتي ہے اسلامي فقہ كے مطابق پيمان معاشرت گذشتہ مشكل كا حل پيش نہيں كر سكتا، حكومت كے امور چلانے كے لئے متعدد امور ضروري ہيں كہ جن كو انجام دينا حكمراں جماعت پر ضروري ہے جب كہ اسلامي نقطہ نگاہ سے يہ امور ابتدائي طور پر حرام ہيں يہاں تك كہ پيمان معاشرت منعقد ہونے كے بعد بھي حرام ہيں مگر يہ كہ ان امور كو انجام دينے كے لئے اسلام سے حكمراني كا حق حاصل كيا جائے، اسي طرح پيمان معاشرت كي بنياد پر اسلامي حدود كا نفاذ اور قاصر
كي املاك ميں تصرف جائز نہيں ہے بلكہ فقط اسلام سے ولايت كا حق حاصل كرتے ہوئے ان امور كا انجام ديا جا سكتا ہے۔
ارشاد رب العزت ہے(
إِنْ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلَّهِ امَرَ الاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِياهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيمُ وَلَكِنَّ اكْثَرَ النَّاس لاَيعْلَمُونَ
)
۔”حكم كرنے كا حق صرف خدا كو ہے اور اسي نے حكم ديا ہے كہ اس كے علاوہ كسي كي عبادت نہ كي جائے كہ يہي مستحكم اور سيدھا دين ہے ليكن اكثر لوگ اس بات كو نہيں جانتے ہيں-"
يوں اسلامي تعليمات كے مطابق حاكميت كا حق فقط خدا كو حاصل ہے اور خدا كے علاوہ كسي دوسري كو ذاتي طور پر يہ حق حاصل نہيں ہے۔
۲) مسلمانوں كا عقيدہ ہے كہ فقط خداوند متعال حكيم وعليم ہي انسان كے مفادات اور مصلحتوں سے بخوبي آگاہ ہے لہٰذا وہي خداہي انساني ضروريات كو عادلانہ اور تخليفي قوانين سے ہماہنگ طريقوں سے پورا كرسكتا ہے كيونكہ خداہي كائنات، معاشري اور انسان كا خالق ہے لہٰذا نسان كي ضروريات اور انسان كو كمال تك پہنچانے والے راستوں اور طريقوں سے بخوبي آگاہ ہے بنابرايں جب خداوند عظيم وحكيم موجود ہے اور خدانے انسان كے لئے ايسا نظام اور ايسے احكام نازل فرمائے ہيں جو اسے سعادت وخوشبختي سے ہمكنار كرتے ہوئے سيدھے راستے كي طرف ہدايت كرنے كي صلاحيت ركھتے ہيں تو معقول نہيں كہ قانون سازي اور حكومت كي شكل جيسے امور لوگوں كے ہا تھ ميں دے ديئے جائيں جب لوگ خود اپني معرفت نہيں ركھتے اور اپنےآپ سے جاہل ہيں تو بہ درجہ اولي كائنات اور كائنات كے اسرار ورموز سے زيادہ جاہل ہوں گے۔
ان دو حاشيوں كا نتيجہ يہ ہے كہ مسلمان جمہوريت كے سامنے گردن نہيں جھكا سكتا اور اس پر عمل نہيں كرسكتا (يہاں تك كہ صرف قانون نافذ كرنے كے لئے بھي حكمراں جماعت كا انتخاب نہيں كر سكتا) مگر اس صورت ميں كہ جب اسلام اس كا حكم دے اور اس كي اجازت دے۔
ولايت وحاكميت كا دوسرا سرچشمہ
ولايت اور حكمراني حاصل كرنے كا دوسرا سر چشمہ خداوند متعال ہے جو خالق ہے، نعمتيں عطاكرنے والا ہے انسان اور كائنات كا حقيقي موليٰ ہے (گذشتہ ابحاث كے دوران) ہم جان چكے ہيں كہ يہي واحد سر چشمہ ہے جس سے حاكميت وولايت حاصل كرنا ضروري ہے انساني عقل اور ضمير نہ صرف اس كو قبول كرتا ہے بلكہ اسے مورد تاكيد بھي قرار ديتا ہے كيونكہ يہ وہ صورت ہے جس ميں ولايت اور حكمراني كے حقيقي مالك سے حكمراني اور ولايت كا حق حاصل كيا جا رہا ہے ۔
خداوند متعال سے ولايت اور حكمراني حاصل كرنے والے حكمران كي حكومت كي بنياد پر امت كے دنياوي مفادات اور مصلحتوں كے حصول كي ضمانت فراہم كي جا سكتي ہے۔اسي طرح يہي امر خداوند كائنات كي خوشنودي اور اخروي سعادت و خوشبختي كي ضمانت بھي فراہم كرتا ہے۔
اسي نظريہ اور سر چشمہ (ولايت و حكمراني كا سر چشمہ) كے مطابق يہ بحث بے فائدہ اور بے معني ہے كہ كيا حكمراني اور ولايت كا حق امت كو حاصل ہے يا ملت كو؟ كيونكہ اس نظريہ كے مطابق حكمراني اور ولايت كا حق فقط خداوند متعال كو حاصل ہے خدا كے علاوہ كسي اور كو حكمراني كا حق حاصل نہيں ہے وہي خدا صاحبان حاكميت اور صاحبان ولايت كو معين كرتا ہے يہاں پر يہ بحث ضروري ہے كہ خداكي طرف سے عطا كي جانے والي ولايت اور حكمراني كي نوعيت اور كيفيت كيا ہے اور خدا كي طرف سے كس كو يہ ولايت عطا ہوئي ہے؟
كيا اسلامي حكومت كا انجام ظلم واستبداد ہے؟
كبھي دعويٰ كيا جاتا ہے كہ الٰہي حكومت سے مراد يہ ہے كہ ہم ”تھيو كرسي (THEOCRACY)
كو قبول كرليں جس ميں زور دے كر كہا جاتا ہے كہ حكومت حكمراني كا حق اور اپنے احكام واوامر كا تقدس خداوندمتعال سے كسب كرتي ہے۔
جس كے نتيجہ ميں يہ حكومت بے حساب كتاب اور لا محدود ہوتي ہے اور اسے وسيع اختيارات حاصل ہوتے ہيں اور اس ميں كسي قسم كا اختلاف و نزاع نہيں ہوتا كيونكہ اس حكومت كي مخالفت كرنے والا خدا كي مخالفت كرنے والا شمار كيا جاتا ہے اور خدا حقيقي موليٰ وسرپرست ہے وہ جسے چاہے حكومت عطا كرتا ہے اس حكومت ميں حكمرانوں كو يہ اختيار ہوتا ہے كہ جيسے چاہيں حكومت كريں، آخر كار يہ حكومت بد ترين ظالم واستبدادگر اور ڈكٹيٹر حكومت كي شكل اختيار كر ليتي ہے۔
حقيقت يہ ہے كہ يہ دعويٰ بلا دليل اور باطل ہے جب فرض يہ ہے كہ حكومت كا سر براہ خطا، لغزش اور انحراف سے معصوم ہے جيسے پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور شيعہ عقيدہ كے مطابق ائمہ معصومين عليہم السلام تو اس تصور كي كوئي گنجائش باقي نہيں رہتي جب ايسا ہو تو در حقيقت خداوند متعال اپني تمام تر ولايت، عطوفت اور علم و حكمت كے ذريعے حاكم ہوتا ہے
اور اسي طرح (حقيقي حاكم خدا ہوتا ہے) جب امام معصوم عليہ السلام كا نائب خاص حكمران ہو جو امام عليہ السلام كي خدمت ميں شرفياب ہو كر راہنمائي حاصل كرے چنانچہ شيعہ عقيدے كے مطابق امام زمانہ عليہ السلام كے چار خاص نمايندے تھے،
ليكن اگر حاكم معصوم نہ ہو (بلكہ نائب امام ہو جس سے متعلق بحث بعد ميں آئے گي) يا شوريٰ كے ذريعے منتخب ہوا ہو (جيسا كہ بعض علماء اہل سنت كا نظريہ ہے) توصرف اس صورت ميں مذكورہ بالا دعويٰ ممكن ہے ليكن اگر درج ذيل دو نكات كو مد نظر ركھا جائے تو اس صورت ميں بھي يہ دعويٰ درست نہيں ہوگا:
معاشرہ اور حكمرانوں كي اسلامي تربيت
اسلام بطور عام تمام مسلمانوں كي تہذيب نفس پر مكمل توجہ ديتا ہے اور مسلم قائدو حكمران كي تربيت پر خصوصي توجہ ديتا ہے اور مسلمانوں كے قائد و حكمران كي ايسي تربيت كرتا ہے جس كے نتيجے ميں حكمران كے دل كي گہرائيوں ميں ايسے حقيقي ديني اور اخلاقي عوامل ايجاد ہو سكيں جن كي وجہ سے وہ ہميشہ صحيح موقف اختيار كرے اور ہر حالت ميں حق كي پيروي كرے اور خدا كي راہ، شريعت كے نفاذ اور حقيقي عدالت كے رواج كے لئے اپني جان تك كي قرباني دينے سے دريغ نہ كرے۔
جمہوري نظام حكومت پر ہمارا اعتراض يہ تھا كہ اس نظام ميں اس امر كي ضمانت فراہم نہيں كي جا سكتي كہ حكمران اپنے ذاتي اغراض و مقاصد اور نفساني خواہشات كي پيروي نہيں كريں گے اور ذاتي اغراض ومقاصد اور ذاتي مفادات كو قومي مفادات پر ترجيح نہيں ديں گے (كيونكہ جمہوري نظام كا دائرہ مادي امور تك محدود ہے) ہم بخوبي درك كرتے ہيں كہ كيونكہ مسلمان اور مسلم حكمران خداوند عظيم، آخرت اور اعليٰ اسلامي قدروں پر ايمان ركھتے ہيں اور اسلامي تربيت كے سايے ميں زندگي گذارتے ہيں لہٰذا مستحكم ضمانت فراہم كي جا سكتي ہے كہ حكمران (راہ راست سے) منحرف نہيں ہوں گے۔
اس سلسلے ميں (اس عاليشان تربيت كے اصولوں اور طريقوں سےآشنائي كے لئے) ميري استاد معظم آيت اللہ العظميٰ سيد محمد باقر الصدر كي گراں قدر كتاب”فلسفتنا “اور ان كي دوسري كتب اور ہماري كتاب ”الاخلاق”كامطالعہ فرمائيں۔
دوسري نكتے سے متعلق بحث كاآغاز كرنے سے پہلے مناسب ہے كہ ”مونتسكيو”كي كلام كا خلاصہ بيان كردوں جس ميں انھوں نے بيان كيا ہے كہ حكومتوں كو كن بنيادي امور پر توجہ مركوز كرني چاہئے تاكہ حكومت كنٹرول ميں رہ سكے اور معقول حد تك (خرابيوں سے) پاك صاف رہ سكے۔
"مونتسكيو" نے حكومت كي اقسام كے مطابق تين امور بيان كئے ہيں كيونكہ ان كے نزديك حكومت كو تين قسموں ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے ۔
(۱) جمہوري حكومت۔
(۲) بادشاہي حكومت۔
(۳) ظالم و استبدادگر حكومت۔
لہٰذا حكومتوں كو در ج ذيل تين بنيادي امور پر پوري توجہ ديني چاہئے:
تقويٰ يا فضيلت، شرافت، خوف و وحشت اور رعب و دبدبہ۔
جمہوري حكومت كو پہلي بنياد، شاہي حكومت كو دوسري بنياد جب كہ استبدادي حكومت كو تيسري بنياد پر استوار ہونا چاہئے تقويٰ يا فضيلت سے مونيسكيوكي مراد دين داري اور پسنديدہ صفات سے مزين ہونا نہيں چنانچہ علماء اخلاق بيان كرتے ہيں بلكہ اس كي مراد حب وطن مساوات اور ذات كي بجائے حكومت سے محبت كرنا ہے۔
مونتسكيو كے مطابق (جمہوريت) كي دو قسميں ہيں:
(۱) ڈيموكريسي
(۲) ارسٹو كريسى۔
جمہوريت
جمہوري حكومت ميں در اصل حكومت تمام لوگوں كے ہاتھ ميں ہوتي ہے لہٰذا اگر معاشرہ حب وطن اور مساوات ميں فنا ہو جائے تو حكومت فاسد اور تباہ و برباد ہو جائے گي كيونكہ كوئي مركزي طاقت موجود نہيں ہوتي تاكہ پوري طاقت سے امور پر كنٹرول كر سكے اور لوگوں كو ايك دوسري كے خلاف سر كشي سے روك سكے جس كے نتيجے ميں حكومت مستحكم و پائيدار رہ سكے۔
صرف ايك عامل جو حكومت كو فساد اور تباہي و بربادى سے محفوظ ركھ سكتا ہے وہ ہے تقويٰ اور فضيلت كا رواج۔
ارسٹو كريسى
(يعني اشراف كي حكومت) اس حكومت ميں زمام امور قوم كے مخصوص طبقے كے ہاتھ ميں ہوتي ہے اس حكومت كو بھي (گذشتہ حكومت كي طرح) تقويٰ و فضيلت كي ضرورت ہے كيونكہ قوم كے بعض افراد (اشرافي طبقے كے علاوہ باقي لوگ) بادشاہي نظام حكومت اور بادشاہت كے سامنے رعكيا كي حيثيت ركھتے ہيں۔
رعكيا، اشراف و اعيان يعني حكمران طبقہ كے ميلانات كے مطابق بنائے گئے قوانين كے سامنے بے بس ہوتے ہيں اور ان قوانين كے مطابق عمل كرنے پر مجبور ہوتے ہيں۔
اشرافي حكومت (ارسٹوكرےسي) ذاتي طورپر جمہوري حكومت سے زيادہ محكم اور مضبوط ہوتي ہے اور عوام كو كنٹرول كرنےاور صحيح رخ دينے ميں جمہوري حكومت كي نسبت زيادہ قدرت مند ہوتي ہے ليكن طبقہ اشراف قانون كے پابند نہيں ہوتے تقويٰ و فضيلت كے علاوہ كسي اور عامل كے ذريعے يہ ضمانت فراہم نہيں كي جا سكتي كہ طبقہ اشراف حقوق ميں مساوات كو مدنظر ركھے گا، اگر ان ميں تقويٰ كي صفت اس حدتك مستحكم ومضبوط ہو كہ انھيں اپنے اور رعايا كے درميان مساوات پر مجبور كرے تو جمہوريت كا دائرہ وسيع تر ہو تا جائے گا (ارسٹو كريسي وسيع جمہوريت ميں بدل جائے گي) ليكن اگر تقويٰ كي صفت مستحكم نہ ہو تو كم از كم طبقہ اشراف اپنے درميان مساوات كو مدنظر ركھے گا اور اس طرح اپنےآپكو تباہ و بربادي سے محفوظ ركھے گا۔
شرافت سے مراد قومي شرافت و بزرگى، قومي خوددارى، برتري طلبي كي روح اور بخل و پستي مزاج سے پر ہيز ہے۔
مونتسكيو كے نزديك تقويٰ وفضيلت كو بادشاہي حكومت كي بنياد و اساس ہونا چاہئے جب ايك اعتبار سے يہ امر مشكل ہے كہ بادشاہ كے اطرافيوں اور حلقہ بگوشوں سے توقع ركھي جائے كہ وہ ظلم، سركشي اور بدخلقي سے اجتناب كريں تو نتيجہ ً يہ فرض بھي مشكل ہے كہ ان كے زير سايہ زندگي گذارنے والے افراد صاحب تقويٰ، محب وطن اور محب حكومت بن جائيں كيونكہ اس كا
مطلب يہ ہے كہ حكمران عوام پر ظلم وستم كرتے ہيں، عوام كو غافل ركھتے ہيں عوام محكوم اور غافل رہتے ہيں اور ہميشہ كي طرح ظلم و ستم ميں حكمرانوں كي مدد كرتے ہيں۔
ايك اور اعتبار سے بادشاہي حكومت ميں تقويٰ كي كوئي خاص ضرورت نہيں ہوتي كيونكہ اس نظام حكومت ميں قوانين كے ساتھ شرافت كو ضميمہ كرنا تقويٰ كے مترادف ہے۔
قانون كي طاقت لوگوں كو پابند بناتي ہے اور انھيں كنٹرول كرتي ہے (ہرج ومرج سے محفوظ ركھتي ہے) اور انھيں صحيح سمت ميں حركت كرنے پر مجبور كرتي ہے جب كہ شرافت اور عزت كي طاقت بھي انھيں شہرت اور محبوبيت حاصل كرنے كي غرض سے نيكي كي طرف حركت كرنے پر مجبور كرتي ہے۔
اگر چہ يہ شرافت فلسفي اور حقيقي شرافت نہيں (بلكہ ظاہري و مصنوعي ہے) ليكن حكومت ميں شامل افراد كو كنٹرول ميں ركھتي ہے، اور حكومت كو صحيح و سالم ركھتي ہے۔
ليكن استبدادي حكومت معاشري ميں موجود شرافت كے ساتھ يكجانہيں ہو سكتي كيونكہ ملت كا ظالم اور استبداد گر حكمران سے وہي رابطہ ہے جو رابطہ غلام كاآقا سے ہے جب كہ عزت و شرافت اور خودداري نفس اس كي راہ ميں ركاوٹ ہے، ظالم اور استبداد گر حكمران ملت سے عزت و شرافت خودداري نفس اور موت سے نہ گھبرانے جيسي صفات كو كسب نہيں كر سكتا، پس شرافت جو بادشاہي نظام حكومت ميں پائي جاتي ہے اور قوانين و احكام كي تقويت كا سبب بنتي ہے بلكہ تقويٰ و فضيلت كي بھي تقويت كا سبب ہوتي ہے ان ممالك ميں نہيں پائي جاتي جن ممالك ميں ظالم اور استبدادگر حكومت حكم فرماہو، پس استبدادي حكومت كو كس بنياد پر استوار ہونا چاہئے؟ وہ بنياد تقويٰ نہيں اور نہ ہي (اس حكومت كے لئے) اس كي ضرورت ہے اور وہ بنياد شرافت بھي نہيں كيونكہ آپجان چكے ہيں كہ شرافت بعض مشكلات و خطرات كا سبب بنتي ہے، پس وہ بنياد خوف و رعب و دبدبہ ہے تاكہ ايك طرف سے (عوام ميں سے) كوئي شخص مقام ومنصب كي لالچ نہ كرے اور دوسري طرف سے حكمرانوں اور حكومت ميں شامل ذمہ دار عناصر كو قوم پر ظلم كرنے سے باز ركھا جائے، اگر قوم حكمران سے خوف نہ كھائے تو اسے كنٹرول نہيں كيا جا سكتا ہے كيونكہ شرافت و تقويٰ جيسي صفات موجود نہيں ہوتيں اور نہ ہي پائيدار اور تسلي بخش قوانين موجود ہوتے ہيں بلكہ (اس حكومت ميں) فقط اور فقط حكمران كا ارادہ اور اس كي ذاتي پسند حكم فرما ہوتي ہے۔
ليكن دين اور دينداروں كي قدر ومنزلت كے باري ميں مونتسكيو كہتے ہيں: ”ظالم و استبدادگر حكمران كي طاقت و قدرت اور ارادہ كے سامنے دين كے علاوہ كوئي اور طاقت نہيں ٹھہر سكتى، اگر حكمران كسي شخص كو حكم دے كہ اپنے والد كو قتل كردو تو وہ شخص يہ كام كر گذري گا اور اگر حاكم اس كام سے باز رہنے كا حكم دے تو وہ شخص اس كام سے باز رہے گا، ليكن اگر حاكم لوگوں كو شراب خواري كا حكم دے تو لوگ اس حكم كو تسليم نہيں كريں گے كيونكہ وہ دين اس كا م كي اجازت نہيں ديتا جو عوام اور خود حكومت پر حاكم ہے، آئيني اور معتدل حكومتوں ميں شرافت بادشاہ كي طاقت و قدرت كو كم كرتي ہے، كوئي شخص بادشاہ كے ساتھ دين سے
متعلق بات نہيں كرتا، اگر بادشاہ كے قريبي افراد ميں سے كوئي شخص بادشاہ كے ساتھ دين كے باري ميں بات كرے تو اس كا يہ عمل تمسخرآميز اور مذاح كے قابل ہے، بادشاہ كے ساتھ فقط اور فقط عظمت و شرافت اور بلندي نفس كي بات كي جاسكتي ہے، اگرآئيني سلطنت ميں بادشاہ اور عوام كے درميان رابطہ بر قرار ركھنے اور واسطہ بننے والے لوگ اور طاقتيں موجود نہ ہوں تو فطري طور پر يہ حكومت استبدادي حكومت ميں تبديل ہو جائے گى، ايك اعتبار سے قوانين كے نفاذ اور عوام ميں قوانين كے رواج كي غرض سے اشراف وبزرگان كي موجودگي ضروري ہے تاكہ بادشاہ ظالم و جابر حكمران كي شكل اختيار نہ كر ے جب كہ دوسري طرف حكومتي نفوذ اور اثرو رسوخ كے مقابلے ميں بزرگان (علماء) كو قدرت وطاقت اور عوام ميں اثر و رسوخ حاصل ہونا چاہئے خصوصاً (اس صورت ميں) جب حكومت ظلم و استبداد كي طرف ميلان ركھتي ہو ليكن جمہوري حكومت ميں ديني عناصر كے لئے قدرت اور اثر ورسوخ كا ہونا نہ فقط صحيح نہيں بلكہ ايك خطرہ بھي ہے،،
يہ اس بحث كا خلاصہ تھا جسے مونتسكيونے اپني كتاب ”روح القوانين “ميں متعدد مقامات پر پيش كيا ہے۔
ہم مونتسكيو كي عبارت كے متعلق فقط يہ كہيں گے كہ مونتسكيو اوراس كي مانند لوگ ايسي خيالي اور آئيڈيل حكومت كے باري ميں بحث و گفتگو كرتے ہيں جس كا خارج ميں نام و نشان نہيں پايا جاتا اور يہ لوگ فلسفي فرضيوں، تصورات اور خالص عقلي تصورات كےماحول ميں زندگي بسر كرتے ہيں۔
ورنہ ذاتي اغراض و مقاصد، ذاتي مفادات اورحب ذات كے نتيجے ميں پيدا ہونے والے ظلم و استبداد اور سركشي كے سامنے كوئي طاقت نہيں ٹھہر سكتي ولو خارج ميں موجود حقيقي حكومت كے متعلق بحث و گفتگو كرنا مقصود ہو، فقط ايك چيز ا س ظلم و سر كشي كے مقابلے ميں ٹھہرنے كي صلاحيت ركھتي ہے جو دين اوراخلاق سے عبارت ہے جس كے بيج خداوند متعال نے انبياء اور وحي كے ذريعے انسانوں كے دلوں ميں بوئے ہيں۔
دين سے ہماري مرادوہ دين نہيں جس كي طاقت و قدرت فقط اس حد تك محدود ہو كہ لوگوں كو شراب خواري سے تو روك سكے ليكن بيٹے كو باپ كے قتل سے باز نہ ركھ سكے (چنانچہ مونتسكيو كي كلام ميں يہ بات گذر چكي ہے) بلكہ دين سے مراد ايسا دين ہے جسے مونتسكيو جيسے قرار دادي قوانين كے امام سمجھنے كي صلاحيت و قدرت ہي نہيں ركھتے، وہ دين جو ہر نيكي كا حكم ديتا ہے اور ہر برائي سے روكتا ہے اور انسان كي اس طرح تربيت كرتا ہے كہ انسان عقيدہ كي راہ ميں مال و دولت، مقام و منصب اور خون تك قربان كر ديتا ہے اور اس كا واحد مقصد خداوند متعال كي خوشنودي كا حصول ہوتا ہے۔
ليكن اگر عقيدہ اور دين سے صرف نظر كريں توآئيني نظام اور جمہوري نظام ميں ايسي كوئي چيز نظر نہيں آتي جو ضمانت فراہم كر سكے (كہ حكومت) حق و حقيقت اور عدالت كا اتباع كرے گى، اس شخص ميں كون سي شرافت قابل تصور ہے جو زندگي كے كاروان كوآگے بڑھانے والے اس نظام پر ايمان نہيں ركھتا جو نظام قومي مفادات اورعقيدہ كي راہ ميں اپنے ذاتي مفادات كو قربان كرنے والے شخص كو ہميشہ رہنے والي كامياب اور با سعادت زندگي عطا كرتا ہے اور اسے ايسي جنت كي بشارت ديتاہے جس كي وسعتيں اسمانوں اور زمينوں كے برابر ہيں ۔
جو شخص اسماني تعليمات واوامر كے نتيجے ميں انساني دلوں ميں موجود اخلاقي كمالات اور انساني قدروں كي حقيقت پر ايمان و عقيدہ نہ ركھتا ہو اس كے لئے كون سي شرافت و بزرگي متصور ہے؟ !
جب تك انسان ميں ذاتي اغراض اور نفساني خواہشات موجود ہوں اور اسے دوسروں پر برتري حاصل كرنے اور دنيا كي مادي اور عارضي لذتوں كے حصول كي دوڑ ميں شامل ہونے پر مجبور كريں اور جب تك الٰہي تربيتي اصولوں كي روشني ميں ان لذتوں اور خواہشات و ميلانات كي حدود معين نہ كي جائيں اس وقت تك يہ ضمانت نہيں دي جا سكتي كہ مساوات كے رواج كے لئے كي جانے والي كوششيں مفيد اور كامياب ثابت ہوں گي۔
حبّ وطن
حب وطن كا (مغربي معني كے مطابق) نتيجہ يہ ہوگا كہ محب وطن افراد اپنے وطن كے مفادات اور مصلحتوں كے سامنے (اپنے ملك كے مفادات كے تحقق كي غر ض سے) دوسري ممالك كے وسائل كو طمع اور لالچ كي نگاہ سے ديكھيں گے دوسري ممالك ميں موجود (قدرتي و غير قدرت) وسائل اور اموال كو تاراج كريں گے، لوگوں كويعني دوسري ممالك كے باشندوں كواپنا غلام بنائيں گے اور ان ممالك پر قضبہ كريں گے، يہ سب كچھ وطن سے باہر كي نسبت تھا ليكن وطن كے اندر ذاتي اور قومي مفادات ميں تعارض كي صورت ميں اپنے ذاتي مفادات كو دوسروں كے مفادات پر ترجيح ديں گے يہ سب كچھ حب ذات كي خواہش كي پيروي كا نتيجہ ہے۔
جمہوري نظام ياآئيني سلطنتي نظام ميں نہ شرافت ہے نہ تقويٰ تا كہ اس كي بنياد پر قومي مفادات كے تحفظ كي ضمانت فراہم كي جاسكے۔
فقط دين (اپنے صحيح معني ميں) معاشري ميں حق و حقيقت اور عدل و انصاف كے رواج كا كفيل ہے اور ضمانت فراہم كرتا ہے كہ جب تك معاشرہ (لوگ) حقيقي طور پر دين دار باقي رہيں گے حكمران راہ راست سے منحرف ہو كر ظلم واستبداد كي راہ اختيار نہيں كر سكتا، جب ہم اسلامي حكومت كو ملاحظہ كرتے ہيں كہ جس كا سر براہ غير معصوم انسان ہے ليكن اس نے حكمراني كا حق اور جواز دين سے حاصل كيا ہے، جب حكومت اور معاشري كے لئے ديني اعبتار سے حديں معين كي جائيں تو پاك و پاكيزہ اچھے نتائج كي توقع كي جا سكتي ہے۔
بہر حال جو واحد عنصر اسلامي حكومت كو ظلم و استبداد كي حكومت ميں بدل جانے سے روكتا ہے، وہ عنصر خود اسلامي حكومت كي روح اور ذات ميں پنہاں ہے يعني دين اور دينداري۔
مناسب ہے كہ جس معاشري ميں دين كي حكمراني ہے اولياء خدا اس معاشري كي تربيت كريں جن زمانوں ميں اسلام كا صحيح نفاذ ہوا ان زمانوں ميں عملي طور پر معاشرہ كي تربيت كي گئى، مثال كے طور پر نبي كريم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كا زمانہ آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے يہ تجربہ ايسے خطہ ميں كيا جو انسانيت، شرافت، تقويٰ اور اخلاق سے كوسوں دور تھا ليكن اس كے باوجود آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے تقويٰ و عدالت كي بنياد پراستوار معاشرہ وجود ميں لكيا۔
جب كہ (اسلام كے علاوہ) دوسري (حكومتي) نظاموں ميں وہ عنصر مفقود ہے جو نظام كو ظلم استبداد كي طرف جانے سے روك سكے جس طرح عام طور پر ان نظاموں ميں در اصل كوئي ايسا عامل نہيں پايا جاتا جو اس تلخ نتيجے اور بري انجام (نظام كا ستبدادي نظام ميں بدل جانا) كي راہ ميں ركاوٹ پيدا كر سكے ۔
ہم آج دنيا ميں رائج جمہوريتوں اور ان كےآثار و نتائج كا ملاحظہ كر رہے ہيں۔ ہم مشاہدہ كررہے ہيں كہ ان جمہوريتوں كےآثارو نتائج، تباہي و بربادى، ممالك پر قبضے، ضعيفوں اور مزوروں كا خون چوسنے كي صورت ميں سامنےآرہے ہيں، آج دنيا جمہوريتوں كے حرص و لالچ كےآتش فشاں كے دہانے پر كھڑي ہے اور اسے ہر لمحہ عالمي جنگوں كا تصور اور ان جنگوں كے نتيجے ميں ہونے والي تباہي و بربادى كے خطرات لاحق ہيں۔
ہم يہ بھي مشاہدہ كر رہے ہيں كہ مساوات (اگر بذات خود صحيح ہو) اس كاجمہوري معاشروں ميں بالكل نام و نشان نہيں پايا جاتا ليكن جن معاشروں ميں جبري مساوات مسلط ہے ان معاشروں ميں جمہوريت كےآثار بالكل نظر نہيں آتے، جس حكومت سے عدالت، حق و حقيقت كے رواج اور حكومت كے حقيقي وظائف كي رعايت كي توقع كي جا سكتي ہے، وہ ايسي حكومت ہے جس كا مطمع نظر عبوديت و بندگي كي ادائيگي اور خدا كي خوشنودي حاصل كرنا ہے، نہ وہ حكومت جس پر نفساني خواہشات اور ذاتي مفادات كا غلبہ ہوتا ہے اور يہ حكومت (اپنے اھداف حاصل نہ كرنے كي صورت ميں) عوام كا استحصال كرتے ہوئے اپني ذاتي اور محدود خواہشات اور تمناؤں كو پورا كرتي ہے، يہ پہلا عامل تھا جو اسلامي حكومت كو ظلم و استبداد كي حكومت ميں تبديل ہونے سے روكتا ہے۔
(۲) دوسرا نكتہ يہ ہے كہ اسلامي حكومت اور ظلم استبداد كاآپس ميں كوئي تعلق اور واسطہ نہيں ہے كيونكہ (حكومت كي) وہ شكل جسے حكومت اسلامي كے لئے ثابت كيا جا سكتا ہے اور جو حكمران جماعت كو ولايت (حق حكومت) عطا كرتي ہے (البتہ اگر يہ فرض كيا جائے كہ خدا كي طرف سے (حكومت كے لئے) كسي كو معين نہيں كيا گيا ہے جيسا كہ تمام مسلمانوں كے نزديك رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم، منصوص من اللہ تھے، اور شيعوں كے نزديك (پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے بعد) ائمہ معصومين عليہ السلام بھي منصوص من اللہ تھے۔
شورائي نظام يا ولايت فقيہ كا نظام
۱) شورائي نظام
بعض علماء اہل سنت كا دعويٰ ہے كہ رسول خدا كي وفات كے بعد سے حكومت كا قيام اس بنياد پر تھا جب كہ شيعہ معقتد ہيں كہ خدا كے حكم كے مطابق اور پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي نص كے مطابق رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے بعد حكومت بارہ اماموں كو سوپني گئى، لہٰذا اگر (ان كے نزديك) شورائي نظام كا تصور ممكن ہو تو امام زمانہ عليہ السلام كي غيبت كبريٰ كے زمانے ميں قابل تصور ہے ۔
بہر حال شورائي نظام (اگر ہم اسے زمانہ غيبت ميں قبول كريں) جمہوريت سے اس لحاظ سے مختلف ہے كہ شوارئي نظام ميں اہم اور بنيادي قانون سازي كا اختيار، الٰہي احكام اور اسلامي شريعت كے مطابق لوگوں كے بجائے خداوند متعال كو حاصل ہے اسلام نے منطقۃ الفراغ چھوڑاہے جس كي حدود اور علامتيں معين ہيں اوراس منقطۃ الفراغ كو اسلامي حدود كي روشني ميں ولي امر پر كرتاہے، پس اگر شوريٰ كا تصور ممكن ہو تو فقط اور فقط اس منطقہ الفراغ كو اسلامي تعليمات وافكار كي روشني ميں پر كرنے كي حد تك محدود ہے، يا ايسے شخص كے انتخاب تك محدود ہے جو منطقۃ الفرا غ كو پر كر سكے اور اسلامي قوانين كو نافذ كر سكے
شورائي نظام استبدادي نظام سے اس اعتبار سے مختلف ہے كہ شورائي نظام ميں سر براہ حكومت كسي بھي ميدان ميں استبدادگر اور آزاد نہيں ہے نہ بنيادي اوركلان قانون سازي ميں، نہ قوہ مجريہ كے انتخاب ميں اور نہ ہي ہماري بقول منطقۃ الفراغ كوپر كرنے ميں كيونكہ بنيادي اور اہم نوعيت كے قوانين وضع كرنا خدا اور اسلام كے ہاتھ ميں ہے جب كہ باقي امور استبداد كے ذريعے نہيں بلكہ شوراي كے ذريعے انجام پاتے ہيں۔
ليكن ہم (شوريٰ كي بحث كے دوران) وضاحت كريں گے كہ اسلامي حكومت كے لئے يہ تصور (شورائي نظام) باطل ہے اور شورائي نظام كا كوئي شرعي جواز موجود نہيں ہے ۔
۲) امام معصوم عليہ السلام كي نيابت ميں ولايت فقيہ كا نظام۔
حقيقي ولي امام معصوم عليہ السلام ہيں اور انہوں نے فقيہ كو اپنے نائب كے طورپر معين فرمايا ہے حكومت كي يہ شكل شيعہ مسلك سے ہماہنگ وسازگار ہے۔
ولايت فقيہ اور استبدادي نظام حكومت ميں فرق
ولايت فقيہ كا نظام استبدادي نظام حكومت سے درج ذيل تين نكات كے اعتبار سے مختلف ہے:
۱) ولايت فقيہ كي بنياد پر قائم ہونے والي حكومت ميں بنيادي قوانين كو فقيہ نہيں بلكہ خداوند متعال ہي بناتا ہے ۔
۲) ولايت كسي ايك فقيہ ميں منحصر نہيں ہے بلكہ يہ ولايت ہر جامع الشرائط فقيہ كو حاصل ہے ساري جامع الشرائط فقہاء اس حكومت كے سر براہ فقيہ پر نظارت كرتے ہيں يا فقہاء كي اس كميٹي پر نظارت كرتے ہيں جو في الحال قيادت كے امور كو سر انجام دے رہي ہوتي ہے۔
نظارت كے ساتھ ساتھ حكمران جماعت كي لغزشوں اور خطاؤں كو كم كرتے ہيں اور ان موارد ميں (فقيہ يا فقہاء كي كميٹي كے) حكم كي مخالفت كرتے ہيں جن موارد ميں مخالفت كا نقصان خطاء كے نقصان سے كم ہو وہ خطا كہ جس كا سبب فقيہ كا حكم بناہو اور ان موارد ميں تمام جامع الشرائط فقہاء فقيہ يا فقہاء كي كميٹي كے حكم كي مخالفت كرتے ہيں كہ جہاں پر ان كي نظر ميں حاكم كي مخالفت ان نقصانات اور تفرقے سے بہتر ہو جو اس كے حكم كسي وجہ سےوجود ميں آئے گا۔
۳) اس نظام ميں ولايت كي بنياد قہر وغلبہ پراستوار نہيں ہوتي بلكہ ولايت اپني شرائط مكمل ہونے كي صورت ميں تحقق پيدا كرتي ہے، ان شرائط ميں سے اہم ترين شرائط، فقاہت، عدالت، لياقت اورصلاحيت ہيں، يہ شرائط ولي امر كے اقدامات كو صحيح سمت اورصحيح رخ، فراہم كرتي ہيں ۔اور امت ولي امر پر نظارت كرتي ہے اور امت اس امر پر بھي نظارت كرتي ہے كہ ولي امرميں مندرجہ بالا شرائط موجود ہوني چاہئيں كيونكہ امت كي تربيت ہي اس طرح ہوئي ہے كہ وہ ان شرائط كي طرف متوجہ رہتے ہيں (اور ان شرائط كو ضروري سمجھتے ہيں) جس طرح ولايت كا دائرہ كار امت كے مفادات اور بھلائيوں تك محدود ہے اور يہ امر بھي ولي كے تصرفات كو صحيح سمت اور صحيح رخ كي طرف راہنمايي كرتا ہے، اور ان اموركي طرف پوري طرح متوجہ امت ولي كا اعمال پر نظارت كرتي ہے اور جب كوئي قانون وضع كرتے وقت مصلحت كا تقاضايہ ہو كہ قوم سے راي ليجائے اور اكثريت آراء پر عمل كيا جائے تو قوم سے راي لينا اور اكثريت كےآراء عمل كرنا ولي امر كے لئے ضروري ہے۔
فقيہ كي نيابت اور ولايت كا نظام، جمہوري نظام سے اس اعتبار سے مختلف ہے كہ اسلام ميں ووٹنگ اور آراء كي جمع اور ي نہ تو اسلام كے بنيادي قوانين كي بنياد فراہم كرتي ہے اور نہ ہي منطقۃ الفراغ كے لئے بنياد قرار پاتي ہے اور نہ ہي حكومت يعني كا بينہ كي تشكيل كے لئے بنياد فراہم كرتي ہے، بلكہ بنيادي قوانين تو اسلام نے عطا كئے ہيں اور فقيہ يا تو خود منطقۃالفراغ كو پورا كرتا ہے يا كسي شخص كو منطقۃ الفراغ كو پر كرنے كے لئے منتخب كرتاہے۔
اوراسي طرح فقيہ قوہ مجريہ (كابينہ كے اراكين) كو معين كرتا ہے اور قوہ مجريہ كو معين كرنے والوں كو معين كرتا ہے ہاں اگر كبھي مصلحت كا تقاضا ہو (جيسا كہ اشارہ ہو چكا ہے) كہ فقيہ منطقۃ الفراغ يا قوہ مجريہ معين كرنے كے لئے ووٹنگ كروائے تواس پر ووٹنگ كروانا ضروري ہے اس كام كے لئے فقيہ جو شرائط اور طريقہ كار معين كرے اس كا اتباع اور پيروي ضروري ہے۔
____________________