ضميمہ جات مؤلف
پہلاضميمہ
علم منطق ميں اسے قضيہ حمليہ كہا جاتااشكال: كلام ميں قرىب و بعيد سے اس قسم كے ولي (جس كي راي پر عمل كرناضرورى ہے) كي طرف كسي بھي طرىقہ سے اشارہ كا موجود نہ ہونا تيسرى احتمال كي نفي پر قرىنہ نہيں بن سكتا اگرچہ مشورہ كے باب ميں فرضيہ يہي ہوتا ہے كہ مشورہ كرنے كے بعد كسي ايك راي پرعمل كيا جائے ليكن كلام ميں يہ فرضيہ نہيں پايا جاتا، يعني كلام سے يہ نہيں سمجھا جاتا كہ حتي اس صورت ميں بھي كسي ايك راي پر عمل كرنا ضرورى ہے كہ جب كلام ميں كسي ولي كو فرض نہ كيا جائے اورمشورہ كرنے والے بھي مشورہ دينے والوں سے مختلف نہ ہوں۔
لہٰذا معني يہ ہوگا كہ جس راي پر عمل كرنا ضرورى ہے يا وہ راي مشورہ دينے والوں كي راي ہويا ان كي اكثرىت كي راي ہو يا ان افراد كي راي ہو جنھيں مشورہ دينے والے معين كرىں، ہمارى لئے پہلے سے يہ ثابت شدہ ہے كہ مشورہ كے باب ميں ضرورى ہے كہ كسي ايك راي پر عمل كيا جائے لہٰذاآيت اس معني ميں ظہور نہيں ركھتي كہ مشورہ دينے والوں يا ان كي طرف سے معين ہونے والے افراد كي راي پر عمل كرنا ضرورى ہے۔
جواب: اگر ”شاوروافي اموركم"اپنے امور ميں مشورہ كرو “جيسي تعبير لائي جاتي تو مندرجہ بالا اشكال صحيح تھا ليكن ”وامرھم شورىٰ بينھم “ كي تعبير پر يہ اشكال نہيں كيا جاسكتا، كيونكہ اس تعبير ميں مشورہ كا حكم نہيں ديا گيا بلكہ فقط لفظ ”شورىٰ" كو ”امرھم" كے لئے محمول
قرار ديا گيا ہے۔
لہٰذاس كلام كامعني يہ ہے كہ ان كے امورمشورہ كے ذرىعے انجام پاتے ہيں بنا براين كلام ميں يہ فرضيہ موجود ہے كہ امور كےآگے بڑھانے كي غرض سے مخصوص آراء پر عمل كرنا ضرورى ہے، اب ہم سوال كرىں گے كہ كيا شورىٰ كے نتيجے ميں حاصل ہونے والي راي پر عمل كرنا ضرورى ہے يا شورىٰ سے ہٹ كر كسي ولي كي راي پر عمل كرنا مقصود ہے جب كہ شورىٰ كا فائدہ فقط يہ ہے كہ ولي كے سامنے (مشورہ كے نتيجہ ميں) راستہ واضح و روشن ہو جائے۔
فطرى طور پر ان دو احتمالوں ميں سے پہلا احتمال يقيني ہے، كيونكہ آيہ كرىمہ نے فقط شورىٰ كا تذكرہ كيا ہے ليكن ولي كا تذكرہ نہيں كيا، اب اگر كہا جائے ولي كي طرف رجوع كرناضرورى ہے تو يہ چيزآيہ كرىمہ سے نہيں سمجھي جاتي لہٰذا مزيد بيان كي ضرورت ہے تاكہ شورىٰ سے ولايت حاصل كرنے والے ولي كي راي پر عمل كيا جائے۔كلام ميں اس قسم كے ولي كا تذكرہ نہ كرنااس بات پر قرىنہ ہے كہ پہلا احتمال ہي مقصود ہے۔بعيد نہيں كہا جائے: اگر مشورى كاحكم ديتے وقت (شاوروا في الامر) اپنے امورميں باہمي مشورہ كرو “جيسي تعبير پر اكتفاء كيا جاتا تب بھي مذكورہ اشكال وارد نہ ہوتا كيونكہ عمومي ذہنيت يہ ہے كہ عام طور پر مشورہ كرناطرفِ مشورہ شخص كي راي پر عمل كرنے كا مقدمہ اور پيش خيمہ ہے، جب مشورہ كرنے والے شخص كے پاس مشورہ دينے والے شخص كي راي سے بہتر راي موجود نہ ہو يا اس كے پاس موجود راي مشورہ دينے والے شخص كي راي سے مساوي ہو، اس عمومي ذہنيت كے مطابق آيہ مباركہ (جواس فرض ميں وارد ہوئي ہے كہ جب مشورہ لينے والے مشورہ دينے والوں سے جدانہ ہوں) كا ظاہرى معني يہ ہے كہ مشورہ دينے والوں كي راي كي طرف رغبت دلائي جارہي ہے۔
ان مطالب اور متن كتاب ميں موجود مطالب كي روشني ميں يہ بات واضح ہو جاتي ہے كہ مورد بحث آيہ مباركہ ان دلائل ميں سے سب سے بہترىن دليل ہے جن دلائل كي بنياد پر شورىٰ كو مقصودہ معنيٰ كے مطابق حكومت وولايت كا سر چشمہ اور منبع وماخذ قرار ديا جاتا ہے، جس طرح روايت ”اموركم شورىٰ بينكم “دلالت كے اعتبار سے مستحكم ہے اسي طرح يہ آيہ مباركہ بھي دلالت كے اعتبار سے مستحكم ہے۔اورىہ آيہ مباركہ اس اشكال ميں مبتلا نہيں جس اشكال ميں روايت”اموركم شورىٰ بينكم
“مبتلا تھي ”اشكال يہ تھا كہ روايت سند كےاعتبار سےضعيف ہے (ليكن آيہ پرسندي اشكال قابل تصور نہيں ہے۔
بلكہ يہ بھي كہا جاسكتا ہے كہ آيہ مباركہ كي دلالت بھي روايت كي دلالت سے زيادہ محكم و پائيدار ہے كيونكہ:
اولاً: بعض اوقات دعويٰ كيا جاتا ہے كيونكہ ”اموركم شورىٰ بينكم
“كا ”اموركم الي نسائكم “كے مقابلے ميں ذكر ہونا اس بات پر قرىنہ ہے كہ لفظ ”الامور“انفرادي امور كو شامل ہے، جب كہ آيہ مباركہ ميں يہ خصوصيت نہيں پائي جاتي ۔
ثانياً: بعض اوقات كہاجاتا ہےآيہ مباركہ ميں لفظ ”الامر" كے ذرىعے تعبير لانا بہتر طورپر دلالت كرتا ہے كہ جس طرح روايت ميں اجتماعي امور مراد ہيں اسي طرح آيہ مباركہ ميں بھي اجتماعي امور مراد ہيں كيونكہ اگرآيہ مباركہ ميں انفرادي امور مراد ہوتے تو جمع كے مقابلے ميں جمع كا صيغہ لكھاجاتا جو تقسيم سے زيادہ مناسب و ہماہنگ ہے ۔مثلاً يوں كہاجاتا”امورھم شورىٰ بينھم “ليكن يہ تعبير نہيں لائي گئي بلكہ ”امرھم شورىٰ بينھم“ كي تعبير لائي گئي ہے۔ جب كہ آيہ مباركہ كے بر عكس روايت ميں جمع كے صيغہ كے ذرىعے تعبير لائي گئي ہے اور كہا گيا ہے ”اموركم شورىٰ بينهم
“۔ليكن تمام تر بحث و گفتگو كے باوجود ہم متن كتاب ميں وضاحت كر چكے ہيں كہ اس آيہ مباركہ كے ذرىعے شورائي نظام پر استدلال كرنا صحيح نہيں ہے ۔
دوسرا ضميمہ
درجہ ذيل تفصيلي بيان ناگزير ہے تاكہ حقيقت كھل كر سامنے آسكے:
شورىٰ كي دوقسميں ہيں (چنانچہ ہم وضاحت كر چكے ہيں)
پہلي قسم
وہ شورىٰ جس ميں مشورہ لينے والا مشورہ دينے والے سے مختلف ہوتا ہے يعني شورىٰ انفرادي امور سے متعلق ہوتي ہے، مثلاً كسي شخص كے لئے ايك موضوع اہميت كا حامل ہے لہٰذااس موضوع سے متعلق دوسروں سے مشورہ كرتا ہے۔
دوسرى قسم
وہ شورىٰ جس ميں مشورہ لينےوالوں اورمشورہ دينےوالوں كودوفرض نہيں كيا جاتا (مختلف نہيں ہوتے) يعني جس جماعت وگروہ سےامورمتعلق ہوتے ہيں اسي جماعت كے درميان شورىٰ بر قرار ہوتي ہےمثلاً قانون سازي اورولي امر كي تعيين وغيرہ جيسے امور۔ اگر آيہ مباركہ ميں شورىٰ سےمتعلق حكم كو پہلي قسم پرمنطبق كيا جائے تو دو ہي صورتيں قابل تصور ہيں۔
۱) شورىٰ سے متعلق حكم كو فقط دوسروں كےآراء وافكار سےآگاہي اوران كے راء سے بہرہ مند ہونے پر حمل كيا جائے ۔اس معني پر حمل نہ كيا جائے كہ ہر صورت ميں مشورہ دينے والوں كي راي پر عمل كرنا ضرورى ہے يہ احتمال شورىٰ كے متعلق پائے جانے والے تين احتمالوں ميں سے تيسرا احتمال ہے ۔
۲) شورىٰ سے متعلق حكم كواس معني پر حمل كياجائے كہ مشورہ كرنے كاحكم اور مشورہ پر عمل كرنے كاحكم دونوں تعبدي ہيں۔شورىٰ كے متعلق حكم كو اس معني پر حمل كرنے كے لئے قرىنہ كي ضرورت ہے كيونكہ شورىٰ سے متعلق حكم اس معني پر دلالت نہيں كرتا۔مشورہ كرنا اور مشورہ پر عمل كرنا دو عليحدہ عليحدہ موضوع ہيں اور آيہ مباركہ فقط مشورہ كرنے كا حكم دے رہي ہے لہٰذا اگر يہ آيہ مباركہ كا معني يہ كيا جائے كہ مشورہ پر عمل كرنا بھي ضرورى ہے تو اس معني كے لے قرىنہ و دليل كي ضرورت ہے جوآيہ مباركہ ميں موجود نہيں ہے ۔بہر حال جب شورىٰ كے متعلق حكم اس معني پر عمل كيا جائے تو مناسبات حكم وموضوع كو مد نظر ركھتے ہوئے يہ كہنا ضرورى ہے كہ آيہ مباركہ فقط مباح (جائز) امور ميں دوسروں كي راي پر عمل كرنے كا حكم دے رہي ہے اور آيہ مباركہ ميں موجود حكم ضرورى ولازمي (واجب وحرام) امور ميں ترخيص كر شامل نہيں ہوتا اگر چہ يہ لازمي احكام، احكام ظاہرى ہوں اور ولايت كا دوسرى شعبوں كو شامل نہ ہوں مشورہ دينے والے كي راي پر عمل كرنے كا حكم بالكل اسي طرح ہے جس طرح والد كي راي يا قسم نذر وغيرہ پر عمل كرنے كاحكم ہے۔يہ سب احكام، ثانوي احكام ہيں جوشرىعت ميں احكام اولي (خواہ واقعي ہوں خواہ ظاہرى) كي تكميل كے بعدوارد ہوئےہيں، يعني ان احكام كےموضوع ميں متعلق كي مشروعيت كو اخذ كيا گيا ہے
يہ احتمال شورىٰ كے متعلق تين احتمالوں ميں سے دوسرا احتمال ہے۔
ہم ذكر كر چكے ہيں آيہ مباركہ ”امرھم شورىٰ بينھم“ميں مشورہ دينے والےمختلف نہيں بلكہ ايك ہي ہيں لہٰذا اس آيہ مباركہ ميں شورىٰ كے متعلق حكم كو پہلي قسم پر منطبق نہيں كيا جاسكتا يعني اس شورىٰ پر منطبق نہيں كياجاسكتا جو ايسے موضوعا ت سے متعلق ہو جن موضوعات ميں مشورہ كرنےوالےمشورہ دينےوالوں سے مختلف ہوں۔خواہ ہم اسے تيسرى احتمال كي طرح پلٹائيں خواہ دوسرى احتمال كي طرف۔ليكن اگر شورىٰ كے متعلق حكم كو دوسرى قسم پر منطبق كيا جائے (يعني ايسےامورجن ميں مشورہ كرنےوالےاورمشورہ دينےوالےمتحد ہوں) تو ہم پہلے ہي ثابت كر چكے ہيں كہ پہلا فرض قابل تصور نہيں ہے تاكہ شورىٰ كے متعلق حكم كوفقط دوسروں كےآراء وافكارسےآگاہي حاصل كرنےپرحمل كياجائے۔بلكہ اس صوت ميں ضرورى ہوگا كہ ہم شورىٰ كے متعلق حكم كو اس معني پر حمل كرىں كہ مشورہ كرنے اور مشورہ پر عمل بھي كرنے كاحكم ديا جارہا ہے۔اس كا مطلب يہ ہے كہ يہاں پر تيسرا احتمال ممكن نہيں ہے۔
اب صرف ايك بحث باقي ہے كہ شورىٰ كا دائرہ كار كيا ہے؟ آيا فقط مباح (جائز امور) ميں دوسروں كي آراء پرعمل كرنا ضرورى ہے (يہ دوسرا احتمال ہے) ياشورىٰ كا دائرہ كارمباح امورتك محدود نہيں بلكہ بہ طور مثال لازمي ظاہرى احكام كي مخالفت ميں رخصت دينا بھي شورىٰ كے دائرہ كار ميں شامل ہے۔يايہ كہ شورىٰ كا دائرہ كارمورد بحث ولايت كےتمام شعبوں كو شامل ہو يعني شورىٰ مباحات (جائزامور) ظاہرى لازمي احكام كي مخالفت ميں رخصت دينے (جہاں پرممكن ہو) اورواقعي لازمي احكام كي مخالفت ميں رخصت دينے (جن مواردميں ولايت كےذرىعےموضوع تبديل كرنا ممكن ہوياولي امركي تعيين يااسلامي حدود كانفاذ وغيرہ) كو بھي شامل ہوگي۔
يہ شورىٰ سے متعلق تين احتمالوں ميں سے پہلا احتمال ہے۔
فطرى طورپر اطلاق اور مقدمات حكمت
كي روسے پہلا احتمال متعين ہے، اور دوسرا احتمال (يعني ولايت كو مباح و جائزامورتك محدودكرنا) تقييد بلا مقيد ہے۔
يہاں پر اس كلام كي كوئي گنجائش نہيں جسے ہم پہلے احتمال كے ضمن ميں ذكر كر چكے ہيں كہ مناسبات حكم وموضوع، اس كا تقاضا كرتي ہيں۔
بلكہ يہاں پر مناسبات حكم و موضوع كا تقاضا بر عكس ہے ۔جب شورىٰ مسلمانوں كے اجتماعي امور سے متعلق ہے اور شورىٰ كاہدف و مقصد سماجي مسائل كو حل كرنا ہے (فقط ان امور كو حل كرنا مقصود نہيں جن ميں مشورہ كرنے والے مشورہ دينے والوں ميں مختلف ہوں اور شورىٰ كا ھدف و مقصد ايك دوسرى كےآراء وافكار سے مدد لينا ہے تو ان اہداف كا حصول عام ولايت كے بغير ممكن نہيں وہ عام ولايت جس كے متعلق ہم كہہ چكے ہيں كہ يہي عام ولايت كا نظام حكومت كي اساس و بنياد ہے۔
تيسرا ضميمہ
تائيد كے طور پر يہ كہا جاسكتاہے كيونكہ ”لم يقبل”اور ”استخف”اور ”رد" فعل معلوم كے صيغے ہيں لہٰذا ہم يہ احتمال دے سكتے ہيں كہ ان ميں موجود ضمير كي باز گشت اس طرف دعويٰ كي طرف ہو جس كے خلاف (اور اس كے طرف مقابل كے حق ميں) فيصلہ ديا گيا ہو ۔اگر اس روايت كے ذرىعے استدلال (خواہ پہلے جملے سے استدلال كيا جائے خواہ دوسرى جملے سے) كيا جائے تو اس پر دو اشكال وارد ہوتے ہيں:
پہلا اشكال
اگر يہ روايت دلالت كے اعتبار سے كامل ہو تو صرف امام صادق عليہ السلام كي طرف سے فقيہ كو نيابت عطا كرنے پر دلالت كرتي ہے لہٰذا يہ نيابت و نمايندگي امام صادق عليہ السلام كي وفات (شہادت) كے ساتھ ختم ہو جائے گي جب كہ ہميں ضرورت اس امر كي ہے كہ امام زمانہ عليہ السلام كي طرف سے فقيہ كے لئے نيابت و نمايندگي ثابت كرىں۔
جواب: درج ذيل دو طرىقوں ميں سے كسي ايك كے ذرىعے مندرجہ بالا اشكال كا جواب ديا جا سكتا ہے ۔
يا يہ دعويٰ كيا جائے كہ ہم روايت سے واضح طورپر سمجھتے ہيں كہ اس اعتبار سے كوئي فرق نہيں پايا جاتا كيونكہ اگر امام صادق عليہ السلام امام زمانہ عليہ السلام كے دور ميں موجود ہوتے تب بھي فقيہ كواپنانائب و نمايندہ قرار ديتے پس امام زمانہ عليہ السلام نے بہ طرىق اوليٰ زمانہ غيبت ميں فقيہ كو نائب قرار ديا ہے۔
يا يہ دعويٰ كيا جائے: ہم درك كرتے ہيں كہ فقيہ كواس طرىقہ سے بطور نمايندہ ونائب منتخب نہيں كيا گيا كہ امام عليہ السلام كي وفا ت (شہادت) كے ساتھ فقيہ كي نمايندگي و نيابت ختم ہو جائے بلكہ امام عليہ السلام نے اپنے حق ولايت كو بروئے كار لاتے ہوئے فقيہ كو ولايت عطافرمائي ہے پس فقيہ كي ولايت اس وقت تك بر قرار رہے گي جب تك دوبارہ حق ولايت استعمال كرتے ہوئے اس كي ولايت ختم نہ كر ديا جائے ۔مندرجہ بالا اشكال اور اس كا جواب ولايت كے متعلق امام زمانہ عليہ السلام كي روايت كے علاوہ باقي تمام روايات ميں ممكن ہے۔
دوسرا اشكال
يہ كہا جائے كہ لفظ ”الحكم”نص كے زمانے ميں اكثر وبيشتر قضاوت (فيصلہ) كے معني ميں استعمال ہوتا تھا اگر يہ دعويٰ (لفظ حكم كا فيصلہ كے معني ميں استعمال ہونا) ثابت ہو جائے تو اس ولايت كا اطلاق منعقد نہيں ہو سكے گا يعني يہ روايت باب قضاء كے علاوہ باقي ابواب كو شامل نہيں ہو سكے گي بلكہ باب قضاوت كے ساتھ مخصوص ہو جائے گى، جن روايات ميں ”جعلتہ قاضيا”ميں نے اسے قاضي ّفيصلہ كرنے والا قرار ديا ہے كي تعبير موجود ہے ان روايات كا مطلق نہ ہونا (قضاوت كے علاوہ باقي ابواب كو شامل نہ ہونا) اس روايت كي نسبت زيادہ واضح و روشن ہے، جيسے يہ روايت:
رواه الشيخ باسناده عن محمد بن علي بن محبوب عن احمد بن محمد عن الحسين بن سعيد عن ابي الجهم عن ابي خديجه قال: بعثني ابو عبد الله عليه السلام الي اصحابنا فقال: قل لهم: كيا كم اذا وقعت بنيكم خصومة او تدارى في شيء من الاخذ والعطاء ان تحاكموا الي احد من هولاء الفساق، اجعلوا بينكم رجلاً قد عرف حلالنا وحرامنا فاني قد جعلته عليكم قاضيا اياكم ان تخاصم بعضكم بعضا الي السلطان الجائر
“۔
شيخ (طوسي عليہ الرحمۃ) نے اپني سند كے ذرىعے محمد بن علي محبوب سے انھوں نے احمد بن محمد سے انھوں نے حسين بن سعيد سے انھوں نے ابو الجہم سے انھوں نے ابو خديجہ
سے نقل كيا ہے ۔ابو خديجہ كہتے ہيں: مجھے امام صادق عليہ السلام نے ہمارى شيعہ اصحاب كي طرف بھيجا اور فرمايا: انھيں كہو: خبردار!اگر تمہارى درميان كوئي نزاع يا اختلاف وغيرہ پيدا ہو جائے يا لين دين كے حوالے سے كوئي مشكل پيش آجائے تو ان فاسق و فاجر (حكمرانوں) ميں سے كسي كے پاس اپني شكايت لے كر نہ جانا (تاكہ وہ تمہارا فيصلہ كرے) بلكہ اپنے درميان ميں سے كسي ايسے شخص كو منتخب كرو جو ہمارى حلال وحرام (احكام) كي معرفت ركھتا ہو۔ ميں نے ايسے شخص كو تمہارى لئے قاضي قرار ديا ہے ۔خبردار! ظالم وجابر حكمران كے پاس شكايت مت لے جانا ۔
سلسلہ سند ميں ابو الجہم ہے جو دو افراد ميں مشترك ہے يعني ابو الجہم دو افراد كي كنيت ہے، ممكن ہے اس سے مراد ثوير ابن ابي فاختہ ہو، اور يہ بھي معلوم نہيں كہ جس ابوالجہم سے ابن ابي عمير نے روايت نقل كي ہے وہ وہي ابو الجہم ہو جو اس روايت كا راوي ہے ۔لہٰذا يہ نہيں كہا جاسكتا كيونكہ ابن عمير
نے ابوالجہم سے روايت نقل كي ہے پس ابوالجہم ثقہ اورقابل اعتمادہے (كيونكہ جس ابوالجہم سےابن ابي عمير نےروايت نقل كي ہےممكن ہےدوسرا ابو الجہم ہو) شايد اس روايت كا راوي وہ ابو الجہم ہو جس كا نام ثوير ابن ابي فاختہ ہے، اورجس ابوالجہم سے ابن ابي عمير نے روايت نقل كيا ہے وہ بكير ابن اعين ہے۔اور اس مطلب كے لئے اس روايت كو تائيد كے طور پر لايا جا سكتا ہےجسے ابن ابي عمير نے بكير ابن اعين سے نقل كيا ہے۔
"رواه الصدوق باسناده عن احمد بن عائذ عن ابي خديجه سالم بن مكرم الجمال قال: قال ابو عبدالله جعفر بن محمد الصادق عليه السلام: اياكم ان يحاكم بعضكم بعضا الي اهل الجور ولكن انظروا الي رجل منكم يعلم شيئا من قضايانا فاجعلوه بينكم فاني قد جعلته قاضيا فتحاكموا اليه
"۔
شيخ صدوق عليہ الرحمۃ نےاپنےسلسلہ سندكےذرىعےاحمد بن عائذسےانھوں نےابو خديجہ سالم بن مكرم جمال سے نقل كيا ہے ابو خديجہ كہتے ہيں امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا: خبردار!تم ميں سے كوئي شخص (اختلاف و نزاع كي صورت ميں) اپني شكايت (كسي) ظالم وجابر (حكمران) كے پاس (فيصلے كي غرض سے) نہ لے جاؤ، بلكہ غور غوض كرو اور تم ميں سے جو شخص ہمارى تعليمات (احكام ومعارف) كا علم ركھتا ہو اسے فيصلہ كرنے كے لئے منتخب كرو ميں نے اسے قاضي قرار ديا ہے پس اس كے پاس فيصلے كے لئے رجوع كرو ۔
شيخ كليني عليہ الرحمۃ نے حسين بن محمد سے انھوں نے معلي بن محمد سے انھوں نے حسن بن علي سے انھوں نے ابو خديجہ سے يہي روايت فقط اس فرق كے ساتھ نقل كي ہے كہ لفظ” قضايانا”كي بجائے لفظ ”قضائنا”نقل كي ہے ۔
شيخ طوسي عليہ الرحمۃ نے اپنے سلسلہ سند كے ذرىعے حسين بن محمد سے اسي طرح كي روايت نقل كي ہے۔
اگرابو خديجہ كي وثاقت ثابت ہو جائے تو پہلي سند كامل و بے عيب ہے، جس طرح مذكورہ روايت ميں بھي لفظ "حكم" كو قضاوت و فيصلہ كے معنيٰ پر حمل كيا جا سكتا ہے اسي طرح درج ذيل روايت ميں بھي لفظ "حكومت" كا معني قضاوت ہے۔
رويٰ الكليني عليه الرحمة عن عدة من اصحابنا عن سهل بن زياد عن محمد بن عيسيٰ عن ابي عبدالله المؤمن عن ابن مسكان عن سليمان بن خالد عن ابي عبدالله عليه السلام قال: اتقوا الحكومة فان الحكومة انما هي للامام العالم بالقضاء العادل في المسلمين لنبي (كنبي خ ل) او وصي نبي
۔
شيخ كليني عليہ الرحمۃ نے اصحاب اماميہ كي ايك جماعت سے انھوں نے سہل بن زياد سے انھوں نے محمد بن عيسيٰ سے انھوں نے ابو عبداللہ مومن سے انھوں نے مسكان سے انھوں نے سليمان بن خالد سے اور انھوں نے امام صادق عليہ السلام سے نقل كيا ہے كہ آپنے
فرمايا: حكومت سے پر ہيز كرو كيونكہ يہ منصب، قضاوت كے امور كے عالم اور مسلمانوں ميں عدل وانصاف كرنے والے امام كے لئے مخصوص ہے (يہ منصب) نبي يا نبي كے وصي كے لئے ہے يا روايت كے دوسرى نسخہ كے مطابق جيسے نبي يا نبي كا جانشين “يہي روايت شيخ صدوق نے اپنے سلسلہ سندكے ذرىعے سليمان بن خالد سے نقل كي ہے۔
اور شيخ طوسى عليہ الرحمۃ نے اپني سند كے ذرىعے سہل بن زياد سے اسي روايت سے مشابہ روايت نقل كي ہے۔
اور شيخ صدوق كي سند صحيح ہے۔
روايت ميں لفظ حكومت استعمال ہوئي ہے (اگر چہ ہم يہ نہ كہيں كہ روايت كے زمانے ميں لفظ حكومت عام ولايت كے معني ميں نہيں بلكہ قضاوت كے معني ميں استعمال ہوتا تھا) ليكن پھر بھي امام عليہ السلام كا قول”لاامام العالم بالقضاء
”قرىنہ ہے كہ لفظ حكومت سے امام عليہ السلام كي مرادقضاوت ہے، اس حديث ميں امامت كو حكومت كے استحقاق و شائستگي كا موضوع قرار ديا گيا ہے جب كہ معلوم نہيں كہ ہر فقيہ امامت كا مصداق ہو (تاكہ فقيہ كي نسبت حكومت كا موضوع متحقق ہو سكے) بلكہ اگر امامت سے مراد وہ اصطلاحي امامت ہو جس كے شيعہ معتقد ہيں (چنانچہ اس كي تائيد حديث كے دوسرى نسخہ سے ہوتي ہے جس ميں ”لنبي اووصي نبى" كي تعبير موجود ہے تو اس صورت ميں واضح ہے كہ فقيہ امامت كے اس معني كے مطابق امامت كا مصداق نہيں ہے ۔
اور اگر امامت سے مراد ولايت ہو تو يہ خود قرىنہ ہے كہ حديث ميں لفظ حكومت كا معني ولايت نہيں بلكہ قضاوت ہے، حديث ميں يہ بات ذكر نہيں كوئي كہ يہ ولايت كس كو حاصل ہے، يعني ولايت كا مصداق روايت ميں ذكر نہيں ہوا۔بعض اوقات كہا جاتا ہے: اگرمان ليا جائے كہ روايت ميں امامت سے مراد ولايت ہے تو يہ حديث دلالت كرتي ہے كہ منصب قضاوت فقط اس شخص كو حاصل ہے جسے منصب ولايت حاصل ہو، اور ہم روايات سے ثابت كر چكے ہيں كہ فقيہ كو منصب قضاوت حاصل ہے، پس فقيہ كو منصب ولايت حاصل ہے ۔
ليكن روايت سے يہ نتيجہ اخذكرنا بھي صحيح نہيں ہے كيونكہ فقيہ كو منصب قضاوت عطا كرنے والي دليليں (روايات) فقط اس معني پر دلالت كرتي ہيں كہ امام عليہ السلام نے اپناحق ولايت استعمال كرتے ہوئے فقيہ كو قاضي بناياہے يااپني نيابت ميں اسےقاضي بناياہے يعني فقيہ كو خود سے (امام عليہ السلام كےعطا كئے بغير) قضاوت كرنےكاحق حاصل نہيں ہے، يہ احتمال بھي ممكن ہے كہ روايت ميں امام عليہ السلام كاقول”فان الحكومة انما هي للاامام
”اسلام كے بنيادي قانون كو بيان كر رہا ہو يعني امام عليہ السلام بيان فرمارہے ہيں كہ اسلام ميں كس شخص كو قضاوت كا منصب حاصل ہے۔امام عليہ السلام يہ بيان نہيں فرمارہےكہ اسلام ميں جس شخص كوقضاوت كامنصب حاصل ہے (يعني امام عليہ السلام) اس كي طرف سےفقيہ كوقضاوت كامنصب عطاہوا ہے۔
چوتھا ضميمہ
يہ امر اسحاق بن يعقوب كے قابل اعتماد ہونے كي تائيد كا سبب ہے كہ صاحب كتاب ”قاموس الرجال “
نے يہ دعويٰ كيا ہے كہ اسحاق بن يعقوب، محمد بن يعقوب كليني عليہ الرحمۃ كے بھائي اوردليل كے طور پر وہ كلام ذكر كي ہے جو كتاب ”اكمال الدين"ميں امام عليہ السلام كي توقيع كے ذيل ميں نقل ہوئي ہے يعني ”والسلا م عليك يا اسحاق بن يعقوب الكليني “۔
مؤلف: ليكن ميں نے”اكمال الدين"مطبوعہ تہران كے نسخہ ميں لفظ ”كليني “موجود نہيں پايا بلكہ اس كتاب ميں فقط يہ عبارت نقل ہوئي ہے ”والسلام عليك يا اسحاق بن يعقوب وعليٰ من اتبع الهديٰ
"۔
آقاي خوئي عليہ الرحمۃ نے بھي اپني كتاب ”معجم الرجال الحديث “
ميں اسحاق بن يعقوب كے لئے كليني كي صفت نہيں لائي جب كہ كتاب ”اكمال الدين “ بھي ان كے مدنظرتھى، (يعني اگر ا كمال الدين ميں اسحاق بن يعقوب كے لئے كليني كي صفت موجود ہوتي توآقاي خوئي عليہ الرحمۃ بھي اپني كتاب ميں لاتے)
اسحاق بن يعقوب كي وثاقت پر يہ دليل لائي جاتي ہے كہ شيخ طوسى عليہ الرحمۃ نے كتاب ”الغيبۃ" ميں شہادت دي ہے كہ غيبت صغرىٰ كے زمانے ميں توقيعات فقط قابل اعتماد افراد كے لئے صادر ہوتي تھيں شيخ طوسى عليہ الرحمۃ كي شہادت كے سبب اصل توقيع ميں جھوٹ وجعل سازي كا احتمال نہيں ديا جا سكتا۔شيخ طوسي عليہ الرحمۃ كي اس شہادت كا مطلب يہ ہے كہ اس زمانے ميں توقيع كے لئے خاص تقدس و احترام تھا، اپني طرف توقيع كي جھوٹي نسبت دينے كو امام عليہ السلام كي طرف جھوٹي نسبت دينے سے بھي زيادہ قبيح و ناپسنديدہ سمجھا جاتا تھا، پس اسحاق بن يعقوب كا معاملہ دوحالتوں ميں دائر ہے۔
۱) يا خباثت كے بلند مرتبہ پر فائز ہے (اگر اس نے اپني طرف توقيع كي غلط نسبت دي ہو) ۔
۲) ثقہ اور قابل اعتماد ہے (كيونكہ توقيع فقط ثقہ اور قابل اعتماد افرادكے لئے صادر ہوئي تھي)
يہ احتمال نہيں ديا جا سكتا كہ اسحاق بن يعقوب ايك عام انسان تھايعني نہ ہي ثقہ تھا اور نہ ہي بہت زيادہ خبيث، بہت بعيد ہے كہ شيخ كليني اس كي حقيقت سے غافل رہے ہوں اور اس كي حالت و كيفيت كو صحيح طرىقہ سے نہ سمجھ سكے ہوں۔
بہت بعيد ہے كہ جس شخص كا حال دو متضاد صفتوں ميں دائر ہے (ياثقہ ہے ياخبيث) شيخ كليني اس كي حالت كوصحيح طرح سےنہ سمجھ سكے ہوں يعني غافل رہےہوں۔يہ بھي بعيدہے كہ اگر چہ يہ شخص بہت زيادہ خبيث تھاليكن اس كي باوجود شيخ كليني اس بات كيطرف متوجہ نہ تھے۔
اگر ثابت ہو جائے كہ اسحاق بن يعقوب كے نام امام عليہ السلام كي طرف سے توقيع صادرہوئي ہے تو اس كي وثاقت ثابت ہوجائے گي كيونكہ (شيخ طوسي عليہ الرحمۃ كي شہادت كے مطابق) توقيع فقط ثقہ اور قابل اعتماد افراد كے نام صادر ہوتي تھى، اور جب اسحاق بن يعقوب كي وثاقت ثابت ہو جائے گي تو توقيع كي جزئيات و خصوصيات ميں جھوٹ كے احتمال كي بھي نفي ہو جائے گي۔
مندرجہ بالا بيان درست نہيں ہے، لہٰذا اس بيان كي مدد سے اسحاق بن يعقوب كي وثاقت ثابت نہيں كي جا سكتي۔
وضاحت
ميں نے كتاب "الغيبۃ" ميں كوئي ايسي عبارت نہيں ديكھي جس سے يہ گمان كيا جا سكے كہ اس سے اسحاق بن يعقوب كي وثاقت ثابت ہو سكتي ہومگر شيخ طوسى عليہ الرحمۃ كي يہ عبارت "وقد كان في زمان السفراء المحمودين اقوام ثقات ترد عليهم التوقيعات من قبل المنصوبين للسفارة من الاصل"
تحقيق محترم سفيروں (امام زمانہ كے چار خاص نمايندوں) كے زمانے (غيبت صغرىٰ) ميں كچھ ثقہ و قابل اعتماد افراد موجود تھے جن كو امام زمانہ عليہ السلام كے نمايندوں كے ذرىعے امام زمانہ عليہ السلام كي طرف صادر ہونے والي توقيعات موصول ہوتي تھي“
اگرچہ ابتدائي طور پر اس كلام سے يہ معنيٰ ذہن ميں آتا ہے كہ ان افراد كو امام زمانہ عليہ السلام كي طرف سے توقيعات موصول ہوتي تھيں ليكن اگر شيخ طوسى عليہ الرحمۃ كي مكمل عبارت كا ملاحظہ كرىں تو يہ عبارت واضح طورپر اس معني پر دلالت نہيں كرتي يعني واضح طور پر يہ معني نہيں سمجھا جا سكتا كہ ان افراد كو توقيعات موصول ہوا كرتي تھيں بلكہ شيخ طوسى عليہ الرحمۃ كي عبارت سےيہ مفہوم سمجھا جاتا ہےكہ ان افراد كو (يا ان كے علاوہ دوسرى لوگوں كو) امام زمانہ عليہ السلام كي طرف سے ايسي توقيعات موصول ہوتي تھيں جن ميں ان افراد كي شان و شوكت اور وثاقت بيان كي جاتي تھي كيونكہ شيخ طوسى عليہ الرحمۃ نے مذكورہ بالا عبارت كے بعد مصاديق كو ذكر فرمايا ہے ”ان (قابل اعتماد) افراد ميں سے فلاں فلاں ہيں"۔پس شيخ طوسى عليہ الرحمۃ كي عبارت دوسرى معني پر دلالت كرتي ہے پہلے معني پر نہيں، يعني ان افراد كي شان ميں توقيعات خود ان افراد كو نہيں بلكہ دوسرى لوگوں كو موصول ہوئي ہيں۔
ہم شيخ طوسى عليہ الرحمۃ كي مكمل عبارت نقل كر رہے ہيں تاكہ آپ خود ملاحظہ فرما سكيں: ”قال عليه الرحمة: وقد كان في زمان السفراء المحمودين اقوام ثقات ترد عليهم التوقيعات من قبل المنصوبين للسفارة من الاصل، منهم ابوالحسين محمدبن جعفرالاسدي رحمة الله، اخبرناابو الحسين ابن ابي جنيد القمي عن محمد بن الوليد عن محمد بن يحي العطار عن محمد بن احمد بن يحي عن صالح بن ابي صالح قال: سالني بعض الناس في سنة تسعين ومائتين قبض شيء فامتنعت من ذلك وكتبت استطلع الراي فاتاني الجواب بالرى محمد بن جعفر الاسدي فليدفع اليه فانه من ثقاتنا
۔
تحقيق محترم سفيروں (امام زمانہ كے چار خاص نمايندوں) كے زمانے (غيبت صغرىٰ) ميں كچھ ثقہ و قابل اعتماد افراد موجود تھے جن كي شان ميں امام زمانہ عليہ السلام كے نمايندوں كے ذرىعے امام زمانہ عليہ السلام كي طرف سے توقيعات موصول ہوتي تھيں، ان افراد ميں سے ايك ابو حسين محمد بن جعفر اسدي ہيں ہمارى لئے ابو حسين ابن ابي جنيد قمي نے محمد بن وليد سے انھوں نے محمد بن يحي عطار سے انھوں نے محمد بن احمد بن يحي سے اور انھوں نے صالح بن ابي صالح سے نقل كيا ہے صالح كا كہنا ہے: كچھ لوگوں نے ۲۹ ۰ ئ ھ ميں مجھ سے تقاضا كيا كہ ميں مال (شرعي وجوہات، خمس زكوۃ وغيرہ) وصول كروں ليكن ميں نے اس كام سے انكار كر ديا اور ميں نے خط كے ذرىعے امام زمانہ عليہ السلام كي راي درىافت كي (كہ شرعي وجوہات كس كو دي جائيں) ۔
مجھے امام كي طرف سے جواب موصول ہوا: "رى"
ميں محمدبن جعفراسدي رہتا ہے يہ مال اسے ديا جائے كيونكہ وہ ہمارى قابل اعتماد افراد ميں سے ہے۔
"وروي محمد بن يعقوب الكليني عليه الرحمة عن احمد بن يوسف الساسي قال: قال لي محمد بن حسن الكاتب المروزى: وجهت الي حاجز الوشاءمائتي دينا وكتبت الي الغرىم بذلك فخرج الوصول وذكرانه كان قبلي الف دينا واتي وجهت اليهماتي دينارو قال: ان اردت ان تعامل احداً فعليك بابي الحسين الاسدي بالرى فورد الخبر بوفاة حاجز رضي الله عنه بعد يومين او ثلاثة فاعلمته بموته فاغتم، فقلت: لا تغتم، فانك في التوقيع دلالتين احداهما، علامه كياك ان المال الف دينا والثانية امره كياك بمعاملة ابي الحسين الاسدي لعلمه بموت حاجز"
محمد بن يعقوب كليني نے احمد بن يوسف ساسي سے نقل كيا ہے ساسي كہتا ہے مجھے حسن بن كاتب مروزي
نے كہا ميں نے حاجز وشاء كو دو سو دينار بھيجے اور امام زمانہ عليہ السلام كو خط لكھ كر اس كي اطلاع دي (كچھ دنوں بعد) ميرى پاس امام عليہ السلام كي طرف سے ان الفاظ پر مشتمل رسيد پہنچى، تمہارى ذمہ ايك ہزار دينار تھے ميں جن ميں سے تم نے دوسو دينار ادا كر ديئے ہيں اگر كسي كو وجوہات شرعي دينا چاہوتو ابو الحسين اسدي كو دياكرو جو شہر ”رى “ميں رہتا ہے ۔ (ساسي كہتا ہے) مجھے دو يا تين دن بعد حاجز كي وفات كي خبر موصول ہوئي ميں نے محمدبن حسن كاتب كو حاجز كي وفات كي خبر سنائي تو وہ غمگين ہوگئے، ميں نے كہا: مغموم و پرىشان ہونے كي ضرورت نہيں كيونكہ امام عليہ السلام كي طرف سے تمہارى لئے صادر ہونے والي توقيع تمہارى لئے دو باتوں پر دلالت كرتي ہے، ايك يہ كہ امام عليہ السلام نے تمہيں خبر دي ہے كہ مال كي مقدار ايك ہزار دينار ہے، دوسرا يہ كہ كيونكہ امام عليہ السلام كو معلوم تھا كہ حاجز فوت ہو جائے گا لہٰذا امام عليہ السلام نے تمہيں حكم ديا ہے كہ آئندہ ابو الحسين اسدي سے لين دين كرنا (شرعي وجوہات اس كے پاس جمع كرانا)
"وبهذا الاسناد عن ابي جعفر محمد بن علي بن نوبخت قال: عزمت علي الحج فتاهبت فورد على: نحن لذلك كارهونفضاق صدرى واغتمت وكتبت: انا مقيم بالسمع و الطاعة، غير اني مغتم بتخلفي عن الحج فوقع: لا يضيقن صدرك انك تحج من قابل فلما كان من قابل استاذنت، فورد الجواب فكتبت: اني عادلت محمد بن العباس وانا واثق بديانته و صيانته، فورد الجواب: الاسدي نعم العديل، فان قدم فلا تختر عليه قال: فقدم الاسدي فعادلته “
۔
اسي سندكے ذرىعے ابو جعفر محمد بن علي بن نوبخت سے نقل ہوا ہے كہ انھوں نے كہا: ميں نے حج كاارادہ كيا اور سفر حج كے لئے تيار تھا كہ اسي اثناء ميں امام زمانہ عليہ السلام كا خط موصول ہوا جس ميں آپنے لكھا تھا: ہميں يہ ناپسند ہے ۰ يعني ہم (بعض وجوہات كي بنياد پر) اس سال تمہارا حج پر جانا پسند نہيں كرتے يہ خط پڑھ كر ميرا سينہ بوجھل ہو گيا ميں مغموم ہو گياميں نے امام عليہ السلام كي خدمت خط لكھا: ميں آپكے حكم كي مكمل اطاعت كرتا ہوں ليكن حج پر نہ جانے كي وجہ سے مغموم و پرىشان ہوں، امام عليہ السلام كي طرف سے توقيع ّخط) صادر ہوئى: پرىشان ہونے كي ضرورت نہيں تم آئندہ سال حج كروگے، اگلے سال ميں نے خط كے ذرىعہ امام سے حج پر جانے كي اجازت طلب كي امام عليہ السلام كي طرف سے (مثبت) جواب موصول ہوا۔ميں نے خط لكھ كر امام عليہ السلام كو اطلاع دي كہ ميں نے (اپنے امور ميں) محمد بن عباس كو اپنا جانشين بنايا ہے كيونكہ مجھے اعتماد ہے كہ محمد بن عباس ديندار اور باتقويٰ شخص ہے امام عليہ السلام كي طرف سے جواب موصول ہوا: اسدي اچھا جانشين ہے ۔اگر اسدي واپس آجائے تو (اس كي موجودگي ميں) كسي اور كو جانشين نہ بنانا۔ابو جعفر كہتا ہے: اسدي واپس آگيا اور ميں نے اسي كو اپنا جانشين بنايا۔"محمد بن يعقوب عن علي بن محمد عن محمد بن شاذان النيشاپورى قال: اجتمعت عندي خسماة درهم ينقص عشرون درهمافلم احب ان ينقص هذا المقدار، فوزنت من عندي عشرىن درهما و دفعتها الي الاسدي ولم اكتب بخبر نقصانها واني اتممتها من مالى، فورد الجواب: قد وصلت الخمساة التي لك فيها عشرون، ومات الاسدي علي ظاهر العدالة، لم يتغير ولم يطعن عليه في شهر ربيع الآخر سنة اثنتي عشرة وثلاثمائه"
محمد بن يعقوب نے علي بن محمد سے انھوں نے محمد بن شاذان نيشاپورى سے نقل كيا ہے كہ نيشابورى نے كہا: ميرى پاس چار سو اسي درہم ۴۸ ۰ جمع ہوگئے، مجھے پسند نہ تھا كہ پانچ سو سے بيس درہم كم ہوں لہٰذا ميں نے اپني طرف سے تيس درہم ملاكر (پانچ سو درہم مكمل كركے) اسدي كے حوالے كر ديئے ليكن يہ نہ بتايا كہ اصل رقم چار سو اسي ۴۸ ۰ دينار تھى، امام عليہ السلام سے خط موصول ہوا: ہم نے وہ پانچ سو درہم موصول كر لئے جن ميں سے بيس درہم آپكے ذاتي ہيں۔اسدي ۳۱۲ھء ميں ربيع الثاني ميں فوت ہوا اور مرتے دم تك عادل تھا ۔اس كي عدالت كي صفت برقرار رہي اور اس كي عدالت ميں كسي قسم كا خدشہ وارد نہ ہوا ۔
"ومنهم: احمد بن بن اسحاق و جماعة وخرج التوقيع في مدحهم
"۔
ان مورد اعتماد افراد ميں سے ايك احمد بن اسحاق ہے اور اس كے علاوہ كچھ اور لوگ ہيں جن كي مدح و ستائش ميں امام عليہ السلام كي طرف سے توقيع صادر ہوئي ہے۔
"ورويٰ احمد بن ادرىس عن احمد بن محمد بن عيسيٰ عن ابي محمد الرازي قال: كنت و احمد بن ابي عبد اللہ بالعسكر فورد علينا رسول من قبل الرجل فقال: احمد بن اسحاق الاشعرى وابراھيم بن محمد الھمداني واحمد بن حمزہ ابن اليسع ثقات"۔
احمد بن ادرىس نے احمد بن محمد بن عيسيٰ سے انھوں نے ابو محمد رازي سے نقل كيا ہے ابو محمد رازي كہتے ہيں: ميں اور احمد بن ابو عبداللہ عسكر (فوجي چھاؤني) ميں تھے كہ مرو
كي طرف سے ہمارى پاس قاصدآيا اور كہا: احمد بن اسحاق اشعرى، ابراھيم بن محمد ھمداني اور احمد بن حمزہ بن يسع قابل اعتماد اور ثقہ افرادہيں۔
يہ تھي شيخ طوسى عليہ الرحمۃ كي مكمل عبارت آپنے ملاحظہ فرمايا كہ يہ عبارت اسي معني پر دلالت كرتي ہے جس كاہم نے دعويٰ كيا ہے يعني ان افراد كي شان ميں توقيعات صادر ہوئي ہيں نہ يہ كہ خود ان افراد كو توقيعات موصول ہوئي ہيں۔پس شيخ طوسى عليہ الرحمۃ كي عبارت اس معني پر دلالت نہيں كرتي كہ توقيع فقط ثقہ اور قابل اعتماد افراد ہي كے لئے صادر ہوتي تھيں يعني ان ہي كو موصول ہوتي تھيں۔
پانچواں ضميمہ
اس سلسلہ ميں تفصيلي تحقيق يہ ہے كہ روايت كے ذرىعہ فقيہ كے لئے ولايت مطلقہ ثابت كرنے كے لئے درج ذيل طرىقوں كے ذرىعے استدلال ممكن ہے۔
۱) امام عليہ السلام كے قول ”واماالحوادث الواقعه فارجعوا فيها الي راوة احاديثنا
، اور پيشانے والے حوادث وواقعات ميں ہمارى حديثوں كے راويوں سے رجوع كرو" كے اطلا ق سے تمسك كيا جائے، اور اس چيز كو مد نظر ركھا جائے كہ حوادث و واقعات كي در ج ذيل مختلف اقسام ہيں:
الف) ايسے واقعات جن ميں راويوں كي طرف رجوع كرنا در حقيقت روايات كي طرف رجوع كرنا ہے ۔بطور مثال فقيہ كر پيشانے والے نئے واقعات جن كا حكم درىافت كرنا فقيہ كے لئے ضرورى ہے، ان امور ميں فقيہ راويوں كي طرف رجوع كرتا ہے تاكہ ان كي روايت كے ذرىعے ان واقعات كا حكم معلوم كر سكے۔
ب) وہ واقعات جن ميں فتويٰ حاصل كرنے كي غرض سے راويوں كي طرف رجوع كيا جاتا ہے يہ اس صورت ميں ہے جب راوي فقيہ بھي ہواوراحكام كي معرفت ركھتا ہو ۔جيسے وہ واقعات جن ميں عام لوگ مبتلا ہو تے ہيں اوران كاحكم شرعي معلوم كرنا چاہتے ہيں اور خود روايات سے حكم شرعي استنباط كرنے كي قدرت و صلاحيت نہيں ركھتے۔
ج) وہ واقعات جن ميں راويوں كي طرف رجوع كيا جاتا ہے تاكہ اپنا و ہ وظيفہ معلوم كيا جاسكے جو ولايت كے ذرىعے معين ہوتا ہے ۔جيسے وہ افرادي و اجتماعي امور وواقعات جنھيں ولايت استعمال كئے بغير حل نہيں كيا جا سكتا۔
د) وہ واقعات جن ميں حكم شرعي كے نفاذ كي غرض سے راويوں كي طرف رجوع كيا جاتا ہے تاكہ وہ حكم شرعي نفاذ سے متعلق اپنا حق ولايت استعمال كر كے حكم شرعي كو نافذ كرىں۔
لفظ ”حوادث" كے اطلاق كا تقاضا يہ ہے كہ يہ لفظ ہر اس حادثہ (واقعہ) كو شامل ہے جس ميں دوسرى شخص كي طرف رجوع كرنا معقول ہو، خواہ يہ واقعہ ايسے حوادث و واقعات ميں سے ہو جن ميں راويوں كي طرف پہلے طرىقے كے مطابق رجوع كيا جاتا ہے يا يہ واقعہ ان واقعات ميں سے ہو جن ميں دوسرى طرىقے كے مطابق راويوں كي طرف رجوع كيا جاتا ہے۔يا يہ واقعہ ايسے واقعات ميں سے ہو جن ميں تيسرى طرىقے كے مطابق راويوں كي طرف رجوع كيا جاتا ہے پس موضوع ميں اطلاق جارى ہونے كا تقاضا ولايت مطلقہ ہے۔
اشكال: احتمال ديا جاسكتا ہے كہ ”الحوادث“ميں الف لام ”الف لام عہد ہو اور اس كے ذرىعے ان حوادث وواقعات كي طرف اشارہ كرنا مقصود ہو جنھيں سائل نے امام عليہ السلام كے نام لكھے گئے سوالات ميں ذكر كيا اور وہ سوالات ہم تك نہيں پہنچ پائے، پس اس اعتبار سے ہمارى لئے روايت مجمل ہو جائے گي۔
۲) امام عليہ السلام كے قول ”فانهم حجتي عليكم
"وہ تم پر ميرى (طرف سے) حجت ميں “ميں موجود لفظ”حجت" كے اطلاق سے تمسك كرتے ہوئے كہا جائے: لفظ حجت كے اطلا ق كے تقاضا يہ ہے كہ ائمہ اطہارعليھم السلام كي حديثوں كا راوي ان سب امور ميں حجت ہے جن امور ميں خود امام عليہ السلام حجت ہيں۔ اور اس كا مطلب (فقيہ كے لئے) ولايت مطلقہ كا اثبات ہے۔
اگر مندرجہ بالا بيان كي اسي مقدار پر اكتفاء كيا جائے تو اس پر يہ اعتراض وارد ہوتا ہے كہ عموم وشمول كا فائدہ دينے والا اطلاق محمول ميں جارى نہيں ہوتا۔اور ہمارى مورد بحث روايت ميں بھي لفظ”حجت" محمول ہے، لہٰذا اطلاق عموم و شمول كا فائدہ نہيں دے گا۔
ہاں اگر ہميں يقين ہو كہ مقام خطاب ميں قدر متيقن (يقني مقدار) موجود نہيں ہے اور امردو چيزوں ميں دائر ہے يعني يا اطلاق كو قبول كيا جائے يا كلام كے مہمل ہونے كو قبول كيا جائے تو اس صورت ميں عرف اطلاق سمجھتا ہے ليكن يہاں پر ہميں قدر متيقن كا يقين نہيں ہے، كيونكہ يہ توقيع اسحاق بن يعقوب كے سوالوں كے جواب ميں صادر ہوئي ہے (اور ہم اس كے سوال سےآگاہ و باخبر نہيں ہيں) جس كا جواب امام عليہ السلام نے اپنے قول”واماالحوادث الواقعه فارجعوا فيها الي رواة احاديثنا فانهم حجتي عليكم"
كے ذرىعے ديا ہے ۔ممكن ہے اس كا سوال اس نوعيت كا ہو جو مقام خطاب ميں جواب كے لئے قدر متيقن كو تشكيل ديتا ہے ۔مثلااس كا سوال مخصوص حوادث وواقعات سے متعلق تھا اورقدر متيقن يہ تھي كہ (فقہاء) انہي واقعات ميں حجت ہيں جن كے متعلق سوال ہوا ہے ۔اور ان واقعات ميں بھي فقہاء حجت ہيں جو واقعات مورد سوال واقعات سے مختلف نہ ہوں، اور ان ميں فرق كااحتمال نہ ديا جا سكے۔
۳) يہ كہاجائے كہ امام عليہ السلام كے قول ”فانھم حجتي عليكم“اور ”وانا حجۃ اللہ“ كے
درميان پائے جانے والے قرىنہ مقابلہ كي مدد سے”فانهم حجتي عليكم"
ميں پايا جانے والا اطلاق صحيح و كامل ہوكيونكہ يہ دوجملے ايك دوسرى كے مقابلہ ميں صادر ہوئے ہيں لہٰذا عرف ان كے تقابل سے يہ سمجھتا ہے كہ فقيہ ان تمام اور ميں امام عليہ السلام كي طرف سے حجت ہے جن امور ميں امام عليہ السلام خدا كي طرف سے حجت ہيں اس بيان كي مدد سے فقيہ كي ولايت مطلقہ ثابت ہو جائے گي۔
ممكن ہے يہ كہاجائے كہ اگر مراد يہ ہے كہ كيونكہ امام عليہ السلام نے "فانھم حجتي عليكم" كے بعد "وانا حجۃ اللہ" كہا ہے لہٰذا عرف يہ سمجھتا ہے كہ ان دوجملوں ميں تقابل پايا جاتا ہے اور يہ بيان كرنا مقصود ہے كہ جس طرح امام عليہ السلام خدا كي طرف سے حجت ہيں اسي طرح فقيہ امام عليہ السلام كي طرف سے حجت ہے ۔
اورفقيہہ ان تمام امور ميں حجت ہے جن امور ميں امام عليہ السلام حجت ہيں اس بيان پر درج ذيل اشكال كيا جا سكتا ہے:
اشكال: فہم عرفي كے مطابق يہاں پر ايك اور ہدف ومقصد بھي سمجھتا جاتا ہے اور وہ ھدف يہ ہے كہ امام اپنے قول ”واناحجۃ اللہ" كے ذرىعے راوي كو عطا كي گئي حجيت كي علت و فلسفہ بيان فرمارہے ہيں يعني امام عليہ السلام كہنا چاہتے ہيں كيونكہ ميں حجت خدا ہوں لہٰذا (ميرى طرف سے) فقيہ بھي حجت ہے، كيونكہ اگر امام عليہ السلام خود حجت نہ ہوں تو راوي كو كيسے حجيت عطا كر سكتے ہيں؟ اس صورت ميں فقيہ كو عطا كي جانے والے حجيت كي كيا قدر و قيمت ہوگي۔؟
گويا امام عليہ السلام يہ فرمارہے ہيں: ميں حجت خدا ہوں اور ميں اپني حجيت (كاحق) استعمال كر كے تمہارى لئے كسي كو حجت قرار دے سكتا ہوں پس ميں نے تمہارى لئے حديثوں كے روايوں كو حجت قرار ديا ہے۔
اور اگر مراد يہ ہو كہ اگر چہ امام عليہ السلام كا قول ”انا حجة الله
“يہي فائدہ بيان كرنے كے لئے ہے پھر بھي عرف اس مقدار سے تقابل سمجھتا ہے جسے ہم ذكركر چكے ہيں يعني فقيہ ان تمام امور ميں حجت ہے جن امور ميں امام حجت ہيں اس دعويٰ كو ثابت كرنے كي ذمہ دارى صاحب دعويٰ پر عائد ہو تي ہے، ميں نہيں سمجھتا كہ عرف يہاں سے يہ مفہوم سمجھتا ہو (جس كا دعويٰ كيا گيا ہے) اگر ايك شخص كسي سے سوال كرے كہ ميں كس سے زيد كا گھر خرىدوں؟ اور وہ اسے جواب ميں كہے: زيد كا گھر عمرو سے خرىدو كيونكہ ميں زيد كا وكيل ہوں اور عمروميرا وكيل ہے (پس عمرو زيد كا وكيل ہے) يہاں پر عرف يہ نہيں سمجھتا كہ عمرو ان تمام امور ميں اس شخص كا وكيل ہے جن امور ميں وہ شخص زيد كا وكيل ہے، بلكہ يہاں پر اس كلام كي قدر متقين (يعني مقدار) يہ ہے كہ عمرو فقط زيد كا گھر (جو كہ زيد كي ملكيت ہے) فروخت كرنے ميں اس شخص كا وكيل ہے ۔اس كي وكالت كا جوازيہ ہے كہ كيونكہ وہ شخص زيد كا وكيل ہے لہٰذا عمرو كو وكيل بنانے كا حق ركھتا ہے لہٰذا عمرو كي وكالت نافذ اور قابل عمل ہوگي عرفي طورپر اس كلام سے اطلاق نہيں سمجھا جاتا۔
۴) يہ كہاجائے: اگر چہ محمول ميں فقط مقدمات حكمت كے ذرىعے اس معني ميں اطلاق جارى نہيں ہوتا ليكن كيونكہ خود محمول اطلاق كي صلاحيت ركھتا ہے لہٰذا جہاں پر مناسبات و قرائن اطلاق كا تقاضا كرىں وہاں پر اطلاق صحيح ہوگا، اور جہاں پر اس قسم كي مناسبات موجود نہ ہوں وہاں پر اطلاق كامل نہيں ہوگا، مثلاًايك دفعہ عام حالات ميں زيد كہتا ہے عمرو سے ميرا گھر خرىدو كيونكہ وہ ميرا وكيل ہے اس كلام سے اطلاق نہيں سمجھاجاتايعني يہ نہيں سمجھا جاتا كہ عمرو تماممالي امور ميں زيد كاوكيل ہے، اس كلام سے جو مقدار يقيني طور پر سمجھي جاتي ہے وہ يہ ہے كہ گھر فروخت كرنے ميں عمرو، زيد كا وكيل ہے۔
ليكن اگر فرض كياجائے كہ زيد سفر پر جانا چاہتا ہے اور پچاس سال تك اپنے اموال سے غائب (دور) ہونا چاہتا ہے تو اس صورت ميں عام طو ر پرزيد كو ايسے وكيل كي ضرورت ہے جو تماممالي امور ميں اس كا وكيل ہو، اب فرض كرىں زيد سے كوئي سوال كرتا ہے: تمہارا گھر كس سے خرىدوں؟ زيد جواب ديتا ہے: عمرو سے ميرا گھر خرىدو كيونكہ وہ ميرا وكيل ہے يہاں پر عرف زيد كے كلام سے اطلاق سمجھتا ہے، اور ہمارا مورد بحث مسئلہ بھي اسي نوعيت كا ہے، كيونكہ امام عليہ السلام غائب ہيں اور ممكن ہے ان كي غيبت كي مدت بہت زيادہ طولاني ہو جس كا علم فقط اللہ تعاليٰ كے پاس ہے فطرى طور پر يہ فرض معقول ہے كہ امام عليہ السلام ايسي
حجت قرار دينے كي ضرورت ہے جو ان تمام امور ميں حجت ہو جن امور ميں خوادامام عليہ السلام حجت ہيں اور امت محتاج ہے كہ ان تمام امور ميں حجت (فقيہ) كي طرف رجوع كرے ۔جب اس فضاء اور ماحول ميں معين حوادث و واقعات كے بارى ميں سوال كيا جائے اور امام جواب ميں فرمائيں: ”ارجعوا فيها الي رواة احاديثنا
" ان واقعات ميں ہمارى روايت نقل كرنے والوں كي طرف رجوع كرو كيونكہ ميں حجت خدا ہو ں اور وہ ميرى طرف سے تم لوگوں پر حجت ہيں” (يعني فقيہ كو مطلقاً حجت قرار ديا گيا ہے)
يہاں پر عرف بطور مطلق حجيت كو سمجھتا ہے، اور فقيہ كا امام عليہ السلام كي طرف سے حجت ہونے كا مطلب يہ ہے كہ فيقہ ان تمام امور ميں امام عليہ السلام كي طرف سے منصوب ہے جن امور ميں اس كي طرف رجوع كيا جائے گا۔
چھٹا ضميمہ
يہاں پر تين امور ہيں اور اس روايت كے ذرىعے ان ميں سے بعض امور كو يا تمام امور كو ثابت كيا جاسكتا ہے:
۱) ثقہ (قابل اعتماد) راوي كي روايت حجت ہے۔
۲) ثقہ (قابل اعتماد) فقيہ كا فتويٰ حجت ہے۔
۳) ثقہ (قابل اعتماد) فقيہ كو ولايت حاصل ہے اور اس كا حكم نافذ اور لازم الاجراء ہے۔
فقيہ كا حكم دو قسم كا ہوتاہے:
۱) حكم كاشف۔
۳) حكم ولايتي ۔
۱) وہ حكم جو حكم كےماوراء واقعيت كو كشف كرتا ہے ۔جيسے رؤيت ہلال كا حكم، يا طرفين نزاع ميں سے كسي ايك طرف كے حق ميں فيصلہ دينا يہاں پر جديد حكم ايجاد كرنا مقصود نہيں ہوتابلكہ ايك حقيقت كو كشف كرنا مقصود ہوتا ہے جو حقيقت اس حكم كے پس پردہ موجود ہوتي ہے۔
۲) وہ حكم جس ميں حق ولايت استعمال كرتے ہوئے ايك جديد حكم كي تاسيس كي جاتي ہے جيسے فقيہ ايك معين لائحہ عمل اپنانے كاحكم دے ليكن نہ اس بنياد پر كہ ان حالات ميں بہترىن لائحہ عمل يہي ہے بلكہ اس بنياد پر فقيہ ايك معين موقف اپنانے كا حكم ديتا ہے كيونكہ فقيہ معتقد ہے كہ قومي يكجہتى، وحدت كلمہ اور مسلمانوں كي صفوں ميں استحكام پيدا كرنے كي غرض سے معاشرى كے لئے ضرورى ہے كہ ايك مشخص ومعين سماجي لائحہ عمل اپنايا جائے ۔
ہم پہلي قسم كے حكم كے لئے حكم كاشف كي اصطلاح جب كہ دوسرى قسم كے حكم كے لئے ولايت حكم كي اصطلاح استعمال كرىں گے۔كوئي اشكال نہيں كہ يہ روايت قابل اعتماد راوي كي روايت كي حجيت پر دلالت كرتي ہے، بلكہ اس حديث سے يقيني طور پر جو مقدار سمجھي جاسكتي ہے وہ يہي ہے كہ قابل اعتماد راوي كي روايت حجت ہے۔
اور امام عليہ السلام كے درج ذيل اقوال سے واضح طورپر يہي مقدار سمجھي جاتي ہے امام عليہ السلام نے فرمايا:"العمرى ثقتى، فما اديٰ اليك عني فعني يؤدي وماقال لك عني فعني يقول" اسي طرح يه بهي فرمايا: "العمرى وابنه ثقتان فما اديا اليكم عني فعني يؤديان وما قالالك عني فعني يقولان"
"عمرى ہمارا قابل اعتماد ہے، وہ جو كچھ تمہارى لئے ہمارى حوالے سے نقل كرتا ہے درحقيقت ہمارى ہي طرف سے نقل كرتا ہے اور جو كچھ ہمارى طرف سے تمہيں كہتا ہے در حقيقت ہمارى ہي طرف سے كہتا ہے”حضرت نے يہ بھي فرمايا: ”عمرى اور اس كا بيٹا ہمارى قابل اعتماد افراد ہيں، وہ دونوں جو كچھ ہمارى طرف سےآپكے لئے نقل كرىں وہ درحقيقت ہمارى ہي طرف سے نقل كرتے ہيں اور وہ دونوں جو كچھ ہمارى طرف سےآپكو كہيں در حقيقت وہ ہمارى ہي طرف سے كہتے ہيں “)
ليكن كيا يہ روايت فقيہ كے فتويٰ اور فقيہ كے دونوں قسم كے حكموں كي حجيت پر بھي دلالت كرتي ہے يا نہيں؟
بعض اوقات يہ مفہوم باقي مفاہيم كي نسبت پہلے ذہن ميں آتا ہے كہ امام عليہ السلام كے مندرجہ بالا دونوں جملے فقيہ كے فتويٰ اور فقيہ كے (دونوں قسم كے) حكموں كي حجيت پر دلالت نہيں كرتے، فقيہ كے فتويٰ كي حجيت پر اس لئے دلالت نہيں كرتے كيونكہ فقيہ كے حكم پر يہ صدق نہيں كرتا كہ يہ حكم امام عليہ السلام سے نقل كر رہا ہے تاكہ فقيہ ”ما ادي فعني يؤدى
"يا ”ما اديا اليك فعني يؤديان
" كا مشمول قرار پائے۔
اور امام عليہ السلام كے مذكورہ بالا جملے فتويٰ كي حجيت پر بھي دلالت نہيں كرتے كيونكہ اگر چہ ايك اعتبار سے فتويٰ كا مطلب يہ ہے كہ فتويٰ كے ذرىعے امام عليہ السلام كي راي نقل كي جاتي ہے، ليكن فتويٰ كے ذرىعے امام عليہ السلام كي راي نقل كرنا نقل حدسي ۲۰۲ ہے، جب كہ روايت كے ذرىعے امام عليہ السلام كي راي نقل كرنا نقل حسي ہے، اگر ان دو جملوں كے ساتھ ايك اور نكتے كو ضميمہ نہ كيا جائے تو ذاتي طو رپر يہ دونوں جملے نقل حسّي كي طرف منصرف ہيں يعني ان سے نقل حسّي سمجھا جاتا ہے۔
ليكن اس كے باوجود درج ذيل تين بيانوں ميں سے كسي ايك بيان كي بنياد پر اس حديث سے يہ ثابت كيا جا سكتا ہے كہ حاكم كا حكم نافذ ہے اور مقلدين كے لئے فقيہ كا فتويٰ حجت ہے۔
پہلا بيان: امام عليہ السلام كے قول ”فاسمع له واطعه
”اس كي بات كو سنو اور اس كي اطاعت كرو”يا" فاسمع لهما واطعهما"
عمرى اور اس كے بيٹے كي با سنو اور ان كي اطاعت كرو“ كے اطلاق سے تمسك كيا جائے كيونكہ امام عليہ السلام كے قول كے اطلاق كا تقاضا يہ ہے كہ تمام امور ميں ان دونوں كي بات سني جائے اور ان كي اطاعت كي جائے، يعني روايت كے مطابق، فتويٰ اور حكم دونوں ميں ان كي اطاعت ضرورى ہے۔
اشكال: اس بيان پر متعدد اشكال وارد ہوتے ہيں:
۱) كيونكہ ”فاسمع له واطعه
" كو”فاء تفرىع" كے ذرىعے ”ما ادي اليك فعني يؤدى" پر تفرىع كيا گيا ہے لہٰذا (كم از كم) احتمال ديا جا سكتا ہے كہ يہ بات اس پر قرىنہ ہے كہ اس كي بات سننا اور اس كي اطاعت كرنا فقط اسي دائرى تك محدود ہے جہاں پر امام عليہ السلام كي طرف سے نقل كرنا اور امام كي طرف سے پہچانا صدق ہے ۔
۲) اور اگر مراد يہ ہو كہ صيغہ امر”اسمع" اور” اطع" كے متعلق كے اطلاق سے تمسك كيا جائے تو علم اصول ميں يہ ثابت ہو چكا ہے كہ متعلق امر ميں اطلاق شمولي جارى نہيں ہوتا، بلكہ فقط اور فقط متعلق امر كے متعلق ميں اطلاق شمولي جارى ہوتا ہے ۔بطور مثال اگر كہا جائے ”اكرم العالم “عالم كا احترام كرو" يہ جملہ دلالت كرتا ہے كہ ہر عالم كا احترام واجب ہے ليكن بطور شمول واستغراق دلات نہيں كرتا يعني اس پر دلالت نہيں كرتا كہ ہر قسم كا احترام واجب ہے، متعلق امر كا اطلاق فقط اطلاق بدلي ہوتا ہے اور اگر محذوف متعلق ميں جارى ہو نے والے اطلاق سے تمسك مقصود ہو يعني ”اسمع لہ واطعہ في كل شيء”تو يہ بات بھي اصول فقہ ميں ثابت كي جاچكي ہے كہ جب محذوف لفظ معين ہو تو اس صورت ميں اطلاق كے ذرىعے لفظ كو عموم و شمول عطا كيا جاتا ہے ليكن اطلاق كے ذرىعے محذوف لفظ كو معين نہيں كيا جاسكتا۔
اور اگر اس سے تمسك كرنا مقصود ہو كہ متعلق كا محذوف ہونا اطلاق و شمول كا فائدہ ديتا ہے تو اس سلسلہ ميں بھي ہم علم اصول فقہ ميں ثابت كر چكے ہيں كہ ہمارى نزديك يہ قاعدہ ثابت اور قابل قبول نہيں ہے مگر ايك صورت ميں كہ جب مقام خطاب ميں قدر متيقن كو اخذ كرنا واجب نہ ہو اور مورد بھي ان موارد ميں سے ہوجو اہمال سے مناسب و سازگار نہ ہو۔
فقط اسي ايك صورت ميں اطلاق متعين ہوگا، كيونكہ ”ماادي اليك فعني يؤدي
“واضح طور پر روايت كو حجت قرار دتيا ہے لہٰذا ہمارى بحث ميں قدر متيقن روايت ہے يعني روايت كو حجت قرار ديا جانايقيني ہے لہٰذا يہاں پر قدر متيقن كو اخذ كرنا واجب ہے بنا براين متعلق كا محذوف ہونا اطلاق و شمول كا فائدہ نہيں ديتا ۔
دوسرابيان: سوال كو قرىنہ قرار ديتے ہوئے جواب ميں اطلاق ثابت كيا جا سكتا ہے، سوال يہ ہے: ”من اعامل؟ وعمن آخذ؟ وقول من اقبل؟ كس سے (شروعي وجوہات كا) لين دين كروں؟ كس كي راي اخذ كروں؟ كس كا قول قبول كروں؟ ”اور يہ سوال مطلق ہے يعني روايت، فتويٰ اور حكم تينوں كو شامل ہے، يا تو اس دليل كي بنياد پر اطلاق كا استفادہ كيا جا سكا ہے كہ متعلق محذوف ہے ۔يعني”من اعامل؟ عمن آخذكلا من الروايه والفتويٰ والحكم؟
”كا متعلق محذوف ہے يعني كس سے روايت فتويٰ اور حكم حاصل كروں۔
يہاں پر وہ قدر متيقن بھي نہيں پائي جاتي جو متعلق كے محذوف ہونے سے اطلاق كا استفادہ كرنے كي راہ ميں ركاوٹ ہے۔
يا عرفي مناسبات و قرائن كے ذرىعے اطلاق كا استفادہ كيا جا سكتا ہے كيونكہ يہاں پر عرفي مناسبتوں كا تقاضا يہ ہے كہ محذوف مطلق ہے، جس كو مناسبات و قرائن كے ذرىعے معين كيا جائے گا، اور يہاں پر مناسبات و قرائن اطلاق كا تقاضاكرتے ہيں، كيونكہ مسائل امام عليہ السلام كے پيروكاروں ميں سے كوئي ايك شخص تھا كہ ان حالات ميں اس كي امام عليہ السلام ملاقات نہيں ہوتي تھي ۔لہٰذا ان حالات ميں مناسب معلوم ہوتا ہے كہ سائل نے يہ سوال كيا ہو كہ جن امور ميں امام عليہ السلام كي طرف رجوع كيا جاتا ہے امام عليہ السلام كي عدم موجودگي ميں كس كي طرف رجوع كيا جائے، خواہ ايسے امور ہوں جن ميں امام عليہ السلام كي طرف اس لئے رجوع كيا جاتا ہے كہ امام عليہ السلام ابتدائي طور پر خدا كا حكم بيان كرتے ہيں يا ايسے امور ہوں جن ميں ولي امر كے طور پر امام عليہ السلام كي طرف رجوع كيا جاتا ہے۔يا جملہ ”قول من اقبل؟ كس كا قول قبول كروں“ميں موجود لفظ "القول" كے اطلاق سے تمسك كياجائے، جب سوال كا مطلق ہو ناثابت ہو جائےگا تو جواب بھي مطلق ہوگا تاكہ سوال وجواب ميں مطابقت ہو۔
بلكہ بعض دوسرى سندوں كے مطابق اسي روايت ميں يہ جملہ نقل ہوا ہے ”امر من نمتثل؟ " ہم كس كے حكم كي تعميل كرىں؟ "
شيخ طوسي عليہ الرحمۃ نے كتاب ”الغيبۃ “ميں روايت نقل كي ہے"
عن جماعة عن ابي محمد هارون بن موسيٰ عن ابي علي محمد بن همام الاسكافي قال: حدثنا عبد الله بن احمد بن اسحاق بن سعد القمى، قال: دخلت علي ابي الحسن علي بن محمد صلوات الله عليه في يوم من الكيام فقلت: يا سيدي انا اغيب واشهد، ولايتهيا لي الوصول اليك اذا شهدت في كل وقت فقول من نقبل؟ وامر من نمتثل؟ فقال لي صلوات الله عليه: هذا ابو عمرو الثقة الا مينما قاله لكم فعني يقول واداه اليكم فعني يؤديه فلما مضيٰ ابو الحسن عليه السلام وصلت الي ابي محمد ابنه العسكرى عليه السلام ذات يوم فقلت له مثل قولي لابيه فقال لى: هذا ابو عمرو الثقة الامين الماضي ثقة و ثقتي في المحيا والممات فما قاله لكم فعني يقوله، وما ادي اليكم فعني يؤديه
"
شيخ طوسي عليہ الرحمۃ نے كتاب الغيبۃ ميں ايك جماعت سے انھوں نے ابو محمد ہارون بن موسيٰ
سے انھوں نے ابو علي محمد بن ھمام اسكافي ہے نقل كيا ہے كہ: ہمارى لئے عبد اللہ بن احمد بن اسحاق بن سعد قمي نے نقل كيا ہے: ميں ايك دن امام علي نقي عليہ السلام كي خدمت ميں شرفياب ہوا اور كہا: موليٰ ميں بعض اوقات آپكي خدمت ميں حاضرى كا شرف حاصل كرتا ہوں اور بعض اوقات اس سے محروم رہتا ہوں اور ميرى لئے ممكن نہيں كہ ہر وقت آپكي بارگاہ ميں حاضرى دوں پس (جب آپكي خدمت ميں حاضر ممكن نہ ہوتو) ہم كس كا قول قبول كرىں؟ اور كس كا فرمان بجالائيں؟ امام نے مجھے فرمايا: يہ ابو عمرو (موجود) ہے جو امين اور قابل اعتماد ہے، يہ تمہيں جو كچھ كہے گا ہمارى ہي طرف سے كہے گا، اور جو كچھ تمہارى لئے نقل كرےگا ہمارى ہي طرف سے نقل كرےگا، جب امام نقي عليہ السلام اس دنياسے كوچ كرگئے تو ميں ايك دن ان كے بيٹے امام حسن عسكرے عليہ السلام كي خدمت ميں شرفياب ہوا اور
وضاحت
وہ جماعت كہ جس نے شيخ كے لئے جعفر محمد بن ابن قولہ سے روايت نقل كي ہے وہ جماعت شيخ كي اپني وضاحت كے مطابق مفيد، حسين بن عبيد اللہ، احمد بن عبدون، وغيرہ پر مشتمل ہے شيخ طوسى عليہ الرحمۃ نے بالكل يہي تعبير اس جماعت كے لئے استعمال كي ہے جنھوں نے ابو غالب رازي سے شيخ كے لئے روايات نقل كي ہيں، اس روايت سے پہلے اسحاق بن يعقوب كي توقيع گذر چكي ہے، شيخ طوسى عليہ الرحمۃ نے يہ توقيع ابن قوليہ، ابو غالب رازي اور ہارون بن موسيٰ سے نقل كي ہے، اور ان سب سے (مساوي طور پر) ايك جماعت كے واسطہ سے نقل كيا ہے، پس ابن قوليہ اور رازي سے روايت نقل كرنے والي جماعت بعينہ وہي جماعت ہے جنھوں نے ہارون بن موسيٰ سے روايت نقل كي ہے اور آپجان چكے ہيں كہ ابن قولويہ اور رازي كي تمام روايات شيخ طوسى عليہ الرحمۃ تك ايك جماعت كے ذرىعے پہنچي ہيں جس جماعت ميں شيخ مفيدعليہ الرحمۃ شامل ہيں۔
جو كچھ ان كے والد سے پوچھا تھا ان سے بھي پوچھا امام نے فرمايا: يہ ابو عمرى (موجود) جو امين اور قابل اعتماد ہے چنانچہ ہمارى والد كے نزديك بھي قابل اعتماد تھا ۔
يہ زندگي وموت ميں ميرا قابل اعتماد شخص ہے، يہ آپ لوگوں سے جو كچھ كہتا ہے ميرى ہي طرف سے كہتاہے ۔اور آپ لوگوں كے لئے جو كچھ نقل كرتا ہے ميرى ہي طرف سے نقل كرتا ہے۔ كيونكہ”امر" كا حقيقي معني روايت وفتويٰ نہيں بلكہ حكم ہے لہٰذا لفظ ”امر" كا اس چيز پر دلالت كرنا كہ امام عليہ السلام كي مراد ”حكم “ہے اور ”امر" كا حكم پر دلالت كرنا اطلاق پر دلالت كرنے كي نسبت اس پر زيادہ قوي طور پر اور تاكيد كے ساتھ دلالت كرتا ہے كہ امام عليہ السلام كي مرا د حكم ہے كيونكہ حكم ميں امر كا حقيقي معني پايا جاتا ہے جب كہ روايت و فتويٰ ميں نہيں پايا جاتا۔
يہ بيان بھي قابل اعتراض ہے ۔فرض كرىں سوال فقط نقل روايت سے متعلق نہيں تھا بلكہ سوال كا دائرہ حكم كو بھي شامل تھا (يعني حكم كے متعلق بھي سوال كيا جا رہا تھا) ليكن كيا مشكل ہے كہ”ما ادي اليك عني فعني يؤدى
" كو قرىنہ قرار ديتے ہوئے جواب يہ ہو: جو كچھ ہم سے نقل كرے اسے لے لو۔
اس سے يہ بھي لازم نہيں آتا كہ جواب سوال سے مختصر ہے كيونكہ ممكن ہے امام عليہ السلام يہ كہنا چاہتے ہوں: كيونكہ عمرى ہمارى خدمت ميں كثرت سے شرفياب ہو تا رہتا ہے لہٰذا اس كے لئے ممكن ہے كہ ہمارى طرف سےآپ تك كلام خداوندي كو پہنچا سكے (وہ احكام جنھيں وہ نقل كرتا ہے) اوراس كے لئےآپ تك (آپ كے مورد نياز مسائل ميں سے) وہ احكام پہنچانا بھي ممكن ہے؟ جو احكام ہم سے بعنوان ولي امر صادر ہوتے ہيں۔
تيسرا بيان: ممكن ہے ہم امام عليہ السلام كي طرف سےآنے والے جواب ميں موجود لفظ (اطع) سے استفادہ كرىں، البتہ لفظ (اطع) كے اطلاق سے استفادہ كرنا مقصود نہيں (چنانچہ پہلے بيان ميں اطلاق سے استفادہ كيا گيا) بلكہ لفظ (اطع) سے يوں استفادہ كيا جائے كہ عرف يہ نہيں سمجھتا كہ لفظ (اطع) فقط روايت يا روايت اور فتويٰ سے مخصوص ہے (يعني عرف يہ نہيں سمجھتا كہ امام عليہ السلام عمرى كي اطاعت كو فقط اس صورت ميں واجب قرار دے رہے ہيں جب وہ روايت نقل كر رہا ہو يا فتويٰ دے رہا ہو) كيونكہ اطاعت حقيقي معني ميں اطاعت فقط وہاں پر صدق كرتي ہے جہاں حكم كيا جاتا ہے، كيونكہ اطاعت حكم كي فرع (شاخ) ہے اور اطاعت حكم پر مرتب ہوتي ہے لہذا جہاں پر اصل (حكم) نہ ہو وہاں پر فرع (اطاعت) كوئي معني نہيں ركھتى، ليكن روايت اور فتويٰ، نقل حسّي
عبارت ہيں در اصل راوي كي بعنوان راوي يا مفتي كي بعنوان مفتي اطاعت نہيں كي جاتى، ہاں يہ ضرور ہے كہ وہ كبھي كبھار اپني روايت يا اپنے فتويٰ كے مطابق حكم (ولايتي حكم يا كاشف حكم
) كرتا ہے لہذا اس صورت ميں وہ حاكم قرار پاتا ہے اور اس كي اطاعت كي جاتي ہے ۔
يا نقل حدسي سے لہذا لفظ (اطع) كو اپنے غير حقيقي مصداق سے مخصوص كرنا فہم عرفي كے خلاف ہے۔امام عليہ السلام نے ((فاء تفرىع))
كے ذرىعے اپنے قول ,,فاسمع لہ واطعہ ِ،، كو اپنے قول ,,ما ادّا اليك عنّي فعنّي يؤدّى
، ، پر تفرىع (مرتب) كيا ہے، احتمال ديا جا سكتا ہے كہ,, فاء تفرىع، ، قرىنہ ہو كہ عمرى كي اطاعت اور اس كي بات غور سے سننا فقط اس مورد سے مخصوص ہے جہاں پر وہ امام عليہ السلام سے كوئي مطلب (حكم شرعي وغيرہ) نقل كر رہاہو يا امام عليہ السلام كي طرف سے كوئي چيز (حكم) پہنچا رہا ہو ۔
ليكن كيونكہ حكم كے علاوہ باقي موارد ميں حقيقي معنيٰ ميں اطاعت نہيں پائي جاتي لہذا ہم بخوبي درك كرتے ہيں كہ عمرى كي اطاعت فقط ان موارد سے مخصوص نہيں ہے جہاں وہ بہ طور حسّي نقل كر رہا ہو يا امام عليہ السلام كي طرف سے كسي چيز (حكم) كو پہنچا رہا ہو، بلكہ اطاعت كا حكم، نقل حسّي كے فرضيہ كو بھي شامل ہے اور اسي طرح اطاعت كا حكم وہاں پر بھي ہوگا جہاں پر حكم كرنے والا (ولي امر) نقل پر اعتماد كرتے ہوئے حكم كرے، كيونكہ حاكم شرعي اپنے حكم ميں (اس صورت ميں كہ جب حكم كاشف ہو) اپنے فہم پر اعتماد كرتا ہے يعني جو كچھ اس نے امام عليہ السلام كے كلام سے سمجھا ہے اسي كے مطابق حكم كرتا ہے، اگرچہ اس نےحدس اور اجتہاد ہي كي بنياد پر اسے امام عليہ السلام كے كلام سے سمجھا ہو۔
لہذا اگر وہ حكم كرے تو اس كا مطلب يہ نہيں كہ وہ بلا واسطہ اور حسّي طور پر امام عليہ السلام سے نقل كر رہا ہے، ہاں بعض اوقات كہا جاتا ہے كہ اس بيان كي مدد سے ولايتي حكم (حكم كي دوسرى قسم) كا نافذ اور رائج ہونا ثابت نہيں ہوتا كيونكہ ولايتي حكم كے موارد ميں امام معصوم عليہ السلام سےنقل كرنا اورامام عليہ السلام كي طرف سے (كوئي چيز يعني حكم) پہنچانا صدق نہيں كرتا، حتي يہ بھي نہيں كہا جا سكتا كہ ولايتي حكم كا منبع و سرچشمہ امام عليہ السلام كا قول تھا، بلكہ ولايتي حكم ميں تو منطقۃالفراغ كو پر كرنے كے لئے صرف اورصرف ولايت كو بروئے كار لايا جاتا ہے، ليكن اگر حكم كي پہلي قسم (كاشف حكم) كا نافذ ہونا ثابت ہو جائے تو درج ذيل دعويٰ كے ذرىعے دوسرى قسم كا نافذ ہونا بھي ثابت كيا جائے گا، عام طور پر اتني دقت نہيں كي جاتي اور اس دقيق عقلي فرق كي بنياد پر حكم كے مخلتف ہونے كا احتمال نہيں ديا جاتا (حكم كي ايك قسم نافذ ہو جب كہ دوسرى قسم نافذ نہ ہو كيونكہ ان دو قسموں ميں فرق پايا جاتا ہے) پس جب عرفي اعتبار سے دو حكموں ميں فرق كا احتمال نہيں ديا جاتا تو لفظي دليل كا اطلاق صحيح ہوگا (يعني دونوں صورتوں ميں حكم نافذ ہوگا كيونكہ امام عليہ السلام كے كلام ميں كوئي قيد و شرط نہيں ہے اور حكم دونوں صورتوں كو شامل ہے)
اس بحث ميں فقط ايك اشكال باقي رہ جاتا ہے كہ اگر يہ حديث ولايت فقيہ پر دلالت كرے تو عمرى عليہ الرحمۃ كے قول (محرم عليكم ان تسالوا عن ذلك ولا اقول هذا من عندي فليس لي ان احلل ولا احرم ولكن عنه عليه السلام
) آپ پرحرام ہے كہ اس سے متعلق سوال كرىں، ميں يہ اپني طرف سے نہيں كہہ رہا، كيونكہ مجھے تو كسي چيز كو حلال يا كسي چيز كو حرام كرنے كا حق نہيں پہنچتا بلكہ يہ امام عليہ السلام كي طرف سے ہے، كي كيا تفسير كي جائےگي جب كہ (ولايت فقيہ كي بنياد پر) يہ بات واضح ہے كہ جہاں پر ولّي امر مصلحت تشخيص دے وہاں پر اپني ولايت كو بروئے كار لاتے ہوئے كسي چيز كو حرام كر سكتا ہے، (جب كہ عمرى كي كلام سے يہ سمجھا جاتا ہے كہ امام عليہ السلام كے نائب كو يہ حق حاصل نہيں كہ وہ كسي چيز كو حرام قرار دے) ۔
جواب:
۱) شايد ,, محرم عليكم ، سے عمرى كي مراد فقط خدا اور شرىعت كي طرف سے كسي چيز كو حرام قرار دينا ہو، فقيہ كي طرف سے حكم كے ذرىعے كسي چيز كو حرام قرار دينا مراد نہ ہو اور اہل شرىعت كي اصطلاح ميں يہ استعمال رائج ہے۔
۲) فقيہ كا حكم، متعلق حكم (جس چيز كے متعلق حكم كيا جا رہا ہے) اور خود حكم ميں پائي جانے والي مصلحت پر موقوف ہے يعني اگر مورد حكم اور خود حكم ميں مصلحت پائي جائے تو فقيہ حكم كرتا ہے ورنہ حكم نہيں كرتا شايد عمرى عليہ الرحمۃ نے اس وقت كسي چيز كوحرام قرار دينے كاحكم دينے ميں مصلحت تشخيص نہ دي ہو كيونكہ اس وقت عمرى كے لئے امام عليہ السلام كي خدمت ميں شرفياب ہونا ممكن تھااور كيونكہ امام عليہ السلام مصلحتوں اورخرابيوں كو فطرى طور پر سب سے بہتر تشخيص ديتے ہيں لہذا عمرى خود امام عليہ السلام سےحكم ليتےتھے (ان كي نظر ميں خودحكم كرنےميں مصلحت نہيں پائي جاتي تھي)
۳) جب ہم نے امام عليہ السلام سے نقل ہونے والي اس حديث سے ولايت فقيہہ كو سمجھ ليا تو ہمارا فہم ہمارى لئے حجت ہے لہذا جب ہم نے فقيہ كے لئے ولايت ثابت كر دي اس كے بعد ہمارى لئے اس كي كوئي اہميت نہيں كہ عمرى نے اس كبرىٰ (قاعدہ اور عام قانون) كي اس مورد ميں تطبيق كيوں نہيں كي (عمرى نے اپنا حق ولايت استعمال كرتے ہوئے كسي چيز كي حرمت كا حكم كيوں نہيں ديا) ممكن ہے عمرى نے كبرىٰ يا صغرىٰ ميں غفلت كے نتيجہ ميں اس كبرىٰ كي تطبيق نہ كي ہو ۔
ساتواں ضميمہ
اگر كہا جائے يہاں پر اطلاق نہيں پايا جاتا كيونكہ اطاعت كا متعلق محذوف ہے اور مقدمات حكمت كے ذرىعے محذوف كو معين نہيں كيا جا سكتا كيونكہ مقدمات حكمت كے ذرىعے فقط معين چيز سے قيود و شرائط كي نفي كي جاسكتي ہے ۔
جواب:
۱) يہاں پر اطلاق ثابت ہے كيونكہ قدر متيقن پائي جاتي ہے كيونكہ اگر متعلق محذوف ہو ليكن قدر متيقن پائي جائے تو اطلاق صحيح ہوتا ہے اور اولي الامر كي اطاعت كو خدا و رسول كي اطاعت پر عطف كيا گيا ہے۔
اگر كوئي شخص ہم پر يہ اعتراض كرے كہ آيہ مباركہ ميں ولّي امر كي اطاعت كا حكم خود اس كي ولايت اور اس كي اطاعت كے دائرہ سے وسيع تر نہيں ہے، جب آيہ مباركہ سے چشم پوشي كي جائے تو اس كے لئے وہ وسيع ولايت ثابت نہيں ہے كيونكہ آيہ كا معني يہ ہے كہ جن حدود ميں وہ اولي الامر ہے ان ہي حدود ميں اس كي اطاعت واجب ہے ۔
جواب: اس تفسير كےمطابق آيہ مباركہ قضيہ بہ شرط محمول
كي سنخ سےقرار پائے گي اور يہ خلاف ظاہر ہے ۔
علامہ طباطبائي عليہ الرحمۃ نے تفسير الميزان ميں آيہ مباركہ سے اطلاق كا استفاہ كيا ہے اور قيد نہيں لگائي كہ اطاعت فقط اس مورد ميں واجب ہے جہاں وہ معصيت كا حكم نہ ديں يا اس مورد ميں اطاعت واجب ہے جہاں ان كي خطا كا معلوم نہ ہو جائے، اور اولي الامر سے مراد معصومين عليھم السلام ہيں۔
تو ہم جواب ميں كہيں گے: آيہ مباركہ كي يہ تفسير قضيہ شرط محمول كي سنخ سے ہوگي اور يہ خلاف ظاہر ہے ۔
۲) معصيت كا حكم دينے كي صورت ميں اس كي اطاعت كا واجب نہ ہونا اور اسي طرح جب كم گناہ كا حكم دے يا علم ہو جائے كہ حاكم كا حكم خطا پر مبني ہے تو اس كي اطاعت واجب نہيں ہے، يہ شرط ايسي شرط ہے جس كے لئے جدا گانہ شرط لانے كي ضرورت نہيں ہے بلكہ يہ موارد اس كي اطاعت كے دائرى سے پہلے ہي خارج ہيں، كيونكہ كسي بھي شخص كے حكم كا اتباع يا نذر (منّت) قسم، شرط اور عقد وغيرہ جب امو صاحب شرىعت سے صادر ہوتے ہيں تو عرف سمجھتا ہے كہ يہ كلام اور ولايت كا طرىقي پہلو اس فرض كو شامل نہيں ہوا جہاں پر حكم كي خطا كا علم ہو چنانچہ ان تمام امور ميں بھي صورت حال يہي ہے جن ميں طرىقي پہلو
۳) اولي الامر كو فقط معصومين پر حمل كرنا (معصومين سے مخصوص كرنا) موجب بنتا ہے كہ اطيعوا مطلق ہے يعني اس ميں كوئي قيد و شرط نہيں لگائي گئي (يعني كيونكہ اولي الامر معصومين ہيں لہذا بلا قيد و شرط ان كي اطاعت واجب ہے) اولي الامر كو معصومين سے مخصوص كرنے كا مطلب يہ ہے كہ اولي الامر كے عنوان كو مقيد كيا جا رہا ہے جب كہ خارج ميں اولي الامر ائمہ معصومين عليھم السلام ميں منحصر نہيں ہيں كيونكہ اس ميں كوئي شك و شبہ نہيں كہ غيبت كے زمانہ ميں غير امام اولي الامر كي ضرورت ہے خواہ يہ ضرورت امور حسبيہ كي حد تك ہو كہ جنھيں حكومت و قدرت كے بغير بھي انجام ديا جا سكتا ہے ۔
ہم بحث كر رہے تھے كہ ہمارى دور ميں اولي الامر كون ہےكيا فقيہ اولي الامر ہے يا جسے شورىٰ وغيرہ كے ذرىعے منتخب كيا جائے؟ ليكن يہ نا قابل انكار حقيقت ہے كہ غيبت كے زمانہ ميں اسلام كي طرف سے اولي الامر موجود ہے كيونكہ اگر غيبت كے زمانہ ميں كوئي اولي الامر نہ پايا جائے تو اسے اسلام كا نقص اورعيب شمار كيا جائے گا، لہذاآيہ مباركہ ميں اولي الامر كو معصومين سے مخصوص كرناآيہ مباركہ كے اطلاق كے خلاف ہے۔
اگر اولي الامر كو معصومين عليہ السلام سے مخصوص كيا جائے تو يہ ايك قيد كے ذرىعے دوسرى قيد سے فرار كر نے كے مترادف ہے، ہاں اگر پہلا اور دوسرا اشكال نہ ہوتا تو يہ دعويٰ كيا جا سكتا تھا كہ تيسرے اشكال كا نتيجہ يہ ہوگا كہ دونوں اطلاق آپس ميں تعارض كرىں گے لہذاآيہ مباركہ مجمل ہو جائے گي ۔
اگر آپ كہيں بعض روايات ميں آيہ مباركہ ميں موجود لفظ ,,اولي الامر، كي تفسير معصومين عليہم السلام كےذرىعےكيگئي ہےشيخ كلينى: نےكافي ميں روايت نقل كي ہے:(عن عدّه من اصحابنا عن احمد بن محمد عن علي بن الحكم عن الحسين بن ابي العلاء قال: ذكرت لا بي عبد الله عليه السلام قولنا في الاوصياء ان طاعتهم مفترضه قال، فقال: نعم، هم الذين قال الله تعالى,, اطيعوا الله واطيعواالرسول واولي الامرمنكم،، وهم الذين قال الله عزّوجل,, انما وليكم الله و رسوله والذين)
شيخ كليني عليہ الرحمۃ نے اصحاب كي ايك جماعت سے انہوں نے احمد بن محمد سے انہوں
نےعلي بن حكم سےانہوں نےحسين بن ابو العلاء سےنقل كيا ہے سين بن ابي علاء كہتے ہيں: ميں
نے امام صادق عليہ السلام كي خدمت ميں عرض كيا (نبي اكرم) كے جانشينوں كے متعلق ہمارا عقيدہ يہ ہے كہ ان كي اطاعت واجب ہے، امام عليہ السلام نے جواب ديا: ہاں (ايسا ہي ہے) اور ان ہي كے متعلق ارشاد رب العزت ہے (ايمان والو بس تمہارا ولي اللہ ہے اور اس كا رسول اور وہ (صاحبان ايمان جو نماز قائم كرتے ہيں اور حالت ركوع ميں زكوۃ ديتے ہيں)
حديث: ۷، حديث كي سند بھي درست ہے ۔
شيخ كليني نے كافي ميں نقل كيا ہے ((عن محمد بن يحييٰ عن احمد بن عيسيٰ عن محمد بن خالد البرقي عن القاسم بن محمد الجوهرى عن الحسين بن ابي العلاء قال: قلت لابي عبد الله عليه السلام: الاوصياء طاعتهم مفترضة؟ قال: نعم، هم الذين قال الله عزّو جل ,,انما وليكم الله ورسوله والذين آمنوا الذين يقيمون الصلاة و يو تون الزكوة و هم راكعون
)) شيخ كليني نے محمد بن يحييٰ سے انہوں نے احمد بن محمد بن عيسيٰ سے انہوں نے محمد بن خالد برقي سے انہوں نے قاسم بن محمد جوہرى سے انہوں نے حسين بن ابو علاء سے نقل كيا ہے ابو علاء كہتے ہيں ميں نے امام صادق عليہ السلام سے پوچھا: كيا (پيغمبر اكرم كے) جانشينوں كي اطاعت فرض ہے؟ آپنے فرمايا: ہاں، ان ہي كے بارى ميں ارشاد رب العزت ہے ,,ايمان والو بس تمہارا ولي اللہ ہے اور اس كا رسول اور وہ صاحبان ايمان جو نماز قائم كرتے ہيں اورحالت ركوع ميں زكوۃ ديتے ہيں
دوسرى روايت كي سند ميں قاسم بن محمد جوہرى ہے اور معلوم نہيں كہ يہ وہي قسم بن محمد ہو جس سے ازدي اور بجلي نے روايت كي ہے ازدي اور بجلي وہ ہيں جو غير ثقہ (غير قابل اعتماد) شخص سے روايت نقل نہيں كرتے البتہ پہلي روايت كي سند درست ہے
ايك اور ضعيف السند روايت ميں نقل ہواہے:عن ابي بصيرعن ابي عبد الله الصادق عليه السلام، في آيه ,,اطيعوا الله واطيعواالرسول و اولي الامر منكم،، قال: نزلت في علي بن ابي طالب والحسن والحسين،،
ابو بصير نےآيه مباركه,,اطيعوا الله واطيعوا الرسول و اولي الامر منكم
،، كي تفسير ميں امام صادق عليہ السلام سےنقل كيا ہے كہ آپنے فرمايا: يہ آيہ مباركہ علي بن ابي طالب عليہ السلام اورحسن عليہ السلام و حسين عليہ السلام كي شان ميں نازل ہوئي
اس كا جواب يہ ہے كہ يہ روايت بھي ان روايات كي طرح ہے جن روايات ميں قران مجيد ميں آنے والے بعض عنوانوں كي تفسير ائمہ عليھم السلام كے حق ميں كي گئي ہے (كہا گيا ہے كہ اس عنوان سے مراد ائمہ عليھم السلام ہيں) مثلاً صادقين، الآيات، اہل ذكر، اورالذين يعلمون وغيرہ جيسےعنوان۔
ان روايات كا ظاہرى معني يہ ہے كہ آيات كو اپنے مصاديق ميں سے سب سے واضح اور روشن مصداق پر تطبيق كيا جا رہا ہے، فہم عرضي تسليم نہيں كرتا كہ ان روايات كو قرىنہ قرار ديتے ہوئے كہا جائے، آيات كا مقصود فقط يہي مصداق (يعني ائمہ عليھم السلام) ہيں، عرفي اعتبار سے روايات كو اس معني (كہ آيات كا مصداق فقط ائمہ عليھم السلام ہيں) پر حمل كرنے كے بجائے درج ذيل معنيٰ بہتر ہے: ان روايات ميں اولي الامر كے سب سے افضل و بہتر اور واضح مصداق بيان كئے جا رہے ہيں، دوسرى لفظوں ميں ان مصداقوں كو بيان كيا جا رہا ہے جو روايات كے زمانے (جس وقت يہ روايات ائمہ عليھم السلام كي زبان سے جارى ہو رہي تھيں) موجود تھے، اس قول كے مقابلہ ميں ان لوگوں كا قول ہے جنھوں نے انحراف كا شكار ہونے والے خلفاء كوكيات كا مصداق قرار ديا ہے ۔
جو روايات آيہ مباركہ ميں ذكر ہونے والے عنوان (اولي الامر) كا مصداق ائمہ عليھم السلام كو قرار ديتي ہيں (جب كہ ائمہ عليھم السلام كي حالت يہ تھي كہ ان كے پاس اقتدار اور قدرت موجود نہ تھى، اورامور كي باگ ڈور ان كے ہاتھ ميں نہيں تھي) ان روايات كا فائدہ يہ ہے كہ ہم اس شخص كے اعتراض كو بر طرف كر سكيں جس نے ہمارى بحث ميں يہ اشكال كيا ہے ((اولي الامر كا عنوان فقط ايسے ولي امر كو شامل ہے جس كے پاس اقتدار ہو لہذا اگر فقيہ كے پاس اقتدار اور وسائل نہ ہوں توآيہ مباركہ كے ذرىعے اس كے لئے ولايت مطلقہ ثابت كرنا ممكن نہيں ہے)) دوسرى لفظوں ميں يہ اعتراض كرنے والا شخص يوں كہتا ہے ((شايد اولي الامر سے مراد ہر حكمراں اور اقتدار پر قابض ہر طاقت ہو خواہ اس نے ظلم و ستم ہي كے ذرىعے اقتدار پر قبضہ كيا ہو اور اقتدار سنبھالاہو، لہذا معاشرى كا نظام محفوظ رہنے كي غرض سے اس كي اطاعت ہمارى اوپر واجب ہے)) پس اس قسم كے اعتراضات اور شبہات بر طرف ہو جاتے ہيں كيونكہ روايات نے ائمہ عليھم السلام كوآيات ميں آنے والے عنوان ,,اولي الامر،، كا مصداق قرار ديا ہے (ولو ظاہرى طور پر اقتدار ائمہ عليھم السلام كے ہاتھوں ميں نہ ہو)
آٹھواں ضميمہ
اگر ولّي امر مجتہد متجزى
ہو توكيا مجتہد متجزى ہونا اس كے حكم كے نفاذ كے لئے كافي ہے يا ضرورى ہے كہ وہ مجتہد مطلق ہو (يعني فقہ كے تمام ابواب ميں مجتہد اور صاحب نظر ہو، احكام كو استنباط كرنے كي صلاحيت ركھتا ہو) دوسرى لفظوں ميں مجتہد متجزى ہونا كافي ہے تاكہ اس كا حكم نافذ ہو يا نہيں بلكہ تمام ابواب ميں مجتہد ہونا ضرورى ہے؟
جواب: اكثر اوقات ولّي امر كا تمام ابواب ميں صاحب نظر ہونے كا اثر يہ سامنےآتا ہے كہ ہميں اعتماد اور اطمينان حاصل ہو جاتا ہے كہ ولّي امر درست فقہي موقف اختيار كرنے كي صلاحيت ركھتا ہے، ليكن اگر وہ تمام ابواب ميں صاحب نظر نہ ہو اور كسي ايك باب (جس ميں وہ صاحب نظر نہيں ہے) ميں كوئي ايسا نكتہ يا كوئي ايسي علمي بحث موجود ہو جس كا اس باب سے گہرا ربط ہو جس ميں يہ شخص صاحب نظر اور مجتہد ہے، (كيونكہ يہ شخص اس باب ميں صاحب نظر نہيں ہے لہذا وہ بحث اس باب ميں بھي اثر انداز ہوگي جس ميں وہ اجتہاد كر رہا ہے لہذا اطمينان حاصل نہيں ہوگا كہ اس نے درست فقہي موقف اور نظرىہ اختيار كيا ہے) لہذا وہ اعتماد اٹھ جاتا ہے اور احتمال ديا جا سكتا ہے كہ ولي امر نے درست موقف اختيار نہ كيا ہو، جب كہ اس كا حكم اس صورت ميں نافذ ہے جب اس قسم كا اعتماد پايا جائے ۔
عام شخص (جو شخص فقہي پيچيدگيوں سےآگاہ نہ ہو) يہ تشخيص دينے كي صلاحيت نہيں ركھتا كہ فلاں نكتہ اور فلاں بحث كي وجہ سے اس باب ميں مجتہد كا حكم قابل اعتماد نہيں ہوگا، جب كہ فلاں باب ميں اس كا حكم قابل اعتماد ہوگا، جب ہر شخص ان موارد كو تشخيص نہيں دے سكتا تو اس كا نتيجہ يہ ہوگا كے اجتہاد كے تمام ابواب ميں ولي امر كا حكم قابل اعتماد نہيں رہے گا ۔
كوئي شك و شبہ نہيں (شايدآپكے لئےگذشتہ بحثوں سے يہ واضح ہوچكا ہو) كہ ولّي امر كا حكم اس صورت ميں نافذ ہوگا جب يہ شرط (اس كے حكم پر اعتماد) موجود ہو، يعني جب اعتماد اطمينان حاصل ہوگا كہ اس نے صحيح فقہي موقف اختيار كيا ہے، اس صورت ميں اس كا حكم نافذ ہوگا، درج ذيل بيانوں كے ذرىعے اس شرط كے ضرورى ہونے كو ثابت كيا جاسكتا ہے:
يا حكم كے نافذ قرار دينے والي كي دليل واضح طور پر اس شرط پر دلالت كرتي ہے جيسے احمد بن اسحق كي روايت كہ جس ميں اطاعت كے حكم كي علت اور فلسفہ يہ بيان كي ہے كہ اس كے حكم پر اعتماد ہوتا ہے ۔
يا كہا جائے حكم كے نافذ ہونے پر دلالت كرنے والي دليل ميں اطلاق نہيں پايا جاتا لہذا اس شرط كي ضرورت كو ثابت كرنے كے لئے كہا جائے گا كہ كسي بھي حكم كو دليل اپنے حكم كے موضوع كو وجود ميں لانے كي كفيل اور ذمہ دارنہيں ہے (بلكہ دليل ميں فقط حكم بيان ہوتاہے لہذا جب يہ موضوع ہوگا يہ حكم بھي ہوگا اب حكم بيان كرنے والي دليل كے ذمہ دارى نہيں كہ موضوع كو وجود ميں لائے ۔) اب صرف يہ بحث باقي ہے كہ اگر كسي مورد ميں معلوم ہوجائے كہ مجتہد متجزى نے اجتہاد كے نتيجے ميں جو حكم ديا ہے اس حكم كا ان بحثوں سے كوئي تعلق نہيں ہے جو ان ابواب سے مربوط ہيں جن ميں وہ درجہ اجتہاد پر فائز نہيں ہے تو كيا جن موارد ميں وہ اجتہاد كرےگا اس كا حكم نافذ ہوگا ۔؟
كيا اس صورت ميں اس كے اجتہاد كے دائرہ ميں اس كا حكم نافذ ہوگا يا نہيں؟
۔اور اگر اپنے اجتہاد كے دائرى سے مربوط شككيات كا فيصلہ دے تو اس كا فيصلہ اور حكم نافذ ہوگا يا نافذ نہيں ہوگا؟
ان سوالات كا جواب اس امر پر موقوف ہے كہ كيا توقيع ميں آنے والے جملہ” رواۃ احاديثنا،، كے عنوان سے يا مقبولہ عمر بن حنظلہ ميں موجود جملہ”و روي حديثنا و نظرفي حلالنا و حرامنا،، كے عنوان سے انحلال
سمجھا جاتا ہے يا مجموعيت
بعيدنہيں كہا جائے كہ مختلف مناسبتوں سے يہ امر مختلف ہوتا ہے ۔روايت نقل كرنے كے مورد ميں مناسبتيں انحلال كا تقاضا كرتي ہيں لہذا روايت نقل كرنے ميں اس كا حجت ہونا اس پر موقوف نہيں كہ وہ تمام روايات كا راوي ہو ياكم از كم روايات كي اچھي خاصي مقدار كا راوي ہو، ليكن فتويٰ اور حكم (فيصلہ) ميں مناسبتيں انحلال كا نہيں بلكہ مجموعيت كا تقاضا كرتي ہيں كيونكہ ہم ذكر كر چكے ہيں كہ اكثر اوقات حكم اور فتويٰ پر اعتماد كي خاطر تمام ابواب ميں مجتہد ہونا دخيل ہے يعني اگر تمام ابواب ميں مجتہد نہ ہو تو اعتماد حاصل نہيں ہوتا كيونكہ حكم اور فيصلہ ميں ضرورى ہے كہ شخص تمام ابواب ميں درجہ اجتہاد پر فائز ہو لہذا عرف دليل سے انحلال نہيں بلكہ مجموعيت سمجھتا ہے، يا اس كي وجہ سے (كم از كم) دليل كا اطلاق منعقدنہيں ہو سكتا لہذا اس كا حكم اورفتويٰ اس مورد ميں حجّت نہيں ہو گا
جہاں ہميں اتفاقي طور پر معلوم ہو جائے كہ ولّي امر جس باب ميں حكم كر رہا ہے اس باب سے اس نكتہ اور اس علمي بحث كا كوئي تعلق نہيں جو اس باب سے مربوط ہے جس ميں يہ شخص درجہ اجتہاد پر فائز نہيں ہے ۔
احمد بن اسحق كي روايت عمرى اور ان كے بيٹے كي شان ميں صادر ہوئي ہے اور يہ دونوں افراد جليل القدر راويوں اورعظيم الشان فقہاء ميں سےتھے لہذا (فطرى طور پر) اس حكم (ان دونوں كي
اطاعت كےحكم) كومما ثلت پر حمل كياجائےگايعني كہاجائےگايہ حكم ان دوسےمخصوص نہيں
ہے بلكہ جو شخص بھي ان كے مثل ہوگا (روايت نقل كرنے اور فقاہت كے اعتبار سے) اس كا حكم اور فتويٰ بھي حجّت ہے، لہذا ان دو افراد سے تجاوز كيا جائے گا ليكن تجاوز فقط ان حدود ميں كيا جائے گا جہاں عرفي اعتبار سے موارد ميں فرق كا احتمال نہ ديا جائے (مثلاً عرف كہے ان كا حكم اورفتويٰ فلاں خصوصيات كي وجہ سے حجّت تھا ليكن آپ جن افراد كے حكم اور فتويٰ كو حجّت قرار دينا چاہتے ہيں ان ميں وہ خصوصيات نہيں پائي جاتيں) ليكن مجتہد متجزى كي نسبت فرق كا احتمال پايا جاتا ہے (لہذا اس كا حكم اور فتويٰ حجّت نہيں ہوگا)
پس واضح ہوگيا كہ حكم كے نافذ ہونے اور فتويٰ كے حجّت ہونے كے لئے شرط ہے كہ شخص تمام ابواب ميں درجہ اجتہاد پر فائز ہو ليكن جس باب ميں حكم كرنا چاہتا ہے اس كے علاوہ باقي ابواب ميں عملي طور پر اجتہاد اور استنباط حكم كرنا شرط نہيں ہے، كيونكہ تمام ابواب ميں اجتہاد كي صلاحيت كا پايا جانا كافي ہے و لو عملي طور پر باقي ابواب ميں اجتہاد و استنباط نہ كرے، تمام ابواب ميں درجہ اجتہاد پر فائز ہونا اس لئے شرط تھا تاكہ اعتماد حاصل ہو سكے كہ اس نے صحيح فقہي موقف اپنايا ہے، اور يہ اعتماد اس صورت ميں بھي حاصل ہوتا ہے جب شخص تمام ابواب ميں درجہ اجتہاد پر فائز ہو لہذا ضرورى نہيں كہ باقي ابواب ميں بھي عملي طورپر اجتہاد استنباط كرے ۔
نواں ضميمہ
مسلمانوں اور شيعوں كے نزديك نبي اورامام كي بے قيد و شرط اطاعت كا مطلب يہ نہيں كہ نبي اورامام عليہ السلام كي بيعت كي جائےتاكہ ان كي اطاعت واجب ہو، بلكہ اسلام اور مكتب شيعہ ايمان ركھتے ہيں كہ بيعت سے پہلے بھي نبي اورامام عليہ السلام كي اطاعت واجب ہے۔
جن امور ميں خواتين نے نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي بيعت كي (چنانچہ آيت مباركہ سے ظاہر ہوتاہے) وہ امور واجب احكام تھے جنہيں نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فقط ولّي امر كے عنوان سے نہيں بلكہ مبلغ دين كے عنوان سے بيان كيا وہ احكام اس قسم كے تھے، كسي كو خدا كا شرىك نہ ٹھہركيا جائے، قتل، چورى اور زنا سے اجتناب كي جائے ۔بے شك ان امور كا واجب ہونا بيعت كا پر موقوف نہيں ہے (بلكہ بيعت سے پہلے بھي ان كا وجوب ثابت ہے مثلاً بيعت سے پہلے شرك، زنا اور چورى سے بچنا واجب ہے) ليكن اگر فرض كيا جائے كہ معصوم كي بيعت واجب كي قيد ہے (واجب سے مراد معصوم سے بعنوان ولي جارى ہونے والے احكام كي اطاعت ہے) وجوب كي قيد نہيں ہے تو اسے دليل اور قرىنہ نہيں بنايا جا سكتا كہ ولايت فقيہ كے لئے بيعت شرط ہے تاكہ ثابت ہو سكے كہ فقہاء ميں سے ولّي امر كا انتخاب امت كے ہاتھ ميں ہے، امت جس كي بيعت كرے وہي ولّي امر قرار پائے گا ۔
بيعت كو شرط قرار دينے كے لئے سيرت
سے استدلال بعض بيانوں اور بعض طرىقوں كے مطابق اس قول كے حق ميں جائے گا كہ”نصوص كے ذرىعہ ثابت شدہ ولايت فقيہ كے عملي ہونے كے لئے بيعت شرط ہے،، جب كہ بعض بيانوں كے مطابق سيرت سے استدال اس قول كے حق ميں جائے گا كہ”خود بيعت كے ذرىعہ ولايت عطا كي جاتي ہے اور ولايت سے مربوط كسي اور نص كي ضرورت نہيں ہے جس كے ذرىعہ سے ولايت ثابت كي جائے ۔
وضاحت
سيرت سےدرج ذيل تين بيانوں ميں سےكسي ايك بيان كےذرىعےاستدال كياجاسكتا ہے:
پہلا بيان
سيرت اس نكتہ پر قائم تھي كہ جن افراد كي ولايت نص كے ذرىعے ثابت ہو چكي تھى، ان ہي كي بيعت كي جاتي تھي جيسے نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومين عليھم السلام، يہ بيان اس قول كے حق ميں ہے كہ” ولايت فقيہ كے لئے بيعت شرط ہے“يعني جب تك شخص كي بيعت نہ كي جائے اسے ولايت حاصل نہيں ہوگي كيونكہ شرط مفقود ہوگي۔
ليكن آپ جان چكے كہ نبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اورامام معصوم عليہ السلام كي بيعت ان كي ولايت كے مكمل ہونے كے لئے شرط نہيں تھي بلكہ جو كچھ واجب تھا (يعني ان كي اطاعت) بيعت اس پر عمل كرنے كا عہدپيمان تھا (يعني اطاعت بيعت سے پہلے بھي واجب تھي بيعت كے ذرىعے فقط عہدو پيمان كي تجديد كي جارہي تھي) اس پيمان كے ذرىعے ضميروں كو جھنجھوڑا جاتا تھا اور تاكيد كي جاتي تھي كہ قائد كي اطاعت و پيروي كي جائے ۔
دوسرا بيان
مسلمانوں كي سيرت يہ تھي كہ ايسے شخص كي بيعت كرتے تھے جو خدا كي طرف سے معّين نہيں ہوا تھا در حقيقت اسي بيعت كے ذرىعے اس شخص كو ولايت عطا كي جاتي تھي جس كے ہاتھ پر بيعت كي جاتي تھي ۔
لہذايہ دليل ہے كہ اس شخص سے متعلق كسي قسم كي نص موجود نہيں تھي بلكہ بيعت ہي كے ذرىعے اسے ولايت عطا كي جاتي تھى، درست ہےكہ جن خلفاء كي بيعت كي گئي وہ شيعہ عقيدے كے مطابق بيعت كے اہل اور مستحق نہيں تھے، ان ميں علم، عدالت، لياقت و صلاحيت جيسي شرائط نہيں پائي جاتي تھيں ياكيونكہ امام معصوم عليہ السلام موجود تھےلہذا كسي اورشخص كي نہيں تھي مگر وہ شخص جسے معصوم نےمعين فرمايا ہواور وہ شخص عالم، عادل لائق اور با صلاحيت بھي ہو، (يعني اس كي بيعت كي جا سكتي تھي ۔)
اس بيعت كے بارے ميں تو يہ كہا جا سكتا ہے كہ مسلمانوں نے مصداق ميں خطاء كي ليكن سيرت كي دلالت اس قانون پر بدستور باقي ہے۔ كہ جس شخص ميں شرائط موجود تھيں اسے بيعت كے ذرىعے ولايت عطا كي جاتي تھي ۔
خواہ يہ سيرت متشرعہ (شرعيت كے پابند لوگوں كي سيرت) يا سيرت عقلاء (عقلاء كي سيرت) تھي اور شارع كي طرف سے اسے ٹھكرايا نہيں گيا بلكہ شارع نے اس كي تائيد بھي كي ہے ۔ چنانچہ بيعت توڑنے كو حرام قرار دينے والي روايات اسي چيزپر دلالت كرتي ہيں ۔
اس تائيد كو بھي تقيہ پر حمل كيا جائے گا يعني معين مصداق پر تطبيق كرنےميں تقيہ اختيار كيا گيا، ليكن پھربھي يہ سيرت اس قانون (كہ بيعت كے ذرىعے ولايت عطا ہوتي ہے) كے صحيح ہونے پر بدستور دلالت كرتي ہے ۔
ليكن ہم علم اصول فقہ ميں ثابت كر چكے ہيں مدلول مطابقي ساقط ہونے كے بعدسيرت كے تحليلي جزء اور مدلول التزامي سے تمسك نہيں كيا جا سكتا ۔
تيسرا بيان
يہ ثابت ہے كہ روايات كے زمانے ميں مسلمانوں كي عملي سيرت بيعت پر قائم تھي خواہ ايسے شخص كے ہاتھ پر بيعت كہ جس كي ولايت نص كے ذرىعے ثابت ہو چكي تھي خواہ اس كے علاوہ كسي اور شخص كے ہاتھ پر بيعت، لہذا يہ امر سبب بنتا ہے كہ جہاں پر بيعت نہ كي گئي ہو ولايت كي دليل كا اطلاق اس فرض كو شامل نہ ہو اور اسي طرح يہ امر موجب بنتا
ہے كہ عرفي طور پر ولايت كي دليل كا مفہوم يہ ہوكہ بيعت اس لئے واجب ہے تاكہ وہ شخص ولي بن سكے، يہ بيان ان لوگوں كے حق ميں ہے جو اعتقاد ركھتے ہيں كہ جب شخص كي ولايت نص كے ذرىعے ثابت ہو جائے اس كي ولايت كے لئے بيعت شرط ہے ۔ (يعني بيعت كے ذرىعے ولايت عطانہيں كي جاتي ليكن ولايت كے لئے بيعت شرط ہے)
جواب: جب فرض يہ ہے كہ يا بيعت كے ذرىعے اس شخص كو ولايت عطا كي جاتي ہے جس كي ولايت پر نص نہ ہو يا يہ بيعت اس شخص كي اطاعت كے واجب ہونے كي مزيد تاكيد كرتي ہے اور ضمير و وجدان كو اس كي اطاعت كرنے پر اكسانے كا سبب بنتي ہے، تو اس طرح كي سيرت اس انصراف اورعدم شمول كا سبب نہيں بن سكتى، اس امر سے غفلت نہ برتي جائے كہ اگر سيرت يا كسي اور دليل سے ثابت كر لے كہ بيعت ولايت فقيہہ كے لئے شرط ہے يا بيعت ہي كے ذرىعے ولايت عطا ہوتي ہے تو در اصل اس كي باز گشت ووٹنگ اور انتخاب كے مسئلہ كي طرف ہے لہذا وہي اشكال سامنےآئيگا جسے ہم شروع بحث ميں ذكر كر چكے ہيں كہ اسلامي شرىعت نے اس انتخاب كي تفصيلات اور شرائط بيان نہيں فرمائيں، مثلاً بيان نہيں كيا كہ كيا امت كي اكثرىت كا بيعت كرنا شرط ہے يا فقط ذمہ دار اور بر جستہ افراد كا بيعت كرنا كافي ہے؟ يہ بھي بيان نہيں كيا كہ وہ ذمہ دار اور بر جستہ افراد كون ہيں؟ يا يہ كہ كيا كچھ لوگوں كا بيعت كر لينا اہميت ركھتاہے جس كے ذرىعے معاشرہ كے امور سنبھالنے اور زمام امور سنبھالنے كي طاقت و قدرت حاصل ہو سكے، يا كوئي اور صورت؟
يہ بھي بيان نہيں ہوا كہ اختلاف كي صورت ميں كميت و كثرت كو معيار قرار ديا جائے گا يا كيفيت كو؟ اوراس طرح كے دوسرى سوالات كہ جن كا جواب قران و سنت ميں موجود نہيں ہے ۔
دسواں ضميمہ
ليكن جب ہم فرض كرىں كہ يہ اجتماعي ضرورت فقيہ كو معين كرنے كے ذرىعے پورى نہيں ہوتي كيونكہ مثلاً فقيہ كے پاس طاقت وقدرت (اقتدار) اورسائل نہيں ہيں يعني وہ اپنےاحكام كو معاشرہ ميں نافذ نہيں كر سكتا، اورامت بھي اس كي پيروي نہيں كرتي تو اس كام كے فوائد شخصي نوعيت كے ہوں گے مثلاً كوئي شخص اس سے راہنمائي ليتے ہوئے اپني ذمہ دارى سے سبكدوش ہو سكتا ہے ۔
اس قسم كي ولايت ثابت كرنے ميں اشكال ہے، اوراس اشكال كا منبع اور سر چشمہ يہ ہے كہ جب ولي امر كي اطاعت كا حكم كيا جاتا ہے تو عرفي طور پر (مناسبت حكم و موضوع كے ذرىعے) اس كا مفہوم يہ ہے كہ ان امور ميں ولي كي اطاعت ضرورى ہے جن امور ميں عام طور پر ولّي امر كي طرف رجوع كرنے كي ضروت ہوتي ہے تاكہ نزاع اور جھگڑوں كو ختم كيا جا سكے، يا اجتماعي مصلحت كا تقاضا يہي ہوتاہے، يا شخص ميں كوئي كمي اورنقص پايا جاتا ہے، يا عنوان ميں نقص پايا جاتا ہے جيسے سفيہ (كم عقل اور نا پختہ) كے ساتھ معاملہ كرنا، غرىب و نادار لوگوں كا عنوان، مسجد كا عنوان (وہ مسجد جو وقف شدہ اموال كيمالك ہو) وغيرہ ۔عرف يہ مفہوم نہيں سمجھتا كہ فقط شخصي مصلحتوں ميں ولي كي اطاعت ضرورى ہے مثلاً ولي تشخيص ديتا ہے كہ ميرى شخصي مصلحت يہ ہے كہ ميں فلاں دن سفر نہ كروں، ولايت كے دلائل كا اطلاق ولي كو اس قسم كي ولايت عطا نہيں كرتا تاكہ وہ مجھے اس دن سفر نہ كرنے كا حكم دے سكے، يہ نہيں كہا جا سكتا كہ كيونكہ اس قسم كي ولايت نبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے لئے ثابت ہے جو مومنين كي جانوں پر خود ان سے زيادہ تصرف كا حق ركھتے ہيں، يا كيونكہ يہ حق ائمہ معصومين عليھم السلام كے لئے ثابت ہے پس فقہاء كو بھي اس قسم كي ولايت حاصل ہے كيونكہ يہ امور اس نوعيت كے نہيں جن ميں عام طور پر ولّي امر كي طرف رجوع كيا جاتا ہے پس فقيہ كو ولايت عطا كرنے والے عام دلائل، حكم و موضوع كي مناسبت سے اس فرض اوراس صورت كو شامل نہيں ہوتے، خصوصاً اگر ہمارى دليل اس قسم كي دليل ہو جس ميں اطلاق اس طرىقہ سے ثابت كيا جائے”جب متعلق محذوف ہو اور قدر متيقن بھي نہ پائي جائے تو متعلق كا محذوف ہونا و شمول عموم كا فائدہ ديتا ہے” يا مناسبت حال كي وجہ سے عموم ثابت كيا جائے پس اس صورت ميں اطلاق كا نہ ہونا زيادہ واضح ہے ۔بنا بر اين ہم كہيں گے: وقت معين كرنے جيسا موضوع، شخصي مصلحتوں اور شخصي تصرفات ميں داخل ہوگا جن ميں فقيہ كو ولايت حاصل نہيں ہے، بشرط كہ اس موضوع پر اتحاد يكجہتي جيسي مصلحت مرتب نہ ہو اور فقيہ كے پاس سائل موجود ہونے كي صورت ميں اس پر دوسرى اجتماعي مصلحتيں مرتب نہ ہوں ۔
ليكن چاند كي پہلي تارىخ اور مہينوں كا وقت معين كرنے كے سلسلہ ميں يہ كہتے ہوئے اشكال كو بر طرف كيا جا سكتا ہے كہ مذكورہ حكم اس فرض (جس ميں اتحاد و يكجہتي جيسي اجتماعي مصلحتيں پائي جاتي ہيں) كے علاوہ باقي فرضوں ميں ولي كي اطاعت كا حكم دينے والي آيت مباركہ كے ذرىعے تو ثابت نہيں كيا جا سكتا ۔
ليكن احمد بن اسحق كي روايت كے اطلاق سے ثابت كيا جا سكتا ہے ۔ كيونكہ درج ذيل دو نكات كو مدنظر ركھتے ہوئے ثابت كيا جا سكتا ہے مجموعي طور پر درج ذيل دو نكات كافي ہيں تاكہ آيہ مباركہ كے اطلاق كے ذرىعے امور ميں سے كسي امر ميں ولايت ثابت كي جا سكے اور آيہ مباركہ كا اطلاق اس صورت سے منصرف نہ ہو يعني اس صورت كو شامل ہوس، اور اس صورت كے علاوہ كوئي اور صورت قدر متيقن نہ بن سكے اور متعلق كے حذف ہونے كي مدد سے اطلاق كي راہ ميں ركاوٹ ايجاد نہ كر سكے ۔
پہلا نكتہ
اس وقت ان امور ميں ولي كي طرف رجوع كرنا رائج تھا، وقت كي تعيين اور چاند كي پہلي تارىخ ثابت ہونے جيسے امور ميں يہ روشن يقيني طور پر پائي جاتي تھي ۔
دوسرا نكتہ
صاحبان ولايت اور لوگوں ميں اس روش كا رواج صغرىٰ ميں خطا كي بنياد پر تھا كيونكہ حكمران زبردستي امامت كي قميص پہن ليتا تھا (اپنےآپكو امام خيال كرتا تھا) اور يہ رواج كبرىٰ ميں خطا كي بنياد پر نہيں تھا، حكمران خيال كرتے تھے كہ ان كے لئے وہ حق حاصل ہے حتيٰ جو حق اس حكمران كے لئے بھي ثابت نہيں تھا جس كے پاس وسائل موجودتھے، يہ چيز بھي ثابت شدہ ہے، كيونكہ كوئي شك نہيں چاند كي پہلي تارىخ ثابت ہونے كا اعلان اس امام حق كا حق ہے جس كے پاس طاقت و قدرت ہو اور وسائل ہوں ۔
چنانچہ شيخ كليني نے صحيح سند كے ساتھعن محمد بن قيس (عليٰ اختلاف يسير جداً في العبارة) عن ابي جعفر عليه السلام قال: اذا شهد عند الامام شاهدان انهما رايا الهلال منذ ثلاثين يوما امر الامام بالافطار في ذلك اليوم اذا كانا شهدا قبل زوال الشمس، فان شهدا بعد زوال الشمس امر الامام بافطار ذلك اليوم و اخر الصلاة الي الغد فصلي لهم،
اگر دو افراد امام كے سامنے گواہي ديں كہ ہم نے تيس دن پہلے چاند ديكھا تھا (يعني تيس دن مكمل ہو چكے ہيں اور آج پہلي تارىخ ہے) اگر وہ زوالآفتاب سے پہلے گواہي ديں تو امام حكم كرىں گے كہ آج روزہ نہ ركھا جائے ليكن اگر ظہر كے بعد گواہي ديں تو امام حكم كرىں گے كہ آج روزہ نہ ركھا جائے ليكن نماز (عيد) كل تك موخر كرىں گے اور (كل) نماز پڑھائيں گے، يہ اس صورت ميں جب ولايت فقيہ كي دليل احمد بن اسحق كي روايت ہو، ليكن اگر ولايت فقيہ كي دليل اسحق بن يعقوب كي توقيع ہو (اگر اس توقيع كي سند صحيح ہو) اور ہم امام عليہ السلام كے قول ”فانهم حجّتي عليكم
" كے اطلاق سے استفادہ كرتے ہوئے استدال كرىں جو اطلاق اس طرح ثابت ہو كہ امام عليہ السلام كا ظاہر حال دلالت كرتا ہے كہ فقيہ اور حديث كا راوي ان تمام زمانوں ميں امام كا نائب اور نمائندہ ہے جن زمانوں ميں امام عليہ السلام كے لئے يہ حق ثابت ہے ۔
يہ گذشتہ دو نكات كے علاوہ اس پر بھي موقوف ہے كہ ہم ثابت كر چكے ہوں كہ رويت ہلال كے بارى ميں حكم كرنا امام عليہ السلام كا حق ہے ۔ولو امام كے پاس اقتدار نہ ہو اور امام كے اس حكم پر مطلوبہ اجتماعي اثربھي مرتب نہ ہو ۔
اگر امام رويت ہلال كا حكم كرىں تو امام كا حكم استصحاب پر مقدم ہے اس سے قطع نظر كہ كيونكہ امام عليہ السلام معصوم ہيں لہذا امام كا حكم علم كا سبب بنتا ہے اوراس كے ذرىعے واقع امر كشف ہوتا ہے لہذا استصحاب يا بينہ كے ذرىعہ حاصل ہونے والے علم كا موضوع ختم ہو جائے گا اسے پہلے مرحلہ ميں ثابت كرنا ضرورى ہے تاكہ ثابت كيا جا سكے كہ يہ امام كا حق ہے ۔
لہذا امام عليہ السلام كے قول ((فانهم حجّتي عليكم
)) كا اطلاق اس مورد كو بھي شامل ہوگا جو قول دلالت كرتا ہے كہ جہاں پرامام (كا قول) حجّت ہے وہاں پر فقيہ اور روايت نقل كرنےوالے راوي كا قول بھي حجت ہے، اوراسےمحمد بن قيس كي روايت كےاطلاق كے ذرىعے ثابت كيا جائے گا ۔
البتہ اگر ہم قائل نہ ہوں كہ يہ حكم اس امام سے مخصوص ہے جس امام كے پاس اپنا حكم نافذ كرنے كے لئے قدرت و طاقت موجود ہو اس پر قرىنہ يہ ہے كہ امام عليہ السلام نے روزہ نہ ركھنے اور عيد ادا كرنے كا حكم ديا ہے (اورىہ حكم اس وقت عملي طور پر نافذ ہو سكتا ہے جب امام كے پاس اپنا حكم نافذ كرنے كي طاقت و قدرت (اقتدارہو) كيونكہ آج كل تو رائج ہے كہ علماء نماز عيد پڑھا سكتے ہيں اور اگر ان كے پاس اقتدار نہ ہو اور اپنا حكم نافذ كرنے كي قدرت بھي نہ
ركھتے ہوں تب بھي اعلان كر سكتے ہيں كہ آج روزہ نہ ركھا جائے ليكن اس زمانے ميں ايسا نہيں تھا (بلكہ فقط وہ امام اس كا حكم ديتا تھا جس كے پاس اپنا حكم نافذ كرنے كے لئے طاقت و قدرت موجود ہوتي تھي ۔)
بعض اوقات كہا جاتا ہے: لفظ امام (عرف كے نزديك اس جملہ كو قرىنہ قرار ديتے ہوئے) اس امام كي طرف انصراف ركھتا ہے جس كے پاس طاقت و قدرت ہو، يا كم از كم يہ كہا جاتا ہے كہ لفظ امام اس اعتبار سے مجمل ہے (يعني يا ہر امام پر دلالت كرتا ہے يا فقط اس امام پر دلالت كرتا ہے جس كے پاس قدرت موجود ہو)
گيارہواں ضميمہ
علاوہ براين ہم جان چكے ہيں كہ ولايت كي دليل كے اطلاقات فقط مقدمات حكمت كے ذرىعے ثابت كئے جائيں تو نامكمل ہيں بلكہ مقام ميں پائي جانے والي مناسبتوں، متعلق كے محذوف ہونے اور قدر متيقن موجود نہ كے ذرىعے ہم نے ولايت كي دليل كے اطلاقات كو مكمل كيا تھا، واضح ہے كہ اس قسم كا اطلاق اس صورت ميں نامكمل ہوگا جب اس اطلاق سے كسي كام كي حرمت يا وجوب پر دلالت كرنے والي دليل تعارض كرے جب كہ يہ حرمت اور وجوب ولي فقيہ كے حكم كرنے سے پہلے ثابت ہو ۔
ہاں بعض اوقات حاكم (ولي فقيہ) كاالزامي حكم كے موضوع كو تبديل كر ديتا ہے۔
لہذا حاكم كا حكم نافذ ہوتا ہے، ہم اس كي وضاحت درج ذيل دو مثالوں كے ذرىعے كرتے ہيں:
۱) اگر حاكم كے حكم كے ذرىعے يتيم كامال مورد معاملہ (خرىد وفروخت) قرار پائے تو جس شخص كو حاكم كے حكم كا خطا پر مبني ہونا معلوم ہو جائے وہ اس مال كو خرىد سكتا ہے كيونكہ بيع كا موضوع درست ہونے اوراس مال كي خرىدارى جائز ہونے كے لئے صاحب مال كے ولي (سرپرست) كا راضي ہونا كافي ہے، يہاں پر بھي ولي (حاكم) اس مال كي خرىد و فروخت پر راضي ہے ولو اس نے يہ موقف اپنانے ميں خطا كي ہے ۔
۲) اگر حاكم جہاد كا حكم دے جب كہ شخص كا عقيدہ يہ ہو كہ جہاد حرام ہے كيونكہ وہ جانتا ہے كہ موجودہ شرائط ميں جہاد كي وجہ سے مسلمانوں كو پہنچنے والے نقصانات خود جہاد كے فوائد اور مصلحتوں سے زيادہ ہيں، ليكن وہ شخص ديكھتا ہے كہ كيونكہ حاكم نے جہاد كا حكم صادر كر ديا ہے لہذا يہ نقصانات بہر حال يقيني ہيں كيونكہ معاشرى كي اكثرىت ان نقصانات سے بے خبر ہے، لہذا وہ حاكم كے حكم كو عملي جامہ پہنائيں گے بنا بر اين اقليت كي مخالفت ان نقصانات ميں كمي كا سبب نہيں بن سكتي بلكہ ممكن ہے اقليت كي مخالفت مزيد نقصان كا سبب بنے كيونكہ اس كے نتيجہ ميں معاشرہ ميں تفرقہ اور اختلاف پيدا ہوگا ۔
جب صورتحال يہ ہو تو اس حرمت كا موضوع ختم ہو جائے گا جس كا يہ شخص عقيدہ ركھتا تھا لہذا اس شخص پر بھي حاكم كا حكم نافذ ہوگا، ليكن اگر حاكم كا حكم وجوب و حرمت كے لازمي حكم كے موضوع كو تبديل نہ كرے تو يہ حكم شخص كے وظيفہ و ذمہ دارى كو تبديل نہيں كر سكتا ہے (يعني وہ جس حكم كا معتقد تھا وہي حكم بر قرار رہے گا) فرق نہيں ہے كہ يہ حكم واقعي ہو يا ظاہرى جس كي فقيہ نے ولايتي حكم كے ذرىعے مخالفت كي ہے ۔
ہاں اگر حكم كاشف اس ظاہرى الزامي حكم كے ساتھ تعارض كرے جس كا شخص عقيدہ ركھتا ہے اور اس شخص كو علم بھي نہ ہو كہ حاكم كا حكم خطا پر مبني ہے يا اسے علم نہ ہو كہ جس دليل پر حاكم نے اعتماد كيا ہے وہ غلط ہے تو اس صورت ميں حاكم كا حكم اس پر بھي نافذ ہوگا اگر اس كا مورد عقيدہ ظاہرى حكم اصل كے ذرىعے ثابت ہوا ہو يا امارہ نہ ہونے كي صورت ميں ايسے ظن (دليل ظني) كے ذرىعے ثابت ہوا ہو كہ اس مورد ميں اس ظن كي پيروي واجب ہو، جيسے وہ موارد جن ميں ہميں سو فيصد يقين ہو كہ شارع حكم واقعي كے لئے اس حد تك اہميت كا قائل ہے كہ اگر حكم واقعي كو معين كرنے كے لئے امارہ نہ ہو تب بھي اس حكم واقعي كے مورد ميں ظن (ظني دليل) كا اتباع ضرورى ہے اس صورت ميں ولي امر كا حكم اصل يا اس ظّن پر مقدم ہوگا، كيونكہ ولي امر كا حكم واقع كو كشف كرنے كے لئے امارہ ہے اور شرعي امارات اصول اور اس قسم كے ظنّ پر مقدم ہيں، ليكن اگر حكم ظاہرى ايك اور شرعي امارہ كے ذرىعے ثابت ہوا ہو تو يہاں پر دو امارہ كے درميان تعارض پيش آجائے گا
الزامي (واجب يا حرام) حكم ظاہرى اور حاكم كے حكم ميں تعارض كي ايك اور مثال: حاكم حكم كرتا ہے كہ شوال كا چاند نظرآگيا ہے جب كہ شخص ماہ رمضان كي لقاء كا استصحاب جارى كرتا ہے، يہاں پر حكم ظاہرى (جو استصحاب كے نتيجہ ميں ہاتھ آيا ہے) يہ ہے كہ روزہ ركھنا واجب اور روزہ نہ ركھنا حرام ہے اور شخص يہ بھي نہيں جانتا كہ حاكم كا حكم يا حاكم كے حكم كا منبع و سرچشمہ خطا پر مبني ہے يہاں پر حاكم كا حكم ظاہرى وظيفہ پر مقدم ہے كيونكہ حاكم كا حكم امارہ ہے اور امارہ اصل پر مقدم ہے، البتہ اس مورد (چاند كي پہلي تارىخ) كے بارى ميں خاص روايت موجود ہے جو دلالت كرتي ہے كہ حاكم كا حكم نافذ ہے ۔جسے ہم ضميمہ نمبر۱ ۰ ميں ذكر كر چكے ہيں ۔
بارہواں ضميمہ
متعدد اصطلاحيں پائي جاتي ہيں جن ميں مغربي رنگ نظرآتا ہے، مناسب ہے كہ ان اصطلاحات كو تبديل كيا جائے يا جب مسلمان ان اصطلاحات كو استعمال كرىں توان كے مفاہيم كو تبديل كيا جائے (يعني مسلمان اس معني ميں يہ اصطلاحات استعمال نہ كرىں جس معني ميں مغربي مفكرىن استعمال كرتے ہيں بلكہ مسلمانوں كے ہاں ان اصطلاحات كے مفاہيم كو تبديل كيا جائے) ہم ان ميں سے بعض اصطلاحات كي طرف اشارہ كر رہے ہيں۔
۱) وطن: مغربي مفہوم كے مطابق درج ذيل بنيادوں پر وطن مختلف ہوتے ہيں: سر زمين، زبان، قوميت و نسل، پيمان معاشرت يا اس طرح كے اور امور اسلام ميں مندرجہ بالا امور كے اختلاف سے مختلف وطن وجود ميں نہيں آتے بلكہ پورا كرہ ارض (اپني تمام تر وسعتوں كے ساتھ) كسي قسم كي قيد و شرط اور حد بندي كے بغير اسلامي حكومت كي ملكيت ہے ۔
۲) استعمار: مغربيوں كے ہاں اس اصطلاح كا مغربي مفہوم بھي ان كي نظر ميں وطن كے مفہوم سے مربوط ہے، جب ان كے نزديك (سر زمين، زبان اور نسل كے اختلاف كي بنياد پر) مختلف وطن فرض كئے جاتے ہيں لہذا يہ كہا جاتا ہے فلاں اجنبي حكومت (ملك) نے اس دوسرى حكومت كو استعمار كيا ہے ليكن اسلامي عقيدہ يہ ہے كہ پورى كرہ ارض ميں زندگي گذارنے والے لوگ ايك ہي پرچم يعني توحيد كے پرچم كے سايہ ميں زندگي گذارتے ہيں اور كافر غاصب شمار ہوتا ہے خواہ وہ ظاہرى طور پر كسي ملك پر قبضہ ہي كيوں نہ كرلے، پس معركہ، كفر و اسلام كا معركہ ہے، بنا بر اين اگر ہم لفظ ,,استعمار،، استعمال كرىں تو ضرورى ہے كہ اس لفظ كے ساتھ لفظ ,,كافر،، كو ضميمہ كرىں يعني يوں كہيں ,,كافر استعمار،، تاكہ يہ اصطلاح مغربي مفہوم سے عارى اور پاك ہو جائے ۔
۳) استقلال: (خود مختارى) اس اصطلاح كا مغربي مفہوم بھي وطن كي اس اصطلاح سے مربوط ہے جس ميں مذكورہ بنيادوں پر مختلف وطن فرض كئے جاتے ہيں، ليكن اگر مسلمان اس اصطلاح كو استعمال كرنا چاہيں تو اس معني كا ارادہ كرنا ضرورى ہے كہ مسلمان كفر كے تسلط اور غلبہ كو قبول نہيں كرتے كيونكہ ,,اسلام كو سب پر برترى حاصل ہے، كسي كو اسلام پر برترى حاصل نہيں ہے ۔
۴) حرّيت (آزادي) يہ لفظ بھي اپنے مغربي مفہوم كے مطابق بہت سے انحرافات پر مشتمل ہے يعني صحيح اسلامي لائن سے انحراف ركھتا ہے
الف) اقتصادي آزادى: سرمايہ دارانہ اقتصادي نظام كي طرف اشارہ كرتي ہے جب كہ اسلام كے پاس اپنا مستقل اقتصادي نظام ہے جو سرمايہ دارانہ نظام اور اشتراكي نظام سے جدا اور مختلف ہے ۔
ب) شخصي آزادي كا مغربي مفہوم يہ ہے كہ شخص مكمل طور پرآزاد اور بے لگام ہے جو چاہے كرے بشرطيكہ اس كي آزادي دوسروں كي آزادي سے نہ ٹكراى، ليكن اسلام انسان كو ان حدود كے دائرى ميں آزادي عطا كرتا ہے جن حدود كو خدا وند متعال نے انساني اعمال و كردار ميں ضرورى قرار ديا ہے ۔
ج) فكرے آزادي سے متعلق اسلام كا نظرىہ يہ ہے كہ عقائد كے ميدان ميں فكرے آزادي كي كوئي گنجائش نہيں البتہ اسلام اس حد تك فكرے، آزادي كو قبول كرتا ہے جبرى طور پر كسي شخص كو كسي عقيدہ كا پابند نہيں بنايا جا سكتا ۔
ليكن انسان پر واجب ہے كہ صحيح اصول عقائد كے بارى ميں تحقيق و جستجو كرے، اس كام كو انجام دينے يا ترك كرنے ميں اسے يہ آزادي حاصل نہيں ہے كہ اگر چاہے تو صحيح اصول عقائد كے بارى ميں تحقيق كرے اور اگر چاہے تو يہ كام نہ كرے ۔
اگر وہ سوچ بچار كرے نتيجے ميں ايك ايسا عقيدہ اپنائے جو اسلام كے مخالف ہو تو وہ اپنے اس (غلط) عقيدہ كي ترويج ميں آزاد نہيں ہے اور اس عقيدہ كي وجہ سے ان حقوق سے بھي محروم ہو جائيگا جو مسلمانوں سے مخصوص ہيں ۔
د) سياسي آزادى: - اگر اس سے مراد دوسرى ممالك كے مقابلے ميں خود مختارى ہو تو اس كي بازگشت مذكورہ بالا عنوان,,استقلال،، كي طرف ہے ليكن سياسي آزادي كي وہ مقدار جو انتخاب اور راي گيرى ميں آزادي سے مربوط ہے اس كي بازگشت جمہورىت اور شورىٰ كے متعلق ہمارى بحثوں كي طرف ہوگي جس كے بارى ميں ہم نے تفصيلي طور پر بحث كي ہے ۔
۵) تقدير كا فيصلہ كرنے كا حق: اس عنوان كي بازگشت بھي آزادي كے عنوان كي طرف ہے، حقيقت يہ ہے كہ اسلام كا عقيدہ ہے فرد يا معاشرہ كي تقدير كا حق كائنات كے حقيقي مولي خالق كے ہاتھ ميں ہے وہي جاننے والا اور صاحب حكمت معبود ہے، فرد يا معاشرے كو تقدير كا حق حاصل نہيں ہے مگر ان حدود ميں جنھيں اسلامي تعليمات نے بشرىت كي تقدير كے لئے معين كيا ہے ۔
۶) جمہوريت: اس اصطلاح كا مغربي مفہوم سربراہ حكومت وغيرہ كا انتخاب، ووٹنگ اور اكثرىت كي راي پر عمل كرنا وغيرہ ہے، اس سلسلے ميں كوئي ايسي قيد و شرط نہيں ہے جس كا انسان اپنےآپكو پابند نہيں سمجھتا ۔
ليكن اسلام ميں امام معصوم عليہ السلام كي موجودگي ميں كسي قسم كے انتخابات اور ووٹنگ كے بغيرسربراہ حكومت خود معصوم عليہ السلام ہے جب كہ امام معصوم عليہ السلام كي غيبت كے زمانے ميں شورائي نظام يا ولايت فقيہ كي طرف رجوع كيا جائے گا، ان تفصيلات كے مطابق جن كے بارى ميں ہم تفصيلي بحث كر چكے ہيں ۔اور فقيہ كو يہ اختيار اور حق حاصل ہے كہ (اگر مصلحت كي تشخيص دے) تو اسلام احكام اور قران و سنت كي تعليمات كے دائرہ ميں انتخاب، ووٹنگ اور اكثرىت كي راي پر عمل كرنے كا حكم دے سكتا ہے ۔
وآخر دعوانا ان الحمد لله ربّ العالمين
____________________