توبہ آغوش رحمت

توبہ آغوش رحمت 0%

توبہ آغوش رحمت مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

توبہ آغوش رحمت

مؤلف: استادحسين انصاريان
زمرہ جات:

مشاہدے: 24432
ڈاؤنلوڈ: 5484

تبصرے:

توبہ آغوش رحمت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24432 / ڈاؤنلوڈ: 5484
سائز سائز سائز
توبہ آغوش رحمت

توبہ آغوش رحمت

مؤلف:
اردو

نعمتیں اور انسان کی ذمہ داری

( فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ حَلاَلاً طَیبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ إِنْ كُنْتُمْ إِیاهُ تَعْبُدُونَ ۔) (۱)

”لہٰذا اب تم اللہ کے دئے ہوئے رزق حلال و پاکیزہ کو کھاؤ اور اس کی عبادت کرنے والے بنو، اور اس کی نعمتوں کا شکریہ بھی ادا کرتے رھواگر تم خدا کے عبادت گزار ہو“۔

خداوند متعال نے اپنے خاص لطف و کرم، رحمت ومحبت اور عنایت کی بنا پر انسان کو ایسی نعمتوں سے سرفراز ہونے کا اھل قرار دیا جن سے اس کائنات میں دوسری مخلوقات یھاں تک کہ مقرب فرشتوںکو بھی ن ہیں نوازا۔

انسان کے لئے خداوندعالم کی نعمتیں اس طرح موجود ہیں کہ اگر انسان ان کو حکم خدا کے مطابق استعمال کرے تو اس کے جسم اور روح میں رشد و نمو پیدا ہوتا ہے او ردنیاوی اور اُخروی زندگی کی سعادت و کامیابی حاصل ہوتی ہے۔

قرآن مجید نے خدا کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کے بارے میں ۱۲ اھم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے:

۱۔ نعمت کی فراوانی اور وسعت۔

۲۔ حصول نعمت کا راستہ۔

۳۔ نعمت پر توجہ ۔

۴۔نعمت پر شکر۔

۵۔نعمت پر ناشکری سے پرھیز۔

۶۔نعمتوں کا بے شمار ہونا۔

۷۔نعمت کی قدر کرنے والے۔

۸۔نعمتوں میں اسراف کرنا۔

۹۔نعمتوں کو خرچ کرنے میں بخل سے کام لینا۔

۱۰۔نعمت کے چھن جانے کے اسباب و علل۔

۱۱۔اتمام ِنعمت ۔

۱۲۔نعمت سے صحیح فائدہ اٹھانے کا انعام۔

اب ھم قارئین کی توجہ قرآن مجید کے بیان کردہ ان عظیم الشان بارہ نکات کی طرف مبذول کراتے ہیں :

۱۔ نعمت کی فراوانی اور وسعت

زمین و آسمان کے در میان پائی جانے والی تمام چیزیں کسی نہ کسی صورت میں انسان کی خدمت اور اس کے فائدے کے لئے ہیں ، چاند، سورج، ایک جگہ رکنے والے اور گردش کرنے والے ستارے، فضا کی دکھائی دینے والی اور نہ دکھائی دینے والی تمام کی تمام چیزیں خداوندعالم کے ارادہ اور اس کے حکم سے انسان کو فائدہ پہنچارھی ہیں ۔

پھاڑ، جنگل، صحرا، دریا، درخت و سبزے، باغ، چشمے، نھریں، حیوانات اور دیگر زمین پر پائی جانے والی بھت سی مخلوقات ایک طرح سے انسان کی زندگی کی ناؤ کو چلانے میں اپنی اپنی کارکردگی میں مشغول ہیں ۔

خداوندعالم کی نعمتیں اس قدر وسیع، زیادہ، کامل اور جامع ہیں کہ انسان کو عاشقانہ طور پر اپنی آغوش میں بٹھائے ہوئے ہیں ، اور ایک مھربان اور دلسوز ماں کی مانند، انسان کے رشد و نمو کے لئے ھر ممکن کوشش کررھی ہیں ۔

انسان کو جن ظاھری و باطنی نعمتوں کی ضرورت تھی خداوندعالم نے اس کے لئے پھلے سے ہی تیار کررکھی ہے، اور اس وسیع دسترخوان پر کسی بھی چیز کی کمی ن ہیں ہے۔

چنانچہ قرآن کریم میں اس سلسلے میں بیان ہوتا ہے:

( الَمْ تَرَوْا انَّ اللهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْارْضِ وَاسْبَغَ عَلَیكُمْ نِعَمَهُ ظَاهرةً وَبَاطِنَةً ) ۔(۲)

”کیا تم لوگوں نے ن ہیں دیکھا کہ اللہ نے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو تمھارے لئے مسخر کر دیا ہے اور تمھارے لئے تمام ظاھری اور باطنی نعمتوں کو مکمل فرمایااور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو علم ہدایت اور روشن کتا ب کے بغیر بھی خدا کے بارے میں بحث کرتے ہیں “۔

۲۔ حصول نعمت کا راستہ

رزق کے حصول کے لئے ھر طرح کا صحیح کام اور صحیح کوشش کرنا؛ بے شک خداوندعالم کی عبادت اور بندگی ہے؛ کیونکہ خدائے مھربان نے قرآن مجید کی بھت سی آیات میں اپنے بندوں کو زمین کے آباد کرنے اور حلال روزی حاصل کرنے، کسب معاش، جائز تجارت اورخرید و فروخت کا حکم دیا ہے، اور چونکہ خداوندعالم کے حکم کی اطاعت کرنا عبادت و بندگی لہٰذا اس عبادت و بندگی کا اجر و ثواب روز قیامت (ضرور) ملے گا۔

تجارت، خرید و فروخت، اجارہ (کرایہ)، وکالت، مساقات (سینچائی)، زراعت، مشارکت، صنعت، تعلیم، خطاطی، خیاطی، رنگ ریزی، دباغی (کھال کو گلانا) اور دامداری(بھیڑ بکریاں وغیرہ پالنا)

جیسے اسلامی موضوعات اور انسانی قوانین کی رعایت کرتے ہوئے مادی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنے والاانسان خدا کی نظر میں محبوب ہے، لیکن ان راستوںکے علاوہ حصول رزق کے لئے اسلامی قوانین کے مخالف اور اخلاقی و انسانیت کے خلاف راستوں کو اپنانے والوں سے خدا نفرت کرتاھے۔

قرآن مجید اس مسئلہ کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

( یاایها الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَاكُلُوا امْوَالَكُمْ بَینَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ انْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ ) ۔(۳)

”اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناحق طریقہ سے نہ کھایا کرو۔مگر یہ کہ باھمی رضامندی سے معاملہ کرلو “۔

( یاایها النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِی الْارْضِ حَلاَلًا طَیبًا وَلاَتَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِینٌ ) ۔(۴)

”اے انسانو! زمین میں جو کچھ بھی حلال و پاکیزہ ہے اسے استعمال کرو اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو بے شک وہ تمھاراکھلا دشمن ہے “۔

بھر حال خداوندعالم کی طرف سے جو راستے حلال اور جائز قرار دئے گئے ہیں اگر ان جائز اور شرعی طریقوں سے روزی حاصل کی گئی ہے اور اس میں اسراف و تبذیر سے خرچ ن ہیں کیا گیا تو یہ حلال روزی ہے اور اگر غیر شرعی طریقہ سے حاصل ہونے والی روزی اگرچہ وہ ذاتی طور پر حلال ہو جیسے کھانے پینے کی چیزیں؛ تو وہ حرام ہے اور ان کا اپنے پاس محفوظ رکھنا منع ہے اور ان کے اصلی مالک کی طرف پلٹانا واجب ہے۔

۳۔ نعمت پر توجہ

کسی بھی نعمت سے بغیر توجہ کئے فائدہ اٹھانا، چوپاؤں، غافلوں اور پاگلوں کاکام ہے، انسان کم از کم یہ تو سوچے کہ یہ نعمت کیسے وجود میں آئی ہے یا اسے ھمارے لئے کس مقصد کی خاطر پیدا کیا گیا؟ اس کے رنگ، بو اور ذائقہ میں کتنے اسباب و عوامل پائے گئے ہیں ، المختصر یہ کہ بغیر غور و فکر کئے ایک لقمہ روٹی یا ایک لباس، یا زراعت کے لائق زمین، یا بھتا ہوا چشمہ، یا بھتی ہوئی نھر، یا مفید درختوں سے بھرا جنگل، اور یہ کہ کتنے کروڑ یا کتنے ارب عوامل و اسباب کی بنا پر کوئی چیز وجود میں آئی تاکہ انسان زندگی کے لئے مفید واقع ہو ؟!!

صاحبان عقل و فھم اور دانشور اپنے پاس موجود تمام نعمتوں کو عقل کی آنکھ اور دل کی بینائی سے دیکھتے ہیں تاکہ نعمت کے ساتھ ساتھ، نعمت عطا کرنے والے کے وجود کا احساس کریں اور نعمتوںکے فوائد تک پہنچ جائیں، نیز نعمت سے اس طرح فائدہ حاصل کریں جس طرح نعمت کے پیدا کرنے والے کی مرضی ہو۔

قرآن مجید جو کتاب ہدایت ہے ؛اس نے لوگوں کوخداوندعالم کی نعمتوں پر اس طرح متوجہ کیاھے:

( یاایهاالنَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیكُمْ هل مِنْ خَالِقٍ غَیرُاللهِ یرْزُقُكُمْ مِنْ السَّمَاءِ وَالْارْضِ لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ فَانَّی تُؤْفَكُونَ ) ۔(۵)

”اے لوگو! اپنے اوپر (نازل ہونے والی) اللہ کی نعمت کو یاد کرو کیا، (کیا) اس کے علاوہ بھی کوئی خالق ہے ؟وھی تو تم ہیں آسمان اور زمین سے روزی دیتا ہے اس کے علاوہ کوئی خدا ن ہیں ، پس تم کس طرف بہکے چلے جارہے ہو“۔

جی ھاں! تمام نعمتیں اپنے تمام تر فوائد کے ساتھ ساتھ خداوندعالم کی وحدانیت کی دلیل، اس کی توحید ذاتی کاثبوت اور اسی کی معرفت و شناخت کے لئے آسان راستہ ہے۔

۴۔ نعمت پر شکر

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شکر کے معنی یہ ہیں کہ نعمت سے فائدہ اٹھانے کے بعد ”شکر لله “ (الٰھی تیرا شکر) یا ”الحمد لله“ کہہ دیا جائے، یا اس سے بڑھ کر ”الحمد لله رب العالمین“ زبان پر جاری کردیا جائے۔

یاد رہے کہ ان بے شمار مادی اور معنوی نعمتوں کے مقابلہ میں اردو یا عربی میں ایک جملہ کہہ دینے سے حقیقی معنی میں شکر ن ہیں ہوتا، بلکہ شکر، نعمت عطا کرنے والی ذات کے مقام اور نعمت سے ھم آہنگ ہونا چاہئے، اور یہ معنی کچھ فعل و قول اور وجد بغیر متحقق ن ہیں ہوں گے، یعنی جب تک انسان اپنے اعضاء و اجوارح کے ذریعہ خداوندمتعال کا شکر ادا کرنے کے لئے ان افعال و اقدامات کو انجام نہ دے جن سے پتہ چل جائے کہ وہ پروردگارعالم کا اطاعت گزار بندہ ہے، پس شکر خدا کے لئے ضروری ہے کہ انسان ایسے امور کو انجام دے جو خدا کی رضایت کا سبب قرار پائے اور اس کی یاد سے غافل نہ ہونے دیں۔

کیا خداوندعالم کے اس عظیم لطف و کرم کے مقابلہ میں صرف زبانی طور پر”الٰھی تیرا شکر “یا ”الحمد للہ“ کہہ دینے سے کسی کوشاکر کھا جاسکتا ہے؟!

بدن، اعضاء و جوارح: آنکھ کان، دل و دماغ، ھاتھ، پیر، زبان، شکم، شھوت، ہڈی اوررگ جیسی نعمتیں یا کھانے پینے، پہننے اور سونگھنے کی چیزیں یا دیدہ زیب مناظر جیسے پھاڑ، صحرا، جنگل، نھریں، دریا اور چشمے یا پھلوں، اناج اورسبزیوں کی مختلف قسمیں اور دیگر لاکھوں نعمتیں جن پر ھماری زندگی کا دارومدار ہے، کیا ان سب کے لئے ایک ”الحمد لله“ کہنے سے حقیقی شکر ہوجائے گا؟ اور کیا اسلام وایمان، ہدایت و ولایت، علم و حکمت، صحت و سلامتی، تزکیہ نفس و طھارت، قناعت و اطاعت اور محبت و عبادت جیسی نعمتوںکے مقابلہ میں ”الٰھی تیرا شکر“ کہنے سے انسان خدا کا شاکر بندہ بن سکتا ہے؟!

راغب اصفھانی اپنی عظیم الشان کتاب ”المفردات“ میں کھتے ہیں :

اَصْلُ الشُّكْرِ مِنْ عَینٍ شَكْريٰ “۔(۶)

شکر کا مادہ ”عین شَكْريٰ“ھے؛ یعنی آنسو بھری آنک ہیں یا پانی بھرا چشمہ، لہٰذا شکر کے معنی ”انسان کا یاد خدا سے بھرا ہوا ہونا ہے اور اس کی نعمتوں پر توجہ رکھنا ہے کہ یہ تمام نعمتیں کس طرح حاصل ہوئیں اور کیسے ان کو استعمال کیاجائے“۔

خواجہ نصیر الدین طوسی علیہ الرحمہ، علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کی روایت کی بنا پر شکر کے معنی اس طرح فرماتے ہیں :

”شکر، شریف ترین اور بھترین عمل ہے، معلوم ہونا چاہئے کہ شکر کے معنی قول و فعل اور نیت کے ذریعہ نعمتوں کے مدّمقابل قرار پانا ہے، اور شکر کے لئے تین رکن ہیں :

۱۔ نعمت عطا کرنے والے کی معرفت، اوراس کے صفات کی پہچان، نیز نعمتوں کی شناخت کرنا ضروری ہے، اور یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ تمام ظاھری اور باطنی نعمتیں سب اسی کی طرف سے ہیں ، اس کے علاوہ کوئی حقیقی منعم ن ہیں ہے، انسان اور نعمتوں کے درمیان تمام واسطے اسی کے فرمان کے سامنے سرِتسلیم خم کئے ہیں ۔

۲۔ ایک خاص حالت کا پیدا ہونا، اور وہ یہ ہے کہ انسان عطا کرنے والے کے سامنے خشوع و خضوع اور انکساری کے ساتھ پیش آئے اور نعمتوں پر خوش رہے ، اور اس بات پر یقین رکھے کہ یہ تمام نعمتیں خدا وندعالم کی طرف سے انسان کے لئے تحفے ہیں ، جو اس بات کی دلیل ہیں کہ خداوندعالم انسان پر عنایت و توجہ رکھتا ہے، اس خاص حالت کی نشانی یہ ہے کہ انسان مادی چیزوں پر خوش نہ ہو مگر یہ کہ جن کے بارے میں خداوندعالم کا قرب حاصل ہو۔

۳۔ عمل، اور عمل بھی دل، زبان اور اعضاء سے ظاھر ہونا چاہئے۔

دل سے خداوندعالم کی ذات پر توجہ رکھے اس کی تعظیم اور حمدو ثناکرے، اور اس کی مخلوقات اور اس لطف و کرم کے بارے میں غور و فکر کرے، نیز اس کے تمام بندوں تک خیر و نیکی پہنچانے کا ارادہ کرے۔

زبان سے اس کا شکر و سپاس، اس کی تسبیح و تھلیل اور لوگوں کو امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرے۔

تمام ظاھری و باطنی نعمتوں کو استعمال کرتے ہوئے اس کی عبادت و اطاعت میںاعضاء کو کام میں لائے، اور اعضاء کو خدا کی معصیت و مخالفت سے روکے رکھے“۔

لہٰذا شکر کے اس حقیقی معنی کی بنا پر یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ شکر، صفات کمال کے اصول میں سے ایک ہے، جو صاحبان نعمت میں بھت ہی کم ظاھر ہوتے ہیں ، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَقَلِیلٌ مِنْ عِبَادِی الشَّكُورُ ) ۔(۷)

”اور ھمارے بندوں میں شکر گزار بندے بھت کم ہیں “۔

تمام نعمتوں کے مقابلہ میں مذکورہ معنی میں شکر واجب عقلی اور واجب شرعی ہے، اور ھر نعمت کو اسی طرح استعمال کرنا شکر ہے جس طرح خداوندعالم نے حکم دیا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ خداوندعالم کی کامل عبادت و بندگی حقیقی شکر کے ذریعہ ہی ہوسکتی ہے:

( فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ حَلاَلاً طَیبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ إِنْ كُنْتُمْ إِیاهُ تَعْبُدُونَ ) ۔(۸)

”لہٰذا اب تم اللہ کے دئے ہوئے حلال و پاکیزہ رزق کو کھاو اور اس کی عبادت کرنے والے ہو تو اس کی نعمتوں کا شکریہ بھی ادا کرتے رھو“-۔

( فَابْتَغُوا عِنْدَ اللهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ إِلَیهِ تُرْجَعُونَ ) ۔(۹)

”رزق خدا کے پاس تلاش کرواور اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکربجالاؤ کہ تم سب اسی کی بارگاہ میں پلٹادئے جاوگے“۔

مصحف ناطق حضرت امام صادق علیہ السلام شکر کے معنی بیان فرماتے ہیں :

شُكْرُ النِّعْمَةِ اجْتِنابُ الْمَحارِمِ وَتَمامُ الشُّكْرِ قَوْلُ الرَّجُلِ :الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰالَمینَ(۱۰)

” نعمتوں پر شکر بجالانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان تمام حرام چیزوں سے اجتناب کرے، اور کامل شکر یہ ہے کہ نعمت ملنے پر ”الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالَمینَ“ کھے“۔

پس نعمت کا شکر یہ ہے کہ نعمت کو عبادت و بندگی اور بندگان خدا کی خدمت میں خرچ کرے، لوگوں کے ساتھ نیکی اوراحسان کرے اور تمام گناھوں سے پرھیز کرے۔

۵۔ نعمت پر ناشکری سے پرھیز

بعض لوگ، حقیقی منعم سے بے خبر اورخداداد نعمتوں میں بغیر غور و فکر کئے اپنے پاس موجودتمام نعمتوں کو مفت تصور کرتے ہیں ، اور خودکو ان کا اصلی مالک تصورکرتے ہیں اور جو بھی ان کا دل اور ہوائے نفس چاھتا ہے ویسے ہی ان نعمتوں کو استعمال کرتے ہیں ۔

یہ لوگ جھل و غفلت اور بے خبری اور نادانی میں گرفتار ہیں ، خدائی نعمتوں کو شیطانی کاموں اور ناجائز شھوتوں میں استعمال کرتے ہیں ، اور اس سے بدتر یہ ہے کہ ان تمام خداداد نعمتوں کو اپنے اھل و عیال، اھل خاندان، دوستوں او ردیگر لوگوں کو گمراہ کرنے پر بھی خرچ کرڈالتے ہیں ۔

اعضاء و جوارح جیسی عظیم نعمت کو گناھوں میں، مال و دولت جیسی نعمت کو معصیت و خطا میں، علم و دانش جیسی نعمت کو طاغوت و ظالموں کی خدمت میںاور بیان جیسی نعمت کو بندگان خدا کو گمراہ کرنے میں خرچ کرڈالتے ہیں !!

یہ لوگ خدا ئی نعمتوں کی زیبائی اور خوبصورتی کو شیطانی پلیدگی اور برائی میں تبدیل کردیتے ہیں ، اور اپنے ان پست کاموں کے ذریعہ خود کو بھی اور اپنے دوستوں کو بھی جہنم کے ابدی عذاب کی طرف ڈھکیلے جاتے ہیں !

( الَمْ تَرَی إِلَی الَّذِینَ بَدَّلُوا نِعْمَةَ اللهِ كُفْرًا وَاحَلُّوا قَوْمَهم دَارَ الْبَوَارِجَهَنَّمَ یصْلَوْنَها وَبِئْسَ الْقَرَارُ ) (۱۱)

”کیاتم نے ان لوگوں کو ن ہیں دیکھا جنھوں نے اللہ کی نعمت کو کفران نعمت سے بدل دیا اور اپنے قوم کو ھلاکت کی منزل تک پہنچا دیا۔یہ لوگ واصل جہنم ہوں گے اور جہنم کتنا بُرا ٹھکانہ ہے “۔

۶۔ نعمتوں کا بے شمار ہونا

اگر ھم نے قرآن کریم کی ایک آیت پر بھی توجہ کی ہو تی تو یہ بات واضح ہوجاتی کہ خداوندعالم کی مخلوق اور اس کی نعمتوں کا شمار ممکن ن ہیں ہے، اور شمار کرنے والے چاھے کتنی بھی قدرت رکھتے ہوں ان کے شمار کرنے سے عاجز رہے ہیں ۔ جیسا کہ قر آن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلَوْ انَّمَا فِی الْارْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ ابْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللهِ إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَكِیمٌ ) (۱۲)

”اور اگر روئے زمین کے تمام درخت، قلم بن جائیں اور سمندر میں مزید سات سمندر اور آجائیں تو بھی کلمات الٰھی تمام ہونے والے ن ہیں ہیں ، بیشک اللہ صاحب عزت بھی ہے اور صاحب حکمت بھی “۔

ھمیں اپنی پیدائش کے سلسلے میں غور و فکر کرنا چاہئے اور اپنے جسم کے ظاھری حصہ کو عقل کی آنکھوں سے دیکھنا چاہئے تاکہ یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ خداوندعالم کی نعمتوں کا شمار کرنا ھمارے امکان سے باھر ہے۔

خداوندعالم، انسان کی خلقت کے بارے میں فرماتا ہے:

( وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِینٍ ) (۱۳)

”اور ھم ہی نے انسان کو گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے“۔

( ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِی قَرَارٍ مَكِینٍ ) (۱۴)

”پھر اسے ایک محفوظ جگہ پر نطفہ بناکر رکھا ہے“۔

( ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ انشَانَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللهُ احْسَنُ الْخَالِقِینَ ) (۱۵)

”پھر ھم ہی نے نطفہ کو جماھو اخون بنا یا اور منجمد خون کو گوشت کا لوتھڑا بنایا، پھر ھم ہی نے (اس) لوتھڑے میں ہڈیاں بنائیں، پھر ھم ہی نے ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر ھم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنادیا ہے، تو کس قدر با برکت ہے وہ خدا جو سب سے بھتر خلق کرنے والا ہے“۔

جی ھاںیھی نطفہ ان تمام مراحل سے گزرکر ایک کامل انسان اور مکمل وجود میں تبدیل ہوگیاھے۔

اب ھم اپنے عجیب و غریب جسم اور اس میں پائے جانے والے خلیوں، آنکھ، کان، ناک، معدہ، گردن، خون، تنفسی نظام، مغز، اعصاب، اور دوسرے اعضاء و جوارح کو دیک ہیں اور ان کے سلسلے میں غور وفکر کریں تاکہ معلوم ہوجائے کہ خود اسی جسم میں خداوندعالم کی کس قدر بے شمار نعمتیں موجود ہیں ۔

کیا دانشوروں او رڈاکٹروں کایہ کہنا ن ہیں ہے کہ اگر انسان مسلسل(۲۴ گھنٹے ) ھر سیکنڈ میں بدن کے ایک ہزار خلیوں کا شمار کرتارہے تو ان تمام کو شمار کرنے کے لئے تین ہزار (۳۰۰۰) سال در کا ر ہوں گے۔

کیا دانشوروں او رڈاکٹروں کایہ کہنا ن ہیں ہے کہ انسان کے”معدہ“ (اس عجیب و غریب لیبریٹری کے اندر) کھانا اس قدر تجزیہ و تحلیل ہوتا ہے کہ انسان کے ھاتھوں کی بنائی ہوئی لیبریٹری میں اتنا کچھ تجزیہ و تحلیل ن ہیں ہوتا، اس معدہ میں یا اس لیبریٹری میں ۱۰ لاکھ مختلف قسم کے ذرات فلٹر ہوتے ہیں جن میں سے اکثر ذرات زھریلے ہوتے ہیں(۱۶)

کیا دانشوروں او رڈاکٹروں کا کہنا ن ہیں ہے کہ انسان کا دل ایک ”بند مٹھی “سے زیادہ بڑا ن ہیں ہوتا لیکن اتنی زیادہ طاقت رکھتا ہے کہ ھر منٹ میں ۷۰ مرتبہ کھلتا اور بند ہوتا ہے، اور تیس سال کی مدت میں ایک ارب مرتبہ یہ کام انجام دیتا ہے اور ھر منٹ میں بال سے زیادہ باریک رگوں کے ذریعہ پورے بدن میں دوبار خون پہنچاتا ہے اور بدن کے اربوں کھربوں خلیوں دھوتا ہے(۱۷)

اس طرح آکسیجن، ھائیڈروجن وغیرہ کے ذرات، ہوا، روشنی، زمین، درختوں کی شاخیں، پتے اور پھل نیز زمین و آسمان کے درمیان جو کچھ ہے، ایک طرح سے انسان کی خدمت میں مشغول ہیں ، اگر ھم اپنے بدن کے ساتھ ان تمام چیزوں کا اضافہ کرکے غور و فکر کریں تو کیا اس دنیا میں انسان کے لئے خداوندعالم کی نعمتوں کا شمار ممکن ہے؟!

اگر آپ ایک مٹھی خاک کود یک ہیں تو یہ فقط خالص مٹی ن ہیں ہے، بلکہ مٹی کا اکثر حصہ معدنی مواد سے تشکیل پاتا ہے، جو چھوٹے چھوٹے سنگریزوں کی شکل میں ہوتے ہیں ، یہ سنگریزے بڑے پتھروں کے ٹکڑے ہیں جو طبیعی طاقت کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہوگئے ہیں ، مٹی میں بھت سی زندہ چیزیں ہوتی ہیں ، ممکن ہے کہ ایک مٹھی خاک میں لاکھوں بیکٹری موجود ہوں، بیکٹری کے علاوہ بھت سی رشد کرنے والی جڑیں، ریشے (مانند امر بیل) اوربھت سے کیڑے مکوڑے بھی پائے جاتے ہیں جن میں سے بھت سے زندہ ہوتے ہیں اور مٹی کو نرم کرتے رھتے ہیں تاکہ درختوں اور پودوں کی رشد و نمو میں مدد گار ثابت ہوسکیں(۱۸)

انسان کے اندر مختلف چیزوں کے ہضم کرنے کی مشینیں پائی جاتی ہیں ، جیسے منھ، دانت، زبان، حلق، لعاب پیدا کرنے والے غدود، معدہ، لوز المعدہ(۱۹) " Pancreas "، چھوٹی بڑی آنتیں نیز غذا کو جذب و ہضم کرنے کے لئے ان میں سے ھر ایک کا عمل اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے۔

اسی طرح ایک اھم مسئلہ سرخ رگوں، سیاہ رگوں، چھوٹی رگوں، دل کے درمیان حصہ، دل کے داہنا اور بایاں حصہ وغیرہ کے ذریعہ خون کا صاف کرنا اور خون کے سفید اور سرخ گلوبل، ترکیب خون، رنگ خون، جریان خون، حرارت بدن، بدن کی کھال اور اس کے عناصر، آنکھ اور اس کے طبقات وغیرہ بھی خداوندعالم کی تعجب خیز نعمتوں میں سے ہیں ۔

آسمان کی فضا، نور کا پہنچنا، گردش، کشش اور دریاؤں کا جز رو مدّ(۲۰) انسان کی زندگی میں کس قدراھمیت کے حامل ہیں ، ان کے عناصر اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ھم آسمان کے دکھائی دینے والے حصے کے ستاروں کو شمار کرنا چا ہیں اور ھر منٹ میں ۳۰۰ ستاروں کو شمار کریں تو اس کے لئے ۳۵۰۰سال کی عمر درکار ہوگی جن میں شب و روز ستاروں کو شمار کریں کیونکہ بڑی بڑی دوربینوں کے ذریعہ ابھی تک ان کی تعداد کے بارے میں تخمینہ لگایا گیا اس کی تعداد ایک لاکھ ملین ہے جس کے مقابلہ میں ھماری زمین ایک چھوٹے سے دانہ کی طرح ہے، بھتر تو یہ ہے کہ ھم یہ ک ہیں کہ انسان ان کو شمار ہی ن ہیں کرسکتا!!!

جس فضا میں ستارے ہوتے ہیں وہ اس قدر وسیع و عریض ہے کہ اس کے ایک طرف سے دوسری طرف جانے کے لئے پانچ لاکھ نوری سال درکار ہیں ۔

سورج اور منظومہ شمسی، آسمان کی کرنوں کا ایک ذرہ ہے جو ۴۰۰کیلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کررھا ہے اور تقریباً (۲۰۰۰۰۰۰۰۰) سال کا وقت درکار ہے تاکہ اپنے مرکز کا ایک چکر لگاسکے!

عالم بالا کا تعجب خیز نظام، سطح زمین اور زمین کے اندر اس کا اثر نیز بھت سے جانداروں کی زندگی کے لئے راستہ ھموار کرنا، یہ سب حیرت انگیز کھانیاں انسان کے لئے سمجھنا اتنا آسان ن ہیں ہے، انسان جس ایک قطرہ پانی کو پیتا ہے اس میں ہزاروں زندہ اور مفید جانور ہوتے ہیں اور ایک متر مکعب پانی میں ۷۵۰۰سفید گلوبل" Globule " اور پچاس لاکھ سرخ گلوبل ہوتے ہیں(۲۱)

ان تمام باتوں کے پیش نظر قرآن مجیدکی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نورانی قلب پر نازل ہونے والے قرآن مجید نے صدیوں پھلے ان حقائق کو بیان کیا ہے، لہٰذا خدا کی عطا کردہ نعمتوں کو ھرگز شمار ن ہیں کیا جاسکتا۔

( وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللهِ لاَتُحْصُوها إِنَّ اللهَ لَغَفُورٌ رَحِیمٌ ) (۲۲)

”اور تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاھو تو شمار ن ہیں کرسکتے، بیشک اللہ بڑا مھربان اور بخشنے والا ہے“۔

۷۔نعمتوں کی قدر شناسی

جن افراد نے اس کائنات، زمین و آسمان اور مخلوقات میں صحیح غور و فکر کرنے کے بعد خالق کائنات، نظام عالم، انسان اور قیامت کو پہچان لیا ہے وہ لوگ اپنے نفس کا تذکیہ، اخلاق کو سنوارنے، عبادت و بندگی کے راستہ کو طے کرنے اور خدا کے بندوں پر نیکی و احسان کرنے میں سعی و کوشش کرتے ہیں ، درحقیقت یھی افراد خداوندعالم کی نعمتوں کے قدر شناس ہیں ۔

جی ھاں، یھی افراد خداکی تمام ظاھری و باطنی نعمتوں سے فیضیاب ہوتے ہیں اور اس طریقہ سے خود اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے افراد دنیا و آخرت کی سعادت و خوش بختی تک پہنچ جاتے ہیں ، اس پاک قافلہ کے قافلہ سالار اور اس قوم کےممتاز رھبر انبیاء اور ائمہ معصومین علیھم السلام ہیں ، تمام مومنین شب و روز کے فریضہ الٰھی یعنی نماز میں ان ہیں کے راستہ پر برقرار رہنے کی دعا کرتے ہیں :

( اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ صِرَاطَ الَّذِینَ انْعَمْتَ عَلَیهم غَیرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیهم وَلاَالضَّالِّینَ ) (۲۳)

”ھمیں سیدھے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ ۔جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تونے نعمتیں نازل کی ہیں ، ان کا راستہ ن ہیں جن پر غضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہیں “۔

جی ھاں، انبیاء اور ائمہ معصومین علیھم السلام خداوندعالم کی تمام مادی و معنوی نعمتوں کا صحیح استعمال کیا کرتے تھے، اور شکر نعمت کرتے ہوئے اس عظیم مقام اور بلند مقام و مرتبت پر پہنچے ہوئے ہیں کہ انسان کی عقل درک کرنے سے عاجز ہے۔

خداوندمھربان نے قرآن مجید میں ان افراد سے وعدہ کیا ہے جو اپنی زندگی کے تمام مراحل میں خدا و رسول کے مطیع و فرمانبردار رہے ہیں ، ان لوگوں کو قیامت کے دن نعمت شناس حضرات کے ساتھ محشور فرمائے گا۔

( وَمَنْ یطِعْ اللهَ وَالرَّسُولَ فَاوْلَئِكَ مَعَ الَّذِینَ انْعَمَ اللهُ عَلَیهم مِنْ النَّبِیینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ اوْلَئِكَ رَفِیقًا ) (۲۴)

”اور جو شخص بھی اللہ اوررسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جن پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ اور یھی لوگ بھترین رفقاء ہیں “-

۸۔ نعمتوں کا بےجا استعمال

مسرف (فضول خرچی کرنے والا) قرآن مجید کی رُوسے اس شخص کو کھا جاتا ہے جو اپنے مال، مقام، شھوت اور تقاضوں کو شیطانی کاموں، غیر منطقی اور بے ہودہ کاموں میں خرچ کرتا ہے۔

خداکے عطا کردہ مال و ثروت اور فصل کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَآتُوا حَقَّهُ یوْمَ حَصَادِهِ وَلاَتُسْرِفُوا إِنَّهُ لاَیحِب الْمُسْرِفِینَ ) (۲۵)

”اور جب فصل (گندم، جو خرما اور کشمش) کاٹنے کا دن آئے تو ان (غریبوں، مسکینوں، زکوٰة جمع کرنے والوں، غیر مسلم لوگوں کو اسلام کی طرف رغبت دلانے کے لئے، مقروض، فی سبیل اللہ اور راستہ میں بے خرچ ہوجانے والوں)(۲۶) کا حق ادا کردو اور خبردار اسراف نہ کرنا کہ خدا اسراف کرنے والوں کو دوست ن ہیں رکھتا ہے“۔

جو لوگ اپنے مقام و منصب اور جاہ و جلال کو لوگوں پر ظلم و ستم ڈھانے، ان کے حقوق کو ضائع کرنے، معاشرہ میں رعب ودہشت پھیلانے اور قوم و ملت کو اسیر کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں ، ان لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْارْضِ وَإِنَّهُ لَمِنْ الْمُسْرِفِینَ ) (۲۷)

”اور یہ فرعون (اپنے کو) بھت اونچا (خیال کرنے لگا)ھے اور وہ اسراف اور زیادتی کرنے والا بھی ہے“۔

اسی طرح جو لوگ عفت نفس ن ہیں رکھتے یا جولوگ اپنے کو حرام شھوت سے ن ہیں بچاتے اور صرف مادی و جسمانی لذت کے علاوہ کسی لذت کو ن ہیں پہچانتے اور ھر طرح کے ظلم سے اپنے ھاتھوں کو آلودہ کرلیتے ہیں نیز ھر قسم کی آلودگی، ذلت اور جنسی شھوات سے پرھیز ن ہیں کرتے، ان کے بارے میں بھی قرآن مجید فرماتا ہے:

( إِنَّكُمْ لَتَاتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ بَلْ انْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ ) (۲۸)

تم از راہ شھوت عورتوں کے بجائے مردوں سے تعلقات پیدا کرتے ہو اور تم یقینا اسراف اور زیادتی کرنے والے ہو“۔

قرآن مجیدان لوگوں کے بارے میں بھی فرماتا ہے جو انبیاء علیھم السلام اور ان کے معجزات کے مقابلہ میں تواضع و انکساری اور خاکساری ن ہیں کرتے اور قرآن، اس کے دلائل اور خدا کے واضح براھین کا انکار کرتے ہیں اور کبر و نخوت، غرور و تکبر و خودبینی کا راستہ چلتے ہوئے خداوندعالم کے مقابل صف آرا نظر آتے ہیں ، ارشاد ہوتا ہے:

( ثُمَّ صَدَقْنٰهُمُ الْوَعْدَ فَانْجَینٰاهُمْ وَ مَن نَّشَآءُ وَ اهْلَكْنٰا الْمُسْرِفِینَ ) (۲۹)

پھر ھم نے ان کے وعدہ کو سچ کر دکھایا اور ان ہیں اورا ن کے ساتھ جن کو چاھا بچالیا اور زیادتی کرنے والوں کو تباہ و بر باد کر دیا “۔

۹۔ نعمتوں کے استعمال میں بخل کرنا

بخل اور اضافی نعمت کو مستحقین پر خرچ نہ کرنے کی برائی کو ایک ان پڑھ اور معمولی کسان کی زبانی بھی سن لیجئے:

حقیر تبلیغ کے لئے ایک دیھات میں گیا ہوا تھا، تقریر کے خاتمہ پر ایک محنت کش بوڑھا ھمارے پاس آیا جس کے چھرے پر دن ورات کام کرنے کے آثار ظاھر تھے جس کے ھاتھوں میں گٹھے پڑے ہوئے تھے، اس نے کھا: ایک بزرگوار شخص آتا ہے اور ھمیں تیار زمین، بیج اور پانی دیتا ہے اور فصل کی کٹائی کے وقت وہ بزرگوار شخص پھر آتا ہے اور اس کاشتکار کے پاس آجاتا ہے جس کو اس نے زمین، بیج، پانی، سورج کی روشنی، بارش وغیرہ مفت اس کے اختیار میں دی تھی، اور اس سے کھتاھے: اس فصل میں سے زیادہ تر حصہ تیرا ہے مجھے اس میں سے کچھ ن ہیں چاہئے لیکن ایک مختصر سا حصہ جس کو میں کھوں اس کو ہدیہ کردو، کیونکہ اس کی مجھے تو بالکل ضرورت ن ہیں ہے، اگر یہ کاشتکار اس زمین سے حاصل شدہ تمام فصل کو اپنا حق سمجھ لے اور ایک مختصر سا حصہ اس کریم کے بتائے ہوئے افراد کو نہ دے تو واقعاً بھت ہی بُری بات ہوگی، اور اس کا دل پتھر کی طرح مانا جائے گا، ایسے موقع پر کریم کو حق ہے کہ اس سے منھ موڑلے اور اس کے برے اخلاق کی سزا دے، اور اس کو کسی بلا میں گرفتار کردے، اس کے بعد اس شخص نے کھا: کریم سے میری مراد خداوندکریم ہے کہ اس نے ھمیں آمادہ زمین عطا کی ہے، نھریں جاری کی ہیں ، چشموں کو پانی سے بھر دیا ہے، بارش برسائی ہے، سورج اور چاند کی روشنی ھمیں دی، ھمیں یہ سب چیزیں عطا کی ہیں جن کے ذریعہ سے ھم مختلف فصلیں حاصل کرلیتے ہیں جو درحقیقت ھمیں مفت حاصل ہوئی ہیں ، اس کے بعد ھم سے اپنے غریب بھائیوں کے لئے خمس و زکوٰة اور صدقہ دینے کا حکم دیا ہے، اگر ھم ان کے حقوق ادا کرنے میں بخل سے کام لیں، تو خداوندعالم کو حق ہے کہ وہ ھم پر اپنا غضب نازل کردے، اور ھمیں سخت سے سخت سزا میں مبتلا کردے۔

اس سلسلے میں قرآن مجید فرماتا ہے:

( وَلاَیحْسَبَنَّ الَّذِینَ یبْخَلُونَ بِمَا آتَاهم اللهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَیرًا لَهم بَلْ هُوَ شَرٌّ لَهم سَیطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ یوْمَ الْقِیامَةِ وَلِلَّهِ مِیرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْارْضِ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ ) (۳۰)

”اور خبردار جو لوگ خدا کے دیئے ہوئے میں مال میں بخل کرتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ سوچنا کہ اس بخل میں کچھ بھلائی ہے ۔یہ بھت برا ہے، اور عنقریب جس مال میں بخل کیا ہے وہ روز قیامت ان کی گردن میں طوق بنادیا جائے گا، اوراللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کی ملکیت ہے اور وہ تمھارے اعمال سے خوب باخبر ہے “-

۱۰۔ نعمت، زائل ہونے کے اسباب و علل

قرآن مجید کی حسب ذیل آیتوں (سورہ اسراء آیت ۸۳، سورہ قصص آیت ۷۶تا۷۹، سورہ فجرآیت ۱۷ تا ۲۰، سورہ لیل آیت ۸تا۱۰) سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ درج ذیل چیزیں، نعمتوں کے زائل ہونے، فقر و فاقہ، معاشی تنگ دستی اور ذلت و رسوائی کے اسباب ہیں :

نعمت میں مست ہونا، غفلت کا شکار ہونا، نعمت عطا کرنے والے کو بھول جانا، خداوندعالم سے منھ موڑلینا، احکام الٰھی سے مقابلہ کرنا اور خدا، قرآن و نبوت اور امامت کے مقابل آجانا، چنانچہ اسی معنی کی طرف درج ذیل آیہ شریفہ اشارہ کرتی ہے:

( وَإِذَا انْعَمْنَا عَلَی الْإِنسَانِ اعْرَضَ وَنَای بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ یئُوسًا ) (۳۱)

اور ھم جب انسان پر کوئی نعمت نازل کرتے ہیں تو وہ پھلو بچاکر کنارہ کش ہوجاتا ہے اور جب تکلیف ہوتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے“۔

نعمت پر مغرور ہونا، مال و دولت پر حد سے زیادہ خوش ہونا، غریبوں اور مستحقوں کا حق نہ دے کر آخرت کی زادہ راہ سے بے خبر ہونا، نیکی اور احسان میں بخل سے کام لینا، نعمتوں کے ذریعہ شروفساد پھیلانا، اوریہ تصور کرنا کہ میں نے اپنی محنت، زحمت اور ہوشیاری سے یہ مال و دولت حاصل کی ہے، لوگوں کے سامنے مال و دولت، اور زر و زینت پر فخر کرنا اور اسی طرح کے دوسرے کام، یہ تمام باتیں سورہ قصص کی آیات ۷۶ تا ۸۳ میں بیان ہوئی ہیں ۔

یتیموں کا خیال نہ رکھنا، محتاج لوگوں کے بارے میں بے توجہ ہونا، کمزور وارثوں کی میراث کو ہڑپ لینا، نیز مال و دولت کا بجاری بن جانا، یہ سب باتیں حسب ذیل آیات میں بیان ہوئی ہیں ، ارشاد ہوتا ہے:

( كَلاَّ بَلْ لاَّ تُكْرِمُونَ الْیتِیمَ وَلَا تَحٰاضُونَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْكِینَوَتَاكُلُونَ التُّرَاثَ اكْلاً لَمَّاوَ تُحِبُّونَ الْمٰالَ حُبًّا جَمًّا ) (۳۲)

”ایسا ھر گز ن ہیں ہے بلکہ تم یتیموں کا احترام ن ہیں کرتے ہو، اور لوگوں کو مسکینوں کے طعام دینے پر آمادہ ن ہیں کرتے ہو، اور میراث کے مال کو اکھٹا کرکے حلال و حرام سب کھالیتے ہو، اور مال دنیا کو بھت دوست رکھتے ہو“۔

اسی طرح خمس و زکوٰة، صدقہ اور راہ خدا میں انفاق کرنے میں بخل سے کام لینے یا تھوڑا سا مال و دولت حاصل کرنے کے بعد خداوندعالم کے مقابل میں بے نیازی کا ڈنکا بجانے اورروز قیامت کو جھٹلانے، کے بارے میں بھی درج آیت اشارہ کرتی ہے:

( وَاَمَّا مَنْ بَخِلَ وَ اسْتَغْنيٰ وَكَذَّبَ بِالْحُسْنيٰ فَسَنُیسِّرُهُ لِلْعُسْريٰ ) (۳۳)

”اور جس نے بخل کیا اور لا پرواھی برتی اور نیکی کو جھٹلایا ہے، ھم اس کے لئے سختی کی راہ ھموار کردیں گے“۔

جس وقت انسان نعمتوں سے مالامال ہوجائے تو اس کو خداوندعالم اور اس کے بندوں کی بابت نیکی و احسان کرنے پر مزید توجہ کرنا چاہئے، خداوندعالم کی عطاکردہ نعمتوں کے شکرانہ میں اس کی عبادت اور اس کے بندوں کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا چاہئے، تاکہ اس کی نعمتیں باقی ر ہیں اور خداوندعالم کی طرف سے نعمت او رلطف و کرم میں اور اضافہ ہو۔

۱۱۔ اتمام ِنعمت

تفسیر طبری، تفسیر ثعلبی، تفسیر واحدی، تفسیر قرطبی، تفسیر ابو السعود، تفسیر فخر رازی، تفسیر ابن کثیر شامی، تفسیر نیشاپوری، تفسیر سیوطی اور آلوسی کی روایت کی بنا پر، اسی طرح تاریخ بلاذری، تاریخ ابن قتیبہ، تاریخ ابن زولاق، تاریخ ابن عساکر، تاریخ ابن اثیر، تاریخ ابن ابی الحدید، تاریخ ابن خلکان، تاریخ ابن حجر اور تاریخ ابن صباغ میں، نیز شافعی، احمد بن حنبل، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، دولابی، محب الدین طبری، ذھبی، متقی ہندی، ا بن حمزہ دمشقی اور تاج الدین مناوی نے اپنی اپنی کتب احادیث میں نیز قاضی ابو بکر باقلانی، قاضی عبد الرحمن ایجی، سید شریف جرجانی، بیضاوی، شمس الدین اصفھانی، تفتازانی اور قوشچی نے اپنی اپنی استدلالی کلامی کتب کی روایت کے مطابق(۳۴) بیان کیا ہے کہ جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہدایت کے تداوم اور و دین کے تحفظ نیز دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت کے لئے خداوندعالم کے حکم سے امام و رھبر اور فکر و عقیدہ اور اخلاق و عمل میں گناھوں سے پاک شخصیت حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام جیسی عظیم شخصیت کو ۱۸ ذی الحجہ کو غدیر خم کے میدان میں اپنے بعد خلافت و ولایت اور امت کی رھبری کے لئے منصوب فرمایا، اس وقت خداوندعالم نے اکمال دین اور اتمام نعمت اور دین اسلام سے اپنی رضایت کا اعلان فرمایا کہ یھی دین قیامت تک باقی رہے گا، ارشاد ہوا:

( الْیوْمَ اكْمَلْتُ لَكُمْ دِینَكُمْ وَاتْمَمْتُ عَلَیكُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَكُمْ الْإِسْلاَمَ دِینًا )(۳۵)

”آج میں نے تمھارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے“۔

جی ھاں، حضرت علی علیہ السلام کی ولایت، حکومت، رھبری اوردین و دنیا کے امور میںآپ کی طاعت کرنا اکمال دین اور اتمام نعمت ہے۔

وضو سے حاصل ہونے والی پاکیزگی و طھارت کے سلسلے میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے : ”وضو کا حکم اس لئے دیا گیا ہے اور عبادت کی ابتدا اس لئے قرار دی گئی ہے کہ جس وقت بندگان خدا اس کی بارگاہ میں کھڑے ہوتے ہیں اور اس سے راز و نیاز کرتے ہیں تو اس وقت ان ہیں پاک ہونا چاہئے، اس کے حکم پر عمل کریں، اور گندگی اور نجاست سے دور ر ہیں ، اس کے علاوہ وضو کے ذریعہ نیند او رتھکاوٹ بھی دور ہوجاتی ہے، نیز عبادت خدا اور اس کی بارگاہ میں قیام و عبادت سے دل کو روشنی اور صفا حاصل ہوتی ہے“۔(۳۶)

اسی طرح غسل و تیمم بھی موجب طھارت ہیں جن کے لئے خداوندعالم نے حکم دیا ہے، لہٰذا وضو، غسل اور تیمم اور نماز و عبادت کی حالت حاصل ہونے والے پر قرآن مجید کے مطابق اللہ کی نعمت اس پر تمام ہوجاتی ہے:

آخر میں طھارت اور نماز کے بارے میں بیان شدہ آیات پر غور و فکر کرتے ہیں :

( مَا یرِیدُ اللهُ لِیجْعَلَ عَلَیكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ یرِیدُ لِیطَهركُمْ وَلِیتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَیكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ) (۳۷)

”خدا تمھارے لئے کسی طرح کی زحمت ن ہیں چاھتا بلکہ وہ تو یہ چاھتا ہے کہ تم ہیں پاک و پاکیزہ بنا دے اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کردے شاید تم اس طرح سے اس کے شکر گزار بندے بن جاؤ“۔

اس قسم کی آیات سے نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ خداوندعالم کی طرف سے انسان پر اتمام نعمت معنوی مسائل کو انجام دینے اور احکام الٰھی کے بجالانے، صحیح عقائد اور اخلاق حسنہ سے آراستہ ہونے کی صورت میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔

۱۲۔ نعمت سے صحیح فائدہ اٹھانے کا انعام

وہ مومنین و مومنات جن کے دل ایمان سے آراستہ اور نفس برائیوں سے پاک ہیں اور وہ اعمال صالحہ بجالانے والے، حق بات کہنے والے، اپنے مال سے جود و کرم اور سخاوت کرنے والے، صدقہ دینے والے اور بندگان خدا کی مدد کرنے والوں والے ہیں ؛ ان کے لئے اجر و ثواب اور رضوان و جنت اور ھمیشہ کے لئے عیش و آرام کا وعدہ دیا گیا ہے۔

قرآن مجید نے اپنی نورانی آیات میں یہ اعلان کردیا ہے کہ اھل ایمان کے اعمال کا اجر و ثواب ضائع ن ہیں کیا جائے گا۔

کتاب الٰھی بلند آواز میں یہ اعلان کرتی ہے کہ خداوندعالم کا وعدہ سچا اور حق ہے اور اس کا وعدہ خلاف ن ہیں ہوتا۔

قرآن مجید، اھل ایمان اور اعمال صالحہ بجالانے والے افراد یا یوں کھا جائے کہ قرآن نے مومنین، محسنین، مصلحین، متقین اورمجاہدین کے لئے کئی قسم کا اجر بیان کیا ہے:

اجر عظیم، اجر کبیر، اجر کریم، اجر غیر ممنون، اجر حسن۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَعَدَ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهم مَغْفِرَةٌ وَاجْرٌ عَظِیمٌ ) (۳۸)

”اللہ نے صاحبان ایمان اور عمل صالح بجالانے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے “۔

( اِلاَّالَّذینَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا لصّٰالِحاتِ اُولٰئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَاَجْرٌ كَبیرٌ ) (۳۹)

” وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کے لئے مغفرت ہے اور ”اجر عظیم“ یعنی بڑا اجرہے “۔

( مَنْ ذَا الَّذی یقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضاً حَسَناً فَیضٰاعِفَهُ لَهُ وَلَهُ اَجْرٌ كَریمٌ ) (۴۰)

”کون ہے جو اللہ کو قرض الحسنہ دے تاکہ وہ اس کو دوگنا کردے اور اس کے لئے اجر کریم بھی ہو“۔

( إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهم اجْرٌ غَیرُ مَمْنُونٍ ) (۴۱)

”بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے ان کے لئے ”اجر غیر ممنون“ (منقطع نہ ہونے والا اجر) ہے“۔

( فَإِنْ تُطِیعُوا یؤْتِكُمْ اللهُ اجْرًا حَسَنًا ) ۔(۴۲)

”تو اگر تم خدا کی اطاعت کرو گے تو وہ تم ہیں ”اجر حسن“ یعنی بھترین اجر عنایت فرمائے گا“۔

جی ھاں، اگر دل جیسی نعمت کو ایمان کے لئے بروئے کار لایا جائے، عقل جیسی نعمت سے حقائق کو سمجھنے کے لئے مدد لی جائے، اعضاء و جوارح جیسی نعمت کو اعمال صالحہ کے لئے استعمال کیا جائے، مال و دولت جیسی نعمت کو بندگان خدا کی مشکلات حل کرنے کے خرچ کیا جائے، المختصر یہ کہ اگر تمام نعمتوں سے عبادت خدا اور اس کے بندوںکی خدمت، ان کے ساتھ نیکی و احسان اور تقويٰ و عفت میں مدد لی جائے تو انسان کی دنیاوی سعادت کے علاوہ آخرت میں مذکورہ پانچ قسم کا اجر و ثواب عطا ہو گا، ظاھر ہے کہ ان خداداد نعمتوں کو صحیح راستہ میں خرچ کرنا کوئی مشکل کام ن ہیں ہے، بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ ھر عورت ومرد اس کو انجام دے سکتا ہے، اور اگر انسان خدا کی نعمتوں سے صحیح فائدہ اٹھائے تو پھر انسان اور خدا میں کوئی حجاب باقی ن ہیں رھتا، اور انسان قرب خدا کے وصال کی لذت سے محظوظ نظر آتا ہے۔

کیا ایسا ن ہیں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام، نعمتوں کی قدر پہچانتے ہوئے ان کو صحیح طور پر استعمال کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے سامنے سے تمام حجابات اٹھ گئے تھے یھاں تک کہ خداوندعالم اور ان کے درمیان کوئی پردہ ن ہیں تھا(سوائے اس کے یہ تمام بزرگوار بندگان خدا تھے)!

امام زمانہ (عجل اللہ تعاليٰ فرجہ)کی طرف سے شیخ بزرگوار ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید (قدس) کو جو توقیع شریف حاصل ہوئی تھی اس میں ھم پڑھتے ہیں :

وَآیاتِكَ وَ مَقاماتِكَ الَّتی لا تَعْطیلَ لَها فی كُلِّ مَکانٍ، یعْرِفُكَ بِها مَنْ عَرَفَكَ، لا فَرْقَ بَینَكَ وَ بَینَها اِلاَّ اَنَّهُمْ عِبادُكَ وَ خَلْقُكَ :(۴۳)

”خداوندا! پیغمبر اور ائمہ معصومین علیہم السلام تیری نشانیاں ہیں کہ ان سے ھر مقام پر نشانیاں ظاھر ہوں گی، اگر کوئی تیری ذات کو پہچانتا ہے تو ان کے ذریعہ پہچانتا ہے، تیرے اور ان کے درمیان کوئی جدائی اور مبانیت ن ہیں ہے سوائے اس کے وہ تیری مخلوق اور تیرے بندے ہیں “۔

ھمیں اس مطلب پر غور کرنا چاہئے کہ نعمتیں خود سے انسان اور خدا کے درمیان حجاب ن ہیں بن جاتیں، بلکہ ان کا غلط استعمال اور شیطانی کاموں میں خرچ کرنے سے انسان اور خدا کے درمیان حجاب پیدا ہوجاتا ہے، اگر نعمتوں سے صحیح فائدہ اٹھایا جائے تو یہ انسان کو مقام قرب تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں ۔

انبیاء اور ائمہ علیھم السلام مختلف مادی اور معنوی نعمتوں سے فیضیاب ہوتے تھے، وہ بھی اھل و عیال رکھتے تھے، اپنی روزی کو زراعت، تجارت اوربھیڑ بکریاں چراکر حاصل کرتے تھے حالانکہ ان ذوات مقدسہ اور خدا کے درمیان کوئی حجاب ن ہیں تھا۔

اگر انسان کے اندر عباد ت و اطاعت اور بندگی و تسلیم کا حوصلہ مضبوط ہوجائے اور اس کا دل نور معرفت سے روشن ہوجائے اورنفس نیکیوںسے بھرجائے، تو انسان بے شک دنیاوی زندگی اور اس کے تمام وسائل و اسباب اور دوسری نعمتوں کے ذریعہ معنوی مقامات تک پہنچ سکتا ہے، لیکن جو شخص خدا کی عبادت و اطاعت کا حوصلہ ن ہیں رکھتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی نعمتوں سے صحیح فائدہ حاصل ن ہیں کررھا ہے، اور جب بھی اس کی نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اس میںطغیان و سرکشی، غرور ونخوت مزید پیدا ہوتا رھتا ہے۔

دعائے کمیل میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے فرمان کے مطابق کیا یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ دل جس میں توحید (خدا) موجود ہو، وہ دل جو معرفت کا مکان ہو، وہ زبان جس سے ذکر خدا ہو، جس کے باطن میں خدا کی محبت ہو، وہ باطن جو صادقانہ اعتراف اور خداوندعالم کی بارگاہ میں خاضع ہو، پیشانی خاک پر رکھی ہو، جس زبان سے خدا کا شکر اور اس کی توحید کا اقرار کیا ہو، جس دل سے خدا کی الوھیت کا اقرار کیا ہو، جن اعضاء و جوارح سے شوق و رغبت کے ساتھ مساجد کا رخ کیا ہو، کیا کل روز قیامت ان سب کو جہنم میں جلادیا جائے گا!!

جن نعمتوں کے ذریعہ عبادت خدا اور خدمت خلق کی گئی ہو، ان کے ذریعہ کل روز قیامت رضائے الٰھی اور خلد بریں کے دروزاے کھول دئے جائیں گے۔

قارئین کرام! آخر میں دو اھم حقائق کا خلاصہ کرتے ہوئے اس بحث کو ختم کرتے ہیں :

۱۔ مذکورہ تمام آیات سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ ”عبادت، بندگی، اطاعت اور خدمت “ نام ہے نعمت و نعمت عطا کرنے والے کی معرفت اور معین کردہ راستے میں اس کی نعمتوں کو استعمال کرنے کا۔

۲۔ ”گناہ و معصیت، خطا و غلطی، شرک و کفر، فسق و فجور اور فحشا و منکر “ نام ہے نعمت عطا کرنے والے سے غفلت، نعمت پر غرور، ذات خدا سے بے رخی اور اس کی عطا کردہ نعمتوں کو حرام اور و غیر اخلاقی کاموں میں خرچ کرنے کا۔

____________________

۱. سورہ نحل آیت۱۱۴۔

۲. سورہ لقمان آیت ۲۰۔

۳. سورہ نساء آیت ۲۹۔

۴. سورہ بقرہ آیت ۱۶۸۔

۵. سورہ فاطر آیت ۳۔

۶. مفردات، ۴۶۱ مادہ شکر۔

۷. سورہ سباء، آیت ۱۳۔

۸. سورہ نحل آیت، ۱۱۴۔

۹. سورہ عنکبوت آیت، ۱۷۔

۱۰. (۳)اصول کافی، ج۲، ص۹۵۔باب الشکر، حدیث ۱۰؛بحار الانوار :۶۸۴۰، باب ۶۱، حدیث ۲۹۔

۱۱. سورہ ابراھیم آیت، ۲۸۔۲۹۔

۱۲. سورہ لقمان آیت، ۲۷۔

۱۳. سورہ مومنون آیت۱۲۔

۱۴. سورہ مو منون آیت ۱۳۔

۱۵. سورہ مومنون آیت ۱۴۔

۱۶. راز آفرینش انسان ص ۱۴۵۔

۱۷. راہ خدا شناسی ص ۲۱۸۔

۱۸. علم و زندگی ص۱۳۴۔۱۳۵۔

۱۹. لوز المعدہ: معدہ سے قریب ایک بڑی سرخ رنگ کی رگ ہے جس کی شکل خوشہ کی مانند ہوتی ہے۔

۲۰. جزر ومد : دریا کے پانی میں ہونے والی تبدیلی کو کھا جاتا ہے، شب وروز میں دریاکا پانی ایک مرتبہ ن گھٹتا ہے اس کو ” جزر“ کھا جاتاھے اور ایک مرتبہ بڑھتا ہے جس کو ”مد“ کھا جاتاھے، اور پانی میں یہ تبدیلی سورج اور چاندکی قوہ جاذبہ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مترجم

۲۱. گنجینہ ھای دانش ص ۹۲۷۔

۲۲. سورہ نحل آیت، ۱۸۔

۲۳. سورہ حمد آیت، ۶۔۷۔

۲۴. سورہ نساء آیت ۶۹۔

۲۵. سورہ انعام آیت، ۱۴۱۔

۲۶.سورہ توبہ آیت ۶۰۔

۲۷. سورہ یونس آیت ۸۳۔

۲۸.سورہ اعراف آیت ۸۱۔

۲۹. سورہ انبیاء آیت ۹۔

۳۰. سورہ آل عمران آیت ۱۸۰۔

۳۱. سورہ اسراء آیت ۸۳۔

۳۲.سورہ فجر آیت، ۱۷۔۲۰۔

۳۳. سورہ لیل آیت ۸۔۱۰۔

۳۴. الغدیر، ج۱، ص۶۔۸۔

۳۵. سورہ مائدہ آیت، ۳۔

۳۶.(۲)عن الفضل بن شا ذان عن الرضا (علیه السلام ) قال:انما امر بالوضوء و بدا به لان یکون العبد طاهرا اذا قام بین یدی الجبار عند مناجاته ایاه مطیعا له فیما امره نقیا من الادناس و الجناسة مع ما فیه من ذهاب الکسل وطرد النعاس و تزکیة الفواد للقیام بین یدی الجبار “۔

۳۷. سورہ مائدہ آیت ۶۔

۳۸. سورہ مائدہ آیت ۹۔

۳۹. سورہ ہود آیت ۱۱۔

۴۰. سورہ حدید آیت ۱۱۔

۴۱. سورہ فصلت آیت ۸۔

۴۲. سورہ فتح آیت، ۱۶۔

۴۳.مفاتیح الجنان دعای ص ۲۵۵، دعای هر روز ماه رجب.