گناہ اور اس کا علاج
(
یاایها النَّاسُ قَدْ جَائَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِی الصُّدُورِ وَهُدًی وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِینَ
)
”پیغمبر کہہ دیجئے کہ یہ قرآن فضل و رحمت خدا کا نتیجہ ہے لہٰذا ان ہیں اس پر خوش ہونا چاہئے کہ یہ ان کے جمع کئے ہوئے اموال سے ک ہیں زیادہ بھتر ہے“۔
صلح و صفا کی کنجی
انسان کو جب یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ جس ذات نے اس پر ظاھری و باطنی نعمتیں کامل اور وسیع پیمانے پر عطا کی ہے، لیکن اس نے گزشتہ عمر میں غفلت سے کام لیاھے، اور یہ بھی معلوم ہوجاتاھے کہ وہ تمام نعمتوں کو دنیا و آخرت کی سعادت اور خدا کے لطف و کرم کے دروازے کھولنے کے لئے بروئے کار ن ہیں لایاھے، بلکہ اکثر اوقات خدا کی مخالفت کی ہے جس کے نتیجہ میں گناھان صغیرہ و کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے جس سخت خسارہ میںھے اور ہوا و ہوس اور ظاھری اور باطنی شیطان کی بندگی کا ٹیکا اس کی پیشانی پر لگ گیا ہے، تو اس پر واجب ہے کہ اپنے شرمناک ماضی کے جبران وتلافی کے لئے، جھل و غفلت خطا و معصیت اور شرمناک اعمال اور شیطانی امور سے توبہ کرکے خدا کی بارگاہ میں استغفار کرے اور خدا کا بندہ بن جائے، اور اپنی زندگی میں صلح و صفا کا آفتاب چمکائے۔
جی ھاں، رحمت خدا سے مدد لینے اور اس کی عنایت خاص سے طاقت حاصل کرنے نیز اس کے ملکوتی فیض کو کسب کرنے کے لئے اس کو خدا کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور اس راستہ کو عزم و ارادہ، اور عاشقانہ جھاد کی طرح ھمیشہ طے کرنا چاہئے تاکہ اس کا ظاھر و باطن فسق و فجور، برائیوں و خطاؤں اور برے اخلاق سے مکمل پاک ہوجائے، نیک و صالح اور عابد بندوں کی صف میں آجائے اور خدا کے غضب کے بدلے رحمت، اور دردناک عذاب کے بدلے جنت کا مستحق بن جائے۔
اس طرح سے اپنے ماضی کی نسبت بیداری اور توبہ و استغفار کرنا نیز اپنے ظاھر و باطن کو برائیوں اور گناھوں سے دھونا خدا سے صلح و دوستی کی کنجی ہے۔
چونکہ خداوندعالم کی بارگاہ میں توبہ و استغفار، عظیم ترین عبادت، مفید فرصت ہے، اور قرآن کریم کی آیات اور معصومین علیھم السلام کی تعلیمات کا ایک عظیم حصہ اسی حقیقت سے مخصوص ہے، لہٰذا توبہ کرنے والے شخص پر لازم ہے کہ توبہ کے سلسلہ میں غور کرے تاکہ اس عظیم عبادت، بھترین حقیقت اور سنھرے موقع سے فیضیاب ہوسکے۔
گناہ بیماری ہے
ھر انسان ذاتی طور پر اور باطنی لحاظ سے پاک و سالم اس دنیا میں آتا ہے۔
حرص، حسد، بخل، ریاکاری، فسق و فجور او ردیگر گناہ انسان کی ذات میں ن ہیں ہوتے بلکہ خاندان، معاشرہ اور دوستوں کی صحبت کی وجہ انسان گناھوں میں ملوث ہوتا ہے۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ہے:
”كُلُّ مَولودٍ یولد عَلَی فِطْرَةِ الإسْلَامِ، حَتّی یكُونَ ابواه یهودانه وینصِّرانه
“۔
”ھر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، مگر اس کے ماں باپ اس کو یھودی یا نصرانی بنادیتے ہیں ۔“
منحرف استاد، منحرف معاشرہ اور منحرف سماج، انسان کی گمراھی میں بھت زیادہ موثر ہوتے ہیں ۔
چنانچہ انسان ان ہیں اسباب کی بنا پر فکری و عملی اور اخلاقی لحاظ سے گمراہ ہوجاتا ہے، اور گناھوں
میں ملوث ہوجاتا ہے، لیکن ان تمام چیزوں کا علاج بھی موجود ہے قرآن مجید کی نظر سے یہ بیماری قابل علاج ہے اور اس مرض کے دوا بیان کی گئی ہے، ارشاد ہوتا ہے:
(
یاایها النَّاسُ قَدْ جَائَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِی الصُّدُورِ وَهُدًی وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِینَ
)
”پیغمبر کہہ دیجئے کہ یہ قرآن فضل و رحمت خدا کا نتیجہ ہے لہٰذا ان ہیں اس پر خوش ہونا چاہئے کہ یہ ان کے جمع کئے ہوئے اموال سے ک ہیں زیادہ بھتر ہے“۔
قرآن کی نظر میں یہ بیماری خداوندعالم کی مغفرت اور بخشش کے ذریعہ قابل علاج ہے:
(
إِلاَّ الَّذِینَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَاصْلَحُوا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ
)
”علاوہ ان لوگوں کہ جنھوں اس کے بعد توبہ کر لی اور اپنی اصلاح کرلی، یقینا خدا غفور اور رحیم ہے“۔
ناامیدی کفر ہے
جس وقت قرآن مجید کی آیات اور معصومین علیھم السلام کی روایت کے ذریعہ یہ معلوم ہوجائے کہ ظاھری اور مخفی طور پر کئے جانے والے گناہ ایک بیماری ہے، اور یہ بیماری قابل علاج ہے، اس پر خداوندعالم پردہ ڈال سکتا ہے، توگناھگار کو چاہئے کہ اس خطرناک اور مھلک کنویں سے باھر نکلنے کی کوشش کرے، اپنے گناھوں کی بخشش کی امید رکھے، خداوندعالم کے لطف و کرم اور عنایت سے توقع رکھے اور اس مثبت امید کے سھارے حقیقی توبہ اور عاشقانہ صلح نیز اپنے گزشتہ گناھوں کی تلافی کرے تاکہ اس بیماری اور خسارے کو دور کرسکے، کیونکہ انسان یہ کام کرسکتا ہے، توبہ و استغفاراور اس بیماری کے علاج کے علاوہ چھوٹے ہوئے واجبات کی ادائیگی کرے، اس سلسلہ میں ناامیدی ویاس، سستی اور کسالت، شیطانی اور انحرافی نعرہ لگانا مثلاً کہنا کہ ”اب تو ھمارے سر سے پانی گزرگیا ہے، چاھے ایک بالشت ہو یا سو بالشت“ غرض یہ سب چیزیں حرام اور کفر کے برابر ہے۔
(
وَلَا تَایئَسُوا مِنْ رَوْحِ اللهِ إِنَّهُ لَا یایئَسُمِنْ رَوْحِ اللهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الكَافِرُونَ
)
”اور رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا کہ اس کی رحمت سے کافر قوم کے علاوہ کوئی مایوس ن ہیں ہوتا ہے “۔
البتہ جو شخص خدا کی رحمت و مغفرت اور بخشش کا امیدوار ہو، اس کے لئے اپنی امید کے اسباب و وسائل فراھم کرنا ضروری ہے مثلاً گناھوں پر شرمندہ ہونا، ان سے کنارہ کشی کرنا، ترک شدہ واجبات کو ادا کرنا، لوگوں کے حق کو ان تک واپس لوٹانا، اپنے عمل اور اخلاق کی اصلاح کرنا، کیونکہ یہ ایک مثبت امید ہے اور بالکل اسی کسان کی طرح ہے کہ جس نے سردیوں کے موسم میں اپنی زمین کو جوتا بویا ہو، اور کھاد پانی کا خیال رکھاھو اس امید کے ساتھ کہ وہ گرمی میں فصل کاٹے گا۔
لیکن اگر انسان اپنی امید کے پورا ہونے کے اسباب فراھم نہ کرے تو اس کی امید بے فائدہ اور بے ثمر ہوگی اور اس کسان کی طرح ہوگی جس نے زمین میں کوئی کام نہ کیا ہو اور نہ ہی زمین میں بیج ڈالا ہو، لیکن فصل کاٹنے کی امید رکھتا ہو، تو کیا ایسا شخص فصل کاٹنے کی امید رکھ سکتا ہے؟ایک معتبر حدیث میں صحیح اور غلط امید کے بارے میں اشارہ ہوا ہے:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ان لوگوں کے بارے میں سوال کیا گیا جو گناھوں میں ملوث رھتے ہیں اور گناھوں سے آلودگی کی حالت میں کھتے ہیں : ”ھم خداکی رحمت و مغفرت اور اس کی بخشش کے امیدوار ہے“۔ یھاں تک کہ ان کی موت آجاتی ہے، امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:”یہ لوگ غلط امید کے شکار ہیں ، کیونکہ جو شخص کسی چیز کی امید رکھتا ہے تو اس کو حاصل کرنے کے لئے ضروری قدم بھی اٹھاتا ہے اور اگر کسی چیز سے ڈرتا ہے تو وہ اس سے پرھیز کرنا چاہئے
علاج کرنے والے اطباء
جب ھمارے کے لئے یہ بات ثابت ہوچکی کہ گناہ کوئی ذاتی مسئلہ ن ہیں ہے بلکہ ایک بیماری کی طرح ہے جیسا کہ بعض اسباب کی بناپر انسان کے جسم میں بیماری پیدا ہوجاتی ہے، یہ ایک ایسی بیماری ہے کہ جو انسان کے دل و دماغ، نفس اور ظاھر و باطن پر اثرانداز ہوتی ہے، اور جس طرح بدن کی بیماریاں طبیب کے پاس جانے اور اس کے لکھے ہوئے نسخہ پر عمل کرنے سے قابل علاج ہوتی ہیں ، اسی طرح معنوی بیماری کے لئے بھی علاج کرنے والے طبیب موجود ہیں ، لہٰذا ان کی طرف رجوع کیا جائے اور ان کے بتائے گئے احکام پر عمل کرتے ہوئے اپنے دل و دماغ سے اس بیماری کی جڑیں ختم کی جائیں، اگرچہ وہ بیماری بھت خطرناک مرحلہ تک پہنچ گئی ہو! اس طرح کی بیماریوں کے طبیب خود ذات پروردگار، انبیاء اور ائمہ معصومین علیھم السلام نیز علمائے ربّانی ہیں ۔
گناھگار کے علاج کا نسخہ قرآن کریم، انبیاء، ائمہ اور علمائے ربانی ہیں ، ان کی حکیمانہ باتیں اور مشفقانہ نصیحتیں اور دلسوز وعظ ان بیماریوں کا مرھم ہے۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اھل گناہ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
”اَیهاالنَّاسُ اَنْتُم كَالْمَرْضَيٰ وَرَبُّ العَالَمِینَ كَالطَّبِیبِ فَصَلاحُ الْمَرضَيٰ فِیمَا یعْمَلُهُ الطَّبِیبُ وَ یدَبِّرُهُ لَا فِیمَا یشْتَهِیهِ المَریضُ وَ یقْتَرِحُهُ
“۔
”اے اھل گناہ! تم بیمار لوگوں کی طرح ہو، اور تمھارا پروردگار طبیب کی طرح، بیمار کی بھلائی طبیب تدبیر اور تجویز میں ہے، نہ کہ بیمار کے ذائقہ اور اس کی مرضی میں“۔
احادیث معصومین علیھم السلام میں بھی انبیاء کرام، ائمہ معصومین (علیھم السلام) اور علمائے ربانی کو بھی طبیب کا عنوان دیاگیا ہے۔
بیمار گناہ کو اپنے علاج کے لئے ان مھربان طبیبوں کے پاس جانا چاہئے اور ان کی مرضی کے مطابق عمل کرنا چاہئے اور اپنے صحت و سلامتی کے بارے میں امیدوار ہونا چاہئے اور اس کے لئے توبہ کے علاوہ اور کوئی راستہ ن ہیں ہے۔
محترم قارئین ! واضح رہے کہ ھم یھاں ان طبیبوں کے چند معنوی نسخوں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں تاکہ بیمارگناہ ان نسخوں کا مطالعہ کرکے اپنا علاج کرلے یا علمائے کرام کی زبانی سن کر اپنے دکھ درد کو مٹالے، ارشاد ہوتا ہے:
(
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِی یحْبِبْكُمْ اللهُ وَیغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ
)
”اے! پیغمبر کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ خدا بھی تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناھوں کو (بھی) بخش دے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والاھے“۔
(
یاایها الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ یجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَیكَفِّرْ عَنكُمْ سَیئَاتِكُمْ وَیغْفِرْ لَكُمْ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ
)
”ایمان والو! اگر تم تقوی الٰھی اختیار کرو گے تو وہ تم ہیں حق و باطل میں فرق کی صلاحیت عطا کردے گا۔ تمھاری برائی کی پردہ پوشی کرے گا۔ تمھارے گناھوں کو معاف کردے گا، یقینا وہ بڑا فضل کرنے والا ہے“۔
(
یاایها الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِیدًا یصْلِحْ لَكُمْ اعْمَالَكُمْ وَیغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ یطِعْ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیمًا
)
”ایمان والو! اللہ سے ڈرو، او ر سیدھی بات کرو ۔ تا کہ وہ تمھارے اعمال کی اصلاح فرمادے اور تمھارے گناھوں کو بخش دے اور جوشخص بھی خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ عظیم کامیابی کے درجے پر فائز ہوگا“۔
(
یاایها الَّذِینَ آَمَنُوا هل ادُلُّكُمْ عَلَی تِجَارَةٍ تُنجِیكُمْ مِنْ عَذَابٍ الِیمٍ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ بِامْوَالِكُمْ وَانفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَیرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ یغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَیدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِها الْانْهارُ وَمَسَاكِنَ طَیبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ
)
”ایمان والو! کیا میں تم ہیں ایک ایسی تجارت کی طرف رہنمائی کروں کہ جو تم ہیں درد ناک عذاب سے بچا لے۔ تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور راہ خدا میں اپنی جان و مال سے جھاد کرو کہ یھی تمھارے حق میں سب سے بھتر ہے، اگر تم جاننے والے ہو۔ وہ تمھارے گناھوں کو بھی بخش دے گا او رتم ہیں ایسی جنتوں میں داخل کردے گا جن کے نیچے نھریں جاری ہوںگی اور ان میں پاکیزہ محل ہو ںگے او ر یھی بھت بڑی کامیابی ہے“۔
(
إِنْ تُقْرِضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا یضَاعِفْهُ لَكُمْ وَیغْفِرْ لَكُمْ وَاللهُ شَكُورٌ حَلِیمٌ
)
”اگر تم اللہ کو قرض الحسنہ دوگے تو وہ اسے دوگنا بنا دے گا اور تم ہیں معاف بھی کردے گا کہ وہ بڑا قدر داں اور برداشت کرنے والا ہے“۔
(
وَالَّذِینَ عَمِلُوا السَّیئَاتِ ثُمَّ تَابُوا مِنْ بَعْدِها وَآمَنُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِها لَغَفُورٌ رَحِیمٌ
)
”اور جن لوگوں نے برے اعمال کئے اور پھر توبہ کرلی اور ایمان لے آئے تو توبہ کے بعد تمھارا پروردگار بھت بخشنے والا اور بڑا مھربان ہے“۔
(
فَإِنْ تَابُوا وَاقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوْا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِیلَهم إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ
)
” پھر اگر (وہ لوگ) توبہ کر لےں اور نماز قائم کریں اور زکاة اداکریں تو پھر ان کا راستہ چھوڑ دو، بے شک خدا بڑا بخشنے والا اور مھربان ہے“۔
(
وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهم خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیئًا عَسَی اللهُ انْ یتُوبَ عَلَیهم إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ
)
”اور دوسرے لوگ جنھوں نے اپنے گناھوں کا اعتراف کیا، انھوں نے نیک اور بد اعمال مخلوط کردئے ہیں ، عنقریب خدا ان کی توبہ قبول کر لے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مھربان ہے“۔
قارئین کرام! مذکورہ آیات سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اگر کوئی گناھگار خداوندعالم کی رحمت و معرفت کو حاصل کرنا چاھتا ہے اور یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کی توبہ قبول ہوجائے، اس کا سیاہ نامہ اعمال معنوی سفیدی اور نور میں تبدیل ہوجائے، اور روز قیامت کے دردناک عذاب سے چھٹکارا مل جائے تو اسے چاہئے کہ قرآن مجید میں بیان شدہ نسخوں کے پیش نظر حسب ذیل امور پر عمل کرے:
۱۔ سیرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اتباع و پیروی کرے۔
۲۔ تقويٰ و پرھیزگاری کی رعایت کرے اور اپنے آپ کو گناھوں سے دور رکھے۔
۳۔ حق بات کھے، اور وقت پر گفتگو کرے۔
۴۔ خداوندعالم کی اطاعت کرے۔
۵۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت کرے۔
۶۔ خدا پر ایمان رکھے۔
۷۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان رکھے۔
۸۔ مال و دولت کے ذریعہ راہ خدا میں جھاد و کوشش کرے۔
۹۔ راہ حق میں دل و جان سے کوشش کرے۔
۱۰۔ ضرورت مندوں کو قرض الحسنہ دے۔
۱۱۔ گناھوں سے دوری اختیار کرے اور خدا کی طرف پلٹ جائے۔
۱۲۔ غلط و باطل عقائد سے اجتناب کرے۔
۱۳۔ نماز قائم کرے۔
۱۴۔ زکوٰة ادا کرے۔
۱۵۔ خداوندعالم کی بارگاہ میں اپنے گناھوں کا اقرار و اعتراف کرے۔
”جاءَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِی فَقالَ:يٰارَسُولَ اللّٰهِ، مٰاعَمَلُ اَهل الْجَنَّةِ؟ فَقالَ:اَلصِّدْقُ، اِذا صَدَقَ الْعَبْدُ بَرَّ، وَ اِذا بَرَّاَ مِنَ وَاِذا اَمِنَ دَخَلَ الْجَنَّةُفَقالَ يٰا رَسُولَ اللّٰهِ، مٰاعَمَلُ اَهل النّٰارِ، قٰالَ:اَلْكِذْبُ، اِذا كَذَبَ الْعَبْدُ فَجَرَ وَاِذا فَجَرَ كَفَرَ، وَاِذا كَفَرَ دَخَلَ النّٰارَ
:“
”ایک شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوااور عرض کی: یا رسول اللہ ! اھل بہشت کا عمل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: صداقت، کیونکہ جس وقت خدا کا بندہ سچ بولتا ہے تو اس نے نیکی انجام دی ہے، اور جب نیکی کرتا ہے تو امان مل جاتی ہے اور جب امان مل جاتی ہے تو جنت میں داخل ہوجاتا ہے، سوال کرنے والے نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اھل جہنم کا عمل کیا ہے؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جھوٹ، کیونکہ جب انسان جھوٹ بولتا ہے تو گناہ کرتا ہے او رجب گناہ کرتا ہے تو ناشکری اور کفر سے دچار ہوجاتا ہے اور کفر کرتا ہے تو جہنم میں داخل ہوجاتا ہے“۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطھرات میں سے ایک زوجہ کھتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم سے سوال کیا:
”بِمَ یعْرَفُ الْمُومِنُ ؟قٰالَ:بِوَقارِهِ، وَلینِ كَلامِهِ، وَصِدْقِ حَدیثِهِ
:“
”یا رسول اللہ ! کن اعمال سے مومن کی پہچان ہوتی ہے؟ تو آپ نے فرمایا: وقار، نرم لہجہ اور صداقت سے“۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے کھا:
”اِجْتَمِعُوا، فَاِنّی اُرِیدُ اَن اَقُومَ فیكُمْ بِكَلِمَتَین :فَاجْتَمَعُوا عَلٰی بابِهِ فَخَرَجَ عَلَیهِمْ فَقٰالَ:يٰا بَنی اِسْرائیلَ، لاٰ یدْخُلْ اَجْوافَكُمْ اِلاّ طَیبٌ وَلاٰ یخْرُجُ مِنْ اَفْواهِكُمْ اِلاّ طَیبٌ
:“
”تم لوگ ایک جگہ جمع ہوجاؤ کہ میں تم سے کچھ گفتگو کرنا چاھتا ہوں، جب لوگ جناب داؤد علیہ السلام کے دروازہ پر جمع ہوگئے تو انھوں نے ان کے روبرو ہوکر خطاب کیا: اے بنی اسرائیل! پاک اور حلال چیزوں کے علاوہ کچھ نہ کھاؤ، اور صحیح اور حق بات کے علاوہ زبان مت کھولو“۔
جناب جابر کھتے ہیں : میں نے سنا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کعب بن عجرہ سے فرمارہے ہیں :
لا یدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ نَبَتَ لَحْمُهُ مِنَ السُّحْتِ، اَلنّٰارُ اَوْلٰی بِهِ
“
”جس شخص کا گوشت حرام مال سے بڑھا ہو، وہ بہشت میں ن ہیں جاسکتا، بلکہ جہنم اس کے لئے زیادہ سزاوارہے “۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے مروی ہے:
”مَنْ نَقَلَهُ اللّٰهُ مِنْ ذُلِّ الْمَعاصی اِلٰی عِزِّ التَّقْويٰ اَغْنٰاهُ بِلا مالٍ، وَاَعَزَّهُ بِلا عَشیرَةٍ، وَا ٓنَسَه بِلا اَنیسٍ
:“
”جس شخص کو خداوندعالم گناھوں کی ذلت سے نکال کر تقويٰ کی عزت تک پہنچادے تو خدا اس کو بغیر مال عطاکئے بے نیاز بنادیتا ہے، اور بغیر قوم و قبیلہ کے عزت دیتا ہے، اور بغیر دوست کے انس و محبت عطا فرماتا ہے“۔
”عَنِ اَمیرِ الْمُومِنینَ :اَلدُّنْیا مَمَرٌّ، وَالنَّاسُ فیها رَجُلاٰنِ:رَجُلٌ باعَ نَفْسَهُ فَاَوْبَقَهٰا، وَرَجُلٌ ابْتاعَ نَفْسَهُ فَاَعْتَقَها
:“
”حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے: دنیا ایک گزرگاہ(یعنی راستہ) ہے جس سے دو طرح کے لوگ گزرتے ہیں : ایک وہ شخص جس نے اپنے آپ کو دنیا کے بدلے فروخت کردیا لہٰذا اس نے خود کو نابود کرلیا، دوسرے وہ شخص ہے جس نے دنیا سے اپنے آپ کو خرید لیا، لہٰذا اس نے خود کو آزاد کرلیا“۔
مروی ہے کہ ایک شخص حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوکر عرض کرتا ہے:
” میں ایک گناھگار شخص ہوں اورگناہ پر صبر ن ہیں کرسکتا، لہٰذا مجھے نصیحت فرمایئے، تو امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا: تو پانچ چیزوں کو انجام دے اس کے بعد جو چاھے گناہ کرنا:
۱۔ خداکا عطا کردہ رزق مت کھا۔
۲۔ خدا کی حکومت و ولایت سے باھر نکل جا۔
۳۔ ایسی جگہ تلاش کر جھاں خدا نہ دیکھتا ہو۔
۴۔ جس وقت ملک الموت تیری روح قبض کرنے آئے تو اس بچ کر بھاگ جانا۔
۵۔ جب (روز قیامت) تجھے مالكِ دوزخ، دوزخ میں ڈالنا چاھے تو اس وقت دوزخ میں نہ جانا۔“
”قالَ عَلِی بْنُ الْحُسینِ علیه السلام: اِنَّ الْمَعْرِفَةَ وَكَمالَ دینِ الْمُسْلِمِ تَرْكُهُ الْكَلامَ فیما لاٰ یعْنیهِ، وَ قِلَّةُ مِرائِهِ وَ حِلْمُهُ وَ صَبْرُهُ وَ حُسْنُ خُلْقِهِ
:“
”حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں :بے شک مسلمانوں کی معرفت اور دین کا کمال اس میں ہے کہ بے فائدہ گفتگو سے پرھیز کرے، نزاع و جھگڑے سے دور رہے ، صبر و حلم اور حسن خُلق سے کام لے“۔
عَنِ الْبَاقِرِ (عَلَیه السَّلام):مَنْ صَدَقَ لِسَانُهُ زَکيٰ عَمَلُهُ وَمَنْ حَسُنَتْ نِیتُهُ زِیدَفِی رِزْقِهِ وَمَنْ حَسُنَ بِرُّهُ بِاَهلهِ زِیدَفِی عُمْرِهِ
“۔
حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : جس شخص کی زبان سچ بولے اس کاعمل پاکیزہ ہوجاتا ہے، اور جس شخص کی نیت اچھی ہو اس کی روزی میں اضافہ ہوجاتا ہے اور جو شخص اپنے اھل و عیال کے ساتھ نیکی و احسان کرے اس کی عمر بڑھ جاتی ہے“۔
”عَن اَبی عَبْدِاللّٰهِ(عَلَیه السَّلام): اَوْرَعَ النّٰاسِ مَنْ وَقَفَ عِنْدَ الشُّبْهَةِ اَعْبَدُ النَّاسِ مَنْ اَقامَ الْفَرائِضَ اَزْهَدُ النَّاسِ مَنْ تَرَكَ الْحَرامَاَشَدُّ النَّاسِ اجْتِهاداً مَنْ تَرَكَ الذُّنُوبَ
:“
”حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :سب سے زیادہ باتقويٰ وہ شخص ہے جو خود کو مشتبہ چیزوں سے محفوظ رکھے، سب سے اچھا بندہ وہ ہے جو واجبات الٰھی کو بجالائے، زاہد ترین شخص وہ ہے جو حرام چیزوں کو ترک کرے، اور سب سے زیادہ جدو جہد کرنے والا شخص وہ ہے جو گناھوں چھوڑ دے“۔
امام موسيٰ کاظم علیہ السلام نے ہشام بن حکم سے فرمایا:
”رَحِمَ اللّٰهُ مَنِ اسْتَحْیيٰ مِنَ اللّٰهِ حَقَّ الْحَیاءِ، فَحَفِظَ الرَّاسَ وَما حَوٰی، وَالْبَطْنَ وَ ما وَعيٰ، وَذَكَرَ الْمَوْتَ وَالْبِليٰ، وَعَلِمَ اَنَّ الْجَنَّةَ مَحْفُوفَةٌ بِالْمَكٰارِهِ، وَ النَّارَ مَحْفُوفَةٌ بِالشَّهَواتِ
:“
”خداوندعالم رحمت کرے اس شخص پر جو خداکے سامنے اس طرح شرم کرے جس کا وہ حقدار ہے، آنکھ، کان اور زبان کو گناھوں سے محفوظ رکھے، اپنے کو لقمہ حرام سے بچائے رکھے، قبر اور قبر میں بدن کے بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے، اور اس بات پر توجہ رکھے کہ جنت زحمت و مشکلات کے ساتھ ہے اور جہنم لذت شھوت کے ساتھ “۔
حضرات انبیاء کرام، اور ائمہ معصومین علیھم السلام نے ان نیک امور اور انسان کو شقاوت و ھلاکت سے بچانے والے اھم مسائل کو بیان کیا ہے جن کی تفصیل معتبر کتابوں میں بیان ہوئی ہے، مذکورہ احادیث اسی ٹھاٹے مارتے ہوئے قیمتی سمندر کے چند قطرے تھے ۔ اسی طرح علماء کرام سے وعظ و نصیحت نقل ہوئی ہیں جو انسان کی بیماری کے علاج کے لئے بھترین نسخے ہیں ، جن کے ذریعہ انسان اپنے نفس کو گناھوں کی گندگی اور کثافت سے بچاسکتا ہے، ذیل میں ان کے چند نمونے بھی ملاحظہ فرمالیں:
ایک عارف نے کھا: ھم نے چار چیزوں کو چار چیزوں میں طلب کیا لیکن راستہ کا غلط انتخاب کیا، اور ھم نے دیکھا وہ چار چیزیں دوسری چار چیزوں میں ہیں :
۱۔بے نیازی کو مال و دولت میں ڈھونڈا لیکن قناعت میں پایا۔
۲۔مقام و عظمت کو حسب ونسب میں تلاش کیا لیکن تقويٰ میں ملا۔
۳۔چین وسکون کو مال کی کثرت میں ڈھونڈا لیکن کم مال میں پایا۔
۴۔نعمت کو لباس، غذا اور لذتوں میں تلاش کیا لیکن اس کو بدن کی صحت و سلامتی میں دیکھا
جناب لقمان نے اپنے فرزند کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: کل روز قیامت خدا کی بارگاہ میں، چار چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا: اپنی جوانی کس چیز میں گزاری، اپنی عمر کو کس چیز میں تمام کیا، مال و دولت کھاں سے حاصل کی اور حاصل شدہ مال و دولت کھاں پر خرچ کیا؟ لہٰذا اس کے لئے جواب تیار کرلو
ایک عارف کھتے ہیں :دانشوروں نے چارچیزوں پر اتفاق کیا ہے اور میں نے ان کو چار چیزوں سے انتخاب کیا ہے:
۱۔توریت: جس شخص نے قناعت کی وہ سیر ہوگیا۔
۲۔زبور: جس شخص نے سکوت اختیار کیا وہ صحیح و سالم رہے ۔
۳۔انجیل: جس شخص نے ناحق چیزوں اور نامناسب لوگوں سے کنارہ کشی کی اس نے نجات پائی۔
۴۔ قرآن: جو شخص خدا کی پناہ میں چلا گیا وہ راہ مستقیم کی ہدایت پاگیا
”سلیمان علی “نے ”حمید طویل “سے کھا: مجھے موعظہ و نصیحت فرمائیے:تو ”حمید “نے کھا: اگر خلوت میںخدا کی معصیت کررہے ہو اور یہ جانتے ہو کہ خدا تم ہیں دیکھ رھا ہے، تو تم نے بھت بڑے کام کی جرئت کی اور اگر تم یہ سوچو کہ خدا ن ہیں دیکھ رھا ہے تو تم کافر ہوگئے
جناب جبرئیل نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! اگر روئے زمین پر ھم لوگ عبادت کیا کرتے تو تین کام انجام دیتے:
مسلمان کو پانی پلاتے، اھل و عیال رکھنے والوں کی مددکرتے، اور لوگوں کے گناھوں کو چھپایا کرتے
ایک عالم بزرگوار نے فرمایا: خداوندا! تجھ سے امید رکھنا، تیری سب سے بڑی عبادت ہے، اور تیری ثنا کرنامیری زبان پر شیرین ترین سخن ہے، اور تجھ سے ملاقات کا وقت، میرے نزدیک محبوب ترین وقت ہے
ایک عارف فرماتے ہیں : ابلیس پانچ چیزوں کی وجہ سے بدبخت اور ملعون ہوا ہے:
گناہ کا اقرار نہ کیا اور گناہ پر شرمندہ نہ ہوا، اپنی ملامت ن ہیں کی، توبہ کا ارادہ نہ کیا، اور رحمت خدا سے مایوس ہوگیا؛ لیکن جناب آدم پانچ چیزوں کی وجہ سے کامیاب ہوگئے: اپنی خطا کا اقرار کیا، شرمندہ ہوئے، اپنی ملامت کی، توبہ کرنے میں جلدی کی اور رحمت خدا سے ناامید ن ہیں ہوئے۔
یحيٰ بن معاذ کھتے ہیں : جو شخص زیادہ کھانا کھاتا ہے تو اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے، اور جس کی طاقت زیادہ ہوجاتی ہے اس کی شھوت میں (بھی) اضافہ ہوجاتا ہے، اور جس کی شھوت میں اضافہ ہوجاتا ہے اس کے گناہ بھی زیادہ ہوتے ہیں ، اور جس کے گناہ زیادہ ہوتے ہیں وہ سنگ دل بن جاتا ہے اور جو سنگ دل ہوجاتا ہے وہ دنیا کے زرق و برق اور اس کی آفات میں گرفتار ہوجاتا ہے
اولیاء کی صفات کے بارے میں کھا گیا ہے کہ ان میں تین خصلتیں پائی جاتی ہیں :
۱۔ سکوت اختیار کرتے ہیں اور اپنی زبان کو محفوظ رکھتے ہیں کیونکہ یہ چیزیں نجات کا دروازے ہیں ۔
۲۔ ان کا شکم خالی رھتا ہے، جو خیرات کی كُنجی ہوتی ہے۔
۳۔ دن بھر کے روزے اور رات بھر کی عبادت کی وجہ سے اپنے نفس کو زحمت میں ڈالتے ہیں
قارئین کرام! اگر ھر گناھگار بندہ ؛خدا، رسول اور ائمہ معصومین علیھم السلام نیز علمائے کرام کے بتائے نسخہ پر عمل کرے تو یقینا اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اور اس کی بیمار روح کاعلاج ہونا ممکن ہے۔
گناھگار انسان کو اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ انبیاء علیھم السلام کی بعثت، ائمہ علیھم السلام کی امامت اور علمائے کرام کے علم و حکمت کا اصلی مقصد انسانوں کی فکری، روحی، اخلاقی اور عملی بیماریوں کا علاج کرنا ہے، لہٰذا گناھگار بندے کا مغفرت سے ناامید ہونا کوئی معنی ن ہیں رکھتا، لہٰذا اپنے دل کو یاس و ناامیدی سے آلودہ ن ہیں کرنا چاہئے، اپنے کو گناھوں پر باقی ن ہیں رکھنا چاہئے، اور نہ ہی اپنی شقاوت و بدبختی میں اضافہ کرنا چاہئے، بلکہ گناھگار انسان اس پر لازم ہے کہ خداوندعالم، انبیاء و ائمہ علیھم السلام کی تعلیمات خصوصاً خداوندعالم کی رحمت واسعہ اور اس کے لطف و کرم کے مدنظر اپنے گناھوں سے توبہ کرلے۔
توبہ واجب ِفوری ہے
گزشتہ بحث میں ھم ثابت کرچکے ہیں کہ قرآن مجید اور الٰھی تعلیمات کی رو سے گناہ ایک بیماری ہے، اور بتاچکے ہیں کہ یہ بیماری قابل علاج ہے، نیز یہ بھی واضح کرچکے ہیں کہ اس بیماری کے علاج کرنے والے اطباء یعنی خدا، انبیاء، ائمہ علیھم السلام اور علمائے دین ہیں ، لہٰذا گناھگار بندے کو اپنی بیماری کے علاج کے لئے ان مقدس ترین اطباء کے پاس جانا چاہئے، اور ان کے تجویز کردہ نسخہ پر عمل کرنا چاہئے تاکہ اس بیماری سے شفا مل جائے، صحت و سلامتی لوٹ آئے، اورنیک و صالح بندوں کے قافلہ میں شامل ہوجائے۔
گناھوں کے بیمار کو اس چیز پر توجہ رکھنا چاہئے کہ جس طرح انسان عام بیمار ی کے معلوم ہونے کے فوراً بعد اس کے علاج کے لئے طبیب یا ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تاکہ درد و تکلیف سے نجات حاصل ہونے کے علاوہ بیماری بدن میں جڑ نہ پکڑلے، جس کا علاج ناممکن ہوجائے، اسی طرح گناہ کی بیماری کے علاج کے لئے بھی جلدی کرنا چاہئے اور بھت جلد الٰھی نسخہ پر عمل کرتے ہوئے توبہ و استغفار کرنا چاہئے، تاکہ گناہ و ظلمت، معصیت، شرّ شیطان اور ہوائے نفس کا اس کی زندگی سے خاتمہ ہوجائے، اوراس کی زندگی میں رحمت و مغفرت، صحت و سلامتی کا نور چمکنے لگے۔
گناھگار کو چاہئے کہ خواب غفلت سے باھر نکل آئے، اپنی نامناسب حالت پر توجہ دے اور یہ سوچے کہ میں نے خداکے ان تمام لطف و کرم، احسان اور اس کی نعمتوں کے مقابلہ میں شب و روز اپنی عمر کو نور اطاعت و عبادت اورخدمت خلق سے منور کرنے کے بجائے معصیت و گناہ اور خطا کی تاریکی سے اپنے کو آلودہ کیا ہے، اس موقع پر اپنے اوپر واجب قرار دے کہ اپنے تمام ظاھری و باطنی گناھوں کو ترک کرے، ہوائے نفس اور شیطان کی بندگی و اطاعت سے پرھیز کرے، خداوندعالم کی طرف رجوع کرے، اور صراط مستقیم پر برقرار رہنے کے ساتھ ساتھ حیا و شرم، عبادت و بندگی اور بندگان خدا کی خدمت کے ذریعہ اپنے ماضی کا تدارک کرے۔
فقھی اور شرعی لحاظ سے یہ واجب ”واجبِ فوری“ ہے، یعنی جس وقت گناھگار انسان اپنے گناھوں کی طرف متوجہ ہوجائے، اور یہ احساس ہوجائے کہ اس نے کس عظیم مقدس ذات کی مخالفت کی ہے اور کس منعم حقیقی کی نعمت کو گناہ میں استعمال کیا ہے، اور کس مولائے کریم سے جنگ کے لئے آمادہ پیکار ہوا ہے، اور کس مھربان کے روبرو کھڑا ہوگیا ہے، تو فوری طور پر اپنے علاج کے لئے توبہ کرے اور ندامت کی حرارت اور حسرت کی آگ کے ذریعہ اپنے وجود سے گناھوں کے اثر کو جلادے، اور اپنے دل و جان اور روح سے فحشاء و منکر کی گندگی کو پاک کردے، اور اپنے اندر خدائی رحمت و مغفرت کو جگہ دے کیونکہ توبہ میں تاخیر کرنا خود ایک گناہ ہے اور خود کو عذاب الٰھی سے محفوظ سمجھنا اور اس حالت پر باقی رہنا گناھان کبیرہ میں سے ہے۔
حضرت عبد العظیم حسنی علیہ الرحمہ نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے، انھوں نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے، انھوںنے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے، انھوں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ عمرو بن عُبَید نے امام علیہ السلام سے سوال کیا: گناھان کبیرہ کون سے ہیں ؟ تو آپ نے قرآن سے گناھان کبیرہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا:خود کو عذاب الٰھی سے محفوظ سمجھنا بھی گناہ کبیرہ ہے۔
کسی گناھگار کو یہ حق ن ہیں ہے کہ وہ توبہ و استغفار کے لئے کوئی زمانہ معین کرے اور خداوندعالم کی طرف بازگشت کو آئندہ پر چھوڑدے، اور اپنے درد کے علاج کو بوڑھاپے کے لئے چھوڑدے۔
کیونکہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جس امید کے سھارے اس بیماری کے علاج کو آئندہ پرچھوڑا جارھا ہے وہ اس وقت تک زندہ بھی رہے گا، کیا ایک جوان کا بوڑھاپے تک باقی رہنا ضروری ہے؟!! ہوسکتا ہے اسی غفلت کی حالت اور گناھوں و شھوت کے عالم میں ہی موت کا پیغام پہنچ جائے۔
ایسے بھت سے لوگ دیکھنے میں آئے ہیں جو کھتے تھے کہ ابھی تو جوانی ہے، بوڑھاپے میں توبہ کرلیں گے، لیکن موت نے ان کو فرصت نہ دی اور اسی جوانی کے عالم میں توبہ کئے بغیر چل بسے۔
بھت سے گناھگار جوانوں کو دیکھا گیا جو کھتے تھے کہ ابھی تو ھم جوان ہیں لذت و شھوت سے فائدہ اٹھائیں، بوڑھاپے کے وقت توبہ کرلیں گے، لیکن اچانک اسی جوانی کے عالم میں موت نے آکر اچک لیا!
اسی طرح بھت سے گناھگاروں کو دیکھا ہے جو کھتے تھے کہ ابھی تو وقت ہے بعد میں توبہ و استغفار کرلیں گے، لیکن گناھوں اور معصیت کی تکرار نے نفس کو ہوا و ہوس کا غلام بنالیا اور شیطان نے ان ہیں گرفتار کرلیا اور گناھوں کے اثر سے توبہ کی صلاحیت کھو بیٹھے، اور ھرگز توبہ و استغفار نہ کرسکے، اس کے علاوہ گناھوں کی کثرت، ظلمت کی سنگینی اور خدا کی اطاعت سے زیادہ دوری کی بنا پر وہ خدا کی نشانیوں اور اس کے عذاب ہی کو جھٹلانے لگے، اور آیات الٰھی کا مذاق اڑانے لگے، اور خود اپنے ھاتھوں سے توبہ و استغفار کا دروازہ بند کرلیا!
(
ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِینَ اسَائُوا السُّوئَی انْ كَذَّبُوا بِآیاتِ اللهِ وَكَانُوا بِها یسْتَهْزِئُون
)
”اس کے بعد برائی کرنے والوںکا انجام برا ہوا کہ انھوں نے خدا کی نشانیوں کو جھٹلایادیا اور برابر ان کا مذاق اڑاتے رہے “۔
گناہ، جذام اور برص کی طرح گناھگار انسان کے ایمان، عقیدہ، اخلاق، شخصیت، کرامت اور انسانیت کو کھاجاتے ہیں ، انسانی زندگی اس منزل پر پھونچ جاتی ہے کہ انسان خدا کی آیات کی تکذیب کرنے لگتاھے، اور انبیاء، ائمہ معصومین علیھم السلام اور قرآن مجید کا مسخرہ کرتا ہوا نظر آتا ہے، اور اس پر کسی کے وعظ و نصیحت کا کوئی اثر ن ہیں ہوتا۔
اللہ تعاليٰ کا ارشاد ہوتا ہے:
(
وَسَارِعُوا إِلَی مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُها السَّمَاوَاتُ وَالْارْضُ اعِدَّتْ لِلْمُتَّقِین
)
”اور اپنے پروردگار کی مغفرت اور اور اس جنت کی طرف جلدی کرو جس کی وسعت زمین و آسمان کے برابر ہے اور اسے صاحبان تقويٰ لئے مھیا کیاگیاھے“۔
اس آیت کے پیش نظر واجب ہے کہ انسان اپنے ظاھر و باطن کو گناھوں سے پاک کرنے اور مغفرت و بہشت حاصل کرنے کے لئے توبہ و استغفار کی طرف جلد از جلد قدم اٹھائے، اور توبہ و استغفار کے تحقق کے لئے جتنا ہوسکے جلدی کرے کیونکہ توبہ میں ایک لمحہ کے لئے تاخیر کرنا جائز ن ہیں ہے، قرآن مجید کی رُوسے توبہ میں تاخیر کرنا چاھے کسی بھی وجہ سے ہو، ظلم ہے، اور یہ ظلم دوسرے گناھوں سے الگ خود ایک گناہ ہے۔
(
وَمَنْ لَمْ یتُبْ فَاوْلَئِكَ هم الظَّالِمُونَ
)
”اور جو شخص بھی توبہ نہ کرے تو سمجھ لو کہ یھی لوگ در حقیقت ظالموں میں سے ہے“۔
گناھگار کو اس حقیقت کا علم ہونا چاہئے کہ توبہ کا ترک کرنا اسے ستم گاروں کے قافلہ میں قرار دیدیتا ہے اور ستم گاروں کو خداوندعالم دوست ن ہیں رکھتا۔
(
وَاللهُ لاَیحِبُّ الظَّالِمِین
)
”اور خدا، ظلم کرنے والوں کوپسند ن ہیں کرتا“۔
گناھگار کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایسے شخص سے خداوندعالم، انبیاء اور ائمہ علیھم السلام سخت نفرت کرتے ہیں اور اس سے ناراض رھتے ہیں چنانچہ حضرت عیسی اپنے حواریوں کو تہدید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
”یا مَعْشَرَ الْحَوارِیینَ، تَحَبَّبُوا اِلَی اللّٰهِ بِبُغْضِ اَهل الْمَعاصی، وَ تَقَرَّبُوا اِلَی اللّٰهِ بِالتَّباعُدِ مِنْهُمْ وَ الْتَمِسُوا رِضاهُ بِسَخَطِهِمْ
“
”اے گروہ حوارین! گناھگاروں اور معصیت کاروں سے دشمنی اور ناراضگی کا اظھار کرکے خود کو خدا کا محبوب بناؤ، آلودہ لوگوں سے دوری اختیار کرتے ہوئے خدا سے نزدیک ہوجاؤ، اور گناھگاروں کے ساتھ غیض و غضب اورغصہ کا اظھار کرکے خداوندعالم کی خوشنودی حاصل کرلو“۔
گناھگار انسان کو اس بات پر متوجہ ہونا چاہئے کہ ھر گناہ کے انجام دینے سے خدا کے نزدیک انسان کی شخصیت اور کرامت کم ہوجاتی ہے یھاں تک کہ انسان حیوان کی منزل میں پہنچ جاتا ہے بلکہ اس سے بھی پست تر ہوتا چلا جاتا ہے، یھاں تک کہ ایسا شخص قیامت کے دن انسان کی صورت میں محشور ن ہیں ہوسکتا۔
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام براء بن عازب سے فرماتے ہیں : ”تم نے دین کو کیسا پایا؟ انھوں نے عرض کیا: مولا! آپ کی خدمت میں آنے اور آپ کی امامت و ولایت کا اقرار کرنے نیز آپ کی اتباع اور پیروی سے پھلے یھودیوں کی طرح تھا، ھمارے لئے عبادت و بندگی، اطاعت و خدمت بے اھمیت تھے۔ لیکن ھمارے دلوں میں ایمانی حقائق کی تجلی اور آپ کی اطاعت و پیروی کے بعد عبادت و بندگی کی قدر کا پتہ چل گیا، اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: دوسرے لوگ قیامت کے دن گدھے کے برابر محشور ہوں گے، اور تم میں سے ھر شخص روز محشر بہشت کی طرف جارھا ہو گا
توبہ واجب اخلاقی ہے
علمائے کرام، اھل عرفان حضرات اور پاک دل دانشوروں نے اخلاقی مسائل کے بارے میں بھت سی کتابیں لکھی ہیں ، اور اخلاق کی دوحصوں میں شرح کی ہے: اخلاق حسنہ، اور اخلاق سیئہ (برا اخلاق) غرور وتکبر، اور خود غرضی کو برے اخلاق اور تواضع و انکساری کو اخلاق حسنہ میں مفصل طور پر بیان کیاھے۔
ابلیس کے لئے پیش آنے والی صورتحال کی بنا پر خداوندعالم کی طرف سے ھمیشہ کے لئے لعنت کا طوق اس کے گلے میں ڈال دیا گیااور اس کو اپنی کی بارگاہ سے نکال دیا، کیونکہ اس نے حکم خداکے مقابلہ میں غرور و تکبر کیا تھا، لیکن دوسری طرف جناب آدم اور جناب حوّا کی توبہ قبول کر لی گئی، جس کی وجہ تواضع و انکساری تھی، قرآن نے واضح کردیا کہ چونکہ غرور و تکبر خدا کی بارگاہ سے نکال دئے جانے کا سبب ہے لہٰذا اس سے دوری اختیار کرنا واجب ہے اور تواضع و انکساری انسان کو خدا سے نزدیک کردیتا ہے اور اس کو عبادت و بندگی سے رغبت میں مدد ملتی ہے، نیز انسان اپنے گناھوں اور خطاؤں کے لئے خدا سے عذر خواھی کرتا ہے اور توبہ و استغفار کرتا ہے لہٰذا انسان پر واجب ہے کہ خودکو تواضع و انکساری سے آراستہ کرے، اور اس کی عظمت کے سامنے سرتسلیم خم کردے، خشوع و خضوع اورآنسو بھری آنکھوں کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو اور اس سے یہ عہد کرے کہ آئندہ گناھوں سے پرھیز کرے گا نیز اپنے گزشتہ کی تلافی کرے گا۔
خدائے مھربان جناب موسی بن عمران سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے:
”یابْنَ عِمْرانَ، هَبْ لی مِنْ عَینَیكَ الدُّمُوعَ، وَمِنْ قَبلكَ الْخُشُوعَ، وَ مِنْ بَدَنِكَ الْخُضُوعَ ثُمَّ ادْعُنی فی ظُلَمِ اللَّیالی تَجِدْنی قَریباً مُجیباً
:
”اے موسيٰ بن عمران! میری بارگاہ میں اشکبار آنکھوں، خاشع قلب اور لرزتے ہوئے جسم کے ساتھ حاضر ہو، پھر شب کی تاریکی میں مجھے پکارو، مجھے نزدیک اور جواب دینے والا پاؤگے“۔
قرآن ابلیس کے بارے میں فرماتا ہے:
(
قَالَ مَا مَنَعَكَ الاَّ تَسْجُدَ إِذْ امَرْتُكَ قَالَ انَا خَیرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِی مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِینٍ قَالَ فَاهبطْ مِنْها فَمَا یكُونُ لَكَ انْ تَتَكَبَّرَ فِیها فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِینَ
)
”فرمایا: (اے ابلیس) تجھے کس چیز نے روکا تھا کہ میرے حکم کے بعد بھی سجدہ ن ہیں کیا۔ اس نے کھا کہ میں ان سے بھتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور ان ہیں خاک سے بنایا ہے۔ فرمایا تو یھاں سے چلا جا، تجھے ھماری بارگاہ میں رہنے کا حق ن ہیں ہے تو نے غرور سے کام لےا، نکل جا کہ تو ذلیل لوگوں میں سے ہے“۔
قرآن مجید نے شیطان کی شقاوت اور بدبختی کی وجہ حکم خدا کے سامنے غرور و تکبر بیان کی ہے، اور اسی تکبر کی بنا پر وہ بارگاہ الٰھی سے نکال دیا گیا، لہٰذا انسان کو غرور و تکبر سے پرھیز کرنا چاہئے کیونکہ یہ شیطانی صفت انسان کو حکمِ خدا کے مقابلہ میں لا کھڑ ا کرتی ہے۔
قرآن مجید، جناب آدم و حوا علیھما السلام کے بارے میں فرماتا ہے:
(
قَالاَرَبَّنَا ظَلَمْنَا انفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنْ الْخَاسِرِینَ
)
”ان دونوں نے کھا کہ پروردگار! ھم نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے اب اگر تو معاف نہ کرے گا اور ھم پررحم نہ کرے گا، تو یقینا ھم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائےںگے“۔
قرآن نے جناب آدم و حوا علیھماالسلام کے اقرار و اعتراف اور طلب مغفرت کو جو واقعاً ایک پسندیدہ اور قابل تعریف عمل ہے، اس کوان کی توبہ کے عنوان سے بیان کیا ہے، سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۳۷ میں اس توبہ کا تذکرہ ہوا ہے، لیکن اس حقیقت پر بھی توجہ کرنا ضروری ہے کہ اقرار و اعتراف اور خداوندعالم کی طرف بازگشت، خشوع و خضوع، قلبی انکساری اور دل شکستگی کا ثمرہ ہے، چونکہ علمائے اخلاق کی نظر میں تکبر انسان اور ذات خدا کے درمیان ایک سخت حجاب ہے لیکن تواضع و خاکساری انسان اورذات خدا کے درمیان ایک سیدھا راستہ اور کھلا ہوا دروازہ ہے، کبر و تکبر کی حالت پر باقی رہنا، ایک عظیم گناہ ہے، اور نخوت سے پرھیز کرنا ایک عظیم واجب ہے، اورتواضع و انکساری سے آراستہ ہونا ایک عظیم عمل ہے اور اپنے کو گناھوں سے دھونا عظیم عبادت و بندگی ہے؛ لہٰذا گناھوں سے توبہ کرنا خدا کی بارگاہ میں تواضع و انکساری اور کبر و نخوت سے دور ہونے کی نشانی اور اخلاقی علامت ہے۔
تکبر کے بارے میں ایک حدیث کے ضمن میں بیان ہوا ہے:
”عَن حَکیمٍ قالَ:سَالَتْ اَبا عَبْدِاللّٰهِ (علیه السلام ) عَنْ اَدْنَی الاِلْحادِ، فَقالَ:اِنَّ الْكِبْرَ اَدْناهُ
:“
”حکیم کھتے ہیں : میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے ”الحاد“ یعنی انکار خداوندی کے سب سے کم درجے کے بارے میں سوال کیا، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کا پست ترین درجہ تکبر اور غرور ہے“۔
حسین بن اعلا کھتے ہیں : میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا:
اَلْكِبْرُ قَدْ یکونُ فی شِرارِ النَّاسِ مِنْ كُلِّ جِنْسٍ، وَالْكِبْرُ رِداءُ اللّٰهِ، فَمَنْ نازَعَ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ رِداءَ هُ لَمْ یزِدْهُ اللّٰهُ اِلاَّسَفالاً
“
” تکبر کسی بھی جنس میں ہو وہ بدترین لوگوں میں سے ہے، بزرگی ذات خدا ہی کے لئے سزاوارہے ، لہٰذا جو شخص خدا کی بزرگی میں جھگڑے اور اس کی ذات اقدس کے ساتھ شریک ہونا چاھے تو اس کو خدا ذلیل کردیتا ہے“۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :
”اَلْعِزُّ رِداءُ اللّٰهِ، وَالْكِبْرُ اِزارُهُ، فَمَنْ تَناوَلَ شَیئاً مِنْهُ اَكَبَّهُ اللّٰهُ فی جَهَنَّمَ
:“
”عزت ردائے خدا ہے، بزرگی اس کا جامہ ہے، جو شخص ان کو اپنے لئے سمجھے تو خداوندعالم اس کو جہنم میں ڈال دیتا ہے“۔
تواضع کے بارے میں احادیث
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
اِنَّ فِی السَّماءِ مَلَكَینِ مُوَكَّلَینِ بِالْعِبادِ، فَمَنْ تَواضَعَ لِلّٰهِ رَفَعاهُ، وَمَنْ تَكَبَّرَ وَضَعاهُ
:“
”بے شک آسمان میں دو فرشتے ہیں ، جن کو خدا نے اپنے بندوں پر موکل قرار دیا ہے کہ جو شخص خدا کے سامنے تواضع و انکساری سے پیش آئے اسے سربلنداور جو شخص غرور و تکبر سے کام لے اسے ذلیل اور رسواکردیں“۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:
”فَاِنَّ مَنْ تَواضَعَ لِلّٰهِ رَفَعَهُ اللّٰهُ، وَمَن تَكَبَّرَ خَفَضَهُ اللّٰهُ، وَمَن اقْتَصَدَ فی مَعیشَتِهِ رَزَقَهُ اللّٰهُ، وَمَنْ بَذَّرَ حَرَمَهُ اللّٰهُ، وَمَنْ اَكْثَرَ ذِكْرَ الْمَوْتِ اَحَبَّهُ اللّٰهُ
:“
”بے شک جو شخص خداکے سامنے تواضع وانکساری سے پیش آئےگا خداوندعالم اس کو بلند کردیگا اور جو شخص اس کے سامنے غرور و تکبر دکھائےگا خداوندعالم اس کو ذلیل و رسوا کردے گا، جو شخص زندگی میں درمیانی راستہ اپنائےگا خداوندعالم اس کو روزی عنایت فرمادے گا، جو شخص اسراف اور فضول خرچی سے کام لے گاخداوندعالم اس پر اپنی عنایت حرام کردے گااور جو شخص موت کو بھت زیادہ یاد رکھے تو خداوندعالم اس کو اپنا محبوب بنالے گا“۔
ایک مقام پر خداوندعالم نے جناب داؤد سے خطاب فرمایا:
”یا داوُد كَما اَنَّ اَقْرَبَ النَّاسِ مِنَ اللّٰهِ الْمُتَواضِعونَ، كَذٰلِكَ اَبْعَدُ النّٰاسِ مِنَ اللّٰهِ الْمُتَكَبِّرُونَ
:“
”اے داؤد! جس طرح خداوندعالم سے زیادہ قریب متواضع افراد ہیں اسی طرح مغرور و متکبر لوگ خدا سے بھت زیادہ دور ہیں “۔
____________________