خداوند عالم کی طرف واپسی
(
وَإِنِّی لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهتدَی
)
” میں زیادہ بخشنے والاھوں اس شخص کے لئے جو توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے اور پھر راہ ہدایت پر ثابت قدم رہے “۔
گناھگار اور توبہ کرنے کی طاقت
کوئی بھی ماں نے اپنے بیٹے کو گناھگار پیدا ن ہیں کرتی، رحم مادر سے کوئی بچہ بھی عاصی او رخطاکار پیدا ن ہیں ہوتا۔
جب بچہ اس دنیا میں قدم رکھتا ہے تو علم و دانش اورفکر و نظر سے خالی ہوتا ہے، اور اپنے اطراف میں ہونے والے واقعات سے بالکل بے خبر رھتا ہے۔
جس وقت بچہ اس دنیاکی فضا میں آتا ہے تو رونے اور ماں کا دودھ پینے کے علاوہ اور کچھ ن ہیں جانتا، بلکہ شروع شروع میں اس سے بھی غافل ہوتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ اس میںاحساسات، خواہشیں اور شھوات پیدا ہونے لگتی ہیں ، اپنے کارواں زندگی کو آگے بڑھانے کے لئے اپنے گھروالوںاور پھر باھر والوں سے سیکھتا جاتا ہے۔
اسی طرح اس کی زندگی کے دوران اس کے بدن میں مختلف بیماریاں پیدا ہونے لگتی ہیں ، اس کی فکر و روح، نفس اور قلب میں خطائیں ہوجاتی ہیں ، اسی طرح عمل و اخلاق کے میدان میں گناھوںکا مرتکب ہونے لگتا ہے، پس معلوم یہ ہوا کہ گناہ بدن پر طاری ہونے والی ایک بیماری کی طرح عارضی چیز ہے، ذاتی ن ہیں ۔
انسان کے بدن کی بیماری طبیب کے تجویز کئے ہوئے نسخہ پر عمل کرنے سے ختم ہوجاتی ہے، بالکل اسی طرح اس کی باطنی بیماری یعنی فکر و روح اور نفس کی بیماری کا علاج بھی خداوندمھربان کے احکام پر عمل کرنے سے کیا جاسکتا ہے۔
گناھگار جب خود کو پہچان لیتا ہے اور اپنے خالق کے بیان کردہ حلال و حرام کی معرفت حاصل کرلیتا ہے یقینااس روحانی طبیب کے نسخہ پر عمل کرتے ہوئے گناھوں سے توبہ کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے، اور خداوندمھربان کی ذات سے امید رکھتا ہے کہ وہ اس کو گناھوں کے دلدل سے باھرنکال دے گا اور پھر وہ اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے شکم مادر سے ابھی پیدا ہواھو۔
گناھگار یہ ن ہیں کہہ سکتا کہ میں توبہ کرنے کی طاقت ن ہیں رکھتا، کیونکہ جو شخص گناہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے بے شک وہ توبہ کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔
جی ھاں، انسان کھانے پینے، آنے جانے، کہنے سننے، شادی کرنے، کاروبار میں مشغول ہونے، ورزش کرنے، زندگی گذارنے اور زورآزمائی کے مظاھرے پر قدرت رکھتا ہے، وہ اپنی خاص بیماری کی وجہ سے ڈاکٹر کے کہنے پر بعض چیزوں سے پرھیز بھی کرسگتا ہے اور بیماری کے بڑھنے کے خوف سے جس طرح کچھ چیزیں ن ہیں کھاتا، اسی طرح جن گناھوں میں ملوث ہے ان سے بھی تو پرھیز کرسکتا ہے، اور جن نافرمانیوں میں مبتلا ہے اس سے بھی تو رک سکتا ہے۔
خداوندعالم کی بارگاہ میں توبہ کی قدرت نہ رکھنے کا عذر و بھانہ کرنا قابل قبول ن ہیں ہے، اگر گناھگار توبہ کی قدرت نہ رکھتا ہوتا تو خداوندعالم کبھی بھی توبہ کی دعوت نہ دیتا۔
گناھگار کو اس حقیقت پر یقین رکھنا چاہئے کہ وہ ھر موقع و محل پر تركِ گناہ پر قادرہے ، اور قرآنی نقطہ نظر سے خداوندعالم کی ذات گرامی بھی تواب و رحیم ہے، وہ انسان کی توبہ قبول کرلیتا ہے، اور انسان کے تمام گناھوں کو اپنی رحمت و مغفرت کی بنا پر بخش دیتا ہے اگرچہ تمام ریگزاروں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں، اور اس کے سیاہ نامہ اعمال کو اپنی مغفرت کی سفیدی سے مٹادیتا ہے۔
گناھگار کو اس چیزکا علم ہونا چاہئے کہ اگر تركِ گناہ اور اپنے ظاھر و باطن کی پاکیزگی کے لئے قدم نہ اٹھائے اور گناہ و معصیت میں اضافہ کرتا رہے ، تو پھر خداوندعالم بھی اس کو دردناک عذاب میں گرفتار کردیتا ہے اور سخت سے سخت عقوبت اس کے لئے مقرر فرماتاھے۔
خداوندعالم نے قرآن مجید میں خود کو اس طرح سے پہچنوایا ہے:
(
غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیدِ الْعِقَاب
)
”وہ گناھوں کا بخشنے والا، توبہ کا قبول کرنے والا اور شدید عذاب کرنے والا ہے “۔
امام معصوم علیہ السلام دعائے افتتاح میں خداوندعالم کی اس طرح حمد و ثنا فرماتے ہیں :
”وَاَیقَنْتُ اَنَّكَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ فِی مَوْضِعِ الْعَفْوِوَالرَّحْمَةِ، وَاَشَدُّ المُعَاقِبِینَ فِی مَوْضِعِ النَّکالِ وَالنَّقِمَةِ
“۔
”مجھے اس بات پر یقین ہے کہ تو رحمت و بخشش کے مقام میں سب سے زیادہ مھربان ہے، اور عذاب و عقاب کے مقام میں شدید ترین عذاب کرنے والاھے“۔
اسی طرح خداوندعالم نے قرآن مجید میں گناھگاروں سے خطاب فرمایا ہے:
(
قُلْ یاعِبَادِی الَّذِینَ اسْرَفُوا عَلَی انْفُسِهم لاَتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ یغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ
)
”(اے )پیغمبر آپ پیغام پہنچا دیجئے کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے مایوس نہ ہوں، اللہ تمام گناھوں کا
معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ہے“۔
لہٰذا ایک طرف خداوندعالم کا تواب و غفور ہونا اور دوسری طرف سے گناھگار انسان کا گناھوں کے ترک کرنے پر قادر ہونا اس کے علاوہ قرآن مجید کی آیات کا گناھگار انسان کو خدا کی رحمت و مغفرت کی بشارت دیناان تمام باتوں کے باوجود ایک گناھگار کو اپنے گناھوں کے ترک کرنے میں کوئی عذر و بھانہ باقی ن ہیں رہنا چاہئے، اسی لئے گناھگار کے لئے توبہ کرنا عقلی اور اخلاقی لحاظ سے ”واجب فوری“ھے۔
اگر گناھگار توبہ کے لئے قدم نہ بڑھائے، اپنے گزشتہ کا جبران وتلافی نہ کرے اور اپنے ظاھر و باطن کو گناہ سے پاک نہ کرے، تو عقل و شرع، وجدان اور حکمت کی نظر میں اس دنیا میں بھی محکوم و مذموم ہے، اور آخرت میں بھی خداوندعالم کے نزدیک مستحق عذاب ہے۔ ایسا شخص روز قیامت حسرت و یاس اور ندامت و پشیمانی کے ساتھ فریاد کرے گا:
(
لَوْ انَّ لِی كَرَّةً فَاكُونَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ
)
”اگر مجھے دوبارہ واپس جانے کا موقع مل جائے تو میں نیک کردار لوگوں میں سے ہو جاوں “۔
اس وقت خداوندعالم جواب دے گا:
(
بَلَی قَدْ جَائَتْكَ آیاتِی فَكَذَّبْتَ بِها وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنْ الْكَافِرِینَ
)
”ھاں ھاں تیرے پاس میری آیت یں آئی ت ہیں تو نے ان ہیں جھٹلا دیا اور تکبر سے کام لیا اور کافروں میں سے ہو گیا“۔
روز قیامت گناھگار شخص کی نجات کے لئے دین و عمل کے بدلے میں کوئی چیز قبول نہ ہوگی، اور اس کی پیشانی پر سزا کی مھر لگادی جائے گی:
(
وَلَوْ انَّ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا مَا فِی الْارْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لاَفْتَدَوْا بِهِ مِنْ سُوءِ الْعَذَابِ یوْمَ الْقِیامَةِ وَبَدَا لَهم مِنْ اللهِ مَا لَمْ یكُونُوا یحْتَسِبُونَ
)
”اور اگر ظلم کرنے والوں کو زمین کی تمام کائنات مل جائے اور اتنا ہی اور بھی دیدیا جائے تو بھی یہ روز قیامت کے بدترین عذاب کے بدلے میں سب دیدیں گے، لیکن ان کے لئے خدا کی طرف سے وہ سب بھر حال ظاھر ہوگا جس کا یہ وھم و گمان بھی ن ہیں رکھتے تھے“۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام دعائے کمیل میں فرماتے ہیں :
خدا کی بارگاہ میں گناھگار کے توبہ نہ کرنے میں کوئی عذر قبول ن ہیں کیا جائے گا، کیونکہ خدا نے گناھگار پر اپنی حجت تمام کردی ہے:
”فَلَكَ الحُجةُ عَلَيَّ فی جَمیعِ ذٰلِكَ، وَلاٰحُجَّةَ لِی فِی مٰاجَريٰ عَلَيَّ فیهِ قَضٰاوكَ
“۔
”تمام معاملات میں میرے اوپر تیری حجت تمام ہوگئی ہے اور اسے پورا کرنے میں تیری حجت باقی ن ہیں رھی “۔
بندوں پر خدا کی حجت کے سلسلے میں ایک اھم روایت
”عبد الاعليٰ موليٰ آل سام کھتے ہیں : میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا: روز قیامت ایک حسین و جمیل عورت کو لایا جائے گا جس نے دنیا میں اپنے حسن و جمال کی وجہ سے گناہ ومعصیت کو اپنا شعار بنایا تھا، وہ اپنی بے گناھی ثابت کرنے کے لئے کھے گی: پالنے والے! تو نے مجھے خوبصورت پیدا کیا، لہٰذا میں اپنے حسن و جمال کی بنا پر گناھوں کی مرتکب ہوگئی، اس وقت جناب مریم (سلام اللہ علیھا) کو لایا جائے گا، اور کھا جائے گا: تو زیادہ خوبصورت ہے یا یہ باعظمت خاتون؟ ھم نے اس کو بھت زیادہ خوبصورت خلق فرمایا، لیکن پھر بھی انھوں نے اپنے کو محفوظ رکھا، برائیوں سے دور ر ہیں ۔
اس کے بعد ایک خوبصورت مرد کو لایا جائے گاوہ بھی اپنی خوبصورتی کی بنا پر گناھوں میں غرق رھا، وہ بھی کھے گا: پالنے والے ! تو نے مجھے خوبصورت پیدا کیا، جس کی بنا پر میں نامحرم عورتوں کے ساتھ گناھوں میں ملوث رھا۔ اس وقت جناب یوسف (علیہ السلام) کو لایا جائے گا، اور کھا جائے گا: تو زیادہ خوبصورت ہے یا یہ عظیم الشان انسان، ھم نے ان ہیں بھی بھت خوبصورت پیدا کیا لیکن انھوں نے بھی اپنے آپ کو گناھوں سے محفوظ رکھااور فتنہ و فساد میں غرق نہ ہوئے۔
اس کے بعد ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا، جو بلاء اور مصیبتوں میںگرفتار رہ چکا تھا اور اسی وجہ سے اس نے اپنے کو گناھوں میں غرق کرلیا تھا، وہ بھی عرض کرے گا: پالنے والے! چونکہ تونے مجھے مصیبتوں اور بلاؤں میں گرفتار کردیا تھا جس سے میرا حوصلہ اور استقامت جاتی رھی اور میں گناھوں میں غرق ہوگیا، اس وقت جناب ایوب (علیہ السلام) کو لایا جائے گااور کھا جائے گا: تمھاری مصیبتیں زیادہ ہیں یا اس عظیم انسان کی، یہ بھی مصیبتوں میں گھرے رہے ، لیکن انھوں اپنے آپ کو محفوظ رکھا اور فتنہ وفساد کے گڑھے میں نہ گرے“
توبہ، آدم و حوا کی میراث
جناب آدم علیہ السلام روئے زمین پر خداوندعالم کے خلیفہ اور اس کے نائب کے عنوان سے پیداکئے گئے، اور پتلہ بنانے کے بعد اللہ نے اس میں اپنی روح کو پھونکی
اور ان کو ”اسماء“ کا علم دیا، فرشتوں نے ان کی عظمت و کرامت کے سامنے حکم خدا کے سے سجدہ کیا، اس وقت خدا کے حکم سے وہ اور جناب حوّابہشت میں رہنے لگے
بہشت کی تمام نعمتیں ان کے اختیار میں دیدیں گئی، اور ان ہیں تمام نعمتوں سے فیضیاب ہونے کے لئے کوئی رکاوٹ ن ہیں تھی، مگر دونوں سے یہ کھا گیا کہ فلاں درخت کے نزدیک نہ ہونا، کیونکہ اس کے نزدیک ہونے کی صورت میں تم ظالمین اور ستمگاروں میں سے ہوجاؤگے
وہ شیطان جس نے جناب آدم کو سجدہ نہ کرنے میں حکم خدا کی مخالفت کی اور خدا کی بارگاہ سے نکال دیا گیا، اسے خدا کی لعنت تکلیف دی رھی تھی، اس کا غرور و تکبر اس بات کی اجازت ن ہیں دیتا تھا کہ خدا کی بارگاہ میں توبہ کرلے، کینہ اور حسد کی وجہ سے جناب آدم و حوا علیھماالسلام سے دشمنی نکالنے کی فکر میں لگ گیا تاکہ ان کا چھپا ہوا بدن ظاھر ہوجائے، اور اس کی اطاعت کرتے ہوئے اپنی عظمت و کرامت سے ھاتھ دھو بیٹ ہیں ، اور بہشت عنبر سے باھر نکال دئے جائیں نیز خدا کے لطف و کرم سے منھ موڑلیں۔
چنانچہ ان جملوں کے ذریعہ اس درخت کا پھل کھلانے کے لئے ان ہیں وسوسہ میں ڈال دیا:
”اے آدم و حوا ! خداوندعالم نے اس درخت کا پھل کھانے سے اس لئے منع کیا ہے کہ اگر تم اس کا پھل کھالوگے تو فرشتے بن جاؤگے یا اس ھرے بھرے باغ میں ھمیشہ ھمیشہ کے لئے رہ جاؤگے“۔
اپنے وسوسہ کو ان دونوں کے دلوں میں ثابت و مستحکم کرنے کے لئے اس نے (جھوٹی) قسم کھائی کہ میں تمھارا خیرخواہ ہوں۔
شیطان کا حسین وسوسہ اور اس کی قسم نے دونوں حضرات کے حرص کو شعلہ ور کردیا، ان دونوں کا حرص خداوندعالم کی نھی کے درمیان حجاب بن گیا شیطان ان دونوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگیا، او ر یہ خدا کی نافرمانی میں مبتلا ہوگئے ۔اس درخت کا پھل کھالیا، ان کا بدن ظاھر ہوگیا، وقار و ہیبت اور نور و کرامت کا لباس اترگیا، اپنے بدن کو بہشت کے درخت کے پتوں سے چھپانا شروع کیا، اس وقت خداوندعالم نے خطاب فرمایا کہ کیا ھم نے تم ہیں اس درخت کے قریب جانے سے منع ن ہیں کیا تھا اور اعلان نہ کیا تھا کہ شیطان تمھارا كُھلا دشمن ہے؟!
جناب آدم و حوا بہشت سے نکال دئے گئے، مقام خلافت و علم اور مسجود ملائکہ ہونے سے کوئی کام نہ چلا، اور جو عظمت ان کو دی گئی تھی اس سے ھبوط کرگئے، اور زندگی کے لئے زمین پر بھیج دئے گئے۔
مقام قرب سے دوری، فرشتوں کی ھم نشینی سے محرومی، بہشت سے خروج، نھی خدا پر بے توجھی اور شیطان کی اطاعت کی وجہ سے دونوں غم و اندوہ اور حسرت میں غرق ہوگئے، خود پسندی کے خوفناک اور محدود زندان میں پہنچ گئے، کیونکہ اسی خود پسندی اور خود بینی کی وجہ سے رحمت و عنایت اور لطف و کرم سے محروم ہوچکے تھے، اورغیر اللہ کے جال میں پھنس گئے تھے، اور ایمان، عشق اور بیداری کی فضا میں وارد ہوگئے، جھاں سے دنیاوی فائدے اور آخرت کے لئے بے نھایت فوائد انسان کو ملنے والے ہیں ۔
جب آدم و حوّا (علیھما السلام) اس طرح اپنے آپ میں آئے تو فریاد کی کہ ھم انانیت اور غفلت کے سبب فراق یار کے زندان گرفتار ہوگئے ہیں ، خودخواھی اور حرص و غرور کے اندھیرے میں غرق ہوگئے اور(
ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا
)
سے دچار ہوگئے۔
اپنی حالت پر متوجہ ہونے، حرّیت و آزادی کے میدان میںوارد ہونے، شیطان کے جال سے نجات پانے، خداوندعالم کی طرف متوجہ ہونے اور بارگاہ خداوندی میں تواضع و انکساری سے پیش آنے کا سبب ہے، کہ اگر شیطان بھی اسی طریقہ سے اپنی حالت پر توجہ کرتا تو خداوندعالم کی بارگاہ سے مردود نہ ہوتا اوراس کے گلے میں ھمیشہ کے لئے لعنت کا طوق نہ ڈالا جاتا۔جناب آدم و حوا علیھماالسلام غور و فکر او راندیشہ، تعقل، توجہ، بینائی اور بیداری کی معنوی اور قیمتی فضاء میں وارد ہوئے، ندامت و پشیمانی اور اشک چشم کے ساتھ اس طرح ادب اور خاکساری دکھائی کہ یہ ن ہیں کھا کہ: ”اِغْفِرْ لَنَا
“، بلکہ خدا کی بارگاہ میں عرض کیا:(
وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا
)
اگر ھمیں ن ہیں بخشے گا اور ھم پر رحم نہ کرے گا(
لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ
۔)
تو ھم خسارہ اٹھانے والوں میں ہوجائیں گے۔
اس توجہ، بیداری، تواضع و انکساری، ندامت و پشیمانی، گریہ و توبہ اور خودی سے نکل کر خدائی بن جانے کی بنا پر ہی رحمت خدا کے دروازے کھل گئے، خدائے مھربان کا لطف و کرم شامل حال ہوا اور خدا کی عنایت و توجہ نے بڑھ کر استقبال کیا:
(
فَتَلَقَّی آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیم
)
”پھر آدم نے پروردگار سے کلمات کی تعلیم حاصل کی اور ان کی بر کت سے خدانے ان کی توبہ قبول کر لی کہ وہ توبہ قبول کرنے والا اور مھربان ہے “۔
نور ربوبیت نے کلمات میں تجلی کی اور جناب آدم کی روح نے درک کیا، اس تینوں حقیقت یعنی نور ربوبی کی تجلی، کلمات اور روح آدم کی ھم آہنگی کے سبب ہی توبہ وجود میں آئی، وہ توبہ جس نے ماضی کا تدارک کردیا، اور توبہ کرنے والوں کے مستقبل کو روشن اور تابناک بنادیا۔
حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ جن کلمات کے ذریعہ جناب آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی وہ کلمات یہ تھے:
”اَللّٰهُمَّ، لا اِلٰهَ اِلاَّ اَنْتَ، سُبْحانَكَ وَ بِحَمْدِكَ، رَبِّ اِنّی ظَلَمْتُ نَفْسی، فَاغْفِرْلِی، اِنَّكَ خَیرُ الْغٰافِرِینَ اَللّٰهُمَّ، لا اِلٰهَ اِلاَّ اَنْتَ، سُبْحانَكَ وَ بِحَمْدِكَ، رَبِّ اِنّی ظَلَمْتُ نَفْسی، فَارْحَمْنی اِنَّكَ خَیرُالرّاحِمینَ اَللّٰهُمَّ، لا اِلٰهَ اِلاَّ اَنْتَ، سُبْحانَكَ وَ بِحَمْدِكَ، رَبِّ اِنّی ظَلَمْتُ نَفْسی فَتُبْ عَلَی اِنَّكَ اَنْتَ التَّوّابُ الرَّحیمُ
“
”پالنے والے! تو پاک و پاکیزہ ہے میں تیری حمد کرتا ہو ںتیرے علاوہ کوئی خدا ن ہیں ہے، پالنے والے میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، لہٰذا مجھے معاف کردے، کیونکہ تو بھترین معاف کرنے والا ہے، تیرے علاوہ کوئی خدا ن ہیں ہے، تو پاک و پاکیزہ ہے، میں تیری حمد کرتا ہو ں، پالنے والے ! میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تو میرے اوپر رحم فرما کہ تو بھترین رحم کرنے والا ہے، پالنے والے! تیرے علاوہ کوئی خدا ن ہیں ہے، تو پاک و پاکیزہ ہے میں تیری حمد کرتا ہو ں، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، تو میری توبہ کو قبول کرے کیونکہ تو بھت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور مھربان ہے“۔
اس سلسلے میں یہ روایت بھی ملتی ہے : جناب آدم (علیہ السلام )نے عرش الٰھی پر چند عظیم الشان اسماء لکھے دیکھے، تو انھوں نے ان کے بارے میں سوال کیا تو آواز آئی: یہ کلمات مقام و منزلت کے اعتبار سے تمام موجودات عالم پر فضیلت رکھتے ہیں : اور وہ ہیں :
محمد، علی، فاطمہ، حسن و حسین (علیھم السلام)، جناب آدم نے اپنی توبہ کے قبول ہونے اور اپنے مقام کی بلندی کے لئے ان اسماء گرامی کی حقیقت سے توسل کیا اور ان اسماء کی برکت سے جناب آدم (علیہ السلام) کی توبہ قبول ہوگئی
جی ھاں! جیسے ہی کلمات کی تجلیات کے لئے خداوندعالم کے الھامات کی بارش جناب آدم کے دانہ عشق و محبت پربرسی، تو اپنے نفس پر ظلم کے اقرار و اعتراف کا پودا اُگ آیا، جناب آدم نے دعا و گریہ اور استغاثہ کیا، احساس گناہ کا درخت ان کی روح میں تناور ہوگیا اور اس پر توبہ کا پھول کھل اٹھا:
(
ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَیهِ وَهَدَی
)
۔
”پھر خدا نے ان ہیں چن لیااوران کی توبہ قبول کرلی اور ان ہیں راستہ پرلگادیا“۔
کیا کیاچیزیں گناہ ہیں ؟
حضرت امام صادق علیہ السلام ”توبہ نامہ “کے عنوان سے بھترین و خوبصورت کلام بیان فرماتے ہیں ، جس میں ان گناھوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ جن سے توبہ کرناواجب فوری، واجب شرعی اور واجب اخلاقی ہے، اور اگر ان گناھوں کا تدارک نہ کیا گیا اور حقیقی توبہ کے ذریعہ اپنے نامہ اعمال کو دھویانہ گیا تو روز قیامت عذاب الٰھی اور دردناک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا، امام علیہ السلام گناھوں کو اس طرح بیان کرتے ہیں :
”واجبات الٰھی کا ترک کرنا، حقوق الٰھی جیسے نماز، روزہ، زکوٰة، جھاد، حج، عمرہ، وضوء، غسل، عبادت شب، کثرت ذکر، کفارہ قسم، مصیبت میں کلمہ استرجاع کہنا، (انا لله و انا الیه راجعون
) وغیرہ سے غفلت کرنا، اور اپنے واجب و مستحب اعمال میں کوتاھی ہونے کے بعد ان سے روگردانی کرنا۔
گناھان کبیرہ کا مرتکب ہونا، معصیت الٰھی کی طرف رغبت رکھنا، گناھوں کا انجام دینا، بری چیزوں کو اپنانا، شھوات میں غرق ہونا، کسی خطا کو اپنے ذمہ لینا، غرض یہ کہ عمدی یا غلطی کی بنا پر ظاھری اور مخفی طور پر معصیت خدا کرنا۔
کسی کا ناحق خون بھانا، والدین کا عاق ہونا، قطع رحم کرنا، میدان جنگ سے فرار کرنا، باعفت شخص پر تھمت لگانا، ناجائز طریقہ سے یتیم کا مال کھانا، جھوٹی گواھی دینا، حق کی گواھی سے کترانا، دین فروشی، ربا خوری، خیانت، مال حرام، جادو، ٹوٹا، غیب کی باتیں گڑھنا، نظر بد ڈالنا، شرک، ریا، چوری، شراب خوری، کم تولنا اور کم ناپنا، ناپن تول میں خیانت کرنا، کینہ و دشمنی، منافقت، عہد و پیمان توڑدینا، خوامخواہ الزام لگانا، فریب اور دھوکہ دینا، اھل ذمہ سے کیا ہوا عہدو پیمان توڑنا، قسم، غیبت کرنایا سننا، چغلی کرنا، تھمت لگانا، دوسروں کی عیب تلاش کرنا، دوسروں کو بُرا بھلا کہنا، دوسروں کو بُرے ناموںسے پکارنا، پڑوسی کو اذیت پہچانا، دوسروں کے گھروں میں بغیر اجازت کے داخل ہونا، اپنے اوپر بلا وجہ فخر و مباھات کرنا، گناھوں پر اصرار کرنا، ظالموں کا ھمنوا بننا، تکبر کرنا غرور سے چلنا، حکم دینے میں ستم کرنا، غصہ کے عالم میں ظلم کرنا، کینہ و حسد رکھنا، ظالموںکی مدد کرنا، دشمنی اور گناہ میں مدد کرنا، اھل و عیال اور مال کی تعداد میں کمی کرنا، لوگوں سے بدگمانی کرنا، ہوائے نفس کی اطاعت کرنا، شھوت پرستی، برائیوں کا حکم دینا، نیکیوں سے روکنا، زمین پر فتنہ و فساد پھیلانا، حق کا انکار کرنا، ناحق کاموں میں ستمگروں سے مدد لینا، دھوکا دینا، کنجوسی کرنا، نہ جاننے والی چیز کے بارے میں گفتگو کرنا، خون اور یا سور کا گوشت کھانا، مردار یا غیر ذبیحہ جانور کا گوشت کھانا، حسد کرنا، کسی پر تجاوز کرنا، بری چیزوں کی دعوت دینا، خدا کی نعمتوں پر مغرور ہونا، خودغرضی دکھانا، احسان جتانا، قرآن کا انکار کرنا، یتیم کو ذلیل کرنا، سائل کو دھتکارنا، قسم توڑنا، جھوٹی قسم کھانا، دوسروں کی ناموس اور مال پر ھاتھ ڈالنا، برا دیکھنا، برا سننا اور برا کہنا، کسی کو بری نظر سے چھونا، دل میں بُری بُری باتیں سوچنااور جھوٹی قسم کھانا“
واجب چیزوں کو ترک کرنا اور حرام چیزوں کا مرتکب ہونا، حضرت امام صادق علیہ السلام کے اس ملکوتی کلام میں یہ سب باتیں گناہ کے عنوان سے بیان ہوئی ہیں جن سے توبہ کرنا ”واجب فوری“ ہے۔
گناھوں کے برے آثار
قرآن مجید کی آیات اور اھل بیت علیھم السلام کی تعلیمات کے پیش نظر دنیا و آخرت میں گناھوںکے برُے آثارنمایاں ہوتے ہیں کہ اگر گناھگار اپنے گناھوں سے توبہ نہ کرے تو بے شک ان کے برے آثار میں گرفتار ہوجاتا ہے۔
(
بَلَی مَنْ كَسَبَ سَیئَةً وَاحَاطَتْ بِهِ خَطِیئَتُهُ فَاوْلَئِكَ اصْحَابُ النَّارِ هم فِیها خَالِدُونَ
)
۔
”یقینا جس نے کوئی برائی کی اور اس کی غلطی نے اسے گھیر لیا، تو ایسے لوگوں کے لئے جہنم ہے اور وہ اس میں ھمیشہ رہنے والے ہیں “۔
(
قُلْ هل نُنَبِّئُكُمْ بِالْاخْسَرِینَ اعْمَالًا الَّذِینَ ضَلَّ سَعْیهم فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا وَهم یحْسَبُونَ انَّهم یحْسِنُونَ صُنْعًا اولَئِكَ الَّذِینَ كَفَرُوا بِآیاتِ رَبِّهم وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ اعْمَالُهم فَلاَنُقِیمُ لَهم یوْمَ الْقِیامَةِ وَزْنًا
)
۔
”اے پیغمبر کیا ھم تم ہیں ان لوگوں کے بارے میں اطلا ع دیں جو اپنے اعمال میں بدترین خسارہ میں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش زندگانی دنیا میں بہک گئی ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اچھے اعمال انجا م دیں رہے ر ہیں ، یھی وہ لوگ ہیں جنھوں نے آیات پروردگار اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، ان کے اعمال برباد ہو گئے ہیں اور ھم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم ن ہیں کریں گے “۔
(
فِی قُلُوبِهم مَرَضٌ فَزَادَهم اللهُ مَرَضًا وَلَهم عَذَابٌ الِیمٌ
)
۔
”ان کے دلوں میں بیماری ہے اور خدا نے نفاق کی بنا پر اسے اور بھی بڑھا دیا ہے، اب اس جھوٹ کے نتیجہ میں دردناک عذاب ملے گا“۔
(
فَتَرَی الَّذِینَ فِی قُلُوبِهم مَرَضٌ یسَارِعُونَ فِیهم
)
”اے پیغمبر آپ دیک ہیں گے کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ دوڑ دوڑ کر ان کی طرف جا رہے ہیں “۔
(
وَامَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهم مَرَضٌ فَزَادَتْهم رِجْسًا إِلَی رِجْسِهم
)
۔
”اور جن کے دلوں میں مرض ہے ان کے مرض میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ کفر ہی کی حالت میں مر جاتے ہیں “۔
(
إِنَّ الَّذِینَ یاكُلُونَ امْوَالَ الْیتَامَی ظُلْمًا إِنَّمَا یاكُلُونَ فِی بُطُونِهم نَارًا وَسَیصْلَوْنَ سَعِیرًا
)
۔
”جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں وہ در حقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور وہ عنقریب واصل جہنم ہوں گے “۔
مذکورہ آیہ اور اس سے ملتی جلتی آیتوں کی بناپر بعض محققین کا عقیدہ ہے کہ روز قیامت گناھگاروں کو ملنے والا عذاب یھی اس کے گناہ ہوں گے، یعنی یھی انسان کے گناہ ہوں گے جو روز قیامت دردناک عذاب کی شکل میں ظاھر ہوں گے، اور گناھگار کو ھمیشہ کے لئے اپنا اسیر بناکر عذاب میں مبتلا رک ہیں گے۔
(
إِنَّ الَّذِینَ یكْتُمُونَ مَا انزَلَ اللهُ مِنْ الْكِتَابِ وَیشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِیلًا اوْلَئِكَ مَا یاكُلُونَ فِی بُطُونِهم إِلاَّ النَّارَ وَلاَیكَلِّمُهم اللهُ یوْمَ الْقِیامَةِ وَلاَیزَكِّیهم وَلَهم عَذَابٌ الِیمٌ اوْلَئِكَ الَّذِینَ اشْتَرَوْا الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَی وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَا اصْبَرَهم عَلَی النَّارِ
)
۔
”جو لوگ خدا کی نازل کی ہوئی کتاب کے احکام کو چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور خدا، روز قیامت ان سے بات بھی نہ کرے گا اور نہ ان کا تذکیہ کرے گا (بلکہ) ان کے لئے دردناک عذاب قرار دے گا۔یھی وہ لوگ ہیں جنھوں نے گمراھی کو ہدایت کے عوض اور عذاب کو مغفرت کے عوض خرید لیا ہے، آخر یہ آتش جہنم پر کتنا صبر کریں گے “۔
(
مَثَلُ الَّذِینَ كَفَرُوا بِرَبِّهم اعْمَالُهم كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّیحُ فِی یوْمٍ عَاصِفٍ لاَیقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَی شَیءٍ ذَلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِیدُ
)
۔
”جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی مانند ہے جسے آندھی کے دن کی تند ہوا اڑا لے جائے کہ وہ اپنے حاصل کئے ہوئے پر بھی کوئی اختیار ن ہیں رکھتے اور یھی بھت دور تک پھیلی ہوئی گمراھی ہے“۔
لہٰذا اس طرح کی آیات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ گناھوں کے بُرے آثار اس سے ک ہیں زیادہ ہیں ، مثلاً:
آتش جہنم میں جلنا، عذاب کا ابدی ہونا، دنیا و آخرت میںنقصان اور خسارہ میں رہنا، انسان کی ساری زحمتوں پر پانی پھرجانا، روز قیامت (نیک) اعمال کا حبط (یعنی ختم) ہوجانا، روز قیامت اعمال کی میزان قائم نہ ہونا، توبہ نہ کرنے کی وجہ سے گناھوں میں اضافہ ہونا، دشمنان خدا کی طرف دوڑنا، انسان سے خدا کا تعلق ختم ہوجانا، قیامت میں تزکیہ نہ ہونا، ہدایت کا گمراھی سے بدل جانا، مغفرت الٰھی کے بدلہ عذاب الٰھی کا مقرر ہونا۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایک تفصیلی روایت میں گناھوں کے برے آثار کے بارے میں اس طرح ارشاد فرماتے ہیں :
جن گناھوں کے ذریعہ نعمتیں تبدیل ہوجاتی ہیں :
عوام الناس پرظلم و ستم کرنا، کار خیر کی عادت چھوڑ دینا، نیک کام کرنے سے دوری کرنا، کفران نعمت کرنا اور شکر الٰھی چھوڑ دینا۔
جو گناہ ندامت اور پشیمانی کے باعث ہوتے ہیں :
قتل نفس، قطع رحم، وقت ختم ہونے تک نماز میں تاخیر کرنا، وصیت نہ کرنا، لوگوں کے حقوق ادا نہ کرنا، زکوٰة ادانہ کرنا، یھاں تک کہ اس کی موت کا پیغام آجائے اور اس کی زبان بند ہوجائے۔
جن گناھوں کے ذریعہ نعمتیں زائل ہوجاتی ہیں :
جان بوجھ کر ستم کرنا، لوگوں پر ظلم و تجاوز کرنا، لوگوں کا مذاق اڑانا، دوسرے لوگوں کو ذلیل کرنا۔
جن گناھوں کے ذریعہ انسان تک نعمتیں ن ہیں پہنچتیں:
اپنی محتاجگی کا اظھار کرنا، نماز پڑھے بغیر رات کے ایک تھائی حصہ میں سونا یھاں تک کہ نماز کا وقت نکل جائے، صبح میں نماز قضا ہونے تک سونا، خدا کی نعمتوں کو حقیر سمجھنا، خداوندعالم سے شکایت کرنا۔
جن گناھوں کے ذریعہ پردہ اٹھ جاتا ہے:
شراب پینا، جوا کھیلنا یا سٹہ لگانا، مسخرہ کرنا، بیھودہ کام کرنا، مذاق اڑانا، لوگوں کے عیوب بیان کرنا، شراب پینے والوں کی صحبت میں بیٹھنا۔
جو گناہ نزول بلاء کا سبب بنتے ہیں :
غم زدہ لوگوں کی فریاد رسی نہ کرنا، مظلوموں کی مدد نہ کرنا، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر جیسے الٰھی فریضہ کا ترک کرنا۔
جن گناھوں کے ذریعہ دشمن غالب آجاتے ہیں :
کھلے عام ظلم کرنا، اپنے گناھوں کو بیان کرنا، حرام چیزوں کو مباح سمجھنا، نیک و صالح لوگوں کی نافرمانی کرنا، بدکاروں کی اطاعت کرنا۔
جن گناھوں کے ذریعہ عمر گھٹ جاتی ہے:
قطع تعلق کرنا، جھوٹی قسم کھانا، جھوٹی باتیں بنانا، زناکرنا، مسلمانوں کا راستہ بند کرنا، ناحق امامت کا دعويٰ کرنا۔
جن گناھوں کے ذریعہ امیدٹوٹ جاتی ہے:
رحمت خدا سے ناامیدھونا، لطف خدا سے زیادہ مایوس ہونا، غیر حق پر بھروسہ کرنا اور خداوندعالم کے وعدوں کو جھٹلانا۔
جن گناھوں کے ذریعہ انسان کا ضمیر تاریک ہوجاتا ہے:
سحر و جادو اور غیب کی باتیں کرنا، ستاروں کو موثر ماننا، قضا و قدر کو جھٹلانا، عقوق والدین ہونا۔
جن گناھوں کے ذریعہ (احترام کا) پردہ اٹھ جاتا ہے:
واپس نہ دینے کی نیت سے قرض لینا، فضول خرچی کرنا، اھل و عیال اور رشتہ داروں پر خرچ کرنے میں بخل کرنا، بُرے اخلاق سے پیش آنا، بے صبری کرنا، بے حوصلہ ہونا، اپنے کو کاھل جیسا بنانااوراھل دین کو حقیر سمجھنا۔
جن گناھوں کے ذریعہ دعا قبول ن ہیں ہوتی:
بری نیت رکھنا، باطن میں برا ہونا، دینی بھائیوں سے منافقت کرنا، دعا قبول ہونے کا یقین نہ رکھنا، نماز میں تاخیر کرنا یھاں تک کہ اس کا وقت ختم ہوجائے، کار خیر اور صدقہ کو ترک کرکے تقرب الٰھی کو ترک کرنا اور گفتگو کے دوران نازیبا الفاظ استعمال کرنا اور گالی گلوچ دینا۔
جو گناہ باران رحمت سے محرومی سبب بنتے ہیں :
قاضی کاناحق فیصلہ کرنا، ناحق گواھی دینا، گواھی چھپانا، زکوٰة اور قرض نہ دینا، فقیروں اور نیازمندوں کی نسبت سنگدل ہونا، یتیم اورضرورت مندوں پر ستم کرنا، سائل کو دھتکارنا، رات کی تاریکی میں کسی تھی دست اور نادار کو خالی ھاتھ لوٹانا۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام گناھوں کے سلسلے میں فرماتے ہیں :
”لَوْ لَمْ یتَوَعَّدِ اللّٰهُ عَلٰی مَعْصِیتِهِ لَکانَ یجِبُ ان لا یعْصيٰ شُكْراً لِنِعَمِهِ
:“
”اگر خداوندعالم نے اپنے بندوں کو اپنی مخالفت پر عذاب کا وعدہ نہ دیا ہوتا، تو بھی اس کی نعمت کے شکرانے کے لئے واجب تھا کہ اس کی معصیت نہ کی جائے“۔
قارئین کرام! خداوندعالم کی بے شمار نعمتوں کے شکرکی بنا پر ھمیں چاہئے کہ ھر طرح کی معصیت اور گناہ سے پرھیز کریں اور اپنے بُرے ماضی کی بدلنے کے لئے خداوندعالم کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کریں کیونکہ توبہ استغفار کی بنا پر خداوندعالم کی رحمت و مغفرت اور اس کا لطف و کرم انسان کے شامل حال ہوتا ہے۔
حقیقی توبہ کا راستہ
توبہ (یعنی خداوندعالم کی رحمت و مغفرت اور اس کی رضا و خوشنودی تک پہنچنا، جنت میں پھونچنے کی صلاحیت کا پیدا کرنا، عذاب جہنم سے امان ملنا، گمراھی کے راستہ سے نکل آنا، راہ ہدایت پر آجانا اور انسان کے نامہ اعمال کا ظلمت و سیاھی سے پاک و صاف ہوجانا ہے)؛ اس کے اھم آثار کے پیش نظریہ کھا جاسکتا ہے کہ توبہ ایک عظیم مرحلہ ہے، توبہ ایک بزرگ پروگرام ہے، توبہ عجیب و غریب حقیقت ہے اور ایک روحانی اور آسمانی واقعیت ہے ۔
لہٰذا فقط ”استغفر الله“ کہنے، یا باطنی طور پر شرمندہ ہونے اور خلوت و بزم میں آنسو بھانے سے توبہ حاصل ن ہیں ہوتی، کیونکہ جولوگ اس طرح توبہ کرتے ہیں وہ کچھ اس مدت کے بعد دوبارہ گناھوں کی طرف پلٹ جاتے ہیں !
گناھوں کی طرف دوبارہ پلٹ جانا اس چیز کی بھترین دلیل ہے کہ حقیقی طور پر توبہ ن ہیں ہوئی اور انسان حقیقی طور پر خدا کی طرف ن ہیں پلٹا ہے۔
حقیقی توبہ اس قدر اھم اور باعظمت ہے کہ قرآن کریم کی بھت سی آیات اور الٰھی تعلیمات اس سے مخصوص ہیں ۔
امام علی علیہ السلام کی نظر میں حقیقی توبہ
امام علی علیہ السلام نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جس نے زبان پر ”استغفر الله“ جاری کیا تھا:
اے شخص ! تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، کیا تو جانتا ہے کہ توبہ کیا ہے؟ یاد رکھ توبہ علّیین کا درجہ ہے، جو ان چھ چیزوں سے مل کر محقق ہوتا ہے:
۱۔ اپنے ماضی پر شرمندہ اور پشیمان ہونا۔
۲۔ دوبارہ گناہ نہ کرنے کا مستحکم ارادہ کرنا۔
۳۔ لوگوں کے حقوق کاادا کرنا۔
۴۔ ترک شدہ واجبات کو بجالانا۔
۵۔ گناھوں کے ذریعہ پیدا ہونے والے گوشت کواس قدر پگھلادینا کہ ہڈیوں پر گوشت باقی نہ رہ جائے، اور حالت عبادت میں ہڈیوں پر گوشت پیدا ہو۔
۶۔ بدن کو اطاعت کی تکلیف میں مبتلا کرنا جس طرح گناہ کا مزہ چکھا ہے۔
لہٰذا ان چھ مرحلوں سے گزرنے کے بعد ”استغفر الله“ کہنا۔
جی ھاں، توبہ کرنے والے کو اس طرح توبہ کرنا چاہئے، گناھوں کو ترک کرنے کا مصمم ارادہ کرلے، گناھوں کی طرف پلٹ جانے کا ارادہ ھمیشہ کے لئے اپنے دل سے نکال دے، دوسری، تیسری بار توبہ کی امید میں گناھوں کو انجام نہ دے، کیونکہ یہ امید بے شک ایک شیطانی امید اور مسخرہ کرنے والی حالت ہے، حضرت امام رضا علیہ السلام ایک روایت کے ضمن میں فرماتے ہیں :
”مَنِ اسْتَغْفَرَ بِلِسانِهِ وَلَمْ ینْدَمْ بِقَلْبِهِ فَقَدِ اسْتَهْزَا بِنَفْسِهِ
“
”جو شخص زبان سے توبہ و استغفار کرے لیکن دل میں پشیمانی اور شرمندگی نہ ہو تو گویا اس نے خود کا مذاق اڑایاھے!“
واقعاً یہ ہنسی کا مقام اور افسوس کی جگہ ہے کہ انسان دوا او رعلاج کی امید میں خود کو مریض کرلے، واقعاً انسان کس قدر خسارہ ہے کہ وہ توبہ کی امید میں گناہ و معصیت کا مرتکب ہوجائے، اور خود کو یہ تلقین کرتا رہے کہ ھمیشہ توبہ کا دروازہ كُھلا ہوا ہے، لہٰذا اب گناہ کرلوں، لذت حاصل کرلوں !! بعد میں توبہ کرلوں گا!
اگر حقیقی طور پر توبہ کی جائے اور اگر تمام شرائط کے ساتھ توبہ ہوجائے، تو پھر انسان کی روح یقینا پاک ہوجاتی ہے نفس میں پاکیزگی اور دل میں صفا پیدا ہوجاتی ہے، اور انسان کے اعضاء و جوارح نیز ظاھر و باطن سے گناھوں کے آثار ختم ہوجاتے ہیں ۔
توبہ بار بار ن ہیں ہونا چاہئے کیونکہ گناہ ظلمت و تاریکی اور توبہ نور و روشنی کا نام ہے، اندھیرے اور روشنی میں زیادہ آمد و رفت سے روح کی آنک ہیں خراب ہوجاتی ہیں ۔ اگر کوئی گناہ سے توبہ کرنے کے بعد دوبارہ پھر اسی گناہ سے ملوث ہوجائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ توبہ ہی ن ہیں کی گئی ہے، (یا مکمل شرائط کے ساتھ توبہ ن ہیں ہوئی ہے۔)
انسانی نفس جہنم کے منھ کی طرح ہے جو کبھی بھرنے والا ن ہیں ہے، اسی طرح انسانی نفس گناھوں سے ن ہیں تھکتا، اس کے گناھوں میں کمی ن ہیں ہوتی، جس کی وجہ سے انسان خدا سے دور ہوتا چلا جاتا ہے لہٰذا اس تنورکے دروازہ کو توبہ کے ذریعہ بند کیا جائے اور اس عجیب و غریب غیر مرئی موجود کی سرکشی کو حقیقی توبہ کے ذریعہ باندھ لیاجائے۔
توبہ؛ انسانی حالت میں انقلاب اور دل و جان کے تغیر کا نام ہے، اس انقلاب کے ذریعہ انسان گناھوں کی طرف کم مائل ہوتا ہے اور خداوندعالم سے ایک مستحکم رابطہ پیدا کرلیتا ہے۔
توبہ؛ ایک نئی زندگی کی ابتداء ہوتی ہے، معنوی اور ملکوتی زندگی جس میں قلب انسان تسلیم خدا، نفس انسان تسلیم حسنات ہوجاتا ہے اور ظاھر و باطن تمام گناھوں کی گندگی اور کثافتوں سے پاک ہوجاتا ہے۔
توبہ؛ یعنی ہوائے نفس کے چراغ کو گُل کرنا اور خدا کی مرضی کے مطابق اپنے قدم اٹھانا۔
توبہ؛ یعنی اپنے اندر کے شیطان کی حکومت کو ختم کرنا اور اپنے نفس پر خداوندعالم کی حکومت کا راستہ ھموار کرنا۔
ھر گناہ کے لئے مخصوص توبہ
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر خدا کی بارگاہ میں اپنے مختلف گناھوں کے سلسلہ میں استغفار کرلیا جائے اور ”استغفرالله ربی و اتوب الیہ“ زبان پر جاری کرلیاجائے، یا مسجد اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے روضوں میں ایک زیارت پڑھ لی جائے یا چند آنسو بھالئے جائیں تو اس کے ذریعہ توبہ ہوجائے گی، جبکہ آیات وروایات کی نظر میں اس طرح کی توبہ مقبول ن ہیں ہے، اس طرح کے افراد کو توجہ کرنا چاہئے کہ ھر گناہ کے اعتبار سے توبہ بھی مختلف ہوتی ہے، ھر گناہ کے لئے ایک خاص توبہ مقرر ہے کہ اگر انسان اس طرح توبہ نہ کرے تو اس کا نامہ اعمال گناہ سے پاک ن ہیں ہوگا، اور اس کے بُرے آثار قیامت تک اس کی گردن پر باقی ر ہیں گے، اور روز قیامت اس کی سزا بھگتنا پڑے گی۔
اور ان تمام گناھوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱۔ عبادت اور واجبات کو ترک کرنے کی صورت میں ہونے والے گناہ، جیسے نماز، روزہ، زکوٰة، خمس اور جھاد وغیرہ کو ترک کرنا۔
۲۔ خداوند عالم کے احکام کی مخالفت کرتے ہوئے گناہ کرناجن میں حقوق الناس کا کوئی دخل نہ ہو، جیسے شراب پینا، نامحرم عورتوں کو دیکھنا، زنا، لواط، استمناء، جُوا، حرام میوزیک سننا وغیرہ ۔
۳۔ وہ گناہ جن میں فرمان خدا کی نافرمانی کے علاوہ لوگوں کے حقوق کو بھی ضایع کیا گیا ہو، جیسے قتل، چوری، سود، غصب، مالِ یتیم ناحق طور پر کھانا، رشوت لینا، دوسروں کے بدن پر زخم لگانا یا لوگوں کو مالی نقصان پہچانا وغیرہ وغیرہ۔
پھلی قسم کے گناھوںکی توبہ یہ ہے کہ انسان تمام ترک شدہ اعمال کو بجالائے، چھوٹی ہوئی نماز پڑھے، چھوٹے ہوئے روزے رکھے، ترک شدہ حج کرے، اور اگر خمس و زکوٰة ادان ہیں کیا ہے تو ان کو ادا کرے۔
دوسری قسم کے گناھوں کی توبہ یہ ہے کہ انسان شرمندگی کے ساتھ استغفار کرے اور گناھوں کے ترک کرنے پر مستحکم ارادہ کرلے، اس طرح کہ انسان کے اندر پیدا ہونے والا انقلاب اعضاء و جوارح کو دوبارہ گناہ کرنے سے روکے رکھے۔
تیسری قسم کے گناھوں کی توبہ یہ ہے کہ انسان لوگوں کے پاس جائے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کرے، مثلاً قاتل، خود کو مقتول کے ورثہ کے حوالے کردے، تاکہ وہ قصاص یا مقتول کا دیہ لے سکیں، یا اس کو معاف کردیں، سود خورتمام لوگوں سے لئے ہوئے سود کے حوالے کردے، غصب کرنے والا ان چیزوں کو ان کے مالک تک پھونچادے، مال یتیم اور رشوت ان کے مالکوں تک پہنچائے، کسی کو زخم لگایا ہے تو اس کا دیہ ادا کرے، مالی نقصان کی تلافی کرے، پس حقیقی طور پر توبہ قبول ہونے کے تین مذکورہ تین چیزوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔
۱۔ شیطان
لفظ شیطان اور ابلیس قرآن مجید میں تقریباً ۹۸ بار ذکر ہوا ہے، جو ایک خطرناک اور وسوسہ کرنے والا موجود ہے، جس کا مقصد صرف انسان کو خداوندعالم کی عبادت و اطاعت سے روکنا اور گناہ و معصیت میں غرق کرنا ہے۔
قرآن مجید میں گمراہ کرنے والے انسان اور دکھائی نہ دینے والا وجودجو انسان کے دل میں وسوسہ کرتا ہے، ان کو شیطان کھا گیا ہے۔
شیطان، ” شطن“ اور ”شاطن“ کے مادہ سے ماخوذھے اور خبیث، ذلیل، سرکش، متمرد، گمراہ اور گمراہ کرنے کے معنی میں آیا ہے، چاھے یہ انسانوں میں سے ہو یا جنوں میں سے۔
قرآن مجید اور اس کی تفسیر و توضیح میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے بیان ہونے والی احادیث وروایات میں شیطان جنّ وانس کی خصوصیات کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے:
قسم کھایا ہوا اور کھلم کھلا دشمن، برائی اور فحشاء و منکر کا حکم کرنے والا، خداوندعالم کی طرف ناروا نسبت دینے والا، صاحبان حیثیت کو ڈرانے والا کہ ک ہیں نیک کام میںخرچ کرنے سے فقیر نہ بن جائیں، انسانوں کو لغزشوں میں ڈالنے والا، گمراھی میں پھنسانے والا تاکہ لوگ سعادت و خوشبختی سے کوسوں دور چلے جائیں، شراب پلانے کا راستہ ھموار کرنے والا، جوا کھیلنے، حرام شرط لگانے اور لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی نسبت کینہ و دشمنی ایجاد کرنے والا، برے کام کو اچھا بناکر پیش کرنے والا، جھوٹے وعدے دینے والا، انسان میں غرور پیدا کرنے والا، اور اسے ذلت کی طرف ڈھکیلنے والا، راہ حق میں رکاوٹ پیدا کرنے اور جہنم میں پہنچانے والے کاموں کی دعوت دینے والا، میاں بیوی کو طلاق کی منزل تک پہنچانے والا، لوگوںمیں گناھوں اور برائیوںکا راستہ فراھم کرنے او ران ہیں دنیا کا اسیر بنانے والا، انسان کو توبہ کی امید میں گناھوں پر اُکسانے والا، خودپسندی ایجاد کرنے والا، بخل، غیبت، جھوٹ اور شھوت کو تحریک کرنے والا، کھلم کھلا گناہ کرنے کی ترغیب کرنے والا، غصہ اور غضب کو بھڑکانے والا۔
جب تک انسان شیاطین جن و انس کے جال میں پھنسا رھتا ہے تو پھر وہ حقیقی طور پر توبہ ن ہیں کرسکتا، کیونکہ جب تک اس کے دل پر شیطان کی حکومت رہے گی، تو توبہ کے بعد شیطان پھر گناہ کرنے کے لئے وسوسہ پیدا کردے گا، اور توبہ کے ذریعہ کئے گئے عہد کو توڑنے اور اپنی اطاعت کرنے پر مجبور کردے گا۔
توبہ کرنے والے کو چاہئے کہ خداوندعالم سے توفیق طلب کرتے ہوئے گناھوں سے ھمیشہ پرھیز کرے اور شیطان سے سخت بیزار رہے ، تاکہ آہستہ آہستہ اس خبیث وجود کے نفوذ کو اپنے وجود سے ختم کردے، اور اس کی حکومت کا بالکل خاتمہ کردے، تاکہ انسان کے دل میںتوبہ و استغفار کی حقیقت باقی رہے ، اور اس نورانی عہدو پیمان کو ظلمت کے حملے توڑ نہ سکےں۔
۲۔ دنیا
تمام مادی عناصر اور انسانی زندگی کی ضروری اشیاء سے رابطہ ہی انسان کی دنیا ہے۔
اگر یہ رابطہ خداوندعالم کی مرضی کے مطابق ہو تو بے شک انسان کی یہ دنیا قابل حمد و ثنا ہے، اور اُخروی سعادت کی ضامن ہے، لیکن اگر انسان کا یھی رابطہ مادی اور ہوائے نفس کی بنا پر ہو جھاں پر کسی طرح کی کوئی حد و حدود نہ ہو تو اس وقت انسان کی یہ دنیا مذموم اور آخرت میں ذلت کا باعث ہوگی۔
بے شک اگر ہوائے نفس کی بنیاد اور بے لگام خواہشات کے ساتھ مادی چیزوں سے لگاؤ ہو تو یقینا انسان گناھوں کے دلدل میں پھنس جاتا ہے۔
اسی ناجائز رابطہ کی بنا پر انسان شھوت اور مال و دولت کا عاشق بن جاتا ہے، اور اس راستہ کے ذریعہ خدا کے حلال و حرام کی مخالفت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
اس طرح کے رابطہ کے ذریعہ انسان ؛مادی چیزوں اور شھوت پرستی میں کھوجاتا ہے، جس کا بھت زیادہ نقصان ہوتا ہے، اور جس کی بدولت آخرت میں سخت خسارہ اٹھانا پڑے گا۔
حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں بیان فرماتے ہیں :
”اَلدُّنْیا تَغُرُّ وَ تَضُرُّوَ تَمُرُّ
“۔
”دنیا، مغرور کرتی ہے، نقصان پہنچاتی ہے اور گزرجاتی ہے“۔
خداوندعالم نے اپنے محبوب رسول(ص) کو شب معراج اس مذموم دنیا میں گرفتار لوگوں کی خصوصیت کے بارے میں اس طرح فرمایا:” اھل دنیا وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا کھانا پینا، ہنسنا، رونا اور غصہ زیادہ ہوتا ہے، خدا کی عنایت پر بھت کم خوشنود ہوتے ہیں ، لوگوں سے کم راضی رھتے ہیں ، لوگوں کی شان میں بدی کرنے کے بعد عذر خواھی ن ہیں کرتے، اور نہ ہی دوسروں کی عذر خواھی کو قبول کرتے ہیں ، اطاعت کے وقت سست و کاھل اور گناہ کے وقت شجاع او رطاقتور ہوتے ہیں ، ان کی آرزوئیں طولانی ہوتی ہیں ، ان کی گفتگو زیادہ، عذاب جہنم کا خوف کم ہوتا ہے اور کھانے پینے کے وقت بھت زیاہ خوش و خرم نظر آتے ہیں ۔
یہ لوگ چین و سکون کے وقت شکر اور بلاء و مصیبت میں صبر ن ہیں کرتے، دوسروں کو ذلیل سمجھتے ہیں ، نہ کئے ہوئے کام پر اپنی تعریفیں کرتے ہیں ، جن چیزوں کے مالک ن ہیں ہوتے ان کی ملکیت کے بارے میں دعويٰ کرتے ہیں ، اپنی بے جا آرزوں کو دوسروں سے بیان کرتے ہیں ، لوگوں کی برائیوں کو اچھالتے ہیں ، اور ان کی اچھائیوں کو چھپاتے ہیں ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرض کیا: پالنے والے! کیا ان عیوب کے علاوہ کوئی دوسرا عیب بھی ان میں پایا جاتا ہے؟ آواز آئی: اے احمد! دنیا والوں کے عیب زیادہ ہیں ، ان میں حماقت و ونادانی پائی جاتی ہے، اپنے استاد کے سامنے تواضع سے پیش ن ہیں آتے، اپنے کو (بھت) بڑا عاقل سمجھتے ہیں ، جبکہ وہ صاحبان علم کے نزدیک احمق ہوتے ہیں ۔
اگر کوئی شخص اپنے گناھوں سے توبہ کرلے لیکن توبہ کے ساتھ مادی زرق و برق میں اسیر ہو، تو کیا اس کی توبہ باقی رہ سکتی ہے اور توبہ کے میدان میں ثابت قدم رہ سکتا ہے؟۔
توبہ کرنے والا اگر اس طرح کی چیزوں کے نفوذ سے آزاد نہ ہو تو پھر اس کے لئے حقیقی طور پر توبہ کرنا ناممکن ہے، کیونکہ ایسا انسان توبہ تو کرلیتا ہے، لیکن جیسے ہی مادی چیزوں نے حملہ کیا تو وہ اپنی توبہ کو توڑلیتا ہے۔
۳۔ آفات
غلط رابطے، بے جا محبت، لذتوں میں بھت زیادہ غرق ہونا، نا محدود شھوات، بے لگام خواہشیں، حرام شھوت اورھوائے نفس یہ سب خطرناک آفتیں ہیں کہ اگر انسان کی زندگی میں یہ سب پائی
حقیقی توبہ کرنے والوں کے لئے الٰھی تحفہ
معصوم علیہ السلام کا ارشادھے: خداوندعالم توبہ کرنے والوں کو تین خصلتیں عنایت فرماتا ہے کہ اگر ان میں سے ایک خصلت بھی تمام اھل زمین و آسمان کو مرحمت ہوجائے تو اسی خصلت کی بنا پر ان کو نجات مل جائے:
(
إِنَّ اللهَ یحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیحِبُّ الْمُتَطَهرینَ
)
۔
”بے شک خدا توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے“۔
لہٰذا جس کو خداوندعالم دوست رکھتا ہے اس پر عذاب ن ہیں کرے گا۔
(
الَّذِینَ یحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ یسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهم وَیؤْمِنُونَ بِهِ وَیسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَیءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِینَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِیلَكَ وَقِهم عَذَابَ الْجَحِیمِ رَبَّنَا وَادْخِلْهم جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِی وَعَدْتَهم وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهم وَازْوَاجِهم وَذُرِّیاتِهم إِنَّكَ انْتَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ وَقِهم السَّیئَاتِ وَمَنْ تَقِ السَّیئَاتِ یوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ
)
۔
”جو فرشتے عر ش الٰھی کو اٹھا ئے ہوئے ہیں اور جواس کے گرد معین ہیں سب حمد خدا کی تسبیح کر رہے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور صاحبان ایمان کے لئے استغفار کررہے ہیں کہ خدایا! تیری رحمت اور تیرا علم ھر شئے پر محیط ہے لہٰذا ان لوگوں کو بخش دے جنھوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستہ کا اتباع کیا ہے اور ان ہیں جہنم کے عذاب سے بچالے۔پروردگارا! ان ہیں اور ان کے باپ دادا، ازواج اور اولاد میں سے جو نیک اور صالح افراد ہیں ان کو ھمیشہ رہنے والے باغات میں جگہ عنایت فرما، جن کا تونے ان سے وعدہ کیا ہے بیشک تو سب پر غالب اور صاحبِ حکمت ہے۔اور ان ہیں برائیوں سے محفوظ فرما کہ آج جن لوگوں کو تونے برائیوںسے بچا لیا گویا ان ہیں پر رحم کیا ہے اور یہ بھت بڑی کامیابی ہے “۔
(
وَالَّذِینَ لاَیدْعُونَ مَعَ اللهِ إِلَها آخَرَ وَلاَیقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلاَیزْنُونَ وَمَنْ یفْعَلْ ذَلِكَ یلْقَ اثَامًا یضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یوْمَ الْقِیامَةِ وَیخْلُدْ فِیهِ مُهانًا إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاوْلَئِكَ یبَدِّلُ اللهُ سَیئَاتِهم حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِیمًا
)
۔
”اور وہ لوگ خدا کے ساتھ کسی اور خدا کو ن ہیں پکارتے ہیں اور کسی بھی نفس کو اگر خدا نے محترم قرار دیدیا ہے تو اسے نا حق قتل ن ہیں کرتے ہیں اور زنا بھی ن ہیں کرتے کہ جو ایسا عمل کرے گا وہ اپنے عمل کی سزا بھی برداشت کرے گا۔جسے روز قیامت دوگنا کردیا جائے گااور وہ اسی میں ذلت کے ساتھ ھمیشہ ھمیشہ پڑا رہے گا۔ علاوہ اس شخص کے جو توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل بھی کرے کہ پروردگار اس کی برائیوں کو اچھائیوں سے تبدیل کر دے گا، اور خدا بھت بڑا مھربان ہے“
توبہ جیسے باعظمت مسئلہ کے سلسلہ میں قرآن کا نظریہ
قرآن کریم میں لفظ ”توبہ“ اور اس کے دیگر مشتقات تقریباً ۸۷ مرتبہ ذکر ہوئے ہیں ، جس سے اس مسئلہ کی اھمیت اور عظمت واضح جاتی ہے۔
قرآن کریم میں توبہ کے سلسلہ میں بیان ہونے والے مطالب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱۔توبہ کا حکم۔
۲۔حقیقی توبہ کا راستہ۔
۳۔توبہ کی قبولیت۔
۴۔توبہ سے روگردانی۔
۵۔توبہ قبول نہ ہونے کے اسباب۔
۱۔ توبہ کا حکم
(
اَنِ اسْتَغْفِرُوارَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا اِلَیهِ
)
۔
”اور اپنے رب سے استغفار کروپھر اس کی طرف متوجہ ہو جاو“۔
(
تُوبُوا إِلَی اللهِ جَمِیعًا ایها الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
)
۔
”توبہ کرتے رھو کہ شاید اسی طرح تم ہیں فلاح اور نجات حاصل ہو جائے“۔
راغب اصفھانی اپنی کتاب ”مفردات“ میں کھتے ہیں :قیامت کی فلاح و کامیابی یہ ہے جھاں انسان کے لئے ایسی زندگی ہوگی جھاں موت نہ ہوگی، ایسی عزت ہوگی کہ جھاںذلت نہ ہوگی، ایسا علم ہوگا کہ جھاں جھالت کا نام ونشان تک نہ ہوگا، وھاں انسان ایسا غنی ہوگا جس کو تنگدستی ن ہیں ہوگی۔
(
یا اَیهاَ الَّذینَ آمَنُوا تُوبُوا اِلَی اللّٰهِ تَوْبَةً نَصوحاً
)
۔
”اے ایمان والو! خلوص دل کے ساتھ توبہ کر و“۔
ان آیات میں خداوندعالم نے مومنین اور غیر مومنین سبھی کو توبہ کی دعوت دی ہے، خدا کی اطاعت واجب اورباعث رحمت و مغفرت ہے، اسی طرح خدا وندعالم کی معصیت حرام اور باعث غضب الٰھی اور مستحق عذاب الٰھی ہے، جس کی وجہ سے دنیا و آخرت میں ذلت و خواری اور ھمیشہ کے لئے ھلاکت و بدبختی ہے۔
۲۔حقیقی توبہ کا راستہ
حقیقت تو یہ ہے کہ ”توبہ“ ایک سادہ اور آسان کام ن ہیں ہے، بلکہ معنوی اور عملی شرائط کے ساتھ ہی توبہ محقق ہوسکتی ہے۔
شرمندگی، آئندہ میں پاک و پاکیزہ رہنے کا مصمم ارادہ، برے اخلاق کو اچھے اخلاق و عادات میں بدلنا، اعمال کی اصلاح کرنا، گزشتہ اعمال کا جبران اور تلافی کرنااور خدا پر ایمان رکھنا اور اسی پر بھروسہ کرنا یہ تمام ایسے عناصر ہیں جن کے ذریعہ سے توبہ کی عمارت پایہ تکمیل تک پہنچتی ہے، اور ان ہیں کے ذریعہ استغفار ہوسکتا ہے۔
(
إِلاَّ الَّذِینَ تَابُوا وَاصْلَحُوا وَبَینُوا فَاوْلَئِكَ اتُوبُ عَلَیهم وَانَا التَّوَّابُ الرَّحِیمُ
)
۔
”علاوہ ان لوگوں کے جو توبہ کرلیں اور اپنے کئے کی اصلاح کر لیں اور جس کو چھپایا ہے اس کو واضح کر دیں، تو ھم ان کی توبہ قبول کرلیتے ہیں کہ ھم بھترین تو بہ قبول کر نے والے اور مھربان ہیں “۔
(
إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللهِ لِلَّذِینَ یعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهالَةٍ ثُمَّ یتُوبُونَ مِنْ قَرِیبٍ فَاوْلَئِكَ یتُوبُ اللهُ عَلَیهم وَكَانَ اللهُ عَلِیمًا حَكِیمًا
)
۔
”تو بہ خدا کے ذمہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو جھالت کی بنا پر برائی کرتے ہیں لیکن پھر فوراً توبہ کرلیتے ہیں کہ خدا ان کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے وہ علیم ودانا بھی ہے اور صاحبِ حکمت بھی “۔
(
فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَاصْلَحَ فَإِنَّ اللهَ یتُوبُ عَلَیهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ
)
۔
”پھر ظلم کے بعد جو شخص توبہ کر لے اور اپنی اصلاح کر لے، تو خدا(بھی) اس کی توبہ کو قبول کر لے گا اور اللہ بڑابخشنے والا اور مھربان ہے“۔
(
وَالَّذِینَ عَمِلُوا السَّیئَاتِ ثُمَّ تَابُوا مِنْ بَعْدِها وَآمَنُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِها لَغَفُورٌ رَحِیمٌ
)
۔
”اور جن لوگوں نے بُرے اعمال کئے اور پھر توبہ کر لی اور ایمان لے آئے، توبہ کے بعد تمھارا پروردگاربھت بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والاھے“۔
(
فَإِنْ تَابُوا وَاقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوْا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِی الدِّینِ
)
۔
”پھر اگر یہ تو بہ کر لیںاور نماز قائم کریں اور زکواة ادا کریں، تو (یہ لوگ) دین میں تمھارے بھائی ہیں “۔
قارئین کرام! مذکورہ آیات کے پیش نظر، خدا و قیامت پر ایمان، عقیدہ، عمل اوراخلاق کی اصلاح، خدا کی طرف فوراً لوٹ آنا، ظلم و ستم کے ھاتھ روک لینا، نماز قائم کرنا، زکوٰة ادا کرنا اور لوگوں کے حقوق اداکرنا؛ حقیقی توبہ کے شرائط ہیں ، اور جو شخص بھی ان تمام شرائط کے ساتھ توبہ کرے گا بے شک اس کی توبہ حقیقت تک پہنچ جائے گی اور حقیقی طور پر توبہ محقق ہوگی نیزاس کی توبہ یقینا بارگاہ خداوندی میں قبول ہوگی۔
۳۔ توبہ قبول ہونا
جس وقت کوئی گناھگار توبہ کے سلسلہ کے خداوندعالم کی اطاعت کرتا ہے اور توبہ کے شرائط پر عمل کرتا ہے، اور توبہ کے سلسلہ میں قرآن کا تعلیم کردہ راستہ اپناتا ہے، توبے شک خدائے مھربان؛جس نے گناھگار کی توبہ قبول کرنے کا وعدہ فرماتا ہے، وہ ضرور اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور اس کے نامہ اعمال میں توبہ قبول ہونے کی نشانی قرار دے دیتا ہے اور اس کو گناھوں سے پاک کردیتا ہے، نیز اس کے باطن سے ظلمت و تاریکی کو سفیدی اور نور میں تبدیل کردیتا ہے۔
(
الَمْ یعْلَمُوا انَّ اللهَ هُوَ یقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ
)
۔
”کیا یہ ن ہیں جانتے کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے“۔
(
وَهُوَ الَّذِی یقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَیعْفُو عَنْ السَّیئَاتِ
)
۔
”اور وھی وہ ہے جو اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور ان کی برائیوں کو معاف کرتا ہے“۔
(
غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ
)
۔
”وہ گناھوں کا بخشنے والا اور توبہ کا قبول کرنے والا ہے“۔
۴۔ توبہ سے منھ موڑنا
اگر گناھگار خدا کی رحمت سے مایوس ہوکر توبہ نہ کرے تو اس کو جاننا چاہئے کہ رحمت خدا سے مایوسی صرف اور صرف کفار سے مخصوص ہے
اگر گناھگار انسان اس وجہ سے توبہ ن ہیں کرتا کہ خداوندعالم اس کے گناھوں کو بخشنے پر قدرت ن ہیں رکھتا، تو اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ تصور بھی یھودیوں کا ہے۔
اگر گناھگار انسان کا تکبر، خدائے مھربان کے سامنے جرائت اور ربّ کریم کے سامنے بے ادبی کی بنا پر ہو تو اس کو جاننا چاہئے کہ خداوندعالم اس طرح کے مغرور، گھمنڈی اور بے ادب لوگوں کو دوست ن ہیں رکھتا، اور جس شخص سے خدا محبت نہ کرتا ہوتو دنیا و آخرت میں ان کی نجات ممکن ن ہیں ہے۔
گناھگار کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ توبہ سے منھ موڑنا، جبکہ باب توبہ کھلا ہوا ہے اور لازمی شرائط کے ساتھ توبہ کرنا ممکن ہے نیز یہ کہ خداوندعالم توبہ قبول کرنے والا ہے، لہٰذا ان تمام باتوں کے پیش نظر توبہ نہ کرنا اپنے اوپر اور آسمانی حقائق پر ظلم وستم ہے۔
(
وَمَنْ لَمْ یتُبْ فَاوْلَئِكَ هم الظَّالِمُونَ
)
۔
”اگر کوئی توبہ نہ کرے تو سمجھو کہ درحقیقت یھی لوگ ظالم ہیں “۔
(
اِنَّ الَّذینَ فَتَنُوا الْمُومِنینَ وَالْمُومِناتِ ثُمَّ لَمْ یتُوبُوا فَلَهُمْ عَذابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذابُ الْحَریقِ
)
۔
”بیشک جن لوگوں نے ایماندار مردوں اور عورتوں کو ستایا اور پھر توبہ نہ کی، ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اورا ن کے لئے جلانے والاعذاب بھی ہے“۔
۵۔ توبہ قبول نہ ہونے کے اسباب
اگر گناھگار انسان کو توبہ کرنے کی توفیق حاصل ہوجائے اور تمام تر لازمی شرائط کے ساتھ توبہ کرلے تو بے شک اس کی توبہ بارگاہ خداوندی میں قبول ہوتی ہے، لیکن اگر توبہ کرنے کا موقع ھاتھ سے کھوبیٹھے اور اس کی موت آپہنچے اور پھر وہ اپنے گزشتہ سے توبہ کرے یا ضروری شرائط کے ساتھ توبہ نہ کرے یا ایمان لانے کے بعد کافر ہوجائے تو ایسے شخص کی توبہ ھرگز قبول ن ہیں ہوسکتی۔
(
وَلَیسَتْ التَّوْبَةُ لِلَّذِینَ یعْمَلُونَ السَّیئَاتِ حَتَّی إِذَا حَضَرَ احَدَهم الْمَوْتُ قَالَ إِنِّی تُبْتُ الْآنَ وَلاَالَّذِینَ یمُوتُونَ وَهم كُفَّارٌ اوْلَئِكَ اعْتَدْنَا لَهم عَذَابًا الِیمًا
)
۔
”اور توبہ ان لوگوں کے لئے ن ہیں ہے جو پھلے برائیاں کرتے ہیں اور پھر جب موت سامنے آجاتی ہے توکھتے ہیں کہ اب ھم نے توبہ کرلی اور نہ ان کے لئے ہے جو حالت کفر میں مرجاتے ہیں کہ ان کے لئے ھم نے بڑا دردناک عذاب مھیا کر رکھا ہے“۔
(
إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا بَعْدَ إِیمَانِهم ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهم وَاوْلَئِكَ هم الضَّالُّونَ
)
۔
”جن لوگوں نے کفر اختیار لیا اور پھر کفر میں بڑھتے ہی چلے گئے ان کی توبہ ھرگز قبول نہ ہوگی اور وہ حقیقی طورپر گمراہ ہیں “۔
توبہ، احادیث کی روشنی میں
حضرت امام باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے: جناب آدم (علیہ السلام) نے خداوندعالم کی بارگاہ میں عرض کی: پالنے والے مجھ پر (اور میری اولاد) پرشیطان کو مسلط ہے اور وہ خون کی طرح گردش کرتا ہے، پالنے والے اس کے مقابلہ میں میرے لئے کیا چیز مقرر فرمائی ہے؟
خطاب ہوا: اے آدم یہ حقیقت آدم کے لئے مقرر کی ہے کہ تمھاری اولاد میں کسی نے گناہ کا ارادہ کیا، تو اس کے نامہ اعمال میں ن ہیں لکھا جائے گا، اور اگر اس نے اپنے ارادہ کے مطابق گناہ بھی انجام دے لیا تو اس کے نامہ اعمال میں صرف ایک ہی گناہ لکھا جائے گا، لیکن اگر تمھاری اولاد میں سے کسی نے نیکی کا ارادہ کرلیا تو فوراً ہی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا، اور اگر اس نے اپنے ارادہ پر عمل بھی کیا تو اس نے نامہ اعمال میں دس برابر نیکی لکھی جائےں گی؛ اس وقت جناب آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا: پالنے والے! اس میں اضافہ فرمادے؛ آواز قدرت آئی: اگر تمھاری اولاد میں کسی شخص نے گناہ کیا لیکن اس کے بعد مجھ سے استغفار کر لیا تو میں اس کو بخش دوں گا؛ ایک بار پھر جناب آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا: پالنے والے! مزید اضافہ فرما؛ خطاب ہوا: میںنے تمھاری اولادکے لئے توبہ کورکھا اور اس کے د روازہ کو وسیع کردیا کہ تمھاری اولاد موت کا پیغام آنے سے قبل توبہ کرسکتی ہے، اس وقت جناب آدم )علیہ السلام) نے عرض کیا: خداوندا! یہ میرے لئے کافی ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے حضرت، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کی ہے: جو شخص اپنی موت سے ایک سال پھلے توبہ کرلے تو خداوندعالم اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے، اس کے بعد فرمایا: بے شک ایک سال زیادہ ہے، جو شخص اپنی موت سے ایک ماہ قبل توبہ کرلے تو خداوندعالم اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے، اس کے بعد فرمایا: ایک مھینہ بھی زیادہ ہے، جو شخص ایک ہفتہ پھلے توبہ کرلے اس کی توبہ قابل قبول ہے، اس کے بعد فرمایا: ایک ہفتہ بھی زیاد ہے، اگر کسی شخص نے اپنی موت سے ایک دن پھلے توبہ کرلی تو خداوندعالم اس کی توبہ بھی قبول کرلیتا ہے، اس کے بعد فرمایا: ایک دن بھی زیادہ ہے اگر اس نے موت کے آثار دیکھنے سے پھلے توبہ کرلی تو خداوندعالم اس کی بھی توبہ قبول کرلیتا ہے۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں :
”اِنَّ اللّٰهَ یقْبَلُ تَوْبَةَ عَبْدِهِ ما لَمْ یغَرْغِرْ، تُوبُوا اِلٰی رَبِّكُمْ قَبْلَ اَنْ تَمُوتُوا، وَبادِرُوا بِالاَعْمالِ الزّاكِیةِ قَبْلَ اَنْ تُشْتَغِلُوا، وَ صِلُوا الَّذی بَینَكُمْ وَ بَینَهُ بِكَثْرَةِ ذِكْرِ كُمْ اِیاهُ
:“
”خداوندعالم، اپنے بندے کی توبہ دم نکلنے سے پھلے پھلے تک قبول کرلیتا ہے، لہٰذا اس سے پھلے پھلے توبہ کرلو، نیک اعمال انجام دینے میں جلدی کرو قبل اس کے کہ کسی چیز میں مبتلا ہوجاؤ، اپنے اور خدا کے درمیان توجہ کے ذریعہ رابطہ کرلو“۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :
”لَاشَفیعَ اَنْجَحُ مِنَ التَّوْبَةِ
“
”توبہ سے زیادہ کامیاب کرنے والا کوئی شفیع ن ہیں ہے“۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ہے:
”اَلتَّوْبَةُ تَجُبُّ ما قَبْلَها
“
”توبہ ؛ انسان کے گزشتہ اعمال کو ختم کردیتی ہے“۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
”اَلتَّوْبَةُ تَسْتَنْزِلُ الرَّحْمَةَ
:“۔
”توبہ کے ذریعہ رحمت خدا نازل ہوتی ہے“۔
نیز حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :
”تُوبُوا اِلَی اللّٰهِ وَ ادْخُلُوا فِی مَحَبَّتِهِ، فَاِنَّ اللّٰهَ یحِبُّ التَّوّابینَ وَ یحِبُّ الْمُتَطَهِّرینَ، وَالْمُومِنُ تَوّابٌ
“۔
”خداوندعالم کی طرف لوٹ آؤ، اپنے دلوں میں اس کی محبت پیدا کرلو، بے شک خداوندعالم توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ لوگوں کو دوست رکھتا ہے اور مومن بھت زیادہ توبہ کرتا ہے“۔
حضرت امام رضا علیہ السلام اپنے آباء و اجداد علیہم السلام کے حوالے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں :
”مَثَلُ الْمُومِنِ عِنْدِاللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ كَمَثَلِ مَلَكٍ مُقَرَّبٍ وَ اِنَّ الْمُومِنَ عِنْدَ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ اَعْظَمُ مِنْ ذٰلِكَ، وَلَیسَ شَیءٌ اَحَبَّ اِلَی اللّٰهِ مِنْ مُومِنٍ تائِبٍ اَوْ مُومِنَةٍ تائِبَةٍ
“۔
”خدا وندعالم کے نزدیک مومن کی مثال ملک مقرب کی طرح ہے، بے شک خداوندعالم کے نزدیک مومن کا مرتبہ فرشتہ سے بھی زیادہ ہے، خداوندعالم کے نزدیک مومن او رتوبہ کرنے والے مومن سے محبوب تر کوئی چیز ن ہیں ہے۔“
امام ہشتم اپنے آباء و اجداد کے حوالے کے ذریعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت فرماتے ہیں :
”اَلتّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لا ذَنْبَ لَهُ
“۔
”گناھوں سے توبہ کرنے والا، اس شخص کی طرح ہے جس نے گناہ کیا ہی نہ ہو“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:
”اِنَّ تَوْبَةَ النَّصوحِ هُوَ اَنْ یتوبَ الرَّجُلُ مِنْ ذَنْبٍ وَ ینْوِی اَنْ لا یعودَ اِلَیهِ اَبَداً
“۔
”توبہ نصوح یہ ہے کہ انسان گناھوں سے توبہ کرے اور دوبارہ گناہ نہ کرنے کا قطعی ارادہ رکھے“۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:
”لِلّٰهِ اَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنَ الْعَقِیمِ الْوالِدِ، وَ مِنَ الضّالِّ الْواجِدِ، وَمِنَ الظَّمْآنٍ الْوارِدِ
“
” خداوندعالم اپنے گناھگار بندے کی توبہ پر اس سے ک ہیں زیادہ خوشحال ہوتا ہے جتنی ایک عقیم عورت بچہ کی پیدائش پر خوش ہوتی ہے، یا کسی کا کوئی کھویا ہوا مل جاتا ہے اور پیاسے کو بھتا ہوا چشمہ مل جاتا ہے“!
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ہے:
”اَلتَّائِبُ اِذالَمْ یسْتَبِنْ عَلَیهِ اَثَرُ التَّوَبَةِ فَلَیسَ بِتائِبٍ، یرْضِی الْخُصَماءَ، وَیعیدُ الصَّلَواتِ، وَ یتَواضَعُ بَینَ الْخَلْقِ، وَیتَّقی نَفْسَهُ عَنِ الشَّهَواتِ، وَیهْزِلُ رَقَبَتَهُ بِصِیامِ النَّهارِ
“۔
”جس وقت توبہ کرنے والے پر توبہ کے آثار ظاھر نہ ہوں، تو اس کو تائب (یعنی توبہ کرنے والا) ن ہیں کھا جانا چاہئے، توبہ کے آثار یہ ہیں : جن لوگوںکے حقوق ضائع کئے ہیں ان کی رضایت حاصل کرے، قضا شدہ نمازوں کو ادا کرے، دوسروں کے سامنے تواضع و انکساری سے کام لے، اپنے نفس کو حرام خواہشات سے روکے رکھے اور روزے رکھ کر جسم کو کمزور کرے “۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
”اَلتَّوْبَةُ نَدَمٌ بِالْقَلْبِ، وَاسْتِغْفارٌ بِاللِّسانِ، وَ تَرْكٌ بِالْجَوارِحِ، وَاِضْمارٌ اَنْ لایعودَ
“۔
” توبہ؛ یعنی دل میں شرمندگی، زبان پر استغفار، اعضاء و جوارح سے تمام گناھوں کو ترک کرنا اور دوبارہ نہ کرنے کا مستحکم ارادہ کرنا“۔
نیز حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:
”مَنْ تابَ تابَ اللّٰهُ عَلَیهِ، وَاُمِرَتْ جَوارِحُهُ اَنْ تَسْتُرَ عَلَیهِ، وَبِقاعُ الاَرْضِ اَنْ تَكْتُمَ عَلَیهِ، وَ اُنْسِیتِ الْحَفَظَةُ ما کانَتْ تَكْتُبُ عَلَیهِ
“۔
” جو شخص توبہ کرتا ہے خداوندعالم اس کی توبہ قبول کرتا ہے، اور اس کے اعضاء و جوارح کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس کے گناھوں کو مخفی کرلو، اور زمین سے کھا جاتا ہے کہ اس کے گناہ کو چھپالے اور جو کچھ کراماً کاتبین نے لکھا ہے خدا ان کو نظر انداز کر دیتا ہے “۔
حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ خداوندعالم نے جناب داؤد نبی (علیہ السلام) پروحی فرمائی:
”اِنَّ عَبْدِی الْمُومِنَ اِذا اَذْنَبَ ذَنْباً ثُمَّ رَجَعَ وَ تابَ مِنْ ذٰلِكَ الذَّنْبِ وَاسْتَحْیيٰ مِنّی عِنْدَ ذِكْرِهِ غَفَرْتُ لَهُ، وَاَنْسَیتُهُ الْحَفَظَةُ، وَ اَبْدَلْتُهُ الْحَسَنَةَ، وَلا اُبالی وَ اَنَا اَرْحَمُ الرّحِمینَ
“۔
”بے شک جب میرا بندہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اورپھر اپنے گناہ سے منھ موڑلیتا ہے اور توبہ کرلیتا ہے، اور اس گناہ کو یاد کرکے مجھ سے شرمندہ ہوتا ہے تو میں اس کو معاف کردیتا ہوں، اور کراماً کاتبین کو(بھی) بھلادیتا ہوں، اور اس کے گناہ کو نیکی میں تبدیل کردیتا ہوں، مجھے کوئی پرواہ ن ہیں ہے کیونکہ میں ارحم الراحمین ہوں “۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک اھم روایت میں فرماتے ہیں :کیا تم جانتے ہوں ہو کہ تائب (یعنی توبہ کرنے والا) کون ہے؟ اصحاب نے کھا: یا رسول اللہ ! آپ بھتر جانتے ہیں ، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جب کوئی بندہ توبہ کرے اور دوسروں کے مالی حقوق کو ادا کرکے ان کو راضی نہ کرلے تو وہ تائب ن ہیں ہے، جو شخص توبہ کرے لیکن خدا کی عبادتوں میں اضافہ نہ کرے تو وہ شخص (بھی) تائب ن ہیں ہے، جو شخص توبہ کرے لیکن اپنے (مال حرام سے بنے ہوئے ) لباس کو نہ بدلے وہ (بھی) تائب ن ہیں ہے، جو شخص توبہ کرے لیکن اپنی صحبت کو نہ بدلے تو وہ (بھی) تائب ن ہیں ہے، جو شخص توبہ کرے لیکن اپنے اخلاق اور اپنی نیت کو نہ بدلے تو وہ شخص(بھی) تائب ن ہیں ہے، جو شخص توبہ کرے اور اپنے دل سے حقائق کو نہ دیکھے، اور صدقہ و انفاق میں اضافہ نہ کرے تو وہ شخص(بھی) تائب ن ہیں ہے، جو شخص توبہ کرے لیکن اپنی آرزوں کو کم نہ کرے اور اپنی زبان کو محفوظ نہ رکھے، تو وہ شخص(بھی) تائب ن ہیں ہے، جو شخص توبہ کرے لیکن اپنے بدن سے اضافی کھانے کو خالی نہ کرے، تو وہ شخص(بھی) تائب ن ہیں ہے۔ بلکہ وہ شخص تائب ہے جو ان تمام خصلتوں کی پابندی کرے ۔
توبہ کے منافع اور فوائد
گناھوں سے توبہ کے متعلق قرآن کریم کی آیات اور اھل بیت علیھم السلام سے مروی احادیث و روایات کے پیش نظر دنیا و آخرت میں توبہ کے بھت سے منافع و فوائد ذکر ہوئے ہیں ، جن کو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے:
(
اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا یرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَیكُمْ مِدْرَارًا وَیمْدِدْكُمْ بِامْوَالٍ وَبَنِینَ وَیجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَیجْعَلْ لَكُمْ انْهارًا
)
۔
”اور کھا کہ اپنے پروردگار سے استغفار کرو کہ وہ بھت زیادہ بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار پانی برسائے گا۔اور اموال واولاد کے ذریعہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے لئے باغات اور نھریں قرار دے گا“۔
(
تُوبُوا اِلَی اللّٰهِ تَوْبَةً نَصوحاً عَسٰی رَبُّكُمْ اَنْ یكَفِّرَ عَنْكُمْ سَیئاتِكُمْ وَ یدْخِلَكُمْ جَنّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِهَا الاَنْهارُ
)
۔
”توبہ کرو، عنقریب تمھارا پرودگار تمھاری برائیوں کو مٹادے گا اور تم ہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نھریں جاری ہوں گی“۔
توبہ سے متعلق اکثر آیات خداوندعالم کی دو صفات ”غفور“ و ”رحیم“ پر ختم ہوتی ہیں ، جس کا مطلب یہ ہے کہ خداوندعالم حقیقی توبہ کرنے والے پر اپنی بخشش اوررحمت کے دروازے کھول دیتاھے۔
(
وَلَوْ انَّ اهل الْقُرَی آمَنُواوَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیهم بَرَكَاتٍ مِنْ السَّمَاءِ وَالْارْضِ
)
۔
”اور اگر بستی کے لوگ ایمان لے آتے ہیں اور تقويٰ اختیا رکر لیتے تو ھم ان کے لئے زمین اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے “۔
”مجمع البیان“ جو ایک گرانقدر تفسیر ہے اس میں ایک بھترین روایت نقل کی گئی ہے:
” ایک شخص حضرت امام حسن علیہ السلام کی خدمت میں آکر قحط اور مہنگائی کی شکایت کرتا ہے، اس وقت امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا: اے شخص اپنے گناھوں سے استغفار کرو، ایک دوسرے شخص نے غربت اور نداری کی شکایت کی، اس سے (بھی) امام علیہ السلام نے فرمایا: اپنے گناھوں سے مغفرت طلب کرو، اسی طرح ایک اور شخص امام علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور عرض کی: مولا دعا کیجئے کہ مجھے خداوندعالم اولاد عطا کرے تو امام علیہ السلام نے اس سے بھی یھی فرمایا: اپنے گناھوں سے استعفار کرو۔
اس وقت آپ کے اصحاب نے عرض کیا: (فرزند رسول!) آنے والوں کی درخواستیں اور شکایات مختلف تھی، لیکن آپ نے سب کو توبہ و استغفار کرنے کاحکم فرمایا! امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے یہ چیز اپنی طرف سے ن ہیں کھی ہے بلکہ سورہ نوح کی آیات سے یھی نتیجہ نکلتا ہے جھاں خداوندعالم نے فرمایا ہے:(
استغفروا ربّکم
)
(اپنے رب کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرو)، لہٰذا میں نے سبھی کو استغفار کے لئے کھا، تاکہ ان کی مشکلات، توبہ و استغفار کے ذریعہ حل ہوجائیں۔
بھر حال قرآن مجید اور احادیث سے واضح طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ توبہ کے منافع و فوائد اس طرح سے ہیں : گناھوں سے پاک ہوجانا، رحمت الٰھی کا نزول، بخشش خداوندی، عذاب آخرت سے نجات، جنت میں جانے کا استحقاق، روح کی پاکیزگی، دل کی صفائی، اعضاء و جوارح کی طھارت، ذلت و رسوائی سے نجات، باران نعمت کا نزول، مال و دولت اور اولاد کے ذریعہ امداد، باغات او رنھروں میں برکت، قحطی، مہنگائی اور غربت کا خاتمہ۔
____________________