توبہ آغوش رحمت

توبہ آغوش رحمت 0%

توبہ آغوش رحمت مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

توبہ آغوش رحمت

مؤلف: استادحسين انصاريان
زمرہ جات:

مشاہدے: 24446
ڈاؤنلوڈ: 5492

تبصرے:

توبہ آغوش رحمت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24446 / ڈاؤنلوڈ: 5492
سائز سائز سائز
توبہ آغوش رحمت

توبہ آغوش رحمت

مؤلف:
اردو

توبہ کرنے والوں کے واقعات

( لَقَدْ كَانَ فِی قَصَصِهم عِبْرَةٌ لِاوْلِی الْالْبَابِ ) (۱۷ ۱ )

”یقینا ان کے واقعات صاحبان عقل کے لئے عبرت ہیں “۔

ایک نمونہ خاتون

آسیہ، فرعون کی زوجہ تھی، وہ فرعون جس میں غرور و تکبر کا نشہ بھرا تھا، جس کا نفس شریر تھا اور جس کے عقائد اور اعمال باطل وفاسد تھے۔

قرآن مجید نے فرعون کو متکبر، ظالم، ستم گر اور خون بھانے والے کے عنوان سے یاد کیا ہے اور اس کو ”طاغوت“ کا نام دیا ہے۔

آسیہ، فرعون کے ساتھ زندگی بسر کرتی تھی، اور فرعونی حکومت کی ملکہ تھی، تمام چیزیں اس کے اختیار میں ت ہیں ۔

وہ بھی اپنے شوھر کی طرح فرمانروائی کرتی تھی، اور اپنی مرضی کے مطابق ملکی خزانہ سے فائدہ اٹھاتی تھی۔

ایسے شوھر کے ساتھ زندگی، ایسی حکومت کے ساتھ ایسے دربار کے اندر، اس قدر مال و دولت، اطاعت گزار غلام او رکنیزوں کے ساتھ میں اس کی ایک بھترین زندگی تھی۔

ایک جوان اور قدرتمند خاتون نے اس ماحول میں پیغمبر الٰھی جناب موسی بن عمران کے ذریعہ الٰھی پیغام سنا، اس نے اپنے شوھر کے طور طریقے اور اعمال کے باطل ہونے کو سمجھ لیا، چنانچہ نور حقیقت اس کے دل میں چمک اٹھا۔

حالانکہ اس کو معلوم تھا کہ ایمان لانے کی وجہ سے اس کی تمام خوشیاں اور مقام و منصب چھن سکتا ہے یھاں تک کہ جان بھی جاسکتی ہے، لیکن اس نے حق کو قبول کرلیا اور وہ خداوندمھربان پر ایمان لے آئی، اور اپنے گزشتہ اعمال سے توبہ کرلی اور نیک اعمال کے ذریعہ اپنی آخرت کو آباد کرنے کی فکر میں لگ گئی۔

اس کا توبہ کرنا کوئی آسان کام ن ہیں تھا، اس کی وجہ سے اسے اپنا تمام مال و دولت اور منصب ترک کرنا پڑا، اور فرعون و فرعونیوں کی ملامت ضرب و شتم کو برداشت کرنا پڑا، لیکن پھر بھی وہ توبہ، ایمان، عمل صالح اور ہدایت کی طرف قدم آگے بڑھاتی رھی۔

جناب آسیہ کی توبہ، فرعون اور اس کے درباریوں کو ناگوار گزری، کیونکہ پورے شھر میں اس بات کی شھرت ہوگئی کہ فرعون کی بیوی اور ملکہ نے فرعونی طور طریقہ کو ٹھکراتے ہوئے مذھب کلیم اللہ کو منتخب کرلیا ہے، سمجھا بجھاکر، ترغیب دلاکراور ڈرا دھمکاکر بھی آسیہ کے بڑھتے قدم کو ن ہیں روکا جاسکتا تھا، وہ اپنے دل کی آنکھوں سے حق کو دیکھ کر قبول کرچکی تھی، اس نے باطل کے کھوکھلے پن کو بھی اچھی طرح سمجھ لیا تھا، لہٰذا حق و حقیقت تک پہنچنے کے بعد اس کو ھاتھ سے ن ہیں کھوسکتی تھی اور کھوکھلے باطل کی طرف ن ہیں لوٹ سکتی تھی۔

جی ھاں، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا کو فرعون سے، حق کو باطل سے، نور کو ظلمت سے، صحیح کو غلط سے، آخرت کو دنیا سے، بہشت کو دوزخ سے، اورسعادت کو بدبختی سے بدل لے۔

جناب آسیہ نے اپنے ایمان، توبہ و استغفار پر استقامت کی، جبکہ فرعون دوبارہ باطل کی طرف لوٹا نے کے لئے کوشش کررھا تھا۔

فرعون نے جناب آسیہ سے مقابلہ کی ٹھان لی، غضبناک ہوا، اس کے غضب کی آگ بھڑک اٹھی، لیکن آسیہ کی ثابت قدمی کے مقابلہ میں ھار گیا، اس نے آسیہ کو شکنجہ دینے کا حکم دیا، اور اس عظیم خاتون کے ھاتھ پیر کو باندھ دیا، اور سخت سے سخت سزا دینے کے بعد پھانسی کا حکم دیدیا، اس نے اپنے جلادوں کو حکم دیا کہ اس کے اوپر بڑے بڑے پتھر گرائے جائیں، لیکن جناب آسیہ نے دنیا و آخرت کی سعادت و خوشبختی حاصل کرنے کے لئے صبر کیا، اور ان تمام سخت حالات میں خدا سے لَو لگائے رکھی۔

جناب آسیہ کی حقیقی توبہ، ایمان و جھاد، صبر و استقامت، یقین اور مستحکم عزم کی وجہ سے قرآن مجید نے ان کو قیامت تک مومن و مومنات کے لئے نمونہ کے طور پر پہنچوایا ہے، تاکہ ھر زمانہ کے گناھگار کے لئے عذر و بھانہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ جائے اور کوئی یہ نہ کہہ دے کہ توبہ، ایمان اور عمل صالح کا کوئی راستہ باقی ن ہیں رھا تھا۔

( وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً لِلَّذینَ آمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعُوْنَ اِذْقالَتْ رَبِّ ابْنِ لی عِنْدَكَ بَیتاً فِی الْجَنَّةِ وَ نَجِّني مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهِ وَنَجِّنی مِنَ الْقَوْمِ الظّالِمینَ ) ۔(۱۷۲)

”اورخد ا نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی کہ اس نے دعا کی کہ پروردگار میرے لئے جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے درباریوںسے نجات دلادے اور اس پوری ظالم قوم سے نجات عطا فرمادے “۔

توبہ، ایمان، صبر اور استقامت کی بنا پر اس عظیم الشان خاتون کا مرتبہ اس بلندی پر پہنچا ہوا تھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے بارے میں فرمایا:

اِشْتاقَتِ الْجَنَّةُ اِلٰی اَرْبَعٍ مِنَ النِّساءِ :مَرْیمَ بِنْتِ عِمْرانَ، وَآسِیةَ بِنْتِ مُزاحِمٍ زَوْجَةِ فِرْعَوْنَ، وَخَدیجَةَ بِنْتِ خُوَیلَدٍزَوْجَةِ النَّبِی فِی الدُّنْیا وَالآخِرَةِ، وَ فاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ :“۔(۱۷۳)

”جنت چار عورتوں کی مشتاق ہے، مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم زوجہ فرعون، خدیجہ بنت خویلد دنیا و آخرت میں ھمسر پیغمبر، اور فاطمہ بنت محمد ۔“

”شعوانہ“ کی توبہ

مرحوم ملا احمد نراقی اپنی عظیم الشان اخلاقی کتاب ”معراج السعادة“ میں حقیقی توبہ کے سلسلہ میں ایک عجیب و غریب واقعہ بیان کرتے ہیں :

شعوانہ ایک جوان رقّاصہ عورت تھی، جس کی آواز نھایت سریلی تھی، لیکن اس کو حلال و حرام پر کوئی توجہ ن ہیں تھی، شھر بصرہ کے مالداروں کے یھاں فسق و فجور کی کوئی ایسی محفل نہ تھی جس میں شعوانہ بلائی نہ جاتی ہو، وہ ان محفلوں میں ناچ گانا کیا کرتی تھی، یھی ن ہیں بلکہ اس کے ساتھ کچھ لڑکیاں اور عورتیں بھی ہوتی ت ہیں ۔

ایک روز اپنے سھیلیوںکے ساتھ ایسی ہی محفلوں میں جانے کے لئے ایک گلی سے گزر رھی تھی کہ اچانک دیکھا کہ ایک گھر سے نالہ و شیون کی آواز آرھی ہے، اس نے تعجب کے ساتھ سوال کیا: یہ کیسا شور ہے؟ اور اپنی ایک سھیلی کو حالات معلوم کرنے کے لئے بھیج دیا، لیکن بھت دیر انتظار کے بعد بھی وہ نہ پلٹی، اس نے دوسری سھیلی کو بھیجا، لیکن وہ بھی واپس نہ آئی، تیسری کو بھی روانہ کیا اور ہدایت کردی کہ جلد لوٹ کر آنا، چنانچہ جب وہ گئی اور تھوڑی دیر بعد لوٹ کر آئی تو اس نے بتایا کہ یہ سب نالہ و شیون بدکار اور گناھگارافراد کا ہے!

شعوانہ نے کھا: میں خود جاکر دیکھتی ہوں کیا ہورھا ہے۔

جیسے ہی وہ وھاں پہنچی اور دیکھا کہ ایک واعظ لوگوں کو وعظ کررہے ہیں ، اور اس آیہ شریفہ کی تلاوت کررہے ہیں :

( إِذَا رَاتْهم مِنْ مَكَانٍ بَعِیدٍ سَمِعُوا لَها تَغَیظًا وَزَفِیرًا وَإِذَا الْقُوا مِنْها مَكَانًا ضَیقًا مُقَرَّنِینَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُورًا ) ۔(۱۷۴)

”جب آتش (دوزخ) ان لوگوں کو دور سے دیکھے گی تو یہ لوگ اس کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کی آوازیں سنیں گے۔ اور جب ان ہیں زنجیروں میں جکڑ کر کسی تنگ جگہ میں ڈال دیا جائے گا تو وھاں موت کی دھائی دیں گے“۔

جیسے ہی شعوانہ نے اس آیت کو سنا اور اس کے معنی پر توجہ کی، اس نے بھی ایک چیخ ماری اور کھا: اے واعظ! میں بھی ایک گناھگار ہوں، میرا نامہ اعمال سیاہ ہے، میں بھی شرمندہ اور پشیمان ہوں، اگر میں توبہ کروں تو کیا میری توبہ بارگاہ الٰھی میں قبول ہوسکتی ہے؟

واعظ نے کھا: ھاں، تیرے گناہ بھی قابل بخشش ہیں ، اگرچہ شعوانہ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں!

اس نے کھا: وائے ہو مجھ پر، ارے میں ہی تو”شعوانہ “ھوں، افسوس کہ میں کس قدر گناھوں سے آلودہ ہوں کہ لوگوں نے مجھے گناھگار کی ضرب المثل بنادیا ہے!!

اے واعظ! میںتوبہ کرتی ہوں اور اس کے بعدکوئی گناہ نہ کروں گی، اور اپنے دامن کو گناھوں سے بچاؤں گی اورگناھگاروں کی محفل میں قدم ن ہیں رکھوں گی۔

واعظ نے کھا: خداوندعالم تیری نسبت بھی”ارحم الراحمین“ ہے۔

واقعاً شعوانہ نے توبہ کرلی، عبادت و بندگی میں مشغول ہوگئی، گناھوں سے پیدا ہوئے گوشت کو پگھلادیا، سوز جگر، اور دل کی تڑپ سے آہ وبکاکرتی تھی : ھائے ! یہ میری دنیا ہے، تو آخرت کا کیا عالم ہوگا، لیکن اس نے اپنے دل میں ایک آواز کا احساس کیا: خدا کی عبادت میں مشغول رہ، تب آخرت میں دیکھنا کیا ہوتا ہے۔

میدان جنگ میں توبہ

”نصر بن مزاحم“ کتاب واقعہ صفین میں نقل کرتے ہیں : ھاشم مرقال کھتے ہیں : جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی نصرت کے لئے چند قاریان قرآن شریک تھے، معاویہ کی طرف سے طائفہ ”غسّان“ کا ایک جوان میدان میں آیا، اس نے رجز پڑھا اور حضرت علی علیہ السلام کی شان میں جسارت کرتے ہوئے مقابلہ کے لئے للکارا، مجھے بھت زیادہ غصہ آیا کہ معاویہ کے غلط پروپیگنڈے نے اس طرح لوگوں کو گمراہ کررکھا ہے، واقعاً میرا دل کباب ہوگیا، میں نے میدان کا رخ کیا، اور اس غافل جوان سے کھا: اے جوان! جو کچھ بھی تمھاری زبان سے نکلتا ہے، خدا کی بارگاہ میں اس کا حساب و کتاب ہوگا، اگر خداوندعالم نے تجھ سے پوچھ لیا :

علی بن ابی طالب سے کیوں جنگ کی ؟ تو کیا جواب دے گا؟

چنانچہ اس جوان نے کھا:

میں خدا کی بارگاہ میں حجت شرعی رکھتا ہو کیونکہ میری تم سے جنگ علی بن ابی طالب کے بے نمازی ہونے کی وجہ سے ہے!

ھاشم مرقال کھتے ہیں : میں نے اس کے سامنے حقیقت بیان کی، معاویہ کی مکاری اور چال بازیوں کو واضح کیا۔ جیسے ہی اس نے یہ سب کچھ سنا، اس نے خدا کی بارگاہ میں استغفار کی، اور توبہ کی، اور حق کا دفاع کرنے کے لئے معاویہ کے لشکر سے جنگ کے لئے نکل گیا۔

ایک یھودی نو جوان کی توبہ

حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :

ایک یھودی نوجوان اکثر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آیا کرتا تھا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اس کی آمد و رفت پر کوئی اعتراض ن ہیں کیا کرتے تھے بلکہ بعض اوقات تو اس کو کسی کام کے لئے بھیج دیا کرتے تھے، یا اس کے ھاتھوں قوم یھود کو خط بھیج دیا کرتے تھے۔

لیکن ایک مرتبہ وہ چند روز تک نہ آیا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے بارے میں سوال کیا، تو ایک شخص نے کھا: میں نے اس کو بھت شدید بیماری کی حالت میں دیکھا ہے شاید یہ اس کا آخری دن ہو، یہ سن کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چند اصحاب کے ساتھ اس کی عیادت کے تشریف لئے گئے، وہ کوئی گفتگو ن ہیں کرتا تھا لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وھاں پہنچے تو وہ آپ کا جواب دینے لگا، چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس جوان کو آواز دی، اس جوان نے آنک ہیں کھولی اور کھا: لبیک یا ابا القاسم! آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: کھو: ”اشہد ان لا الہ الا الله، وانی رسول الله“۔

جیسے ہی اس نوجوان کی نظر اپنے باپ کی (ترچھی نگاھوں) پر پڑی، وہ کچھ نہ کہہ سکا، پیغمبر اکرم نے اس کو دوبارہ شھادتین کی دعوت دی، اس مرتبہ بھی اپنے باپ کی ترچھی نگاھوں کو دیکھ کر خاموش رھا، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تیسری مرتبہ اس کو یھودیت سے توبہ کرنے اور شھادتین کو قبول کرنے کی دعوت دی، اس جوان نے ایک بار پھر اپنے باپ کی چھرے پر نظر ڈالی، اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اگر تیری مرضی ہے تو شھادتین قبول کرلے ورنہ خاموش رہ، اس وقت جوان نے اپنے باپ پر توجہ کئے بغیر اپنی مرضی سے شھادتین کہہ دیں اور اس دنیا سے رخصت ہوگیا! پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس جوان کے باپ سے فرمایا: اس جوان کے لاشے کو ھمارے حوالے کردو، اور پھر اپنے اصحاب سے فرمایا: اس کو غسل دو، کفن پہناؤ، اور میرے پاس لاؤ تاکہ میں اس پر نماز پڑھوں، اس کے بعد اس یھودی کے گھر سے نکل آئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھتے جاتے تھے: خدایا تیرا شکر ہے کہ آج تو نے میرے ذریعہ ایک نوجوان کو آتش جہنم سے نجات دیدی!(۱۷۵)

ایک دھاتی کی بت پرستی سے توبہ

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی جنگ کے لئے تشریف لے جارہے تھے، ایک مقام پر اپنے اصحاب سے فرمایا: راستے میں ایک شخص ملے گا، جس نے تین دن سے شیطان کی مخالفت پر کمر باندھ رکھی ہے، چنانچہ اصحاب ابھی تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ اس بیابان میں ایک شخص کو د یکھا، اس کا گوشت ہڈیوں سے چھپکا ہوا تھا، اس کی آنک ہیں دھنسی ہوئی ت ہیں ، اس کے ہونٹ جنگل کی گھاس کھانے کی وجہ سے سبز ہوچکے تھے، جیسے ہی وہ شخص آگے بڑھا، اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں معلوم کیا، اصحاب نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تعارف کرایا، چنانچہ اس شخص نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے درخواست کی: مجھے اسلام تعلیم فرمائےے: تو آپ نے فرمایا: کھو: ”اشهد ان لا اله الا الله، و انی رسول الله “۔چنانچہ اس نے ان دونوں شھادتوں کا اقرار کیا، آپ نے فرمایا: پانچوں وقت کی نماز پڑھنا، ماہ رمضان المبارک میں روزے رکھنا، اس نے کھا: میں نے قبول کیا، فرمایا: حج کرنا، زکوٰة ادا کرنا، اور غسل جنابت کرنا، اس نے کھا: میں نے قبول کیا۔

اس کے بعد آگے بڑھ گئے، وہ بھی ساتھ تھا لیکن اس کا اونٹ پیچھے رہ گیا، رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رک گئے، اور اصحاب اس کی تلاش میں نکل گئے، لشکر کے آخر میں دیکھا کہ اس کے اونٹ کا پیر جنگلی چوھوں کے بِل میں دھنس گیا ہے اور اس کی اور اس کے اونٹ کی گردن ٹوٹ گئی ہے، اور دونوں ہی ختم ہوگئے ہیں ، چنانچہ یہ خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچی۔

جیسے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ خبر ملی فوراً حکم دیا، ایک خیمہ لگایا جائے اور اس کو غسل دیا جائے، غسل کے بعد خود آنحضرت خیمہ میں تشریف لے گئے اور اس کو کفن پہنایا، خیمہ سے باھر نکلے، اس حال میں کہ آپ کی پیشانی سے پسینہ ٹپک رھا تھا، اور اپنے صحاب سے فرمایا: یہ دیھاتی شخص بھوکا اس دنیا سے گیا ہے، یہ وہ شخص تھا جو ایمان لایا، اور اس نے ایمان کے بعد کسی پر ظلم و ستم ن ہیں کیا، اپنے کو گناھوں سے آلودہ نہ کیا، جنت کی حوریں بہشتی پھلوں کے ساتھ اس کی طرف آئیں اور پھلوں سے اس کا منھ بھردیا، ان میں ایک حور کھتی تھی: یا رسول اللہ! مجھے اس کی زوجہ قرار دیں، دوسری کھتی تھی: مجھے اس کی زوجہ قرار دیں!(۱۷۶)

شقیق بلخی کی توبہ

شقیق ”بلخ“ ایک مالدار شخص کا بیٹا تھا، وہ تجارت کے لئے ”روم“جایا کرتا تھا، اور روم کے شھروں میں سیر و تفریح کے لئے جایا کرتا تھا، چنانچہ ایک بار روم کے کسی شھر میں بت پرستوں کا پروگرام دیکھنے کے لئے بت خانہ میں گیا، دیکھا کہ بت خانہ کا ایک خادم اپنا سرمنڈوائے ہوئے اور ارغوانی لباس پہنے ہوئے خدمت کررھا ہے، اس سے کھا: تیرا خدا صاحب علم و حکمت اور زندہ ہے، لہٰذا اسی کی عبادت کر، اور ان بے جان بتوں کی عبادت چھوڑ دے کیونکہ یہ کوئی نفع یا نقصان ن ہیں پہنچاتے۔ اس خادم نے جواب دیا: اگر انسان کا خدازندہ اور صاحب علم ہے تو وہ اس بات کی بھی قدرت رکھتا ہے کہ تجھے تیرے شھر میں روزی دے سکے، پھر تو کیوںمال و دولت حاصل کرنے کے لئے یھاں آیا ہے اور یھاں پر اپنے وقت اور پیسوں کو خرچ کرتا ہے؟

شقیق سادھو کی باتیں سن کر خواب غفلت سے بیدار ہوگئے، اور دنیا پرستی سے کنارہ کشی کرلی، توبہ و استغفار کیا، چنانچہ اس کا شمار زمانہ کے بڑے عرفاء میں ہونے لگا۔

کھتے ہیں : میں نے ۷۰۰ دانشورں سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال کیا، سب نے دنیا کی مذمت کے بارے میں ہی بتایا: میں نے پوچھا عاقل کون ہے؟ جواب دیا: جو شخص دنیا کا عاشق نہ ہو، میں نے سوال کیا: ہوشیار کون ہے؟ جواب دیا: جو شخص دنیا (کی دولت) پر مغرور نہ ہو، میں نے سوال کیا: ثروتمند کون ہے؟ جواب ملا: جو شخص خدا کی عطا پر خوش رہے ، میں نے معلوم کیا: نادار کون ہے؟ جواب دیا: جو شخص زیادہ طلب کرے، میں نے پوچھا: بخیل کون ہے؟ تو سب نے کھا: جو شخص حق خدا کو غریبوں اور محتاجوں تک نہ پہنچائے۔(۱۷۷)

فرشتے اور توبہ کرنے والوں کے گناہ

سورہ توبہ کی آیات کی تفسیر میں بیان ہوا ہے کہ فرشتے گناھگار کے گناھوں کو لوح محفوظ پر پیش کرتے ہیں ، لیکن وھاں پر گناھوں کے بدلے حسنات اور نیکیاں دیکھتے ہیں ، فوراً سجدہ میں گرجاتے ہیں ، اور بارگاہ الٰھی میں عرض کرتے ہیں : جو کچھ اس بندے نے انجام دیا تھا ھم نے وھی کچھ لکھا تھا لیکن اب ھم یھاں وہ ن ہیں دیکھ رہے ہیں ! جواب آتا ہے: صحیح کھتے ہو، لیکن میرا بندہ شرمندہ اور پشیمان ہوگیا اور روتا ہوا گڑگڑاتا ہوا میرے در پر آگیا، میں نے اس کے گناھوں کو بخش دیا اور اس سے درگزر کیا، میں نے اس پر اپنا لطف و کرم نچھاور کردیا، میں ”اکرم الاکرمین“ھوں۔(۱۷۸)

گناھگار اور توبہ کی مھلت

جس وقت شیطان لعنت خدا کا مستحق قرار دیا گیا تو اس نے خداوندعالم سے روز قیامت تک کی مھلت مانگی، اللہ نے کھا: ٹھیک ہے مگر یہ مھلت لے کر تو کیا کرے گا؟ جواب دیا: پروردگارا! میں آخری وقت تک تیرے بندوں سے دور ن ہیں ہوں گا، یھاں تک کہ اس کی روح پرواز کرجائے، آواز آئی: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم، میں بھی اپنے بندوں کے لئے آخری وقت تک درِ توبہ کو بند ن ہیں کروں گا۔(۱۷۹)

گناھگار اور توبہ کی امید

ایک نیک اور صالح شخص کو دیکھا گیا کہ بھت زیادہ گریہ و زاری کررھا ہے، لوگوںنے گریہ و زاری کی وجہ پوچھی؟ تو اس نے کھا: اگر خداوندعالم مجھ سے یہ کھے کہ تجھے گناھوں کی وجہ سے گرم حمّام میں ھمیشہ کے لئے قید کردوں گا، تو یھی کافی ہے کہ میری آنکھوں کے آنسو خشک نہ ہوں، لیکن کیا کیا جائے کہ اس نے گناھگاروں کو عذاب جہنم کا مستحق قرار دیا ہے، وہ جہنم جس کی آگ کو ہزار سال بھڑکایا گیا یھاں تک کہ وہ سرخ ہوئی، ہزار سال تک اس کو سفید کیا گیا، اور ہزار سال اس کو پھونکا گیا یھاں تک کہ سیاہ ہوگئی، تو پھر میں اس میں کیسے رہ سکتا ہوں؟ اس عذاب سے نجات کی امید صرف خداوندعالم کی بارگاہ میں توبہ و استغفار اور عذر خواھی ہے۔(۱۸۰)

ایک سچا آدمی اور توبہ کرنے والا چور

”ابو عمر زجاجی “ایک نیک اور صالح انسان تھے، موصوف کھتے ہیں کہ میری والدہ کا انتقال ہوگیا، ان کی میراث میں مجھے ایک مکان ملا، میں نے اس مکان کو بیچ دیا اور حج کرنے کے لئے روانہ ہوگیا، جس وقت سر زمین ”نینوا“پر پہنچا تو ایک چور سامنے آیا اور مجھ سے کھا: کیا ہے تمھارے پاس؟

چنانچہ میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ سچائی اور صداقت ایک پسندیدہ چیزھے، جس کا خداوندعالم نے حکم دیا ہے، اچھا ہے کہ اس چور سے بھی حقیقت اور سچ بات کھوں، چنانچہ میں نے کھا: میری تھیلی میں پچاس دینا ر سے زیادہ ن ہیں ہے، یہ سن کر اس چور نے کھا: لاؤ وہ تھیلی مجھے دو، میں نے وہ تھیلی اس کو دیدی، چنانچہ اس چور نے ان دینار کو گنا اور مجھے واپس کردئے، میں نے اس سے کھا: کیا ہوا؟ اس نے کھا: میں تمھارے پیسے لے جانا چاھتا تھا، لیکن تم تو مجھے لے چلے، اس کے چھرے پرشرمندگی اور پشیمانی کے آثار تھے، معلوم ہورھا تھا کہ اس نے اپنے گزشتہ حالات سے توبہ کرلی ہے، اپنے سواری سے اترا، اور مجھ سے سوار ہونے کے لئے کھا: میں نے کھا: مجھے سواری کی کوئی ضرورت ن ہیں ہے، لیکن اس نے اصرار کیا، چنانچہ میں سوار ہوگیا، وہ پیدل ہی میرے پیچھے پیچھے چل دیا، میقات پہنچ کر احرام باندھا، اور مسجد الحرام کی طرف روانہ ہوئے، اس نے حج کے تمام اعمال میرے ساتھ انجام دئے، اور و ہیں پر اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔(۱۸۱)

ابو بصیر کا پڑوسی

ایک پڑوسی کو اپنے دوسرے پڑوسی کا خیال رکھنا چاہئے، بالکل ایک مھربان بھائی کی طرح، اس کی پریشانیوں میں مدد کرے، اس کی مشکلوں کو حل کرے، زمانہ کے حوادث، بگاڑ سدھار میں اس کا تعاون کرے، لیکن جناب ابوبصیر کا پڑوسی اس طرح ن ہیں تھا، اس کو بنی عباس کی حکومت سے بھت سا پیسہ ملتا تھا، اسی طرح اس نے بھت زیادہ دولت حاصل کرلی تھی۔ ابوبصیر کھتے ہیں : ھمارے پڑوسی کے یھاں چند ناچنے گانے والی کنیزیں تھی، اور ھمیشہ لھو و لعب اور شراب خوری کے محفلیں ہوا کرتی ت ہیں جس میں اس کے دوسرے دوست بھی شریک ہوا کرتے تھے، میں چونکہ اھل بیت علیھم السلام کی تعلیمات کا تربیت یافتہ تھا، لہٰذا میں اس کی اس حرکت سے پریشان تھا، میرے ذہن میں پریشانی رھتی تھی، میرے لئے سخت ناگوار تھا، میں نے کئی مرتبہ اس سے نرم لہجہ میں کھا لیکن اس نے اَن سنی کردی اور میری بات پر کوئی توجہ نہ دی، لیکن میں نے امر بالمعروف او رنھی عن المنکر میں کوئی کوتاھی ن ہیں کی، اچانک ایک دن وہ میرے پاس آیا اور کھا: میں شیطان کے جال میں پھنسا ہوا ہوں، اگر آپ میری حالت اپنے مولا و آقا حضرت امام صادق علیہ السلام سے بیان کرےں شاید وہ توجہ کریں اور میرے سلسلہ میں مسیحائی نظر ڈال کر مجھے اس گندگی، فساد اور بدبختی سے نجات دلائیں۔

ابو بصیر کھتے ہیں : میں نے اس کی باتوں کو سنا، اور قبول کرلیا، ایک مدت کے بعد جب میں مدینہ گیا اور امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں مشرف ہوا اور اس پڑوسی کے حالات امام علیہ السلام کو سنائے اور اس کے سلسلہ میں اپنی پریشانی کو بھی بیان کیا۔

تمام حالات سن کر امام علیہ السلام نے فرمایا: جب تم کوفہ پہنچنا تو وہ شخص تم سے ملنے کے لئے آئے گا، میری طرف سے اس سے کہنا: اگر اپنے تمام برے کاموں سے کنارہ کشی کرلو، لھو و لعب کو ترک کردو، اور تمام گناھوں کو چھوڑدو تو میں تمھاری جنت کا ضامن ہوں۔

ابوبصیر کھتے ہیں : جب میں کوفہ واپس آیا تو دوست و احباء ملنے کے لئے آئے، اور وہ شخص بھی آیا، کچھ دیر کے بعد جب و ہ جانے لگا تو میں نے اس سے کھا: ذرا ٹھھرو! مجھے تم سے کچھ گفتگو کرنا ہے، جب سب لوگ چلے گئے، اور اس کے علاوہ کوئی باقی نہ رھا، تو میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کا پیغام اس کو سنایا، اور مزید کھا: امام صادق علیہ السلام نے تجھے سلام کھلوایا ہے!

چنانچہ اس پڑوسی نے تعجب کے ساتھ سوال کیا: تم ہیں خدا کی قسم! کیا واقعاً امام صادق علیہ السلام نے مجھے سلام کھلوایا ہے اور گناھوں سے توبہ کرنے کی صورت میں وہ میرے لئے جنت کے ضامن ہیں !! میں نے قسم کھائی کہ امام علیہ السلام نے یہ پیغام مع سلام تمھارے لئے بھیجا ہے۔

اس نے کھا: یہ میرے لئے کافی ہے، چند روز کے بعد مجھے پیغام بھجوایا کہ میں تم سے ملنا چاھتا ہوں، اس کے گھر پر گیا دق الباب کیا، وہ دروازہ کے پیچھے آکر کھڑا ہوگیا درحالیکہ اس کے بدن پر لباس ن ہیں تھا اور کھا: اے ابوبصیر ! میرے پاس جو کچھ بھی تھا سب کو ان کے مالکوں تک پہنچادیا ہے، مال حرام سے سبکدوش ہوگیا ہوں، اور میں نے اپنے تمام گناھوں سے توبہ کرلی ہے۔

میں نے اس کے لئے لباس کا انتظام کیا، اور کبھی کبھی اس سے ملاقات کے لئے جاتا رھا، اور اگر کوئی مشکل ہوتی تھی تواُس کو بھی حل کرتا رھا، چنانچہ ایک روز مجھے پیغام بھجوایا کہ میں بیمار ہوگیا ہوں، اس کی عیادت کے لئے گیا، چند روز تک بیمار رھا، ایک روز مرنے سے پھلے چند منٹ کے لئے بے ہوش ہوگیا، جیسے ہی ہوش آیا، مسکراتے ہوئے مجھ سے کھا: اے ابوبصیر امام صادق علیہ السلام نے اپنے وعدہ کو وفا کردیا، اور یہ کہہ کر اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔

ابو بصیر کھتے ہیں : میں اس سال حج کے لئے گیا، اعمال حج بجالانے کے بعد زیارت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امام صادق علیہ السلام سے ملاقات کے لئے مدینہ منورہ گیا، اور جب امام علیہ السلام سے ملاقات کے لئے مشرف ہوا تو میرا ایک پاؤں حجرہ کے اندر تھا اور ایک پاؤں حجرہ سے باھر اس وقت حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اے ابوبصیر! ھم نے تمھارے پڑوسی کے بارے میں کیا ہوا وعدہ پورا کردیا ہے!(۱۸۲)

ایک جیب کترے کی توبہ

حقیر (مولف) ایک شب قم میںفقیہ بزرگوار عارف باللہ، معلم اخلاق مرحوم حاج سید رضا بھاء الدینی کی نماز جماعت میں شریک تھا۔

نماز کے بعد موصوف کی خدمت میں عرض کیا: ھم آپ ھمیں کچھ وعظ و نصیت فرمائےے، چنانچہ موصوف نے جواب میں فرمایا: ھمیشہ خداوندعالم کی ذات پر امید کرو، اور اسی پر بھروسہ رکھو کیونکہ اس کا فیض و کرم دائمی ہے کسی کو بھی اپنی عنایت سے محروم ن ہیں کرتا، کسی بھی ذریعہ اور بھانہ سے اپنے بندوں کی ہدایت اور امداد کا راستہ فراھم کردیتا ہے۔

اس کے بعد موصوف نے ایک حیرت انگیز واقعہ سنایا: شھر ”ارومیہ“ میں ایک قافلہ سالار ھر سال مومنین کو زیارت کے لئے لے جایا کرتا تھا:

اس وقت گاڑیاں نئی نئی چلیں ت ہیں ، یہ گاڑیاں ٹرک کی طرح ہوتی ت ہیں جس پر مسافر اور سامان ایک ساتھ ہی ہوتا تھا، ایک کونے میں سامان رکھا جاتا تھا اور و ہیں مسافر بیٹھ جایا کرتے تھے۔

وہ قافلہ سالار کھتا ہیں : اس سال حضرت امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے جانے والے تقریباً۳۰ مومنین نے نام لکھوارکھا تھا، پروگرام طے ہوا کہ آئندہ ہفتہ کے شروع میں یہ قافلہ روانہ ہوجائے گا۔

میں نے شب چھار شنبہ حضرت امام رضا علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ ایک خاص محبت کے ساتھ مجھ سے فرمارہے ہیں : اس سفر میں ”ابراھیم جیب کترے “کو بھی لے کر آنا، میں نیند سے بیدار ہوا تو بھت تعجب ہواکہ کیوں امام علیہ السلام اس مرتبہ اس فاسق و فاجر اور جیب کترے کو (جو لوگوں کے درمیان بھت زیادہ بدنام ہے) اپنی بارگاہ کی دعوت فرمارہے ہیں ، میں نے سوچا کہ یہ میرا خواب صحیح ن ہیں ہے، لیکن دوسری رات میں نے پھر وھی خواب دیکھا، نہ کم نہ زیادہ، لیکن اس دن بھی میں نے اس خواب پر توجہ ن ہیں کی، تیسری رات میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو عالم رویا میں قدرے ناراحت دیکھا اور ایک خاص انداز میں مجھ سے فرمارہے ہیں : کیوں اس سلسلہ میں کوئی قدم ن ہیں اٹھاتے ہو؟

بھر حال میں جمعہ کے دن اس جگہ گیا جھاں پر فاسد اور گناھگار لوگ جمع ہوتے تھے ان کے درمیان ابراھیم کو ڈھونڈا، سلام کیا اور اس سے مشہد مقدس کی زیارت کرنے کے لئے کھا، لیکن جیسے ہی میں نے مشہد کی زیارت کے لئے کھا تو اس کو بھت تعجب ہوا اور مجھ سے کھا: امام رضا علیہ السلام کا حرم مجھ جیسے گندے لوگوں کی جگہ ن ہیں ہے، وھاں پر تو پاک وپاکیزہ اور صاحبان دل جاتے ہیں ، مجھے اس سفر سے معاف فرمائیں، میں نے بھت اصرار کیا لیکن وہ نہ مانا، آخر کار اس نے غصہ میں کھا: میرے پاس سفر کے اخراجات کے لئے پیسے بھی تو ن ہیں ہیں !! میرے پاس یھی ۳۰ ریال ہیں اور یہ بھی ایک بڑھیا کی جیب سے نکالے ہوئے ہیں ! یہ سن کر میں اس سے کھا: اے برادر! میں تجھ سے سفر کا خرچ ن ہیں لوں گا، تمھارے آنے جانے کا خرچ میرے ذمہ ہے۔

یہ سن کر اس نے قبول کرلیا، اور مشہد جانے کے لئے تیار ہوگیا، ھم نے بروز اتوار قافلہ کی روانگی کا اعلان کردیا۔

چنانچہ حسب پروگرام قافلہ روانہ ہوگیا، ابراھیم جیسے جیب کترے کے ساتھ ہونے پر دوسرے زائرین تعجب کررہے تھے، لیکن کسی نے اس کے بارے میں سوال کرنے کی ھمت نہ کی۔

ھماری گاڑی کچی سڑک پر روانہ تھی، اور جب ”زیدر“ نامی مقام پر پہنچی جوایک خطرناک جگہ تھی، اور وھاںاکثر زائرین پر راہزنوں کا حملہ ہوتا تھا، دیکھا کہ راہزنوں نے سڑک کو تنگ کردیا اور ھماری گاڑی کے آگے کھڑے ہوگئے، پھر ایک ڈاکو گاڑی میں گھس آیا، اور تمام زائرین کو دھمکی دی: جو کچھ بھی کسی کے پاس ہے وہ اس تھیلے میں ڈال دے، اور کوئی ھم سے الجھنے کی کوشش نہ کرے، ورنہ تو اس کو مار ڈالوں گا!

وہ تمام زائرین اور ڈرائیور کے سارے پیسے لے کر چلتا بنا۔

گاڑی دوبارہ چل پڑی، اور ایک چائے کے ہوٹل پر جارکی، زائرین گاڑی سے اترے اورغم و اندوہ کے عالم میں ایک دوسرے کے پاس بیٹھ گئے، سب سے زیادہ ڈرائیور پریشان تھا، وہ کھتا تھا: میرے پاس نہ یہ کہ اپنے خرچ کے لئے بھی پیسہ ن ہیں رہے بلکہ پٹرول کے لئے بھی پیسے ن ہیں ہیں ، اب کس طرح مشہد تک پہنچا جائے گا، یہ کہہ کر وہ رونے لگا، اس حیرت و پریشانی کے عالم میں اس ابراھیم جیب کترے نے ڈرائیور سے کھا: تمھارے کتنے پیسے وہ ڈاکو لے گیا ہے؟ ڈرائیور نے بتایا اتنے پیسہ میرے گئے ہیں ، ابراھیم نے اس کو اتنے پیسے دیدئے، پھر اسی طرح تمام مسافروں کے جتنے جتنے پیسہ چوری ہوئے تھے سب سے معلوم کرکے ان کو دیدئے، آخر میں اس کے پاس ۳۰ ریال باقی بچے، اور کھا کہ یہ پیسے میرے ہیں ، جو چوری ہوئے تھے، سب نے تعجب سے سوال کیا: یہ سارے پیسے تمھارے پاس کھاں سے آئے؟ اس نے کھا:جس وقت اس ڈاکو نے تم سب لوگوں کے پیسے لے لئے اور مطمئن ہوکر واپس جانے لگا، تو میں نے آرام سے اس کے پیسے نکال لئے، اور پھر گاڑی چل دی، اور ھم یھاں تک پہنچ گئے ہیں ، یہ تمام پیسہ آپ ہی لوگوں کے ہیں ۔

قافلہ سالار کھتا ہے:میں زور زور سے رونے لگا، یہ دیکھ کر ابراھیم نے مجھ سے کھا: تمھارے پیسے تو واپس مل گئے، اب کیوں روتے ہو؟! میں نے اپنا وہ خواب بیان کیا جو تین دن تک مسلسل دیکھتا رھا تھا او رکھاکہ مجھے خواب کا فلسفہ سمجھ میں ن ہیں آرھا تھا، لیکن اب معلوم ہوگیا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی دعوت کس وجہ سے تھی، امام علیہ السلام نے تیرے ذریعہ سے ھم سے یہ خطرہ ڈال دیا ہے۔

یہ سن کر ابراھیم کی حالت بدل گئی، اس کے اندر ایک عجیب و غریب انقلاب پیدا ہوگیا، وہ زور زور سے رونے لگا، یھاں تک کہ ”سلام“ نامی پھاڑی آگئی کہ جھاں سے حضرت امام رضا علیہ السلام کا روضہ دکھائی دیتا ہے، وھاں پہنچ کر ابراھیم نے کھا: میری گردن میں زنجیر باندھ دی جائے، اور حرم امام رضا علیہ السلام میں اسی طرح لے جایا جائے، چنانچہ جیسے جیسے وہ کھتا رھا ھم لوگ انجام دیتے رہے ، جب تک ھم لوگ مشہد میں رہے اس کی یھی حالت رھی، واقعاً عجیب طریقہ سے توبہ کی، اس بڑھیا کے پیسے امام رضا علیہ السلام کی ضریح میں ڈال دئے، امام رضا علیہ السلام کو شفیع قرار دیا تاکہ اس کے گناہ معاف ہوجائےں، تمام زائرین اس کی حالت پر رشک کررہے تھے، ھمارا سفر بخیر و خوشی تمام ہوا، تمام لوگ ارومیہ پلٹ گئے لیکن وہ تائب دیا یار میں رہ گیا!

توسّل اور توبہ

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : میں مسجد الحرام میں ”مقام ابراھیم“ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک ایسا بوڑھا شخص آیا جس نے اپنی سار ی عمر گناھوں میں بسر کی تھی، مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا:

نِعْمَ الشْفیعُ اِلی اللّٰه لِلْمُذْنِبِینَ “۔

”آپ خدا کے نزدیک گناھگاروں کے لئے بھترین شفیع ہیں “۔

اور پھر اس نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑا اور درج ذیل مضمون کے اشعار پڑھے:

”اے خدائے مھربان! چھٹے امام کے جد بزرگوار کا واسطہ، قرآن کا واسطہ، علی کا واسطہ، حسن و حسین کا واسطہ، فاطمہ زھرا کا واسطہ، ائمہ معصومین علیہم السلام کا واسطہ، امام مہدی علیہ السلام کا واسطہ، اپنے گناھگار بندے کے گناھوں کو معاف فرما!“

اس وقت ھاتف غیبی کی آواز آئی:

اے پیرمرد!

اگرچہ تیرے گناہ عظیم ہیں لیکن ان ذوات مقدسہ کی عظمت کے طفیل میں جن کی تونے قسم دی ہے، میں نے تجھے معاف کردیا، اگر تو تمام اھل زمین کے گناھوں کی بخشش کی درخواست کرتا تو معاف کردیتا، سوائے ان لوگوں کے جنھوں نے ناقہ صالح اور انبیاء و ائمہ کو قتل کیا ہے۔(۱۸۳)

شراب خور اور توبہ مرحوم فیض کاشانی، جو خود فیض و دانش کا سر چشمہ اور بصیرت کا مرکز تھے موصوف اپنی عظیم الشان کتاب ”محجة البیضاء“ میں نقل کرتے ہیں :

ایک شراب خوار شخص تھا جس کے یھاں گناہ و معصیت کی محفل سجائی جاتی تھی، ایک روز اس نے اپنے دوستوں کو شراب خوری اور لھوو لعب کے لئے دعوت دی اور اپنے غلام کو چار درھم دئے تاکہ وہ بازار سے کچھ کھانے پینے کا سامان خرید لائے۔

غلام راستہ میں چلا جارھا تھا کہ اس نے دیکھا منصور بن عمار کی نششت ہورھی ہے، سوچا کہ دیکھوں منصور بن عمار کیا کہہ رہے ہیں ؟ تو اس نے سنا کہ عمار اپنے پاس بیٹھنے والوں سے کچھ طلب کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کون ہے جو مجھے چار درھم دے تاکہ میں اس کے لئے چار دعائیں کروں؟ غلام نے سوچا کہ ان معصیت کاروں کےلئے طعام وشراب خریدنے سے بھتر ہے کہ یہ چار درھم منصور بن عمار کو کو دیدوں تاکہ میرے حق میں چار دعائیں کردیں۔

یہ سوچ کر اس نے وہ چار درھم منصور کو دیتے ہوئے کھا: میرے حق میں چار دعائیں کردو، اس وقت منصور نے سوال کیا کہ تمھاری دعائیں کیا کیا ہیں بیان کرو، اس نے کھا: پھلی دعا یہ کرو کہ خدا مجھے غلامی کی زندگی سے آزاد کردے، دوسری دعا یہ ہے کہ میرے مالک کو توبہ کی توفیق دے، اور تیسری دعا یہ کہ یہ چار درھم مجھے واپس مل جائیں، اور چوتھی دعا یہ کہ مجھے اور میرے مالک اور اس کے اھل مجلس کو معاف کردے۔

چنانچہ منصور نے یہ چار دعائیں اس کے حق میں کیں اور وہ غلام خالی ھاتھ اپنے آقاکے پاس چلا گیا۔

اس کے آقا نے کھا: کھاں تھے؟ غلام نے کھا: میں نے چار درھم دے کر چار دعائیں خریدی ہیں ، تو آقا نے سوال کیا وہ چار دعائیں کیا کیا ہیں کیا بیان تو کر؟ تو غلام نے کھا: پھلی دعا یہ تھی کہ میں آزاد ہوجاؤں، تو اس کے آقا نے کھا جاؤ تم راہ خدا میں آزاد ہو، اس نے کھا: دوسری دعا یہ تھی کہ میرے آقا کو توبہ کی توفیق ہو، اس وقت آقا نے کھا: میں توبہ کرتا ہوں، اس نے کھا: تیسری دعا یہ کہ ان چار درھم کے بدلے مجھے چار درھم مل جائیں، چنانچہ یہ سن کر اس کے آقا نے چار درھم عنایت کردئے، اس نے کھا: چوتھی دعا یہ کہ خدا مجھے، میرے مالک او راس کے اھل محفل کو بخش دے، یہ سن کر اس کے آقا نے کھا: جو کچھ میرے اختیار میں تھا میں نے اس کو انجام دیا، تیری، میری اور اھل مجلس کی بخشش میرے ھاتھ میں ن ہیں ہے۔چنانچہ اسی رات اس نے خواب میں دیکھا کہ ھاتف غیبی کی آوازآئی کہ اے میرے بندے! تو نے اپنے فقر وناداری کے باوجود اپنے وظیفہ پر عمل کیا، کیا ھم اپنے بے انتھا کرم کے باوجود اپنے وظیفہ پر عمل نہ کریں، ھم نے تجھے، تیرے غلام اور تمام اھل مجلس کو بخش دیا۔(۱۸۴)

آہ، ایک سودمند تائب

ایک ولی خدا کے زمانہ میں ایک شخص بھت زیادہ گناھگار تھا جس نے اپنی تمام زندگی لھو و لعب اور بے ہودہ چیزوں میں گزاری تھی اور آخرت کے لئے کچھ بھی زادہ راہ جمع نہ کی۔

نیک اور صالح لوگوں نے اس سے دوری اختیار کرلی، اور وہ نیک لوگوں سے کوئی سروکار نہ رکھتاتھا، آخر عمر میں اس نے جب اپنے کارناموں کو ملاحظہ کیا اور اپنی عمر کا ایک جائزہ لیا، اسے امید کی کرن نہ ملی، باغ عمل میں کوئی شاخ گل نہ تھی، گلستان اخلاق میں شفا بخش کوئی پھول نہ تھا، یہ دیکھ کر اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور دل کے ایک گوشے سے آہ نکل پڑی، اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، توبہ اور استغفار کے عنوان سے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا:

یامَنْ لَهُ الدُّنْیا وَالآخِرَةُ إِرْحَمْ مَنْ لَیسَ لَهُ الدُّنْیا وَالآخِرَةُ “۔

”اے وہ جودنیا وآخرت کا مالک ہے، اس شخص کے او پر رحم کر جس کے پاس نہ دنیا ہے او رنہ آخرت“۔

اس کے مرنے کے بعد شھر والوں نے خوشی منائی اور اس کو شھر سے باھر کسی کھنڈر میں پھینک دیا اور اس کے اوپر گھاس پھوس ڈال دی۔

اسی موقع پر ایک ولی خدا کو عالم خواب میں حکم ہواکہ اس کو غسل و کفن دو اور متقی افراد کے قبرستان میں دفن کرو۔

عرض کیا:اے دوجھاں کے مالک! وہ ایک مشھور و معروف گناھگار و بدکار تھا، وہ کس چیز کی وجہ سے تیرے نزدیک عزیز اور محبوب بن گیا اور تیری رحمت و مغفرت کے دائرہ میں آگیا ہے؟ جواب آیا:

اس نے اپنے کو مفلس اور درد مند دیکھا تو ھماری بارگاہ میں گریہ و زاری کیا، ھم نے اس کو اپنی آغوش رحمت میں لے لیا ہے۔

کون ایسا درد مند ہے جس کے درد کا ھم نے علاج نہ کیا ہو اور کون ایسا حاجت مند ہے جو ھماری بارگاہ میں روئے اور ھم اس کی حاجت پوری نہ کریں، کون ایسا بیمارہے جس نے ھماری بارگاہ میں گریہ و زاری کیا ہو اور ھم نے اس کو شفا نہ دی ہو؟(۱۸۵)

توبہ کے ذریعہ مشکلات کا دور ہونا

”جابر جعفی“ مکتب اھل بیت علیھم السلام کے معتبر ترین راویوں میں سے تھے، وہ حضرت رسول اکرمسے روایت کرتے ہیں : تین مسافر سفر کرتے ہوئے ایک پھاڑ کی غار میں پہنچے، وھاں پر عبادت میں مشغول ہوگئے، اچانک ایک پتھر اوپر سے لڑھک کر غار کے دھانے پر آلگا اسے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ دروازہ بند کرنے کے لئے ہی بنایا گیا ہو، چنانچہ ان لوگوں کو وھاں سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہ دیا!

پریشان ہوکر یہ لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے: خدا کی قسم یھاں سے نکلنے کا کوئی راستہ ن ہیں ہے، مگر یہ کہ خدا ہی کوئی لطف و کرم فرمائے، کوئی نیک کام کریں، خلوص کے ساتھ دعا کریں اور اپنے گناھوں سے توبہ کریں۔

ان میں سے پھلا شخص کھتا ہے: پالنے والے! تو(تو جانتا ہے)کہ میں ایک خوبصورت عورت کا عاشق ہوگیا تھا بھت زیادہ مال و دولت اس کو دیا تاکہ وہ میرے ساتھ آجائے، لیکن جونھی اس کے پاس گیا، دوزخ کی یاد آگئی جس کے نتیجہ میں اس سے الگ ہوگیا؛ پالنے والے ! اسی عمل کا واسطہ ھم سے اس مصیبت کو دور فرما اور ھمارے لئے نجات کا سامان فراھم فرمادے، بس جیسے ہی اس نے یہ کھا تو وہ پتھر تھوڑا سا کھسک گیا ہے ۔

دوسرے نے کھا: پالنے والے! تو جانتا ہے کہ ایک روز میں کھیتوں میں کام کرنے کے لئے کچھ مزدور لایا، آدھا درھم ان کی مزدوری معین کی، غروب کے وقت ان میں سے ایک نے کھا: میں نے دو مزدورں کے برابر کام کیا ہے لہٰذا مجھے ایک درھم دیجئے، میں نے ن ہیں دیا، وہ مجھ سے ناراض ہوکر چلا گیا، میں نے اس آدھے درھم کا زمین میں بیج ڈالدیا، اور اس سال بھت برکت ہوئی۔ ایک روز وہ مزدور آیا اور اس نے اپنی مزدوری کا مطالبہ کیا، تو میں نے اس کو اٹھارہ ہزار درھم دئے جو میں نے اس زراعت سے حاصل کئے تھے، اور چند سال تک اس رقم کو رکھے ہوئے تھا، اور یہ کام میں نے تیری رضا کے لئے انجام دیا تھا، تجھے اسی کام کا واسطہ ھم کو نجات دیدے۔ چنانچہ وہ پتھر تھوڑا اور کھسک گیا۔

تیسرے نے کھا: پالنے والے! (تو خوب جانتا ہے کہ) ایک روز میرے ماں باپ سورہے تھے میں ان کے لئے کسی ظرف میں دودھ لے کر گیا، میں نے سوچا کہ اگر یہ دودھ کا ظرف زمین پر رکھ دوں تو ک ہیں والدین جاگ نہ جائےں، اور میں نے ان کو خود ن ہیں اٹھایا بلکہ وہ دودھ کا ظرف لئے کھڑارھا یھاں تک کہ وہ خود سے بیدار ہوں۔پالنے والے توخوب جانتا ہے کہ میں نے وہ کام اور وہ زحمت صرف تیری رضا کے لئے اٹھائی تھی، پالنے والے اسی کام کے صدقہ میں ھمیں اس مصیبت سے نجات دیدے۔ چنانچہ اس شخص کی دعا سے پتھر او رکھسکا اور یہ تینوں اس غار سے باھر نکل آئے۔(۱۸۶)

عجیب اخلاق اور عجیب انجام

دور حاضر کی گرانقدر تفسیر”المیزان“کے فارسی مترجم استاد بزرگوار حضرت آقای سید محمد باقر موسوی ھمدانی صاحب نے۱۶شوال بروز جمعہ ۹بجے صبح اس خاکسار سے بیان فرمایا:

”گنداب“ (ھمدان ) علاقہ میں ایک شرابی اور بدمعاش شخص تھا جس کا نام علی گندابی تھا۔

اگرچہ یہ دینی مسائل پر کوئی توجہ ن ہیں رکھتا تھا اور ھمیشہ بدمعاشوں اور گناھگاروں کے ساتھ رھتا تھا، لیکن بعض اخلاقی چیزیں اس میں نمایاں تھی۔

ایک روز شھر کے بھترین علاقے میں اپنے ایک دوست کے ساتھ چائے کے ہوٹل میں بینچ پر چائے پینے کے لئے بیٹھا ہوا تھا۔

اس کے صحت مند جسم اورخوبصورت چھرہ میں نھایت کشش پائی جاتی تھی۔

مخملی ٹوپی لگائے ہوئے تھا جس سے اس کی خوبصورتی میں مزید نکھار آیا ہوا تھا، لیکن اچانک اس نے اپنی ٹوپی سر سے اتاری اور پیروں کے نیچے مسلنے لگا، اس کے دوست نے کھا: ارے ! تم یہ کیا کررہے ہو؟ جواب دیا: ذرا ٹھھرو، اتنے بے صبرے مت بنو، بھر حال تھوڑی دیر بعد اس نے ٹوپی کو اٹھایا اور پھر اوڑھ لی۔ اور کھا: اے میرے دوست ابھی ایک شوھر دار جوان عورت یھاں سے گزر رھی تھی اگر مجھے اس ٹوپی کے ساتھ دیکھتی تو شاید یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتی کہ یہ شخص تو میرے شوھر سے بھی زیادہ خوبصورت ہے، اور وہ اپنے شوھر سے خشک رویہ اختیار کرتی، میں یہ ن ہیں چاھتا تھا کہ اپنی اس چمک دار ٹوپی کی وجہ سے ایک میاں بیوی کے تعلقات کو تلخ کردوں۔

ھمدان میں ایک مشھور و معروف ذاکر جناب ”شیخ حسن“ بھی تھے جوواقعاً ایک متقی اور دیندار شخصیت تھے، موصوف فرماتے ہیں : حقیر عاشور کے دن عصر کے وقت ”حصار“ نامی محلہ میں مجلس پڑھنے کے لئے گیا ہوا تھا لیکن واپسی میں دیر ہوگئی شھر کے دروازہ پرپہنچا تو دروازہ بند ہوچکا تھا، میں نے دروزاہ کھٹکھٹایا تو علی گندابی کی آواز سنی جو شراب کے نشہ میں مست تھا اور زور زور کہہ رھا تھا: کون ہے کون ہے؟

میں نے کھا: میں شیخ حسن ذاکرحسین علیہ السلام ہوں، چنانچہ اس نے دروازہ کھولا اور چلاکر کھا: اتنے وقت کھاں تھے؟ میں نے کھا: حصار محلہ میں امام حسین علیہ السلام کی مجلس پڑھنے کے لئے گیا ہوا تھا، یہ سن کر اس نے کھا: میرے لئے بھی مجلس پڑھو، میں نے کھا: مجلس کے لئے منبر اور سننے والے مجمع کی ضرورت ہوتی ہے، اس نے کھا: یھاں پر سب چیزیں موجود ہیں ، اس کے بعد وہ شخص سجدہ کی حالت میں ہوا اور کھا: میری پیٹھ منبر ہے اور میں سننے والا ہوں، میری پیٹھ پر بیٹھ کر قمر بنی ھاشم حضرت عباس کے مصائب پڑھو!

خوف کی وجہ سے کوئی چارہ کار نہ تھا اس کی پیٹھ پر بیٹھا اور مجلس پڑھنے لگا، چنانچہ اس نے بھت گریہ کیا، اس کا رونادیکھ کر میری بھی عجیب حالت ہوگئی، زندگی بھر ایسی حالت ن ہیں ہوئی تھی، مجلس ختم ہوتے ہی اس کی مستی بھی ختم ہوگئی، اس کے اندر ایک عجیب و غریب انقلاب پیدا ہوچکا تھا!

اس مجلس، گریہ و زاری اور توسل کی برکت سے وہ شخص عتبات عالیہ کی زیارت کے لئے عراق گیا، ائمہ علیھم السلام کی زیارت کی اور اس کے بعد نجف اشرف پہنچا۔

اس زمانہ میں مرزا شیرازی (جنھوں نے تنباکو کی حرمت کا فتويٰ صادر کیا تھا) نجف اشرف میں قیام پذیر تھے، علی گندابی مرزا شیرازی کی نماز جماعت میں شرکت کیا کرتا تھااور بالکل ان ہیں کے پیچھے اپنا مصليٰ پچھایا کرتاتھا، اور مدتوں تک اس عظیم الشان مرجع تقلید کی نماز جماعت میں شرکت کرتا رھا۔

ایک روز نماز مغرب و عشاء کے درمیان مرزا شیرازی کو خبر دی گئی کہ فلاں عالم دین کا انتقال ہوگیا، چنانچہ یہ خبر سن کر موصوف نے حکم دیا کہ حرم امام علی علیہ السلام سے متصل دالان میں ان کو دفن کیا جائے، فوراً ہی ان کے لئے قبر تیار کی گئی، لیکن نماز عشاء کے بعد لوگوں نے آکر مرزا شیرازی کو خبر دی: گویا اس عالم دین کو سکتہ ہواتھا اور اب الحمد للہ ہوش آگیا ہے، لیکن اچانک علی گندابی جانماز پر بیٹھے بیٹھے اس دنیا سے چل بسے، یہ دیکھ کر مرزا شیرازی نے کھا: علی گندابی کو اسی قبر میں دفن کردیا جائے!(شاید یہ اسی کے لئے یہ قبر بنی تھی۔)

ایک کفن چور کی توبہ

معاذ بن جبل روتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آنحضرت کو سلام کیا، آپ نے جواب سلام دیتے ہوئے فرمایا: تمھارے رونے کی وجہ کیا ہے؟ تو انھوں نے کھا: ایک خوبصورت جوان مسجد کے پاس کھڑا ہوا اس طرح رورھا ہے جیسے اس کی ماں مرگئی ہو، وہ چاھتا ہے آپ سے ملاقات کرے، چنانچہ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اس کو مسجد میں بھیج دو، وہ جوان مسجد میں داخل ہوا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سلام کیا، آنحضرت نے جواب سلام دیا اور فرمایا: اے جوان ! رونے کی وجہ کیا ہے؟ اس نے عرض کیا: میں کیوں نہ روؤں حالانکہ میں نے ایسے ایسے گناہ انجام دئے ہیں کہ خدا وندعالم ان میں سے بعض کی وجہ سے مجھے جہنم میں بھیج سکتا ہے، میں تو یہ مانتا ہوں کہ مجھے میرے گناھوں کے بدلے دردناک عذاب دیا جائے اور خداوندعالم مجھے بالکل معاف ن ہیں کرسکتا۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: کیا تو نے خدا کے ساتھ شرک کیا ہے؟ اس نے کھا: ن ہیں ، میں شرک سے پناہ چاھتا ہوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: کیا کسی نفس محترمہ کا قتل کیا ہے؟ اس نے کھا: ن ہیں ، آپ نے فرمایا: خداوندعالم تیرے گناھوں کو بخش دے گا اگرچہ بڑے بڑے پھاڑوں کے برابر ہی کیوں نہ ہو، اس نے کھا: میرے گناہ بڑے بڑے پھاڑوں سے بھی بڑے ہیں ، اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: خداوندعالم تیرے گناھوں کو ضروربخش دے گا چاھے وہ ساتوں زمین، دریا، درخت، ذرات اور زمین میں دوسری موجوات کے برابر ہی کیوں نہ ہوں، بے شک تیرے گناہ قابل بخشش ہیں اگرچہ آسمان، ستاروں اورعرش و کرسی کے برابر ہی کیوں نہ ہوں! اس نے عرض کیا: میرے گناہ ان تمام چیزوں سے بھی بڑے ہیں ! پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غیض کے عالم میںاسے دیکھا اور فرمایا: اے جوان! تیرے اوپر افسوس ہے! کیا تیرے گناہ زیادہ بڑے ہیں یا تیرا خدا؟

یہ سن کر وہ جوان سجدے میں گرپڑا اور کھا: پاک و پاکیزہ ہے میرا پروردگار، یا رسول اللہ ! اس سے بزرگتر تو کوئی ن ہیں ہے، میرا خدا تو ھر عظیم سے عظیم تر ہے، اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: کیا بڑے گناھوں کو خدائے بزرگ کے علاوہ بھی کوئی معاف کرسکتا ہے؟ اس جوان نے کھا: ن ہیں یا رسول اللہ! قسم بخدا ن ہیں ، اور اس کے بعد وہ خاموش ہوگیا۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا: اے جوان وائے ہو تجھ پر! کیا تو مجھے اپنے گناھوں میں سے کسی ایک گناہ کو بتاسکتا ہے؟ اس نے کھا: کیوں ن ہیں ، میں سات سال سے قبروں کو کھول کر مردوں کو باھر نکالتا ہوں اور ان کا کفن چوری کرلیتا ہوں!

قبیلہ انصار سے ایک لڑکی کا انتقال ہوا، جب لوگ اس کو دفن کرکے واپس آگئے، میں رات میں گیا، اس کو باھر نکالا، اور اس کا کفن نکال لیا، اس کو برہنہ ہی قبر میں چھوڑدیا، جب میں واپس لوٹ رھا تھا شیطان نے مجھے ورغلایا، اور اس کے لئے میری شھوت کو ابھارا، شیطانی وسوسہ نے اس کے بدن اور خوبصورتی نے مجھے اپنے جال میں پھنسا لیا یھاں تک نفس غالب آگیا اور واپس لوٹا اور جوکام ن ہیں کرنا چاہئے تھا وہ کربیٹھا!!

اس وقت گویا میں نے ایک آواز سنی: اے جوان! روز قیامت کے مالک کی طرف سے تجھ پر وائے ہو! جس دن تجھے اور مجھے اس کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا، ھائے تونے مجھے مردوں کے د رمیان برہنہ کردیا ہے، مجھے قبر سے نکالا، میرا کفن لے چلا اور مجھے جنابت کی حالت میں چھوڑ دیا، میں اسی حالت میں روز قیامت محشور کی جاؤں گی، واے ہو تجھ پر آتش جہنم کی!

یہ سن کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلند آواز میں پکارا: اے فاسق! یھاں سے دور چلاجا، ڈرتا ہوں کہ تیرے عذاب میں میں بھی جل جاؤں! تو آتش جہنم سے کتنا نزدیک ہے؟!

وہ شخص مسجد سے باھر نکلا، کچھ کھانے پینے کا سامان لیا اور شھر سے باھر پھاڑ کی طرف چل دیا، حالانکہ موٹا اور کھردرا کپڑا پہنے ہوئے تھا، اور اپنے دونوں ھاتھوں کو اپنی گردن سے باندھے ہوئے تھااور پکارتا جاتا تھا: خداوندا! یہ بھلول تیرا بندہ ہے، ھاتھ بندھے تیری بارگاہ میں حاضر ہے۔ پالنے والے! تو مجھے جانتا ہے، میرے گناھوں کو بھی جانتا ہے، میں آج تیرے پشیمان بندوں کے قافلہ میں ہوں، توبہ کے لئے تیرے پیغمبر کے پاس گیا تھا لیکن اس نے بھی مجھے دور کردیاھے، پالنے والے تجھے تیری عزت و جلال اور سلطنت کا واسطہ کہ مجھے ناامید نہ کرنا، اے میرے مولا و آقا! میری دعا کو ردّ نہ کرنا اوراپنی رحمت سے مایوس نہ کرنا۔

وہ چالیس دن تک دعا و مناجات اورگریہ و زاری کرتا رھا، جنگل کے درندے اور حیوانات اس کے رونے سے روتے تھے! جب چالیس دن ہوگئے تو اپنے دونوں ھاتھوں کو بلند کرکے بارگاہ الٰھی میں عرض کیا: پالنے والے ! اگر میری دعا قبول اور میرے گناہ بخش دئے گئے ہوں تو اپنے پیغمبر کو اس کی خبر دےدے، اور اگر میری دعا قبول نہ ہوئی ہو اور میرے گناہ بخشے نہ گئے ہوں نیز مجھ پر عذاب کرنے کا ارادہ ہو تو میرے اوپر آتش نازل فرما تاکہ میں جل جاؤں یا کسی دوسری عقوبت میں مبتلا کردے تاکہ میں ھلاک ہوجاؤں، بھر حال قیامت کی ذلت و رسوائی سے مجھے نجات دیدے۔

چنانچہ اس موقع پر درج ذیل آیات نازل ہوئیں:

( وَالَّذِینَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً اوْ ظَلَمُوا انْفُسَهم ذَكَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهم وَمَنْ یغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللهُ وَلَمْ یصِرُّوا عَلَی مَا فَعَلُوا وَهم یعْلَمُونَ ) ۔(۱۸۷)

”اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جب کوئی نمایاں گناہ کرتے ہیں یا اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں تو خدا کو یاد کرکے اپنے گناھوں پر استغفار کرتے ہیں اور خدا کے علاوہ کون گناھوں کو معاف کرنے والاھے اور وہ اپنے کئے پر جان بوجھ کر اصرار ن ہیں کرتے “۔

( اوْلَئِكَ جَزَاؤُهم مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهم وَجَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِها الْانْهارُ خَالِدِینَ فِیها وَنِعْمَ اجْرُ الْعَامِلِینَ ) ۔(۱۸۸)

”یھی وہ لوگ ہیں جن کی جزا مغفرت ہے اور وہ جنت ہے جس کے نیچے نھریں جاری ہیں ۔وہ ھمیشہ اسی میں رہنے والے ہیں اور عمل کرنے کی یہ جزا بھترین جزاھے“۔

ان دونوں آیتوں کے نزول کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسکراتے ہوئے ان دو آیتوں کی تلاوت فرماتے ہوئے باھر تشریف لائے اور فرمایا: کوئی ہے جو مجھے اس توبہ کرنے والے جوان تک پہنچائے؟

معاذ بن جبل کھتے ہیں : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم !ھمیں خبر ملی ہے کہ وہ جوان مدینہ سے باھر پھاڑوں میں چھپا ہوا ہے، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے اصحاب کے ساتھ پھاڑ تک گئے لیکن جب وہ نہ ملا تو پھر پھاڑ کی بلندی پر پہنچے تو اس کو دو پتھروں کے درمیان دیکھا کہ اپنے دونوں ھاتھ گردن سے باندھے ہوئے ہے، گرمی کی شدت سے اس کے چھرہ کا رنگ سیاہ ہوگیا ہے، زیادہ رونے سے اس کی پلکیں گرچکی ہیں اور کھتا جاتا ہے: اے میرے مولا و آقا! میری پیدائش اچھی قرار دی، میراچھرہ خوبصورت بنایا، میں ن ہیں جانتا کہ میرے متعلق تیرا کیا ارادہ ہے، کیا مجھے آتش جہنم میں جگہ دے گا یا اپنے جوار رحمت میں جگہ دے گا؟

خدایا ! پروردگار! تو نے مجھ پر بھت احسان کئے ہیں اس ناچیز بندے پر تیری نعمتیں سایہ فگن ہیں ، میں ن ہیں جانتا کہ میرا انجام کیا ہوگا، کیا مجھے بہشت میں رکھے گا یا آتش جہنم میں ڈالے گا؟

خدایا ! میرے گناہ زمین و آسمان، عرش و کرسی سے بڑے ہیں ، میں ن ہیں جانتا میرے گناہ کو بخش دیگا، یا روز قیامت مجھے ذلیل وخوار کرے گا۔اس کی زبان پر یھی کلمات جاری ہیں ، آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں ، اور اپنے سر پر خاک ڈالتا جاتا ہے، حیوانات اس کے اردگرد جمع ہیں ، پرندوں نے اس کے اوپر سایہ کیا ہوا ہے، اور اس کے ساتھ رورہے ہیں ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے نزدیک آئے اس کے ھاتھوں کو کھولا، اس کے چھرہ کو صاف کیا اور فرمایا: اے بھلول ! تجھے بشارت ہو کہ خداوندعالم نے تجھے آتش جہنم سے آزاد کردیا ہے، اور اس کے بعد اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا: جس طرح بھلول نے گناھوںکی تلافی کی ہے تم بھی اسی طرح اپنے گناھوں کا جبران اور تلافی کرو، اور اس کے بعدان دونوں آیات کی تلاوت کی، اور بھلول کو بہشت کی بشارت دی۔(۱۸۹)

فضیل عیاض کی توبہ

فضیل اگرچہ شروع میں ایک راہزن تھا اور اپنے ساتھیوں کی مدد سے قافلوں کو روک کر ان کا مال و دولت چھین لیا کرتا تھا، لیکن فضیل کی مروت و ھمت بلند تھی، اگر قافلہ میں کوئی عورت ہوتی تھی تو اس کا سامان ن ہیں لیتا تھا، اسی طرح اگر کسی کے پاس کم مال ہوتا تھا اس کو بھی ن ہیں لیتا تھا، اور جن سے مال و دولت لیتا بھی تھا ان کے پاس کچھ چیزیں چھوڑ دیتا تھا، اسی طرح خدا کی عبادت سے بھی منھ ن ہیں موڑتا تھا، نماز و روزہ سے غافل ن ہیں تھا، فضیل کے توبہ کے سلسلہ میں یوں رقمطرازھے:

فضیل، ایک عورت کا عاشق تھا لیکن اس تک رسائی نہ ہوتی تھی، کبھی کبھی اس عورت کے گھر کے پاس کی دیوار کے پاس جاتا تھا اور اس کی خاطر گریہ و زاری اور نالہ و فریاد کیا کرتا تھا، ایک رات کا واقعہ ہے کہ ایک قافلہ وھاں سے گزرھا تھا اور اس قافلہ میں ایک شخص قرآن پڑھ رھا تھا چنانچہ اس نے جب یہ آیت پڑھی:

( الَمْ یانِ لِلَّذِینَ آمَنُوا انْ تَخْشَعَ قُلُوبُهم لِذِكْرِ اللهِ ) ۔(۱۹۰)

”کیا صاحبان ایمان کے لئے ابھی وہ وقت ن ہیں آیا ہے کہ ان کے دل ذکر خدا اور اس کی طرف سے نازل ہونے والے حق کے لئے نرم ہو جائیں “۔

فضیل اس آیت کو سن کر دیوار سے گرپڑے اور کھا: پالنے والے! کیوں ن ہیں وہ وقت آگیا بلکہ اس کا وقت گزر گیا ہے، شرمندہ، پشیمان، حیران و پریشان اور گریہ و زاری کرتے ہوئے ایک ویرانہ کی طرف نکل پڑا، اس ویرانہ میں ایک قافلہ رکا ہوا تھا، جھاں پر لوگ آپس میں کہہ رہے تھے : چلو چلتے ہیں ، سامان تیار کرو، دوسرا کھتا تھا: ابھی چلنے کا وقت ن ہیں ہوا ہے، کیونکہ ابھی فضیل راستہ میں ہوگا، وہ ھمارا

راستہ روک کر سارا مال و اسباب چھین لے گا، اس وقت فضیل نے پکارا: اے قافلہ والو! تم لوگوں کو بشارت ہے کہ اس خطرناک چور اور کم بخت راہزن نے توبہ کرلی ہے!

غرض اس نے توبہ کی اور توبہ کے بعد ان لوگوں کو تلاش کرنا شروع کیا جن کا مال چھینا یا چوری کیا تھااور ان سے معافی مانگی(۱۹۱)

چنانچہ ایک مدت کے بعد وہ بھت بڑے اور حقیقی عارف بن گئے اور لوگوں کی تعلیم و تربیت میں مشغول ہوگئے جن کے حکمت آمیز کلمات اب بھی تاریخ میں موجود ہیں ۔

تین توبہ کرنے والے مسلمان

جس وقت جنگ تبوک کا مسئلہ پیش آیا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تین صحابی ؛کعب بن مالک، مرارة بن ربیع اور ھلال بن امیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ باطل کے خلاف میدان جنگ میں جانے کے لئے تیار نہ ہوئے۔

اور اس کی وجہ ان کی سستی، کاھلی اور آرام طلبی کے علاوہ اور کچھ بھی نہ تھی، لیکن جب لشکر اسلام مدینہ سے روانہ ہوگیا تو یہ تینوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نہ جانے کی وجہ سے پشیمان اور شرمندہ ہوئے۔

جس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنگ تبوک سے مدینہ واپس پلٹے، یہ تینوں افراد آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی زبان سے عذر خواھی کی اور ندامت کا اظھار کیالیکن آنحضرت نے ایک حرف بھی ان سے نہ کھا، اور تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ کوئی بھی ان سے کلام نہ کرے۔

نوبت یھاں تک آئی کہ ان کے اھل و عیال بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! کیا ھم بھی ان لوگوں سے دور ہوجائیں اور ان سے کلام نہ کریں!

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اجازت نہ دی اور فرمایاکہ تم لوگ بھی ان کے قریب مت جاؤ اور نہ ان سے کلام کرو۔

مدینہ شھر میں ان کے رہنے کے لئے جگہ باقی نہ رھی ھر طرف سے ان کا بائیکاٹ ہونے لگا، یھاں تک کہ ان لوگوں نے اس مشکل سے نجات پانے کے لئے مدینہ کی پھاڑیوں پر پناہ لے لی۔

ان تمام مشکلات کے علاوہ ایک دوسرا جھٹکا یہ لگا جیسا کہ کعب کا بیان ہے:میں مدینہ کے بازار میں غم و اندوہ کے عالم میں بیٹھا ہوا تھا، اسی اثنا میں ایک عیسائی مجھے تلاش کرتا ہوا میرے قریب آیا، تو جیسے ہی مجھے پہچانا ”سلطان غسّان“ کا خط مجھے دیا، جس میں لکھا ہوا تھا: اگر تمھارے پیغمبر نے تمھارا بائیکاٹ کردیا ہے تو تم ھمارے یھاں آجاؤ، کعب کے دل میں آگ لگ گئی اور کھا: خدایا! نوبت یہ آگئی ہے کہ دشمنان اسلام بھی میرے بارے میں سوچنے پر تیار ہیں !

بھر حال بعض رشتہ دار ان کے لئے کھانا لے جایا کرتے تھے لیکن کھانا ان کے سامنے رکھ دیا کرتے تھے لیکن ان سے کلام ن ہیں کرتے تھے۔

توبہ قبول ہونے کا بھت انتظار کیا کہ خداوندعالم کی طرف سے کوئی آیت یا کوئی نشائی آئے تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان کی توبہ قبول ہوگئی ہے، چنانچہ ان میں سے ایک شخص نے کھا: تمام لوگوں نے یھاں تک کہ خود ھمارے گھروالوں نے بھی ھم سے قطع تعلق کرلیا ہے آؤ ھم بھی ایک دوسرے سے قطع تعلق کرلیں، شاید خداوندعالم کی بارگاہ میں ھماری توبہ قبول ہوجائے۔

چنانچہ وہ سب ایک دوسرے سے جدا ہوگئے، اور ان میں سے ھر ایک الگ الگ پھاڑ کے گوشوں میںچلا گیا، خداکی بارگاہ میں گریہ و زاری اور نالہ و فریاد کی، اس کی بارگاہ میں شرمندگی کے ساتھ آنسو بھائے، تواضع و انکساری کے ساتھ سجدہ میں سر رکھا اور اپنے ٹوٹے ہوئے دلوں سے طلب مغفرت کی، غرض پچاس دن توبہ و استغفار اور گریہ و زاری کے بعد درج ذیل آیہ شریفہ ان کی توبہ قبول ہونے کے لئے بشارت بن کر نازل ہوئی:(۱۹۲)

( وَعَلَی الثَّلَاثَةِ الَّذِینَ خُلِّفُوا حَتَّی إِذَا ضَاقَتْ عَلَیهم الْارْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیهم انفُسُهم وَظَنُّوا انْ لاَمَلْجَا مِنْ اللهِ إِلاَّ إِلَیهِ ثُمَّ تَابَ عَلَیهم لِیتُوبُوا إِنَّ اللهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ) ۔(۱۹۳)

”اوراللہ نے ان تینوں پر بھی رحم کیا جو جھاد سے پیچھے رہ گئے یھاں تک کہ زمین جب اپنی وسعتوں سمیت ان پر تنگ ہو گئی اور ان کے دم پر بن گئی اور انھوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب اللہ کے علاوہ کوئی پناہ گاہ ن ہیں ہے، تو اللہ نے ان کی طرف توجہ فرمائی کہ وہ توبہ کرلیں اس لئے کہ وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے“۔

حر ّ بن یزید ریاحی کی توبہ

حر ّ بن یزید ریاحی پھلے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ نہ تھا، لیکن آخر کار امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ہوگئے، حر ّایک جوان اور آزاد انسان تھا، اس بے معنی جملہ ”المامور معذور “(یعنی مامور معذور ہوتا ہے) پر عقیدہ ن ہیں تھا، ظالم حکمراں کے حکم کی مخالفت کی اور اس سے مقابلہ کے لئے قیام کیا، اور استقامت کی یھاں تک کہ شھادت کے درجہ پر فائز ہوگئے۔

حر ّکا شمار کوفہ میں لشکر یزید کے عظیم کے سرداروں میں ہوتا تھا اور عرب کے مشھور خاندان سے اس کا تعلق تھا، امیر کوفہ نے اس کی موقعیت سے فائدہ اٹھایااور حر کو ایک ہزار کے لشکر کا سردار بنادیا اور حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی طرف روانہ کردیا تاکہ امام کو گرفتار کرکے کوفہ لے آئے۔

کھتے ہیں : جس وقت حر کو ّلشکر کی سرداری حکم نامہ دیا گیا اور ابن زیاد کے محل سے باھر نکلا، تو اس کو ایک آواز سنائی دی: اے حر ّتیرے لئے جنت کی بشارت ہے، حر نے مڑکر دیکھا تو کوئی ن ہیں دکھائی دیا، چنانچہ اس نے خود سے کھا: یہ کیسی بشارت ہے؟ جو شخص حسین سے جنگ کے لئے جارھا ہواس کے لئے یہ جنت کی بشارت کیسے؟!

حر ّایک مفکر اور دقیق انسان تھا کسی کی اندھی تقلید ن ہیں کرتا تھا وہ ایسا شخص نہ تھا جو مقام منصب کے لالچ میں اپنے ایمان کو بیچ ڈالے، بعض لوگ جتنے بلند مقام پر پہنچ جاتے ہیں وہ حاکم کی اطاعت گزاری میں اپنی عقل کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں ، اپنے ایمان کو بیچ ڈالتے ہیں ، اور صحیح تشخیص ن ہیں دے پاتے، اوپر والے حاکم جس چیز کو صحیح کھتے ہیں وہ بھی صحیح کہہ دیتے ہیں ، اور جس چیز کو بُرا مانتے ہیں ، اس کو برا شمار کرنے لگتے ہیں ، وہ گمان کرتے ہیں کہ اوپر والے حاکم خطا و غلطی ن ہیں کرتے، جو کچھ بھی کھتے ہیں صحیح ہوتا ہے، لیکن حر ّایسا ن ہیں تھا، غور و فکر کرتا تھا اور اندھی تقلید اور بے جا اطاعت ن ہیں کرتا تھا۔

صبح کے وقت حر ّکی سرداری میں ایک ہزار کا لشکر کوفہ سے روانہ ہوا، عربستان کے بیابان کا راستہ اختیار کیا ایک گرمی کے عالم میں روز ظھر کے وقت امام حسین (علیہ السلام) سے ملاقات ہوگئی۔

حر ّ پیاسا تھا، اس کا لشکر بھی پیاسا تھا، گھوڑے بھی پیاسے تھے اس علاقہ میں ک ہیں ک ہیں پانی بھی ن ہیں ملتا تھا ایسے موقع پر اگر حضرت امام حسین علیہ السلام پانی نہ پلاتے تو وہ اور اس کا لشکر خود بخود مرجاتا، اور بغیر جنگ کئے ایک کامیابی حاصل ہوجاتی، لیکن آپ نے ایسا نہ کیا اور دشمن سے دشمنی کرنے کے بجائے اس کے ساتھ نیکی کی اور اپنے جوانوں سے فرمایا:

حر ّ پیاسا ہے کہ اس کو پانی پلاؤ، اس کا لشکر بھی پیاسا ہے اس کو بھی پانی پلاؤ اور ان کے گھوڑے بھی پیاسے ہیں ان ہیں بھی سیراب کرو۔ جوانوں نے امام علیہ السلام کی اطاعت کی، حر اوراس کے لشکر یھاں تک کہ ان کے گھوڑوں کوبھی سیراب کیا ۔

ادھر نماز کا وقت ہوگیا موذن نے اذان دی، امام علیہ السلام نے موذن سے فرمایا: اقامت کھو، اس نے اقامت کھی، امام حسین علیہ السلام نے حر ّ سے فرمایا:کیا تم اپنے لشکر والوں کے ساتھ نماز ادا کروگے؟ ! حر ّ نے کھا: ن ہیں ، میں تو آپ کے ساتھ نماز پڑھوں گا!

ایک طاقتور سردار کی جانب سے یہ جملہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حر کا اپنے اور اپنے لشکریوں پر کس قدر کنٹرول تھا کہ خود بھی امام حسین علیہ السلام کے سامنے تواضع و انکساری کے ساتھ پیش آئے اور اپنے ساتھیوں کوبھی اس کام پر آمادہ کیا۔

حرّکا یہ ادب، توفیق کی ایک کرن تھی جس کی بنا پر ایک اور توفیق حاصل ہوگی، جس سے نفس پر غلبہ کے لئے روز بروز طاقت حاصل ہوگی، اور اس کو اس قدر طاقتور بنادے گی کہ جس وقت انقلاب آئے تو اور تیس ہزار لشکر کے مقابلہ میں اپنے فیصلہ پر قائم رہے اور اپنے حیثیت کو باقی رکھے اور اپنے نفس پر غالب ہوجائے۔

گویا حر ّ کے اندر ادب اور طاقت کے دو ایسے پھلو موجود تھے، جو ھر ایک اپنی جگہ ان صفات کے حامل کو ان صفات کی دنیا میں بادشاہ بنادیتا ہے، پس جس کے اندر یہ دونوں صفتیں پائی جائیں تو وہ طاقت اور ادب کی دنیا کا مالک بن جاتا ہے۔

حر ّ بن یزید ریاحی کا یہ سب سے پھلا روحانی اور معنوی فیصلہ تھا کہ امام علیہ السلام کے ساتھ نماز جماعت ادا کرے، اور اس سردار کا نماز جماعت میں شریک ہونا گویا حاکم سے لاپرواھی کا ایک نمونہ تھا۔

لیکن حر ّ کے لشکر کی یہ نماز اھل کوفہ کے تضاد اور ٹکراؤ کی عکاسی کررھی تھی کیونکہ ایک طرف تو امام حسین علیہ السلام کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی امامت اور پیشوائی کا اقرار کررہے ہیں ، دوسری طرف یزید کی فرمانبرداری کررہے ہیں اور امام حسین علیہ السلام کے قتل کے درپے ہیں !

اھل کوفہ نے نماز عصر امام حسین علیہ السلام کے ساتھ پڑھی، نماز مسلمان ہونے اور پیغمبر اسلام کی پیروی کی نشانی ہے۔

کوفیوں نے نماز پڑھی، کیونکہ مسلمان تھے، کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیروکار تھے، لیکن فرزند رسول، وصی رسول اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آخری نشانی کو قتل کردیا! یعنی کیامطلب؟ کیا یہ تضاد اور ٹکراؤدوسرے لوگوں میں بھی پایا جاتا ہے؟

نماز عصر کے بعد امام حسین علیہ السلام نے اھل کوفہ کو خطاب کرتے ہوئے اس طرح بیان فرمایا:

”خدا سے ڈرو، اور یہ جان لو کہ حق کدھر ہے تاکہ خدا کی خوشنودی حاصل کرسکو۔ ھم اھل بیت پیغمبر ہیں ، حکومت ھمارا حق ہے نہ کہ ظالم و ستمگرکا حق، اگر حق ن ہیں پہچانتے، اور ھمیں خطوط لکھ کر اس پر وفا ن ہیں کرتے تو مجھے تم سے کوئی مطلب ن ہیں ہے، میں واپس چلا جاتا ہوں“۔

حر ّ نے کھا: مجھے خطوط کی کوئی خبر ن ہیں ہے، امام علیہ السلام نے خطوط منگوائے اور حر ّ کے سامنے رکھ دئے، یہ دیکھ کر حر ّ نے کھا: میں نے کوئی خط ن ہیں لکھا ہے، میں ی ہیں سے آپ کو امیر کے پاس لے چلتا ہوں، امام علیہ السلام نے فرمایا: تیری آرزو کے آگے موت تجھ سے زیادہ نزدیک ہے، اس کے بعد اپنے اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا: سوارھوجاؤ، چنانچہ وہ سوار ہوگئے، اور اھل حرم کے سوار ہونے کا انتظار کرنے لگے، سوارے ہونے کے بعد واپس ہوناچاھتے تھے لیکن حر کے لشکر نے راستہ روک لیا ۔

امام حسین علیہ السلام نے حر ّ سے کھا: تیری ماں تیری عزا میں بیٹھے، تو کیا چاھتا ہے؟ حرّ نے کھا: اگر عرب کا کو ئی دوسرا شخص مجھے یہ بات کھتااور آپ جیسی حالت میں ہوتا تو میں اس کو کبھی نہ چھوڑتا اور اس کی ماں کو اس کی عزا میں بٹھادیتا، چاھے جو ہوتا، لیکن خدا کی قسم مجھے یہ حق ن ہیں ہے کہ آپ کی ماں کا نام (اسی طرح) لوں، مگر یہ کہ نیکی اور احسان سے ۔

وَلَكِنْ وَاللّٰهِ مَالِی اِلَی ذِكْرِ اُمِّكَ مُنْ سِبیلٍ اِلاَّ بِاَحْسَنِ مَا یقْدِرُ عَلَیهِ(۱۹۴)

اس کے بعد حرنے کھا: مجھے آپ سے جنگ کرنے کا حکم ن ہیں ہے، آپ ایسا راستہ اختیار کرسکتے ہیں کہ نہ مدینہ جاتا ہو اور نہ کوفہ، شاید اس کے بعد کوئی ایسا حکم آئے کہ میں اس مشکل سے نجات پاجاؤں، اور اس کے بعد قسم کھاکر امام حسین علیہ السلام سے کھا کہ یااباعبد اللہ! اگر جنگ کریں گے تو قتل ہوجائیں گے۔

چنانچہ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: تو مجھے موت سے ڈراتا ہے؟ تمھارا انجام کار یھاں تک پہنچ گیا ہے کہ مجھے قتل کرنے کی فکر میں ہو! اس کے بعد دونوں لشکر روانہ ہوگئے، راستہ میں کوفہ سے آنے والے امام حسین علیہ السلام کے مددگار آپہنچے، حرّ نے ان کو گرفتار کرکے کوفہ بھیج دینے کا ارادہ کیا، امام حسین علیہ السلام نے روکتے ہوئے فرمایا: میں ان کا بھی دفاع کروں گا، جس طرح اپنی جان کا دفاع کرتا ہوں، یہ سن کر حر ّ نے اپنا حکم واپس لے لیا، اور وہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ہوگئے۔

آخر کار امام حسین علیہ السلام کو کربلا میں گھیر لائے، یزید کی فوج دستہ دستہ امام حسین علیہ السلام کے قتل کے لئے کربلا میں جمع ہونے لگی، اور اس فوج کی تعداد بڑھتی گئی، عمر سعد یزیدی لشکر کا سردار تھا حرّ بھی سپاہ یزید کے سرداروں میں سے ایک تھا۔

جس وقت عمر سعد جنگ کے لئے تیار ہوگیا، حر ّ کو اس بات کا یقین نہ تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیروکار، فرزند رسول پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہوجائیں گے، چنانچہ حر، عمر سعد کے پاس گیا اور سوال کیا: کیا واقعاً (امام) حسین سے جنگ ہوگی؟ عمر سعد نے کھا: ھاں ھاں! بڑی گھمسان کی جنگ ہوگی، حرّ نے کھا: کیوں (امام) حسین کی پیشکش کو قبول نہ کیا؟ عمر سعد نے کھا: مجھے مکمل اختیار ن ہیں ہے اگر مجھے اختیار ہوتا تو قبول کرلیتا، پورا اختیار امیر کے ھاتھوں میں ہے، ”المامور معذور “!

حر ّ نے اپنا ارادہ مضبوط کرلیاکہ مجھے امام حسین (علیہ السلام) سے ملحق ہونا ہے، البتہ یزیدی فوج کو اس بات کی خبر نہ ہو، اپنے پاس کھڑے چچازاد بھائی سے کھا: کیا تو نے اپنے گھوڑے کو پانی پلالیا ہے؟ ”قرہ“ نے جواب دیا: ن ہیں ، حرّ نے کھا: کیا اس کو پانی ن ہیں پلائے گا؟ قرہ نے اس سوال سے کچھ اس طرح اندازہ لگایا کہ حر جنگ ن ہیں کرنا چاھتا لیکن اپنی بات کسی پر ظاھرکرنا بھی ن ہیں چاھتا، شاید کوئی جاکر خبرکردے، لہٰذا اس نے اس طرح جواب دیا: ٹھیک ہے میں گھوڑے کو پانی پلاتا ہوں اور حر سے دور چلاگیا۔

مھاجر، حر ّ کا دوسرا چچا زاد بھائی حر کے پاس آیا اور کھا: کیا ارادہ ہے، کیا حسین پر حملہ کرنا چاھتا ہے؟

حر نے اس کو کوئی جواب نہ دیا، اور اچانک درخت بید کی طرح لرزنے لگا، جیسے ہی مھاجر نے اس کی یہ حالت دیکھی تو بھت تعجب کیا اور کھا: اے حر تیرے کام انسان کو شک میں ڈال دیتے ہیں ، میں نے اس سے پھلے تیری یہ حالت کبھی ن ہیں دیکھی تھی، اگر کوئی مجھ سے پوچھتا کہ کوفہ میں سب سے زیادہ شجاع اور بھادر کون شخص ہے؟ تو میں تیرا نام لیتا، لیکن آج یہ تیری کیا حالت ہورھی ہے؟

حر ّ نے زبان کھولی او رکھا: میں دو راہہ پر کھڑا ہوں میں اپنے کو جنت و دوزخ کے درمیان پارھا ہوں، اور پھر کھا: خدا کی قسم، کوئی بھی چیز جنت کے مقابلہ میں ن ہیں ہے، میں جنت کو ن ہیں کھوسکتا، چاھے میرے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں یا مجھے آگ میں جلاڈالیں، یہ کہہ کر اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور امام حسین علیہ السلام کی طرف روانہ ہوگیا۔

حر کا جنت و دوزخ پر یقین تھا وہ روز قیامت پر ایمان رکھتا تھا، یھی معنی ہے روز قیامت پر ایمان رکھنے کے۔

صاحبان دل جانتے ہیں کہ ایک لمحہ کے اندر انسان کے دل میں کیا کیا محل تیار ہوتے ہیں ، باتیں بنانے والے کیا کیا کھتے ہیں اور ایک شجاع انسان کو قطعی فیصلہ لینا ہوتا ہے، اور اسی کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے اور یقینا اس پر تدبیر اور ہوشیاری سے عمل کرنا ہوتا ہے تاکہ راستہ میں کوئی رکاوٹ اور مانع پیش نہ آجائے۔

جناب ابراھیم علیہ السلام وہ عظیم الشان سرباز تھے جنھوں نے تنھا دشمن کا مقابلہ کیا ہے اور اس طرح دشمن کے اہداف کو ناکام کیا کہ دشمن ان کی نیت سے آگاہ ہوگیا۔

حر نے بھی اپنے سامنے دونوں راستوں کو واضح پایا اور ان میں سے ایک کو عملی جامہ پہنانے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ دیکھا، اپنے ارادہ پر ثابت قدم رہے ان کے ارادوں کو فقط پروبال کی ضروت تھی تاکہ شکاریوں کے تیر سے بچ کر نکل سکےں۔

حر کے قدم دشمن کے جال سے نکل چکے تھے، وہ دنیاداری کو پیچھے چھوڑچکے تھے، مقام وریاست اور جاہ و جلال سب پیچھے رہ گئے تھے اس وقت اگر قدموں میں تھوڑا سا ثبات موجود ہو تو تمام آفات سے بھی گزر جائیں گے، ان کو یاد آیا کہ اس راستہ میں کوئی مشکل و آفت بھی ن ہیں ہے، اگر مجاہد اپنے گھر سے قدم نکالے اور راستہ میں ہی اس کی موت آجائے اور مقصد تک پہنچنے سے پھلے ہی اس دنیا سے کوچ کرجائے تو بھی خداوندعالم کا لطف و کرم اس کے شامل حال ہوتا ہے، اور خداوندعالم اس کو جنت الفردوس میں جگہ دےتا ہے۔

حر، جیسا آزاد انسان ان تین مرحلوں سے گزر چکا تھا جو واقعاًجادو تھے۔

۱۔ دشمن کی غلامی اور اس کے نفوذ سے۔

۲۔ دنیاوی زرق و برق سے۔

۳۔آفات کے مراحل سے۔

حرّ کے اندر حق و حقیقت سمجھنے کی طاقت اس حد تک تھی کہ اگر اس کو ٹکڑے ٹکڑے بھی کرڈالیں تو بھی راہ حق و حقیقت اور بہشت سے منحرف ن ہیں کیا جاسکتا۔ ”اوس “نے مھاجرین کو جواب دیتے ہوا کھا: (حر ّ) اپنے کو جنت و جہنم کے درمیان دیکھتا ہے، اس وقت جناب حر نے کھا: خدا کی قسم میں جنت کے مقابلہ میں کسی بھی چیز کو اختیار ن ہیں کرسکتا، اور اس راستہ سے ن ہیں ہٹوں گا چاھے میرے ٹکڑے ٹکڑے کردئے جائیں، اور چاھے مجھے آگ میں جلا دیا جائے! اس کے بعد گھوڑے کو ایڑ لگائی اور امام حسین علیہ السلام کی طرف روانہ ہوگیا جیسے ہی نزدیک پھونچا اپنی سپر کو اُلٹا کرلیا، امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں نے کھا: یہ شخص کوئی بھی ہے، امان چاھتا ہے، جو روتا ہوا، گریہ کرتا ہوا اور بے قراری کی صورت میں آرھا ہے۔

حر ّ، امام حسین علیہ السلام کی طرف روانہ تھے ھاتھ اپنے سر پر رکھے ہوئے کھتے جاتے تھے: پالنے والے! تیری بارگاہ میں توبہ کرتے ہوئے حاضر ہورھا ہوں لہٰذا میری توبہ قبول فرما کیونکہ میں نے تیرے ا ولیاء اور تیرے پیغمبر کی آل کو رنجیدہ خاطر کیا ہے۔

طبری کھتے ہیں : جیسے ہی حر ّ نزدیک ہوا، اوراس کو پہچان لیا گیا، اس نے حضرت امام حسین (علیہ السلام) کو سلام کیا، اور عرض کی: اے فرزند رسول! خدا مجھے آپ پر قربان کرے، میں نے آپ کا راستہ روکا اور آپ کو واپس نہ پلٹنے دیا، اور آپ کے ساتھ ساتھ چلتا رھا، تاکہ آپ کسی محفوظ جگہ میں پناہ گاہ تلاش نہ کرلیں، یھاں تک کہ آپ پر سختی کی اور آپ کو اس کربلا میں روک لیا، اور یھاں بھی آپ پر سختی کی گئی، لیکن اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کوئی خدا ن ہیں ، میرا یہ گمان ن ہیں تھا کہ یہ قوم آپ کی باتوں کو ن ہیں مانے گی، اور آپ سے جنگ کے لئے تیار ہوجائے گی۔

میںشروع میں یہ سوچتا تھا کہ کوئی بات ن ہیں ، ان لوگوں کے ساتھ سازش سے کام لیتا رھوں تاکہ ک ہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ وہ ان کا مخالف ہوتا جارھا ہے، لیکن اگر خدا کی قسم مجھے یہ گمان ہوتا کہ یہ لوگ آپ کی باتوں کو قبول ن ہیں کریں گے، تو میں آپ کے ساتھ ایسا سلوک نہ کرتا، اب میں آپ کی خدمت میں توبہ کرتے ہوئے اور جانثار کرتے ہوئے حاضر ہوں، تاکہ خدا کی بارگاہ میں توبہ کروں اور اپنی جان آپ پر قربان کردوں۔میں آپ پر قربان ہونا چاھتا ہوں، کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ !

اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: ھاں خداوندعالم توبہ قبول کرنے والا ہے، تیری توبہ کو قبول کرلے گا اور تجھے بخش دے گا، تیرا نام کیاھے؟ اس نے کھا: حر ّ بن یزید ریاحی، امام علیہ السلام نے فرمایا:

حر ّ جیسا کہ تمھاری ماں نے تمھارا نام رکھا تم دنیا و آخرت دونوں میں ہی حر ّ(آزاد) ہو(۱۹۵)

عصر عاشور دوبھائیوں کی توبہ

اسلام میں توبہ یعنی گناھگار کا نادم اور پشیمان ہونا، اپنے کئے ہوئے سے پشیمان ہوکر خدا کی طرف پلٹ جانا، اور یہ راستہ ھمیشہ انسان کے لئے کھلا ہوا ہے؛ کیونکہ مکتب الٰھی امید و رجاء کا دین ہے، مھر و محبت، رحمت کا سرچشمہ اور عشق و وفا کا مرکز ہے۔ امام حسین علیہ السلام رحمت پروردگار کا مکمل آئینہ دار ہیں مخلوق پر رحم و کرم، دوست پر رحم و کرم اور دشمن پر (بھی) رحم و کرم، امام حسین کا وجود مھر و محبت کا مجسمہ تھا آپ کی گفتگو محبت تھی رفتار محبت تھی، جس وقت سے یزیدی لشکر آپ کے ساتھ ہوا اسی وقت سے آپ کی کوشش رھی کہ ان کو ہدایت فرمائیں، اور وہ صراط مستقیم کو اپنالیں، حتی الامکان آپ نے راہنمائی فرمائی اور ان کے سلسلے میں خیر خواھی سے کام لیتے رہے ۔

جنگ سے پھلے کوشش کی، میدان جنگ میں کوشش کی اور اپنی رفتار و گفتار سے کوشش کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن لوگوں میں ہدایت کی صلاحیت تھی ان کو ہدایت کی اور ان کو جہنم سے نکال کر مستحق بہشت کردیا۔

امام حسین علیہ السلام کی آخری دعوت اس وقت تھی جب آپ تن تنھا رہ گئے جس وقت آپ کے تمام اصحاب واعزاء شھید ہوگئے، اس وقت کوئی نہ تھا، امام علیہ السلام نے استغاثہ بلند کیا اور فرمایا: کیا ھمارا کوئی ناصر و مددگار ن ہیں ہے؟ کیا کوئی ہے جو پیغمبر کے اھل حرم کا دفاع کرے:

اَلاَ نَاصِرٌ ینْصُرُنَا؟ اَمَا مِنْ ذَابٍّ یذُبُّ عَنْ حَرَمِ رَسُولَ الله “۔

اس آواز نے سعد بن حرث انصاری اور اس کے بھائی ابو الحتوف بن حرث کو خواب غفلت سے بیدار کردیا، یہ دونوں انصار سے تعلق رکھتے تھے، نیز ان کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھے لیکن آل محمد سے کوئی سروکار نہ تھا، دونوں دشمنان علی میں سے تھے، جنگ نھروان میں ان کا نعرہ یہ تھا: ”حکومت کا حق صرف خداوندعالم کو ہے، گناھگار کو حکومت کرنے کا کوئی حق ن ہیں ہے“۔

کیا حسین گناھگار ہیں لیکن یزید گناھگار ن ہیں ہے؟

یہ دونوں بھائی عمر سعد کے لشکر میں (امام ) حسین (علیہ السلام) سے جنگ کرنے اور اور آپ کے قتل کے لئے کوفہ سے کربلا آئے تھے، روز عاشورا جب جنگ کا آغار ہوا تو یہ دونوں یزید کی فوج میں تھے، جنگ شروع ہوگئی خون بہنے لگا، لیکن یہ لوگ یزید کے لشکر میں تھے، امام حسین علیہ السلام تن تنھا رہ گئے یہ لوگ یزید کی فوج میں تھے، لیکن جس وقت امام حسین علیہ السلام نے استغاثہ بلند کیا تو یہ لوگ خواب غفلت سے بیدار ہوگئے، اور خود سے کہنے لگے: حسین فرزند پیغمبر ہیں ، ھم روز قیامت ان کے نانے کی شفاعت کے امیدوار ہیں ، یہ سوچ کر دونوں یزید کی فوج سے نکل آئے اور حسینی بن گئے، جیسے امام حسین کے زیر سایہ آئے تو یزیدوں پر حملہ کردیا اور ان سے جنگ کی، چند لوگوں کو زخمی کیا اور چند لوگوں کو واصل جہنم کیا یھاں تک کہ خود بھی جام شھادت نوش کرلیا۔(۱۹۶)

علامہ کمرہ ای جن کی طرف سے حقیر (مولف) صاحب اجازہ بھی ہے اپنی عظیم الشان کتاب ”عنصر شجاعت“ میں فرماتے ہیں :

جس وقت بچوں اور اھل حرم نے امام حسین علیہ السلام کی صدائے استغاثہ سنی:

اَلانَاصِرٌ ینْصُرْنَا ؟“۔

تو خیام حسینی سے رونے اور چلانے کی آواز بلند ہوئی، سعد اور اس کے بھائی ابو الحتوف نے جیسے ہی اھل حرم کے نالہ و فریاد کی دل خراش آوزایں سنیں تو ان دونوں نے امام حسین علیہ السلام کا رخ کیا۔

یہ میدان جنگ میں تھے اپنے ھاتھوں میں موجود شمشیر سے یزیدیوں پر حملہ ور ہوگئے، اور جنگ کرنا شروع کی، امام کی طرف سے تھوڑی دیر تک جنگ کی اور بعض لوگوں کوواصل جہنم کیا، آخر کار دونوں شدید زخمی ہوگئے اس کے بعد دونوں ایک ہی جگہ پرشھید ہوگئے۔(۱۹۷)

ان دو بھائیوں کے حیرت انگیز واقعہ میں امیدکی کرن کو دیکھنے کو ملتی ہے، امید کی کرن ناامیدی کو مارے ڈالتی ہے، اور غیب کی تازہ تازہ خبریں دیتی ہے، انبیاء کے لئے اچانک بشارتیں لے کر آتی ہے درحقیقت یہ (امید) انبیاء کے لئے نبی ہے۔

امید کی کرن کے ذریعہ سے انبیاء علیھم السلام ھر وقت غیب کی باتوں سے پردہ برداری کے منتظر رھتے تھے، ھر وقت ایک نئی کرن سے ناامید ن ہیں ہوتے تھے، یھاں تک کہ آخری وقت میں بھی، گناھگار کی آخری سانس کو مجرم کے ساتھ حساب ن ہیں کرتے جب تک کہ مجرم مکمل طور پر جرم انجام نہ دے لے، خداوندعالم کی طرف سے ایک نئی عنایت کے منتظر رھتے ہیں ، چونکہ خداوندعالم کی مخصوص عنایات سب پر مخفی ہے۔

جناب یعقوب علیہ السلام نے ایک عجیب وغریب فراق کا تحمل کیا، کئی سال گزر گئے یھاں تک کہ آپ کی آنک ہیں سفید ہوگئیں، لیکن جناب یوسف کے بارے میں کوئی خبر نہ ملی، بھیڑئے کے کھالینے کی خبر سننے کے ساتھ ساتھ اپنے گم شدہ یوسف کی واپسی کے لئے خدا سے امید لگائے رہے ۔

اسی طرح ان دونوں جنگجو (بھائیوں) کے روحی انقلاب کو امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں جاکر جواب ملا کہ خلق خدا کی ہدایت کی امید صحیح اور بجا تھی، معلوم ہوتا ہے کہ خون کے پیاسے دشمنوں کے درمیان بھی نور ہدایت چمک سکتا ہے۔

ایک طرف تو ان دو بھائیوں کے انقلاب سے ایک عجیب و غریب اور نایاب امید کا پیداھونا، دوسری طرف امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ سے بھترین لطف و کرم کی امید، اسلامی مبلغین کے لئے بھترین نمونہ ہیں ، پس ان دو نوںبھائیوں کی سرشت اور طبیعت میں کچھ بھی ہو لیکن یہ لوگ امام حسین علیہ السلام سے بیس سال سے زیادہ چلی آرھی سخت دشمنی کے باوجودآخر وقت توبہ کرکے امام علیہ السلام کی طرف آگئے او رجناب یوسف علیہ السلام کی طرح تاریکیوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے نمودار ہوئے۔

یہ وہ راز ہے جس کو خداوندعالم نے ھر انسان کی فطرت میں مخفی رکھا ہے، اسی راز کا معلوم نہ ہونا اسلامی مبلغین کو امیدواری اور دلداری دیتا ہوا کھتا ہے: کبھی بھی تبلیغ اور تاثیر سے مایوس نہ ہونا، انسان کسی بھی وقت ہدایت یافتہ ہوسکتا ہے، کسی بھی موقع پر اس کے دل میں انقلاب برپا ہوسکتا ہے، اور عالم غیب سے اس کی ہدایت کا راستہ ھموار ہوسکتا ہے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام بارگاہ رب العزت میں ارشاد فرماتے ہیں :

اِلٰهی اِنَّ اخْتِلاَفَ تَدبِیرک وَسُرْعَةَ طَواءِ مَقَادِیرِكَ مَنَعا عِبَادَكَ العَارِفِینَ بِكَ عَنِ السُّكُونِ اِلٰی عَطَاءٍ، وَالْیاْسِ مِنْكَ فِی بَلاَءٍ(۱۹۸)

”پالنے والے! تیری تدبیر میںاختلاف، تیری مقدر کردہ چیزوںمیں جلدی اور تاخیر، تیرے عارف بندوں کو موجودہ عطا پر سکون اور بلاؤں میں ناامید کرنے سے روک دیتے ہیں “۔

بدن، روح کا ایک سایہ ہے، فکر پر ایک حجاب ہے جس سے اس کے رخسار کو چھپایا ہوا ہے، اسی طرح فکر بھی عقلانی قوت کے لئے ایک حجاب ہے جس نے عقل کو چھپارکھا ہے، اسی طرح عقلانی قوت بھی روح و روان کے لئے ایک حجاب ہے جس نے اس کو چھپا رکھا ہے، ان تمام مخفی چیزوں سے زیادہ مخفی انسان کی ذات میں ایک راز ہے جس کو روح و روان نے چھپا رکھا ہے، جھاں پر کسی بھی علمی طاقت کی کوئی رسائی ن ہیں ہے، جس کو کشف کرنے کے لئے کوئی قدرت ن ہیں ہے، یہ مخفی اور پردہ میں موجود چیزیں ایک دوسری طاقت کے ذریعہ کشف ہوتی ہیں ، پھلی مخفی قدرت ؛فکر ہے جس سے انسان میں ہوش پیدا ہوتی ہے، ہوشیار افراد پھلے فکر کا مطالعہ کرتے ہیں ، پردہ کے پیچھے سے انسان کی شکل اور اس کی فکر کو پڑھتے ہیں ۔

عقل جو کہ مخفی ہے اس کو نور فراست اور ایمان (جو خود ایک کشف کی غیر معمولی قدرت ہے) کو پھلے کشف کرتی ہے، اس کے بعد نور نبوت جو(انسان کی) تمام قدرتوں سے بالاتر ہے مقام روح و روان کو کشف کرتی ہے لیکن روان کو کوئی بھی کشف ن ہیں کرسکتا، وھاں پر خداوندعالم کی مخصوص شعائیں ہوتی ہیں ، وھاں پر صرف ذات (پروردگار) کا رابطہ ہوتا ہے، خداوندعالم کی کبریائی اور علام الغیوب کے پیش نظرخدا اور اس کی مخلوق میں کوئی واسطہ ن ہیں ہے، ھر شخص اپنے پروردگار سے ایک مخصوص رابطہ رکھتا ہے، اور یہ رابطہ کسی پر بھی کشف ن ہیں ہوتا، جب تک تبلیغ واجب ہے اور اس کے بارے میں حکم موجود ہے اس وقت تک اس کی تاثیر کے لئے امید پائی جاتی ہے۔

دینی رھبروں کو ھر موڑ پر ایک نئی امید ملتی رھتی ہے وہ عوام الناس کی ہدایت کے لئے مزید سعی و کوشش کرتے رھتے ہیں انقلاب و ہدایت کے مخفی اسباب کے ساتھ ساتھ خدائی معرفت کے ھمراہ ان کے پاس امید و انتظار کا حوصلہ ہوتا تھا، خدا کی معرفت جتنی زیادہ ہوگی اسی قدر خدا کی ذات سے امید بھی زیادہ ہوگی، اور جس قدر امید ہوگی اسی لحاظ سے انسانی گھرائی کا مطالعہ کرتے ہیں اور نئی خبروں کے منتظر رھتے ہیں ۔

جی ھاں، اے مبلغین اسلام ! آپ حضرات سے اس امید کی کرن کو ک ہیں کوئی چھین نہ لے، مختلف مقامات پر پیش آنے والی مشکلات سے مایوس نہ ہونا، آپ حضرات کے حالات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ سے زیادہ سخت ن ہیں ہیں ۔

کھتے ہیں : شیخ محمد عبد (مشھور عالم اھل سنت) نے ایک مربتہ ایک نشست میں کھا:” میں اسلامی امت کی اصلاح سے مایوس ہوچکا ہوں“۔ چنانچہ اسی موقع پر ایک (بیرونی) معظمہ نے جواب دیا: اے شیخ ! آپ کی زبان پر ”مایوسی“ کے لفظ سے مجھے بھت تعجب ہے! اس وقت شیخ بھت شرمندہ ہوئے اور فوراً استغفار کیا اور اس خاتون کی بات کو صحیح مان لیا۔

حضرت امام حسین علیہ السلام میں اپنے نانا کے علاوہ تمام انبیاء اور دینی رھبروں سے زیادہ امیدکی روح موجودتھی، آپ بلند ترین امکانی پرواز اور وجود کے عمیق ترین اسرار پر نظر رکھتے تھے، امیدکا پیغام حضرت امام حسین علیہ السلام سے لیجئے، کیونکہ امام حسین علیہ السلام کے پیغام سے آپ کو حوصلہ ملے گا۔

اے ھمارے مولا و آقا حسین علیہ السلام ! آپ پر ھماری جانیں قربان، کہ اگر آپ کو ھر میدا ن میں پکارا جائے تو بے جا نہ ہوگا، آپ کی ذات سے مبلغین کو درس ملتا ہے، آپ سے تلاش و کو شش کا معیار سیکھا جاتا ہے، ھمیں مصر کے شیخ اور اس کے والی سے کوئی سروکار ن ہیں ہے، آپ نے قربانی اور جانثاری کا درس دیا، صرف اپنوں ہی نے ن ہیں بلکہ غیروں نے بھی آپ کی ذات گرامی سے یہ درس حاصل کیا ہے، آپ کی زبان سے اسرار الٰھی کو سننا چاہئے، آپ نے انبیاء علیہم السلام سے بھی زیادہ صبر و استقامت کا مظاھرہ فرمایاھے، آپ کی گلی سے نسیم سحری کے جھونکے آرہے ہیں ، یھاں تک کہ خون بھانے والی شمشیر بھی آپ سے ہدایت حاصل کرلیتی ہے۔

آغاز میں آپ کا اقدام، اس میدان جنگ اور عصر عاشور، کوفہ کی طرف آپ کا متوجہ ہونا راستے میں پیش آنے والے واقعات اور راستہ بھر آپ کا تذکر اور یاد دھانی کرانا:

اَلاَ مْرُ ینْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَ كُلُّ یوْمٍ هُوَ فِی شَاْنٍ، فَاِنْ نَزَلَ الْقَضَاءُ فَالْحَمْدُلله، وَاِنْ حَالَ الْقَضَاءُ دُوْنَ الرَّجَاءِ

ان جاھلوں سے آپ کی رفتار و گفتار، برسر پیکار دشمنوں سے محبت بھری گفتگو ان میں سے ھر ایک ایسا مرحلہ تھا جس میں امید کی کرن پھوٹ رھی تھی جس سے دعائے عرفہ کو جلوہ ملتا تھا، جیسے کہ آپ فرماتے ہیں :

”اِلٰھی اِنَّ اخْتِلاَفَ تَدبِیرک وَسُرْعَةَ طَواءِ مَقَادِیرِكَ مَنَعا عِبَادَكَ العَارِفِینَ بِكَ عَنِ السُّكُوْ نِ اِلٰی عَطَاءٍ، وَالْیاْسِ مِنْكَ فِی بَلاَءٍ“۔

اور آخری وقت جب آپ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اس امید کے ساتھ کہ آپ کے ساتھ میں شھید ہونے والے اصحاب و انصار کی تربت سے زندہ دل افراد کو ہدایت ملے گی اور آپ کے آپ کے شہداء کی گلی سے گزریں گے تو نسیم حیات سے ان کے روحانی وجود میں انقلاب پیدا ہوجائے گا، لہٰذا ھماری ذمہ داری ہے کہ وھاں سے زندگی حاصل کرکے تبلیغ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور خلق خدا سے منھ نہ موڑ بیٹ ہیں ۔(۱۹۹)

برادران یوسف کی توبہ

تیسرے سفر میں جب یعقوب علیہ السلام کے تمام فرزند، جناب یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض کیا:اے بادشاہِ بزرگ! ھمارے سارے علاقے میں قحط سالی پھیل چکی ہے، ھمارا خاندان سختی کی زندگی گزار رھا ہے، ھماری طاقت جواب دی چکی ہے یہ چند پرانے سكّے ھم اپنے ساتھ لائے ہیں ، لیکن ھم جتنا گندم خریدنا چاھتے تھے اس کی قیمت سے ک ہیں زیادہ کم ہے، تم ھمارے ساتھ نیکی اور احسان کرو، اور ھمارے سکوں کی قیمت سے زیادہ ھمیں گندم دیدو، خداوندعالم نیکی اور احسان کرنے والوں کو نیک بدلہ دیتا ہے۔

یہ گفتگو سن کر جناب یوسف علیہ السلام کی حالت بدل گئی اور اپنے بھائیوں اور خاندان کی یہ حالت دیکھی تو بھت پریشان ہوئے، ایک ایسی بات کھی جس سے یوسف کے بھائیوں کو ایک دھچکا لگا، چنانچہ جناب یوسف علیہ السلام نے گفتگو کا آغاز اس طرح کیا:

”کیا تم جانتے ہوں کہ یوسف اور اس کے بھائیوں کے ساتھ تم نے کیا برتاؤ کیا، کیا تمھارا یہ کام کسی جھالت و نادانی کی وجہ سے تھا؟ تمام بھائی یہ سوال سن کر حیران ہوگئے اور سوچنے لگے کہ آخر کار یہ قبطی ذات سے تعلق رکھنے والا بادشاہ یوسف کو کس طرح جانتا ہے، اور ان کے واقعہ سے کیسے باخبر ہوا، اسے برادران یوسف کے بارے میں کیسے معلوم ہوا اور یہ یوسف کے ساتھ ہوئے برتاؤکو کیسے جانتا ہے، حالانکہ یہ واقعہ کو صرف ان دس بھائیوں کے علاوہ کوئی ن ہیں جانتا تھا، یہ کیسے اس واقعہ سے آگاہ ہوا؟

یہ لوگ کافی دیر تک کچھ جواب نہ دے سکے، اور گزشتہ سفر کے واقعات کو یاد کرنے لگے، عزیز مصر سے سنی ہوئی باتیں ان کے دماغ میں گردش کررھی ت ہیں کہ اچانک سب نے ایک ساتھ مل کر سوال کیا: کیا آپ ہی یوسف ہیں ؟

عزیز مصر نے جواب دیا: ھاں، میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی (یامین) ہے، خدا وندعالم نے ھم پر لطف وکرم کیا کہ ایک مدت کے بعد دو بچھڑے بھائیوں کو ملادیا، جو شخص بھی صبر کرتا ہے اور پرھیزگاری کا راستہ اپناتا ہے تو خدا اس کو نیک جزا سے نوازتا ہے اور اس کو اپنی منزل مقصود تک پہنچادیتا ہے۔

ادھر بھائیوں کے دلوں میں ایک عجیب و غریب خوف و وحشت تھا اور حضرت یوسف کی جانب سے شدید انتقام کو اپنے نظروں کے سامنے مجسم دیکھ رہے تھے۔

جناب یوسف کی بے پناہ قدرت، اور بھائیوں میں بے انتھا ضعف و کمزوری، جب یہ دوبے انتھا طاقت و کمزوری ایک جگہ جمع ہوجائیں تو کیا کچھ ن ہیں ہوسکتا؟!!

بھائیوں نے ابراھیمی قانون کے مطابق اپنے کو سزا کا مستحق دیکھا، محبت اور عطوفت کی نظر سے اپنے کو یوسف کی سزا کا مستحق مانا، اس وقت ان کی حالت ایسی تھی گویا ان پر آسمان گرنے والا ہو، ان کے بدن لرز رہے تھے، زبان سے قوت گویائی سلب ہوچکی تھی، لیکن انھوں نے کمر ھمت باندھ کر اپنی تمام طاقت کو جمع کیا اور اپنا آخری دفاع ان لفظوں میں کرنے لگے: ”ھم اپنے گناھوں کا اعتراف کرتے ہیں لیکن آپ سے عفو و بخشش کی درخواست کرتے ہیں ، بے شک خداوندعالم نے آپ کو ھم پر برتری اور فضیلت دی ہے، ھم لوگ خطاکار ہیں “۔ اور یہ کہہ کر خاموش ہوگئے، لیکن جناب یوسف کی زبان سے بھی ایسے الفاظ جاری ہوئے جس کی ان ہیں بالکل امید نہ تھی۔

جناب یوسف علیہ السلام نے کھا: میں نے تم لوگوں کو معاف کردیا، تم ہیں کوئی کچھ ن ہیں کھے گا، کوئی سزا ن ہیں ملے گی، میں کوئی انتقام ن ہیں لوں گا، اور خداوندعالم بھی تمھارے گناھوں سے درگزر کرے اور تم کو بخش دے ۔

جی ھاں! الٰھی نمائندے اسی طرح ہوتے ہیں ، لطف و کرم اور بخشش سے پیش آتے ہیں ، انتقام کی آگ ان کے دلوں میں ن ہیں ہوتی، کینہ ن ہیں ہوتا، اپنے دشمن کے لئے بھی خدا سے مغفرت کی درخواست کرتے ہیں ، ان کا دل خدا کے بندوں کی نسبت مھر و محبت سے لبریز ہوتا ہے۔

جناب یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو سزا نہ دینے سے مطمئن کرکے فرمایا: اب تم لوگ شھر کنعان کی طرف پلٹ جاؤ اور میرا پیراہن اپنے ساتھ لیتے جاؤ، اس کو میرے باپ کے چھرے پر ڈال دینا، جس سے ان کی بینائی پلٹ آئے گی، اور اپنے تمام گھروالوں کو یھاں مصر لے کر چلے آؤ۔

یہ دوسری مرتبہ یوسف کے بھائی آپ کے پیراہن کو باپ کی خدمت میں لے کر جارہے ہیں ، پھلی مرتبہ اسی قمیص کو موت کا پیغام بناکر لے گئے تھے، یھی قمیص فراق و جدائی کی ایک داستان تھی، اور ایک برے حادثہ کی خبر تھی، لیکن اس مرتبہ یھی قمیص حیات کی مژدہ اور دیدار و وصال کی بشارت اور سعادت و خوشبختی کا پیغام ہے۔

پھلی مرتبہ اس کرتے نے باپ کو نابینا بنادیا، لیکن اس بار جناب یوسف کے کرتے نے باپ کی آنکھوں کو بینائی عطا کردی، اور خوشی اور مسرت کا پیغام دیا۔

وہ کرتا جھوٹے خون سے رنگین تھا، لیکن یہ کرتاایک زندہ معجزہ ہے، دیکھئے تو سھی کہ جھوٹ اور سچ میں کس قدر فاصلہ ہے؟!

بھر کیف بھائیوں کا قافلہ تیسری مرتبہ مصر سے روانہ ہوا، اور سر زمین کنعان کی طرف چل پڑا۔

ادھر آسمانی موبائل اور آسمانی بشارت نے اس قافلہ کی خبر جناب یعقوب علیہ السلام تک پہنچادی، چنانچہ جناب یعقوب علیہ السلام نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے افراد سے کھا:

مجھے یوسف کی خوشبو محسوس ہورھی ہے اور اس کے دیدار کا منتظر ہوں، اگرچہ تم لوگ یقین ن ہیں کرو گے ۔

حاضرین نے جناب یعقوب کو خطاکار قرار دیتے ہوئے کھا: ابھی تک تم نے یوسف کو ن ہیں بھلایا، اسی پرانے عشق میں مبتلا ہو!

جناب یعقوب علیہ السلام نے آنک ہیں بند کی اور کوئی جواب نہ دیا، کیونکہ مخاطبین کی فکریں ان حقائق کو ن ہیں سمجھ سکتی ت ہیں ۔

ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ جناب یعقوب علیہ السلام کی بات سچ ہوگئی، یعنی جس قافلے کی بشارت دی تھی وہ کنعان آپہنچا، اور جناب یوسف کے ملنے کی بشارت سنائی، یوسف کے کرتے کو باپ کے چھرہ پر ڈالا ہی تھا کہ جناب یعقوب کی بینائی لوٹ آئی، اس وقت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کی طرف رخ کرتے ہوئے فرمایا: کیا میں نے تم سے ن ہیں کھا تھا کہ میں خدا کی طرف سے ایسی چیزوں کے بارے میں جانتا ہوں جو تم ن ہیں جانتے، ان خطاکاروں کی سزا کا وقت آپہنچا، کیونکہ بیٹوں کا گناہ ثابت ہوچکا تھا۔

لیکن بیٹوں نے باپ سے عفو و بخشش کی درخواست کی، اور کھا کہ آپ خدا سے بھی ھماری گناھوں کی مغفرت طلب کریں۔

جناب یعقوب علیہ السلام نے ان کی خطا کو بخش دیا اور وعدہ کیا کہ اپنے وعدہ کو وفا کریں گے۔(۲۰۰)

جی ھاں، فرزندان یعقوب نے خدا کی بارگاہ میں اپنے گناھوں سے توبہ کی اور اپنے بھائی (یوسف علیہ السلام) اور اپنے باپ سے عذر خواھی کی، جناب یوسف نے بھی ان کو معاف کردیا اور یعقوب علیہ السلام نے بھی بخش دیا، نیز خداوندعالم نے ان پر اپنی رحمت و مغفرت کا دروازہ کھول دیا۔

ایک جزیرہ نشین مرد کی توبہ

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت ہے: ایک شخص اپنے گھر والوں کے ساتھ دریا کا سفر کررھا تھا۔ اتفاق سے کشتی ڈوبنے لگی اور اس شخص کی زوجہ کے علاوہ تمام لوگ دریا میں ڈوب گئے۔ اور وہ بھی ایسے کہ وہ عورت ایک تختہ پر بیٹھ گئی اور اس دریا کے ایک جزیرہ پر پہنچ گئی۔

اس جزیرہ میں ایک چور رھتا تھاجس نے حرمت خدا کے تمام پردوں کو چاک کررکھا تھا، ناگاہ اس نے دیکھا کہ وہ عورت اس کے پاس کھڑی ہے، اس نے سوال کیا کہ توانسان ہے یا جن؟ اس نے کھا انسان ہوں۔ چنانچہ وہ چور بغیر کچھ بولے ہی اس عورت کی بغل میںاس طرح آبیٹھا کہ جس طرح مرد اپنی زوجہ کے پاس بیٹھتا ہے، اور جب اس نے اس عورت کی عزت پر ھاتھ ڈالنا چاھا تو وہ عورت لرز گئی۔ اس چور نے کھا تو ڈرتی کیوں ہے ؟پریشان کیوں ہوگئی؟ وہ عورت بولی کہ خدا سے ڈرتی ہوں، اس چور نے کھا کہ کبھی اس طرح کا کام انجام دیا ہے ؟ تو اس عورت نے کھا: ن ہیں ، بخدا ھرگز ن ہیں ۔اس شخص نے کھا: تو خدا سے اس قدر خوف زدہ ہے حالانکہ تو نے ایسا کام انجام ن ہیں دیاھے اور میں جب کہ تم کو اس کام پر مجبور کررھا ہوں، خدا کی قسم، مجھے تو تجھ سے ک ہیں زیادہ خدا سے ڈرنا چاہئے۔ اس کے بعد وھاں سے اٹھا اور اپنے گھر چلا گیا، اور ھمیشہ توبہ و استغفار کی فکر میں رہنے لگا۔

ایک روز راستہ میں ایک راھب سے ملاقات ہوئی، دو پھر کا وقت تھا، چنانچہ اس راھب نے اس شخص سے کھا: دعا کرو کہ خدا ھمارے اوپر بادلوں کے ذریعہ سایہ کردے کیونکہ شدت کی گرمی پڑرھی ہے، تو اس جوان نے کھا کہ میں نے کوئی نیکی ن ہیں کی ہے اور خدا کی بارگاہ میں میری کوئی عزت و آبرو ن ہیں کہ میں اس سے اس طرح کا سوال کروں۔ اس وقت راھب نے کھا: تو پھر میں دعا کرتا ہوں اور تم آمین کہنا۔ اس جوان نے کھا: یہ ٹھیک ہے۔ چنانچہ راھب نے دعا کی اور اس جوان نے آمین کھا، اور دیکھتے ہی دیکھتے بادلوں نے ان دونوں پر سایہ کردیا، دونوں راستہ چلتے رہے یھاں تک کہ ان کا راستہ الگ الگ ہونے لگا، دونوں نے اپنے اپنے راستہ کو اختیار کیا، تو بادل اس جوان کے ساتھ ساتھ چلنے لگے!

چنانچہ یہ دیکھ کر اس راھب نے متعجب ہوکر کھا: تو تو مجھ سے بھتر ہے، تیری ہی وجہ سے دعا قبول ہوئی ہے، نہ کہ میری وجہ سے، اور اس جوان سے اس کے حالات دریافت کرنے لگا، چنانچہ اس نے اس عورت کا واقعہ بیان کیا۔ تب راھب نے کھا: چونکہ خوف خدا تیرے دل میں پیدا ہوگیا تھا تو خدا نے تیرے گناہ بخش دئے، لہٰذا آئندہ گناھوں سے پرھیز کرنا۔(۲۰۱)

اصعمی اور بیابانی تائب

اصعمی کھتے ہیں : میں بصرہ میں تھا، نماز جمعہ پڑھنے کے بعد شھر سے باھر نکلا، ایک شخص کو دیکھا جو اپنے اونٹ پر بیٹھا ہوا ہے جس کے ھاتھ میں ایک نیزہ ہے، جیسے ہی مجھے دیکھا تو اس نے کھا: تم کھاں سے آرہے ہو اور تمھارا کس قبیلہ سے تعلق ہے؟ میں نے کھا: میرا تعلق قبیلہ ”اصمع “سے ہے، اس نے کھا: تو وھی مشھور اصعمی ہی ہے؟ میں نے کھا: ھاں، میں وھی ہوں، اس نے کھا: کھاں سے آرہے ہو؟ میں نے کھا: خدائے عز و جلّ کے گھر سے، اس نے کھا:

اَوْلِلّٰهِ بَیتٌ فِی الْارْضِ ؟“۔

”کیا روئے زمین پر (بھی) خدا کا کوئی گھر ہے؟“

میں نے کھا: ھاں، خانہ کعبہ اور بیت اللہ الحرام، اس نے کھا: وھاں کیا کررہے تھے؟ میں نے کھا:

کلام خدا کی تلاوت کررھا تھا، اس نے کھا:

اَوْلِلّٰهِ كَلاٰمٌ ؟“

”کیا خدا کا کوئی کلام (بھی) ہے؟“

میں نے کھا: ھاں، شیرین کلام، اس نے کھا: مجھے بھی تھوڑ ا بھت کلام خدا سناؤ، میں نے سورہ ذاریات کی تلاوت شروع کردی یھاں تک کہ اس آیت تک پہنچا:

( وَفِی السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ ) ۔(۲۰۲)

”اور آسمان میں تمھارا رزق ہے اور جن باتوں کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے سب کچھ موجود ہے “۔

اس نے کھا: کیا یہ خدا کا کلام ہے؟ میں نے کھا: ھاں یہ اسی کا کلام ہے جس کو اس نے اپنے بندہ اور پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل کیا ہے، یہ سنتے ہی اس کے بدن میں جیسے آگ لگ گئی ہو، اس کے اندر ایک سوز پیدا ہوا، ایک شدید درد اس کے اندر پیدا ہوا، اس نے اپنی شمشیر اور نیزہ پھینک دیا، اپنے اونٹ کو قربان کردیا، اور خالی ھاتھ ہوگیا، ظلم و ستم کا لباس اتاردیا اور کھا:

تريٰ یقبل من لم یخدمه فی شبابه “۔

”اے اصعمی! کیا تم گمان کرتے ہوں کہ جس نے جوانی میں خدا کی عبادت اور اس کی اطاعت نہ کی ہو، اس کو بارگاہ الٰھی میں قبول کرلیا جائے؟“

میں نے کھا: اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر اس نے کیوں انبیاء کو مبعوث برسالت فرمایا، انبیاء کی رسالت کا ہدف ہی یھی ہے کہ بھاگنے والے کو دوبارہ پلٹادےں اور خدا کا غضب، صلح و آشتی میں بدل جائے۔

اس نے کھا: اے اصعمی ! اس درد مند کے لئے کوئی علاج بتاؤ، اور گناھوں میں مبتلا ہونے والے کے لئے کوئی مرھم بتاؤ۔

میں نے اس کے بعد کی آیت کی تلاوت شروع کردی:

( فَوَرَبِّ السَّمَاءِ وَالارْضِ إِنَّهُ لَحَقٌّ مِثْلَ مَاانَّكُمْ تَنْطِقُوْنَ ) ۔(۲۰۳)

”آسمان و زمین کے مالک کی قسم یہ قرآن بالکل برحق ہے جس طرح تم باتیں کررہے ہو“۔

جیسے ہی میںنے اس آیت کی تلاوت کی، اس نے چند بار اپنے کو زمین پر گرایا، اور نالہ و فریاد کی، دیوانوں کی طرح حیران و سرگردان بیابان کی طرف چل دیا۔

اس کے بعد میں نے اس کو ن ہیں دیکھا مگر خانہ کعبہ کے طواف میں کہ غلاف کعبہ کو پکڑے ہوئے کہہ رھا تھا:

من مثلی و انت ربّی، من مثلی و انت ربّی

”مجھ جیسا کون ہوگا کہ تو میرا خدا ہے، مجھ جیسا کون ہوگا کہ تو میرا خدا ہے“۔

میں نے اس سے کھا: تیری یہ گفتگو اور تیری یہ حالت لوگوں کے طواف میں رکاوٹ بن رھی ہے، چنانچہ اس نے کھا: اے اصعمی! گھر اس کا گھر ہے، اور بندہ اسی کا بندہ ہے، چھوڑئے مجھے اس کے لئے ناز کرنے دیجئے، اس کے بعد اس نے دو شعر پڑھے جن کا مضمون یہ ہے:

”اے شب بیداری کرنے والو! تم لوگ کس قدر نیک ہو، تمھارے اوپر میرے ماں باپ قربان، کس قدر خوبصورت اور زیبا ہو، اپنے آقا کے دروازے کوکھٹکھٹاتے ہو، واقعاً یہ دروازہ تمھارے لئے کھل جائے گا“۔

اس کے بعد وہ بھیڑ میں چھپ گیا، اور بھت تلاش کرنے پر بھی نہ ملا، مجھے بھت زیادہ حیرت اور تعجب ہوا، میری طاقت ختم ہوچکی تھی اور میں صرف گریہ زاری کرتا رہ گیا۔(۲۰۴)

صدق اور سچائی توبہ کے باعث بنے

راہزنوں کا ایک گروہ کسی مسافر کی تلاش میں تھا تاکہ اس کے مال و اسباب لوٹ سکیں، اچانک انھوں نے ایک مسافر کو دیکھا، تو اس کی طرف دوڑے اور کھا: جو کچھ بھی ہے، ھمیں دیدے، اس نے کھا: میرے پاس صرف ۸۰ دینار ہیں جس میں ۴۰ دینار کا مقروض ہوں، اور باقی میرے وطن تک پہنچنے کا خرچ ہے۔راہزنوں کے رئیس نے کھا: اس کو چھوڑو، معلوم ہوتا ہے کوئی بد بخت آدمی ہے اس کے پاس زیادہ پیسہ ن ہیں ہے۔

راہزن مسافروں کی کمین میں بیٹھے ہوئے تھے، اس مسافر کو جھاں جانا تھا گیا او راپنا قرض ادا کرکے واپس آگیا، اس وقت پھر راستہ میں چور مل گئے، انھوں نے کھا: جو کچھ بھی تیرے پاس ہے وہ سب دیدے ورنہ تجھے قتل کردیں گے، اس نے کھا: میرے پاس ۸۰دینار تھے جن میں سے ۴۰دینار قرض دے چکا ہوں اور باقی میرے خرچ کے لئے ہیں ، چوروں کے سردارنے حکم دیا کہ اس کی تلاشی لی جائے، چنانچہ اس کے سامان او رکپڑوں میں ۴۰ دینار کے علاوہ کچھ ن ہیں ملا!

چوروں کے سردار نے کھا: حقیقت بتاؤ کہ اس خطرناک موقع پر بھی تو نے صدق اور سچائی سے کام لیا اور جھوٹ نہ بولا؟

اس نے کھا: میں نے بچپن میں اپنی ماں کو وعدہ دیا تھا کہ عمر بھر سچ بولوں گا اور کبھی اپنے دامن کو جھوٹ سے آلودہ نہ کروں گا!

چور قہقہہ لگاکر ہنسے لگے، لیکن چوروں کے سردار نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور کھا: ھائے افسوس! تو اپنی ماں سے کئے ہوئے وعدہ پر پابند ہے اور جھوٹ کا سھارا نہ لیا اور اپنے اس وعدہ پر اس قدر پابند ہے، لیکن میں خدا کے وعدے پر پابند نہ ہوں جس سے ھم نے وعدہ کیا ہے کہ گناہ نہ کریں گے، اس وقت اس نے ایک چیخ ماری اور کھا: خدایا! اس کے بعد تیرے وعدے پر عمل کروں گا، پالنے والے! میری توبہ!! میری توبہ!!

ایک عجیب وغریب توبہ

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں مدینہ منورہ میں ایک شخص رھتا تھا جس کا ظاھر بھت اچھا اور بھت نیک صورت تھا، جیسے اھل ایمان کے درمیان ایک نایاب اور مشھور شخص ہو۔

لیکن وہ شخص بعض اوقات رات میں چھپ کر لوگوں کے یھاں چوری کرتا تھا۔

ایک رات کا واقعہ ہے کہ چوری کے لئے ایک دیوار پر چڑھ گیا، دیکھا کہ اس گھر میں بھت زیادہ مال و دولت ہے اور وھاں پر ایک جوان لڑکی کے علاوہ کوئی دوسرا بھی ن ہیں ہے!

اپنے دل میں کہنے لگا: آج تو مجھے دوھرا خوش ہونا چاہئے، ایک تو یہ سارا قیمتی سامان مجھے مل جائے گا، دوسرے اس لڑکی سے لذت بھی حاصل کروں گا!

اسی فکر میں تھا کہ اچانک غیبی بجلی اس کے دل میں چمکی، جس سے اس کی فکر روشن ہوگئی، غور و فکر میں ڈوب گیا اور سوچنے لگا: کیا ان تمام گناھوں کے بعد تجھے موت کا سامنا ن ہیں کرنا، کیا موت کے بعد خداوندعالم مجھ سے بازپرس ن ہیں کرے گا، کیا میں اس روز کے عذاب سے بھاگ سکتا ہوں؟

اس روز اتمام حجت کے بعد خدا کے غیظ و غضب میں گرفتار ہوں گا ھمیشہ کے لئے آتش جہنم میں جلوں گا، یہ سب باتیں سوچ کر بھت زیادہ پشیمان ہوااور خالی ھاتھ ہی وھاں سے واپس آگیا۔

جیسے ہی صبح ہوئی، اپنے اسی ظاھری چھرہ اور بناوٹی لباس میںپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اچانک اس نے دیکھا کہ وھی لڑکی جس کے گھر میں گزشتہ رات چوری کے لئے گیا تھا؛ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میری ابھی تک شادی ن ہیں ہوئی ہے، میرے پاس بھت زیادہ مال و دولت ہے، میرا شادی کرنے کا ارادہ ن ہیں تھا لیکن رات میں نے دیکھا کہ ایک چور میرے گھر میں آیا اگرچہ وہ کچھ ن ہیں لے گیا لیکن میں بھت زیادہ ڈر گئی ہوں، گھر میں تنھا رہنے کی ھمت ن ہیں رہ گئی ہے، اگر آپ مناسب سمج ہیں تو میرے لئے کوئی شوھر تلاش کریں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس چور کی طرف اشارہ کیا، اگر تو چاھتی ہے تو ابھی اس کے ساتھ تیرا عقد پڑھ دوں، چنانچہ اس نے عرض کیا: میری طرف سے کوئی مانع ن ہیں ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی وقت ان دونوں کا عقد کردیا، دونوں ایک ساتھ اس کے گھر میں آگئے، اس نے اپنا واقعہ اس عورت سے بیان کیاکہ وہ چور میں ہی تھا اگر میں نے چوری کی ہوتی اور تجھ سے ناجائز رابطہ کیا ہوتا، تو میں چوری کا مرتکب بھی ہوا ہوتا اور زنا کا گناہ بھی کرتا جبکہ یہ وصال ایک رات سے زیادہ نہ ہوتا، اور وہ بھی حرام طریقہ سے، لیکن چونکہ میں نے خدا اور قیامت کو یاد کرلیا اور گناہ کرنے میں صبر کیا اور خدا کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کیا، خداوندعالم نے بھی اس طرح مقدر فرمایا کہ اب گھر کے دروازہ سے داخل ہوا ہوں اور ساری عمر تیری ساتھ زندگی بسر کروں گا۔(۲۰۵)

بِشر حافی کی توبہ

بِشر ایک عیاش طبع اور اھل لھو و لعب افراد میں سے تھا اکثر اوقات اپنے گھر میں ناچ گانے اور گناھوں کی محفل سجائے رھتا تھا، ایک روز امام موسيٰ کاظم علیہ السلام اس کے گھر کے پاس سے گزر رہے تھے، اس کے گھر سے ناچ گانے کی آواز بلند تھی۔ امام علیہ السلام نے دروازہ پر کھڑے اس کے نوکر سے فرمایا: اس گھر کا مالک غلام ہے یا آزاد؟ اس نے کھا: آزاد، اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: ٹھیک کھتے ہو، اگر غلام ہوتا تو اپنے مولا سے ڈرتا۔ یہ سن کر نوکر گھر میں داخل ہوا، بِشر (جو شراب پینے والا ہی تھا)اس نے دیر سے آنے کی وجہ معلوم کی، تو اس نوکر نے کھا: ایک شخص کو گلی میں دیکھا، جس نے مجھ سے اس طرح سوال کیا، اور میں نے یہ جواب دیا، چنانچہ امام کاظم علیہ السلام کا جملہ اس پر اس قدر موثر ہوا، کہ خوف و ھراس کے عالم میں ننگے پاؤں گھر سے باھر نکلا اور امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، اور امام علیہ السلام کی خدمت میں توبہ کی، بھت زیادہ روتا ہوا اپنے گھر میں داخل ہوا اور ھمیشہ کے لئے گناہ کے دسترخوان کو اٹھا پھینکا، آخر کار زاہدوں اور عرفاء کے دائرہ میں شامل ہوگیا۔(۲۰۶)

توبہ کرنے والا اھل بہشت ہے

معاذ بن وھب کھتے ہیں :ایک مرتبہ میں چند لوگوں کے ساتھ مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوا، ایک بوڑھا شخص بھی ھمارے ساتھ تھا، جو بھت زیادہ عبادتیں کیا کرتا تھا لیکن ھماری طرح اھل بیت (علیھم السلام) کی ولایت اور حضرت امیر کو بلا فصل خلیفہ ن ہیں مانتا تھا، اسی وجہ سے اپنے خلفاء کے مذھب کے مطابق سفر میں (بھی) نماز پوری چار رکعتی پڑھتا تھا۔

اس کا ایک بھتیجہ بھی ھمارے قافلہ میں تھا، لیکن اس کا عقیدہ ھماری طرح صراط مستقیم پر تھا، وہ بوڑھا شخص راستہ میں بیمار ہوگیا، اس نے اپنے بھتیجے سے کھا: اگر اپنے چچا کے پاس آتا اور اس کو ”ولایت“ کے سلسلہ میں بتاتا تو بھتر ہوتا، شاید خداوندعالم اس کو آخری وقت میں ہدایت فرمادیتا اور گمراھی و ضلالت سے نجات عطا کردیتا۔

اھل قافلہ نے کھا: اس کو اپنے حال پر چھوڑ دو، لیکن اس کا بھتیجہ اس کے طرف دوڑا اور کھا:

عمّو جان! لوگوں نے سوائے چند افراد کے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد حق سے روگرانی کی، لیکن حضرت علی علیہ السلام بن ابی طالب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرح واجب الاطاعت ہیں ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد حق علی کے ساتھ ہے، اور آپ کی اطاعت تمام امت پر واجب ہے، اس پیر مرد نے ایک چیخ ماری او رکھا: میں بھی اسی عقیدہ پر ہوں، یہ کہہ کر اس دنیا سے چل بسا۔

ھم لوگ جیسے ہی سفر سے واپس آئے، حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں مشرف ہوئے، علی بن سری نے اس بوڑھے شخص کا واقعہ بیان کیا، اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: وہ شخص جنتی ہے، اس نے عرض کیا: وہ شخص آخری لمحات میں اس عقیدہ پر پہنچا ہے، صرف اسی گھڑی اس کا عقیدہ صحیح ہوا تھا، کیا وہ بھی جنتی اور اھل نجات ہے؟ ! اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: تم اس سے اور کیا چاھتے ہو، بخدا وہ شخص اھل بہشت ہے۔(۲۰۷)

ابو لبابہ کی توبہ

جس وقت جنگ خندق تمام ہوگئی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ منورہ تشریف لے گئے، ظھر کے وقت جناب جبرئیل امین نازل ہوئے اور خداوندعالم کی طرف سے بنی قریظہ کے یھودیوں کے ساتھ جنگ کرنے کا پیغام سنایا، فوراً ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنگ کے لئے مسلح ہوگئے اور مسلمانوں کو حکم دیا: ھمیں نماز عصر بنی قریظہ نامی علاقہ میں پڑھنا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حکم نافذ ہوا، اسلامی فوج نے بنی قریظہ کا محاصرہ کرلیا، جب محاصرہ کے مدت طولانی ہوئی، تو یھودیوں پر زندگی سخت ہوگئی، لہٰذا انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس پیغام بھجوایا کہ ابولبابہ کو ھمارے پاس بھیج دیں تاکہ اپنی حالت کے بارے میں اس سے مشورہ کریں۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابولبابہ سے فرمایا: اپنے ھم پیمانوں کے پاس جاؤ اور دیکھو وہ کیا کھتے ہیں ؟

جس وقت ابولبابہ یھودیوں کے قلعہ میں پہنچے، تو یھودیوں نے اس سے سوال کیا: ھمارے بارے میں تمھاری کیا رائے ہے؟ کیا ھم ان تمام شرائط کو مانتے ہوئے پیغمبر کے سامنے تسلیم ہوجائیں تاکہ وہ جو کچھ ھمارے ساتھ کرنا چا ہیں ، کرسکیں ؟ انھوںنے جواب دیا: ھاں تم لوگ تسلیم ہوجاؤ، اور اس جواب کے ساتھ ابولبابہ نے اپنے ھاتھوں سے گلے کی طرف اشارہ کیا، یعنی تسلیم ہونے کی صورت میں فوراً قتل کردئے جاؤگے، لیکن فوراً ہی اپنے کئے سے پشیمان ہوئے اور ایک فریاد بلند کی: آہ میں نے خدا و رسول کے ساتھ خیانت کرڈالی! کیونکہ مجھے یہ حق ن ہیں تھا کہ پوشیدہ راز کو بیان کروں۔

قلعہ سے باھر آئے اور سیدھے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے، مسجد میں داخل ہوئے رسّی سے اپنی گردن کو ایک ستون سے باندھ لیا، جس ستون کو بعد میں ”ستون توبہ“ کا نام دیا گیا، او رکھا: میں اپنے کو ن ہیں کھولوں گا یھاں تک کہ میری توبہ قبول ہوجائے، یا میری موت آجائے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابولبابہ کی تاخیر کی وجہ سے پریشان ہوئے اور ان کے بارے میں سوال کیا، تو اصحاب نے ابولبابہ کا واقعہ بیان کیا، اس وقت آنحضرت نے فرمایا: اگر میرے پاس آتا تو میں خدا سے اس کے لئے طلب مغفرت کرتا لیکن جب وہ خدا کی طرف گیا تو خداوندعالم اس کی نسبت زیادہ حقدار ہے جیسے بھی اس کے بارے میں فیصلہ کرے۔

ابولبابہ جتنے دن بھی وھاں بندھے رہے دن میں روزہ رکھتے تھے اور رات کو معمولی کھانا کھاتے تھے، رات کے وقت ان کی بیٹی کھانا لاتی تھی اور وضو کی ضرورت کے وقت اس کو کھول دیتی تھی۔

یھاں تک کہ جناب ام سلمہ کے گھر ایک شب میں ابولبابہ کی توبہ قبول ہونے کے سلسلہ میں آیت نازل ہوئی:

( وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهم خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیئًا عَسَی اللهُ انْ یتُوبَ عَلَیهم إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔(۲۰۸)

” اور دوسرے وہ لوگ جنھوں نے اپنے گناھوں کا اعتراف کیا کہ انھوں نے نیک اور بد اعمال مخلوط کردئے ہیں عنقریب خدا ان کی توبہ قبول کرلے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مھربان ہے “۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امّ سلمہ سے فرمایا: ابولبابہ کی توبہ قبول ہوگئی، ام سلمہ نے کھا: یا رسول اللہ ! کیا آپ مجھے اس بات کی اجازت فرماتے ہیں کہ ابولبابہ کو اس کی توبہ قبول ہونے کے بارے میں بشارت دیدوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت مرحمت فرمائی، جناب امّ سلمہ نے اپنا سر حجرہ سے نکالا اور ابولبابہ کی توبہ قبول ہونے کی بشارت دی۔

ابولبابہ خدا کی اس نعمت پر اس کا شکر کرنے لگے، چند افراد اس کوستون کے کھولنے کے لئے آئے، لیکن ابولبابہ نے ان کو روک دیا اور کھا: خدا کی قسم میں تم لوگوں سے یہ رسی ن ہیں کھلواؤں گا مگر یہ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود آکر مجھے آزاد فرمائیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود تشریف لائے اور فرمایا: تیری توبہ قبول ہوگئی ہے اب تم اس بچہ کی طرح ہو جو شکم مادر سے ابھی پیدا ہوا ہو، اور اس کی گردن سے وہ رسّی کھول دی۔

ابولبابہ نے کھا: یا رسول اللہ! کیا مجھے اس بات کی اجازت ہے کہ میں اپنا سارا مال راہ خدا میں خیرات کردوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ن ہیں ، اس کے بعد انھوں نے اپنے دو تھائی مال کے خیرات کرنے کی اجازت طلب کی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی بھی اجازت نہ دی، انھوں نےآدھا مال خیرات کرنے کی اجازت طلب کی لیکن آنحضرت نے اس کی بھی اجازت نہ دی، آخر کار انھوں نے ایک تھائی مال خیرات کرنے کی اجازت مانگی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت مرحمت فرمادی۔(۲۰۹)

ایک لوھار کی توبہ

اس عجیب و غریب واقعہ کا راوی کھتا ہے: میں شھر بصرہ کے لوھاربازار میں وارد ہوا، ایک لوھار کو دیکھا کہ لوھے کو سرخ کئے ہوئے ہے او راس کو اپنے ھاتھ سے پکڑے ہوئے ہے، اوراس کا شاگرد اس پر ھتوڑا ماررھا ہے۔

مجھے بھت تعجب ہوا کہ سرخ لوھا اس کے ھاتھ کو ن ہیں جلارھا ہے؟ اس لوھار سے اس چیز کا سبب معلوم کیا، اس نے بتایا: ایک سال بصرہ میں شدید قحط پڑا، یھاں تک کہ لوگ بھوکے مرنے لگے، ایک روز میری پڑوسن جو جوان تھی میرے پاس آئی او رکھا:میرے بچے بھوک سے مرے جارہے ہیں ، میری مدد کر، جیسے ہی میں نے اس کے جمال اور خوبصورتی کو دیکھا تو اس کا عاشق ہوگیا، میں نے اس کے سامنے ناجائز پیشکش رکھی، وہ عورت شرماکر جلدی سے میری گھر سے نکل گئی۔

چند روز کے بعد وہ عورت دوبارہ آئی اور کھا: اے مرد! میرے یتیم بچوں کی جان خطرے میں ہے، خدا سے ڈر اور میری مدد کردے، میں نے د وبارہ پھر اپنی خواہش کی تکرار کی اس مرتبہ بھی وہ عورت شرمندہ ہوکر میرے گھر سے نکل گئی۔

دو دن بعد پھر میرے پاس آئی اور کھا: اپنے یتیم بچوں کی جان بچانے کے لئے میں تسلیم ہوں، لیکن مجھے ایسی جگہ لے چل جھاں تیرے اور میرے علاوہ کوئی نہ ہو، چنانچہ میں اس کو ایک مخفی جگہ لے کر گیا، جیسے ہی اس کے نزدیک ہونا چاھتا تھا وہ لرز اٹھی، میں نے کھا: تجھے کیا ہوگیا ہے؟ اس نے کھا: تو نے ایسی جگہ لانے کا وعدہ کیا تھا جھاں کوئی د یکھنے والا نہ ہو، لیکن یھاں تو اس ناجائز کام کوپانچ دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں ، میں نے کھا: اے عورت! اس گھر میں کوئی ن ہیں ہے، تو پانچ افراد کی بات کررھی ہے، اس نے کھا: دو فرشتے میرے موکل اور دو فرشتے تیرے موکل اور ان چار فرشتوں کے علاوہ خداوندمتعال میں ھمارے اس کام کو دیکھ رھا، میں کس طرح ان کے سامنے اس بُرے کام کا ارتکاب کروں؟!!

اس عورت کی باتوں نے مجھ پر اتنا اثر کیا کہ میرا بدن لرز اٹھا، اس شرمناک کام سے اپنے کو آلودہ ہونے سے بچالیا، اس کو چھوڑ دیا اور اس کی مدد کی، یھاں تک قحط کے خاتمہ تک اس کی اور اس کے یتیم بچوں کی جان بچالی، اس نے بھی میرے حق میں اس طرح دعا کی:

پالنے والے! جیسے اس مرد نے اپنی شھوت کی آگ کو خاموش کردیا تو بھی اس پر دنیا و آخرت کی آگ کو خاموش کردے۔ چنانچہ اسی عورت کی دعا ہے کہ دنیا کی آگ مجھے ن ہیں جلاتی ۔(۲۱۰)

قوم یونس کی توبہ

سعید بن جبیراور دیگر مفسرین نے قوم یونس کے واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے:

قوم یونس نینوا او رموصل کے علاقہ میں زندگی بسر کیا کرتی تھی۔اور اپنے نبی جناب یونس کی دعوت کو قبول ن ہیں کیا تھا، چنانچہ حضرت یونس ان ہیں ۳۳ سال تک خدا پرستی اور گناھوں سے دوری کا دعوت دیتے رہے لیکن دو افراد کے علاوہ کوئی ایمان نہ لایا، ان ایمان لانے والوں میںایک کا نام ”روبیل“ اور دوسرے کا نام ”تنوخا“ تھا۔

روبیل ایک صاحب علم و حکمت گھرانہ سے تعلق رکھتا تھا اور اس کی جناب یونس سے دوستی تھی، تنوخا ایک عابد و زاہد شخص تھا، جو جنگل سے لکڑیاں جمع کرکے ان کو فروخت کیا کرتا تھا۔

بھر کیف جب جناب یونس قوم کی ہدایت سے مایوس ہوگئے، تو خداوندعالم کی بارگاہ میں اس قوم کی شکایت کی اور عرض کیا: پالنے والے! ۳۳ سال سے اس قوم کو توحید و عبادت او رگناھوں سے دوری کی دعوت دے رھا ہوں اور تیرے عذاب سے ڈرا رھا ہوں، لیکن یہ سرکشی پر تلے ہوئی ہے اور مجھے جھٹلارھی ہے، یہ لوگ مجھے ذلت کے ساتھ دیکھتے ہیں اور مجھے قتل کی دھمکی دیتے ہیں ۔ خداوندا! ان پر عذاب نازل کردے، اب یہ لوگ ہدایت کے قابل ن ہیں ہیں ۔ آواز آئی: اے یونس! اس قوم کے درمیان کچھ جاھل لوگ ہیں ، کچھ بچے شکم مادر میں اور کچھ آغوش مادر میں ہیں ، ان میں بعض بھت بوڑھے اور کمزور عورتیں ہیں ، میں خدائے حکیم اور عادل ہوں، میری رحمت میرے غضب سے زیادہ ہے، میں ن ہیں چاھتا کہ گناھگاروں کے ساتھ میں بے گناھوں پر بھی عذاب کروں، میں ان کے ساتھ دوستی اور مھربانی کا سلوک کرنا چاھتا ہوں، اور ان کی توبہ و استغفار کا منتظر ہوں، میں نے تم ہیں ان کے درمیان اس لئے بھیجا ہے کہ تم ان کی حفاظت کرواور ان کے ساتھ رحمت و مھربانی کے ساتھ پیش آؤ، اور عظیم الشان مقام نبوت کے ذریعہ ان کے سلسلہ میں صبر سے کام لو، اور ایک ماھر طبیب کی طرح ان کی بیماری کے علاج میں لگ جاؤ، ان کے گناھوں کا علاج مھربانی سے کرو!

صبر و حوصلہ کی کمی سے آپ ان کے لئے عذاب کی درخواست کرتے ہیں ، آپ سے پھلے نوح بھی میرے پیغمبر تھے جن کا صبر تم سے زیادہ تھا انھوں نے اپنی قوم کے ساتھ تم سے بھتر سلوک کیا، حضرت نوح نے اپنی قوم کے ساتھ دوستی اور مدارا سے کام لیا، ۹۵۰ سال کے بعد مجھ سے عذاب کی درخواست کی، تب میں نے ان کی درخواست کو قبول کیا۔

جناب یونس علیہ السلام نے عرض کیا: پالنے والے! میں تیری وجہ سے ان پر غضبناک ہوں، کیونکہ ان کو جتنا تیری اطاعت کی دعوت کی اس سے زیادہ انھوں نے گناھوں پر اصرار کیا، تیری عزت کی قسم! ان کے ساتھ (اب) نرم رویہ اختیار ن ہیں کروں گا اور خیر خواھی کی نگاہ سے ن ہیں دیکھوں گا، ان کے کفر اور تکذیب کے بعد ان پر عذاب نازل فرمادے، کیونکہ یہ لوگ ھرگز ایمان لانے والے ن ہیں ہیں ۔ چنانچہ جناب یونس کی دعوت بارگاہ الٰھی میں قبول ہوئی، خطاب آیا: نصف شوال بروز چھار شنبہ طلوع آفتاب کے وقت ان پر عذاب نازل کروں گا، ان کو خبر کردیں۔

نصف شوال کے چھار شنبہ سے پھلے ہی جناب یونس شھر سے کوچ کرگئے، لیکن ”روبیل“ چونکہ عالم و حکیم تھے، ایک بلندی پر گئے، او ربلند آواز سے کہنے لگے: اے لوگو! میں روبیل ہوں اور تمھاری بھلائی چاھتا ہوں، یہ ماہ شوال ہے جس میں تم ہیں عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے تم لوگوں نے پیغمبر خدا کو جھٹلایا ہے لیکن تم ہیں معلوم ہونا چاہئے کہ پیغمبر خدا نے سچ کھا ہے، خدا کا وعدہ کبھی جھوٹا ن ہیں ہوتا، اب دیکھو کیا ہوتا ہے۔

یہ سن کر لوگوں نے ان سے کھا: ھمیںکوئی چارہ کار بتاؤ کیونکہ تم صاحب علم و حکمت ہو اور ھم پر مھربان اور دلسوز ہو۔

انھوں نے کھا:میرے لحاظ سے عذاب الٰھی کے وقت سے پھلے تم لوگ شھر سے باھر نکل جاؤ، بچوں کو ان کی ماؤں سے الگ کردو، سب خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ اور گریہ و زاری کرو اور اس کی بارگاہ میں تضرع و زاری کرواور خلوص کے ساتھ توبہ کرلو اور کھو:

”خداوندا! ھم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے تیرے پیغمبر کو جھٹلایا ہے، لیکن (اب )ھم توبہ کرتے ہیں لہٰذا تو ھمارے گناھوں کو بخش دے، اگر تو نے ھمیں معاف نہ کیا اور ھم پر رحم نہ کیا تو ھم خسارہ اٹھانے والوں میں ہوجائیں گے، پالنے والے ! ھماری توبہ قبول فرما، ھم پر رحم کر، خدایا! تیرا رحم سب سے زیادہ ہے“۔قوم نے ان کی بات مان لی، اور اس معنوی و روحانی منصوبہ کے لئے تیار ہوگئے، بدھ کا روز آگیا، روبیل ان سے دور ہوگئے اور ایک گوشہ میں چلے گئے تاکہ ان کی گریہ و زاری اور ان کی توبہ کو دیک ہیں ۔

چھار شنبہ کا سورج نکلا، شھر میں خطرناک اور ہولناک زرد ہوائےںچلنے لگیںجس سے خوف و وحشت پھیل گئی، بیابان میں زن و مرد، پیر و جوان غنی اور ضعیف غرض سب لوگوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں، اور سب دل کی گھرائی سے توبہ کرنے لگے اور خداوندعالم سے طلب مغفرت میں مشغول ہوگئے، بچے ماؤں کی فلک شگاف گریہ کی صدائیں سن کر رونے لگے، مائیں بچوں کے رونے کی وجہ سے فریادیں کرنے لگیں۔ اس وقت ان کی توبہ بارگاہ الٰھی میں قبول ہوئی، ان سے عذاب ٹل گیا اور قوم ہنسی خوشی اپنے گھروں میں واپس آگئی۔(۲۱۱)

ایک جوان اسیر کی توبہ

شیخ صدوق علیہ الرحمہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں : ایک مرتبہ اسیروں کی ایک تعداد کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لایا گیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان میں سے ایک شخص کے علاوہ تمام لوگوں کے قتل کا حکم صادر فرمادیا۔اس اسیر نے کھا: ان تمام اسیروں کے درمیان صرف مجھے کیوں چھوڑ رکھا ہے؟ حضرت نے فرمایا:

خداوندعالم کی طرف سے مجھے جبرئیل نے بتایا ہے کہ تو پانچ خصلتوں کا مالک ہے، جن کو خدا و رسول دوست رکھتے ہیں : تو اھل خانہ کا بھت زیادہ خیال رکھتا ہے، سخاوت اور حسن خلق سے کام لیتا ہے، سچ بولتا ہے اور تیرے اندر شجاعت او ردلیری پائی جاتی ہے۔ جیسے ہی اس جوان نے ان باتوں کو سنا تو فوراً مسلمان ہوگیا، اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جنگ میں شریک ہوا، اور بھترین جنگ کے کرنے کے بعد شھید ہوگیا۔(۲۱۲)

ستمکار حکومت میں ایک ملازم شخص کی توبہ

عبد اللہ بن حمّاد، علی بن ابی حمزہ سے نقل کرتے ہیں : میرا ایک دوست بنی امیہ کی حکومت میں نوکری کرتا تھا، اس نے مجھ سے کھا: حضرت امام صادق علیہ السلام سے میرے لئے اجازت لے لو تاکہ میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوسکوں، میں نے امام علیہ السلام سے اجازت لی، امام نے اجازت دی، چنانچہ وہ امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، سلام کیا اور بیٹھتے ہوئے کھا: میں آپ پر قربان، میں بنی امیہ کی حکومت میں ملازم ہوں، میں نے بھت زیادہ مال و ثروت جمع کیا ہے، اور مال جمع کرنے میں شرعی قوانین کی مطلقاً رعایت ن ہیں کی ہے۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اگر بنی امیہ کو کوئی کاتب نہ ملتا اور مال غنیمت حاصل نہ ہوتا، اور ایک گروہ ان کی حمایت میں جنگ نہ کرتا تویہ میرے حق کو ن ہیں لے سکتے تھے، اگر لوگ ان کو چھوڑ دیتے اور ان کی تقویت نہ کرتے تو کیا وہ کچھ کرسکتے تھے؟

یہ سن کر اس جوان نے امام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: آیا میں اس عظیم بلاء سے نجات حاصل کرسکتا ہوں؟ اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا میرے کہنے پر عمل کروگے؟ اس نے کھا: جی ھاں! امام علیہ السلام نے فرمایا: بنی امیہ کی اس ملازمت سے جتنا مال حاصل کیا ہے اگر ان کے مالکوں کو جانتے ہو؟ تو ان ہیں دیدو او راگر ن ہیں جانتے تو ان کی طرف سے صدقہ دیدو، میں خدا کی طرف سے جنت کی ضمانت دیتا ہوں، وہ جوان کافی دیر تک خاموش رھا او رپھر عرض کی: میں آپ پر قربان جاؤں، آپ کے حکم کے مطابق عمل کرتا ہوں۔

علی بن ابی حمزہ کھتے ہیں : وہ جوان ھمارے ساتھ کوفہ واپس آیا، اور حضرت کے حکم کے مطابق عمل کیا، اور اس کے پاس کچھ باقی نہ بچا۔

اس نے اپنا پیراہن بھی راہ خدا میں دیدیا، میں نے اس کے لئے پیسے جمع کئے اس کے لئے لباس خریدا اور اس کے اخراجات کے لئے مناسب خرچ بھیج دیا، چند ماہ کے بعد وہ مریض ہوگیا تو میں اس کی عیادت کے لئے گیا، اسی طرح چند روز اس کی عیادت کے لئے جاتا رھا، لیکن جب آخری روز اس کی عیادت کے لئے گیا، تو اس نے اپنی آنک ہیں کھولیں اور مجھ سے کھا: خدا کی قسم! امام صادق علیہ السلام نے اپنے وعدہ وفا کردیا ہے، اور یہ کھتے ہی وہ اس دنیا سے چل بسا، ھم نے اس کے کفن و دفن کا انتظام کیا، ایک مدت کے بعد حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہواتو امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم ھم نے تمھارے دوست کی نسبت اپنا وعدہ وفا کردیا ہے، میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہوجاؤں، آپ صحیح فرمارہے ہیں اس نے مرتے وقت مجھے اس بات کی خبر دی تھی۔(۲۱۳)

حیرت انگیز توبہ

حقیر بمناسب ولادت باسعادت حضرت امام عصر (عج) تبلیغ کے لئے بندر عباس گیا ہوا تھا، آخری شب جمعہ کو دعائے کمیل کا پروگرام تھا۔

چنانچہ دعائے کمیل شروع ہونے سے پھلے ایک ۲۰ سالہ جوان نے مجھے ایک خط دیا اس جوان کو اس سے پھلے ن ہیں دیکھا تھا۔

دعائے کمیل کے بعد گھر واپس آگیا، اس خط کو پڑھا، مجھے وہ خط پڑھ کر بھت تعجب ہوا، اس میں لکھا ہواتھا: میں پھلے میں اس طرح کے پروگرام میں شریک ن ہیں ہوتا تھا، گزشتہ سال دوپھر میں میرے ایک دوست نے فون کیا کہ چار بچے عصر تمھارے پاس آتا ہوں کیونکہ ایک جگہ جانا ہے، چار بج گئے، وہ آگیا اور میں اس کی گاڑی میں بیٹھ گیا اور اس سے کھا: کھاں کا ارادہ ہے؟ اس نے کھا: میرے ماں باپ چند روز کے لئے ک ہیں گئے ہیں ھمارا گھر خالی ہے کوئی ن ہیں ہے، چلیں وھاں چلتے ہیں تاکہ دونوں مزے اڑائیں، جیسے ہی اس کے گھر پہنچے تو اس نے کھا: دو لڑکیوں کو بلایا ہے، اور وہ ی ہیں موجود ہیں ، وہ ھمارے لئے آمادہ ہیں ، چنانچہ اس نے مجھے ایک کمرہ میں بھیجا او رخود دوسرے کمرے میں چلا گیا، جیسے ہی کچھ کرنا چاھا، آپ سے متعلق تبلیغی بینر پر لکھا ہوا میرے ذہن میںآیا”شب جمعہ دعائے کمیل“ میں جانتا تھا کہ یہ دعا حضرت علی علیہ السلام کی دعا ہے، لیکن آج تک دعائے کمیل پڑھتے ہوئے ن ہیں دیکھا تھا، میں اس شیطانی حالت میں حضرت علی علیہ السلام سے بھت شرمندہ ہوا، شرم و حیا نے میرے بدن کو لرزا دیا، اپنے وجود سے نفرت کرنے لگا، (اس لڑکی کو چھوڑ کر واپس آگیا) سڑکوں پر حیران و پریشان گھومتا رھا، یھاں تک رات ہوگئی مسجد میں آیا رات کے اندھیرے میں آپ کے ساتھ دعائے کمیل پڑھنے لگا، شرم و حیا سے سر جھکائے آنسو بھاتا رھا، اور خدا کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتا رھا نیز خدا سے دعا کی کہ میری شادی کے لئے راستہ ھموار کردے، اور مجھے گناھوں کی لغزشوں سے محفوظ فرما۔ دو تین ماہ کے بعد ہی والدین کے پیش کش پر ایک شریف خاندان کی بھت خوبصورت لڑکی سے شادی ہوگئی ایسی خوبصورت لڑکی جس کو کبھی خواب میں بھی ن ہیں دیکھا تھا صورت و سیرت میں بے نظیر تھی، میں اس نعمت کو گناہ کو ترک کرنے اور دعائے کمیل میں شرکت کرنے کی برکت سمجھتا ہوں، میں نے اس سال تمام جلسوں میں شرکت کی ہے اور یہ خط اس لئے لکھا ہے تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ یہ جلسے بالخصوص جوانوں کے لئےکس قدر مفید ہیں !

گناھگار نے پُر معنی جملہ سے توبہ کرلی

علامہ محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ کے مریدوں میں سے ایک صاحب نے موصوف سے عرض کیا:میرا پڑوسی بھت گناھگار ہے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر لھو لعب اور گناھوں کی محفل سجاتا ہے، جس سے ھمیں اور دوسرے پڑوسیوں کو اذیت ہوتی ہے، بھت ہی بدمعاش آدمی ہے، میں اس کو امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرنے سے ڈرتا ہوں، اپنے مکان کو بھی ن ہیں بدل سکتا کہ اس کو فروخت کرک ہیں دوسری جگہ خریدلوں۔

علامہ محمد تقی مجلسی علیہ الرحمہ نے اس سے فرمایا: اگر کسی روز اس کی دعوت کرو اور اس کو اپنے یھاں مھمان بلاؤ تو میں اس سے گفتگو کرنے کے لئے شرکت کرسکتا ہوں، شاید خدا کا لطف اس کے شامل حال ہوجائے اور اپنے گناھوں سے پشیمان ہوکر توبہ کرلے۔

چنانچہ یہ بد معاش شخص ایک مومن شخص کے یھاں دعوت کے لئے مدعو کیا گیا اس نے بھی دعوت قبول کرلی، علامہ مجلسی اس دعوت میں شریک ہوئے، چند منٹ تک اس مجلس پر سکوت طاری رھا، لیکن وہ گناھگار شخص جو علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کے آنے سے سخت تعجب میں تھا ؛علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کی طرف رخ کرکے کھتے ہیں : اس دنیا میں تم روحانی (مولوی) لوگوں کا کیا کہنا ہے؟

علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے کھا: برائے مھربانی آپ ہی فرمائیے کہ آپ کیا کھتے ہیں ؟ چنانچہ اس شخص نے کھا: ھم جیسے لوگ بھت کچھ کھتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس کا نمک کھالیا ہواس کے نمک کی رعایت کی جائے، اور اس کے ساتھ خلوص کے ساتھ پیش آئیں، یہ سن کر علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے اس سے کھا: تمھاری کتنی عمر ہے؟ جواب دیا: ساٹھ سال، علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے فرمایا: اس ساٹھ سال میں کتنی بار خدا کا نمک کھایا ہے، کیا اس کے نمک کی رعایت کی ہے، اور اس کے ساتھ خلوص و صفا کا لحاظ رکھا ؟ اس گناھگار شخص کو جیسے ایک جھٹکا سا لگا، اس نے سر جھکالیا، اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے، اس محفل کو ترک کیا، اس کو رات بھر نیند ن ہیں آئی، صبح سویرے اپنے پڑوسی کے پاس آیا اور اس سے سوال کیا: رات تمھارے گھر آنے والے مولانا کون تھے؟ اس نے کھا: وہ علامہ محمد تقی مجلسی تھے، اس سے ان کا ایڈرس معلوم کیا اور ان کی خدمت میں پہنچا اور ان کے سامنے توبہ کی اور نیک و صالح لوگوں میں ہوگیا!

گر نمی پسندی تغیر دہ قضا را

علامہ محمد تقی مجلسی علیہ الرحمہ امر بالمعروف، نھی عن المنکر اور گناھوں سے روکنے کے لئے بھت زیاہ دلسوزتھے جس محلہ میں رھتے تھے چند اوباش اور بدمعاش لوگ بھی رھتے تھے، جو جوا، شراب خوری اور رقص و سرور کی محفل سجایا کرتے تھے۔

اکثر اوقات جب ان سے ملاقات ہوتی تھی تو امر بالمعروف او رنھی عن المنکر فرماتے تھے اور ان ہیں گناھوں کے ترک کرنے اور خدا کی عبادت کی دعوت دیا کرتے تھے۔

وہ تمام غنڈے او ران کا سردار؛ علامہ مجلسی علیہ الرحمہ سے پریشان اور ایک ایسے موقع کی تلاش میں تھے جس سے مجلسی علیہ الرحمہ سے نجات پاجائیں۔

ایک روز علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کے مریدوں میں سے ایک نیک و صالح اور سادہ انسان کو دیکھاتو اس سے کھا: شب جمعہ اپنا مکان ھمارے لئے خالی کردے اور دعوت کا انتظام کر جس میں علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کو بھی دعوت دینا اور اس منصوبہ سے کوئی مطلع نہ ہونے پائے، ورنہ تیرے لئے آفت ہوجائے گی۔

چنانچہ پروگرام معمول کے مطابق برقرار ہوا، علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے اس خیال سے کہ ایک نمازی کے یھاں دعوت ہے، دعوت کو قبول کرلیا۔

تمام غنڈوں نے طے کیا کہ پھلے ھم سب لوگ وھاں جمع ہوجائیں گے اور ایک ناچنے والی عورت کو بلایا جائے گا، علامہ مجلسی کے آنے کے بعد جب محفل اچھی طرح سج جائے تو وہ رقّاصہ ننگے سر محفل میں وارد ہو اور طبل وغیرہ کے ساتھ ناچنے گانے میں مشغول ہوجائے!

اور اس وقت ایک شخص محلے کے مومنین کو جمع کرلے کہ یہ دیکھو کیا ہورھا ہے!!

واعظان کین جلوہ در محراب و منبر می کنند

چون بہ خلوت می روند آن کار دیگر می کنند

(واعظین مسجد و منبر پر تو وعظ و نصیحت کرتے ہیں لیکن جب خلوت میں جاتے ہیں تو دوسرے کام کرتے ہیں )

شاید اس پروگرام کو دیکھ مجلسی علیہ الرحمہ ذلیل ہوجائیں اور اور اس کے بعد ھمیں ان سے نجات مل جائے۔

علامہ مجلسی علیہ الرحمہجس وقت محفل میں وارد ہوئے تو صاحب خانہ دکھائی نہ دیا بلکہ اس کے بدلے وھاں پر بد معاش او رگناھگار لوگ جمع ہیں ، سب منھ بنائے ہوئے چاروں طرف بیٹھے ہوئے ہیں ، علامہ موصوف نے اپنی ایمانی ذکاوت سے اندازہ لگالیا کہ کوئی نہ کوئی چال ضرور ہے! کچھ ہی دیر گزری تھی کہ پردہ اٹھا اور بناؤ سنگھار کئے ایک رقاصہ نکلی اور طبل و طنبور کے ساتھ ناچنا گانا شروع کردیا، اور مطرب انداز میں یہ شعر پڑھتے ہوئے مخصوص انداز میں ناچنا شروع کردیا:

در کوی نیکنامان ما را گزر نباشد

گر تو نمی پسندی تغیر دہ قضا را

نیک اور صالح لوگوں کی گلی سے ھمارا گزر ن ہیں ہوسکتا، اگرتم ہیں پسند ن ہیں ہے توقضاکوبدل دو

علامہ مجلسی علیہ الرحمہ، عظیم الشان عارف و عابد کی آنک ہیں میں آنسو بھر آئے اور خداوندعالم کی طرف خلوص کے ساتھ توجہ کی اور بارگاہ الٰھی میں عرض کیا:

”گر تو نمی پسندی تغیر دہ قضا را“

(اگر تجھے پسند ن ہیں ہے تو قضا کو بدل دے)

اچانک کیا دیکھا کہ اس رقاصہ نے اپنا سرو صورت چھپانا شروع کردیا، ساز و طبل کو زمین پر دے مارا اور سجدہ میں گرپڑی، اور دلسوز آواز میں ذکر ربّ کرنے لگی: یا ربّ، یا ربّ، یا ربّ، اس نے توبہ او راستغفار کیا، دوسرے لوگ بھی خواب غفلت سے بیدار ہوئے اور اس ماجرے کو دیکھ رونے لگے، ان تمام لوگوں نے اس عظیم الشان عالم دین کے سامنے توبہ کی اور اپنے تمام گناھوں سے دوری اختیار کرلی۔(۲۱۴)

ھارون الرشید کے بیٹے کی توبہ

صاحب کتاب ”ابواب الجنان“، واعظ سبزواری اپنی کتاب ”جامع النورین“ (ص۳۱۷) اور آیت اللہ نھاوندی نے اپنی کتاب ”خزینة الجواھر“ (ص۲۹۱) میں تحریر کیا ہے : ھارون کا ایک بیٹا نیک و صالح تھا ایک پاکیزہ گوھر، ناپاک صلب سے جیسے کوئی مروارید ہو، جو اپنے زمانہ کے عابد و زاہد لوگوں کی بزم سے فیضیاب ہوتا تھا جن کی صحبت کے اثر سے دنیاوی زرق و برق سے کنارہ کشی کئے ہوئے تھا، باپ کے طور طریقہ اور مقام و ریاست کے خواب کو ترک کئے ہوئے تھا، اس نے اپنے دل کو پاک و صاف کررکھا تھاحقیقت کی بلند شاخوں پر اپنا گھر بنائے ہوئے تھا اور دنیاوی چیزوں سے آنک ہیں بند کئے تھا۔

ھمیشہ قبرستان میں جاتا اور ان کو عبرت کی نگاھوں سے دیکھتا اور قبروں کو دیکھ دیکھ کر زار و قطار آنسو بھاتا تھا!

ایک روز ھارون کا وزیر محفل میں تھا اثناء محفل اس کا لڑکا وھاں سے گزرا جس کا نام قاسم اور لقب موتمن تھا، جعفر برمکی ہنسنے لگے، ھارون نے ہنسنے کی وجہ معلوم کی تو جواب دیا: اس لڑکے کی حالت پر ہنستا ہوں جس نے تجھے ذلیل کردیا ہے، کاش یہ تمھارا بیٹا نہ ہوتا! یہ دیکھئے اس کے کپڑے، چال چلن عجیب ہے اور یہ غریب اور فقیروں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے، یہ سن کر ھارون بول اٹھا: اس کو حق ہے کیونکہ ھم نے ابھی تک اسے کوئی مقام و منصب دیا ہی ن ہیں ، کیا اچھا ہو کہ ایک شھر کی حکومت اس کو دیدی جائے، فرمان صادر کردیا اور اس کو اپنے پاس بلایا، اس کو نصیحت کرتے ہوئے اس طرح کھا: میں چاھتا ہوں تجھے کسی شھر کی حکومت پر منصوب کروں، کس علاقہ کی حکومت چاھتے ہو؟

اس نے کھا: اے پدر! مجھے اپنے حال پر چھوڑدیجئے، مجھے خدا کی عبادت کا شوق حکومت کے شوق سے ک ہیں زیادہ ہے، یہ سوچ لو کہ میں تمھارا بیٹا ن ہیں ہوں۔

ھارون نے کھا: کیا حکومتی لباس میں خدا کی عبادت ن ہیں کی جاسکتی؟ کسی علاقہ کی حکومت قبول کرلو، تمھارا وزیر بھی کسی شائستہ شخص کو قرار دے دوں گا تاکہ اکثر کاموں کو دیکھتا رہے اور تو عبادت خدا میں مشغول رہنا۔

ھارون اس چیز سے بے خبر تھا یا اپنے کو غافل بنائے ہوئے تھا کہ حکومت ائمہ معصومین اور اولیاء الٰھی کا حق ہے۔ ظالموں، ستمگروں، غاصبوں اور طاغوتوں کی حکومت میں کسی شھر کی امارت قبول کرنا جھاں پر حکم الٰھی کو نافذ نہ کیا جاسکے، اور اس کی درآمد سے کوئی بھی عبادت صحیح ن ہیں ہوگی کیونکہ یہ بالکل حرام مال ہے، اور اس عبادت سے خدا بھی راضی ن ہیں ہوگا، نیز ظالم حکومت کی طرف سے کسی علاقہ کی امارت لینا بغیر شرعی دلیل کے ایک گناہ عظیم ہے۔

قاسم نے کھا: میں کسی بھی طرح کا کوئی منصوبہ قبول کرنے کے لئے تیار ن ہیں ہوں اور نہ ہی حکومت و امارت قبول کروں گا۔

ھارون نے کھا: تو خلیفہ، حاکم اور ایک وسیع و عریض زمین کے بادشاہ کا بیٹا ہے کیا وجہ ہے کہ تو نے غریب و فقیر لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر مجھے ذلیل و رسوا کردیا ہے؟ اس نے جواب دیا: تو نے بھی مجھے نیک و صالح لوگوں کے درمیان ذلیل و رسوا کررکھا ہے کہ تو ایک ایسے باپ کا بیٹا ہے!

ھارون اور حاضرین مجلس کی نصیحت اس پر کارگر نہ ہوسکی، تھوڑی دیر کے لئے خاموش کھڑا رھا۔

مصر کی حکومت اس کے نام لکھ دی گئی حاضرین اس کو مبارکباد اور تہنیت پیش کرنے لگے۔

جیسے ہی رات کا وقت آیا بغداد سے بصرہ کی طرف بھاگ کھڑا ہوا، صبح جب ڈھونڈا گیا تو اس کو نہ پایا۔

بصرہ کے اطراف میں رہنے والے عبد اللہ ابصری کھتا ہے: بصرہ میں میرا ایک مکان تھا جس کی دیواریں خراب ہوچکی ت ہیں ، ایک روز سوچا مکان کی گری ہوئی دیوار کو بنوادیا جائے مزدور کی تلاش میں نکلا، مسجد کے پاس ایک جوان کو دیکھا جو قرآن پڑھنے میں مشغول ہے اور بیلچہ اور ٹوکری لئے ہوئے ہے، میں نے اس سے سوال کیا: کیا کام کرنے کے لئے تیار ہو؟ اس نے کھا: ھاں، خداوندعالم نے ھمیں حلال رزق حاصل کرنے کے لئے کام او رزحمت کے لئے پیدا کیا ہے۔

میں نے کھا: آؤ اور ھمارے مکان میں کام کرو، اس نے کھا: پھلے میری اجرت طے کرو، بعد میں تمھارے کام کے لئے جاؤں گا، اس نے کھا: ایک درھم ملے گا، اس نے قبول کرلیا، شام تک اس نے کام کیا، میں نے اندازہ لگایا کہ اس نے دو آدمیوں کے برابر کام کیا ہے میں نے اس کو دو درھم دینا چاھے لیکن اس نے انکار کردیا، او رکھا: مجھے زیادہ ن ہیں چاہئے، دوسرے روز اس کی تلاش میں گیا لیکن وہ نہ ملا، اس کے بارے میں لوگوں سے سوال کیا تو کچھ لوگوں نے مجھے بتایا کہ وہ صرف سنیچر کے روز کام کرتا ہے۔

سنیچر کے روز صبح صبح اس کی پھلی جگہ تلاش کے لئے گیا وہ مل گیا، اس کو لے گیا وہ دیوار بنانے میں مشغول ہوگیا، گویا غیب سے اس کی مدد ہوتی تھی، جیسے ہی نماز کا وقت ہوا، اس نے کام روک دیا، اپنے ھاتھ پیردھوئے اور نماز واجب میں مشغول ہوگیا، نماز پڑھنے کے بعد پھر کام میں مشغول ہوگیا، یھاں تک کہ سورج ڈوبنے لگا، اس کی مزدوری اس کو دی اور وہ چلا گیا، چونکہ میری دیوار مکمل ن ہیں ہوئی تھی دوسرے سنیچر تک صبر کیا تاکہ پھر اسی کو لے کر آؤں، سنیچر کے روز مسجد کے پاس اس کو تلاش کیا لیکن وہ ن ہیں ملا، اس کے بارے میں لوگوں سے سوال کیا تو کھا: دو تین دن سے بیمار ہے، اس کے گھر کا پتہ معلوم کیا ایک پرانے اور قدیم محلہ میں اس کا ایڈرس بتایا گیا، میں وھاں گیادیکھا تو بستر علالت پر پڑا ہوا ہے اس کے سرھانے بیٹھ گیااور اس کے سر کو اپنی آغوش میں لیا، اس نے آنک ہیں کھولی تو سوال کیا: تم کون ہو؟ میں نے کھا: میں وھی ہوں جس کے لئے تم نے دو دن کام کیا ہے، میرا نام عبد اللہ بصری ہے، اس نے کھا: میں نے تم ہیں پہچان لیا، کیا تم بھی مجھے پہچاننا چاھتے ہو؟ میں نے کھا: ھاں بتاؤ تم کون ہو؟

اس نے کھا: میرا نام قاسم ہے اور میں ھارون الرشید کا بیٹا ہوں!

جیسے اس نے اپنا تعارف کرایامجھے فوراً ایک جھٹکا لگا اور لرزنے لگا، میرے چھرے کا رنگ بدل گیا او رکھا: اگر ھارون کو معلوم ہوگیا کہ میں نے اس کے بیٹے سے مزدوری کرائی ہے تو مجھے سخت سزا دے گا، میرے گھر کو ویران کرنے کا حکم دےدے گا۔ قاسم سمجھ گیاکہ وہ بری طرح ڈرگیا ہے، اس نے کھا: خوف نہ کھاؤ اور ڈرو ن ہیں ، میں نے ابھی تک کسی سے اپنا تعارف ن ہیں کرایا ہے، اب بھی اگر مرنے کے قریب نہ ہوتا تو تم ہیں بھی ن ہیں بتاتا، میں تم سے ایک خواہش رکھتا ہوں اور وہ یہ کہ جب میں دنیا سے چل بسوں تو جو شخص میری قبر تیار کرے یہ بیلچہ اور ٹوکری اس کودیدینا اور یہ قرآن جومیرا مونس و ھمدم تھا کسی قرآن پڑھنے والے کو دیدینا، اس نے اپنی انگوٹھی مجھے دی او رکھا: میرے مرنے کے بعد اگر تیرا گزر بغداد سے ہو تو میرا باپ سنیچر کے روز عام لوگوں سے ملاقات کرتا ہے، اس کے پاس جانا اور اس کو یہ انگوٹھی دینا او رکہنا: تیرے بیٹا اس دنیا سے گزر گیا ہے، اور اس نے کھا ہے: تجھے مال دنیا جمع کرنے کا لالچ بھت زیادہ ہے، اس انگوٹھی کو بھی لے کر اپنے مال میں اضافہ کرلے، لیکن روز قیامت اس کا حساب بھی خود ہی دینا، کیونکہ مجھ میں حساب کی طاقت ن ہیں ہے، یہ کھتے کھتے اٹھنا چاھا لیکن اس کی طاقت جواب دی گئی، دوبارہ پھر اٹھنا چاھا لیکن نہ اٹھ سکا، اس نے کھا: اے عبد اللہ ! مجھے ذرا اٹھادو کیونکہ میرے مولا و آقا امیر المومنین علیہ السلام تشریف لائے ہیں ، میں نے اس کو اٹھایا اور اچانک اس کی روح پرواز کر گئی، گویا ایک چراغ تھا جس میں ایک چنگاری اٹھی اور خاموش ہوگیا!

ایک آتش پرست کی توبہ

مشھور و معروف فقیہ عارف نامدار فیلسوف بزرگوار جناب ملا احمد نراقی اپنی عظیم الشان کتاب ”طاقدیس“ میں تحریر فرماتے ہیں :

جناب موسيٰ علیہ السلام کوہ طور کی طرف چلے جارہے تھے، راستہ میں ایک بوڑھا آتش پرست ملا جو گمراھی اور گناھوں سے آلودہ تھا، اس نے جناب موسيٰ علیہ السلام نے کھا: کھاں جارہے ہیں ، کس سے باتیں کرنے جارہے ہو؟ چنانچہ جناب موسيٰ علیہ السلام نے جواب دیا: کوہ طور پر جارھا ہوں، جس جگہ وہ بے انتھا نور کا مرکز ہے، وھاں جاتا ہوں تاکہ حضرت حق سے راز و نیاز اور مناجات کروں، اور تمھارے گناھوں اور خطاؤں کی معذرت کروں۔

اس آتش پرست نے کھا: کیا میرا پیغام بھی خدا کے پاس پہنچا سکتے ہو؟ جناب موسيٰ علیہ السلام نے کھا: تیرا پیغام کیا ہے؟ اس نے کھا: میری طرف سے اپنے پروردگار سے کہنا کہ اس خلقت کے جھرمٹ اور آفرینش کے بھیڑ میں میں تجھ کو خدا مانوں یہ میرے لئے ننگ و عار ہے، مجھے ھر گز اپنے پاس نہ بلانا اور مجھے تیری روزی کی منت او رتیرے احسان کی بھی ضرورت ن ہیں ہے، نہ تو میرا خدا ہے او رنہ میں تیرا بندہ! جناب موسيٰ علیہ السلام نے اس بے معرفت آتش پرست کی گفتگو کو سنا اور اس گستاخ کی گفتگو پر بھت جوش آیا، اپنے دل میں کھا: میں اپنے محبوب سے مناجات کرنے کے لئے جارھا ہوں، مناسب ن ہیں ہے کہ اس کے سامنے یہ سب نازیبا گفتگو بیان کروں، اگر خدا کا احترام کرتا ہوں تو ان باتوں کو بیان نہ کروں تو اچھا ہے۔

جناب موسيٰ علیہ السلام طور کی طرف روانہ ہوگئے، اس نورانی وادی میں خداوندعالم سے راز و نیاز کرنے لگے، گریاں کناں آنکھوں سے مناجات شروع کردی، اس خلوت میں ایسا کیف تھا کہ دوسرے اس سے بے بھرہ ہیں ، خداوندعالم سے عاشقانہ گفتگو ہوئی، جب آپ راز و نیاز سے فارغ ہوئے اور وھاں سے واپس چلنے کا ارادہ کیا، خطاب ہوا: اے موسيٰ میرے بندے کا پیغام کیا تھا؟

عرض کیا: میں اس پیغام کو سناتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہوں، تو خود علیم و بصیر ہے اور جانتا ہے کہ اس بوڑھے آتش پرست کافر نے تیرے شان میں کیا گستاخی کی ہے!

خطاب ہوا: اس زبان دراز کے پاس جانا اور میری طرف سے اس کو سلام کہنا اوراس کے بعد پیار و محبت سے اس کا یہ پیغام سنانا:

اگر تجھے مجھ سے عار ہے، تو مجھے تجھ سے کوئی عار ن ہیں ہے ھرگز تجھ سے جنگ ن ہیں کروں گا، اگر تو مجھے ن ہیں چاھتاتو میں تو تجھے بھت چاھتا ہوں، تو اگر میری روزی اور رزق ن ہیں چاھتا میں اپنے فضل وکرم سے تجھے روزی عنایت کروں گا، اگر میری روزی کا احسان ن ہیں چاھتا تو میں بغیر احسان کے روزی عنایت کروں گا، میرا فیض سب کے لئے اور عام ہے، میرا لطف و کرم بے نھایت، ھمیشگی اور قدیم ہے۔ تمام لوگ میرے نزدیک بچوں کی طرح ہیں اور میرا فیض دودھ پلانے والی ایک خوش اخلاق ماں کی طرح ہے۔ ھاں بچے کبھی غصہ میں اور کبھی پیار میں پستان مادر کو اپنے منھ سے نکال دیتے ہیں لیکن ان کی ماں ان سے ناراض ن ہیں ہوتی، بلکہ پھر اپنی پستان ان کے منھ رکھ دیتی ہے۔

بچہ منھ پھیر لیتا ہے اور اپنے منھ کو بند کرلیتا ہے، ماں اس کے بند منھ کے بوسہ لینا شروع کردیتی ہے، اور پیار بھرے انداز میں کھتی ہے: ارے میرے بچے! منھ نہ موڑ، دودھ بھری چھاتی کو منھ میں رکھ لے، اے میرے لاڈلے ! دیکھ تو سھی میرے پستان سے بھار میں ابلنے والے چشمہ کی طرح دودھ جوش مارھا ہے۔

جس وقت جناب موسيٰ علیہ السلام کوہ طور سے واپس آئے، اس بوڑھے آتش پرست نے کھا: اگر میرے پیغام کا جواب لائے ہو تو بیان کرو۔

جناب موسيٰ علیہ السلام نے خدا کا پیغام اس کافر اور آتش پرست کو سنایا، کلام الٰھی نے اس کافر اور ملحد کے دل سے کفر کے زنگ کو دور کردیا، وہ ایک گمراہ انسان تھا جو راہ حق سے دور ہوچکا تھا، خدا کا پیغام اس کے لئے ایک گھنٹی کی طرح تھا، وہ شب تاریک کی طرح اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، وہ جواب اس کے لئے نور خورشید کی طرح بن گیا۔

شرم و حیا کی وجہ سے سر جھک گیا، اپنی آنکھوں پر ھاتھ رکھے اور زمین کی طرف دیکھنے لگا، تھوڑی دیر بعد اس نے سر اٹھایا اور اشک بھری آنکھوں اور سوز جگر کے ساتھ کھا: اے موسيٰ! تم نے میرے جسم میں آگ لگادی ہے، جس سے میرا جسم و روح دھواں ہوگیا ہے، یہ کیا پیغام تھا جو میں نے خدا کی بارگاہ میں پیش کیا، میں بدبخت ہوں، افسوس مجھ پر، اے موسيٰ! مجھے ایمان کی تعلیم دیں، اے موسيٰ! مجھے حقیقت کا راستہ بتاؤ، خدایا کیا عجیب واقعہ پیش آیا، میری روح قبض کرلے تاکہ میں اس پریشانی سے نجات پاجاؤں!

جناب موسيٰ علیہ السلام نے ایمان، عشق، رابطہ کی گفتگو اور خدا سے راز و نیاز کا سلیقہ سکھایا، اور اس نے توحید کا اقرارکیا اوراپنے گزشتہ سے توبہ کی اور اس دنیا سے محبوب کی طرف کوچ کرگیا!

توبہ اور خدا سے صلح و صفا

۱۹۵۱ ء میں جب شیعہ مرجعیت کی ذمہ داری، حضرت آیت اللہ العظميٰ آقای بروجردی رحمة اللہ علیہ کے شانوں پر تھی، جو علم و عمل کے مجاہد اور باکمال نورانی چھرہ کے مالک تھے، اس وقت حقیر کی عمر نو سال تھی، توبہ کے سلسلہ میں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جس کا ذکر کرنا مناسب ہے۔

شھر تھران کے ایک محلہ میں ایک بھت قدرت مند آدمی تھا، جو واقعاً ایک اوباش اور غنڈا تھا اکثر غنڈے اس سے خوف زدہ رھتے تھے اور چاقو چھری مارنے والے بد معاش بھی اس سے ڈرتے تھے۔

وہ کبھی شراب خوری، جوا، ڈکیتی اور جھگڑا فساد کرنے سے گریز ن ہیں کرتا تھا۔

چنانچہ جب اس غنڈا گردی پر عروج تھا اس وقت لطف خدوندی اور اس کی رحمت نے اس کے دل پر اثر کیا اور جو کچھ بھی اس کے پاس تھا ان سب کو بیچ کر نقد پیسہ بنایا اور ایک سوٹ کیس میں بھر کر توبہ کرنے کے لئے شھر مقدس قم میں آیا اور حضرت آیت اللہ العظميٰ آقای بروجردی علیہ الرحمہ کی خدمت میں پہنچا، اپنی مخصوص زبان میں اس عالم باعمل اور صاحب بصیرت سے گویا ہوا: جو کچھ بھی اس سوٹ کیس میں ہے سب مال حرام ہے، میں اکثر مال کے مالکوں کو ن ہیں جانتا، یہ میرے اوپر ایک بار ہے، آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں تاکہ میں آپ کے سامنے توبہ کروں اور اپنی اصلاح کروں۔

آیت اللہ بروجردی علیہ الرحمہ ایسے افراد سے ملاقات کرکے بھت خوش ہوتے تھے، چنانچہ اس سے فرمایا: نہ صرف پیسوں سے بھرا سوٹ کیس بلکہ اپنی قمیص شلوار کے علاوہ بدن کے سارے کپڑے بھی یھاں رکھ دو اور چلے جاؤ۔

چنانچہ اس نے یہ سن کر اپنے اوپر کے کپڑے اتاردئے اور ایک شلوار قمیص میں ہی موصوف سے خدا حافظی کرکے روانہ ہوگیا۔

اس شخص کی توبہ کی وجہ سے حضرت آیت اللہ العظميٰ آقای بروجردی علیہ الرحمہکی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، اس کو آواز دی، اور اس کو اپنے ذاتی پیسوں میں سے پانچ ہزار تومان دئے اور اس کے لئے اسی خشوع و خضوع کی حالت میں خلوص کے ساتھ دعا کی۔

وہ شخص اس حالت میںتھران پلٹاکہ تواضع و انکساری اور محبت و پیار کو اپنا پیشہ بنالیاتھا، چنانچہ اس نے ان ہیں پانچ ہزار تومان کو حلال روزی کے لئے سرمایہ قرار دیا اور آہستہ آہستہ جائز درآمد حاصل ہونے لگی، چنانچہ ایک بڑی دولت اس نے حاصل کرلی، سال کے شروع میں اپنی درآمد کا خمس نکالتا تھا اور غریبوںکی بھی بھت زیادہ مدد کیا کرتا تھا۔

آہستہ آہستہ اس نے دینی پروگراموں میں شرکت کرنا شروع کی، آخر کار شھر تھران کے ایک اھم جلسہ کا بانی بن گیا۔

اس کا مذھبی جلسہ ان دنوں میں تھا جب حقیر کی عمر ۲۵ سال تھی اور حوزہ علمیہ قم میں مشغول تحصیل علم تھا، محرم و صفر اور ماہ رمضان المبارک میں تھران کی مساجد اور امامبارگاھوں میں تبلیغ کے لئے جایا کرتا تھا۔

اسی حوالہ سے اس کے نورانی چھرہ سے آشنا ہوا، اس کے ایک دوست کے ذریعہ مرجع شیعہ کے ذریعہ اس کی توبہ کے بارے میں معلوم ہوا۔

اس سے دوستی ہوگئی اور کافی دنوں تک یہ دوستی برقرار رھی، چنانچہ جب وہ تقریباً ۱۹۸۷ء میں بیمار ہوئے، تو مجھے پیغام بھجوایا کہ اس کی عیادت کے لئے آجاؤں، حقیر نے روز جمعہ اس کی عیادت کے لئے پروگرام بنارکھا تھا لیکن شب جمعہ ۱۱بجے ہی اپنے اھل عیال کو اپنے پاس جمع کیا اور کھا: میں اس دنیا سے جانے والا ہوں۔

چنانچہ اس کے اھل خانہ نے حقیر سے بتایا کہ: مرنے سے آدھا گھنٹہ پھلے حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میںعرض کیا: ”اے میرے مولا و آقا! میں نے اپنے گزشتہ سے توبہ کی ہے، اور آپ کے راستہ پر چلنے کی کوشش کی، خلوص کے ساتھ آپ کے دربار میں خدمت کی اور اپنے مال کا ایک تھائی حصہ جوانوں کی شادی کے لئے صندوق قرض الحسنہ میں طولانی مدت کے لئے رکھ دیا ہے، میری کوئی آرزو ن ہیں ، صرف یہ کہ اس دنیا سے جاتے وقت آپ کے جمال پُرنورکی زیارت ہوجائے !! “ چنانچہ آخری سانس آنے سے پھلے بھت خوش لہجہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو عاشقانہ سلام کیا، (جیسے امام حسین علیہ السلام سامنے موجود ہوں) اس وقت اس کے لبوں پر مسکراہٹ تھی، اور اسی عالم اس دنیاچل بسے۔

____________________

۱۷۱. سورہ یوسف آیت ۱۱۱۔

۱۷۲. سورہ تحریم آیت ۱۱۔

۱۷۳. کشف الغمہ:۱۴۶۶:بحار الانوار: ۴۳ص۵۳، باب ۳، حدیث ۴۸، عبارت کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ۔

۱۷۴. سورہ فرقان آیت ۱۲۔۱۳۔

۱۷۵. امالی شیخ صدوق علیہ الرحمہ، ص ۳۹۷، مجلس ۶۲ حدیث ۱۰؛ بحار الانوار ج ۶ص ۲۶ باب ۲۰ حدیث ۲۷۔

۱۷۶. خرائج:ج ۱ص۸۸، فصل من روایات الخاصة؛ بحار الانوار: ۶۵ص۲۸۲، الاخبار، حدیث ۳۸۔

۱۷۷. روضات الجنات : ۴، ص۱۰۷۔

۱۷۸. روضات البیان: ۲، ص۱۷۹۔

۱۷۹. روح البیان: ۲، ص ۱۸۱۔

۱۸۰. روضات البیان: ۲، ص۲۲۵۔

۱۸۱. روضات البیان، ج ۲، ص ۲۳۵۔

۱۸۲. کشف الغمہ، ج۲، ص ۱۹۴؛ بحار الانوار ج ۴۷ ۱۴۵، باب ۵، حدیث ۱۹۹۔

۱۸۳. بحار الانوار: ۹۱ ۲۸، باب ۲۸، حدیث: ۱۴؛ مستدرک الوسائل: ۵ ۲۳۰، باب ۳۵، حدیث ۵۷۶۲۔

۱۸۴. محجة البیضاء: ۷، ص ۲۶۷، کتاب الخوف والرجاء۔

۱۸۵. منہج الصادقین، ج۸ص ۱۱۰۔

۱۸۶. نور الثقلین، ج۳ ص ۲۴۹۔

۱۸۷. سورہ آل عمران آیت ۱۳۵۔

۱۸۸. سورہ آل عمران آیت ۱۳۶۔

۱۸۹. امالی شیخ صدوق:۴۲، مجلس ۱۱، حدیث۳؛ بحار الانوار: ۶۳ ۲۳، باب ۲۰، حدیث ۲۶۔

۱۹۰. سورہ حدید آیت ۱۶۔

۱۹۱. تذکرة الاولیاء، ص۷۹۔

۱۹۲. تفسیر صافی: ۲۳۸۶ (مندرجہ ذیل آیت سورہ توبہ نمبر ۱۱۸)۔

۱۹۳. سورہ توبہ آیت ۱۱۸۔

۱۹۴. ارشاد القلوب: ۲ ۸۰؛ اعلام الوری: ۲۳۲، الفصل الرابع۔

۱۹۵. عنصر شجاعت، ج ۳ ص۵۴؛ پیشوای شھیدان ص ۲۳۹۔

۱۹۶. پیشوای شھیدان، ص ۳۹۴۔

۱۹۷. عنصر شجاعت، ج۳ص ۱۷۹۔

۱۹۸. حضرت امام حسین علیہ السلام کی دعاء عرفہ کا ایک حصہ۔

۱۹۹. عنصر شجاعت، ج۳ص۱۷۰۔

۲۰۰. حسن یوسف، ص۶۴۔

۲۰۱. اصول کافی ج۲ ص ۶۹، باب الخوف والرجاء حدیث۸؛ بحار الانوار ج ۶۷ ص ۳۶۱ باب ۵۹ حدیث ۶۔

۲۰۲. سورہ الذاریات آیت ۲۲۔

۲۰۳. سورہ الذاریات آیت ۲۳۔

۲۰۴. تفسیر کشف الاسرار، ج۹ص۳۱۹۔

۲۰۵. اسرار معراج، ص۲۸۔

۲۰۶. روضات الجنات، ج۲، ص۱۳۰۔

۲۰۷. اصول کافی، ج۲، ص۴۴۱، باب فیما اعطيٰ اللہ عزّ و جل ّ آدم (ع) حدیث ۴۔

۲۰۸. سورہ توبہ آیت ۱۰۲۔

۲۰۹. تفسیر قمی، ج۱، ص۵۳۵؛بازگشت بہ خدا، ۴۲۳۔

۲۱۰. اسرار معراج، ص۸۴۔

۲۱۱. تفسیر صافی، ج۱، ص۷۶۷بطور خلاصہ ۔

۲۱۲. امالی شیخ صدوق، ص ۲۷۱، مجلس ۴۶ حدیث۷؛ بحار، ج۶۸، ص۳۸۴، باب ۹۲ حدیث ۲۵۔

۲۱۳. کافی، ج۵ص۱۰۶ باب عمل السلطان و جوائزھم، حدیث ۴؛ بحار، ج۴۷، ص۳۸۲، باب ۱۱، حدیث ۱۰۵۔

۲۱۴. اس واقعہ کو تبلیغی سفر (۱۹۷۰ء ھمدان )کے دوران آیت اللہ مرحوم آخوند ھمدانی سے سنا ہے۔