تقويٰ و پرھیزگاری کے فوائد
(
وَامَّامَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَويٰ فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِی الْمَاويٰ
)
”اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روک لیاھے، تو بیشک، اس کا ٹھکانہ جنت ہوگا“۔
انسان اور اس کی خواہشات
انسان بچپن سے آخری وقت تک دیکھتا، سنتا، چکھتا، لمس کرتا، سونگھتا اور سعی و کوشش کرتا ہے۔
جس چیز کو دیکھتا، سنتا، چکھتا، لمس کرتا، سونگھتا اور کوشش کرتا ہے اسی کوچاھتا ہے۔
دیکھنے، سننے، چکھنے، لمس کرنے او رسونگھنے والی چیزوں کے مناظر بھت زیادہ دلربا ہوتے ہیں ، چنانچہ ان ہیں مناظر کی وجہ سے انسان کے خواہشات بھی بھت زیادہ ہوجاتی ہیں ۔
دیکھی ہوئی، اورسنی ہوئی یا مزہ دار چیزوں میں، ان اشیاء کا استعمال کرنا جو خود اس کے لئے، یا اس کے اھل خانہ اور معاشرہ کے لئے نقصان دہ ہو، حرام اور ممنوع ہیں ؛ خداوندعالم کے حکم سے حرام کردہ یہ سب چیزیں انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کی ذریعہ بیان ہوئی ہیں ، اور تمام چیزوں کا بیان کرنا رحمت پروردگار، انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کی محبت کا نتیجہ ہے۔
انسان روپیہ پیسہ، غذا، لباس، زمین و جائداد، گاڑی، خواہشات نفسانی اورجاہ و مقام کی آرزورکھتا ہے، لیکن یہ غور کرنا چاہئے کہ خواہشات بے قید و شرط کے نہ ہوں، ھماری خواہشات دوسروں کے حقوق کی پامالی کا سبب نہ بنیں، ھماری خواہشات کسی کا گھر یا معاشرہ کو درھم و برھم نہ کرڈالیں، ھماری خواہشات، انسانی شرافت کونہ کھوبیٹھے ھماری، خواہشات اس حد تک نہ ہو ںکہ انسان اپنی آخرت کو کھوبیٹھے اور غضب الٰھی کا مستحق بن جائے اور ھمیشہ ھمیشہ کے لئے نار جہنم میں جلتا رہے ، اس چیز کی اجازت نہ شریعت دیتی ہے اور نہ عقل و منطق، آپ کسی بھی صاحب فطرت اور صاحب وجدان اور عقل سلیم رکھنے والے شخص سے سوال کرلیں کہ میں مال و دولت، مقام ومنصب یا عورت کو حاصل کرنے کے بعد دوسرے کے حق کو پامال اور ان پر ظلم کرنا چاھتا ہوں، یا کسی کے دل کو جلانا یاکسی کا گھر برباد کرنا چاھتا ہوں تو دیکھئے وہ کیا جواب دیتا ہے، یا ان تمام سوالوں کو اپنی عقل و فکر اور وجدان سے پوچھ کر دیک ہیں تو کیا جواب ملے گا؟
خود آپ اور دوسروں کی عقل صرف یھی جواب دے گی کہ ناجائز خواہشات کو ترک کردو، اور جس چیز کی خواہش ہے اسے اس طرح حاصل کرو جس طرح تمھارا حق ہے، اگر اس طرح آپ نے خواہشات پر عمل کیا تونہ کسی کا کوئی حق ضائع ہوگا اور نہ ہی کسی پر ظلم ہوگا۔
اگر یھی سوال خدا، انبیاء اور ائمہ علیھم السلام سے کریں گے تو جواب ملے گا اگر تمھارا حق ہے تو چاھو، اور اگر تمھارا حق ن ہیں ہے تو اس چیز کی خواہش نہ کرو، قناعت کے ساتھ ساتھ حلال طریقہ سے خواہشات کو پورا کرو لیکن اگر تمھاری خواہشات غیر شرعی طریقہ سے ہو یا اجتماعی قوانین کے خلاف ہے تو یہ ظلم و ستم ہے۔
اگر تمام خواہشات میں قوانین الٰھی اور معاشرتی حدود کی رعایت کی جائے تو زندگی کی سلامتی، حفظ آبرو، اور اخلاقی کمالات پر پہنچنے کا سبب ہیں ، لیکن اگر ان خواہشات میں معاشرہ اور الٰھی قوانین کی رعایت نہ کی جائے تو انسان کی زندگی برباد ہوجاتی ہے، اس کی عزت خاک میں مل جاتی ہے اور انسان میں شیطانی صفات اور حیوانی خصلتیں پیدا ہوجاتی ہیں ۔
بھر حال انسانی زندگی میں پیش آنے والی تمام خواہشات دو قسم کی ہوتی ہیں : حساب شدہ خواہشات، اور غیر حساب شدہ خواہشات۔
حساب شدہ وہ خواہشات ہوتی ہیں جو خدا کی مرضی کے مطابق ہوں، اور اس کی مرضی کے مطابق ہی انسان آرزو کرے، جو قوانین الٰھی اور اس کے حدود کے مطابق ہوں۔ اس وقت انسان مال و دولت چاھتا ہے لیکن حلال مال و دولت، مکان چاھتا ہے لیکن حلال، شھوانی خواہشات کی آگ بجھانا چاھتا ہے لیکن شرعی نکاح کے ذریعہ، مقام و منصب چاھتا ہے لیکن رضائے الٰھی اور محتاج لوگوں کی مدد کرنے کے لئے، T.V دیکھنا چاھتا ہے لیکن صحیح او رمناسب پروگرام، ان تمام صورتوںمیں خواہشات رکھنے والا ایسا انسان مومن، بیدار، صاحب بصیرت، قیامت کو یاد رکھنے والا، ذمہ داری کا احساس کرنے والا، لوگوں سے نیکی اور مھربانی کرنے والا، معاشرے کے سلسلہ میں دلسوز، رضائے الٰھی کو حاصل کرنے والا، دین و دنیا کی سعادت چاہنے والا اور جھاد اکبر کرنے والاھوجاتا ہے۔
غیر حساب شدہ خواہشات وہ ہوتی ہیں جن میں صرف نفس شامل ہوتا ہے، جن میں انانیت کی بو آتی ہو، جن کی وجہ صرف تکبر و غرور اور خود خواھی ہوتی ہے اور وہ ضلالت و گمراھی سے ظاھر ہوتی ہیں ۔
اس صورت میں آدمی مال و دولت چاھتا ہے لیکن جس راہ سے بھی ہو اس کے لئے کوئی مشکل ن ہیں چاھے سود، چوری، غصب، مکاری، دھوکا فریب، رشوت وغیرہ کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو، مکان چاھتا ہے چاھے وہ اعزاء و دوستوں کے حق کو پامال کرنے سے ہو، شھوت کی آگ بجھانا چاھتا ہے چاھے استمناء، لواط زنا وغیرہ کے ذریعہ سے ہی کیوں نہ ہو، مقام و منصب چاھتا ہے، چاھے دوسروں کو ان کے حق سے نامحروم کرنے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو، کچھ سننا چاھتا ہے چاھے غیبت، تھمت اور حرام موسیقی اور گانا ہی کیوں نہ ہو۔
ایسی خواہشات رکھنے والا شخص بے دین، ضعیف الایمان، دل کا اندھا، بے بصیرت، آخرت کو خراب کرنے والا، غضب الٰھی کا خریدنے والا اور ظلمت و گمراھی کے میدان میں شیطان کا نوکر ہوتا ہے۔
قرآن مجید نے ایسی خواہشات رکھنے والے انسان کو ”ھوا و ہوس کے غلام“سے تعبیر کیا ہے۔
ھوا و ہوس انسان کی اس باطنی قوت کا نام ہے جو انسان پر حکومت کرتی ہے، اور خود خدا کی جگہ قرار پاتی ہے، خود اپنی کو معبود کھلواتی ہے، انسان کو اپنا غلام بنالیتی ہے اور انسان کو خدا کی عبادت و اطاعت کرنے کے بجائے اپنی عبادت کے لئے مجبور کرتی ہے:
(
ارَایتَ مَنْ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ افَانْتَ تَكُونُ عَلَیهِ وَكِیلًا
)
۔
”کیا آپ نے اس شخص کودیکھاھے جس نے اپنی خواہشات ہی کو اپنا خدا بنا لیا ہے، کیا آپ اس کی بھی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہے“۔
انسان اپنی زندگی کے آغازسے جس چیز کو دیکھتا ہے اس کو حاصل کرنا چاھتا ہے، جس چیز کو سنتا ہے اس کے پیچھے دوڑتا ہے اور جس چیز کا دل چاھتا ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اپنے پیٹ کو حلال و حرام کی پروا ہ کئے بغیر بھرتا ہے، شھوت کی آگ بجھانا چاھتا ہے چاھے جس طرح سے بھی ہو، مال و دولت کے حصول کے لئے، مقام و عہدہ پانے کے لئے کسی بھی حق کی رعایت ن ہیں کرتا، درحقیقت ایسا انسان ہوا وھوس کے بت سازکارخانہ میں داخل ہوجاتا ہے، جو کچھ ہی مدت کے بعد اپنے ھاتھوں سے بت تراشناشروع کردیتا ہے، اور اس بت کو دل میں بسالیتا ہے اور یھی ن ہیں بلکہ اپنے ھاتھ سے بنائے ہوئے بت کی پوجا شروع کردیتا ہے!
افسوس کی بات ہے کہ بھت لوگوں کی عمر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا باطن بت خانہ بن جاتا ہے اور اس کی تلاش و کوشش کا ثمرہ ”ھواپرستی کا بت “ ہوتا ہے اور ان کا کام اس بت کی عبادت کرنا ہوتا ہے، ایک عارف کے بقول:
انسانی نفس خود سب سے بڑا بت ہے
اس بت کی پوجا کرنے والے یہ لوگ کسی جاندار کی جان کو جان ن ہیں سمجھتے، کسی کی عزت کو کوئی اھمیت ن ہیں دیتے، کسی کے حق کی رعایت ن ہیں کرتے، ایک معاشرہ کی عزت وناموس کو پامال کردیتے ہیں ، ھر چیز پر اپنا حق جتاتے ہیں لیکن دوسروں کے لئے کسی بھی طرح کے حق کے قائل ن ہیں ہوتے۔
خداوندعالم نے تمام بندوں کو دنیا و آخرت کی خیر و بھلائی کے لئے نفس اور اس کی بے حساب و کتاب خواہشات کی پیروی نہ کرنے کا حکم دیا ہے، اگرچہ ہوائے نفس کی مخالفت ظاھراً ان کے اور دوسروں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہو۔
(
یاایها الَّذِینَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِینَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَی انفُسِكُمْ اوْ الْوَالِدَینِ وَالْاقْرَبِینَ إِنْ یكُنْ غَنِیا اوْ فَقِیرًا فَاللهُ اوْلَی بِهما فَلاَتَتَّبِعُوا الْهَوَی انْ تَعْدِلُوا
)
۔
”اے ایمان والو! عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو اور اللہ کے لئے گواہ بنو چاھے اپنی ذات یا اپنے والدین اور اقرباء ہی کے خلاف کیوں نہ ہوں جس کے لئے گواھی دینا ہے وہ غنی ہو یا فقیر، اللہ دونوں کے لئے تم سے اوليٰ ہے، لہٰذا تم ہوا و ہوس کی پیروی نہ کرو، اور عدالت سے کام لو “۔
قرآن مجید نے ہوائے نفس کے بت کی پیروی کو ضلالت و گمراھی، حق سے منحرف ہونے اورروز قیامت کو فراموش کرنے کا سبب بتایا ہے، اور قیامت کے دن درد ناک عذاب میں مبتلا ہونے کا سبب بیان کیا ہے۔
(
وَلاَتَتَّبِعْ الْهَوَی فَیضِلَّكَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ إِنَّ الَّذِینَ یضِلُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ لَهم عَذَابٌ شَدِیدٌ بِمَا نَسُوا یوْمَ الْحِسَابِ
)
۔
”اور خواہشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منحرف کردے، بے شک جو لوگ راہ خدا سے بھٹک جاتے ہے ان کے لئے شدید عذاب ہے کہ انھوں نے روز حساب کو بالکل نظر انداز کردیا ہے۔“
قرآن مجید نے عظمت خدا سے خوف زدہ اورھوائے نفس سے مقابلہ کرنے کو بہشت میں داخل ہونے کا سبب بتایا ہے:
(
وَامَّامَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَويٰ فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِی الْمَاويٰ
)
۔
”اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے، تو جنت اس کا ٹھکانہ اور مرکز ہے“۔
قرآن مجید نے حضرت موسيٰ علیہ السلام کے زمانہ کے مشھور عالم ”بلعم باعورا“ کے ایمان سے ھاتھ دھونے، روحانیت اور معنویت سے جدائی، مادیت سے آلودہ ہونے اور اس کے اندر پیدا ہونے والی بُری صفات کی وجہ، ہوائے نفس کی پیروی بتایاھے:
(
وَلَكِنَّهُ اخْلَدَ إِلَی الْارْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَیهِ یلْهَثْ اوْ تَتْرُكْهُ یلْهَثْ ذَلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِینَ كَذَّبُوا بِآیاتِنَا
)
۔
”لیکن وہ خود زمین کی طرف جھک گیااور اس نے خواہشات کی پیروی اختیار کر لی تو اب اس کی مثال کتے جیسی ہے کہ اس پر حملہ کرو تو بھی زبان نکالے رہے اور چھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رہے ۔یہ اس قوم کی مثال ہے جس نے ھماری آیات کی تکذیب کی ۔۔“۔
قرآن مجید نے غافلوں، ہوائے نفس میں گرفتار اور ذلیل و پست افراد کی اطاعت کرنے سے سخت منع کیا ہے :
(
وَلاَتُطِعْ مَنْ اغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ امْرُهُ فُرُطًا
)
۔
”اور ھرگز اس کی اطاعت نہ کرنا جس کے دل کو ھم نے اپنی یاد سے محروم کردیا ہے اور وہ اپنے خواہشات کا پیروکار ہے اور اس کاکام سراسر زیادتی ہے“۔
قرآن مجید کے مختلف سوروں(جیسے سورہ مائدہ، سورہ انعام، سورہ رعد، سورہ مومنون، سورہ قصص، سورہ شوريٰ، سورہ جاثیہ اور سورہ محمد۲۲۲) کے لحاظ سے ہوائے نفس کی پیروی کتب آسمانی کی تکذیب، گمراھی، ولایت خدا سے دوری، زمین و آسمان اوران میں رہنے والوں میں فساد، نبوت سے دوری، استقامت کو کھوبیٹھنے، غافل اور جاھل لوگوں کے جال میں پھنسنے اور ان کے دل پر مھر لگنے کا سبب ہیں ۔
ھوائے نفس کی غلامی کی پہچان درج ذیل چیزیں ہیں :
بُرا اخلاق، بُرا عمل، بے حساب و کتاب زندگی، دوسری مخلوق کے حقوق کی رعایت نہ کرنا، دوسروں پر ظلم و ستم کرنا، ترک عبادت، گناھان کبیرہ سے آلودہ ہونا، گناھان صغیرہ پر اصرار کرنا، غیظ و غضب اور غصہ سے کام لینا، لمبی لمبی آرزوئیں کرنا، نیک لوگوں کی صحبت سے دور ہونااورگناھگار او ر بُرے لوگوں کی صحبت سے لذت اٹھانا ۔
جھاد اکبر
اگر ہوائے نفس میں گرفتار شخص اپنی دنیا و آخرت کی بھلائی چاھتا ہے، اگر اپنے ماتحت لوگوں کی خیرخواھی چاھتا ہے، اگر اپنے باطن و عمل اور اخلاق کی اصلاح کرنا چاھتا ہے تو ایسے شخص کے لئے چارہ کار یہ ہے کہ ایک شجاع و بھادر فوج کی طرح ہوائے نفس سے جنگ کے لئے کھڑا ہوجائے اور اس بات پر یقین رکھے کہ اس جنگ میں خدا کی نصرت و مدد اور اس کی رحمت شامل حال ہوگی اور سو فی صد اس کی کامیابی اور ہوائے نفس کی شکست ہے۔
اگر اس جنگ میں کامیابی ممکن نہ ہوتی تو پھر انبیاء علیھم السلام کی بعثت، ائمہ علیھم السلام کی امامت اور آسمانی کتابوں کا نزول لغو اوربے ہودہ ہوجاتا۔
چونکہ اس جنگ میں شریک ہونا اور اس میں کامیابی حاصل کرنا نیز ہوائے نفس کے بت کو شکست دینا سب کے لئے ممکن ہے، لہٰذا انبیاء علیھم السلام کی بعثت، ائمہ علیھم السلام کی امامت اور آسمانی کتابوں کا نزول ہوا، اور اس سلسلہ میں سب پر خدا کی حجت تمام ہوگئیں، اور اب کسی کے پاس دنیا میں یا آخرت میںکوئی قابل قبول عذر ن ہیں ہے ۔
لہٰذا انسان کو چاہئے کہ ہوائے نفس میں گرفتار ہونے اور اپنے باطن میں یہ خطرناک بت پیدا ہونے سے پھلے ہی خود اپنی حفاظت کرے اور ھمیشہ یاد خدا میں غرق رہے ، اور خودکو گناھوں سے محفوظ رکھے تاکہ یہ خطرناک بت اس کے دل میں گھر نہ بنالے اگر ایساکر لیااور اپنے نفس کو محفوظ رکھ لیا تو یھی عین کرامت اور شرافت ہے جس کے ذریعہ انسان میں تقويٰ اور انسانیت پیدا ہوتی ہے۔
لیکن جب انسان کے اندر غفلت کی وجہ سے یہ بت پیدا ہوجاتا ہے، اور ایک مدت کے بعد خدائی چمک یا نفسانی الھام، یا وعظ و نصیحت، یا نیک لوگوں کی سیرت کے مطالعہ کے بعد اس بت کے پیدا ہونے سے مطلع ہوجائے، اس کی حکومت کے خطرناک آثار سے آگاہ ہوجائے اور اس کے بعد بھی اس سے جنگ کے لئے قدم نہ اٹھائے، بلکہ ھاتھ پر ھاتھ رکھ کر بیٹھ جائے یا سستی سے کام لے توکم از کم ایک واجب کے عنوان سے یا واجب سے بھی بالاتر خداوندعالم کے حکم کی اطاعت، اور انبیاء و ائمہ علیھم السلام کی دعوت پر لبیک کھتے ہوئے اپنے اخلاق و اعمال کی اصلاح کے لئے آگے بڑھے اور اپنے گناھوں سے توبہ کرتے ہوئے واجبات کو انجام دے، خدا کی عبادت کرے، نیک اور صالح افراد کے ساتھ بیٹھے، مال حرام سے پرھیز کرتے ہوئے ”ھوائے نفس کے بت “سے جنگ کے لئے تیار ہوجائے کہ اس جنگ میں فتح کا سھرا اسی کے سر ہوگا، اس جنگ کو دینی تعلیمات میں ”جھاد اکبر“ کھا جا تا ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
”اِنَّ النَّبِی بَعَثَ سَریةً، فَلَمَّا رَجَعُوا قَالَ: مَرْحَباً بِقَوْمٍ قَضَوُا االْجِهادَ الاَصْغَرَ، وَ بَقِی عَلَیهم الْجِهادَ الاَكْبَرُ فَقِیلَ یا رَسُوْلَ اللهِ! وَمَا الْجِهادُ الاَكْبَرُ؟ قَالَ: جِهادُ النَّفْسِ
“
”پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بعض اصحاب کو جنگ کے لئے بھیجا، جب وہ اسلامی لشکر جنگ سے واپس لوٹا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: مرحبا، اس قوم پر جو جھاد اصغر انجام دے کر آرھی ہے، اور جھاد اکبر ان کے ذمہ باقی ہے۔ لوگوں نے سوال کیا: یا رسول اللہ! جھاد اکبر کیا چیزھے، توآپ نے فرمایا:
”جھاد بالنفس“ (یعنی اپنے نفس سے جنگ کرنا)
یہ بات واضح ہے کہ ”نفس سے جنگ “، خود نفس سے جنگ کرنا ن ہیں ہے بلکہ اس کے خطرناک پھلو سے جنگ کرنا مراد ہے جس کو قرآن کریم نے ”ھواو ہوس“ کا نام دیا ہے۔
ھوائے نفس کے مقابل لڑنا اور جھادکرنا ھر دوسرے جھاد سے بالاتر ہے، ہوائے نفس سے ہجرت کرنے والے کی ہجرت ھر ہجرت سے افضل ہے، ا ور اس جھاد کا ثواب ھردوسرے ثواب سے بھتر ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کہ خود آپ نفس سے جھاد کرنے والوں میں بے نظیر ہیں ؛ فرماتے ہیں :
”مَاالْمُجَاهِدُ الشَّهِیدُ فِی سَبِیلِ اللهِ بِاَعْظَمَ اَجْراً مِمَّنْ قَدَرَ فَعَفَّ، لَكَادَ الْعَفِیفُ اَنْ یكُونَ مَلَکاً مِنَ الْمَلاَئِكَةِ
“
”راہ خدا میں جھاد کرکے شھید ہوجانے والا اس سے زیادہ اجر کا حقدار ن ہیں ہوتا ہے جتنا اجر اس شخص کے لئے ہے جو اختیارات کے باوجود عفت سے کام لے کہ عفیف و پاکدامن انسان قریب ہے کہ وہ صفوف ملائکہ میں شمار ہو “۔
اصلاح نفس کا طریقہ
ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیھم السلام کی بعثت کے پیش نظر، معتبر اسلامی کتابوں اور قرآن مجید میں احکام الٰھی بیان ہوئے ہیں ، اسی طرح آسمانی کتابوں کے پیش نظر خصوصاً قرآن مجید میںجو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا زندہ جاوید معجزہ ہے، نیز ائمہ علیھم السلام کی امامت کہ جن کے ارشادات زندگی کے ھر پھلو کے لئے کتب حدیث میں موجود ہیں ، اسی طرح انسانی فطرت، عقل اور وجدان کے پیش نظر جو انسان کے پاس الٰھی امانتیں ہیں اور دنیا و آخرت کے لئے مفید سرمایہ ہیں ، لہٰذا ان تمام معنوی اور روحانی امور کے ذریعہ زندگی کے تمام پھلوؤں میں سب انسانوں پر خدا کی حجت تمام ہوچکی ہے، کیا یہ کھا جاسکتا ہے کہ انسان کے لئے اصلاح کا راستہ بندھوگیا ہے یا یہ کہ انسان میں اصلاح کے راستہ پرچلنے کی طاقت ن ہیں ہے، یا انسان اپنے اعمال و اعتقادات اور اخلاق میں مجبور ہے؟
مسلّم طور پر ان تمام مسائل کا جواب منفی ہے، اصلاح کا راستہ روز قیامت تک سب کے لئے کھلا ہے، اور اس راستہ پر چلنے کی طاقت ھر انسان میںموجود ہے، اور انسان کسی بھی اعتقاد و عمل اور اخلاق کے سلسلہ میں مجبور ن ہیں ہے۔
ھمیشہ تاریخ میں ایسے افراد ملتے ہیں جنھوں نے گناھوں میں مبتلا ہونے، معصیت سے آلودہ ہونے اور ہوائے نفس کا اسیر ہونے کے بعد اپنے گناھوں سے توبہ کی اور معصیت کی گندگی سے پاک اور ہوائے نفس کی غلامی سے آزاد ہوگئے، جو خود اس بات کی دلیل ہے کہ نہ تو اصلاح کا راستہ بند ہے اور نہ انسان بُرے کام کرنے پر مجبور ہے۔
یقینا اس طرح کے بے بنیاد مسائل اور بے دلیل مطالب انسانی تہذیب میں ان لوگوں کی طرف سے داخل ہوگئے جو اپنے گناھوں پر عذر پیش کرنا چاھتے ہیں یا دنیاوی لذتوں کے شکار ہوچکے ہیں ، وہ خود بھی خواہشات اور ہوا و ہوس میںگرفتار ہوچکے ہیں اور دوسرے کو بھی گمراہ کرنا چاھتے ہیں ۔
یہ لوگ اپنی باتوں کے بے بنیاد ہونے سے آگاہ ہیں اور اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ باتیں بے دلیل اور علم و منطق کے برخلاف ہیں اگرچہ ان باتوں کو کبھی کبھی تہذیبی و نفسیاتی ماھرین یا مشرقی اور مغربی یونیورسٹی کے اساتید کی زبان سے سنتے ہیں جن پر شھوتوں کا بھوت سوار رھتا ہے:
(
بَلْ الْإِنسَانُ عَلَی نَفْسِهِ بَصِیرَةٌ وَلَوْ الْقَی مَعَاذِیرَهُ
)
۔
”بلکہ انسان خود بھی اپنے نفس کے حالات سے خوب باخبر ہے۔چاھے وہ کتنے ہی عذر کیوں نہ پیش کرے“۔
کیا وہ افراد جو حیلہ او رمکاری، دھوکا اور فریب اور ریاکاری کرتے ہیں ، اور دوسروں کو ذلیل و رسوا کرتے ہیں ، یا کسی بے بنیاد مسئلہ کو علمی رنگ دے کر پیش کرتے ہیں یا اپنا واقعی چھرہ مخفی رکھتے ہیں یا عوام الناس کو دھوکہ میں ڈال کر ان پر حکومت کرنا چاھتے ہیں یا کسی قوم و ملت کو بے بنیاد مکتب لیکن علمی رنگ دے کر لوگوں کو اس کی دعوت دیتے ہیں ، کیا یہ لوگ خود معاشرہ میں پیش کرنے والے مسائل کے بارے میں آشنائی ن ہیں رکھتے؟!
قرآن مجید کے بیان کے مطابق یہ لوگ ان تمام مسائل کو جانتے ہیں لیکن یہ وہ افراد ہیں جنھوں نے انسانی زندگی کے آب حیات کو ھمیشہ مٹی سے آلودہ کردیا ہے تاکہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے خوب مچھلی پکڑسکیں۔
بے شک اس ماحول میں گمراھی اور ضلالت پائی جاتی ہے، یھاں پر نخوت و تکبر اور جھالت کا دور دورہ ہے۔
ایسے لوگ جو حقائق کائنات اورخالق کے وجود کا انکار کرتے ہیں ، اور خداوندعالم کی نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں ، ان لوگوں کایھی کام ہونا بھی چاہئے، بے بنیاد اور باطل مسائل ہی ان کے ذہن میں خطور کرسکتے ہیں ، اس کے بعد اس کو ایک ”آئین و مکتب فکر“ قرار دیدیتے ہیں ، تاکہ دوسرے لوگوں کو حقائق سے اور خداوندعالم سے دور کردیں۔
یہ لوگ زمین پر فتنہ و فساد، نسل کشی، تباھی و بربادی اور قوم و ملت کو گناہ و معصیت میں آلودہ کرنے کے علاوہ کوئی ہدف ن ہیں رکھتے۔
(
وَإِذَا تَوَلَّی سَعَی فِی الْارْضِ لِیفْسِدَ فِیها وَیهلكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللهُ لاَیحِبُّ الْفَسَادَ
)
”اور جب آپ کے پاس سے منھ پھیر تے ہیں تو زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کھیتیوں اور نسلوں کو برباد کرتے ہیں جب کہ خدا فساد کو پسند ن ہیں کرتا ہے“۔
صھیونیزم کے رہنماوں نے اپنی ”پروٹوکل“ " Protocole "کتاب میں لکھا ہے: ھم نے ”داروین“، ”مارکس“ اور ”نیچہ “کی کامیابی کو ان ہیں نظریات پر بنیاد رکھی ہے، اور جس کے برے اثرات ھمارے لئے بھت واضح ہیں (جس کا اثر غیر یھودی لوگوں پر ہورھا ہے)
یھودیت کے اپنے تین دانشوروں : مارکس، فرویڈاور ڈرکائم کے ذریعہ ”داروین“ اور ”تدریجی ترقی“پیش کی گئی جس سے یورپ میں موجود فضیلت کو بالکل ختم کردیا ہے، ان تینوں دانشوروں نے ھمیشہ دین کی توھین کی ہے، ان لوگوں نے دین کی صورت کو بگاڑ کر بد صورت بنا کر پیش کیا ہے۔
ان لوگوں نے اپنے سے وابستہ دانشوروں کے نظریات کی بدولت کسی بھی انسانی فضیلت کو خراب کئے بغیرن ہیں چھوڑا، کیونکہ انھوں نے خالق کائنات کے رابطہ سے لے کرعالم ہستی نوع بشر کے تمام رابطوں کو فاسد او رتباہ و برباد کردیا ہے، ان ہیں خرافات میں بدل دیا ہے۔
ان کے اصلی انحرافات خدا کے بارے میں ہیں اسی طرح انسان کا خدا سے کیا تعلق ہے یااس کائنات کا خداسے اور خدا کا اس سے کیا ربط ہے، نیزانسان کا رابطہ دنیا سے اور دنیا کا رابطہ انسان سے کیا ہے، خلاصہ یہ کہ انھوں نے ان تمام چیزوں میں انحراف پیدا کردیا ہے۔
زندگی کا تصور، زندگی کے اہداف و مقاصد، انسانی نفس، ایک انسان کا دوسرے انسان سے رابطہ، بیوی شوھر کارابطہ اورمعاشرہ کا رابطہ غرض یہ کہ زندگی کے تمام پھلوؤں میں انحراف پیدا کرڈالا ہے۔
انھی غلط اور خطرناک انحرافات کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان کی حقیقی زندگی ہوائے نفس سے متاثر ہوگئی، انسان طاغوت کے سامنے جھک گیا ہے، شھوت میں گرفتار ہوگیا ہے، چنانچہ ھر روز فتنہ و فساد میں اضافہ ہوتا چلا جارھا ہے، اور ان ھلاک کنندہ فساد کی انتھا اس وقت ہوگی جب ”خدا“ کو بے تاثیر معبود قرار دیا جانے لگے گا اور دوسرے باطل معبودوں کو انسانی زندگی پر قبضہ ہوجائے گا۔
یہ لوگ (بقول خود)اپنی علمی چھلانگ کے ذریعہ اس جگہ پہنچ چکے ہیں کہ دنیا کے اکثر لوگوں کو یہ یقین کرادیا کہ اقتصاد، اجتماع اور تاریخ کی طاقت ہی انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے اور انسان کو اس کی مرضی کے بغیر اپنے تحت لے کر اس کو مسخر کرلیا ہے۔
ان بے بنیاد اور باطل گفتگو نے امریکہ اور یورپ میں بھت سے لوگوں خصوصاً جوانوں کو اس جگہ پہنچا دیا ہے کہ آج کل کے انسان کی زبان پر یہ نعرہ ہے:
”میں قید و بند کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہوں، مجھے اپنی مرضی سے اپنی زندگی کو منظم کرنا چاہئے!
میں اپنے عقائد اور طرز زندگی کو اپنی عقل کے لحاظ سے تنظیم کرنا چاھتا ہوں۔
میں اس وقت اور آئندہ کی زندگی کو مستقل طور پر اور خدا کی سرپرستی کے علاوہ ہی منظم کرنا چاھتا ہوں!“
چنانچہ انسان ان ہیں چیزوں کی وجہ سے خدا کی حمایت سے دور ہوتاجارھا ہے اور شیطان کے مکر و فریب میں پھنستا جارھا ہے ۔
اسی نظریہ اور غرور کی وجہ سے پوری دنیا میں ظلم و ستم کا بول بالا ہے، اور انسان مختلف غلامی کی ذلت میں گرفتار ہوگیا ہے بعض لوگ مال و دولت کے غلام، بعض لوگ حکومت کے غلام اور بعض لوگ ڈیکٹیٹری کے غلام اور بعض شھوت اور مستی کے غلام بن گئے ہیں ۔
اسی وجہ سے ساری دنیا میں فسق و فجور پھیلا ہوا ہے، اور تمام جوان لڑکوں اور لڑکیوں کو گناھوں کے کھنڈر میں گرادیا ہے۔
اسی انحراف کی وجہ سے انسان جنون کی حد تک پہنچ گیاھے اور ماڈرن ممالک کے ہسپتالوںمیں ان دیوانوں کے لئے جگہ ن ہیں ہے، دوسری طرف سے مڈرنیزم پرستی، فلم اور فلمی ستاروں اور دوسری شھوتوں نے انسان کو اپنی حقیقت کے بارے میں غور وفکر کرنے سے روک دیا ہے جس سے اس کی تمام عمر یونھی غفلت و تباھی میں برباد ہوتی جارھی ہے۔
اس منحوس زندگی کے نتائج نے (جس نے انسان کے ظاھر و باطن کو آلودگی، انحراف اور فسق و فجور میں غرق کردیا ہے) دنیا بھر کے بھت سے لوگوں کو مایوس کردیا ہے ان کی روح میں یاس و ناامیدی پیدا ہوگئی ہے، اپنی فطرت کو برداشت نہ کرتے ہوئے کھتے ہیں کہ انسان کے لئے اصلاح کا راستہ بند ہے اور اگر کھلا بھی ہو تو انسان میں اس راستہ پر چلنے کی طاقت ن ہیں ہے، اور نسبتاً اپنے سکون کے لئے کھتے ہیں : انسان اپنے تمام امور میں قضا و قدر اور جبر کاتابع ہے، یعنی انسان خودکچھ ن ہیں کرسکتا جیسا اس کی تقدیر میں ہوگا ویسا ہوکر ہی رہے گا۔
حقیقی اسلام کی ثقافت نے مذھب شیعہ اثناعشری میں ایک خاص روشنی پیدا کردی ہے، قرآنی آیات اور ائمہ علیھم السلام کی تعلیمات کے پیش نظر دلیل و حکمت او رمنطق و برھان کے ساتھ یہ اعلان ہوتا ہے کہ کسی بھی انسان کے لئے ”اصلاح کا راستہ “بند ن ہیں ہے اور قیامت تک کسی بھی انسان کے لئے بند ن ہیں ہوگا، نیز اس راستہ پر چلنا ھر خاص و عام کے لئے ممکن ہے، اگرچہ مختلف گناھوں سے آلودہ ہوں، اور انسان کے اعمال و عقائد اور اس کا اخلاق قضا و قدر کے تابع ن ہیں ہے، بلکہ انسان اپنے اختیار سے سب کچھ کرتا ہے۔
قارئین کرام! انسان کی خیر و بھلائی، پاکیزگی اور پاکدامنی کے لئے دینی تعلیمات کی طرف ایک اشارہ کرنا مناسب ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے ایک شخص سے فرمایا:
”اِنَّكَ قَدْ جُعِلْتَ طَبِیبَ نَفْسِكَ، وَبُینَ لَكَ الدّاءُ، وَعُرِّفْتَ آیةَ الصِّحَّةِ، وَ دُلِلْتَ عَلَی الدَّوَاءِ، فَانْظُرْكَیفَ قِیامُكَ عَلَی نَفْسِكَ
“
”بے شک تم اپنے کو ایک طبیب کی طرح قرار دو، تم ہیں مشکلات اور مرض کے بارے میں بتادیا گیا، اور صحت کی نشانیوں کو بھی بیان کردیا گیا ہے، تمھاری دوائی بھی بتادی گئی ہے، لہٰذا نتیجہ کے بارے میں غور و فکر کرو کہ کس طرح اپنی حالت کی اصلاح کے لئے قدم بڑھاسکتے ہو“۔
جی ھاں انسان اپنی حالت سے خوب واقف ہے اس کا درد باطل عقائد، شیطانی بد اخلاقی اور غیر صالح اعمال ہیں جن کی تفصیل قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے، صحیح ایمان، اخلاق حسنہ، باطنی سکون اورعمل صالح یہ تمام چیزیں سلامتی اور صحت کی نشانی ہیں ، توبہ و استغفار، تقويٰ، عفت اور گناھوں سے مقابلہ ان تمام دردوں کی دوا ہے، لہٰذا انسان کو ان تمام حقائق کے ذریعہ مدد حاصل کرتے ہوئے اپنی اصلاح کے لئے قدم اٹھانا چاہئے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اپنے آباء و اجداد علیہم السلام کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام سے فرمایا:
”یاعَلِی، اَفْضَلُ الْجِهَادِ مَنْ اَصْبَحَ لاَ یهُمُّ بِظُلْمِ اَحَدٍ
“
”یا علی! سب سے بھتر اور افضل جھاد یہ ہے کہ انسان صبح اٹھے تو کسی پر ظلم و ستم کا ارادہ نہ رکھتا ہو“۔
اگر انسان ھر روز گھر سے باھر نکلتے وقت کسی شخص پر یھاں تک کہ اپنے دشمن پر بھی ظلم کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو اور ان کی نسبت خیر و نیکی کی نیت ہو اور لوگوں کی خدمت کے علاوہ کوئی دوسرا قصد نہ ہو تو پھر اگر یھی صورت حال رھی تو انسان کے اندر نور ایمان پیدا ہوجاتا ہے اور ظاھری اصلاح و نیکی سے مزین ہوجاتا ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
”مَنْ مَلَكَ نَفْسَهُ اِذَارَغِبَ، وَاِذَا رَهِبَ، وَاِذَا شْتَهَيٰ، وَاِذَا غَضِبَ، وَاِذَا رَضِی، حَرَّمَ اللهُ جَسَدَهُ عَلَی النَّارِ
“
”اگر انسان رغبت، خوف، خواہشات، غیظ و غضب اور خوشی و غم کے وقت اپنے کو گناہ و معصیت اور ظلم و ستم سے محفوظ رکھے تو خداوندعالم اس کے بدن کو آتش دوزخ پر حرام کردیتا ہے“۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے:
”نَبِّهْ بِالتَّفَكُّرِ قَلْبَكَ، وَجَافِ عَنِ اللَّیلِ جَنْبَكَ، وَاتَّقِ اللهَ رَبَّكَ
“
”اپنے دل کو غور و فکر کے ذریعہ بیدار رکھو، رات کو عبادت کرو، اور زندگی کے تمام امور میں تقويٰ الٰھی اختیار کرو“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
”اَلتَّفَكُّرُ یدعُوا اِلَی الْبِرِّ وَالْعَمَلِ بِهِ
“
”تمام امور میں تفکر اور غور و فکر کرنے سے انسان میں نیکی اور عمل صالح کا جذبہ پیدا ہوتا ہے“۔
ایک شخص نے امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: مجھے اخلاقی کر امت اور شرافت تعلیم فرمائیں، تو اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا:
”اَلْعَفْوُ عَمَّنْ ظَلَمَكَ، وَصِلَةُ مَنْ قَطَعَكَ، وَاِعْطَاءُ مَنْ حَرَمَكَ، وَ قَوْلُ الْحَقِّ وَلَوْ عَلَی نَفْسِكَ
“
”جس نے تجھ پر ظلم کیا ہو اس کو بخش دے اور جس نے تجھ سے قطع تعلق کیا ہو اس سے صلہ رحم کر، جس نے تجھے محروم کردیا ہو اس کو عطا کر، اور حق بات کہہ اگرچہ تیرے لئے نقصان دہ ثابت ہو“۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
اگر کسی کے لئے بُرے کام یا حرام طریقہ سے شھوت بجھانے کا موقع آجائے لیکن خوف خدا کی وجہ سے اس کام سے اجتناب کرے تو خداوندعالم (بھی) اس پر آتش جہنم کو حرام کردیتا ہے، اور روز قیامت کی عجیب و غریب وحشت سے نجات دیدیتا ہے، اور اپنی کتاب میں دئے ہوئے وعدہ کو وفا کرتا ہے کہ جھاں ارشاد ہوتا ہے: ”جو شخص اپنے پروردگار سے ڈرتا ہے اس کے لئے دو جنت ہیں “۔
جان لو! کہ اگر کسی شخص نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی تو روز قیامت اس حال میں خدا سے ملاقات کرے گا کہ عذاب الٰھی سے نجات دلانے والی کوئی نیکی اس کے پاس نہ ہوگی، لیکن اگر کوئی آخرت کو دنیا پر ترجیح دے اور فنا ہونے والی دنیا کو اپنا معبود قرار نہ دے تو خداوندعالم اس سے راضی و خوشنود ہوجاتا ہے اور اس کی برائیوںکو بخش دیتا ہے۔
راوی کھتا ہے کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا:
”قَوْمٌ یعْمَلُوْنَ بِالْمَعَاصِی وَ یقُولُونَ :نَرْجُو، فَلاَ یزالُونَ كَذَلِكَ حَتَّی یاتِیهُم الْمَوتُ !فَقَالَ:هٰولاَءِ قَومٌ یتَرَجَّحُوْنَ فِی الْاَمَانِی، كَذَبُوا، لَیسُوا بِراجینَ، اِنَّ مَنْ رَجَا شَیئاً طَلَبَهُ، وَمَنْ خَافَ مِنْ شَیءٍ هَرَبَ مِنْهُ
“
”ایک گروہ، گناھگار اور اھل معصیت ہے لیکن وہ لوگ کھتے ہیں کہ ھم ان گناھوں کے باوجود بھی امید وار ہیں ، اور اسی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور اسی حالت میں مرجاتے ہیں ! امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ لوگ امید کے اھل ن ہیں ہیں ، کیونکہ کسی چیز کی امید کرنے والا شخص اس سلسلہ میں کوشش کرتا ہے اور جس چیز سے ڈرتا ہے اس سے دور بھاگتا ہے“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے درج ذیل آیت کے بارے میں فرمایا:
(
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ
)
۔
”مَنْ عَلِمَ اَنَّ اللهَ یرَاهُ، وَ یسْمَعُ مَایقُولُ، وَیعْلَمُ مَا یعْمَلُهُ مِنْ خَیرٍاَوْ شَرٍّ، فَیحْجُزُهُ ذَلِكَ عَنِ الْقَبِیحِ مِنَ الاَعْمَالِ، فَذَلِكَ الَّذِی خاَفَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الهَويٰ
“۔
”جو شخص جانتا ہے کہ خدا مجھے دیکھتا ہے اور جو کچھ میں کھتا ہوں اس کو سنتا ہے، اور جو نیکی یا برائی انجام دیتا ہوں اس کو دیکھتا ہے، چنانچہ یھی توجہ اس کو برائیوں سے روکتی ہے، اور ایسا شخص ہی عظمت خدا سے خوف زدہ اور اپنے نفس کو ہوا و ہوس سے روکتا ہے“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے عمرو بن سعید سے فرمایا:
”اُوصِیكَ بِتَقَوی اللهِ وَالْوَرَعِ وَالاِجْتِهادِ، وَاعْلَمْ اَنَّهُ لاَ ینْفَعُ اِجْتِهادٌ لاَ وَرَعَ فِیهِ
“
”میں تم کو تمام امور میں تقويٰ الٰھی، گناھوں سے دوری، عبادت میں کوشش، اور خدمت خلق کی سفارش کرتا ہوں، جان لو کہ جس کوشش میں گناھوں سے دوری نہ ہوں اس کا کوئی فائدہ ن ہیں ہے“۔
امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے:
”عَلَیكَ بِتَقْوَی اللهِ، وَالْوَرَعِ، وَالاِجْتِهَادِ، وَ صِدْقِ الْحَدِیثِ، وَاَدَاءِ الاَمَانَةِ، وَ حُسْنِ الْخُلْقِ، وَحُسْنِ الْجِوَارِ، وَكُونُوا دُعاةً اِلَی اَنْفُسِكُمْ ِبغَیرِ اَلْسِنَتِكُمْ، وَكُونُوا زَیناً وَلاَتَكُونُوا شَیناً، وَعَلَیكُمْ بِطُولِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، فَاِنَّ اَحَدَكُمْ اِذَااَطالَ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ هَتَفَ اِبْلِیسُ مِنْ خَلْفِهِ وَقاَلَ:یا وَیلَهُ، اَطَاعَ وَ عَصَیتُ، وَسَجَدَ وَاَبَیتُ
“
”تمام امور میں تقويٰ الٰھی اختیار کرو، گناھوں سے بچو، عبادت خدا اور خدمت خلق میں کوشش کرتے رھو، صداقت و امانت کا لحاظ رکھو، حسن خلق اپناؤ، پڑوسیوں کا خیال رکھو، اپنی زبانوں کے علاوہ اپنی نفسوں کے ذریعہ بھی دین حق کی دعوت دو، دین کے لئے باعث زینت بنو، دین کے لئے ذلت کا
باعث ن ہیں ، نمازوں میں اپنے رکوع و سجود طولانی کرو، ایسا کرنے سے شیطان فریاد کرتا ہے: ھائے افسوس! یہ شخص اطاعت کررھا ہے، اور میں نے خدا کی مخالفت کی، یہ سجدہ کررھا ہے اور میں نے ن ہیں کیا!
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امیر المومنین علیہ السلام سے فرمایا:
”ثَلاثَةٌ مَنْ لَقِی اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ بِهِنَّ فَهُومِنْ اَفْضَلِ النَّاسِ :مَن اَتَی اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ بِمَا افْتَرَضَ عَلَیهِ فَهُوَ مِنْ اَعْبَدِ النَّاسِ، وَمَنْ وَرِعَ عَنْ مَحارِمِ اللّٰهِ فَهُوَمِنْ اَوْرَعِ النّاسِ، وَمَنْ قَنَعَ بِمَا رَزَقَهُ اللّٰهُ فَهُوَ مِنْ اَغْنَی النَّاسِثُمَّ قالَ:یا عَلِی! ثَلاثٌ مَنْ لَمْ یكُنَّ فِیهِ لَمْ یتِمَّ عَمَلُهُ:وَرَعٌ یحْجُزُهُ عَنْ مَعاصِی اللّٰهِ، وَخُلْقٌ یداری بِهِ النَّاسَ، وَحِلْمٌ یرُدُّ بِهِ جَهْلَ الْجاهِلِ - اِليٰ اَنْ قَالَ - یاعَلِی!الِاسْلامُ عُرْیانٌ، وَلِباسُهُ الْحَیاءُ، وَ زِینَتُهُ الْعِفافُ، وَمُرُوَّتُهُ الْعَمَلُ الصّالِحُ، وَعِمادُهُ الْوَرَعُ
“
”جو شخص تین چیزوں کے ساتھ خدا سے ملاقات کرے گا وہ بھترین لوگوں میں سے ہوگا، جو شخص اپنے اوپر واجب چیزوں پر عمل کرے گا، وہ بھترین لوگوں میں سے ہوگا، اور جو شخص خدا کی حرام کردہ تمام چیزوں سے پرھیز کرے گا وہ بندوںمیں پارسا ترین شخص ہوگا، اور جو شخص خدا کی عطا کردہ روزی پر قناعت کرے گا، وہ سب سے بے نیاز شخص ہوگا، اس کے بعد فرمایا: یا علی! جس شخص میں یہ تین چیزیں نہ ہوں اس کا عمل تمام ن ہیں ، انسان میں ایسی طاقت نہ ہو جس کو گناھوں کی رکاوٹ میں لگاسکے، اور ایسا اخلاق نہ ہو جس سے لوگوں کے ساتھ نیک سلوک کرسکے، اور ایسا حلم اور حوصلہ نہ ہو جس سے جاھل کے جھل کو خود اس کی طرف پلٹادے، یھاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: یاعلی! اسلام برہنہ اور عریان ہے اس کا لباس حیاء، اس کی زینت عفت و پاکدامنی، اور اس کی شجاعت عمل صالح اور اس کے ستون ورع اورتقويٰ ہیں “۔حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :
”اِنَّ اَفْضَلَ الْعِبَادَةِ عِفَّةُ الْبَطْنِ وَالْفَرْجِ
“
”بے شک شکم و شھوت کو (حرام چیزوں) سے محفوظ رکھنا بھترین عبادت ہے“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
”اِنَّمَا شِیعَةُ جَعْفَرٍ مَنْ عَفَّ بَطْنُهُ وَ فَرْجُهُ، وَاشْتَدَّ جِهادُهُ وَعَمِلَ لِخالِقِهِ، وَرَجا ثَوابَهُ، وَخَافَ عِقابَهُ، فَاِذا رَایتَ اولٰئِكَ، فَاولٰئِكَ شِیعَةُ جَعْفَرٍ
“
”بے شک جعفر صادق کا شیعہ وہ ہے جو شکم اور شھوت کو حرام چیزوںسے محفوظ رکھے، راہ خدا میں اس کی سعی و کوشش زیادہ ہو، صرف خدا کے لئے اعمال انجام دے، اس کے اجر و ثواب کا امیدوار اور اس کے عذاب سے
خوف زدہ رہے ، اگر ایسے لوگوں کو دیکھو تو کھو وہ جعفرصادق کے شیعہ ہیں “۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے:
”لاَ تَزالُ اُمَّتِی بِخَیرٍ ما تَحابُّوا وَ تَهادَوْا وَاَدُّواالاَمانَةَ، وَاجْتَنبُوا الحَرامَ، وَ قَرَوُالضَّیفَ، وَاَقامُوا الصَّلاةَ، وَآتُواالزَّکاةَ، فَاِذَا لَمْ یفْعَلُواذٰلِكَ ابْتُلُوبِالْقَحْطِ وَالسِّنینَ
“
”جب تک میری امت میں یہ اعمال باقی ر ہیں گے اس وقت تک ان پرکوئی مصیبت نازل نہ ہوگی: ایک دوسرے سے محبت کرنا، ایک دوسرے کو ہدیہ دینا اور دوسروں کی امانت ادا کرنا، حرام چیزوں سے پرھیز کرنا، مھمان کی مھمان نوازی کرنا، نماز قائم کرنا، زکوٰة ادا کرنا، لیکن ان چیزوں کے نہ ہونے کی صورت میں میری امت قحط اور خشک سالی میں مبتلا ہوجائے گی“۔
قارئین کرام! گزشتہ احادیث کے مطالعہ کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اصلاح کا راستہ ھمیشہ ھر شخص کے لئے کھلا ہے، اور اس نورانی راستہ پر چلنا ھر شخص کے لئے ممکن ہے، انسان اپنے عمل، اعتقاد اور اخلاق میں مجبور ن ہیں ہے، انسان اپنے اختیار سے پاک نیت اور مصمم ارادہ کے ذریعہ مذکورہ بالا احادیث میں بیان شدہ خوبیوں سے مزین ہوسکتا ہے، ان تمام برائیوں اور شیطانی صفات کو چھوڑتے ہوئے ان تمام خیر و نیکی اور معنوی خوبیوںسے آراستہ ہوسکتا ہے، اور اپنے ھاتھوں سے البتہ خدا کی نصرت و مدد کے ساتھ ساتھ اخلاقی برائیوں اور برے اعمال کو ظاھری و باطنی نیکیوں میں تبدیل کرے، کیونکہ جوشخص بھی اصلاح کا راستہ اپناتا ہے تو خداوندعالم بھی اس کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کرنے میں مدد کرتا ہے، اور جب برائیوں کی جگہ نیکیاں آجاتی ہیں تو پھر اس کی تمام گزشتہ برائیاں بخش دی جاتی ہیں ۔
(
إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاوْلَئِكَ یبَدِّلُ اللهُ سَیئَاتِهم حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِیمًا
)
۔
”علاوہ اس شخص کے جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل بھی کرے تو پروردگار اس کی برائیوں کو اچھائیوں سے تبدیل کردے گا اور خدا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ہے“۔
(
إِلاَّ مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ فَإِنِّی غَفُورٌ رَحِیمٌ
)
۔
”ھاں کوئی شخص گناہ کر نے کے بعد توبہ کر لے اور اپنی برائی کو نیکی سے بد ل دے، تو میں بخشنے والا مھربان ہوں“۔
اصلاح نفس سے متعلق مسائل کے عناوین
تمام لوگوں کی نسبت خیرو نیکی کی نیت رکھنا، رغبت، خوف، خواہش، خوشی اور غم کے وقت پرھیزگاری کرنا۔
تمام امور اور انجام کار کے بارے میں غور و فکر کرنا، عبادت کے لئے شب بیداری، تقويٰ و پرھیزگاری اختیار کرنا، ظلم و ستم کرنے والے سے چشم پوشی کرنا، جس نے قطع تعلق کرلیا ہو اس سے صلہ رحم کرنا، جس نے احسان نہ کیا ہو اس کے ساتھ احسان کرنا، گناھوں کو ترک کرنے کے ساتھ ساتھ خوف خدا اس دنیا کے ظاھر و باطن پر خدا کی حفاظت پر توجہ رکھنا، (کس طرح خدا انسان یا دوسری مخلوق کی حفاظت فرماتا ہے) عفت اورپاکدامنی، عبادت خدا اور خدمت خلق میں کوشش کرنا، صداقت، ادائے امانت اور خوش عادت ہونا، پڑوسیوں کا خیال رکھنا، خوبیوں اور نیکیوں سے آراستہ ہونا، طولانی رکوع اور سجدہ کرنا، حلال روزی پر قناعت کرنا، اپنی رفتار و گفتار میں نرم رویہ پیدا کرنا، حلم و حوصلہ، حیاء اور عفت سے کام لینا، نیک اور صالح عمل انجام دینا، شکم اور شھوت کے میدان باعفت رہنا، رضائے الٰھی کے لئے نیک عمل انجام دینا، ذات خدا سے امیدرکھنا، عذاب الٰھی سے خوف زدہ رہنا، ایک دوسرے سے محبت کرنا، ایک دوسرے کی ہدایت کرنا، برائیوں سے دور رہنا، مھمان کی عزت کرنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰة کا ادا کرنا۔
البتہ یہ عناوین گزشتہ احادیث میں بیان ہونے والے اصلاح کے راستہ سے متعلق ہیں جن کی فھرست ھم نے یھاں بیان کی ہے، اگر ھم اپنی، اھل خانہ اور معاشرہ کی اصلاح کے سلسلہ میں بیان ہونے والی تمام احادیث سے عناوین کو جمع کریں تو واقعاً ایک ضخیم کتاب بن جائے گی۔
اگر انسان اپنے ارادہ و اختیار سے خود کو ان تمام نیکیوں سے مزین اور آراستہ کرلے اور برے صفات خصوصاً مال حرام، مقام حرام اور شھوت حرام سے محفوظ کرلے تواس کو دنیا و آخرت میں فائدہ ہی فائدہ نصیب ہوگا۔
اس سلسلہ میں متقی و پرھیزگار افراد کو زندگی کے بعض پھلوؤں میں ہونے والے عظیم الشان فائدوں کی طرف اشارہ کیا جائے تو ممکن ہے خیر و سعادت حاصل کرنے والوں کے لئے ہدایت کا سبب بن جائے۔
ابن سیرین اور خواب کی تعبیر
ابن سیرین کا نام محمد بن سیرین بصری ہے، وہ خواب کی تعبیر کے سلسلہ میں ایک عجیب و غریب طاقت کا مالک تھا اس کی تعبیر خواب کا سر چشمہ ذوق سالم اور بلند فکر تھی۔
خواب کو انسان سے مطابقت کرتا تھا، اور خواب کی تعبیر میں قرآن مجید اور احادیث سے الھام لیتا تھا۔
اس کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ایک شخص نے اس سے معلوم کیا: خواب میں اذان کہنے کی تعبیر کیا ہے؟ تو اس نے کھا: حج سے مشرف ہونا، دوسرے شخص نے اسی خواب کی تعبیر پوچھی تو کھا: چوری کرنا، لیکن جب اس سے ایک خواب کی دو مختلف تعبیروں کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس نے کھا: میں نے پھلے شخص کو دیکھا تو وہ ایک نیک اور صالح شخص دکھائی دیاتو اس کے خواب کی تعبیر کو اس آیت سے حاصل کیا:(
وَاذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَج
)
۔۲۴۷ لیکن دوسرے شخص کا چھرہ صحیح ن ہیں تھا لہٰذا اس کے خواب کی تعبیر میں اس آیت سے الھام لیا:(
اذَّنَ مُؤَذِّنٌ ایتُها الْعِیرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ
)
۔
ابن سیرین کھتا ہے:بازار میں میری کپڑے کی دکان تھی، ایک خوبصورت عورت کپڑا خریدنے کے لئے میری دکان پر آئی، جبکہ میں یہ ن ہیں جانتا تھا کہ یہ عورت میری جوانی اور جمال کی عاشق ہوگئی ہے، تھوڑا کپڑا مجھ سے خریدا اور اپنی گٹھری میں رکھ لیا، اور اچانک کہنے لگی: اے کپڑا فروش! میں گھر سے پیسے لانا بھول گئی، یہ گٹھری لے کر تم میرے گھر تک چلو وھاں پر اپنے پیسے بھی لے لینا! مجھے مجبوراً اس کے گھر تک جانا پڑا، گھر کی چوکھٹ پر مجھے بلایا اور جیسے ہی میں نے اندر قدم رکھا اس نے فوراً دروازہ بند کرلیا، اس نے اپنے کپڑے اتار پھینکے اور اپنے جمال و خوبصورتی کو میرے لئے ظاھر کردیا، او رکھا: ایک مدت سے تیرے جمال کی عاشق ہوں، اپنے وصال کے لئے میں نے یھی راستہ اختیار کیا ہے، اس وقت یھاں پر تیرے اور میرے علاوہ کوئی ن ہیں ہے، لہٰذا میری آرزو پوری کردے ورنہ تجھے ذلیل کردوں گی۔
میں نے اس سے کھا: خدا سے ڈر، اور زنا سے دامن آلودہ نہ کر، زنا گناہ کبیرہ ہے، جو جہنم میں جانے کا سبب ہے۔ لیکن میری نصیحت کا کوئی فائدہ نہ ہوا، میرے وعظ کا کوئی اثر نہ ہوا، اس موقع پر میں نے بیت الخلا جانے کی اجازت مانگی، اس نے سوچا واقعاً قضائے حاجت کے لئے جارھا ہے لہٰذا اس نے چھوڑدیا۔ میں بیت الخلاء میں گیا اور اپنے ایمان اور آخرت اور انسانیت کو محفوظ کرنے کے لئے نجاست کو اپنے پورے بدن پر مل لیا، جیسے ہی اس حالت میں بیت الخلاء سے نکلا، فوراً ہی اس نے گھر کا دروازہ کھولا اور مجھے باھر نکال دیا، میں ایک جگہ گیا اور نھایا دھلا، میں نے اپنے دین کی خاطر تھوڑی دیر کے لئے بدبو دار نجاست کو اپنے بدن پر ملا، اس کے بدلے میں خداوندعالم نے بھی میری بُو کو عطر کے مانند کردیا اور مجھے تعبیر خواب کا علم مرحمت فرمایا۔
خداداد بے شمار دولت اور علم
عظیم الشان اصولی فقیہ، علم و عمل اور عبادت میں مشھور شخصیت حجة الاسلام شفتی سید کے نام سے مشھور، اپنی ابتدائے تعلیم کے دوران نجف اشرف میں زندگی بسر کیا کرتے تھے، بھت زیادہ غربت اور پریشانی کی زندگی تھی، اکثر اوقات ایک وقت کے کھانے کے لالے پڑجاتے تھے، نجف اشرف میں رہنا ان کے لئے مشکل تھا، لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود تحصیل علم کے لئے حوزہ اصفھان گئے جو اس موقع پر شیعوں کاایک پُر رونق حوزہ تھا لیکن وھاں پر بھی مشکلات اور پریشانیوں میں مبتلا رہے ۔
ایک روزان کے لئے ان کے لئے ک ہیں سے کچھ پیسہ آیا، اھل و عیال کے کھانے کے انتظام کے لئے بازار گئے، انھوں نے سوچا کہ اپنی اور اھل و عیال کی بھوک مٹانے کے لئے کوئی سستی سی غذا خریدیں۔
ایک قصائی کی دکان سے ایک جگر خریدا اور خوشی خوشی گھر کی جانب روانہ ہوگئے۔
راستہ میں ایک ٹوٹے پھوٹے مکان کی طرف سے گزر ہوا دیکھا کہ ایک ضعیف اور کمزور سی کتیا زمین پر پڑی ہوئی ہے، اور اس کے چند پلّے اس کے سینہ سے چپکے ہوئے ہیں اور دودھ مانگ رہے لیکن اس بھوکی اور کمزور کتیا کے پستان میں دودھ ن ہیں ہے۔
کتیا کی حالت دیکھ کراور اس کے بچوں کی فریاد سن کر سید کھڑے ہوگئے، جبکہ خود موصوف اور ان کے اھل و عیال کو بھی اس غذا کی ضرورت تھی لیکن انھوں نے خواہش نفس پر کوئی توجہ ن ہیں کی اور تمام جگر اس کو کھلادیا، اس کتیا نے اپنی دم ھلائی اور اپنا سر آسمان کی طرف بلند کیا گویا خداوندعالم کی بارگاہ میں اپنی بے زبانی سے اس محسن اور ایثار گر کے حق میں دعا کررھی ہے۔
سید فرماتے ہیں : اس کتیا اور اس کے بچوں پر رحم کئے ہوئے زیادہ وقت ن ہیں گزرا تھا کہ ”شفت“ کے علاقہ سے بھت سا مال میرے پاس لایا گیا، اور کھا: وھاں کے رہنے والے ایک شخص نے ایک صاحب کو کاروبار کرنے کے لئے پیسہ دیا اور اس سے کھا: اس کا فائدہ سید شفتی کے لئے بھیج دیا جائے، اور میرے مرنے کے بعد میرا سارا مال اور اس کے تمام منافع سید کے پاس بھیج دیئے جائےں، اس میں مال کا منافع سید کے ذاتی اخراجات کے لئے اور اصل مال ان کی مرضی کے مطابق خرچ کیا جائے!
سید نے اپنے سے متعلق مال کو تجارت میں لگادیا اور اس کے فائدے سے کچھ زمین و باغات خریدے، موصوف اس کے منافع سے غریبوں کی امداد اور طلباء کو شھریہ دیا کرتے تھے، نیز لوگوں کی مشکلات کو دور فرماتے تھے، اور ایک عظیم الشان مسجد بنائی جو آج کل اصفھان کی ایک آباد اور سید کے نام سے مشھور ہے، موصوف کی قبر بھی اسی مسجد کے کنارے ایک پُر رونق مقبرہ میں ہے۔
ایک پرھیزگار اور بیدار جوان
قبیلہ انصار سے ایک شخص کھتا ہے: گرمی کے دنوں میں ایک روز رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک درخت کے سایہ میں بیٹھا ہوا تھا، ایک شخص آیا جس نے اپنا کرتہ اتار دیا، اور گرم ریت پر لوٹنا شروع کردیا، کبھی پیٹھ کے بل اور کبھی پیٹ کے بل اور کبھی اپنا چھرہ گرم ریت پر رکھتا ہے اور کھتا ہے: اے نفس! اس گرم ریت کا مزہ چکھ، کیونکہ خداوندعالم کا عذاب تو اس سے ک ہیں زیادہ سخت ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس واقعہ کو دیکھ رہے تھے، جس وقت وہ جوان وھاں سے اٹھا او راس نے اپنے کپڑے پہن کر ھماری طرف دیکھ کر جانا چاھا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کوھاتھ کے اشارے سے بلایا، جب وہ آگیا تو آنحضرت نے اس سے فرمایا: اے بندہ خدا! میں نے اب تک کسی کو ایسا کام کرتے ن ہیں دیکھا اس کام کی وجہ کیا ہے؟ تو اس نے عرض کیا: خوف خدا، میں نے اپنے نفس سے یھی طے کرلیا ہے تاکہ شھوت اور طغیان سے محفوظ رہے !
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: تو نے خدا سے ڈرنے کا حق ادا کردیا ہے خداوندعالم تیرے ذریعہ اھل آسمان پرفخر و مباھات کرتا ہے، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: سب لوگ اپنے اس دوست کے پاس جمع ہوجاؤ تاکہ یہ تمھارے لئے دعا کردے، سب اصحاب جمع ہوگئے تو اس نے اس طرح سے دعا کی:
”اَللّٰهُمَّ اجْمَعْ اَمْرَنا عَلَی الْهُديٰ وَاجْعَلِ التَّقْويٰ زادَنا وَالْجَنَّةَ مَآبَنا
“
”پالنے والے! ھماری زندگی ہدایت پر گامزن رکھ، تقويٰ کو ھماری زادہ راہ، اور بہشت کو ھماری جایگاہ بناد ے“۔
ایک جوان عابد اور گناہ کے خطرہ پر توجہ
حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : بنی اسرائیل کی ایک بدکار عورت نے ایک جوان کو گمراہ کرنا چاھا، بنی اسرائیل کے بھت سے لوگ کھتے تھے: اگر فلاں عابد اس عورت کو دیکھے گا تو عبادت چھوڑ دے گا، جیسے ہی اس بدکار عورت نے ان کی باتوں کو سنا تو کہنے لگی: خدا کی قسم میں اس وقت تک اپنے گھر نہ جاؤں گی جب تک کہ اس کو گمراہ نہ کردوں، چنانچہ رات گئے اس عابد کے دروازہ پر آئی اور دروازہ کھٹکھٹایا لیکن اس عابد نے دروازہ نہ کھولا، وہ عورت چلائی او رکھا: مجھے اندر آنے دے، لیکن اس نے نہ کھولا، اس عورت نے کھا: بنی اسرائیل کے کچھ جوان مجھ سے بُرا کام کرنا چاھتے ہیں اگر تو مجھے پناہ ن ہیں دے گا تو میں ذلیل و رسوا ہوجاؤں گی!
جیسے اس عابد نے یہ آواز سنی دروازہ کھول دیا، وہ عورت جیسی ہی اس کے گھر میں آئی تو اس نے اپنے کپڑے اتار دئے، اس عابد نے جیسے ہی اس کی زیبائی اور خوبصورتی کو دیکھا تو وسوسہ میں پڑگیا، اس کے بدن پر ھاتھ رکھا اور پھر ایک گھری سوچ میں پڑگیا، کچھ دیر سوچ کرچولھے کی طرف گیا اور آگ میں اپنا ھاتھ ڈال دیا، وہ عورت پکاری: ارے تو کیا کرتا ہے؟ اس نے کھا: جو ھاتھ نامحرم کے بدن تک پہنچا ہے اس کو جلانا چاھتا ہوں، چنانچہ یہ دیکھ کر وہ عورت بھاگ گھڑی ہوئی اور بنی اسرائیل کے لوگوں کے پاس جاکر کھا: دوڑو اور اس جوان کو پچاؤ کیونکہ اس نے اپنا ھاتھ آگ میں رکھ دیا ہے، جیسے ہی لوگ دوڑے تو دیکھا کہ اس کا ھاتھ جل چکا ہے۔
پوریائے ولی لیکن اپنے نفس سے جنگ کرنے والا
پوریائی ایک قدرتمند اور زبردست پھلوان تھا جس نے اپنے زمانہ کے تمام پھلوانوں سے کشتی لڑی اور سب کو پچھاڑ ڈالاتھا، جس وقت وہ اصفھان میں پہنچاتو اس نے اصفھان کے بھی تمام پھلوانوں سے کشتی لڑی اور سبھی پر فاتح رھا، چنانچہ اس نے شھر کے پھلوانو ں سے درخواست کی کہ میرے بازو پر بندھے ہوئے بازوبند پر مھر لگا کر میری پھلوانی کا اقرار کرتے ہوئے دستخط کرو تو شھر کے پھلوانوں کے رئیس کے علاوہ سب نے دستخط کردئے چونکہ اس نے ابھی تک اس سے کشتی ن ہیں لڑی تھی اس نے کھا کہ میں پوریا سے کشتی لڑوں گا اگر اس نے مجھے ھرادیا تب وقت دستخط کروں گا۔ میدان ”عالی قاپو میں جمعہ کے روز کشتی کا پروگرام رکھا گیا تاکہ اس بے نظیر کشتی کو دیکھنے کے لئے لوگ جمع ہوسکیں، شب جمعہ پوریا ئی نے دیکھا کہ ایک بُڑھیاحلوا بانٹ رھی ہے اور التجا کے انداز میں کہہ رھی ہے: یہ حلوا کھاؤ او رمیرے لئے دعا کرو کہ خداوندعالم میری حاجت پوری کردے۔
پوریائی نے پوچھا! ماں تیری حاجت کیا ہے؟ اس نے کھا: میرا بیٹا اس شھر کا سب سے بڑا پھلوان ہے، وہ میری اور اپنے اھل و عیال کے لئے روزی لاتا ہے، کل اس کی کشتی پوریائی سے ہے، کچھ لوگ اس کی مدد کرتے ہیں لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر وہ کشتی ھار گیا تو ک ہیں وہ لوگ اس کو پیسہ دینا بند نہ کردیں اور ھماری زندگی سختی اور پریشانی میں گزرنے لگے!
پوریائی نے اسی وقت یہ ٹھان لی کہ شھر اصفھان کے مشھور پھلوان کو زیر کرنے کے بجائے اپنے نفس کو زیرکرے گا، چنانچہ اسی نیت سے اس نے کشتی لڑنا شروع کی، جس وقت کشتی ہونے لگی، تو اس نے اندازہ لگالیا کہ ایک وار میں اس کو زمین پر گرا سکتا ہے، لیکن اس نے اس طرح کشتی لڑی کہ خود اس پھلوان سے ھارگیا تاکہ چند لوگوں کی روزی روٹی بند نہ ہونے پائے، اس کے علاوہ اس بُڑھیا کے دل کو بھی خوش کردے، اور خود بھی رحمت الٰھی کا مستحق ہوجائے۔
آج بھی اس کا نام تاریخ پھلوانی میں ایک بلند انسان، شجاع اور بخشش کرنے والے کے نام سے باقی ہے، اس کی قبر گیلان میں ہے، اور لوگ اس کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے لئے جاتے ہیں ۔
جن لوگوں نے ہوائے نفس اور ہوا و ہوس سے جنگ کی ہے اور بلند و بالا منصب اور ملکوتی درجات پرپہنچے ہیں ، ان کا نام قرآن، حدیث اور تاریخ میں بیان ہوا ہے ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر ان سب کے حالات کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو واقعاًچند جلد کتاب ہوجائے ۔
ھوائے نفس اور حرام شھوت سے مقابلہ کے سلسلہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام بھت سی احادیث بیان ہوئی ہیں ، جن میں چند کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہے۔
حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : خدا وندعالم کا فرمان ہے:
”وَعَزَّتِی وَجَلَالِی وَ عَظَمَتی وَبَهائِی وَعُلُوِّارْتِفاعِی، لَایوثِرُ عَبْدٌ مُومِنٌ هَوای عَليٰ هَواهُ فِی شَیءٍ مِنْ اَمْرِالدُّنْیا اِلاَّ جَعَلْتُ غِناهُ فِی نَفْسِهِ، وَهِمَّتَهُ فِی آخِرَتِهِ، وَضَمَّنْتُ السَّماواتِ وَالْاَرْضَ رِزْقَهُ، وَكُنْتُ لَهُ مِنْ وَراءِ تِجارَةِ كُلِّ تاجِرٍ
“
”مجھے اپنی عزت و جلال، بزرگی و حسن اور بلند و بالا مقام کی قسم کوئی بھی میرا بندہ اپنی خواہشات پر میری مرضی کو مقدم ن ہیں کرے گا مگر یہ میں اس کو بے نیاز بنادوں گا، اور اس کی ھمت و قصد کو آخرت کی طرف موڑ دوں گا، زمین و آسمان کو اس کی روزی کا کفیل بنادوں گا، اور خود میں اس کے لئے ھر تاجر کی تجارت سے بھتر منافع عطا کروں گا“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
”اِذاکاَنَ یوْمَ القِیامَةِ تَقومُ عُنُقٌ مِنَ النَّاسِ فَیاتُونَ بَابَ الْجَنَّةِ
(وسائل الشیعہ:ج۱۵، ص۲۷۹، باب۳۲، حدیث۲۰۵۱۰)
فَیضْرِبُونَهُ، فَیقالُ لَهُم:مَنْ اَنْتُم ؟فَیقُولُونَ:نَحْنُ اَهْلُ الصَّبْرِ، فَیقالُ لَهُمْ:عَلی مَاصَبَرْتُم ؟فَیقُولُونَ :كُنّا نَصْبِرُ عَلَی طاعَةِ اللّٰهِ وَنَصْبِرُ عَنْ مَعاصِی اللّٰهِ، فیقول الله عَزَّوَجَلَّ:صَدَقُوا، اَدْخِلُوهُمُ الجَنَّةَ
وَهُوَ قَوْلُ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ
:(
إِنَّمَا یوَفَّی الصَّابِرُونَ اجْرَهم بِغَیرِ حِسَابٍ
)
۔
”جس وقت قیامت برپا ہوگی، کچھ لوگ اٹ ہیں گے اور جنت کے دروازہ کی طرف جانے لگےں گے، وھاں پہنچ کر دقّ الباب کریں گے، آواز آئے گی: تم کون لوگ ہو؟ تو وہ ک ہیں گے: اھل صبر، سوال ہوگا: تم لوگوں نے کس چیز پر صبر کیا: جواب دیں گے: ھم نے اطاعت خدا اور اس کی معصیت پر صبر کیا، اس وقت آواز قدرت آئے گی: یہ لوگ ٹھیک کھتے ہیں ، ان کو جنت میں داخل ہونے دو، اسی چیز کو خداوندعالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: ”پس صبر کرنے والے ہی وہ ہیں جن کوبے حساب اجر دیا جاتا ہے“۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :
”طُوبٰی لِمَنْ لَزِمَ بَیتَهُ، وَاَكَلَ قوتَهُ، وَاشْتَغَلَ بِطاعَةِ رَبِّهِ، وَبَکيٰ عَليٰ خَطِیئَتِهِ، فَكَانَ مِنْ نَفْسِهِ فی شُغُلٍ، وَالنّاسُ مِنْه فِی رَاحَةٍ
“
”خوش نصیب ہے وہ شخص جو اپنے گھر میں رہے ، اور اپنی روزی روٹی کھاتا رہے ، خدا کی اطاعت میں مشغول رہے ، اپنے گناھوں پر گریہ کرتا رہے ، اپنے ہی کاموں میں مشغول رہے اور دوسرے لوگوں کو پریشان نہ کرے“۔
یعقوب بن شعیب کھتے ہیں : میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا:
”مَانَقَلَ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ عَبْداً مِنْ ذُلِّ الْمَعاصِی اِليٰ عِزِّالتَّقْويٰ اِلاّ اَغْناهُ مِنْ غَیرِ مالٍ، وَاَعَزَّهُ مِنْ غَیرِ عَشِیرَةٍ، و۱آنَسَهُ مِنْ غَیرِ بَشَرٍ
“
” خداوندعالم کسی بھی بندہ کو گناھوں کی ذلت سے تقويٰ کی عزت کی طرف ن ہیں پھونچاتا مگر یہ کہ اس کو بغیر مال و دولت کے بے نیاز بنادیتا ہے اور اس کو بغیر قوم و قبیلہ کے عزت دیتا ہے اور اس کو بغیر انسان کے انس دیدیتا ہے“۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں :
”مَنْ ذَرَفَتْ عَیناهُ مِنْ خَشْیةِ اللّٰهِ كَانَ لَهُ بِكُلِّ قَطْرَةٍ قَطَرَتْ مِنْ دُموعِهِ قَصْرٌ فِی الجَنَّةِ مُكَلَّلٌ بِالدُّرِّ وَ الْجَوْهَرِ، فیهِ مَا لَا عَینٌ رَاتْ، وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَی قَلْبِ بَشَرٍ
“
”جو شخص خوف خدا میںآنسو بھائے، اس کے ھر قطرہ کے عوض بہشت میں ہیرے جواھرات سے بنا ہوا ایک محل ملے گا، اس قصر میں ایسی چیزیں ہیں جس کو کسی آنکھ نے نہ دیکھا ہو اورنہ ہی کسی دل میں اس کے متعلق خطور ہواھو“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
”كُلُّ عَینٍ باكِیةٌ یوْمَ القِیامَةِ اِلاَّ ثَلاثَةً:عَینٌ غُضَّتْ عَنْ مَحَارِمِ اللّٰهِ، وَعَینٌ سَهِرَتْ فِی طَاعَةِ اللّٰهِ، وَعَینٌ بَكَتْ فِی جَوْفِ اللَّیلِ مِنْ خَشْیةِ اللّٰهِ“
وم قیامت ھر آنگھ گریہ کرے گی سوائے تین آنکھوں کے: جس آنکھ سے حرام خدا کو نہ دیکھا ہو، جو آنکھ اطاعت و عبادت خدا میں جاگی ہو، اور وہ آنکھ جو رات کے اندھیرے میں خوف خدا سے روئی ہو“۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”اِنَّ الصَّدَقَةَ تَزِیدُ صَاحِبَها كَثْرَةً، فَتَصَدَّقُوا یرْحَمْكُمُ اللّٰهُوَاِنَّ التَّواضُعَ یزِیدُ صاحِبَهُ رِفْعَةً، فَتَواضَعُوا یرْفَعْكُمُ اللّٰهُوَاِنَّ العَفْوَ یزِیدُ صَاحِبَهُ عِزّاً، فَاعْفُوا یعِزَّكُمُ اللّٰهُ
“
”بے شک صدقہ صاحب مال کے مال میں اضافہ کرتا ہے، پس راہ خدا میں صدقہ دیا کرو، خداوندعالم تم پر رحمت نازل کرے، تواضع و انکساری کرنے والے کی سربلندی میں اضافہ ہوتا ہے، پس تواضع و انکسار ی کرو، خداوندعالم تم کو سربلند و سرفراز فرمائے گا، عفو و بخشش کرنے والے کی عزت و سربلندی میں اضافہ ہوتا ہے، پس عفو و بخشش سے کام لو خداوندعالم تم کو عزت دےگا“۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا:
”اَلاٰ اِنَّهُ مَنْ ینْصِفِ النَّاسَ مِنْ نَفْسِهِ لَمْ یزِدْهُ اللّٰهُ اِلاَّعِزًّا
“
”آگاہ ہوجاؤ کہ جو شخص دوسرے لوگوں سے انصاف کرے گا، خداوندعالم اس کی عزت و سربلندی میں اضافہ فرمادے گا“۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں :
”طُوبيٰ لِمَنْ طابَ خُلُقُهُ، وَطَهُرَتْ سَجِیتُهُ، وَصَلُحَتْ سَریرَتُهُ، وَحَسُنَتْ عَلانِیتُهُ، وَاَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مالِهِ، وَاَمْسَكَ الْفَضْلَ مِنْ قَوْلِهِ، وَاَنْصَفَ النَّاسَ مِنْ نَفْسِهِ
“
”خوش نصیب ہے وہ شخص جس کا اخلاق اچھا ہو، جس کی طینت پاک ہو، جس کا باطن صالح اور نیک ہو، جس کا ظاھر نیک ہو، اپنے اضافی مال سے انفاق کرے، اور زیادہ گفتگو سے پرھیز کرے، اور لوگوں کے ساتھ انصاف سے کام لے“۔
قارئین کرام! گزشتہ صفحات میں بیان شدہ احادیث میں مختلف مسائل کو ملاحظہ کیا جن کا خلاصہ یہ ہے:” آخرت کو دنیا پر ترجیح دینا، عبادت خدا میں صبر و ضبط کرنا، (یعنی عبادت کی مشکلات سے نہ گھبرانا) گناھوں کے مقابلہ میں استقامت دکھانا، حلال رزق پر قناعت کرنا، اطاعت الٰھی میں مشغول رہنا، گناھوں پر آنسو بھانا، اپنے کاموں میں مشغول رہنا، لوگوں کو اذیت دینے سے پرھیز کرنا، تقويٰ الٰھی کی رعایت کرنا، رات کے سناٹے میں خوف خدا سے آنسوبھانا، نامحرم پر نظر کرنے سے پرھیز کرنا، عبادت کے لئے شب بیداری کرنا، راہ خدا میں صدقہ دینا، تواضع و انکساری اور عفو و بخشش سے کام لینا، اپنی طرف سے تمام لوگوں کے ساتھ انصاف کرنا، اخلاق حسنہ رکھنا، پاک طبیعت رکھنا، شائستہ باطن رکھنا، پسندیدہ ظاھر رکھنا، اضافی مال کو راہ خدا میں خرچ کرنا، زیادہ گفتگو سے پرھیز کرنا“۔
اس میں کوئی شک ن ہیں ہے کہ ان تمام چیزوں کو عملی جامہ پہنانا، خواہشات نفسانی سے جنگ کئے بغیر ممکن ن ہیں ہے، جو شخص شیطانی چالوں سے دنیاوی اور مادی امور، ہوائے نفس اور بے لگام شھوت کے ساتھ مقابلہ کرے تو واقعاً اس نے جھاد اکبر کیا ہے اوراسے اس کا بھت زیادہ فائدہ ہوگا، وہ فائدہ جس کا وعدہ خداوندعالم نے انبیاء اور ائمہ علیھم السلام سے کیا ہے۔
فرصت کو غنیمت جاننا چاہئے
فرصت کو غنیمت جاننا چاہئیے بالخصوص اپنے پاس موجود فرصت کی قدر کرنا چاہئے، عمر کی فرصت کے بارے میں؛ خدا کا حکم، انبیاء و ائمہ علیھم السلام اور اولیاء الٰھی کی وصیت ہے، کیونکہ انسان اسی عمر کی فرصت میں اپنے گناھوں کو نیکیوں میں تبدیل کرسکتا ہے، برائیوں کی جگہ اچھائیوں کو قرار دے سکتا ہے، اور ظلمت و تاریکی کی جگہ نور و روشنی کو قرار دے سکتا ہے۔
اگر فرصت ھمارے ھاتھ سے نکل جائے، اور کوئی اچھا کام انجام نہ دیا جائے، اور موت کا پیغام پہنچ جائے، اور عمر کا چراغ اس موقع پر گل ہونے لگے کہ انسان توبہ کی فرصت نہ پاسکے، تو اس موقع پر شرمندگی اور پشیمانی کوئی فائدہ ن ہیں دے سکتی۔
جس وقت طلحہ جنگ جمل میں مروان بن حکم کے تیر سے زمین پر گرا، اور اس دنیا سے چلنے لگا تو کھتا ہے: میری بدبختی ہے کہ بزرگان قریش (حضرت علی علیہ السلام) کی بزرگی کو ن ہیں دیکھ سکا، لیکن طلحہ کو یہ احساس اس وقت ہوا جب فرصت ھاتھ نکل چکی تھی، اور اس کی زندگی کا دیا گُل ہونے والا تھا، طلحہ وہ پھلا شخص تھا جس نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی، لیکن حضرت علی علیہ السلام نے چونکہ اس کی ناجائز پیش کش کو قبول ن ہیں کیا تھا نیز اُدھر معاویہ نے اس کو بھڑکایا اور اس پر اثر ہوگیا، لہٰذا اس نے حضرت امیر کی بیعت توڑ ڈالی، اور اپنی دنیا و آخرت کو تاریک کرڈالا۔
جناب نوح اور جناب لوط علیھم السلام کی ازواج نے اپنے شوھروں کی مسلسل مخالفت کی، اور آخری لمحات اور فرصت کے ختم ہونے تک انھوں نے مخالفت جاری رکھی یھاں تک کہ دونوں پر عذاب الٰھی نازل ہوا اور اس دنیا سے چلی گئیں۔
جناب آسیہ زوجہ فرعون نے فرصت کو غنیمت شمار کیا اور خدا کی رضا کو اپنے شوھر کی رضا پر مقدم رکھا، جس کی بنا پر اسے خوشنودی خدا اور ھمیشہ کے لئے بہشت مل گئی۔
جناب خدیجہ نے فرصت کو غنیمت سمجھا، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے راستہ میں قربانی دی اور دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرلی، ان کی قوم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شادی کرنے کی وجہ سے قطع تعلق کرلیا، لیکن جناب خدیجہ نے خدا سے رابطہ مستحکم کرلیا، اور اس طرح سے فوز عظیم پرفائز ہوگئیں۔حر ّ بن یزید ریاحی نے باقی بچی تھوڑی سی فرصت کو غنیمت شمار کیا اور اس غنیمت کے خزانہ سے ھمیشہ کے لئے عظیم الشان منفعت حاصل کرلی۔
جی ھاں! جس شخص نے فرصت کو غنیمت شمار کیا اگرچہ تھوڑی سی فرصت کیوں نہ ہو، نور الٰھی اس کے دل میں چمک اٹھتا ہے اور اس کی نصرت و مدد کرتا ہے۔اس موقع پر کھا جانا چاہئے : وہ نور ہدایت جس نے عابد و زاہد کے دل میں راہ خدا کو واضح کیااس نے تمام طاقتوں کا اختیار اپنے ھاتھ میں لے لیا، چنانچہ اس کے کان کو نغمہ الٰھی اور سخن حق کے علاوہ کوئی دوسری آواز سنائی ن ہیں دیتی، جس کا ذائقہ کسی بھی حرام چیز کو چکھنے کے لئے تیار ن ہیں ہے، آنک ہیں نامحرم کے بدن کی طرف اٹھنے سے رک گئیں، درحقیقت ایک عالم عارف کی نگاہ ایک معمولی آنکھ سے ک ہیں زیادہ دیکھتی ہے، کیونکہ اس کو اندر سے نور ہدایت طاقت پہنچاتا رھتا ہے، او راسی نور کے ذریعہ پھلے وہ خالق کائنات کی مخلوق کے جلال و جلووں کو دیکھتا ہے، اور اس کے بعد اپنی ظاھری آنکھوں سے اس دنیا کی چیزوں کو دیکھتا ہے۔
راہ خدا پر چلنے والا دوسروں کی طرح ن ہیں دیکھتا، کہ جھاںدوسرے لوگ زندگی کو لذت حاصل کرنے اور اپنے مقصد تک رسائی کے لئے دیکھتے ہیں ، اور آخر کار پشیمان ہوکر فریاد کرنے لگتے ہیں : ھائے کوئی چیز کام آنے والی باقی نہ رھی اور اب اپنے یا دوسروںکی کوئی امید ن ہیں ہے۔
جس شخص کو نور ہدایت حاصل ہوجاتا ہے اس کی زندگی کے اغراض و مقاصد بلند وبالا ہوتے ہیں ، اور وہ صرف ظاھری زندگی کی شناخت پر قناعت ن ہیں کرتا بلکہ زندگی کے اسرار و رموز کی گھرائی میں جاتا ہے اور اس حاصل شدہ بصیرت سے اپنی زندگی کے لمحات گزارتا ہے۔یھی وہ بصیرت ہے جس سے انسان ھمیشہ ذکر الٰھی میں مشغول رھتا ہے، یھاں تک کہ یہ کھا جاسکتا ہے کہ وہ ایک لمحہ کے لئے بھی یاد خدا سے غافل ن ہیں ہوتا۔اگر انسان کو عالم ہستی کی اھمیت معلوم ہوجائے تو کیا وہ ایک لمحہ کے لئے غفلت کی زندگی بسر کرسکتا ہے؟ غفلت کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنی غفلت کی مقدار بھر اپنے وجود میں کمی اور نقصان کا تصور کرے۔
____________________