توبہ آغوش رحمت

توبہ آغوش رحمت 0%

توبہ آغوش رحمت مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

توبہ آغوش رحمت

مؤلف: استادحسين انصاريان
زمرہ جات:

مشاہدے: 24425
ڈاؤنلوڈ: 5484

تبصرے:

توبہ آغوش رحمت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24425 / ڈاؤنلوڈ: 5484
سائز سائز سائز
توبہ آغوش رحمت

توبہ آغوش رحمت

مؤلف:
اردو

نیکیوں سے مزین ہونا اور برائیوں سے پرھیز کرنا (۱)

( كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ انَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوء اً بِجَهالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَاصْلَحَ فَانَّهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔(۲۶۴)

” تمھارے پروردگار نے اپنے اوپررحمت لازم قرار دے لی ہے کہ تم میں جو بھی از روئے جھالت برائی کرے گا اور اس کے بعد تو بہ کر کے اپنی اصلاح کرلے گا تو خدا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ہے“۔

زیبائی اور برائی گزشتہ صفحہ میں بیان ہونے والے دو عنوان سے باطنی، معنوی، اخلاقی اور عملی زبیائی او ربرائی مراد ہے۔

جو شخص اپنے ارادہ و اختیار اور شناخت و معرفت کے ذریعہ الٰھی حقائق (اخلاقی حسنات) اور عملی واقعیات (احکام خداوندی) کو اپنے صفحہ دل پر نقش کرلیتا ہے، اس نقش کو ایمان کے روغن سے جلا دیتا ہے، اور زمانہ کے حوادث و آفات سے نجات پالیتا ہے، جس کے ذریعہ سے انسان بھترین سیرت اور خوبصورت وشائستہ صورت بنالیتا ہے۔

الٰھی حقائق یا اخلاقی حسنات خداوندعالم کے اسماء و صفات کے جلوے اور ارادہ پروردگار کے عملی واقعیات کے جلوے ہیں ، اسی وجہ سے یہ چیزیں انسان کی سیرت و صورت کو بازار مصر میں حُسن یوسف کی طرح جلوہ دیتے ہیں ، اور دنیا و آخرت میں اس کو خریدنے والے بھت سے معشوق نظر آتے ہیں ۔

لیکن وہ انسان جو اپنے قلم و ارادہ و اختیار سے جھل و غفلت غرور و تکبر، بُرے اخلاق اور برے اعمال کو اپنے صفحہ دل پرنقش کرلیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ گناھوں میں غرق ہوتا چلا جاتا ہے، جو انسان کی ھمیشگی ھلاکت کے باعث ہیں ، ان ہیں کی وجہ سے ان کی صورت بدشکل اور تیرہ و تاریک ہوجاتی ہے۔

اخلاقی برائیاں، بُرے اعمال شیطانی صفات کا انعکاس اور شیطانی حرکتوں کا نتیجہ ہیں ، اسی وجہ سے انسان کی سیرت و صورت پر شیطانی نشانیاں دکھائی دیتی ہیں ، جس کی بنا پر خدا، انبیاء اور ملائکہ نفرت کرتے ہیں اور دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی اس کے دامن گیر ہوجاتی ہے۔

معنوی و روحانی زیبائی و برائی کے سلسلہ میں ھمیں قرآن مجید کی آیات اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وائمہ معصومین علیھم السلام کی احادیث کا مطالعہ کرنا چاہئے، تاکہ ان الٰھی حقائق اور آسمانی تعلیمات سے آشنائی کے ذریعہ اپنے کو مزین کریں، اور توبہ و استغفار کے ذریعہ قرآن مجید کے فرمان کے مطابق اپنے ظاھر و باطن کی اصلاح کو کامل کرلیں:

( وَإِذَا جَائَكَ الَّذِینَ یؤْمِنُونَ بِآیاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَیكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ انَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوء اً بِجَهالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَاصْلَحَ فَانَّهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔(۲۶۵)

”اور جب وہ لوگ آپ کے پاس آئیں جو ھماری آیت وں پر ایمان رکھتے ہیں تو ان سے کہئے کہ سلام علیکم تمھارے پروردگار نے اپنے اوپررحمت لازم قرار دے لی ہے کہ تم میں جو بھی از روئے جھالت برائی کرے گا اور اس کے بعد تو بہ کر کے اپنی اصلاح کرلے گا تو خدا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ہے“۔

اھل ہدایت و صاحب فلاح

( الَّذِینَ یؤْمِنُونَ بِالْغَیبِ وَیقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهم ینفِقُونَ وَالَّذِینَ یؤْمِنُونَ بِمَا انْزِلَ إِلَیكَ وَمَا انْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هم یوقِنُونَ اوْلَئِكَ عَلَی هُدًی مِنْ رَبِّهم وَاوْلَئِكَ هم الْمُفْلِحُونَ ) ۔(۲۶۶)

”جولوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں ۔پابندی سے پورے اھتمام کے ساتھ نماز ادا کر تے ہیں اور جو کچھ ھم نے رزق دیا ہے اس میں سے ھماری راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں ۔وہ ان تمام باتوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جن ہیں (اے رسول) ھم نے آپ پر نازل کیا ہے اور جو آپ سے پھلے نازل کی گئی ہیں اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں ۔یھی وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت کے حامل ہیں اور یھی لوگ فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں “۔

مذکورہ آیت سے درج ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں :

۱۔ غیب پر ایمان ۔

۲۔ نماز قائم کرنا۔

۳۔ صدقہ اور حقوق کی ادائیگی۔

۴۔ قرآن اور دیگر آسمانی کتابوں پر ایمان۔

۵۔ آخرت پر یقین۔

غیب پر ایمان

غیب سے مراد ایسے امور ہیں جن کو ظاھری حواس سے درک ن ہیں کیا جاسکتا، چونکہ ان کو حواس کے ذریعہ ن ہیں درک کیا جاسکتا لہٰذا ان کو غیبی امور کھا جاتا ہے۔

غیب، ان حقائق کو کھتے ہیں جن کو دل اور عقل کی آنکھ سے درک کیا جاسکتا ہے، جس کے مصادیق خداوندعالم، فرشتے، برزخ، روز محشر، حساب، میزان اور جنت و جہنم ہے، ان کا بیان کرنا انبیاء، ائمہ علیھم السلام اور آسمانی کتابوں کی ذمہ داری ہے۔

ان حقائق پر ایمان رکھنے سے انسان کا باطن طیب و طاھر، روح صاف و پاکیزہ، تزکیہ نفس، روحی سکون اور قلبی اطمینان حاصل ہوتا ہے نیز اعضاء و جوارح خدا و رسول اور اھل بیت علیھم السلام کے احکام کے پابند ہوجاتے ہیں ۔

غیب پر ایمان رکھنے سے انسان میں تقويٰ پیدا ہوتا ہے، اس میں عدالت پیدا ہوتی ہے، اور انسان کی تمام استعداد شکوفہ ہوتی ہیں ، یھی ایمان اس کے کمالات میں اضافہ کرتا ہے، نیز خداوندعالم کی خلافت و جانشینی حاصل ہونے کا راستہ ھموار ہوتا ہے۔

کتاب خدا، قرآن مجید جو احسن الحدیث، اصدق قول اور بھترین وعظ و نصیحت کرنے والی کتاب ہے، جس کے وحی ہونے کی صحت و استحکام میں کوئی شک و شبہ ن ہیں ہے، اس نے مختلف سوروں میں مختلف دلائل کے ذریعہ ثابت کیا ہے کہ قرآن کتاب خدا ہے، جن کی بنا پر انسان کو ذرہ برابر بھی شک ن ہیں رھتا، قرآن کریم کی بھت سی آیات میں غیب کے مکمل مصادیق بیان کئے گئے ہیں اور ان آیات کے ذیل میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے بھت اھم احادیث بیان ہوئی ہیں جن کے پر توجہ کرنے سے انسان کے لئے غیب پر ایمان و یقین کا راستہ ھموار ہوجاتا ہے۔

خدا

قرآن مجید نے خداوندعالم کو تمام کائنات اور تمام موجودات کے خالق کے عنوان سے پہچنوایا ہے، اور تمام انسانوں کو خدا کی عبادت کی دعوت دی ہے، اس کا شریک اس کی ضدو مثل اوراس کا کفوقرار دینے سے سخت منع کیا ہے اور اس کو غفلت و جھالت کا نتیجہ بتایا ہے، اور کسی چیز کو اس کے خلاف بیان کرنے کو فطرت و وجدان کے خلاف شمار کیا ہے، اس عالم ہستی میں صحیح غور و فکر کرنے کی رغبت دلائی ہے، اور فطری، عقلی، طبیعی اور علمی دلائل و شواہد کے ذریعہ غیر خدا کے خالق ہونے کو باطل قرار دیا ہے، اور اس جملہ کو بے بنیاد، بے معنی اور مسخرہ آمیز بتایا ہے کہ ”یہ چیزیں خود بخود وجود میں آگئی ہیں “ اس کی شدت کے ساتھ ردّ کی ہے اور علمی منطق اور عقل سلیم سے کوسوں دور بتایا ہے، المختصر: قرآن مجید نے اپنی آیات کے اندر انسان کے جھل اور غفلت جیسی بیماریوں کا علاج بتایا ہے، اورفطرت و وجدان کو جھنجھوڑتے ہوئے عقل و دل کی آنکھوں کے سامنے سے شک و تردید اور اوھام کے پردوں کو ہٹادیا ہے، اور خداوندعالم کے وجود کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے، نیز اس معنی پر توجہ دلائی ہے کہ آئینہ ہستی کی حقیقت روز روشن سے بھی زیادہ واضح ہے، اور خدا کی ذات اقدس میں کسی کے لئے شک و تردید کا کوئی وجود ن ہیں ہے:

( افِی اللهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْارْضِ یدْعُوكُمْ لِیغْفِرَ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ ) (۲۶۷)

” کیا تم ہیں اللہ کے وجود کے بارے میں بھی شک ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اور تم ہیں اس لئے بلاتا ہے کہ تمھارے گناھوں کو معاف کردے۔۔“۔

( یاایها النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمْ الَّذِی خَلَقَكُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ الَّذِی جَعَلَ لَكُمْ الْارْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَانْزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاخْرَجَ بِهِ مِنْ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلاَتَجْعَلُوا لِلَّهِ اندَادًا وَانْتُمْ تَعْلَمُونَ ) ۔(۲۶۸)

”اے انسانو! پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم ہیں بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پھلے والوں کو بھی خلق کیا ہے ۔شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرھیز گار بن جاو۔اس پروردگار نے تمھارے لئے زمین کا فرش اور آسمان کا شامیانہ بنایا ہے اور پھر آسمان سے پانی برسا کر تمھاری روزی کے لئے زمین سے پھل نکالے ہیں لہٰذا اس کے لئے جان بوجھ کر کسی کو ھمسر اور مثل نہ بناو“۔

جی ھاں! اس نے ھمیں اور ھم سے پھلے انسانوں کو خلق کیا، آسمانوں کو بنایا، تمھاری زندگی کے لئے زمین کا فرش بچھایا، تمھارے لئے بارش برسائی، جس کی وجہ سے مختلف قسم کے پھل اور اناج پیدا ہوئے، اگر یہ تمام عجیب و غریب چیزیں اس کا کام ن ہیں ہے تو پھر کس کا کام ہے؟

اگر کوئی کھتا ہے کہ ان تمام عجیب و غریب خلقت کی پیدائش کی علت ”تصادف“(یعنی اتفاقی) ہے تو اس کی مستحکم منطقی اور عقلی دلیل کیا ہے؟ اگر کھا گیاکہ یہ چیزیں خود بخود پیدا ہوگئیں تو کیا اس کائنات کی چیزیں پھلے سے موجود ن ہیں ت ہیں جو خود بخود وجود میں آگئیں، اس کے علاوہ جو چیز موجود ہے وہ خود بخود وجود میں آجائیں اس کے کوئی معنی ن ہیں ہیں ، پس معلوم ہوا کہ ان تمام چیزوں کا خالق اور ان کو نظم دینے والا علیم و بصیر و خبیر ”اللہ تعاليٰ“ ہے جس نے ان تمام چیزوں کو وجود بخشا ہے، اور اس مضبوط اور مستحکم نظام کی بنیاد ڈالی ہے، لہٰذا انسان پر واجب ہے کہ اس کے حکم کی اطاعت کرے، اس کی عبادت و بندگی کرے تاکہ تقويٰ، پاکیزگی اور کمال کی معراج حاصل کرے:

( اعْبُدُوا رَبَّكُمْ الَّذِی خَلَقَكُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون ) ۔(۲۶۹)

”تم لوگ اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم ہیں بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پھلے والوں کو بھی خلق کیا ہے ۔شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرھیز گار بن جاو“۔

مفضل بن عمر کوفی کھتے ہیں : مجھ سے حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

وجود خدا کی سب سے پھلی دلیل اس دنیا کا نظم و ترتیب ہے کہ تمام چیزیں بغیر کسی کمی و نقصان کے اپنی جگہ پر موجود ہیں اور اپنا کام انجام دے رھی ہیں ۔

مخلوقات کے لئے زمین کا فرش بچھایا گیا، آسمان پر زمین کے لئے روشنی دینے والے سورج چاند اور ستارے لٹکائے گئے، پھاڑوں کے اندر گرانبھا جواھرات قرار دئے گئے، ھر چیز میں ایک مصلحت رکھی گئی اور ان تمام چیزوں کو انسان کے اختیار میں دیدیا گیا، مختلف قسم کی گھاس، درخت اور حیوانات کو اس کے لئے خلق کیا تاکہ آرام و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرسکےں۔

اس دنیا کے نظم وترتیب کو دیکھو کہ جھاں ھر چیز ذرہ برابر کمی و نقصان کے بغیر اپنی مخصوص جگہ پرہے جو اس بات کی بھترین دلیل ہے کہ یہ دنیا حکمت کے تحت پیدا کی گئی ہے، اس کے علاوہ تمام چیزوں کے درمیان ایک رابطہ پایا جاتا ہے اور سب ایک دوسرے کے محتاج ہیں جو خود اس بات کی بھترین دلیل ہے کہ ان تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ایک ہی ہے، ان تمام چیزوں کے پیدا کرنے والے نے ان تمام چیزوں کے درمیان الفت پیدا کی ہے اور ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرا کا محتاج قرار دیا ہے!

مفضل کھتے ہیں : معرفت خدا کی گفتگو کے تیسرے دن جب امام ششم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: آج چاند، سورج اور ستاروں کے بارے میں گفتگو ہوگی:

اے مفضل! آسمان کا رنگ نیلا دکھائی دیتا ہے او رجھاں تک انسان آسمان کو دیکھتا چلا جاتا ہے اس کو کوئی تکلیف ن ہیں ہوتی، کیونکہ نیلا رنگ نہ صرف یہ کہ آنکھ کے لئے نقصان دہ ن ہیں ہے بلکہ آنکھ کی طاقت کے لئے مفید بھی ہے۔

اگر سورج نہ نکلتا اور دن نہ ہوتا تو پھر دنیا کے تمام امور میں خلل واقع ہوجاتا، لوگ اپنے کاموں کو نہ کرپاتے، بغیر نور کے ان کی زندگی کا کوئی مزہ نہ ہوتا، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو روز روشن سے بھی زیادہ واضح ہے۔

اگر سورج غروب نہ ہوتا اور رات کا وجود نہ ہوتا تو لوگوں کو سکون حاصل نہ ہوتا اور ان کی تھکاوٹ دور نہ ہوتی، ھاضمہ نظام غذا کو ہضم نہ کرپاتا او راس غذائی طاقت کو دوسرے اعضاء تک نہ پہنچاتا۔

اگر ھمیشہ دن ہوا کرتا تو انسان لالچ کی وجہ سے ھمیشہ کام میں لگارھتا جس سے انسان کا بدن رفتہ رفتہ جواب دیدیتا، کیونکہ بھت سے لوگ مال دنیا جمع کرنے میں اس قدر لالچی ہیں کہ اگر رات کا اندھیرے ان کے کاموں میں مانع نہ ہو تا تو اس قدر کام کرتے کہ اپاہج ہوجاتے!

اگر رات نہ ہوا کرتی تو سورج کی گرمی سے زمین میں اس قدر گرمی پیدا ہوجاتی کہ روئے زمین پر کوئی حیوان اور درخت باقی نہ رھتا۔

اسی وجہ سے خداوندعالم نے سورج کو ایک چراغ کی طرح قرار دیا کہ ضرورت کے وقت اس کو جلایاجاتا ہے تاکہ اھل خانہ اپنی ضرورت سے فارغ ہوجائیں، اور پھر اس کو خاموش کردیتے ہیں تاکہ آرام کرلیں! پس نور اور اندھیرا جو ایک دوسرے کی ضد ہیں دونوں ہی اس دنیا کے نظام اور انسانوں کے لئے خلق کئے گئے ہیں ۔

اے مفضل! غور تو کرو کہ کس طرح سورج کے طلوع و غروب سے چار فصلیں وجود میں آتی ہیں تاکہ حیوانات او ردرخت رشد ونمو کرسکیں اور اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔

اسی طرح دن رات کی مدت کے بارے میں غور فکر کرو کہ کس طرح انسان کی مصلحت کا لحاظ رکھا گیا ہے اکثر آباد زمین پر دن ۱۵ گھنٹے سے زیادہ ن ہیں ہوتا اگر دن سو یا دوسو گھنٹے کا ہوتا تو کوئی بھی جانداز زمین پر باقی نہ بچتا۔

کیونکہ اس قدر طولانی دن میں دوڑ دھوپ کرتے ہوئے ھلاک ہوجاتے، درخت وغیرہ سورج کی گرمی سے خشک ہوجاتے!

اسی طرح اگر سو یا دوسو گھنٹے کی رات ہوا کرتی، تمام جاندار روزی حاصل ن ہیں کرسکتے تھے اور بھوک سے ھلاک ہوجاتے، درختوں اور سبزیوں کی حرارت کم ہوجاتی، جس کے نتیجہ میںان کا خاتمہ ہوجاتا، جیسا کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بھت سی گھاس اگر ایسی جگہ اُگ آئیں جھاں پر سورج کی روشنی نہ پڑے ہو تو وہ بر باد ہوجایا کرتی ہیں ۔

سردیوں کے موسم میں درختوں اور نباتات کے اندر کی حرارت او رگرمی مخفی ہوجاتی ہے تاکہ ان میں پھلوں کا مادہ پیدا ہو، سردی کی وجہ سے بادل اٹھتے ہیں ، بارش ہوتی ہے، جس سے حیوانوں کے بدن مضبوط ہوتے ہیں ، فصل بھار میں درخت اور نباتات میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ ظاھر ہوتے ہیں ، کلیاں کھلنے لگتی ہیں ، حیوانات بچے پیدا کرنے کے لئے ایک دوسرے کے پاس جاتے ہیں ، گرمی کے موسم میں گرمی کی وجہ سے بھت سے پھل پکنے لگتے ہیں ، حیوانات کے جسم میں بڑھی ہوئی رطوبت جذب ہوتی ہے، اور روئے زمین کی رطوبت کم ہوتی تاکہ انسان عمارت کا کام اور دیگر کاموں کو آسانی سے انجام دے سکے، فصل پائیز میں ہوا صاف ہوتی ہے تاکہ انسان کے جسم کی بیماریاں دور ہوجائیں اور بدن صحیح و سالم ہوجائے، اگر کوئی شخص ان چار فصلوں کے فوائد بیان کرنا چاھے تو گفتگو طولانی ہوجائے گی!

سورج کی روشنی کی کیفیت پر غور و فکر کرو کہ جس کو خداوندعالم نے اس طرح قرار دیا ہے کہ پوری زمین اس کی روشنی سے فیضیاب ہوتی ہے، اگر سورج کے لئے طلوع و غروب نہ ہوتا تونور کی بھت سی جھتوں سے استفادہ نہ ہوتا، پھاڑ، دیوار اور چھت نور کی تابش میں مانع ہوجاتے، چونکہ خداوندعالم نور خورشید سے تمام زمین کو فیضیاب کرنا چاھتا ہے لہٰذا سورج کی روشنی کو اس طرح مرتب کیا ہے کہ اگر صبح کے وقت ک ہیں سورج کی روشنی ن ہیں پہنچتی تو دن کے دوسرے حصہ میں وھاں سورج کی روشنی پہنچ جاتی ہے، یا اگر کسی جگہ شام کے وقت روشنی نہ پہنچ سکے تو صبح کے وقت روشنی سے فیضیاب ہوسکے، پس معلوم ہوا کہ کوئی جگہ ایسی ن ہیں ہے جوسورج کی روشنی سے فائدہ نہ اٹھائے، واقعاً یہ خوش نصیبی ہے کہ خداوندعالم نے سورج کی روشنی کو زمین رہنے والے تمام موجودات چاھے وہ جمادات ہوں یا نباتات یا دوسری جاندار چیزیں سب کے لئے پیدا کی اور کسی کو بھی اس سے محروم نہ رکھا۔

اگر ایک سال تک سورج کی روشنی زمین پر نہ پڑتی تو زمین پر رہنے والوں کا کیا حال ہوتا؟ کیا کوئی زندہ رہ سکتا تھا؟

رات کا اندھیرا بھی انسان کے لئے مفید ہے جو اس کو آرام کرنے پر مجبور کرتا ہے، لیکن چونکہ رات میں بھی کبھی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، بھت سے لوگ وقت نہ ہونے یا گرمی کی وجہ سے رات میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں یا بعض مسافر رات کو سفر کرتے ہیں ان کو روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، تو اس ضرورت کے تحت خداوندعالم نے چاند او رستاروں کو خلق فرمایا ہے تاکہ وہ اپنی نور افشانی سے خدا کی مخلوق کے لئے آسائش کا سامان فراھم کرےںاور اپنی منظم حرکت کے ذریعہ مسافروںکو راستہ کی طرف راہنمائی کریں اور کشی میں سوار مسافرین کو راستہ بھٹکنے سے روکے ر ہیں ۔

ستاروں کی دو قسم ہوتی ہیں ، ایک ثابت ستارے جو ایک جگہ اپنے معین فاصلہ پر رھتے ہیں ، اور دوسرے ستارے گھومتے رھتے ہیں ایک برج سے دوسرے برج کی طرف جاتے ہیں ، یہ ستارے اپنے راستہ سے ذرہ برابر بھی منحرف ن ہیں ہوتے، ان کی حرکت کی بھی دو قسمیں ہیں : ایک عمودی حرکت ہوتی ہے جو دن رات میں مشرق سے مغرب کی طرف انجام پاتی ہے، اور دوسری اس کی اپنی مخصوص حرکت ہوتی ہے، اور وہ مغرب سے مشرق کی طرف ہوتی ہے، جیسے اگر ایک چیونٹی چكّی کے پاٹ پر بیٹھ کر بائیں جانب حرکت کرے درحالیکہ چكّی داہنی جانب چلتی ہے، لہٰذا چیونٹی کی دو حرکت ہوتی ہیں ایک اپنے ارادہ سے اور دوسری چكّی کی وجہ سے، کیا یہ ستارے جن میں بعض اپنی جگہ قائم ہیں اور بعض منظم طور پر حرکت کرتے ہیں کیا ان کی تدبیر خداوندحکیم کے علاوہ ممکن ہے؟ اگر کسی صاحب حکمت کی تدبیر نہ ہوتی تو یا سب ساکن ہوتے یا سب متحرک، اور اگر متحرک بھی ہوتے تو اتنا صحیح نظم و ضبط کھاں پیدا ہوتا؟

ستاروں کی رفتار انسانوں کے تصور سے ک ہیں زیادہ ہے، اور ان کی روشنی اس قدر شدید ہے کہ اس کو دیکھنے کی تاب کسی بھی آنکھ میں ن ہیں ہے، خداوندعالم نے ھمارے اور ان کے درمیان اس قدر فاصلہ قرار دیا ہے کہ ھم ان کی حرکت کو درک ن ہیں کرسکتے، اور نہ ہی ان کی روشنی ھماری آنکھوں کے لئے نقصان دہ ہے، اگر اپنی مکمل رفتار کے ساتھ ھم سے نزدیک ہوتے، تو ان کے نور کی شدت کی وجہ سے ھماری آنک ہیں نابینا ہوجاتیں، اسی طرح جب پے در پے بجلی کڑکتی وچمکتی ہے آنکھ کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے، جس طرح سے اگر کچھ لوگ ایک کمرہ میں موجود ہوں اور وھاں پر تیز روشنی والے بلب روشن ہوں اور اچانک خاموش کردئے جائیں تو آنک ہیں پریشان ہوجاتی ہیں اور کچھ دکھائی ن ہیں دیتا۔

اے مفضل! اگر رہٹ کے ذریعہ کسی کنویں سے پانی نکال کر کسی باغ کی سینچائی کی جائے، عمارت، کنویں اور پانی نکالنے کے وسائل اس قدر منظم اور قاعدہ کے تحت ہوں کہ باغ کی صحیح سنچائی ہوسکے، اگر کسی ایسی رہٹ کو دیکھے تو کیا انسان کہہ سکتا ہے کہ یہ خود بخود بن گئی ہے، اور کسی نے اس کو ن ہیں بنایا ہے اور کسی نے منظم ن ہیں کیا ہے، یہ بات واضح ہے کہ عقل سلیم اس کے دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ایک ماھر اور ہوشیار شخص نے اس رہٹ کو اس اندازسے بنایا ہے، اور جب انسان پانی نکالنے والی ایک چھوٹی سی چیز کو دیکھنے کے بعد اس کے بنانے والے کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ ان تمام گھومنے والے اور ایک جگہ باقی رہنے والے ستاروں، شب و روز، سال کی چار فصلوں کو حساب شدہ دیکھے جبکہ ان میں ذرا بھی انحراف اور بے نظمی ن ہیں پائی جاتی تو کیا انسان اس قدر عظیم اور عجیب و غریب چیزوں کو دیکھ کر ان کے پیدا کرنے والے کو ن ہیں پہچان سکتا؟( ۲ ۷۰)

ایک شخص حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضرھوکر عرض کرتا ہے: مجھے علم کے عجائبات سکھادیجئے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا: کیا تجھے اصل علم کے بارے میں کچھ خبر ہے جو عجائب کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاھتا ہے؟ تو اس نے کھا: یا رسول اللہ! اصل علم کیا ہے؟ تو حضرت نے فرمایا: معرفت خدا، اور حق معرفت، اس نے کھا: حق معرفت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: خدا کی مثل و مانند اور شبیہ نہ ماننا، اور خدا کو واحد، احد، ظاھر، باطن، اول و آخر ماننا اور یہ کہ اس کا کوئی کفو و نظیر ن ہیں ہے، اور یھی معرفت کاحق ہے۔

پورے قرآن کریم میں اس مسلم اور ھمیشگی حقیقت پر توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ حقیقت اصل جھان اوراس دنیا کو پیدا کرنے والے اور اس کو باقی رکھنے والی کی ہے، انسان کے حواس کو ظاھری آنکھوں سے درک ن ہیں کیا جاسکتا، لہٰذا غیب کھا جاتا ہے، اور یہ تمام موجوات فنا ہونے والی ہیں لیکن اس کی ذات باقی ہے، نیز یہ کہ تمام موجوات کے لئے آغاز و انجام ہوتا ہے لیکن اس کے لئے کوئی آغاز اور انجام ن ہیں ہے، وھی اول ہے اور وھی آخر ۔

قرآن کریم کے تمام سوروں اور اس کی آیات میں اس حقیقت کو ”اللہ تعاليٰ“ کھا گیا ہے، اور ھر سورے میں متعدد بار تکرار ہوا ہے، اور تمام واقعیات اور تمام مخلوقات اسی واحد قھار کے اسم گرامی سے منسوب ہیں ۔

ھم جس مقدار میں خدا کی مخلوقات اور متعدد عالم کو ایک جگہ ضمیمہ کرکے مطالعہ کریں تو ھم دیک ہیں گے:

یہ تمام مجموعہ ایک چھوٹے عالم کی طرح ایک نظام کی پیروی کرتا ہے یھاں تک کہ اگر تمام وسیع و عریض عالم کو جمع کریں اور انسانی علم و سائنس کے جدید وسائل جیسے ٹلسکوپ " Telescop "وغیرہ کے ذریعہ کشف ہونے والی چیزوں کو ملاحظہ کریں تو جو نظام اور قوانین ایک چھوٹے نظام میں دیکھے جاتے ہیں ان ہی کو مشاہدہ کریں گے، اور اگر عالَموں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے تجزیہ و تحلیل کریں یھاں تک کہ ایک چھوٹے سے ”مولکل“" Molecule " (یعنی کسی چیز کا سب سے چھوٹا جز )کو بھی دیک ہیں گے تو ملاحظہ فرمائیں گے کہ اس کا نظام اس عظیم جھان سے کچھ بھی کم ن ہیں ہے، حالانکہ یہ تمام موجودات ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں ۔

المختصر یہ کہ تمام عالموں کا مجموعہ ایک موجود ہے، اور اس پر ایک ہی نظام کی حکومت ہے، نیز اس عالم کے تمام اجزاء و ذرات اپنے اختلاف کے باوجود ایک ہی نظام کے مسخر ہیں ۔

( وَعَنَتْ الْوُجُوهُ لِلْحَی الْقَیوم ) (۲۷۱)

”اس دن سارے چھرے خدائے حی وقیوم کے سامنے جھکے ہوںگے۔“

اس آیہ شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا اور ان کی تدبیر کرنے والا خداوندعالم ہے۔

( وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ الرَّحْمَانُ الرَّحِیمُ ) ۔(۲۷۲)

”اور تمھار ا خدا بس ایک ہے ۔اس کے علاوہ کوئی خدا ن ہیں ہے وھی رحمن بھی ہے اور وھی رحیم بھی “۔

فرشتے

قرآن مجید کی تقریباً ۹۰ آیات میں فرشتوں کا ذکر ہوا ہے۔

قرآن کریم نے فرشتوں کے دشمن کو کافر شمار کیا ہے، اور ملائکہ کا انکار کرنے والوں کو گمراہ قرار دیاھے۔

( مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِیلَ وَمِیكَالَ فَإِنَّ اللهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِینَ ) ۔(۲۷۳)

”اورجو بھی اللہ، ملائکہ، مرسلین، جبرئیل و مکائیل کا دشمن ہوگا، اسے معلوم رہے کہ خدا بھی تمام کافروں کا دشمن ہے“۔

( وَمَنْ یكْفُرْ بِاللهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْیوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلًا بَعِیدًا ) ۔(۲۷۴)

”اورجو شخص اللہ، ملائکہ، آسمانی کتابوں، رسولوں اور روز قیامت کا انکار کرے گا وہ یقینا گمراھی میں بھت دور نکل گیا ہے“۔

نہج البلاغہ کے پھلے خطبہ میںحضرت علی علیہ السلام فرشتوں کے سلسلہ میں بیان فرماتے ہیں :

”بعض سجدہ میں ہیں تو رکوع کی نوبت ن ہیں آتی ہے، بعض رکوع میں ہیں تو سر ن ہیں اٹھاتے، بعض صف باندھے ہوئے ہیں تو اپنی جگہ سے حرکت ن ہیں کرتے، بعض مشغول تسبیح ہیں تو خستہ حال ن ہیں ہوتے، سب کے سب وہ ہیں کہ ان کی آنکھوں پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے اور نہ عقلوں پر سھوو نسیان کا، نہ بدن میں سستی پیدا ہوتی ہے اور نہ دماغ میں نسیان کی غفلت۔

ان میں سے بعض کو وحی کا امین بنایا ہے اور رسولوں کی طرف قدرت کی زبان بنایا گیا ہے جو اس کے فیصلوں اور احکام کو برابر لاتے رھتے ہیں ، اور کچھ بندوں کے محافظ اور جنت کے دروازوں کے دربان ہیں اوران میں بعض وہ بھی ہیں جن کے قدم زمین کے آخری طبقہ میں ثابت ہیں اور گردنیں بلند ترین آسمانوں سے بھی باھر نکلی ہوئی ہیں ، ان کی اطراف بدن اقطار عالم سے وسیع تر ہیں اور ان کے کاندھے پایہ ھای عرش اٹھانے کے قابل ہیں ، ان کی نگا ہیں عرش الٰھی کے سامنے جھکی ہوئی ہیں ، اور وہ اس کے نیچے پروں کو سمیٹے ہوئے ہیں ، ان کے اور دیگر مخلوقات کے درمیان عزت کے حجاب اور قدرت کے پردے حائل ہیں ، وہ اپنے پروردگار کے بارے میں شکل و صورت کا تصور بھی ن ہیں کرتے ہیں ، نہ اس کے حق میں مخلوقات کے صفات جاری کرتے ہیں ، وہ نہ اسے مکان میں محدود کرتے ہیں اور نہ اس کی طرف اشباہ و نظائر سے اشارہ کرتے ہیں(۲۷۵)

جی ھاں، فرشتے بھی عالم غیب کے مصادیق ہیں جن کے بارے میں قرآن مجید اور روایات میں بیان ہوا ہے، انسانی زندگی سے رابطہ کے پیش نظر خصوصاً نامہ اعمال لکھنے، انسان کے اچھے برے اعمال یا ان کی گفتگو اور زحمتوں کے لکھنے کے لئے معین ہیں ، یھی فرشتے ان کی روح قبض کرنے اور اھل جہنم پر عذاب دینے پر بھی مامور ہیں ، ملائکہ پر ایمان رکھنے سے انسان کی زندگی پر مثبت آثار پیدا ہوتے ہیں ، اور خداوندعالم کی اس نورانی مخلوق پر اعتقاد رکھنا معنوی زیبائیوں میں سے ہے۔

برزخ

موت کے بعد سے روز قیامت تک کی مدت کو قرآنی اصلاح میں برزخ کھا جاتا ہے۔

اس دنیا سے رخصت ہونے والے افراد پھلے برزخ میں وارد ہوتے ہیں ، اپنے عقائد و اعمال اور اخلاق کی بنا پر ان کی ایک زندگی ہوتی ہے، یہ ایک ایسی زندگی ہے جو نہ دنیا کی طرح ہے اور نہ آخرت کی طرح ہے۔

( حَتَّی إِذَا جَاءَ احَدَهم الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِی لَعَلِّی اعْمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَكْتُ كَلاَّ إِنَّها كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُها وَمِنْ وَرَائِهم بَرْزَخٌ إِلَی یوْمِ یبْعَثُونَ ) ۔(۲۷۶)

”یھاں تک کہ جب ان میں کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹا دے ۔شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں۔ھر گز ن ہیں یہ ایک بات ہے جو یہ کہہ رھا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے“۔

لیکن چونکہ قانون خلقت نہ نیک افراد کو اور نہ برے لوگوں کودنیا میں واپس پلٹنے کی اجازت دیتا، لہٰذا ان کو اس طرح جواب دیا جائے گا: ”ن ہیں ن ہیں ، ھرگز پلٹنے کا کوئی راستہ ن ہیں ہے“، اور یھی جواب انسان کی زبان بھی جاری ہوگا، لیکن یہ جملہ بے اختیار اور یونھی اس کی زبان پر جاری ہوگا، یہ وھی جملہ ہوگا کہ جب کوئی بدکار انسان یا کوئی قاتل اپنے کئے کی سزا کو دیکھتا ہے تو اس کی زبان پر بھی یھی جملہ ہوتا ہے، لیکن جب سزا ختم ہوجاتی ہے یا بلاء دور ہوجاتی ہے تو وہ انسان پھر وھی پرانے کام شروع کردیتا ہے۔

آیت کے آخر میں ایک چھوٹا سا لیکن پُر معنی اور اسرار آمیز جملہ برزخ کے بارے میں بیان ہوا ہے:” اس کے بعد روز قیامت تک کے لئے برزخ موجود ہے“۔

در اصل دو چیزوں کے درمیان حائل ہونے والی چیز کو برزخ کھتے ہیں ، اس کے بعد سے دو چیزوں کے درمیان قرار پانے والی چیز کو برزخ کھا جانے لگا، اسی وجہ سے دنیا و آخرت کے درمیان قرار پانے والے عالم کو ”عالم برزخ “کھا جاتا ہے۔

عالم قبر یا عالم ارواح کے سلسلہ میں منقولہ دلائل موجود ہیں ، قرآن مجید کی بھت سی آیات برزخ پر دلالت کرتی ہیں جن میں سے بعض بطور اشارہ اور بعض صراحت کے ساتھ بیان کرتی ہیں ۔

آیہ کریمہ( وَمِنْ وَرَائِهم بَرْزَخٌ إليٰ یوْمِ یبْعَثُوْنَ ) ، عالم برزخ کے بارے میں واضح ہے۔

جن آیات میں وضاحت کے ساتھ عالم برزخ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے وہ شہداء کے سلسلہ میں نازل ہوئیں ہیں ، جیسے:

( وَلاَتَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ امْوَاتًا بَلْ احْیاءٌ عِنْدَ رَبِّهم یرْزَقُونَ ) ۔(۲۷۷)

”اور خبر دار راہ خدا میں قتل ہونے والوںکو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یھاں رزق پارہے ہیں “۔

نہ صرف یہ کہ شہداء کے لئے برزخ موجود ہے بلکہ کفار، فرعون جیسے ظالم وجابر اور اس کے ساتھیوںکے بارے میں برزخ موجود ہے، سورہ مومن کی آیت نمبر ۲۶ میں اس چیزکی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

( النَّارُ یعْرَضُونَ عَلَیها غُدُوًّا وَعَشِیا وَیوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ ادْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ اشَدَّ الْعَذَابِ )

”وہ جہنم جس کے سامنے ھر صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت برپا ہوگی تو فرشتوں کو حکم ہوگا کہ فرعون والوں کو بدترین عذاب کی منزل میں داخل کردو“۔

شیعہ سنی مشھور کتابوں میں بھت سی روایات بیان ہوئی ہیں جن میں عالم برزخ، عالم قبر اور عالم ارواح کے بارے میں مختلف الفاظ وارد ہوئے ہیں ، چنانچہ نہج البلاغہ میں وارد ہوا ہے کہ جب حضرت امیر المومنین علیہ السلام جنگ صفین کی واپسی پر کوفہ کے اطراف میں ایک قبرستان سے گزرے تو قبروں کی طرف رخ کرکے فرمایا:

”اے وحشت ناک گھروں کے رہنے والو! اے ویران مکانات کے باشندو! اور تاریک قبر کے بسنے والو! اے خاک نشینو! اے غربت، وحدت اور وحشت والو! تم ھم سے آگے چلے گئے ہو اور ھم تم سے ملحق ہونے والے ہیں ، دیکھو تمھارے مکانات آباد ہوچکے ہیں تمھاری بیویوں کا دوسرا عقد ہوچکا ہے اور تمھارے اموال تقسیم ہوچکے ہیں ، یہ تو ھمارے یھاں کی خبر ہے، اب تم بتاؤ کہ تمھارے یھاں کی خبر کیا ہے؟

اس کے بعد اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا: اگر ان ہیں بولنے کی اجازت مل جاتی تو تم ہیں صرف یہ پیغام دیتے کہ بھترین زاد راہ؛ تقويٰ الٰھی ہے“۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے:

اِنَّ الْقَبْرَ اِمّا رَوْضَةٌ مِنْ رِیاضِ الْجَنَّةِ، اَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النّیرانِ “۔

”قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے، یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:

اَلبَرْزَخُ الْقَبْرُ، وَهُوَ الثَّوابُ وَالْعِقابُ بَینَ الدُّنْیا وَالْآخِرَةُوَاللّٰهِ مَانَخافُ عَلَیكُم اِلاَّ الْبَرْزَخَ “۔

”برزخ وھی قبر ہے کہ جھاں دنیا و آخرت کے درمیان عذاب یا ثواب دیا جائے گا، خدا کی قسم، ھم تمھارے بارے میں برزخ سے ڈرتے ہیں “۔

روای نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا: برزخ کیا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا:

القَبْرُ مُنْذُ حینِ مَوْتِهِ اِليٰ یوْمِ القِیامَةِ “۔

”موت سے لے کر روز قیامت تک قبر میں رہنے کا نام ہی برزخ ہے“۔

عظیم الشان کتاب ”کافی“ میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

فی حُجُراتٍ فِی الجَنَّةِ یاكُلُونَ مِنْ طَعامِها، وَ یشْرَبُونَ مِنْ شَرابِها، وَیقولُونَ :رَبَّنا اَقِمْ لَنَا السَّاعَةَ، وَانْجِزْ لَنا ما وَعَدْتَنا “۔

”مرنے کے بعد مومنین کی ارواح جنت کے حجروں میں رھتی ہے، (وہ لوگ) جنتی غذا کھاتے ہیں ، جنت کا پانی پیتے ہیں ، اور کھتے ہیں : پالنے والے! جتنا جلدی ہوسکے روز قیامت برپا کردے اور ھم سے کئے ہوئے وعدہ کووفا فرما“۔

عالم برزخ پر عقیدہ کے سلسلہ میں قرآن مجید اور روایات میں بیان موجود ہے، جو معنوی زیبائیوں میں سے ہے، جس پر توجہ رکھنے سے نیک افراد اور بدکار لوگوں کی زندگی پر مفید آثار برآمد ہوتے ہیں اور جس سے انسان تقويٰ، پرھیزگاری اور ظاھر و باطن کی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔

محشر

روز قیامت اور روز محشرایک ایسی حقیقت ہے جس کے با رے میں تمام آسمانی کتابوں، انبیاء کرام اور ائمہ معصومین علیہم السلام نے خبر دی ہے جھاں پر تمام لوگ اپنی نیکی یا بدی کی جزا یا سزا پائےں گے ۔

روز قیامت پر اعتقاد رکھنا ایمان کا ایک حصہ ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے۔

قرآن مجید میں ایک ہزار آیات سے زیادہ اور بھت سی احادیث میں قیامت سے متعلق تفصیلی بیان ہوا ہے:

( رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِیوْمٍ لاَرَیبَ فِیهِ إِنَّ اللهَ لاَیخْلِفُ الْمِیعَادَ ) ۔(۲۷۸)

” خدا یا! تو تمام انسانوں کواس دن جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شک ن ہیں ہے ۔اور اللہ کا وعدہ غلط ن ہیں ہوتا “۔

( فَكَیفَ إِذَا جَمَعْنَاهم لِیوْمٍ لاَرَیبَ فِیهِ وَوُفِّیتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهم لاَیظْلَمُونَ ) ۔(۲۷۹)

”اس وقت کیا ہوگا جب ھم سب کو اس دن جمع کریں گے جس میں کسی شک اور شبہہ کی گنجائش ن ہیں ہے اورھر نفس کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر (ذرہ برابر) ظلم ن ہیں کیا جائے گا“۔

( وَلَئِنْ مُتُّمْ اوْ قُتِلْتُمْ لَإِلَی اللهِ تُحْشَرُون ) ۔(۲۸۰)

”اور تم اپنی موت سے مرو یا قتل ہو جاوسب اللہ ہی کی بارگاہ میں حاضر کئے جاوگے“۔

( وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِی إِلَیهِ تُحْشَرُونَ ) ۔(۲۸۱)

”اور اس خدا سے ڈرتے رھو جس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے“۔

( لَیجْمَعَنَّكُمْ إِلَی یوْمِ الْقِیامَةِ لاَرَیبَ فِیهِ ) (۲۸۲)

”وہ تم سب کو قیامت کے دن اکٹھا کرے گا جس میں کسی شک کی گنجائش ن ہیں ہے“۔

( وَالْمَوْتَی یبْعَثُهم اللَّهُ ثُمَّ إِلَیهِ یرْجَعُونَ ) ۔(۲۸۳)

”اور مردوں کو تو خدا ہی اٹھا ئے گا اور پھر اس کی بارگاہ میں پلٹا دئے جائیں گے“۔

( وَسَیرَی اللهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَی عَالِمِ الْغَیبِ وَالشَّهادَةِ فَینَبِّئُكُمْ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) ۔(۲۸۴)

”وہ یقینا تمھارے اعمال کو دیکھ رھا ہے اور رسول بھی دیکھ رھا ہے اس کے بعد تم حاضر وغیب کے عالم خدا کی بارگاہ میں واپس کئے جاوگے اور وہ تم ہیں تمھارے اعمال سے با خبر کرے گا“۔

( ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَیتُونَ ثُمَّ إِنَّكُمْ یوْمَ الْقِیامَةِ تُبْعَثُونَ ) ۔(۲۸۵)

”پھر اس کے بعد تم سب مر جانے والے ہو۔پھر اس کے بعد تم روز قیامت دوبارہ اٹھائے جاوگے“۔

( لاَ اقْسِمُ بِیوْمِ الْقِیامَةِ وَلاَاقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ ایحْسَبُ الْإِنسَانُ الَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ بَلَی قَادِرِینَ عَلَی انْ نُسَوِّی بَنَانَهُ ) ۔(۲۸۶)

”میں روز قیامت کی قسم کھاتا ہوں۔اور برائیوں پر ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں۔کیا یہ انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ھم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے۔یقینا ھم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کے پورتک درست کرسکیں“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : جناب جبرئیل حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے او رآنحضرت کو قبرستان بقیع میں لے گئے، آپ کو ایک قبر کے پاس بٹھایا اور اس قبر کے مردہ کو آواز دی کہ بہ اذن الٰھی اٹھ کھڑا ہو، وہ فوراً باھر آگیا! ایک ایسا شخص جس کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے قبر سے باھر نکلادر حالیکہ اپنے منھ سے گردوخاک ہٹاتے ہوئے کھتا تھا:”الحمد لله و الله اکبر“، اس وقت جناب جبرئیل نے اس سے کھا: بہ اذن خدا واپس ہوجا، اس کے بعد پیغمبر اکرم کو ایک دوسری قبر کے پاس لے گئے اور اس سے کھا: حکم خدا سے اٹھ کھڑا ہو، چنانچہ ایک شخص نکلا جس کا چھرہ سیاہ تھا اور کہنے لگا: ھائے افسوس! ھائے ھلاکت و بیچارگی! چنانچہ جناب جبرئیل نے اس سے کھا: حکم خدا سے واپس ہوجا۔ اس کے بعد جناب جبرئیل نے کھا: اے محمد! تمام مردے اسی طرح سے روز قیامت محشور ہوں گے(۲۸۷)

لقمان حکیم اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :اے میرے بیٹے! اگر تم ہیں مرنے میں شک ہے تو سونا چھوڑو لیکن ن ہیں چھوڑسکتے، اگر روز قیامت قبر سے اٹھائے جانے میں شک رکھتے ہو تو بیدار رہنا چھوڑدو لیکن ن ہیں چھوڑسکتے، لہٰذا اگر سونے اور جاگنے میں غور و فکر کرو تو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ تمھارا اختیار کسی دوسرے کے ھاتھ میں ہے، بے شک نیند موت کی طرح ہے اور بیداری اور جاگنا مرنے کے بعد قبر سے اٹھانے کی مانند ہے(۲۸۸)

بھر حال پورے قرآن کریم میں قیامت اور اس کے صفات کے بارے میں بھت زیادہ تکرار، تاکید اور وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے، صرف بعض مقامات پر استدلال اور برھان بیان ہوا، برخلاف اثبات توحید کے کہ جھاں پر دلیل و برھان کے ساتھ ساتھ خداوندعالم کی قدرت و حکمت کا بیان بھی ہوا ہے، کیونکہ جب انسان توحید خدا کو قبول کرلیتا ہے تو اس کے لئے معاد اور قیامت کا مسئلہ واضح ہوجاتا ہے۔

اسی وجہ سے قرآن مجید میں روز قیامت کی تشریح و توصیف سے پھلے یا اس کے بعد خدا کی قدرت و توانائی کے بارے میں بیان ہوا ہے، درحقیقت خداوندعالم کے وجود کے دلائل یقینی طور پر معاد کے دلائل بھی ہیں ۔

جھاں پر روز قیامت اور مردوں کے زندہ ہونے پر واضح دلیل بیان ہوئی ہے، وھاں بھی یھی دلیل و برھان قائم کی گئی ہے؛ کیونکہ کوئی بھی یہ ن ہیں کھتا: قیامت کا ہونا کیوں ضروری ہے؟ تاکہ گناھوں کے بارے میں فیصلہ ہوسکے، اور نیک افراد اور برے لوگوں کو جزا یا سزا دی جاسکے، اس پر کوئی اعتراض ن ہیں کرتا بلکہ انکار کرنے والوں کا اعتراض اور اشکال یہ ہوتا ہے کہ کس طرح یہ جسم خاک میں ملنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوگا؟ اسی وجہ سے خداوندعالم نے واضح طور پر یا دلائل توحید کے ضمن میںروز قیامت کے دلائل سے زیادہ منکرین کے لئے جواب دئے ہیں تاکہ منکرین سمجھ لیں کہ جس قدرت خدا کے ذریعہ یہ کائنات خلق ہوئی ہے اسی قدرت کے پیش نظر قیامت کوئی مشکل کام ن ہیں ہے، وھی خالق جس نے شروع میں حیات اور وجود بخشا تو اس کے لئے دوبارہ زندہ کرنا اور دوبارہ حیات دینا کوئی مشکل کام ن ہیں ہے۔

قرآن مجید نے منکرین، مخالفین اور ملحدین کے اعتراض کو سورہ يٰس میں اس طرح بیان کیا ہے:

( اوَلَمْ یرَ الْإِنسَانُ انَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِیمٌ مُبِینٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَنَسِی خَلْقَهُ قَالَ مَنْ یحْی الْعِظَامَ وَهِی رَمِیمٌ قُلْ یحْییها الَّذِی انشَاها اوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ ) ۔(۲۸۹)

”توکیا انسان نے یہ ن ہیں دیکھا کہ ھم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا ہے اور وہ

یکبارگی ھمارا کھلا ہوا دشمن ہوگیا ہے۔اور ھمارے لئے مثل بیان کرتا ہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ہے کھتا ہے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے۔ (اے رسول!) آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پھلی مرتبہ پیدا کیا ہے وھی زندہ بھی کرے گا اور وہ ھر مخلوق کا بھتر جاننے والا ہے“۔

ان آیات میں پھلے انسان کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ تو پھلے تو کچھ ن ہیں تھا اور ایک نطفہ سے زیادہ ارزش ن ہیں رکھتا تھا، لہٰذا انسان کو غور و فکر کی دعوت دی جاتی ہے کہ کیا انسان تونے ن ہیں دیکھا، توجہ ن ہیں کی، غور وفکر ن ہیں کیا کہ ھم نے تجھے ایک نطفہ سے خلق کیا ہے اور اب اتناطاقتور، صاحب قدرت اور باشعور ہوگیا کہ اپنے پروردگار سے مقابلہ کے لئے کھڑا ہوگیا اور علی الاعلان اس سے پر برسرپیکارہے ؟!

پھلے انسان کو مخاطب کیاگیا ہے، یعنی ھر انسان چاھے کسی مذھب کا ماننے والا ہو یا اس کا علم و دانش کسی بھی حد میں ہو اس حقیقت کو درک کرسکتا ہے۔

اس کے بعد نطفہ کے بارے میں گفتگو کی ہے، (لغت میں نطفہ کے معنی ناچیز او ربے ارزش پانی کے ہیں )تاکہ انسان مغرور نہ ہوجائے لہٰذا تھوڑا بھت اپنی ابتداء کے بارے میں بھی جان لے کہ وہ پھلے کیا تھا؟ اس کے علاوہ صرف یھی ایک ناچیز قطرہ اس کی رشد و نمو کے لئے کافی ن ہیں تھا بلکہ اس ایک قطرہ میں چھوٹے چھوٹے ہزاروں سلولز تھے جو آنکھوں سے ن ہیں دیکھے جاسکتے اور یہ زندہ سلولز رحم مادر میں بھت چھوٹے سلولز سے باھم ملے اور انسان ان چھوٹے موجود سے وجود میں آیا ہے۔

اپنے رشد و نمو کی منزل کو یکے بعد دیگرے طے کیا، سورہ مومنون کی ابتدائی آیات نے ان چھ مراحل کی طرف اشارہ کیا ہے: نطفہ، علقہ (مضغہ) ہڈیوں کا ظاھر ہونا، ہڈیوں پر گوشت پیدا ہونا اور آخر میں روح کی پیدائش اور حرکت۔

انسان پیدائش کے وقت ضعیف و ناتواں بچہ تھا، اس کے بعد تکامل کے مرحلوں کو تیزی کے ساتھ طے کیا یھاں تک کہ عقلانی اور جسمانی بلوغ تک پہنچ گیا۔

یہ کمزور اور ناتواں بچہ اس قدر طاقتور ہوا کہ خدا کے مد مقابل کھڑا ہوگیا، اس نے اپنی عاقبت کو بالکل ہی بھلادیااور ”خصیم مبین“ کا واضح مصداق بن گیا۔

انسان کی جھالت کا اندازہ لگائیں کہ ھمارے لئے مثال بیان کرتا ہے اور اپنے زعم ناقص میں داندان شکن دلیل حاصل کرلی ہے، حالانکہ اپنے پھلے وجود کو بھول گیا ہے اور کھتا ہے: ان بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرنے والا کون ہے ؟!

جی ھاں، وہ منکر معاند(دشمن) خصیم مبین (کھلا ہوا دشمن) بغض و کینہ رکھنے والااور بھول جانے والا، جنگل بیابان سے ایک بوسیدہ ہڈی کو پالیتا ہے جس ہڈی کے بارے میں یہ بھی معلوم ن ہیں ہے کہ کس کی ہے؟ اپنی موت پر مرا ہے یا زمان جاھلیت کی جنگ میں دردناک طریقہ سے ماراگیا ہے یا بھوک کی وجہ سے مرگیا ہے؟ بھر حال ہڈی کو پاکر یہ سوچتا تھا کہ قیامت کے انکار پر ایک دندان شکن دلیل مل گئی ہے، غصہ اور خوشحالی کی حالت میں اس ہڈی کو اٹھاکر کھتا ہے: اسی دلیل کے سھارے میں محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) سے ایسا مقابلہ کروں گا جس کا کوئی جواب نہ دیا جاسکے!

تیزی کے ساتھ چل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور فریاد بلند کی: ذرا بتائےے تو سھی کہ اس بوسیدہ ہڈی کو کون دوبارہ لباس ِحیات پہناسکتا ہے؟ اس کے بعد اس ہڈی کو مسلتے ہوئے زمین پر ڈال دیا، وہ سوچتا تھا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے پاس اس کو کوئی جواب ن ہیں پن پائے گا۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے ایک چھوٹے سے جملہ( نسی خلقہ) کے ذریعہ پورا جواب دیدیا، اگرچہ اس کے بعد مزید وضاحت اور دلائل بھی بیان کئے ہیں ۔

ارشاد ہوا: اگر تو نے اپنی پیدائش کو نہ بُھلایا ہوتا تو اس طرح کی بے بنیاد دلیل نہ دیتا؛ اے بھولنے والے انسان! ذرامڑکرتو دیکھ اور اپنی پیدائش کے بارے میں غور و فکر کر کہ اول خلقت میں کس قدر ذلیل پانی تیرا وجود تھا، ھر روز ایک نئی زندگی کی شروعات تھی، تو ھمیشہ موت و معاد کی حالت میں ہے، لیکن اے بھولنے والے انسان! تو نے سب کچھ بالائے طاق رکھ دیا اور اپنی خلقت کو بھول گیا اور اب پوچھتا ہے کہ کون اس بوسیدہ ہڈی کو دوبارہ زندہ کرسکتا ہے؟یہ ہڈی جب مکمل طور پر بوسیدہ ہوجائے گی تو خاک بن جائے گی، کیا تو روز اول خاک ن ہیں تھا؟! فوراً ہی پیغمبر کو حکم ہوتا ہے کہ اس مغرور اور بھولنے والے سے کہہ دو: ”وھی اس کو دوبارہ زندہ کرے گا جس نے روز اول اس کو پیدا کیا ہے“(۲۹۰)

اگر آج یہ بوسیدہ ہڈی باقی رہ گئی ہے تو پھلے تو یہ ہڈی بھی ن ہیں تھی یھاں تک کہ مٹی اور خاک بھی ن ہیں تھی، جی ھاں جس نے اس انسان کو عدم کی وادی سے وجود عطا کیا تو اس کے لئے بوسیدہ ہڈی سے دوبارہ پیدا کرنا بھت آسان ہے۔

اگر تو یہ سوچتا ہے کہ یہ بوسیدہ ہڈیاں خاک ہوکر تمام جگھوں پر پھیل جائیں گی، تو ان ہڈیوںکو کون پہچان سکتا ہے اور کون ان کو مختلف جگہ سے جمع کرسکتا ہے؟ تو اس چیز کا جواب بھی واضح اور روشن ہے کہ وہ تمام مخلوقات سے آگاہ ہے اور اس کی تمام خصوصیات کو جانتا ہے:

( وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ )

”اور وہ ھر مخلوق کا بھترین جاننے والا ہے“۔

جس کے پاس اس طرح کا علم اور قدرت ہو تو اس کے لئے معاد اور مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا کوئی مشکل کام ن ہیں ہے۔

ایک مقناطیس کے ذریعہ مٹی کے نیچے بکھرے ہوئے لوھے کے ذرات کو جمع کیا جاسکتا ہے جبکہ

یہ مقناطیس ایک بے جان چیز ہے، تو کیاخداوندعالم انسان کے بکھرے ہوئے ھر ذرہ کو ایک اشارہ سے جمع ن ہیں کرسکتا؟

وہ نہ صرف انسان کی خلقت سے آگاہ ہے بلکہ انسان کی نیتوں اور اس کے اعمال سے بھی آگاہ ہے، انسان کا حساب و کتاب اس کے نزدیک واضح و روشن ہے۔

لہٰذا اس کے اعمال، اعتقادات اور نیتوں کا حساب کرنا اس کے لئے کوئی مشکل ن ہیں ہے:

( وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِی انفُسِكُمْ اوْ تُخْفُوهُ یحَاسِبْكُمْ بِهِ ) ۔(۲۹۱)

”تم اپنے دل کی باتوں کا اظھار کرو یا ان پر پردہ ڈالو، وہ سب کا محاسبہ کرلے گا“۔

اسی وجہ سے جناب موسيٰ علیہ السلام کو حکم ملا کہ فرعون (جو معاد کے بارے میں شک کرتا تھا اور صدیوں پرانے لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنے اور ان کے حساب و کتاب سے تعجب کرتا تھا)سے کہہ دو :

( عِلْمُها عِنْدَ رَبِّی فِی كِتَابٍ لاَیضِلُّ رَبِّی وَلاَینسَی ) ۔(۲۹۲)

”ان باتوں کا علم میرے پروردگار کے پاس اس کا کتاب میں محفوظ ہے، وہ نہ بہکتا ہے اور نہ بھولتا ہے“(۲۹۳)

بھر حال روز قیامت، روز محشر اورحساب و کتاب کا مسئلہ غیب کے مصادیق میں سے ہے، جس پرقرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں اعتقاد اور ایمان رکھنا معنوی اور روحانی زبیائیوں میں سے ہے، جس سے انسان رشد و کمال کے درجات اور صحیح تربیت حاصل کرلیتاھے، جو انسانی زندگی میں بھت موثر اور ثمر بخش نتائج کا حامل ہے۔

حساب

روز قیامت میں تمام انسانوں کے عقائد، اخلاق اور اعمال کا حساب و کتاب ایک ایسی حقیقت ہے جس کو قرآن کریم اور معارف الٰھی نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔

یہ بات قابل قبول ن ہیں ہے کہ نیک افراد صدق و صفا، اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ میں اپنی پوری عمر بسر کریں اور دوسروں کو بھی فیض پہنچائیں، اور ان کے مرنے کے بعد ان کے اعمال کی فائل بند ہوجائے اور ان کا حساب و کتاب نہ کیا جائے، ان کی زندگی کی کتاب کا دوبارہ مطالعہ نہ کیا جائے اور ان کو کوئی جزا یا انعام نہ ملے۔

اسی طرح یہ بات بھی قابل قبول ن ہیں ہے کہ ناپاک کفارو مشرکین، ملحداور اھل طاغوت، ظلم و ستم، جھالت و غفلت، پستی و ناپاکی، خیانت و ظلم اور غارت گری میں اپنی پوری عمر گزار نے والے، لوگوں پر ظلم و ستم کریں ان کو اذیت پہنچائیں، بھت سے افراد کو ان کے حق سے محروم کردیں، ان کے مرنے کے بعد ان کے اعمال کی فائل بند کردی جائے، ان کا کوئی حساب و کتاب نہ کیا جائے، ان کی زندگی کی کتاب کا دوبارہ مطالعہ نہ کیا جائے اور ان کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا جائے۔

خداوندعالم کے عدل، حکمت، رحمت اور غضب کا تقاضا ہے کہ ایک روز تمام انسانوں کو جمع کرے، ان کے عقائد اور اعمال کا حساب کرے، اور ھر شخص کو اس کے نامہ اعمال کے لحاظ سے جزا یا سزا دے۔

نیک اور صالح افراد کے حساب و کتاب کے بارے میں قرآن مجید فرماتا ہے:

( وَمِنْهم مَنْ یقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اوْلَئِكَ لَهم نَصِیبٌ مِمَّا كَسَبُوا وَاللهُ سَرِیعُ الْحِسَابِ ) ۔(۲۹۴)

”اور بعض کھتے ہیں کہ پروردگار ھمیں دنیا میں بھی نیکی عطا فرمااور آخرت میں بھی اور ھم کو عذاب سے محفوظ فرما۔یھی وہ لوگ ہیں جن کے لئے ان کی کمائی کا حصہ ہے اور خدا بھت جلد حساب کرنے والا ہے“۔

( ثُمَّ رُدُّوا إِلَی اللَّهِ مَوْلاَهم الْحَقِّ الاَلَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ اسْرَعُ الْحَاسِبِینَ ) ۔(۲۹۵)

”پھر سب اپنے مولائے برحق پروردگار کی طرف پلٹا دیئے جاتے ہیں آگاہ ہو جاو کہ فیصلہ کا حق صرف اسی کو ہے اور وہ بھت جلد ی حساب کرنے والاھے۔

( فَامَّا مَنْ اوتِی كِتَابَهُ بِیمِینِهِفَسَوْفَ یحَاسِبُ حِسَاباً یسِیراً ) ۔(۲۹۶)

”پھر جس کو نامہ اعمال داہنے ھاتھ میں دیا جائے گا۔اس کا حساب آسان ہوگا“۔

حضرت امام موسيٰ کاظم علیہ السلام اپنے آباء و اجداد کے حوالہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

لَا تَزولُ قَدَما عَبْدٍٴ یوْمَ الْقِیامَةِ حَتّی یسْالَ عَنْ ارْبَعٍ :عَنْ عُمْرِهِ فِیما اَفْناهُ، وَشَبابِهِ فِیما اَبْلاهُ وَعَنْ مَالِهِ مِنْ اَینَ كَسَبَهُ وَفِیمااَنْفَقَهُ، وَعَنْ حُبِّنَا اَهل الْبَیتِ(۲۹۷)

”روز قیامت انسان کے قدم ن ہیں بڑ ہیں گے مگر یہ کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے : کس چیز میں اپنی عمر گزاری، جوانی کو کن چیزوں میں گزارا، مال و دولت کھاں سے حاصل کی اور کھاں خرچ کی، نیز محبت اھل بیت(علیھم السلام) کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

بے شک جن مومنین نے اپنی عمر او رجوانی کو عبادت و اطاعت میں صرف کیا ہوگا، اور قرآن کے حکم کے مطابق اپنی دولت کو خرچ کیا ہے، اور محبت اھل بیت علیھم السلام میں اپنی عمر گزاری ہے، تو روز قیامت ایسے افراد کا حساب آسان ہوگا، اور حشر کے میدان میں ان کو کوئی پریشانی ن ہیں ہوگی، اور ان کا حساب و کتاب بھت جلد ہوجائے گا۔

ایک شخص امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں عرض کرتا ہے: اے فرزند رسول! میں آپ کی خدمت میں ایک حاجت رکھتا ہوں، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: مجھ سے مكّہ میں ملنا، میںمكّہ میں حضرت سے ملا اور اپنی حاجت کے بارے میں کھا تو حضرت نے فرمایا: منيٰ میں مجھ سے ملنا، چنانچہ میں منيٰ میں حضرت سے ملااور اپنی حاجت کے بارے میں کھا، تو امام علیہ السلام نے کھا: کھو کیا کہنا چاھتے ہو؟ میں نے کھا: میں ایک ایسے گناہ کا مرتکب ہوا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی اس سے مطلع ن ہیں ہے، اس گناہ کا بوجھ مجھے مارے ڈال رھا ہے، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں تاکہ اس سے نجات مل جائے، اور اس گناہ کے بوجھ سے سبکدوش ہوجاؤں، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: جب خداوندعالم روز قیامت برپا کرے گا اور اپنے مومن بندوں کا حساب کرے گا تو ان کے تمام گناھوں سے آگاہ کرے گا، پھر اپنی رحمت و مغفرت میں جگہ دے گا اور اپنے بندے کے بخشے گئے گناھوں سے کسی فرشتہ یا رسول کو بھی باخبر ن ہیں کرے گا!(۲۹۸)

مومنین کے حساب کے سلسلے میں ایک بھت اھم روایت علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے اپنی گزانقدر کتاب بحار الانوار میں امالی شیخ طوسی علیہ الرحمہ کے حوالہ سے حضرت علی علیہ السلام سے نقل کی ہے، جو واقعاً تعجب خیز اور امیدوار کرنے والی ہے! روایت یوں ہے:

یوقَفُ الْعَبْدَ بَینَ یدَی اللّٰهِ فَیقُولُ :قیسُوا بَینَ نِعَمی عَلَیهِ وَ بَینَ عَمَلِهِ، فَتَسْتَغْزِقُ النِّعَمُ الْعَمَلَ، فَیقولونَ:قَدِ اسْتَغْرَقَ النِّعَمُ الْعَمَلَ، فَیقُولُ : هَبُوا لَهُ نِعَمِی، وَ قیسُوا بَینَ الْخَیرِ وَ الشَّرِّ مِنْهُ، فَاِنِ اسْتَوَی الْعَمَلانِ اَذْهَبَ اللّٰهُ الشَّرَّ بِالْخَیرِ وَاَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ، وَاِنْ کانَ لَهُ فَضْلٌ اَعْطاهُ اللّٰهُ بِفَضْلِهِ، وَاِنْ کاَنَ عَلَیهِ فَضْلٌ وَهُوَ مِنْ اَهل التَّقْويٰ لَمْ یشْرِكْ بِاللّٰهِ تَعاليٰ وَاتَّقَی الشِّرْكَ بِهِ فَهُوَ مِنْ اَهل الْمَغْفِرَةِ یغْفِر اللّٰهُ لَهُ بِرَحْمَتِهِ اِنْ شاءَِ وَ یتَفَضَّلُ عَلَیهِ بِعَفْوِهِ(۲۹۹)

”بندہ کو خدا کی بارگاہ میں حاضر کیا جائے گا اور خدا فرمائے گا:میری نعمتوں اور اس کے اعمال کا موازنہ کرو، چنانچہ جب نعمتیں اس کے تمام اعمال کو چھپالیں گی تو فرشتے عرض کریں گے: پالنے والے! اس کے اعمال پر تیری نعمتیں غالب ہیں ، خطاب ہوگا: میری نعمتوں کو بخش دو، اس کی نیکیوں اور برائیوں کے درمیان موازنہ کرو، اگر اس کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوگئیں تو اس کی برائیوں کو نیکیوں کے احترام میں بخش دو، اس کو بہشت میں وارد کردو، اور اگر اس کی نیکیاں زیادہ ہیں تو نیکیوں کی وجہ سے اس کو مزید عطا کردو، اوراگر اس کی برائیاں زیادہ ہیں لیکن اھل تقويٰ ہے اور خدا کے ساتھ شرک ن ہیں کیا ہے، تو یہ شخص مغفرت کا سزاوار ہے، خداوندعالم اگر چاھے تو اپنی رحمت کے ذریعہ اس کے گناھوں کو بخش دے گا اور اپنے عفو وکرم سے اس پر فضل و کرم کرے گا!“

علامہ مجلسی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب بحار الانوار میں اصول کافی سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: روز قیامت نعمتوں، نیکیوں اور برائیوں کے درمیان مقائسہ کیا جائے گا۔

نعمتوں اور نیکیوں کا آپس میں موازنہ کیا جائے گا، نعمتیں، نیکیوں سے زیادہ ہوں گی، برائیوں کی فائل کی شکست ہوگی، مومن انسان کو حساب کے لئے بلایا جائے گا، اس وقت قرآن کریم بھترین صورت میں اس مومن بندے کے پاس حاضر ہوکر یوں گویا ہوگا: پروردگارا! میں قرآن ہوں اور یہ تیرا مومن بندہ، اس نے میری تلاوت کے لئے زحمتیں اٹھائی ہیں ، راتوں میری تلاوت میں مشغول رھا ہے، نماز شب میں اپنی آنکھوں سے آنسو بھائے ہیں ، پالنے والے! اس سے راضی ہوجا، اس وقت خدائے عزیز و جباربندہ مومن سے خطاب فرمائے گا: اپنا داہنا ھاتھ کھول، چنانچہ اس کے داہنے ھاتھ کو اپنی رضوان سے بھردے گا اور بائیں ھاتھ کو اپنی رحمت سے بھر دے گا، اور پھر اپنے مومن بندہ سے خطاب فرمائے گا: یہ بہشت تیرے لئے مباح ہے، قرآن پڑھتا جا اور بلند و بالادرجات کی طرف بڑھتا جا، چنانچہ انسان جس مقدار میں قرآن کی آیتوں کی تلاوت کرتا رہے گا اسی مقدار میں جنت کے درجات پر فائز ہوتا جائے گا۔

گناھگاروں، بدکاروں، ملحدوں اور بے دین لوگوں کے حساب اور ان کے نامہ اعمال کے پڑھے جانے کے سلسلہ میں قرآن مجید اور روایات میں پڑھتے ہیں :

( وَمَنْ یكْفُرْ بِآیاتِ اللهِ فَإِنَّ اللهَ سَرِیعُ الْحِسَابِ ) ۔(۳۰۰)

”اور جو بھی آیات الٰھی کا انکار کرے گا تو خدا بھت جلد حساب کرنے والاھے“۔

( وَالَّذِینَ لَمْ یسْتَجِیبُوا لَهُ لَوْ انَّ لَهم مَا فِی الْارْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ اوْلَئِكَ لَهم سُوءُ الْحِسَابِ وَمَاوَاهم جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهادُ ) ۔(۳۰۱)

”اور جو اس کی بات کو قبول ن ہیں کرتے ان ہیں زمین کے سارے خزانے بھی مل جائیں اور اسی قدر اور بھی مل جائے تو یہ بطور فدیہ دے دیں گے لیکن ان کے لئے بد ترین حساب ہے اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بھت بُرا ٹھکانا ہے“۔

( وَكَاینْ مِنْ قَرْیةٍ عَتَتْ عَنْ امْرِ رَبِّها وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاها حِسَابًا شَدِیدًا وَعَذَّبْنَاها عَذَابًا نُكْرًا ) ۔(۳۰۲)

”اور کتنی ہی بستیاں ایسی ہیں جنھوں نے حکم خدا و رسول کی نافرمانی کی تو ھم نے ان کا شدید محاسبہ کر لیا اور ان ہیں بد ترین عذاب میں مبتلا کردیا“۔

( اِلاَّ مَنْ تَوَلّٰی وَكَفَرَفَیعَذِّبُهُ اللّٰهُ الْعَذَابَ الْاَكْبَرَاِنَّ اِلَینَا اِیابَهُمْثُمَّ اِنَّ عَلَینَا حِسَابَهُمْ ) ۔(۳۰۳)

”مگر منھ پھیرلے اور کافر ہوجائے۔تو خدا اسے بھت بڑے عذاب میں مبتلا کرے گا۔پھر ھمارے ہی طرف ان سب کی باز گشت ہے۔اور ھمارے ہی ذمہ ان سب کا حساب ہے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام درج ذیل آیہ قرآن( إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اوْلَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ) ۔(۳۰۴) کے بارے میں فرماتے ہیں :

یسْالُ السَّمْعَ عَمّا یسْمَعُ، وَالْبَصَرَ عَمّا یطْرِفُ، وَالْفُوادَ عَمّا عَقَدَ عَلَیهِ(۳۰۵)

”روز قیامت خدا وندعالم کانوں سے سنی ہوئی، آنکھوں سے دیکھی گئی اور دل میں پیدا ہونے والی چیزوںکے بارے میں سوال فرمائے گا“۔

ایک شخص نے حضرت امام سجاد علیہ السلام سے عرض کیا: اگر کسی مومن کا کوئی حق کافر کے ذمہ باقی رہ گیا ہے تو روز قیامت کافر سے مومن کے نفع میں کیا چیز لی جائے گی، حالانکہ کافر اھل جہنم ہوگا؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: کافر پر حق کے برابر مومن کے گناھوں کو کافر کی گردن پر ڈالدیا جائے گا اور کافر اپنے گناھوں اور اس حق کے گناھوں کے برابر عذاب میں گرفتار ہوگا!(۳۰۶)

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :

ظلم و ستم کی تین قسمیں ہیں : ایک وہ ستم جس کو معاف ن ہیں کیا جائے، دوسرے وہ ستم جس کو چھوڑا ن ہیں جائے گا، تیسرے وہ ستم جو بخش دیا جائے گا اور اس کا مطالبہ ن ہیں ہوگا۔

لیکن وہ ستم جو معاف ن ہیں ہوگا وہ خدا کے ساتھ شرک کرنا ہے، جیسا کہ خداوندعالم نے ارشاد فرمایا ہے:

( إِنَّ اللهَ لاَیغْفِرُ انْ یشْرَكَ بِه ) ۔(۳۰۷)

”اللہ اس بات کو معاف ن ہیں کر سکتا کہ اس کا شریک قرا دیا جائے“۔

وہ ستم جو بخش دیا جائے گا، وہ انسان کا اپنے نفس پر ظلم و ستم ہوگا جو انسان نے گناھان صغیرہ کے ذریعہ انجام دیا ہوگا۔

لیکن وہ ستم جس کو چھوڑا ن ہیں جائے گا، وہ دوسروں پر کیا ہوا ظلم ہوگا، یہ ستم چاقو یا تازیانہ سے کیا ہوا ستم ن ہیں ہوگا بلکہ اس سے (بھی) کمتر اور چھوٹا ظلم ہوگا۔(۳۰۸)

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

یوتيٰ یوْمَ الْقِیامَةِ بِصاحِبِ الدَّینِ یشْكُو الْوَحْشَةَ، فَاِنْ کاَنَتْ لَهْ حَسَناتُ اْخِذَ مِنْهُ لِصاحِبِ الدَّینِ، وَقالَ:وَاِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَناتٌ اُلْقِی عَلَیهِ مِنْ سَیئاتِ صاحِبِ الدَّینِ ۔“

” ایک مقروض کو روز قیامت حاضر کیا جائے گا جو خوف و وحشت کی شکایت کرتا ہوگا، تو اگر اس کے پاس نیکیاں ہوں گی تو صاحب قرض کو اس کی نیکیاں دیدی جائیں گی، او راگر نیکیاں نہ ہوں گی تو صاحب قرض کی برائیاں اس کی گردن پر ڈال دی جائیں گی“۔

حساب و کتاب اور روز قیامت بندوں کے اعمال کی کتاب کا دوبارہ مطالعہ بھی غیب کے

مصادیق میں سے ہے، جس پر عقیدہ رکھنا قرآن و حدیث کی بنا پر ایمان کا جزء ہے اور معنوی زیبائیوں میں سے ہے۔

میزان

انسان کے اعمال کو پرکھنے کی میزان اور ترازو چاھے جس کیفیت کے ساتھ بھی ہو ایک اھم مسئلہ ہے، جس کا ذکر قرآن کریم اور اور احادیث اھل بیت علیھم السلام میں تفصیلی طور پر ہوا ہے، جو روز قیامت کے مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے۔

( وَالْوَزْنُ یوْمَئِذٍ الْحَق ) ۔(۳۰۹)

”آج کے دن اعمال کا وزن ایک برحق شئے ہے“۔

( وَ نَضَعُ المَوَازِینَ الْقِسْطَ لِیوْمِ الْقِیامَةِ فَلاَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیئاً ) ۔(۳۱۰)

”اور ھم قیامت کے دن انصاف کی ترازو قائم کریں گے“۔

ہشام بن سالم کھتے ہیں : میں نے اس آیت کے بارے میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ روز قیامت ”میزان“ سے کیا مراد ہے؟ تو حضرت نے فرمایا: اس سے مراد انبیاء اور اوصیاء انبیاء علیھم السلام ہے۔(۳۱۱)

جی ھاں، روز قیامت میں بندوں کے اعمال، عقائد اور اخلاق کو انبیاء اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے ساتھ تولا جائے گا، اگر انسان کے عقائد، اعمال اور اخلاق انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کے عقائد و اعمال کے ساتھ ھم آہنگ ہوں گے تو ایسا شخص اھل نجات ہے، اور درحقیقت اس کا پلڑا بھاری ہوگا، اور اگر انسان کے اعمال انبیاء و ائمہ علیھم السلام سے ھم آہنگ نہ ہوں گے تو ایسا شخص نجات ن ہیں پاسکتا، چونکہ اس کا پلڑا ھلکا او ربے وزن ہوگا، قرآن مجید نے ان دونوں مسائل کے بارے میں یوں اشارہ کیا ہے:

( فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُهُ فَاوْلَئِكَ هم الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُهُ فَاوْلَئِكَ الَّذِینَ خَسِرُوا انفُسَهم بِمَا كَانُوا بِآیاتِنَا یظْلِمُونَ ) ۔(۳۱۲)

”پھر جن کے نیک اعمال کا پلہ بھاری ہو گا وھی نجات پانے والے ہیں ۔اور جن کا پلہ ھلکا ہوگیا یھی وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے نفس کو خسارہ میں رکھا کہ وہ ھماری آیت وں پر ظلم کر رہے تھے“۔

( وَاِنْ کاَنَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ اتَینَا بِهَا وَكَفَيٰ بِنَا حَاسِبِینَ ) ۔(۳۱۳)

”اور کسی کا عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہے تو ھم اسے لے آئیں گے اور ھم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ہیں “۔

( فَامَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِینُهُ فَهُوَ فِی عِیشَةٍ رَاضِیةٍوَامَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُهُ فَا مُّهُ هَاوِیةٌوَمَا ادْرَاكَ مَاهِیهْنَارٌ حَامِیةٌ ) ۔(۳۱۴)

”تو اس دن جس کی نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگا۔وہ پسندیدہ عیش میں ہوگا۔اور جس کا پلہ ھلکا ہوگا ۔اس کا مرکز ھاویہ ہے۔اور تم کیا جانو کہ ھاویہ کیا مصیبت ہے۔یہ ایک دہکتی ہوئی آگ ہے“۔

عقائد حقہ، اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ خاص اھمیت سے برخوردار ہیں ، عدل الٰھی کی میزان میں ناقابل تصور وزن رکھتے ہیں اور سخت مقامات پر باعث نجات ہیں ۔

حضرت امام باقر علیہ السلام اپنے آباء و اجداد کے سلسلے میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

حُبّی وَحُبُّ اَهل بَیتِی نافِعٌ فِی سَبْعَةِ مَواطِنَ اَهْوَالُهُنَّ عَظیمَةٌ، عِنْدَ الْوَفاةِ، وَفِی الْقَبْرِ، وَ عِنْدَ النُّشورِ، وَ عِنْدَ الْكِتابِ، وَعِنْد الْحِسابِ، وَ عِنْدَ الْمِیزانِ، وَ عِنْدَ الصِّراطِ(۳۱۵)

”ھماری اور ھمارے اھل بیت کی محبت سات خطرناک مقامات پر کام آئے گی، موت کے وقت، قبرمیں، قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے کے وقت، نامہ اعمال کے وقت، حساب کے وقت، میزان پر، اور پُل صراط پر گزرتے وقت“۔

قارئین کرام! ھم جانتے ہیں کہ محب کی محبت محبوب سے کسب آثار کے لئے بھت اھم چیز ہے، جو محبت انسان کے لئے سات مقامات پر کام آنے والی ہے، جو انسان کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آنحضرت کے اھل بیت علیھم السلام کی پیروی اور اطاعت کرنے کے لئے آمادہ کرے۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں :

ما یوضَعُ فی میزانِ امْرِیءٍ یوْمَ الْقِیامَةِ اَفْضَلُ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ(۳۱۶)

”روز قیامت انسان کی ترازومیں حسن خلق سے بھتر کوئی چیز ن ہیں ہے“۔

حضرت امام رضا علیہ السلام مامون عباسی کے لئے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں :

وَتُومِنُ بِعَذابِ الْقَبْرِ، وَمُنْكَرٍ وَنَكِیرٍ وَ الْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْمِیزانِ وَالصِّراطِ(۳۱۷)

”عذاب قبر، منکر و نکیر اور مرنے کے بعد روز قیامت میں محشور ہونے، میزان اور پُل صراط پر ایمان رکھ“۔

میزان کا مسئلہ بھی گزشتہ مسائل کی طرح غیب کے مصادیق میں سے ہے، اور قرآن کریم اور حدیث کی بنا پر اس پر ایمان رکھنا واجب ہے، جس کے انسان کی زندگی میں بھت سے مفید آثار نمایاں ہوتے ہیں ۔

بہشت و جہنم

”بہشت “متقین کے لئے ھمیشگی اور ابدی مقام ہے، اور ”جہنم “اھل کفر و معصیت کا ھمیشگی مقام ہے، جن کے بارے میں قرآن مجید کی بھت سی آیات اور اسلامی تعلیمات خصوصاً احادیث اھل بیت علیھم السلام میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔

ھم ان دونوں کی وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس ن ہیں کرتے، کیونکہ اکثر مومنین مجالس اور دیگر طریقوں سے یا اسلامی کتابوں میں ان دونوں کے بارے میں سن چکے یا پڑھ چکے ہیں ۔

جنت ودوزخ پر ایمان رکھنا دینی ضروریات میں سے ہے اور ان دونوں پر ایمان نہ رکھنا کفر کے برابر ہے۔

بہشت اپنی تمام تر مادی و معنوی نعمتوں کے ساتھ نیک اور صالح افراد کی جزا اور جہنم اپنے تمام ظاھری و باطنی عذاب کے ساتھ بدکاروں کے لئے جائے سزا ہے۔

بہشت و جہنم غیب کے مصادیق میں سے ہے، ان دونوں کے بارے میں بیان کرنا صرف اورصرف وحی الٰھی کی ذمہ داری ہے، انسان کا علم جس کے درک کرنے سے قاصرہے ، اسی وجہ سے انسان وحی الٰھی پر توجہ کئے بغیر ان دونوں کے بارے میں اپنا نظریہ بیان ن ہیں کر سکتا، اگرچہ علم و دانش کے لحاظ سے بلند مقام پر پہنچ چکا ہے۔

خداوندعالم ؛اھل صدق و صداقت اور نیک افراد کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

( قَالَ اللهُ هَذَا یوْمُ ینفَعُ الصَّادِقِینَ صِدْقُهم لَهم جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِها الْانهارُ خَالِدِینَ فِیها ابَدًا رَضِی اللهُ عَنْهم وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ) ۔(۳۱۸)

”اللہ نے کھا کہ یہ قیامت کا دن ہے جب صادقین کو ان کا سچ فائدہ پہنچائے گا تو ان کے لئے باغات ہوں گے جن کے نیچے نھریں جاری ہوں گی اور وہ ان میں ھمیشہ ھمیشہ ر ہیں گے ۔خدا ان سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے راضی ہوں گے، اور یھی ایک عظیم کامیابی ہے“۔

اسی طرح خداوندعالم گناھگاروں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَالَّذِینَ كَسَبُوا السَّیئَاتِ جَزَاءُ سَیئَةٍ بِمِثْلِها وَتَرْهَقُهم ذِلَّةٌ مَا لَهم مِنْ اللهِ مِنْ عَاصِمٍ كَانَّمَا اغْشِیتْ وُجُوهُهم قِطَعًا مِنْ اللَّیلِ مُظْلِمًا اوْلَئِكَ اصْحَابُ النَّارِ هم فِیها خَالِدُونَ ) ۔(۳۱۹)

”اور جن لوگوں نے برائیاں کمائی ہیں ان کے لئے ھر بُرائی کے بدلے ویسی ہی بُرائی ہے اور ان کے چھروں پر گناھوں کی سیاھی بھی ہوگی اور ان ہیں عذاب الٰھی سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا ۔ان کے چھرے پر جیسے سیاہ رات کی تاریکی کا پردہ ڈال دیا گیا ہو۔وہ اھل جہنم ہیں اور اسی میں ھمیشہ رہنے والے ہیں “۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : جس وقت روز قیامت برپا ہوگی، خداوندعالم ایک منادی کو حکم دے گا کہ اس کی بارگاہ میں یہ اعلان کرے: غریب اورنادار لوگ کھاں ہو؟ بھت سے لوگ جمع ہوجائیں گے، اس وقت خدا فرمائے گا: اے میرے بندو! تووہ آواز دیں گے: لبیک یا اللہ، اس وقت خدا فرمائے گا: میں نے تم لوگوں کو ذلیل کرنے کے لئے غریب و نادار ن ہیں بنایا تھالیکن اس لئے کہ آج کے دن تم ہیں نعمتوں سے مالامال کردوں، جاؤ اور لوگوں کو تلاش کرو کہ جس نے بھی تمھارے ساتھ نیکی کی ہو، اس کی نیکی میری خوشنودی کے لئے تھی، لہٰذا اس کے عمل کی جزا یہ ہے کہ اس کو بہشت میں داخل کردو۔(۳۲۰)

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اگر کوئی مومن کسی دوسرے مومن کی ضرورت کے وقت حاجت پوری نہ کرے، اپنی طرف سے یا دوسرے کے ذریعہ اس کی مشکل کو آسان نہ کرے تو خداوندعالم روز قیامت اس کے چھرہ کو سیاہ کردے گا، اس کی آنک ہیں اندھی ہوجائیں گی اور اس کے دونوں ھاتھ گردن سے بندھے ہوں گے، اور کھا جائے گا: یہ وہ خیانت کار ہے جس نے خدا و رسول کے ساتھ خیانت کی ہے، اس کے بعد حکم دیا جائے گا کہ اس کو آتش جہنم میں ڈال دو۔[۶۸]

حضرت امیر المومنین علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا: یا علی!جو شخص مجھ سے محبت کا دعويٰ کرے درحالیکہ آپ سے دشمنی رکھتا ہو ایسا شخص جھوٹا ہے، یا علی! جس وقت قیامت برپا ہوگی اےک منادی عرش سے آواز دے گا، علی علیہ السلام کے عاشق اور ان کے شیعہ کھاں ہیں ؟ علی کے محب اور دوستدار اور جس کو علی دوست رکھتے ہیں کھاں ہو؟ جن لوگوں نے رضائے الٰھی کے لئے دوستی کی ہے اور ایک دوسرے سے محبت کی ہے، جنھوں نے خدا کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ کرم و بخشش سے کام لیا ہے، وہ لوگ جنھوں نے اپنی ضرورت کے باوجود دوسروں کی حاجت کو پورا کیا ہے، جن لوگوں کی زبان گرمی کے روزہ کی وجہ سے خشک ہوئی ہے، جنھوں نے رات کے اندھیرے میں عبادتیں کی ہیں جبکہ دوسرے لوگ سوئے ہوئے تھے، جن لوگوں نے خوف خدا سے گریہ کیا ہے؟ آج تم لوگوں کے لئے کوئی خوف و ھراس ن ہیں ہے، تم لوگ (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھی ہو، تمھاری آنک ہیں منور ہوں، تم اپنی ازواج کے ساتھ خوش و خرم بہشت میں داخل ہوجاؤ(۳۲۱)

جنت و دوزخ کے بارے میں قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اور بھت سی احادیث بیان ہوئی ہیں اور امام صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق (بہشت و جہنم) اب بھی موجود ہیں اور یہ غیب کے مصادیق میں سے ہیں ، جس پر ایمان و عقیدہ رکھنے سے صالح مومنین اور بدکاروں کی زندگی پر مثبت آثار ظاھر ہوتے ہیں ، کیونکہ طالب بہشت اپنے کو عقائد حقہ، اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ سے آراستہ ہونے کی کوشش کرتا ہے اور جہنم سے ڈرنے والا درد ناک عذاب کے باعث خود کوگناھوں سے محفوظ کرتاھے۔

قارئین کرام! گزشتہ صفحات میں خدا، فرشتوں، برزخ، قیامت، حساب و کتاب، میزان اور بہشت و جہنم کے بارے میں بیان کئے گئے مطالب آیہ( الَّذِینَ یومِنونَ بِالْغَیبِ ) ۔(۳۲۲) کی تفسیر تھی۔

قرآن کریم اور احادیث معصومین علیھم السلام پر غور و فکر کرتے ہوئے غیب پر ایمان رکھنا ھر مرد و زن کے لئے ممکن ہے، اور ان چیزوں پر اعتقاد و ایمان رکھنا شرعی اور عقلی طور پر واجب ہے، کیونکہ غیب پر ایمان رکھنا دین کے اصول اور ضروری دین میں سے ہے، ان عقائد کے بارے میں کسی انسان کو کسی کی تقلید کرنے کا کوئی حق ن ہیں ہے، کیونکہ ھر انسان کے دل میں ان چیزوں پر ایمان ہونا ضروری ہے۔

غیب پر ایمان رکھنے سے انسان کو بلند مقامات عطا ہوتے ہیں ، غیب پر ایمان رکھنے والا شخص محبوب خدا بن جاتا ہے، اس کے لئے دنیا و آخرت کی نجات کا دروازہ کھل جاتا ہے، اس کے لئے آج اور کل کی سعادت کا راستہ ھموار ہوجاتا ہے، جس سے انسان کو خدا کی عبادت اور پیغمبر و ائمہ علیھم السلام کی اطاعت کے لئے طاقت ملتی ہے۔

قرآن مجید نے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات میں غیب پر ایمان رکھنے کے بارے میں تاکید کی ہے اور اس کے بعد نماز و انفاق، آسمانی کتابوں اور قیامت کے دن پر ایمان کے بارے میں بیان کیا ہے جو غیب پر ایمان رکھنے کے آثار ہیں ۔

قرآن اور اس سے قبل نازل ہونے والی کتابوں(جن کی تصدیق قرآن کریم نے فرمائی ہے) پر ایمان رکھنا قرآن کریم کی آیات اور اس کی تفسیر میں غور و فکر کے بعدھی ممکن ہے۔

قرآن کریم کے ایک (چھوٹے سے )سورے جیسے سورہ توحید یا سورہ کوثر کا جواب اگر ممکن ہوتا تو دشمنان اسلام اپنی تمام تر ترقی کے باوجودجواب لے آئے ہوتے، لیکن قیامت تک کسی قوم و ملت میں اتنی طاقت ن ہیں ہے کہ وہ قرآن کی مثل لے آئے:

( وَإِنْ كُنتُمْ فِی رَیبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَاتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَائَكُمْ مِنْ دُونِ اللهِ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِینَ ) ۔(۳۲ ۳ )

”اگر تم ہیں اس کلام کے بارے میں کوئی شک ہے جسے ھم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسا ایک ہی سورہ لے آو اور اللہ کے علاوہ جتنے تمھارے مددگار ہیں سب کو بلا لو اگر تم دعوے اور خیال میں سچے ہو“۔

( قُلْ لَئِنْ اجْتَمَعَتْ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی انْ یاتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لاَیاتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهم لِبَعْضٍ ظَهِیرًا ) ۔(۳۲۴)

”(اے رسول)آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی ن ہیں لاسکتے، چاھے سب ایک دوسرے کے مددگار و پشت وپناہ ہی کیوں نہ ہو جائیں“۔

ان دونوں آیات کے پیش نظر قرآن کریم کے خداوندعالم کی طرف نازل ہونے میں ذرہ برابر بھی شک باقی ن ہیں رھتا، لہٰذا قرآن کریم جیسی عظیم الشان کتاب اور دیگر آسمانی کتابوں پر ایمان رکھنا، کوئی مشکل کام ن ہیں ہے۔

اسی طرح قرآنی آیات اور دلائل میں غور و فکر کے ذریعہ آخرت پر ایمان حاصل کرنا بھی ایک آسان کام ہے۔

غیب، قرآن کریم، دیگر آسمانی کتب اور آخرت پر ایمان و یقین رکھنا معنوی زیبائیوں میں سے ہے۔

نماز

نماز وہ حقیقت ہے جس سے انسان کے ظاھر و باطن میں مادی اور معنوی طھارت و پاکیزگی پیدا ہوتی ہے، جس سے انسان کا ظاھر و باطن مزین ہوجاتا ہے، اور نمازی کے لئے ایک خاص نورانیت حاصل ہوتی ہے۔

قرآن کریم نے بھت سی آیات میں نماز کی طرف دعوت دی ہے، اور اس کو ایک فریضہ الٰھی کے عنوان سے بیان کیا ہے، نہ صرف یہ کہ نماز کاحکم دیا ہے بلکہ واجبی حکم دیا گیا ہے۔

( وَاقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَمَا تُقَدِّمُوا لِانفُسِكُمْ مِنْ خَیرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللهِ إِنَّ اللهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ ) ۔(۳۲۵)

”اور تم نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو کہ جو کچھ اپنے واسطے پھلے بھیج دوگے سب خدا کے یھاں مل جائے گا ۔خدا تمھارے اعمال کا دیکھنے والا ہے“۔

قرآن مجید نے بھت سی آیات میں مشکلات کے دور ہونے، سختیوں کے آسان ہونے اور بھت سے نیک کاموں میں امداد ملنے کے لئے نماز اور صبر کی دعوت دی ہے:

( وَاسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ وَإِنَّها لَكَبِیرَةٌ إِلاَّ عَلَی الْخَاشِعِینَ ) ۔(۳۲۶)

”صبر اور نماز کے ذریعہ مدد مانگو ۔نماز بھت مشکل کام ہے مگر ان لوگوں کے لئے جو خشوع و خضوع والے ہیں “۔

البتہ یہ بات معلوم ہونا چاہئے کہ وھی نماز انسان کو طاقت و بلندی عطا کرتی ہے جس میں فقھی اور معنوی شرائط پائے جاتے ہوں، جس نماز میں لباس اور مکان مباح ہو، وضو اور غسل کا پانی اور تیمم کی مٹی مباح ہو، جس نماز میں ترتیب اور طمانینہ (یعنی اطمینان) اور وقت کی رعایت کی گئی ہو، جس نماز میں سستی اور بے توجھی نہ پائی جاتی ہو، جس نماز میں نیت پاک ہو اور اس میں اخلاص پایا جاتا ہو، تو اس طرح کی نماز انسان کی مشکلات اور سختیوں میںمددگار ثابت ہوتی ہے، اور پھر انسان کے لئے تمام نیک کام کرنے کا راستہ ھموار ہوجاتا ہے۔

قرآن مجید نے بھت سی آیات میں نماز کو ایمان کی نشانی قرار دیا ہے۔

( اِنَّمَا الْمُومِنُونَ الَّذِینَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَاِذَا تُلِیتْ عَلَیهِمْ آیا تُهُ زَادَتْهُمْ اِیمَاناً وَعَلٰی رَبِّهِمْ یتَوَكَّلُونَالَّذِینَ یقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ ینْفِقُونَ ) ۔(۳۲۷)

”صاحبان ایمان در حقیقت وہ لوگ ہیں جن کے سامنے ذکر خدا کیا جائے تو ان کے دلوں میں خوف خدا پیدا ہو اور اس کی آیات کی تلاوت کی جائے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ لوگ اللہ ہی پر توکل کرتے ہیں ۔وہ لوگ نماز کو قائم کرتے ہیں اور ھمارے دیئے ہوئے رزق سے انفاق بھی کرتے ہیں “۔

قرآن کریم نے سستی، حالت غنودگی اور حضور قلب میں مانع ہونے والی ھر چیز کو حالت میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے، بلکہ ایسے وقت میں نماز کی ادائیگی چاھی ہے کہ جب خوشی و نشاط، صدق و صفا اور خلوص اور حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھی جاسکے اور تمام ظاھری و باطنی شرائط کا لحاظ کیا جائے:

( یاایها الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَقْرَبُوا الصَّلاَةَ وَانْتُمْ سُكَارَی حَتَّی تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ ) ۔(۳۲۸)

”اے ایمان والو ! خبر دار نشہ کی حالت میں نما زکے قریب بھی نہ جانا جب تک یہ ہوش نہ آجائے کہ تم کیا کہہ رہے ہو“۔

قرآن مجید نے اپنے اھل و عیال کو نماز کی دعوت کو اخلاق انبیاء بتایا ہے، اور نمونہ کے طور پر حضرت اسماعیل کی دعوت کو بیان کیاھے:

( وَكَانَ یامُرُ اهلهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِیا ) ۔(۳۲۹)

”اور وہ اپنے گھر والوں کو نما ز اور زکوٰة کا حکم دیتے تھے اور اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے“۔

قرآن مجید نے بیان کیا ہے کہ نمازانسان کو فحشاء و منکر سے روکتی ہے۔ جی ھاں، یہ بات تجربہ سے ثابت ہوچکی ہے کہ واقعی نماز انسان کو برائیوں سے روک دیتی ہے، اور انسان کے دل و جان میں پاکیزگی بھر دیتی ہے، اعضاء وجوارح کو خدا کی اطاعت کرنے پر آمادہ کردیتی ہے۔

( وَاقِمْ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلاَةَ تَنْهَی عَنْ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ) (۳۳۰)

”اور نماز قائم کرو کہ نماز ھربُرائی اور بدکاری سے روکنے والی ہے۔“

قرآن کریم نے بے نمازی، بخیل، اھل باطل اور قیامت کی تکذیب کرنے والوں کو جہنمی قرار دیا ہے:

( قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّینَوَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِینَ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِینَ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِیوْمِ الدِّینِ ) ۔(۳۳۱)

”وہ ک ہیں گے ھم نماز گذارن ہیں تھے۔اور مسکین کو کھانا ن ہیں کھلایا کرتے تھے۔ لوگوں کے بُرے کاموں میں شامل ہو جایا کرتے تھے۔اور روز قیامت کی تکذیب کیاکرتے تھے“۔

قرآن مجید نے حقیقت نماز سے غافل اور ریاکاری کرنے والے نمازی کو دین کا جھٹلانے والا قرا دیا ہے:

( فَوَیلٌ لِلْمُصَلِّینَ الَّذِینَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَالَّذِینَ هُمْ یرَآءُ ونَ ) ۔(۳۳۲)

”تو تباھی ہے ان نمازیوں کے لئے ۔جو اپنی نمازوں سے غافل رھتے ہیں ۔دکھانے کے لئے عمل کرتے ہیں “۔

نماز اور اس کے فقھی و معنوی شرائط کے سلسلہ میں بھت سی روایات بھی بیان ہوئی ہیں جن میں چند کو بطور نمونہ پیش کیا جاتا ہے:

حضرت امام باقر علیہ السلام ایک روایت کے ضمن میں کچھ چیزوں کی سفارش کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اپنی نماز کو بھی سبک نہ سمجھو کیونکہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے آخری وقت میں فرمایاھے:

لَیسَ مِنّی مَنِ اسْتَخَفَّ بِصَلاتِهِ لَایرِدُّ عَلَی الْحَوْض لَا وَاللّٰهِ، لَیسَ مِنّی مَنْ شَرِبَ مُسْكِراً لَا یرِدُّ عَلَی الْحَوْضَ لَا وَاللّٰهِ ۔“( ۳ ۳۳)

”جو شخص نماز کو سبک سمجھے وہ مجھ سے ن ہیں ہے، خدا کی قسم حوض کوثر پر میرے پاس ایسا شخص ن ہیں پہنچ سکتا، اور ایسا شخص بھی مجھ سے ن ہیں ہے جو شراب پئے، خدا کی قسم ایسا شخص (بھی) میرے پاس حوض کوثر پر ن ہیں پہنچ سکتا“۔

حضرت موسيٰ علیہ السلام نے خداوندعالم کی بارگاہ میں عرض کیا:پالنے والے!ایسے وقت پر نماز پڑھنے والے کی کیا جزاء ہے ؟ تو خطاب ہوا:

اُعْطِیهِ سُولَهُ، وَاُبیحُهُ جَنَّتِی(۳۳۴)

”میںاس کے سوالوں کو پورا، ا اور اس کے لئے جنت مباح کردوں گا“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

اَحَبُّ الْعِبادِ اِلَی اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ رجلٌ صَدوقٌ فی حَدِیثِهِ مُحافِظٌ عَليٰ صَلَواتِهِ وَمَاافْتَرَضَ اللّٰهُ عَلَیهِ مَعَ اَداءِ الْاَمانَةِ(۳۳۵)

”خداوندعالم کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اپنی گفتگو میں صداقت سے کام لے، نماز و دیگر عبادتوں کی حفاظت کرے اور امانت ادا کرے“۔

ابن مسعود کھتے ہیں : میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا: کونساعمل خداوندعالم کے نزدیک سب سے بھترہے ؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اَلصَّلَاةُ لِوَقْتِهَا(۳۳۶)

”نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

لَا تُضَیعُوا صَلاَتَكُمْ فَاِنَّ مَنْ ضَیعَ صَلَاتَهُ حُشِرَ مَعَ قَارُونَ وَهامانَ، وَکاَنَ حَقّاً عَلَی اللّٰهِ اَنْ یدْخِلَهُ النّارَ مَعَ الْمُنافِقینَ، فَالْوَیلُ لِمَنْ لَمْ یحافِظْ عَليٰ صَلَاتِهِ وَاَداءِ سُنَّةِنَبِیهِ(۳۳۷)

”اپنی نمازوں کو برباد نہ کرو، بے شک جس نے نماز کو ضایع کیا وہ قارون اور ھامان کے ساتھ محشور ہوگا، اور خداوندعالم اس کو منافقین کے ساتھ جہنم میں ڈال دے گا، پس وائے ہونماز اور سنت پیغمبر کی حفاظت نہ کرنے والے شخص پر !“

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

یعْرَفُ مَنْ یصِفُ الْحَقَّ بِثَلَاثِ خِصالٍ:ینْظَرُ اِليٰ اَصْحابِهِ مَنْ هُمْ؟وَاِليٰ صَلَاتِهِ كَیفَ هِی وَفِی اَی وَقْتٍ یصَلّیها، فَاِنْ كَانَ ذَا مالٍ نُظِرَ اَینَ یضَعُ مالَهُ ؟ “۔(۳۳۸)

”جو شخص حق کی معرفت کا دعويٰ کرے وہ تین خصلتوں کے ذریعہ پہچانا جاتا ہے، اس کو دیکھا جائے کہ اس کی دوستی کن لوگوں سے ہے، اور اس کی نماز کس طرح کی ہے اور کس وقت پڑھتا ہے، اور اگر مالدار ہے تو اپنی دولت کھاں خرچ کرتا ہے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ھمارے شیعوں کو تین چیزوں کے ذریعہ پہچانو: نماز کے اوقات پر، کہ کس طرح اس کے معین وقت پر ادا کرتے ہیں ، دوسرے رازداری میںکہ کس طرح ھمارے دشمنوں سے اسرار کو چھپاتے ہیں ، تیسرے مال و دولت کے سلسلہ میں کہ اپنے دینی بھائیوں سے کس طرح مواسات کرتے ہیں ۔(۳۳۹)

انفاق

جو کچھ خداوندعالم مومنین کو عطا کرتا ہے وہ اس کو راہ خدا میں خرچ کردیتے ہیں ۔

( وَمِمَّا رَزَقْنَاهم ینفِقُونَ ) ۔(۳۴۰)

”اور جو کچھ ھم نے رزق دیا ہے اس میں سے ھماری راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں “۔

اھل ایمان لوگوں کی مشکلات دور کرنے کے لئے اپنے مال و دولت، مقام، آبرو، عہدہ اور موقعیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور خلوص و محبت کے ساتھ خدا کی عطا کردہ نعمتوں کو کسی ریاکاری اور کسی احسان کے بغیر خرچ کرتے ہیں ۔

اھل ایمان کی زکوٰة پر توجہ، نماز، روزہ اور حج کی طرح ہوتی ہے، اور مالی واجبات کو نماز کی ادائیگی کی طرح اھمیت دیتے ہیں ۔

اھل ایمان زکوٰة، انفاق، صدقہ اور مومنین کے مدد کرنے میں ذرہ بھی بخل ن ہیں کرتے۔

قرآن مجید نے بھت سی آیات میں لوگوں کو انفاق کا حکم دیا ہے اور اس سلسلہ میں اس قدر اھمیت دی ہے کہ راہ خدا میں انفاق نہ کرنے کوخود اپنے ھاتھوں ھلاکت میں ڈالنے کے برابر مانا ہے۔

( وَانفِقُوا فِی سَبِیلِ اللهِ وَلاَتُلْقُوا بِایدِیكُمْ إِلَی التَّهلكَةِ وَاحْسِنُوا إِنَّ اللهَ یحِبُّ الْمُحْسِنِینَ ) ۔(۳۴۱)

”اور راہ خدا میں خرچ کرو اور اپنے نفس کو ھلاکت میں نہ ڈالو ۔نیک برتاو کرو کہ خدا نیک عمل کرنے والوں کے ساتھ ہے“۔

قرآن مجید نے انفاق نہ کرنے کو انسان کی آخرت خراب ہونے کا باعث بتایا ہے، اور اس کو کفر و ظلم کے برابر قرار دیا ہے، نیز یہ اعلان کرتا ہے کہ جن لوگوں نے انفاق میں بخل سے کام لیا وہ روز قیامت اپنا کوئی دوست یا شفیع ن ہیں پائیں گے۔

( یاایها الَّذِینَ آمَنُوا انفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ انْ یاتِی یوْمٌ لاَبَیعٌ فِیهِ وَلاَخُلَّةٌ وَلاَشَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هم الظَّالِمُونَ ) (۳۴۲)

”اے ایمان والو ! جو تم ہیں رزق دیا گیا ہے اس میںسے راہ خدا میں خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس دن نہ تجارت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش ۔اور کافرین ہی اصل میںظالمین ہیں “۔

قرآن مجید انفاق کو انسان کے لئے خیر سمجھتا ہے، اور بخل سے محفوظ رہنے کو فلاح و بھبودی کا باعث مانتا ہے۔

( فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَاطِیعُوا وَانفِقُوا خَیرًا لِانْفُسِكُمْ وَمَنْ یوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَاوْلَئِكَ هم الْمُفْلِحُونَ ) ۔(۳۴۳)

”لہٰذا جھاں تک ممکن ہو اللہ سے ڈرو اور ان کی بات سنو اور اطاعت کرو اور راہ خدا میں خرچ کرو کہ اس میں تمھارے لئے خیر ہے اور جو اپنے ہی نفس کے بخل سے محفوظ ہو جائے وھی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں “۔

قرآن مجید راہ خدا میں انفاق کرنے کا اجز و ثواب ۷۰۰برابر اور اس سے بھی زیادہ شمار کرتا ہے، چنانچہ انفاق کے مسئلہ کو ھماری آنکھوں دیکھی حقیقت سے مثال بیان کی ہے تاکہ اس خداپسند عمل کے سلسلہ میں لوگوں کا ایمان پختہ ہوجائے:

( مَثَلُ الَّذِینَ ینفِقُونَ امْوَالَهم فِی سَبِیلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ انْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِی كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللهُ یضَاعِفُ لِمَنْ یشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ ) ۔(۳۴۴)

”جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال کو خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی م-ثال اس دانہ کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ھر بالی میں سو سو دانے ہوںاور خدا جس کے لئے چاھتا ہے اضافہ بھی کردیتا ہے کہ وہ صاحب وسعت بھی ہے اورعلیم و دانا بھی“۔

شب و روز، ظاھر بظاھر اور مخفی طور پر انفاق کرنا ایک ایسی حقیقت ہے جس پر قرآن کریم نے بھت زور دیاھے، اور یہ ایک خداپسند عمل ہے جس کا اجر بھی خداوندعالم عنایت فرماتا ہے، جس کی بدولت انسان کو موت اور قیامت کا خوف ن ہیں رھتا:

( الَّذِینَ ینفِقُونَ امْوَالَهم بِاللَّیلِ وَالنَّهارِ سِرًّا وَعَلاَنِیةً فَلَهم اجْرُهم عِنْدَ رَبِّهم وَلاَخَوْفٌ عَلَیهم وَلاَهم یحْزَنُونَ ) ۔(۳۴۵)

”جو لوگ اپنے اموال کو راہ خدا میں رات میں ۔دن میں خاموشی سے اور علی الاعلان خرچ کرتے ہیں ان کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ہے اوران ہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ حزن“۔

قرآن مجید نے آیات الٰھی کی تلاوت کرنے، نماز قائم کرنے اور راہ خدا میں خرچ کرنے کو ایسی تجارت قرار دیا ہے جس میں کسی طرح کا کوئی نقصان ن ہیں اور جس میںفائدہ ہی فائدہ ہے:

( إِنَّ الَّذِینَ یتْلُونَ كِتَابَ اللهِ وَاقَامُوا الصَّلَاةَ وَانْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهم سِرًّا وَعَلَانِیةً یرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُور ) ۔(۳۴۶)

”یقینا جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اورا نھوں نے نماز قائم کی ہے اور جو کچھ ھم نے بطور رزق دیا ہے اس میں سے ھماری راہ میں خفیہ اور علانیہ خرچ کیا ہے یہ لوگ ایسی تجارت کے امید وار ہیں جس میں کسی طرح کی تباھی ن ہیں ہے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

”تمھارے بدن کے تمام اعضاء و جوارح پر زکوٰة واجب ہے، بلکہ ھر بال اور عمر کے ھر لمحہ پر زکوٰة واجب ہے“۔

آنکھ کی زکوٰة اور اس کا انفاق یہ ہے کہ دوسروں کو عبرت کی نگاہ سے دیکھے اور خدا کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کرے۔

کان کی زکوٰة یہ ہے کہ انسان علم و حکمت، قرآن اور موعظہ و نصیحت کو سنے، اور ان چیزوں کو سنے جن کے ذریعہ دنیا و آخرت کی نجات شامل ہو خصوصاً جھوٹ، غیبت ا ورتھمت وغیرہ جیسے شیطانی کاموں سے پرھیز کرے۔

زبان کی زکوٰة یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کے ساتھ نیکی کرنے، خواب غفلت میں سوئے ہوئے مسلمانوں کو بیدار کرنے اور خداوندعالم کی تسبیح و تھلیل کرنے کے لئے اپنی زبان کھولے۔

ھاتھ کی زکوٰة یہ ہے کہ خدا کی عطا کردہ نعمتوں اور مال و دولت کو اس کی راہ خرچ کرے، اس سے ایسے مطالب لکھے جس سے مسلمانوں کی فلاح و بھبودی ہو اور لوگوں کو اطاعت خدا پر آمادہ کرے، اور اپنے ھاتھ کو ظلم و ستم اور فساد سے محفوظ رکھے۔

پیروں کی زکوٰة یہ ہے کہ راہ خدا میں اٹ ہیں ، خدا کے حقوق کی ادائیگی میں چلیں، خدا کے مخلص بندوں کی زیارت کے لئے بڑ ہیں ، علمی مجالس میں شرکت کریں، اصلاح معاشرہ اورصلہ رحم کے لئے بڑ ہیں ، اور ایسے کاموں کی طرف اٹ ہیں جن سے دین و دنیا کی اصلاح ہوسکے۔

یہ ایسے مسائل ہیں جن کو ایک انسان انجام دے سکتا ہے، اور سبھی اتنی صلاحیت رکھتے ہیں کہ ان تمام چیزوں پر عمل کریں، لیکن وہ تجارت جس سے خدا کے مقرب بندوں کے علاوہ کوئی آگاہ ن ہیں ہے، اس سے ک ہیں زیادہ ہیں کہ ھم شمار کریں، صرف ارباب عمل ہی اس سے آگاہ ہیں ، اولیاء الٰھی کا شعار زکوٰة ِکامل کے سلسلہ میں دوسروں سے بالکل الگ ہے(۳۴۷)

حضرت امام عسکری علیہ السلام قرآن مجید میں بیان ہونے والی آیات میں( وَ آتُوْا الزَّکوٰة ) کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :

مال، آبرو اور قدرت بدن کی زکوٰة دینا مراد ہے۔

مال کی نسبت اپنے مومن بھائیوں سے مواسات کرنامراد ہے۔

آبرو کے سلسلہ میں زکوٰة یہ ہے کہ اپنی عزت و آبرو کے ذریعہ اپنے دینی بھائیوں کی مدد کرے اور ان کی مشکلات کو دور کرے۔

طاقت کی زکوٰة انسان کااپنے برادر مومن کی ھر ممکن طریقہ سے مدد کرناھے۔

یہ تمام چیزیں یعنی مال، آبرواور طاقت کی زکوٰة کے ساتھ ساتھ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور پ کے اھل بیت علیھم السلام کی ولایت کا معتقد رہے ، اسی صورت میں خداوندعالم ھمارے اعمال کو پاکیزہ قرار دیتا ہے، اور ان کا چند برابر اجر دیتا ہے کیونکہ یہ عنایت اور توفیق ان حضرات کے لئے ہے جو ولایت محمد و آل محمد(ص) کو قبول کریں اور ان کے دشمنوں سے بیزار ر ہیں ۔(۳۴۸)

حضرت امیر المومنین علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت فرماتے ہیں :

قِراءَ ةُ الْقُرآنِ فِی الصَّلاةِ اَفْضَلُ مِنْ قِراءَ ِة الْقُرآنِ فِی غَیرِالصَّلاةِ، وَذِكْرُاللّٰهِ اَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ، وَالصَّدَقَةُ اَفْضَلُ مِنَ الصَّوْمِ، وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ(۳۴۹)

”نماز میں قرآن پڑھنا غیر نماز میں پڑھنے سے بھتر ہے، اور زندگی کے تمام حالات میں یاد خدا کرنا صدقہ دینے سے بھتر ہے، اور صدقہ روزہ سے افضل ہے، اور روزہ آتش جہنم کے لئے سپر اور ڈھال ہے“۔

امام زین العابدین علیہ السلام حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں :

”بے شک جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے اوپر سے نئے لباس نکلتے ہیں ، اور اس کے نیچے سے خاکستری رنگ کے گھوڑے نکلتے ہیں ، جن پر زین اور لگام ہوتے ہیں ، ان گھوڑوں کے پر ہوتے ہیں ! وہ پیشاب پاخانہ ن ہیں کرتے، ان پر اولیاء الٰھی سوار ہوتے ہیں اور جنت میں جھاں جانا چا ہیں جاتے ہیں ۔

ان میں سے کم ترین درجہ والے افراد بارگاہ خداوندی میں عرض کریں گے: پالنے والے! کس چیز کی وجہ سے تیرے بندے اس عظیم مرتبہ پر پہنچے ہیں ؟ اس وقت خداوندعالم جواب دے گا: نماز شب، روزہ، دشمن سے بے خوف جھاد، اور راہ خدا میں صدقہ دینے میں بخل نہ کرنے کی وجہ سے یہ لوگ اس عظیم مرتبہ پر پہنچے ہیں “(۳۵۰)

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اَلا وَمَنْ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَلَهُ بِوَزْنِ كُلِّ دِرْهَمٍ مِثْلُ جَبَلِ اُحُدٍ مِنْ نَعِیمِ الْجَنَّةِ؛(۳۵۱)

”آگاہ ہوجاؤ! کہ جس شخص نے بھی راہ خدا میں صدقہ دیا تو اس کے ھر درھم کے بدلے جنت میں کوہ احد کے برابر نعمتیں ملیں گی“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام اپنے آباء و اجداد کے متعلق حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں :

كُلُّ مَعْروفٍ صَدَقَةٌ، وَالدَّالُّ عَلَی الْخَیرِ كَفَاعِلِهِ، وَاللّٰهِ یحِبُّ اِغاثَةَ اللَّهْفانِ(۳۵۲)

”ھر نیک کام صدقہ ہے، اور ھر خیر کے لئے رہنما ہے جیسے خود اس کا فاعل ہو، خداوندعالم صاحب حزن و ملال کی فریاد کو سنتا ہے“۔

صدقہ و انفاق کے سلسلہ میں ایک عجیب و غریب و اقعہ

حضرت امام موسيٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں : امام صادق علیہ السلام ایک قافلہ کے ساتھ ایک بیابان سے گزر رہے تھے۔ اھل قافلہ کو خبردار کیا گیا کہ راستے میں چور بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اھل قافلہ اس خبر کو سن کر پریشان اور لرزہ براندام ہوگئے۔ اس وقت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: کیا ہوا؟ تو لوگوں نے بتایا کہ ھمارے پاس (بھت) مال و دولت ہے اگر و ہ لوٹ گیا تو کیا ہوگا؟! کیا آپ ھمارے مال کو اپنے پاس رکھ سکتے ہیں تاکہ چور آپ کو دیکھ کر وہ مال آپ سے نہ لوٹیں۔ آپ نے فرمایا: تم ہیں کیا خبر شاید وہ ھمیں ہی لوٹنا چاھتے ہوں؟ تو پھر اپنے مال کو میرے حوالے کرکے کیوں ضایع کرنا چاھتے ہو، اس وقت لوگوں نے کھا: تو پھر کیا کریں کیا مال کو زمین میں دفن کردیا جائے؟ آپ نے فرمایا: ن ہیں ایسا نہ کرو کیونکہ اس طرح تو مال یونھی برباد ہوجائے گا، ہوسکتا ہے کہ کوئی اس مال کو نکال لے یا پھر دوبارہ تم اس جگہ کو تلاش نہ کرسکو۔ اھل قافلہ نے پھر کھا کہ تو آپ ہی بتائےے کیاکریں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کو کسی کے پاس امانت رکھ دو، تاکہ وہ اس کی حفاظت کرتا رہے ، اور اس میں اضافہ کرتا رہے ، او رایک درھم کو اس دنیا سے بزرگ تر کردے اور پھر وہ تم ہیں واپس لوٹادے، اور اس مال کو تمھارے ضرورت سے زیادہ عطا کرے!!

سب لوگوں نے کھا: وہ کون ہے؟ تب امام علیہ السلام نے فرمایا: وہ”ربّ العالمین“ ہے۔ لوگوں نے کھا: کس طرح اس کے پاس امانت رک ہیں ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: غریب اور فقیر لوگوں کو صدقہ دیدو۔ سب نے کھا: ھمارے درمیان کوئی غریب یا فقیر ن ہیں ہے جس کو صدقہ دیدیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اس مال کا ایک تھائی حصہ صدقہ کی نیت سے الگ کرلو تاکہ خداوندعالم چوروں کی غارت گری سے محفوظ رکھے، سب نے کھا: ھم نے نیت کرلی۔ اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا:

فَانْتُمْ فِی امَانِ الله فَامْضُوْا “۔

”پس (اب) تم خدا کی امان میں ہو لہٰذا راستہ چل پڑو“۔

جس وقت قافلہ چل پڑا راستہ میں چوروں کا گروہ سامنے دکھائی دیا، اھل قافلہ ڈرنے لگے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: (اب) تم کیوں ڈررہے ہو؟ تم لوگ تو خدا کی امان میں ہو۔ چور آگے بڑھے اور امام علیہ السلام کے ھاتھوں کو چومنے لگے اور کھا: ھم نے کل رات خواب میں رسول اللہ کو دیکھا ہے جس میں آنحضرتنے فرمایا: کہ تم لوگ اپنے کو آپ کی خدمت میں پیش کرو۔ لہٰذا اب ھم آپ کی خدمت میں ہیں تاکہ آپ اور آپ کے قافلہ والوں کوچوروں کے شر سے محفوظ رک ہیں ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: تمھاری کوئی ضرورت ن ہیں ہے جس نے تم لوگوں کے شر کو ھم سے دور کیا ہے وہ دوسرے دشمنوں کے شر کو ھم سے دور کرے گا۔ اھل قافلہ صحیح و سالم شھر میں پہنچ گئے؛ سب نے ایک سوم مال غریبوں میں تقسیم کیا، ان کی تجارت میں بھت زیادہ برکت ہوئی، ھر ایک درھم کے دس درھم بن گئے، سب لوگوں نے تعجب سے کھا:واقعاً کیا برکت ہے؟

امام صادق علیہ السلام نے اس موقع پر فرمایا:

”اب جبکہ تم ہیں خدا سے معاملہ کرنے کی برکت معلوم ہوگئی ہے تو تم اس پر ھمیشہ عمل کرتے رہنا“(۳۵۳)

امام جواد علیہ السلام کے نام امام رضا علیہ السلام کا ایک اھم خط

بزنطی جوشیعہ دانشور راوی اور امام رضا علیہ السلام کے معتبر او رمطمئن صحابی ہیں ، بیان کرتے ہیں : میں نے اس خط کو پڑھا ہے جو امام رضا علیہ السلام نے خراسان سے حضرت امام جواد (محمد تقی) علیہ السلام کو مدینہ بھیجا تھا، جس میں تحریر تھا:

مجھے معلوم ہوا ہے کہ جب آپ بیت الشرف سے باھر نکلتے ہیں اور سواری پر سوار ہوتے ہیں تو خادمین آپ کو چھوٹے دروازے سے باھر نکالتے ہیں ، یہ ان کا بخل ہے تاکہ آپ کا خیر دوسروں تک نہ پہنچے، میں بعنوان پدر اور امام تم سے یہ چاھتاھوں کہ بڑے دروازے سے رفت و آمد کیا کریں، اور رفت و آمد کے وقت اپنے پاس درھم و دینار رکھ لیا کریں تاکہ اگر کسی نے تم سے سوال کیا تو اس کو عطا کردو، اگر تمھارے چچا تم سے سوال کریں تو ان کو پچاس دینار سے کم نہ دینا، اور زیادہ دینے میں خود مختار ہو، اور اگر تمھاری پھوپھیاں تم سے سوال کریں تو ۲۵ درھم سے کم ن ہیں دیں اگر زیادہ دینا چا ہیں تو تم ہیں اختیار ہے۔ میری آرزو ہے کہ خدا تم کو بلند مرتبہ پر فائز کرے، لہٰذا راہ خدا میں انفاق کرو، اور خدا کی طرف سے تنگدسی سے نہ ڈرو!(۳۵۴)

قارئین کرام! اس حقیقت پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ قرآن مجید نے بھت سی آیات میں اس صدقہ سے منع کیا ہے جس میں دوسروں پر منت اور احسان یا اس میں اذیت پائی جاتی ہو، صدقہ و خیرات صرف اور صرف رضائے الٰھی کے لئے ہونا چاہئے، اور صدقہ لینے والے دوسروں کی منت اور احسان جتانے کی شرمندگی سے محفوظ ر ہیں ، ورنہ تو وہ صدقہ باطل ہوجائے گا او رخدا کی نظر میں اس کا کوئی اجر و ثواب ن ہیں ہوگا۔

( الَّذِینَ ینفِقُونَ امْوَالَهم فِی سَبِیلِ اللهِ ثُمَّ لاَیتْبِعُونَ مَا انفَقُوا مَنًّا وَلاَاذًی لَهم اجْرُهم عِنْدَ رَبِّهم وَلاَخَوْفٌ عَلَیهم وَلاَهم یحْزَنُونَ ) ۔(۳۵۵)

”جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں اور اس کے بعد احسان ن ہیں جتاتے اور اذیت بھی ن ہیں دیتے ان کے لئے پروردگار کے یھاں اجر بھی ہے اور ان کے لئے نہ کوئی خوف ہے نہ حزن“۔

( یاایها الَّذِینَ آمَنُوا لاَتُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاذَی ) ۔(۳۵۶)

”اے ایمان والو ! اپنے صدقات کو منت گذاری اور اذیت سے برباد نہ کرو“۔

بھر حال نماز، انفاق اور معنوی زیبائیوں میں سے جو کچھ بھی خداوندعالم نے انسان کو عطا فرمایا ہے، اورگناھوں سے توبہ و استغفار کے بعد ظاھر و باطن کے اصلاح کرنے کے راستہ ہیں ۔

غیب پر ایمان رکھنا، نماز کا قائم کرنا، خدا داد نعمتوں میں سے اس کی راہ میں خرچ کرنا، قرآن اور دیگر آسمانی کتابوں اور آخرت پر یقین وایمان جیسا کہ گزشتہ صفحات میں وضاحت کی گئی ہے ؛ یہ تمام ایسے حقائق ہیں کہ جس انسان میں بھی پائے جائیں وہ راہ ہدایت پر ہے اور دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہے۔

( اوْلَئِكَ عَلَی هُدًی مِنْ رَبِّهم وَاوْلَئِكَ هم الْمُفْلِحُونَ ) ۔(۳۵۷)

”یھی وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت کے حامل ہیں اور فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں “۔

بعض اھل تحقیق جیسے راغب اصفھانی کے نزدیک فلاح و بھبودی کے معنی یہ ہیں : فلاح یعنی ایسی زندگی جس میںموت نہ ہو، ایسی عزت جس میں ذلت نہ ہو، ایسا علم جس میں جھالت کا تصور نہ ہو، ایسی ثروت جھاں فقر و تنگدستی نہ ہو، اور یہ فلاح آخرت میں مکمل طریقہ سے ان انسانوں کو نصیب ہوگی جو لوگ غیب( خدا، فرشتے، برزخ، محشر، حساب، میزان اور جنت و دوزخ) پر ایمان رکھتے ہوں، نماز قائم کرتے ہوں، زکوٰة ادا کرتے ہوں، صدقہ و انفاق کرتے ہوں، قرآن او ردیگر آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہوں اور آخرت پر یقین رکھتے ہوں۔

یہ بات بھی معلوم ہونا چاہئے کہ انسان کو بارگاہ الٰھی میں مقبول ہونے کے لئے صرف گناھوں سے توبہ کرنا اور گناھوں سے دوری کرلینا کافی ن ہیں ہے بلکہ قرآن کریم کی آیات کے پیش نظر جن میں سے بعض کو آپ حضرات نے گزشتہ صفحات میں ملاحظہ فرمایا ہے، توبہ کے بعد اپنی حالت، اقوال اور اعمال کی اصلاح کرنا بھی ضروری ہے، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہئے کہ عمل صالح، اخلاق حسنہ اور معنوی زیبائیوں کی طرف توجہ کے ذریعہ اپنی توبہ کو کامل کرے اور اپنے گزشتہ کی تلافی کرے اور برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے۔

( إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاوْلَئِكَ یبَدِّلُ اللهُ سَیئَاتِهم حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِیمًا ) ۔(۳۵۸)

”علاوہ اس شخص کے جو توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل بھی کرے، تو پروردگار اس کی برائیوں کو اچھائیوں سے تبدیل کردے گا اور خدا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ہے“۔

عمل صالح اور اخلاق حسنہ کے سلسلہ میں جو گناھوں سے توبہ کے بعدظاھر و باطن کے اصلاح کے اسباب میں سے ہے، قرآن مجید ماں باپ، رشتہ دار، یتیموں اور مسکینوںکے ساتھ نیکی اور احسان، تمام لوگوں کے ساتھ نیک گفتار، نماز قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے کا حکم دیتا ہے، چونکہ ھمارا ارادہ یہ ہے کہ لازمی حد تک قرآن مجید اور احادیث سے مدد لیتے ہوئے معنوی زیبائیوں کو بیان کریں تاکہ ھماری حالت اور عمل کی اصلاح ہوسکے، کچھ چیزیں گزشتہ صفحات میں بیان ہوچکی ہیں ان کی تکرار کی ضرورت ن ہیں ہے، صرف ھر آیت کے ذیل میں نئے اور جدید مطلب کی وضاحت کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں ، عزیز قارئین ! اب آپ قرآن مجید کی روشنی میں اخلاقی واقعیات کی طرف توجہ فرمائیں:

( لاَتَعْبُدُونَ إِلاَّ اللهَ وَبِالْوَالِدَینِ إِحْسَانًا وَذِی الْقُرْبَی وَالْیتَامَی وَالْمَسَاكِینِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَاقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ) ۔(۳۵۹)

”خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ، قرابتداروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاو کرنا۔لوگوں سے اچھی باتیں کرنا ۔نماز قائم کرنا۔ زکوٰة ادا کرنا“۔

گزشتہ صفحات میں عبادت خدا اور احکام الٰھی کی فرمانبرداری کے عنوان سے نمازاور انفاق کے سلسلہ میں لازمی حد تک وضاحت کی گئی ہے لہٰذا مذکورہ آیت کے ذریعہ ماں باپ، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیکی اور احسان، نیز دوسرے لوگوں کے ساتھ نیک گفتار کے سلسلہ میں کچھ چیزیں بیان کرتے ہیں :

ماں باپ کے ساتھ نیکی

قرآن مجید کی متعدد آیات نے تمام لوگوں کو خدا کی عبادت کے بعد ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احسان کرنے کا حکم دیا ہے، اس حکم سے شرعی اور اخلاقی وجوب کی بُوآتی ہے، یہ ایک ایسا حکم ہے جس کی اطاعت خدا کی عین بندگی اور عبادت ہے اور اس کی مخالفت گناہ و معصیت اور روز قیامت کے عذاب کا باعث ہے۔

خداوندعالم کا ارشاد ہوتا ہے:

( وَاعْبُدُوا اللهَ وَلاَتُشْرِكُوا بِهِ شَیئًا وَبِالْوَالِدَینِ إِحْسَانًا ) ۔(۳۶۰)

”اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی شئے کو اس کا شریک نہ بناو اور والدین کے ساتھ نیک برتاوکرو“۔

ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا ان زحمتوں اور احسان کی تلافی ہے جس کو ان دونوں نے اپنی اولاد کے ساتھ کیا ہے، جنھوں نے پیدائش کے وقت سے اب تک کسی بھی طرح کے احسان اور زحمت سے دریغ ن ہیں کیا۔

انھوں نے تمام مقامات پر اپنی اولاد کو اپنے اوپر مقدم کیا، ان کے سلسلہ میں ایثار کیا قربانیاں دیں اور اپنی طرف سے درگزر کیا، بلاؤں کے طوفان اور سخت سے سخت حالات میں اولاد کی حفاظت کی، اور اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہوئے اپنی آغوش میں بٹھایا، اولاد کے چین و سکون کے لئے راتوں جاگتے رہے ، اور سخت سے سخت حالات کی تلخیوں کو خوش ہوکر برداشت کیا، اس کی تربیت میں بھت سی مصیتیں برداشت کیں، اور اپنے خون جگر سے ان کو غذا دی، بھت سی سختیوں اور پریشانیوں کو تحمل کیا تاکہ اولاد کسی مقام پر پہنچ جائے، لہٰذا اب اولاد کی ذمہ داری ہے کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احسان کرکے ان کی زحمتوں کے ایک معمولی سے حصہ کی تلافی کرے۔

( وَقَضَی رَبُّكَ الاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیاهُ وَبِالْوَالِدَینِ إِحْسَانًا إِمَّا یبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ احَدُهما اوْ كِلَاهما فَلاَتَقُلْ لَهما افٍّ وَلاَتَنْهرهما وَقُلْ لَهما قَوْلًا كَرِیمًا وَاخْفِضْ لَهما جَنَاحَ الذُّلِّ مِنْ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهما كَمَا رَبَّیانِی صَغِیرًا ) ۔(۳۶۱)

”اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاو کرنا اور اگر تمھارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو خبر دار ان سے اف نہ کہنا اور ان ہیں جھڑکنا بھی ن ہیں اور ان سے ھمیشہ شریفانہ گفتگو کرتے رہنا ۔اور ان کے لئے خاکساری کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکا دینا اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگار ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح کہ انھوں نے پچپن میں مجھے پالا ہے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال ہوا کہ ماں باپ کے سلسلہ میں جس احسان کی سفارش ہوئی ہے اس سے کیا مراد ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ان کے ساتھ نیکی اور بھلائی کے ساتھ زندگی کرو، ان کو مجبور نہ کرو کہ وہ تم سے کسی چیز کا سوال کریں اگرچہ وہ بے نیاز ہوں، بلکہ ان کے کہنے سے پھلے ہی ان کی ضرورتوں کو پورا کردو، کیا خداوندعالم نے قرآن مجید میں ن ہیں فرمایا ہے:

( لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ) ۔(۳۶۲)

”تم نیکی کی منزل تک ن ہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے راہ دا میں انفاق نہ کرو“۔

ان کو ”اُف“ تک نہ کھو، اور ان کو اپنے سے دور نہ کرو، ان کو مایوس نہ کرو، اگر ان کی وجہ سے تم کو کوئی پریشانی ہے بھی تو اس کو برداشت کرو اور اپنی زبان پر کوئی ایسا لفظ نہ لاؤ جس سے وہ ناراحت ہوں، اگر انھوں نے تم ہیں مارنے کے لئے ھاتھ اٹھایا یا تم کو مار بھی دیا ہو تو صبر کرو، اور ان سے جدا نہ ہوں، اور ایسی حالت میں ان سے کھو: خداوندعالم تم سے درگزر فرمائے، اور اپنی مغفرت میں جگہ عنایت فرمائے، کہ”قول کریم“ سے مراد یھی ہے، پیار اور محبت بھری نگاھوں سے ان کی طرف دیکھا کرو، مھربانی کی نگاہ کے علاوہ ان کو نہ دیکھو، اپنی آواز کو ان کی آواز سے بلندتر نہ کرو، ان کے ھاتھ سے اپنا ھاتھ اوپر نہ اٹھاؤ، اور ان کے چلتے ہوئے ان سے آگے آگے نہ چلو(۳۶۳)

حضرت امام صادق علیہ السلام نیکی اور احسان کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اگر خداوندعالم کے نزدیک ”اُف“ سے کمتر کوئی لفظ ہوتا تو اولاد کو اپنے ماں باپ کے لئے کہنے سے منع فرماتا۔ نیز اولاد کو یہ بات معلوم ہونا چاہئے کہ عاق کا سب سے کم درجہ ماں باپ کے لئے لفظ ”اُف“ کا استعمال کرنا ہے۳(۶۴)

کتاب شریف”کافی“ میں روایت بیان ہوئی ہے کہ ماں باپ کی طرف ترچھی نگاھوں سے دیکھنا (بھی) عاق کا ایک مرحلہ ہے!۔(۳۶۵)

ایک شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا: اولاد پر باپ کا حق کیا ہے؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”لَا یسَمِّیهِ بِاسْمِهِ، وَلَا یمْشی بَینَ یدَیهِ، وَلَا یجْلِسُ قَبْلَهُ، وَلَا یسْتَسِبُّ لَهُ(۳۶۶)

”باپ کا نام لے کر نہ پکارے، اس کے آگے نہ چلے، اس کی طرف پیٹھ کرکے نہ بیٹھے اور اپنے برے کاموں کے ذریعہ اپنے بے گناہ باپ کو ذلیل و رسوا نہ کرے“۔

ایک روایت میں بیان ہوا ہے: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین بار فرمایا: ذلیل و رسوا ہو، اصحاب نے سوال کیا: یا رسول اللہ! آپ کس کے بارے میں فرمارہے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: جس کے ماں باپ ضعیف العمر ہوں اوروہ ان کے ساتھ نیکی و احسان نہ کرکے بہشت میں داخل نہ ہو۔(۳۶۷)

جناب حذیفہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا: میرا باپ مشرکین کی طرف سے میدان جنگ میں آیا ہوا ہے کیا آپ مجھے اس پر حملہ کرنے اوراس کو قتل کرنے کی اجازت دیتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: ن ہیں ، تم یہ کام نہ کرو، کوئی دوسرا اس سے مقابلہ کرے(۳۶۸)

تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ہے:

افْضَلُ والِدَیكُمْ وَاَحَقُّهُما بِشُكْرِكُمْ مُحَمَّدٌ صلی الله علیه و آله و سلم وَعَلِی علیه السلام(۳۶۹)

”تمھارا سب سے بھترین باپ اور تمھارے شکریہ کے سزاوار ترین ذات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور علی علیہ السلام ہیں “۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے:

اَنَا وَ عَلَی اَبَوَاهٰذِهِ الْاُمَّةِ، وَلَحَقُّنا عَلَیهِمْ اَعْظَمُ مِنْ حَقِّ اَبَوَی وِلَادَتِهِمْ فَاِنَّا نُنْقِذُهُمْ اِنْ اَطاعونا مِنَ النّارِ اِليٰ دَارِالْقَرارِ، وَنُلْحِقُهُمْ مِنَ الْعُبودِیةِ بِخِیارِ الْاَحْرارِ(۳۷۰)

”میں اور علی دونوں اس امت کے باپ ہیں ، بے شک ھمارا حق اس باپ سے بھی زیادہ ہے جو اسے دنیا میں لانے کا سبب بنا، ھم اس امت کو آتش جہنم سے نجات دیتے ہیں اگر ھماری اطاعت کریں، اور ان کو جنت میں پہنچادیں گے اگر ھمارے حکم پر عمل کرے، اور ان کو عبادت کے سلسلہ میں منتخب بندوں سے ملحق کردیں گے“۔

رشتہ داروں سے نیکی کرنا

رشتہ داروں سے مراد ماں باپ کے حسبی اور نسبی رشتہ دار مراد ہیں ۔

انسان کا چچا، ماموں، پھوپھی، خالہ، اولاد، داماد، بھو اور اولاد کی اولاد رشتہ دار کھلاتے ہیں ۔

بھائی، بہن، بھتیجے، بھانجے، داماد اور بھوویں اور ھر وہ شخص جو نسبی یا سببی رشتہ رکھتا ہو انسان کے رشتہ دار حساب ہوتے ہیں ۔

ان کے ساتھ صلہ رحم اور نیکی یہ ہے کہ ان سے ملاقات کرے، ان کی مشکلات کو دور کرے اور ان کی حاجتوں کو پورا کرے۔

رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحم اور نیکی کرنا خداوندعالم کا حکم اور ایک اخلاقی و شرعی ذمہ داری ہے، جس کا اجر ثواب عظیم اور اس کا ترک کرنا عذاب الیم کا باعث ہے۔

قرآن مجید نے پیمان شکنی، قطع تعلق اور زمین پر فتنہ و فساد پھیلانے کو خسارہ اور گھاٹااٹھانے والوں میں شمار کیا ہے:

( الَّذِینَ ینقُضُونَ عَهْدَ اللهِ مِنْ بَعْدِ مِیثَاقِهِ وَیقْطَعُونَ مَا امَرَ اللهُ بِهِ انْ یوصَلَ وَیفْسِدُونَ فِی الْارْضِ اوْلَئِكَ هم الْخَاسِرُونَ ) ۔(۳۷۱)

”جو خدا کے ساتھ مضبوط عہد کرنے کے بعد بھی اسے توڑ دیتے ہیں اور جسے خدا نے جوڑ نے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں یھی وہ لوگ ہیں جو حقیقتاً خسارہ والے ہیں “۔

رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنا ایک غیر شرعی عمل ہے اگرچہ انھوںنے کسی کو رنجیدہ خاطر بھی کیا ہو۔

رشتہ داروں کے یھاں آمد و رفت، ایک خداپسند عمل اور اخلاق حسنہ کی نشانی ہے۔

اگر چہ انسان کے بعض رشتہ دار دین و دینداری سے دور ہوں اور حق و حقیقت کے مخالف ہوں لیکن اگر ان کی ہدایت کی امید ہو تو ان کی نجات کے لئے قدم اٹھانا چاہئے اور امر بالمعروف و نھی عن المنکر کے لئے ان کے یھاں رفت و آمد کرنا چاہئے۔

صلہ رحم کے سلسلہ میں بھت سی اھم روایات رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے بیان ہوئیں ہیں جن کے حکیمانہ مطالب پر توجہ کرنا ھر مومن پر لازم و واجب ہے۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بھت سی اھم روایات صلہ رحم کے سلسلہ میں نقل ہوئی ہیں جو واقعاً بھت ہی اھم ہیں :

اِنَّ اَعْجَلَ الْخَیرِ ثَواباً صِلَةُ الرَّحِمِ “۔

”بے شک ثواب کی طرف تیزی سے جانے والا کار خیر صلہ رحم ہے“۔

صِلَةُ الرَّحِمِ تُهَوِّنُ الْحِسابَ، وَتَقی میتَةَ السُّوءِ “۔

”صلہ رحم کے ذریعہ روز قیامت میں انسان کا حساب آسان ہوجاتا ہے، اور بُری موت سے محفوظ رھتا ہے“۔

صِلُوا اَرْحَامَكُمْ فِی الدُّنْیا وَلَوْ بِسَلامٍ “۔

”دنیا میں صلہ رحم کی رعایت کرو اگرچہ ایک سلام ہی کے ذریعہ کیوں نہ ہو“۔

صِلْ مَنْ قَطَعَكَ، وَاَحْسِنْ اِليٰ مَنْ اَساءَ اِلَیكَ، وَقُلِ الْحَقَّ وَلَوْعَليٰ نَفْسِكَ “۔

”جن رشتہ داروں نے تجھ سے قطع تعلق کیا ہے اس کے ساتھ صلہ رحم کرو، اور جس نے تمھارے ساتھ بدی کی ہے اس کے ساتھ نیکی کرو، نیز ھمیشہ سچ بات کھو چاھے تمھارے نقصان میں تمام ہو“۔

اِنَّ الرَّجُلَ لَیصِلُ رَحِمَهُ وَقَدْ بَقِی مِنْ عُمُرِهِ ثَلاثُ سِنینَ فَیصَیرُهَا اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ ثَلاثینَ سَنَةً، وَیقْطَعُها وَقَدْ بَقِی مِنْ عُمُرِهِ ثَلاثُونَ سَنَةً فَیصَیرُهَا اللّٰهُ ثَلاثَ سِنینَ [۱۲۴]ثُمَّ تَلا :( یمْحُوا اللهُ مَا یشَاءُ وَیثْبِتُ وَعِنْدَهُ امُّ الْكِتَابِ ) ۔(۳۷۲)

”بے شک جب انسان صلہ رحم کرتا ہے تو اگرچہ اس کی عمر کے تین سال باقی رہ گئے ہوں تو خداوندعالم اس کی عمر تیس سال بڑھادیتا ہے، اور جو شخص رشتہ داروں سے قطع تعلق کرتا ہے اگرچہ اس کی عمر تیس سال باقی رہ گئی ہو توبھی خداوندعالم اس کی عمر تین سال کردیتا ہے، اس کے بعد (امام علیہ السلام نے) مذکورہ بالا آیت کی تلاوت کی:( خداوندعالم جس چیز کو چاھے مٹادے اور جس چیز کو چاھے لکھ دے) “۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:

وَاكْرِمْ عَشِیرَتَكَ فَاِنَّهُمْ جَناحُكَ الَّذِی بِهِ تطیر، وَاَصْلُكَ الَّذِی اِلَیهِ تَصیرُ، وَیدُكَ الَّذِی بِها تَصولُ(۳۷۳)

”اپنے رشتہ داروں کے ساتھ لطف و کرم کرو، وہ تمھارے بال و پر ہیں جن کے ذریعہ تم پرواز کرسکتے ہو، اور وھی تمھاری اصل ہیں کہ ان کی طرف پلٹ جانا ہے، نیز تمھاری طاقت ہیں کہ ان ہیں کے ذریعہ اپنے دشمنوں پر حملہ کرسکتے ہو“۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام فرماتے ہیں : جناب موسيٰ علیہ السلام نے خداوندعالم کی بارگاہ میں عرض کیا:

فَما جَزاءُ مَنْ وَصَلَ رَحِمَهُ قَالَ:یا مُوسيٰ اُنْسِی ءُ لَهُ اَجَلَهُ، وَاُهَوِّنَ عَلَیهِ سَكَراتِ الْمَوْتِ(۳۷۴)

”خداوندا! صلہ رحم کرنے والے کی جزا کیا ہے؟ جواب آیا: اس کی موت دیر سے بھیجوں گا، اور اس کے لئے موت کی سختیوں کو آسان کردوں گا“۔

__ __________________

۲۶۴. سورہ انعام، آیت ۵۴۔

۲۶۵. سورہ انعام، آیت ۵۴۔

۲۶۶. سورہ بقرہ، آیت ۳۔۵۔

۲۶۷. سورہ ابراھیم، آیت ۱۰۔

۲۶۸. سورہ بقرہ، آیت ۲۱۔۲۲۔

۲۶۹. سورہ بقرہ، آیت ۲۱۔

۲۷۰. توحید مفضل :۳۹؛بحارالانوار، ج۳، ص۵۷، باب ۴، حدیث۱۔۸.جاء اعرابی الی النبی صلی الله علیه و آله و سلم فقال:یا رسول الله !علمنی من غرائب العلمقال:ما صنعت فی راس العلم حتی تسال عن غرائبهقال الرجل :ما راس العم یا رسول الله ؟قال:معرفة الله حق معرفته قال الاعرابی:وما معرفة الله حق معرفته؟قال:تعرفه بلا مثل و لاشبه ولاند، وانه واحد احد ظاهر باطن اول آخرلاکفو له ولا نظیر فذلک حق معرفته ۔

۲۷۱. سورہ طہ، آیت ۱۱۱۔

۲۷۲. سورہ بقرہ، آیت ۱۶۳۔

۲۷۳. سورہ بقرہ، آیت ۹۸۔

۲۷۴. سورہ نساء، آیت ۱۳۶۔

۲۷۵. نہج البلاغہ، ترجمہ علامہ جوادی علیہ الرحمہ، ص ۳۱۔

۲۷۶. سورہ مومنون، آیت ۹۹۔۱۰۰۔

۲۷۷. آل عمران، آیت ۱۶۹۔

۲۷۹. سورہ آل عمران، آیت ۲۵۔

۲۸۰. سورہ آل عمران، آیت ۱۵۸۔

۲۸۱. سورہ مائدہ، آیت ۹۶۔

۲۸۲. سورہ انعام، آیت ۱۲۔

۲۸۳. سورہ انعام، آیت ۳۶۔

۲۸۴. سورہ توبہ آیت ۹۴۔

۲۸۵. سورہ مومنون آیت ۱۵۔۱۶۔

۲۸۶. سورہ قیامت آیت ۱۔۴۔

۲۸۷. تفسیر قمی ج۲، ص۲۵۳، کیفیة نفخ الصور؛بحار الانوار ج۷، ص۳۹، باب ۳، حدیث۸۔۳۲.عن ابی جعفر علیه السلام قال:کان فیما وعظ به لقمان علیه السلام ابنه ان قال :یا بنی!ان تک فی شک من الموت فارفع عن نفسک النوم، ولن تستطیع ذلک، وان کنت فی شک من البعث فارفع عن نفسک الانتباه، ولن تستطیع ذلکفانک اذا فکرت فی هذا علمت ان نفسک بید غیرک، وانما النوم بمنزلة الموت، وانما الیقظة بعد النوم بمنزلة البعث بعد الموت ۔

۲۸۸. تفسیر نوین، ص : ۱۹۔

۲۸۹. سورہ یس آیت ۷۷۔۷۹۔

۲۹۰. سورہ یس آیت ۷۹۔((قُلْ یحْییها الَّذِی انشَاها اوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ ))

۲۹۱. سورہ بقرہ آیت ۲۸۴۔

۲۹۲. سورہ طہ آیت ۵۲۔

۲۹۳. تفسیر نمونہ ج۱۸، ص۴۵۶۔

۲۹۴. سورہ بقرہ آیت ۲۰۱۔۲۰۲۔

۲۹۵. سورہ انعام آیت ۶۲۔

۲۹۶. سورہ انشقاق آیت ۷۔۸۔

۲۹۷. اما لی صدوق :۳۹، مجلس ۱۰، حدیث ۹؛بحار الانوار ج۷، ص۲۵۸، باب ۱۱، حدیث ۱۔۴۳.عن ابی جعفر علیه السلام قال :قلت له: یاابن رسول الله ان لی حاجة، فقال:تلقانی بمکةفلقت :یا ابن رسول الله!ان لی حاجة فقال تلقانی بمنی، فقلت :یا ابن رسول الله !ان لی حاجة فقال:هات حاجتک فقلت یاابن رسول الله !انی اذنبت ذنبا بینی وبین الله لم یطلع علیه احد فعظم علی واجلک ان استقبلک بهفقال:انه اذاکان یوم القیامة وحاسب الله عبده المومن اوقفه علی ذنوبه ذنبا ذنبا، ثم غفر ها له لا یطلع علی ذلک ملکا مقربا ولا نبیا مرسلا ۔

۲۹۸. امالی طوسی ص۲۱۲، مجلس ۸، حدیث ۳۶۹؛بحار الانوار ج۷، ص۲۶۲، باب ۱۱، حدیث ۱۴۔

۲۹۹.عن یونس بن عمار، قال:قال ابو عبد الله علیه السلام :ان الدواوین یوم القیامة دیوان فیه النعم ودیوان فیه الحسنات، ودیوان فیه السیئات، فیقابل بین دیوان النعم ودیوان الحسنات، فتسغرق النعم دیوان الحسنات ویبقی دیوان السیئات، فیدعا ابن آدم المومن للحساب فیتقدم القرآن امامه فی احسن صورة فیقول:یارب !انا القرآن وهذا عبدک المومن قدکان یتعب نفسه بتلاوتی، و یطیل لیله بترتیلی، و تفیض عیناه اذا تهجد، فارضه کما ارضانی، قال:فیقول العزیز الجبار:ابسط یمینک فیملوها من رضوان الله العزیز الجبار، ویملا ٴشماله من رحمة الله ثم یقال:هذه الجنة مباحة لک، فاقرا واصعد فاذا قرا آیة صعد درجة

۳۰۰. سورہ آل عمران آیت ۱۹۔

۳۰۱. سورہ رعد آیت ۱۸۔

۳۰۲. سورہ طلاق آیت ۸۔

۳۰۳. سورہ غاشیہ آیت ۲۳۔۲۶۔

۳۰۴. سورہ اسراء آیت ۳۶۔(ترجمہ آیت:”سماعت، بصارت اور قوت قلب سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔“

۳۰۵. تفسیر عیاشی ج۲، ص۲۹۲، حدیث ۷۵؛بحار الانوار ج۷، ص۲۶۷، باب ۱۱، حدیث ۳۰۔

۳۰۶. کافی ج۸، ص۱۰۴، حدیث ابی بصیر مع المراة، حدیث۷۹؛بحار الانوار ج۷، ص۲۷۰، باب۱۱، حدیث۳۵۔

۳۰۷. سورہ نساء آیت ۴۸۔۵۴.الا وان الظلم ثلاثة :فظلم لا یغفر، وطلم لا یترک، و ظلم مغفور لا یطلب فاما الظلم الذی لا یغفر :فالشرک بالله قال الله سبحانه ( إ ِنَّ اللهَ لاَیغْفِرُ انْ یشْرَكَ بِه ) واما الظلم الذی یغفر:فظلم العبد نفسه عند بعض الهناتوا ما الظلم الذی لا یترک :فظلم العباد بعضهم بعضا القصاص هناک شدید الیس هو جرحا بالمدی ولا ضربا بالسیاط ولکنه ما یستصغر ذلک معه ۔

۳۰۸. علل الشرایع ج۲، ص۵۲۸، باب ۳۱۲، حدیث۶؛بحار الانوارج۷، ص۲۷۴، باب۱۱، حدیث۴۶۔

۳۰۹. سورہ اعراف آیت ۸۔

۳۱۰. سورہ انبیاء آیت ۴۷۔

۳۱۱. معانی الاخبار ص۳۱، حدیث ۱؛بحار الانوار ج۷، ص۲۴۹، باب ۱۰، حدیث۶۔

۳۱۲. سورہ اعراف آیت ۸۔۹۔

۳۱۳. سورہ انبیاء آیت ۴۷۔

۳۱۴. سورہ قارعہ آیت ۶۔۱۱۔

۳۱۵. اما لی صدوق :۱۰، مجلس ۳، حدیث۳؛خصال ج۲، ص۳۶۰، حدیث ۴۹؛بحار الانوار ج۷، ص۲۴۸، باب ۱۰، حدیث ۲۔

۳۱۶. کافی ج۲، ص۹۹، باب حسن الخلق، حدیث۲؛بحار الانوار ج۷، ص۲۴۹، باب۱۰، حدیث۷۔

۳۱۷. عیون اخبار الرضا ج۲، ص۱۲۵، باب ۳۵، حدیث ۱؛بحار الانوار ج۷، ص۲۴۹، باب۱۰، حدیث۵۔

۳۱۸. سورہ مائدہ آیت ۱۱۹۔

۳۱۹. سورهٴ یونس آیت ۲۷۶۷. عن ابی جعفر علیه السلام قال:اذا کان یوم القیامة امر الله تبارک و تعالی منادیا ینادی بین یدیه: این الفقراء ؟فیقوم عنق من الناس کثیر، فیقول: عبادیفیقولون :لبیک ربنافیقول:انی لم افقرکم لهوان بکم علی، ولکن انما اخترکم لمثل هذا الیوم تصفحوا وجوه الناس، فمن صنع الیکم معروفا لم یصنعه الا فی فکافوه عنی بالجنة

۳۲۰. عن ابی عبدالله علیه السلام قال:ایما مومن منع مومنا شیئا مما یحتاج الیه وهو یقدر علیه من عنده اومن عند غیره، اقامه الله القیامة مسودا وجهه، مزرقة عیناه، مغلولة یداه الی عنقه، فیقال:هذا الخائن الذین خان الله ورسوله ثم یومر به الی النارکافی ج۲، ص۳۶۷، باب من منع مومنا سیئا، حدیث ۱؛بحا الانوار ج۷، ص۲۰۱، باب۸، حدیث(۸۴)

۳۲۱. عن عبد الله بن الحسین عن ابیه عن جده عن امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیهم السلام قال:قال رسول الله(ص) : یا علی! کذب من زعم انه یحبنی و یبغضک یا علی!انه اذا کان یوم القیامة نادی مناد من بطنان العرش :این محبو علی و شیعته؟این محبوا علی و من یحبه؟این المتحابون فی الله؟این المتباذلون فی الله ؟این الموثرون علی انفسهم ؟این الذین جفت الستنهم من العطش ؟این الذین یصلون فی اللیل والناس این الذین یبکون من خشیة الله؟لا خوف علیکم الیوم ولا؛انتم تحزنون انتم رفقاء محمد صلی الله علیه و آله و سلم قروا عینا ادخلوا الجنة انتم وازواجکم تحبرون

۳۲۲. سورہ بقرہ آیت ۳۔، ”جو لوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں -۔“

۳۲۴. سورہ اسراء آیت ۸۸۔

۳۲۵. سورہ بقرہ آیت ۱۱۰۔

۳۲۶. سورہ بقرہ آیت ۴۵۔

۳۲۷. سورہ انفال آیت ۲۔۳۔

۳۲۸. سورہ نساء آیت ۴۳۔

۳۲۹. سورہ مریم آیت ۵۵۔

۳۳۰. سورہ عنکبوت آیت ۴۵۔

۳۳۱. سورہ مدثر آیت ۴۳۔۴۶۔

۳۳۲. سورہ ماعون آیت ۴۔۶۔

۳۳۳. من لا یحضرہ الفقیہ ج۱، ص۲۰۶، باب فرض الصلاة، حدیث ۶۱۷؛علل الشرایع ج۲، ص۳۵۶، باب ۷۰، حدیث ۱؛بحار الانوار ج۸۰، ص۹، باب ۶، حدیث۳۔

۳۳۴. امالی صدوق ص۲۰۷، مجلس ۳۷، حدیث ۸؛بحا ر الانوار ج۸۰، ص۹، باب۶، حدیث ۶۔

۳۳۵. مشکاة الانوار، ۵۳، الفصل الرابع عشر فی اداء الامانة ؛بحار الانوار ج۸۰، ص۱۱، باب۶، حدیث ۱۰۔

۳۳۶. خصال ج۱، ص۱۶۳، حدیث ۲۱۳؛وسائل الشیعہ ج۴، ص۱۱۲، باب ۱، حدیث ۴۶۵۱۔

۳۳۷. عیون اخبار الرضا ج۲، ص۳۱، باب۳۱، حدیث ۴۶؛بحار الانوار ج۸۰، ص۱۴، باب ۶، حدیث ۲۳۔

۳۳۸. محاسن ج۱، ص۲۵۴، باب ۳۰، حدیث۲۸۱؛بحار الانوار ج۸۰، ص۲۰، باب ۶، حدیث۳۶؛مستدرک الوسائل ج۳، ص۹۶، باب۱، حدیث۳۱۰۶۔

۳۴۰. سورہ بقرہ آیت ۳۔

۳۴۱. سورہ بقرہ آیت ۱۹۵۔

۳۴۲. سورہ بقرہ آیت ۲۵۴۔

۳۴۳. سورہ تغابن آیت ۱۶۔

۳۴۴. سورہ بقرہ آیت ۲۶۱۔

۳۴۵. سورہ بقرہ آیت ۲۷۴۔

۳۴۶. سورہ فاطر آیت ۲۹۔

۳۴۷. مصباح الشریعہ :۱۵، باب الثانی والعشرون فی الزکاة؛بحار الانوار ج۹۳، ص۷، باب ۱، حدیث۱۔

۳۴۸.قوله عزوجل: ( وَآ تُوا الزَّکوٰةَ ) من المال والجاه وقوة البدنفمن المال:مواساة اخوانکم المومنین؛ ومن الجاه:ایصالهم الی ما یتقا عسو ن عنه لضعفهم عن حوائجهم المترددة فی صدورهم ؛وبالقوة:معونة اخ لک قد سقط حماره او جمله فی صحراء او طریق، وهو یستغیث فلا یغاث تعینه، حتی یحمل علیه متاعه، وترکبه (علیه)و تنهضه حتی تلحقه القافله، وانت فی ذلک کله معتقد لموالاة محمد وآله الطیبین، فان الله یزکی اعمالک ویضاعفها بموالاتک لهم، وبراء تک من اعدائهم ۔

۳۴۹. بصائر الدرجات ص۱۱، حدیث ۴؛بحار الانوار ج۹۳، ص۱۱۴، باب۱۴، حدیث۲۔

۳۵۰. زید بن علی عن ابیه عن جده علیهم السلام قال:قال امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیه السلام :ان فی الجنة لشجرة یخرج من اعلاها الحلل ومن اسفلها خیل بلق مسرجة ملجمة ذوات اجنحة لا تروث ولا تبول، فیرکبها اولیاء الله فتطیر بهم فی الجنة حیث شاء وا، فیقول الذین اسفل منهم:یا ربنا !ما بلغ بعبادک هذه الکرامة ؟فیقول الله جل جلاله :انهم کانوا یقومون اللیل ولا ینامون، ویصومون النهار ولا یاکلون ویجاهدون العدوا ولا یجبنون، ویتصدقون ولا یبخلون ۔

۳۵۱. من لایحضرہ الفقیہ ج۴، ص ۱۷، باب ذکر جمل من مناھی النبی، حدیث۴۹۶۸؛بحار الانوار ج۹۳، ص۱۱۵، باب ۱۴، حدیث ۵۔

۳۵۲. کافی ج۴، ص۲۷، باب فضل المعروف، حدیث ۴؛بحار الانوار ج۹۳، ص۱۱۹، باب ۱۴، حدیث ۲۰۔

۳۵۳. عیون اخبار الرضا ج۲، ص۴، باب ۳۰، حدیث ۹؛وسائل الشیعہ ج۹، ص۳۹۰، باب۱۰، حدیث۱۲۳۰۹؛ بحارالانوار ج۹۳، ص۱۲۰، باب ۱۴، حدیث ۲۳۔

۳۵۴. کافی ج۴، ص۴۳، باب الانفاق، حدیث ۵؛عیون اخبار الرضاج۲، ص۸، باب ۳۰، حدیث۲۰؛بحار الانوار ج۹۳، ص۱۲۱، باب۱۴، حدیث۲۴۔

۳۵۵. سورہ بقرہ آیت(۲۶۲)

۳۵۶. سورہ بقرہ آیت ۲۶۴۔

۳۵۷. سورہ بقرہ آیت ۵۔

۳۵۸. سورہ فرقان آیت ۷۰۔

۳۵۹. سورہ بقر ہ آیت ۸۳۔

۳۶۰. سورہ نساء آیت ۳۶۔

۳۶۱. سورہ اسراء آیت ۲۳۔۲۴۔

۳۶۲. سورہ آل عمران آیت ۹۲۔

۳۶۳. کافی ج۲، ص۱۵۷، باب البر بالوالدین، حدیث ۱؛بحارالانوار ج۷۱، ص۳۹، باب ۲، حدیث ۳۔

۳۶۴. عن حدید بن حکیم عن ابی عبد اللہ علیہ السلام قال ادنی العقوق اف ولو علم اللہ عز وجل شیئا اھون منہ لنھی عنہ۔

۳۶۵. کافی ج۲، ص۳۴۹، باب العقوق، حدیث۷۔

۳۶۶. کافی ج۲، ص۱۵۸، باب البر بالوالدین، حدیث ۵؛بحار الانوار ج۷۱، ص۴۵، باب۲، حدیث۶۔

۳۶۷. تفسیر صافی ج۳، ص۱۸۵، ذیل سورہ اسراء، آیت ۲۴۔

۳۶۸. تفسیر صافی ج۳، ص۱۸۶، ذیل سورہ اسراء، آیت ۲۴ ۔

۳۶۹. تفسیر امام حسن عسکری ص۳۳۰، حدیث ۱۸۹، ذیل سورہ اسرائآیت ۲۴ ؛بحار الانوار ج۲۳، ص۲۵۹، باب۱۵، حدیث۸۔

۳۷۰. تفسیر صافی ج۱، ص۱۵۰، ذیل سورہ اسرائآیت ۸۳، تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام ص۳۳۰، حدیث ۱۹۰؛بحار الانوار ج۲۳، ص۲۵۹، باب ۱۵، حدیث ۸۔

۳۷۱. سورہ بقرہ آیت ۲۷۔

۳۷۲. سورہ رعد آیت ۳۹۔

۳۷۳. نہج البلاغہ ص۶۴۲، نامہ ۳۱، فی الرای فی المراة ؛بحار الانوار ج۷۱، ص۱۰۵، باب۳، حدیث۶۷۔

۳۷۴. امالی صدوق ص۲۰۷، مجلس ۳۷، حدیث ۸؛بحار الانوار ج۶۶، ص۳۸۳، باب۳۸، حدیث۴۶۔