نیکیوں سے مزین ہونا اور برائیوں سے پرھیز کرنا (۲)
یتیموں پر احسان
قرآن مجید نے تقریباً ۱۸ مقامات پر یتیم سے محبت اور اس کے مال کی حفاظت اور اس کی تربیت و ترقی کی سفارش کی ہے۔
(
وَیسْالُونَكَ عَنْ الْیتَامَی قُلْ إِصْلاَحٌ لَهم خَیرٌ وَإِنْ تُخَالِطُوهم فَإِخْوَانُكُمْ وَاللهُ یعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنْ الْمُصْلِحِ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَاعْنَتَكُمْ إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَكِیمٌ
)
۔
”اور یہ لوگ تم سے یتیموں کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہہ دوکہ ان کے حال کی اصلاح بھترین بات ہے اور اگر ان سے مل جل کر رھو تو یہ بھی تمھارے بھائی ہیں اور اللہ بھتر جانتا ہے کہ مصلح کون ہے اور مفسد کون ہے اگر وہ چاھتا تو تم ہیں مصیبت میں ڈال دیتا لیکن وہ صاحب عزت بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے“۔
(
وَآتُوا الْیتَامَی امْوَالَهم وَلاَتَتَبَدَّلُوا الْخَبِیثَ بِالطَّیبِ وَلاَتَاكُلُوا امْوَالَهم إِلَی امْوَالِكُمْ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِیرًا
)
۔
”اور یتیموں کو ان کامال دےدو اور ان کے مال کو اپنے مال سے نہ بدلو اور ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاجاو کہ یہ گناہ کبیرہ ہے“۔
(
إِنَّ الَّذِینَ یاكُلُونَ امْوَالَ الْیتَامَی ظُلْمًا إِنَّمَا یاكُلُونَ فِی بُطُونِهم نَارًا وَسَیصْلَوْنَ سَعِیرًا
)
۔
”جو لوگ ظالمانہ انداز سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب واصل جہنم ہوں گے“۔
(
وَانْ تَقُومُوا لِلْیتَامَی بِالْقِسْطِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَیرٍ فَإِنَّ اللهَ كَانَ بِهِ عَلِیمًا
)
۔
”اور ان کمزور بچوں کے بارے میں انصاف کے ساتھ قیام کرو اور جو بھی تم کا ر خیر کروگے خدا س کا بخوبی جاننے والا ہے“۔
(
وَلاَتَقْرَبُوا مَالَ الْیتِیمِ إِلاَّ بِالَّتِی هِی احْسَنُ حَتَّی یبْلُغَ اشُدَّهُ
)
”اور خبردار مال یتیم کے قریب بھی نہ جانا مگر اس طریقہ سے جو بھترین طریقہ ہو یھاں تک کہ وہ توانائی کی عمر تک پہنچ جائیں“۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرماتے ہیں :
”مَنْ قَبَضَ یتیماً مِنْ بَینِ الْمُسْلِمینَ اِليٰ طَعامِهِ وَشَرابِهِ، اَدْخَلَهُ اللّٰهُ الْجَنَّةَ اَلْبَتَّةَ اِلا اَنْ یعْمَلَ ذَنْباً لَا یغْفَرُ
“
”جو شخص کسی مسلمان یتیم بچہ کی پرورش اور خرچ کی ذمہ داری لے لے تو یقینا خداوندعالم اس پر جنت واجب کردیتا ہے، مگر یہ کہ غیر قابل بخشش گناہ کا مرتکب ہوجائے“۔
نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے:
”اِنَّ فِی الْجَنَّةِ داراً یقالُ لَها دارُ الْفَرَحِ، لَا یدْخُلُها اِلاَّ مَنْ فَرَّحَ یتامَی الْمُومِنینَ
“
”بے شک جنت میں ایک مکان ہے جس کو ”دار الفرح“ (یعنی خوشیوں کا گھر) کھا جاتا ہے، اس میں صرف وھی مومن داخل ہوسکتے ہیں جنھوں نے یتیم مومن بچوں کو خوشحال کیا ہو“۔
”اَتَی النَّبِی رَجُلٌ یشْكُو قَسْوَةَ قَلْبِهِ، قالَ:اَتُحِبُّ اَنْ یلینَ قَلْبُكَ وَتُدْرِكَ حاجَتَكَ؟اِرْحَمِ الْیتیمَ، وَامْسَحْ رَاسَهُ، وَاَطْعِمْهُ مِنْ طَعامِكَ، یلِنْ قَلْبُكَ، وَتُدْرِكَ حاجَتَكَ
“
”ایک شخص پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اپنی سنگدلی کی شکایت کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اگرتم چاھتے ہو کہ تمھارا دل نرم ہوجائے، اور اپنی مراد حاصل کرلو؟ تم یتیم بچوں پر مھربانی کرو، ان کے سرپر دست شفقت پھیرو، ان کو کھانا کھلاؤ، تو تمھارا دل نرم ہوجائے گااور تم ہیں تمھاری مرادیں مل جائےں گی“۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
”مامِنْ مُومِنٍ وَلَا مُومِنَةٍ یضَعُ یدَهُ عَليٰ رَاسِ یتیمٍ تَرَحُّماً لَهُ اِلّا كَتَبَ اللّٰهُ لَهُ بِكُلِّ شَعْرَةٍ مَرَّتْ یدُهُ عَلَیهَا حَسَنَةً
“
”جب کوئی مومن کسی یتیم کے سر پر دست نوازش پھیرتا ہے تو خداوندعالم اس کے ھاتھ کے نیچے گزرنے والے ھر بال کے بدلہ نیکی اور حسنہ لکھ دیتا ہے“۔
مسکینوں پر احسان کرنا
مسکین یعنی وہ شخص جو زمین گیراورلاچار ہوگیا ہو، اور تھی دستی اور غربت کا شکار ہوگیا ہو، جس کے لئے درآمد کا کا کوئی طریقہ باقی نہ رہ گیا ہو۔
ھر مومن پر خدا کی طرف سے ذمہ داری اور وظیفہ ہے کہ اپنے مال سے اس کی مدد کرے، اور اس کی عزت کو محفوظ رکھتے ہوئے اس کی مشکلات کو دور کرنے کوشش کرے۔
قرآن مجید نے مساکین پر توجہ کو واجب قرار دیا ہے، اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کو عبادت خدا شمار کیا ہے، کیونکہ خداوندعالم مساکین پر خاص توجہ، اور ان کے چین و سکون کا راستہ ھموار کئے جانے کو پسند کرتا ہے۔
مساکین کی نسبت لاپرواھی کرنا بھت بُرا ہے اور قرآن مجید کے فرمان کے مطابق روز قیامت ایسا شخص عذاب الٰھی میں گرفتار ہوگا۔
(
وَآتِ ذَا الْقُرْبَی حَقَّهُ وَالْمِسْكِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ وَلاَتُبَذِّرْ تَبْذِیرًا
)
۔
”اور دیکھو قرابتداروں، مسکین اور غربت زدہ مسافر کو اس کاحق دےدو اور خبردار اسراف سے کام نہ لینا“۔
(
وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّهِ ذَوِی الْقُرْبَی وَالْیتَامَی وَالْمَسَاكِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ وَالسَّائِلِینَ وَفِی الرِّقَابِ
)
”اور محبت خدا میں قرابتداروں، یتیموں، مسکینوں، غربت زدہ مسافروں، سوال کرنے والوں اور غلاموں کی آزادی کے لئے مال دے“۔
(
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِینِ وَالْعَامِلِینَ عَلَیها وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهم وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِینَ وَفِی سَبِیلِ اللهِ وَاِبْنِ السَّبِیلِ فَرِیضَةً مِنْ اللهِ وَاللهُ عَلِیمٌ حَكِیمٌ
)
۔
”صدقات و خیرات بس فقراء، مساکین اور ان کے کام کرنے والے اور جن کی تالیف قلب کی جاتی ہے اور غلاموں کی گردن کی آزادی میں اور قرضداروں کے لئے راہ خدا میں اور غربت زدہ مسافروں کے لئے ہیں یہ اللہ کی طرف سے فریضہ ہے اور اللہ خوب جاننے والاھے اور صاحب حکمت ہے“۔
مساکین کی نسبت بے توجھی اور ان کی مدد نہ کرنا نہ صرف یہ کہ آخرت کے عذاب کا باعث ہے بلکہ انسان کی زندگی میں بھی اس کے برے آثار ظاھر ہوتے ہیں ۔
خداوندعالم نے سورہ ”ن و القلم“ آیات ۱۷ تا ۳۳ میں ان بھائیوں کی داستان کو بیان کیا ہے جن کو باپ کی میراث میں ایک بھت بڑا اور پھل دار باغ ملا، لیکن انھوں نے اپنے باپ کے برخلاف عمل کیا ان کا باپ غریب غرباء کا بھت خیال رکھتا تھا، انھوں نے باپ کی میراث ملتے ہی ایک میٹنگ کی اور یہ طے کیا کہ کل صبح جب باغ کے پھلوں کو اتارا جائے گا تو کسی بھی غریب و مسکین کی مدد ن ہیں کی جائے گی، اور باغ کے دروازہ کو بند کردیا جائے تاکہ کوئی غریب و مسکین آنے نہ پائے، لیکن ان کی اس شیطانی و پلید فکر کی وجہ سے بحکم خدا اسی رات بجلی گری اور پھلوں سے لدے ہوئے تمام باغ کو جلا ڈالا، اور اس سرسبز علاقے میں اس باغ کی ایک مٹھی راکھ کے علاوہ کچھ باقی نہ بچا۔
جیسے ہی وہ لوگ صبح صبح اپنے منصوبہ کے مطابق پھل اتارنے کے لئے باغ میں پہنچے تو باغ کی یہ عجیب و غریب حالت دیکھی تو ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے، اور فریاد بلند کی کہ افسوس !!ھمارے اوپر کہ ھم نے احکام الٰھی اور اس کے حدود سے تجاوز کیا اور اھل طغیان و تجاوز ہوگئے۔
قرآن مجید مشکلات نازل ہونے اورفقر و تنگدستی میں مبتلا ہونے کا باعث مساکین کی مدد نہ کرنے کو بیان کرتا ہے:
(
وَامَّا اِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَیهِ رِزْقَهُ فَیقُولُ رَبِّی اهَانَنِ كَلَّابَلْ لَا تُكْرِمُونَ الْیتِیمَوَلَا تَحَاضُّونَ عَلَيٰ طَعَامِ الْمِسْكِینِ وَتَاكُلُونَ التُّرَاثَ اكْلاً لَّماً وَتُحِبُّونَ الّمَالَ حُبًّا جَمّاً
)
۔
”اورجب آزمائش کے لئے روزی کو تنگ کردیا توکہنے لگا کہ میرے پروردگار نے میری توھین کی ہے۔ایسا ھرگز ن ہیں ہے بلکہ تم یتیموں کا احترام ن ہیں کرتے ہو۔اور لوگوں کو مسکینوں کوکھانا کھانے پر آمادہ ن ہیں کرتے ہو اور میراث کے مال کو اکٹھا کر کے حلال وحرام سب کھاجاتے ہو۔اور مال دنیا کو بھت دوست رکھتے ہو“۔
قرآن مجید نے سورہ الحاقہ میں ایک گروہ کے لئے بھت سخت عذاب کے بارے میں بیان کیا ہے جن کے عذاب کے دو سبب بیان کئے ہیں :
۱۔ خدا پر ایمان نہ رکھنا۔
۲۔ مساکین کو کھانے کھلانے میںرغبت نہ رکھنا۔
آیات کا ترجمہ اس طرح ہے:
”لیکن جس کا نامہ اعمال بائیں ھاتھ میں دیا جائے گا وہ کھے گا: ”اے کاش یہ نامہ اعمال مجھے نہ دیا جاتا۔ اور مجھے اپنا حساب نہ معلوم ہوتا۔ اے کاش اس موت ہی نے میرا فیصلہ کردیا ہوتا۔میرا مال بھی میرے کام نہ آیا۔ اور میری حکومت بھی برباد ہوگئی“۔ اب اسے پکڑو اور گرفتار کرلو۔ پھر اسے جہنم میں جھونک دو۔ پھر ایک ستر گز کی رسی میں اسے جکڑ لو۔ یہ خدائے عظیم پر ایمان ن ہیں رکھتا تھا۔ اور لوگوں کو مسکینوں کے کھلانے پر آمادہ ن ہیں کرتا تھا۔تو آج اس کا یھاں کوئی غمخوار ن ہیں ہے۔ اور نہ پیپ کے علاوہ کوئی غذا ہے۔ جسے گناھگاروں کے علاوہ کوئی ن ہیں کھاسکتا“
قارئین کرام! واقعاً غرباء اورمساکین کی طرف توجہ کرنا اتنااھم ہے کہ جس سے غفلت کرنے والا خداوندعالم کی نظر میں قابل نفرت ہے اور روز قیامت سخت ترین عذاب کا حقدار ہوگا۔
جناب جبرئیل سے نقل ہوا ہے کہ فرمایا:
”اَنا مِنَ الدُّنْیا اُحِبُّ ثَلاثَةَ اَشْیاءَ:اِرْشادَ الضّالِّ وَاِعانَةَ الْمَظْلومِ وَمَحَبَّةَ الْمَساكِینِ
“
”میں دنیا کی تین چیزوں کو دوست رکھتا ہوں: راستہ بھٹکے ہوئے کی راہنمائی، مظلوم کی مدد اور مساکین کے ساتھ محبت“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”فَمَنْ واسا هُمْ بِحَواشِی مالِهِ وَسَّعَ اللّٰهُ عَلَیهِ جِنانَهُ وَاَنالَهُ غُفْرانْهُ وْرِضْوانَهُ
”جو شخص اپنے پاس جمع ہوئے مال سے مساکین کی مدد اور ان کی پریشانیوں کودور کرے، تو خداوندعالم اس کے لئے جنت کو وسیع فرمادیتا ہے اور اس کو اپنی رحمت و مغفرت میں داخل کرلیتا ہے“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”جو شخص کسی مومن کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے تو روز قیامت اس کی جزاکو کوئی ن ہیں جان سکتا، نہ مقرب فرشتے اور نہ پیغمبر مرسل، سوائے خداوندعالم کے، کہ صرف وھی اس شخص کے اجر کے بارے میں آگاہ ہے“۔
کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانا باعث مغفرت و بخشش ہے اور اس کے بعد امام صادق علیہ السلام نے اس آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی
:
(
اَوْ اِطْعَامٌ فِی یوْمٍ ذِی مَسْغَبَةٍیتِیماً ذَا مَقْرَبَةٍاَوْ مِسْكِیناً ذَامَتْرَبَةٍ
)
۔
”یا بھوک کے دن میں کھانا کھلانا ۔کسی قرابتدار یتیم کو۔یا خاکسار مسکین کو“۔
نیک گفتار
قرآن مجید کی متعدد آیات زبان کے سلسلہ میںھونے والی گفتگو، زبان کی عظمت اور گوشت کے اس لوتھڑے کی اھمیت کو بیان کرتی ہے۔
زبان ہی کے ذریعہ انسان دنیا و آخرت میں نجات پاتا ہے یا اسی زبان کے ذریعہ دنیا و آخرت تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔
زبان ہی کے ذریعہ انسان گھر اور معاشرہ میں چین و سکون پیدا کرتا ہے یا اسی زبان کے ذریعہ گھر اور معاشرہ میں تباھی و بربادی پھیلادیتا ہے۔
زبان ہی یا اصلاح کرنے والی یا فساد برپا کرنے والی ہوتی ہے، اسی زبان سے لوگوں کی عزت و آبرو اور اسرار کو محفوظ کیا جاتا ہے یا دوسروں کی عزت و آبرو کو خاک میں ملادیا جاتا ہے۔
قرآن کریم تمام انسانوں خصوصاً صاحبان ایمان کو دعوت دیتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ صرف نیک گفتار میں کلام کرو۔
زبان کے سلسلہ میں قرآنی آیات کے علاوہ بھت سی اھم احادیث بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے بیان ہوئی ہیں کہ اگر کتب احادیث میں بیان شدہ تمام احادیث کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے:
”اِذا اَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ اَصْبَحَتِ الْاَعْضاءُ كُلُّها تَسْتَكْفِی اللِّسانَ، اَی تَقولُ:اِتَّقِ اللّٰهَ فِینَا، فَاِنَّكَ اِنِ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنا، وَاِنِ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنا
“
”جس وقت انسان صبح کرتا ہے تو اس کے تمام اعضاء و جوارح بھی صبح کرتے ہیں ، چنانچہ تمام اعضاء زبان سے کھتے ہیں : ھمارے سلسلہ میں تقويٰ الٰھی کی رعایت کرنا کیونکہ اگر تو راہ مستقیم پر رہے گی تو ھم بھی مستقیم ر ہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ھم بھی ٹیڑھے پن میں گرفتار ہوجائیں گے“۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :
”اَللِّسانُ میزانُ الْاِنْسانِ
“
”زبان انسان کی میزان (اور ترازو) ہے (یعنی انسان کی شرافت اور اس کی بزرگی یا پستی اس کی زبان سے سمجھی جاتی ہے)
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے:
”ٰیعَذِّبُ اللّٰهُ اللِّسانَ بِعَذابٍ لَایعَذِّبُ بِهِ شَیئاً مِنَ الْجَوارِحِ فَیقولُ:یارَبِّ عَذَّبْتَنِی بِعَذابٍ لَمْ تُعَذِّبْ بِهِ شَیئاً مِنَ الْجَوارِحِ، فَیقالُ لَهُ:خَرَجَتْ مِنْكَ كَلِمَةٌ فَبَلَغَتْ مَشارِقَ الْاَرْضِ وَمَغارِبَها فَسُفِكَ بِهَا الدَّمُ الْحَرامُ، وَانْتُهِبَ بِهِ الْمالُ الْحَرامُ، وَانْتُهِكَ بِهِ الْفَرْجُ الْحَرامُ
“
”خداوندعالم زبان کو ایسے عذاب میں مبتلا کرے گا کہ کسی دوسرے حصہ پر ایسا عذاب ن ہیں کرے گا، اس وقت زبان گویا ہوگی:خدایا! تو نے مجھے ایسے عذاب میں مبتلا کیا ہے کہ کسی حصہ کو ایساعذاب ن ہیں کیا ہے، چنانچہ اس سے کھا جائے گا: تجھ سے ایسے الفاظ نکلے ہیں جو مشرق و مغرب تک پہنچ گئے ہیں جن کی وجہ سے بے گناہ کا خون بھا، بے گناہ کا مال غارت ہوا اور بے گناہ کی آبرو خاک میں مل گئی!“
حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے:
”كَمْ مِنْ اِنْسانٍ اَهْلَكَهُ لِسانٌ
“
”کتنے لوگ ایسے ہیں جو اپنی زبان کی وجہ سے ھلاک ہوجاتے ہیں “۔
بھر حال ھمیں شب و روز اپنی زبان کی حفاظت کرنا چاہئے، اور اس کو بولنے کے لئے آزاد ن ہیں چھوڑدینا چاہئے، کس جگہ، کس موقع پر، کس کے پاس اور کس موضوع پر گفتگو کرنے کے لئے غور و فکر کرنا ضروری ہے، نیز ھر حال میں خدا اور قیامت پر توجہ رکھنا ضروری ہے، ک ہیں ایسا نہ ہو کہ انسان زبان کے ذریعہ ایسا گناہ کر بیٹھے کہ اس سے توبہ کرنا مشکل اور ان کے نقصان کی تلافی کرنا محال ہو۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : ”مومن اور مخالف سے نیکی اور خوبی کے ساتھ گفتگو کرو، تمھاری گفتگو صرف نیک اور منطقی ہونا چاہئے“۔
مومنین سے خنداں پیشانی اور خوش روئی کے ساتھ گفتگو کرنا چاہئے، اور وہ بھی نیکی اور اچھائی سے، اور مخالفوں (غیر شیعہ) سے اس طرح گفتگو کرو کہ ان کے لئے ایمان کے دائرہ میں داخل ہونے کا راستہ ھموار ہوجائے، اور اگر وہ ایمانی دائرے میں داخل نہ ہوسکے تو اس سے دوسرے مومنین حفظ و امان میں ر ہیں ، اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: دشمنان خدا کے ساتھ تواضع ومدارا ت سے پیش آنا، اپنے اور دوسرے مومنین کی طرف سے صدقہ ہے۔
حضرت امام باقر علیہ السلام سے آیہ شریفہ(
وَ قولوا لِلنَّاسِ حُسناً
)
کے ذیل میں روایت ہے کہ لوگوں سے اس طرح نیک گفتار کرو جس طرح تم اپنے ساتھ گفتگو کیا جانا پسند کرتے ہوکیونکہ خداوندعالم مومن اور قابل احترام حضرات کی نسبت بدگوئی اور نازیبا الفاظ پسند ن ہیں کرتا (یعنی مومنین کو برا بھلا کہنے والوں کو دوست ن ہیں رکھتا) اور باحیا، بردبار، ضعیف اور باتقويٰ لوگوں کو دوست رکھتا ہے
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے:
”كَلامُ ابْنِ آدَمَ كُلُّهُ عَلَیهِ لَا لَهُ اِلاَّ اَمْرٌ بِالْمَعْروفِ، وَنَهْی عَنِ الْمُنْكَرِ، اَوْ ذِكْرُ اللّٰهِ
“
”تمام لوگوں کی گفتگو ان کے نقصان میں ہے سوائے امر بالمعروف، نھی عن المنکر اور ذکر خدا کے“۔
سورہ بقرہ آیت ۸۳ کے لحاظ سے جس کی شرح گزشتہ صفحات میں بیان ہوچکی ہے ماں باپ، رشتہ داروں اورمساکین کے ساتھ احسان اور تمام لوگوں سے نیک گفتار اور اچھی باتیں معنوی زیبائیوں میں سے ہیں ، گناہ خصوصاً گناہ کبیرہ سے توبہ کرنے والے کے لئے اپنی توبہ، عمل اور گفتار کی اصلاح کے لئے اس آیت کے مضمون پر پابندی کرنا ضروری ہے اور اس مذکورہ آیت میں بیان شدہ اھم مسائل پر خوشحالی اور نشاط کے ساتھ عمل کرے تاکہ اس کے اندر موجود تمام برائیاں دُھل جائیں اور اس کے عمل، اخلاق اور گفتار کی اصلاح ہوجائے۔
اخلاص
اخلاص اور خلوص نیت ایک بھت عظیم مسئلہ ہے جس پر قرآن مجید کی آیات اور روایات معصومین علیہم السلام میں بھت زیادہ تازور دیا گیا ہے۔
صرف مخلص افراد ہی کی فکر و نیت، عمل اور اخلاق قابل اھمیت ہے اور صرف وھی لوگ اجر عظیم اور رضوان الٰھی کے مستحق ہوتے ہیں ۔
اگر ھماری کوشش، اعمال اور اخلاقی امور غیر خدا کے لئے ہوں تو ان کی کوئی اھمیت ن ہیں ہے، اور خدا کے نزدیک اس کا کوئی ثواب ن ہیں ہے۔
جو شخص اپنے گناھوں سے توبہ کرتا ہے تو قرآن مجید کے فرمان کے مطابق اس کو اپنی حالت اور گفتگو کی اصلاح کرنا چاہئے، اور تمام امور میں خداوندعالم کی پناہ میں چلا جائے، اور اپنے دین اور تمام دینی امور میں خلوص خدا کی رعایت کرے، اور ریاکاری اور خودنمائی سے پرھیز کرے، اپنے دینی فرائض میں صرف اور صرف خدا سے معاملہ کرے، تاکہ اھل ایمان کی ھمراھی حاصل ہوجائے، اس سلسلہ میں درج ذیل آیہ شریفہ بھت زیادہ قابل توجہ ہے:
(
إِلاَّ الَّذِینَ تَابُوا وَاصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللهِ وَاخْلَصُوا دِینَهم لِلَّهِ فَاوْلَئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ وَسَوْفَ یؤْتِ اللهُ الْمُؤْمِنِینَ اجْرًا عَظِیمًا
)
۔
”علاوہ ان لوگوں کے کے جو توبہ کر لیں اور اپنی اصلاح کر لیں اور خدا سے وابستہ ہوجائیں اور دین کو خالص اللہ کے لئے اختیار کریں تو یہ صاحبان ایمان کے ساتھ ہوں گے اور عنقریب اللہ ان صاحبان ایمان کو اجر عظیم عطا کرے گا“۔
(
الاَلِلَّهِ الدِّینُ الْخَالِصُ
)
۔
”آگاہ ہو جاو کے خالص بندگی اللہ کے لئے ہے“۔
جو شخص ریاکاری، خود نمائی اور شرک کا گرفتار ہو تو بارگاہ خداوندی سے اس کا کوئی سروکار ن ہیں ہے۔
(
فَاعْبُدْ اللهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّینَ
)
۔
”لہٰذا آپ (پیغمبر اکرم) مکمل اخلاص کے ساتھ خدا کی عبادت کریں“۔
جن لوگوں کے اعمال میں اخلاص ن ہیں ہوتا ان کے اعمال خدا کی نظر میں ہیچ ہوتے ہیں لیکن خلوص کے ساتھ اعمال انجام دینے والوں کے اعمال کا خریدار خداوندمھربان ہے۔
(
وَلَنَا اعْمَالُنَا وَلَكُمْ اعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ
)
۔
”(اے پیغمبر! بدکار اور مشرکین سے کھو) ھمارے لئے ھمارے اعمال ہیں اور تمھارے تمھارے لئے اعمال اور ھم تو صرف خدا کے مخلص بندے ہیں “۔
ریاکاری کی وجہ سے عمل باطل ہوجاتا ہے اور اس کی اھمیت ختم ہوجاتی ہے، لیکن اخلاص سے عمل میں اھمیت پیدا ہوتی ہے اور اخلاص کے ذریعہ ہی آخرت میں جزائے خیر اورثواب ملنے والا ہے۔
توبہ کرنے والے کے لئے اپنی نیت کی اصلاح کرنا اور اپنے ارادہ کو خدا کی مرضی کے تابع قرار دےنالازم و ضروری ہے تاکہ توبہ کا درخت ثمر بخش ہوسکے۔
اخلاص پیدا کرنے کا طریقہ خدا اور قیامت پر توجہ اور اولیاء الٰھی کے حالات پر غور و فکر کرنا ہے، اور انسان اس بات کا معتقد ہو کہ جنت و جہنم کی کلید خدا کے علاوہ کسی کے پاس ن ہیں ہے، اور انسان کی سعادت و شقاوت کا کسی دوسرے سے کوئی تعلق ن ہیں ہے۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اخلاص کے فوائد کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں :
”مَا اَخْلَصَ عَبْدٌلِلّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ اَرْبَعِینَ صَباحاً اِلّا جَرَتْ ینابِیعُ الْحِكْمَةِ مِنْ قَلْبِهِ عَليٰ لِسانِهِ
“
”جب کوئی بندہ چالیس دن تک خدا کے لئے اخلاص سے کام کرے تو خداوندمھربان اس کی زبان پر حکمت کا چشمہ جاری کردیتا ہے“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشادھے:
”اِنَّ الْمُومِنَ لَیخْشَعُ لَهُ كُلُّ شَیءٍ وَیهابُهُ كُلُّ شَیءٍ ثُمَّ قالَ:اِذاکانَ مُخْلِصاً لِلّٰهِ اَخافَ اللّٰهُ مِنْهُ كُلَّ شَیءٍ حَتّيٰ هَوامَّ الْاَرْضِ وَ سِباعَها وَ طَیرَ السَّماءِ؛
“
”بے شک” مومن انسان “کے لئے ھر چیز خاشع و خاضع ہے اور سبھی اس سے خوف زدہ ہیں ، اس کے بعد فرمایا: جس وقت مومن انسان خدا کا مخلص بندہ بن جاتاھے تو خداوندعالم اس کی عظمت اور ہیبت کو تمام چیزوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے، یھاں تک کہ روئے زمین پر وحشی درندے اور آسمان پر اڑنے والے پرندے بھی اس کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں “۔
حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے:
”سَبَبُ الْاِخْلاصِ الْیقینُ
“
”یقین وایمان کے ذریعہ اخلاص پیدا ہوتا ہے“۔
”اَصْلُ الْاِخْلاصِ الْیاسُ مِمّا فِی اَیدِی النّاسِ
“
”اخلاص کی اصل، دوسروں کے پاس موجود تمام چیزوں سے ناامیدی ہے“۔
”مَنْ رَغِبَ فِیما عِنْدَ اللّٰهِ اَخْلَصَ عَمَلَهُ
“
”جو شخص خداوندعالم کی رحمت و رضوان اور بہشت کا خواھاں ہے اسے اپنے عمل میں اخلاص پیدا کرنا چاہئے“۔
د
صبر
قرآن و احادیث میں صبر و شکیبائی کے سلسلہ میں حکم دیا گیا ہے جو واقعاً ایک الٰھی، اخلاقی اور انسانی مسئلہ ہے، جس کو خداوندعالم پسند کرتا ہے، جو عظیم اجر و ثواب کا باعث ہے۔ صبر حافظ دین ہے اور انسان کو حق و حقیقت کی نسبت بے توجہ ہونے سے روکتا ہے، صبر کے ذریعہ انسان کے دل و جان میں طاقت پیدا ہوتی ہے، نیز صبر انسان کو شیاطین (جن و انس) سے حفاظت کرنے والا ہے۔
اگر سخت حوادث و ناگوار حالات(جو دین و ایمان کو غارت کرنے والے ہیں )، عبادت و اطاعت اور گناہ کے وقت صبر سے کام لیا جائے تو انسان یہ سوچتے ہوئے کہ حوادث بھی قواعد الٰھی سے ھم آہنگ ہیں ، ان کو برداشت کرلیتا ہے، اور اپنی نجات کے لئے دشمنان خدا سے پناہ ن ہیں مانگتا، عبادت و اطاعت خدا کے وقت اپنے کو بندگی کے مورچہ پر کھڑا ہوکر استقامت کرتا ہے، اور گناہ و معصیت سے لذت کے وقت لذتوں کو چھوڑنے کی سختی کو برداشت کرتا ہے اور قرآن مجید کے فرمان کے مطابق خداوندعالم کی صلوات و رحمت کا مستحق قرار پاتا ہے۔
(
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیءٍ مِنْ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنْ الْامْوَالِ وَالْانفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرْ الصَّابِرِینَ الَّذِینَ إِذَا اصَابَتْهم مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیهِ رَاجِعُونَ اوْلَئِكَ عَلَیهم صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهم وَرَحْمَةٌ وَاوْلَئِكَ هم الْمُهتدُونَ
)
۔
”اور ھم یقینا تم ہیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں ۔ جو مصیبت پڑنے کے بعد یہ کھتے ہیں کہ ھم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی بارگاہ میں واپس جانے والے ہیں ۔کہ ان کے لئے پروردگار کی طرف صلوات اور رحمت ہے اور وھی ہدایت یافتہ ہیں “۔
(
وَالْمَلَائِكَةُ یدْخُلُونَ عَلَیهم مِنْ كُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَیكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ
)
۔
”اور ملائکہ ان کے پاس ھر دروازے سے حاضر ی دیں گے ۔ک ہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو کہ تم نے صبر کیا ہے اور اب آخرت کا گھر تمھاری بھترین منزل ہے“۔
(
مَا عِنْدَكُمْ ینفَدُ وَمَا عِنْدَ اللهِ بَاقٍ وَلَنَجْزِینَّ الَّذِینَ صَبَرُوا اجْرَهم بِاحْسَنِ مَا كَانُوا یعْمَلُونَ
)
۔
”جوکچھ تمھارے پاس ہے وہ سب خرچ ہو جائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وھی باقی رہنے والا ہے اور ھم یقینا صبر کرنے والوں کو ان کے اعمال سے بھتر جزا عطا کریں گے“۔
(
اوْلَئِكَ یؤْتَوْنَ اجْرَهم مَرَّتَینِ بِمَا صَبَرُوا
)
۔
”یھی وہ لوگ ہیں جن کو دھری جزادی جائے گی چونکہ انھوں نے صبر کیا ہے“۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:
”مَنْ یتَصَبَّرْ یصَبِّرْهُ اللّٰهُ وَمَنْ یسْتَعْفِفُ یعِفَّهُ اللّٰهُ وَمَنْ یسْتَغْنِ یغْنِهِ اللّٰهُ وَمَا اُعْطِی عَبْدٌ عَطا ءً هُوَ خَیرٌ وَ اَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ
“
”جو شخص صبر سے کام لے تو خداوندعالم اس کو صبر کی توفیق عطا کرتا ہے، اور جو شخص عفت و پارسائی کو اپناتا ہے تو خداوندعالم اس کو پارسائی تک پہنچادیتا ہے اور جو شخص خداوندعالم سے بے نیازی طلب کرتا ہے تو خداوندعالم اس کو بے نیاز بنادیا ہے، لیکن بندہ کو صبر سے بھتر اور وسیع تر کوئی چیز عطا ن ہیں ہوتی“۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
”اَلْحَقُّ ثَقِیلٌ، وَقَدْ یخَفِّفُهُ اللّٰهُ عَليٰ اَقْوامٍ طَلَبُوا الْعاقِبةَ فَصَبَرُوا نُفُوسَهُمْ، وَوَثِقُوا بِصِدْقِ مَوْعُودِ اللّٰهِ لِمَنْ صَبَرُوا، اِحْتَسِبْ فَكُنْ مِنْهُمْ وَاسْتَعِنْ بِاللّٰهِ
“
”حق کڑوا ہوتا ہے لیکن خداوندعالم اپنی عاقبت کے خواھاںلوگوں کے لئے شیرین بنادیتا ہے، جی ھاں، جو لوگ صبر کے سلسلہ میں دئے گئے وعدہ الٰھی کو سچ مانتے ہیں خدا ان کے لئے حق کو آسان کردیتا ہے، خدا کے لئے نیک کام انجام دو اور حقائق کا حساب کرو جس کے نتیجہ میں تم صبر کرو اور خدا سے مدد طلب کرو“۔
نیز آپ کا ہی کا ارشاد ہے:
”اِصْبِرْ عَليٰ مَرارَةِ الْحَقِّ، وَاِیاكَ اَنْ تَنْخَدِعَ بِحَلاوَةِ الْباطِلِ
“
”صبر کے کڑوے پن پر صبر کرو اور باطل کی شیرینی سے فریب نہ کھاؤ“۔
ایک شخص نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے کسی مسئلہ کے بارے میں نظر خواھی کی تو امام علیہ السلام نے اس شخص کے نظریہ کے برخلاف اپنی رائے کا اظھار فرمایا، اور امام نے اس کے چھرے پر بے توجھی کے آثار دیکھے تو اس سے فرمایا:، حق پر صبر کرو، بے شک کسی نے صبر ن ہیں کیا مگر یہ کہ خداوندعالم نے اس کے بدلے اس سے بھتر چیز عنایت فرمادی۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
”اَلْجَنَّةُ مَحْفُوفَةٌ بِالْمَکارِهِ وَالصَّبْرِ، فَمَنْ صَبَرَ عَلَی الْمَکارِهِ فِی الدُّنْیا دَخَلَ الْجَنَّةَ وَ جَهَنَّمُ مَحْفوفَةٌ بِاللَّذّاتِ وَالشَّهَواتِ، فَمَنْ اَعْطيٰ نَفْسَهُ لَذَّتها وَشَهْوَتَها دَخَلَ النّارَ
“
”(جان لو کہ) جنت پر ناگواری اور صبر کا پھرہ ہے، جس شخص نے دنیا میں ناگواریوں پر صبر کیا و ہ جنت میں داخل ہوجائے گا، اور جہنم پر خوشیوں اور حیوانی خواہشات کا پھرہ ہے چنانچہ جو شخص بھی لذات اور شھوات کے پیچھے گیا تو وہ جہنم میں داخل ہوجائے گا“۔
نیز آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:
”اَلصَّبْرُ صَبْرانِ:صَبْرٌ عَلَی الْبَلاءِ حَسَنٌ جَمیلٌ، وَافْضَلُ الصَّبْرَینِ الْوَرَعَ عَنِ الْمَحارِمِ
“
”صبر کی دو قسمیں ہیں : بلاء و مصیبت پر صبر جو بھتر اور زیبا ہے، لیکن دونوں قسموں میں بھترین صبر اپنے کو گناھوں سے محفوظ رکھنا ہے“۔
یہ حقیقت ہے کہ تمام چیزوں میں صبر اس لئےضروری ہے کہ انسان کا دین، ایمان، عمل اور اخلاق صحیح و سالم رہے ، اور انسان کی عاقبت بخیر ہوجائے واقعاً انسان کے لئے کیا بھترین اور خوبصورت زینت ہے ۔
گناھوں سے توبہ کرنے والے انسان کو چاہئے کہ مشق و تمرین کے ذریعہ اپنے کو صبر سے مزین کرلے، گناھوں سے پاک رہنے کی کوشش کرے تاکہ ہوائے نفس، شیطانی وسوسہ اور گناھوں کی آلودگی سے ھمیشہ کے لئے آسودہ خاطر رہے کیونکہ صبر کے بغیر توبہ برقرار ن ہیں رہ سکتی، اور اس کے سلسلہ میں رحمت خدا کا تدوام ن ہیں ہوتا۔
مال حلال
خداوندمھربان نے اپنی تمام مخلوق کی روزی اپنے اوپر واجب قرار دی ہے خداوندعالم کسی بھی مخلوق کی روزی کو ن ہیں بھولتا۔
انسان کی روزی پہنچانے کے بھت سے مخصوص طریقے ہیں : منجملہ: میراث، ھبہ، خزانہ مل جانا اور ان سب میں اھم حلال کاروبار ہے۔
حلال کاروبار جیسے زراعت، صنعت، بھیڑ بکریاں چرانا، دستی ہنر، تجارت اور محنت و مزدوری کرنا۔
نا جائز طریقہ سے حاصل ہونے والا مال ؛حرام ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا روز قیامت میں درد ناک عذاب کا باعث ہے۔
چوری، غصب، رشوت، کم تولنا، غارت گری اور ظلم و ستم کے ذریعہ کسی کے مال کو ہڑپ لینا ممنوع ہے اور ان کاموں کا کرنے والا رحمت الٰھی سے محروم ہوجاتا ہے۔
قرآن مجید اوراحادیث معصومین علیہم السلام، حلال طریقہ سے مال حاصل کرنے کی تاکید کرتے ہیں ، یھاں تک کہ قرآن مجید حکم دیتا ہے کہ پھلے حلال مال کھاؤ اس کے بعد عبادت خدا بجالاؤ:
(
یاایها الرُّسُلُ كُلُوا مِنْ الطَّیبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا
)
۔
”اے میرے رسولو!تم پاکیز ہ غذائیں کھاو اور نیک کام کرو “۔
ام عبد اللہ نے افطار کے وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ایک پیالہ دودھ بھجوایا تو آنحضرت نے دودھ لانے والے سے فرمایا: اس دودھ کو لے جاؤ اور اس سے معلوم کرو کہ یہ دودھ کھاں سے آیاھے؟ وہ واپس گیا اور آکر عرض کیا: یہ دودھ گوسفند کا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر فرمایا: گوسفند کھاں سے آیا ہے: چنانچہ پیغام آیا: اس کو میں نے اپنے مال سے خریدا ہے، اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ دودھ نو ش فرمایا۔
دوسرے روز ام عبد اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتی ہیں : کل میں نے آپ کے لئے دودھ بھیجا لیکن آپ نے واپس کردیا اور سوال و جواب کے بعد نوش فرمایا، مسئلہ کیا تھا؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: مجھ سے پھلے تمام انبیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ صرف پاک اور حلال چیز یں کھائیں اور صرف عمل صالح انجام دو۔
قرآن مجید نے روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو حکم دیا کہ پاکیزہ اور حلال رزق کھاؤ اور روزی حاصل کرنے کے لئے شیطان کی پیروی نہ کرو، کیونکہ شیطان ان کو برائی، گناہ اور خدا پر تھمت لگانے کا حکم دیتا ہے۔
(
یاایها النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِی الْارْضِ حَلاَلًا طَیبًا وَلاَتَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِینٌ إِنَّمَا یامُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَانْ تَقُولُوا عَلَی اللهِ مَا لاَتَعْلَمُونَ
)
۔
” اے انسانو!زمین میں جو کچھ بھی حلال و طیب ہے اسے استعمال کرو اور شیطانی اقدامات کا ا تباع نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا ہوا دشمن ہے۔وہ بس تم ہیں بدعملی اور بدکاری کا حکم دیتا ہے اور اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ خدا کے خلاف جھالت کی باتیں کرتے رھو“۔
اھل ایمان کو چاہئے کہ مال حاصل کرنے کے لئے اندازہ سے کام لیں، حلال خدا پر قناعت کریں، دوسروں کے مال پر آنک ہیں نہ جمائیں، اور اپنے دل وجان سے اس اھم حقیقت پر توجہ رک ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اعلان فرمایا ہے:
”حُرْمَةُ مالِ الْمُسْلِمِ كَدَمِهِ
“
”مسلمان کا مال اس کے خون کی طرح محترم ہے“۔
یعنی جس طرح سے ایک مومن کی جان اور اس کی زندگی کی حفاظت کے لئے کوشش کرتے ہو اسی طرح اس کے مال کی حفاظت کے لئے بھی کوشش کرو، کیونکہ کسی مومن کے مال کو ناحق غارت کرنا اس کا ناحق خون بھانے کی طرح ہے۔
حلال روزی حاصل کرنا اورخداوندعالم کی عطا کردہ روزی پر قناعت کرنا، معنوی زیبائیوں میں سے ہے، بلکہ زیبائی اور نیکیوں سے آراستہ ہونے کے اصول میں سے ہے۔
ھر ایک توبہ کرنے والے پر یہ چیز فوراً واجب اور ضروری ہے کہ وہ اپنے مال کی اصلاح کرے، یعنی اگر کسی دوسرے کا حق اس پر ہے تو اپنی خوشی سے اسے الگ کرکے مالک تک پہنچا دے اور زندگی بھر یہ دھیان رکھے کہ صرف حلال لقمہ کھائے، اور حرام مال سے اجتناب کرے۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے:
”مَنْ اَكَلَ لُقْمَةً مِنْ حَرامٍ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلاةٌ اَرْبَعِینَ لَیلَةً
“
”جو شخص ایک لقمہ حرام کھائے تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول ن ہیں ہوتی“۔
نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کا فرمان ہے:
”اِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ الّجَنَّةَ جَسَداً غُذِی بِحَرامٍ
“
”خداوندعالم نے حرام غذا کھانے والوں کے بدن پر جنت کو حرام قرار دیا ہے “۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک عجیب حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں :
”تَرْكُ لُقْمَةٍ حَرامٍ اَحَبُّ اِلَی اللّٰهِ مِنْ صَلاةِ اَلْفَی رَكْعَةٍ تَطَوُّعاً
“
”ایک حرام لقمہ سے اجتناب کرنا خدا کے نزدیک مستحبی دو ہزار رکعت نماز سے زیادہ پسندیدہ ہے“۔
تقويٰ
اپنے کو گناھوں اور معصیتوں سے محفوظ رکھنا اور ھلاک کنندہ آفات و بلاؤں سے حفظ کرنا ایک ایسی حقیقت ہے جس کو قرآن کریم اور دینی تعلیمات نے ”تقويٰ“ کے عنوان سے یاد کیا ہے۔
تقويٰ اس حالت کا نام ہے جو گناھوں سے اجتناب اور عبادت خدا سے حاصل ہوتی ہے اور تقويٰ دینی اقدار و معنوی زیبائی میں ایک خاص عظمت رکھتا ہے۔
صرف متقی افراد ہی میں ہدایت الٰھی کے آثار ظاھر ہوتے ہیں اور جنت بھی صرف اور صرف اھل تقويٰ کے لئے آمادہ کی گئی ہے:
(
ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَرَیبَ فِیهِ هُدًی لِلْمُتَّقِینَ
)
۔
”یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش ن ہیں ہے۔یہ صاحبان تقويٰ اور پرھیز گار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ہے“۔
(
وَازْلِفَتْ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِینَ
)
۔
”اورجس دن جنت پر ہیزگاروں سے قریب تر کردی جائے گی“۔
(
وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
)
۔
”اور اللہ سے ڈرو شاید تم کامیاب ہو جاو“۔
(
وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا انَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِینَ
)
۔
”اور اللہ سے ڈرتے رھو اور یہ سمجھ لو کہ خدا پر ہیزگاروں ہی کے ساتھ ہے“۔
(
فَإِنَّ اللهَ یحِبُّ الْمُتَّقِینَ
)
۔
”بے شک خدا متقین کو دوست رکھتا ہے“۔
(
فَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
)
۔
”لہٰذا اللہ سے ڈرو شاید تم شکر گذار بن جاو“۔
(
وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ سَرِیعُ الْحِسَابِ
)
۔
”اور اللہ سے ڈرو کہ وہ بھت جلد حساب کرنے والا ہے“۔
(
لِلَّذِینَ احْسَنُوا مِنْهم وَاتَّقَوْا اجْرٌ عَظِیمٌ
)
۔
”ان کے نیک کام اور متقی افراد کے لئے نھایت درجہ اجر عظیم ہے“۔
(
إِنَّمَا یتَقَبَّلُ اللهُ مِنْ الْمُتَّقِین
)
۔
”خدا صرف صاحبان تقويٰ کے اعمال قبول کرتا ہے “۔
(
وَمَا عَلَی الَّذِینَ یتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهم مِنْ شَیءٍ
)
۔
”اور صاحبان تقويٰ پر ان کے حساب کی ذمہ داری ن ہیں ہے“۔
(
وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
)
۔
”اور اللہ سے ڈرتے رھو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے“۔
(
وَاللهُ وَلِی الْمُتَّقِینَ
)
۔
”تو اللہ صاحبان تقويٰ کا سرپرست ہے“۔
(
إِنَّ اكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتْقَاكُمْ
)
۔
”تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وھی ہے جو زیادہ پرھیزگار ہے“۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اھل تقويٰ کے کچھ نشانیاں بیان کی ہیں ، منجملہ:
صداقت، ادائے امانت، وفائے عہد، عجز و بخل میں کمی، صلہ رحم، کمزوروں پر رحم، عورتوں سے کم موافقت کرنا، خوبی کرنا، اخلاق حسنہ، بردباری میں وسعت، اس علم پر عمل جس کے ذریعہ خدا کے قریب ہوجائے، اور اس کے بعد فرمایا: خوش نصیب ہیں یہ افراد، کیونکہ ان کی آخرت سعادت بخش نیک اور اچھی ہوگی۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:
”لَوْاَنَّ السَّماواتِ وَالْاَرْضَ کانَتا رَتْقاً عَليٰ عَبْدٍ ثُمَّ اتَّقَی اللّٰهَ لَجَعَلَ اللّٰهُ لَهُ مِنْهُما فَرَجاً وَمَخْرَجاً
“
”اگر کسی بندہ پر زمین و آسمان کے دروازے بند ہوجائیں، لیکن اگر وہ بندہ تقويٰ الٰھی اختیار کرے تو خدا اس کے لئے زمین و آسمان کے دروازے کھول دیتاھے“۔
نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”خَصْلَةٌ مَنْ لَزِمَها اَطاعَتْهُ الدُّنْیا وَالْآخِرَةُ وَ رَبِحَ الْفَوْزَ بِالْجَنَّةِ، قیلَ:وَما هِی یا رَسولَ اللّٰهِ؟ قالَ:التَّقْويٰ، مَنْ اَرادَ اَنْ یکونَ اَعَزَّ النّاسِ فَلْیتَّقِ اللّٰهِ
“
”ایک خصلت جس شخص میں بھی پائی جائے دنیا و آخرت اس کی اطاعت کرنے لگیں، اوراس کو جنت میں مقام ملے، اصحاب نے کھا: یا رسول اللہ! وہ کونسی خصلت ہے؟ تو آپ نے فرمایا: تقويٰ، جو شخص لوگوں میں سب سے زیادہ قابل احترام ہونا چاھتا ہے، اسے خدا سے تقويٰ اختیار کرنا چاہئے“۔
نیکی
قرآن مجید کے فرمان کے مطابق خدا، روز قیامت، ملائکہ، قرآن اور انبیاء علیھم السلام پر ایمان رکھنا، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، سفر میں بے خرچ ہونے والوں اور سائلین کی مالی مدد کرنا، نیز غلاموں کو آزاد کرنا، نماز قائم کرنا، زکوٰة ادا کرنا، وفائے عہد، سختیوں، بیماریوں اور کارزار میں صبر کرنا، یہ سب نیکی اور تقويٰ کی نشانیاں ہیں ۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے:
”اِنَّ اَسْرَعَ الْخَیرِ ثَواباً الْبِرُّ، وَاَسْرَعَ الشَّرِّ عِقاباً الْبَغْی
“
”بیشک نیکی کا ثواب سب سے جلدی ملتا ہے اور سب سے جلدی عقاب خداوند عالم سے سر پیچی کا پھونچتاھے۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نیک افراد کی دس خصلتیں بیان کی ہے:
”یحِبُّ فِی اللّٰهِ وَ یبْغِضُ فِی اللّٰهِ، وَیصاحِبُ فِی اللّٰهِ، وَیفارِقُ فِی اللّٰهِ، وَ یغْضَبُ فِی اللّٰهِ، وَیرْضيٰ فِی اللّٰهِ، وَیعْمَلُ لِلّٰهِ، وَیطْلُبُ اِلَیهِ، وَ یخْشَعُ خَائِفاً مَخوفاً طاهراً مُخْلِصاً مُسْتَحْییاً مُراقِباً، وَیحْسِنُ فِی اللّٰهِ
“
”کسی سے محبت کرے تو خدا کے لئے، دشمنی کرے تو خدا کے لئے، دوستی کرے تو خدا کے لئے، کسی سے دوری کرے تو خدا کے لئے، غصہ کرے تو خدا کے لئے، کسی سے راضی ہو تو خدا کے لئے، اعمال انجام دے تو خدا کے لئے، خدا سے محبت کرے، اس کے سامنے خشوع کرے اورخوف، طھارت، اخلاص، حیاء اور مراقبت کی حالت میں رہے ، نیز خدا کے لئے نیکی کرے“۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تین چیزیں نیکی کے راستے ہیں :
”سَخاءُ النَّفْسِ، وَطیبُ الْكَلامِ، وَالصَّبْرُ عَلَی الْاَذيٰ“
”راہ خدا میں جان کی بازی لگادینا، نیک گفتار اور لوگوں کی طرف سے دی جانے والی اذیتوں کے مقابلہ میں صبر کرنا“۔
حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :
”اَرْبَعٌ مِنْ كُنوزِ الْبِّرِّ:كِتْمانُ الْحاجَةِ، وَكِتْمانُ الصَّدَقَةِ، وَكِتْمانُ الْوَجَعِ، وَكِتْمانُِ الْمُصِیبَةِ
“
” نیکیوں کا خزانہ چار چیزیں ہیں : اپنی حاجت کو مخفی رکھنا، چھپاکرصدقہ دینا، اور مشکلات و پریشانیوں کو مخفی رکھنا“۔
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :
”مَنْ حَسُنَ بِرُّهُ بِاِخْوانِهِ وَاَهْلِهِ مُدَّ فِی عُمْرِهِ
“
”جس نے اپنے (دینی) بھائیوں کے ساتھ نیکی کی خدا اس کی عمر طولانی کردیتا ہے“۔
غیرت
غیرت اور حمیت، اخلاق حسنہ میں سے ہیں ، غیرت کی وجہ سے انسان کی ناموس اور اھل خانہ نامحرموں اور خائنوں کے شر سے محفوظ رھتے ہیں ۔
غیرت، انبیاء اور اولیاء الٰھی کے برجستہ صفات میں سے ہے۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:
”کانَ اِبْراهیمُ اَبِی غَیوراً، وَاَنااَغْیرُ مِنْهُ، وَاَرْغَمَ اللّٰهُ اَنْفَ مَنْ لَا یغارُ مِنَ الْمُومِنینَ
“
”جناب ابراھیم کے باپ غیور اور صاحب حمیت تھے اور میں ان سے زیادہ غیرت رکھتا ہوں، جو مومن غیرت نہ رکھتا ہو تو خدا اس کو ذلیل کردیتاھے“۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام اھل کوفہ کو نصیحت کرتے ہوئے بلند آواز میں فرماتے تھے:
” اَما تَسْتَحْیونَ وَلَا تَغارونَ؟!نِساوكُمْ یخْرُجْنَ اِلَی الْاَسْواقِ یزاحِمْنَ الْعُلوجَ
“
”تمھاری حیا کھاں چلی گئی ؟!کیا تم ہیں غیرت ن ہیں آتی، تمھاری عورتیں بازاروں میں جاتی ہیں اور نامحرم اور بدمعاش لوگ ان کو پریشان کرتے ہیں “۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:
”اِنَّ الْجَنَّةَ لَیوجَدُ رِیحُها مِنْ مَسیرَةِ خَمْسِمائَةِ عَامٍ، وَلَا یجِدُها عاقٌّ وَلَادَیوثٌ، قِیلَ:یا رَسُولَ اللّٰهِ، مَا الدَّیوثِ؟قالَ:الَّذِی تَزْنِی امْرَاتُهُ وَهُوَ یعْلَمُ بِهَا
“
”بے شک جنت کی خوشبو پانچ سو سال کی دوری سے محسوس کی جاسکتی ہے، لیکن ماں باپ کا عاق کیا ہوا او ردیوث جنت کی بو ن ہیں سونگ سکتے، سوال ہوا کہ یا رسول اللہ! دیوث کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا: دیوث وہ شخص ہے جس کی بیوی زنا کرے اور وہ جانتا ہو لیکن بے توجھی سے کام لے“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”اِنَّ اللّٰهَ غَیورٌ، یحِبُّ كُلَّ غَیورٍ، وَمِنْ غَیرَتِهِ حَرَّمَ الْفَواحِشَ ظاهرها وَبَاطِنَها
“
”بے شک خداوندعالم غیور ہے اور غیرت رکھنے والے ھر شخص کو دوست رکھتا ہے، اس کی غیرت یہ ہے کہ اس نے تمام ظاھری و باطنی گناھوں کو حرام قرار دیا ہے“۔
عبرت
حوادث زمانہ سے عبرت حاصل کرنا، گزشتہ اور عصر حاضر کے لوگوں کے حالات سے پند حاصل کرنا عقلمندی کی نشانی ہے۔قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
(
لَقَدْ كَانَ فِی قَصَصِهم عِبْرَةٌ لِاوْلِی الْالْبَابِ
)
۔
”یقینا (قرآن میں بیان ہونے والے) ان واقعات میں صاحبان عقل کے لئے سامان عبرت ہے۔۔“۔
قرآن مجید، صاحبان عقل و فھم، اھل فکر و بصیرت اور آخر کار تمام ہی انسان کو حکم دیتا ہے کہ رشد و کمال حاصل کرنے اور پلیدی و برائی سے دوری کے لئے تمام چیزوں سے عبرت حاصل کرو:
(
فَاعْتَبِرُوا یااولِی الْابْصَارِ
)
۔
”اے صاحبا ن نظر! عبرت حاصل کرو“۔
حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے:
”اَفْضَلُ الْعَقْلِ الْاِعْتِبارُ، وَاَفْضَلُ الْحَزْمِ الْاِسْتِظْهارُ، وَ اَكْبَرُ الْحُمْقِ الْاِغْترِارُ
“
”سب سے افضل عقل عبرت حاصل کرنے والی عقلھے، بھترین دور اندیشی یہ ہے کہ انسان غور و فکر کے ساتھ کسی امر میں مداخلت کرے، اور سب سے بڑی حماقت دنیا سے دھوکہ کھانا ہے“۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام جاھلوں، گناھگاروں، ستمگروں اوربدمعاشی کرنے والوں کو چیلنج فرماتے ہیں کہ گزشتہ لوگوں کے واقعات سے عبرت حاصل کرو:
”اِنَّ لَكُمْ فِی الْقُرونِ السّالِفَةِ لَعِبْرَةً، اَینَ الْعَمالِقَةُ وَاَبْناءُ الْعِمالِقَةُ؟ اَینَ الْفَراعِنَةُ وَاَبْناءُ الْفِرَاعِنَة؟اَینَ اَصْحابُ مَدائِنِ الرَّسِّ الَّذِینَ قَتَلُوا النَّبِیینَ، وَاَطْفَاواسُنَنَ الْمُرْسَلینَ، وَاَحْیواسُنَنَ الْجَبّارینَ؟!
“
”تمھارے لئے گزشتہ قوموں میں عبرت کا سامان فراھم کیا گیا ہے، کھاں ہیں (شام و حجاز کے) عمالقہ او ران کی اولاد، کھاں ہیں (مصر کے) فراعنہ اور ان کی اولاد؟ کھاں ہیں (آذربائیجان کے) اصحاب الرس؟ جنھوں نے انبیاء کو قتل کیا، اور مرسلین کی سنتوں کو خاموش کیا اور جباروںکی سنتوںکو زندہ کیا ؟کھاں گئے اور کیا ہوئے؟!
خیر
قرآن مجید اوراحادیث کی روشنی میں دنیا و آخرت میں کام آنے والے مثبت اور مفید کاموں پر” خیر “کا اطلاق کیا گیا ہے۔
قرآن کی زبان میں خیر کے معنی ثواب آخرت، رحمت الٰھی، مال حلال، نماز جمعہ، آخرت، ایمان، نصیحت پر عمل کرنا، توبہ، تقويٰ اور ان ہیں کی طرح دوسری چیزیں ہیں ۔
یہ چیزیں انسان کے ظاھر و باطن کی اصلاح کے لئے بھترین راستے ہیں ۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:
”اَرْبَعٌ مَنْ اُعْطَیهُنَّ فَقَدْ اُعْطِی خَیرَ الدُّنْیا وَالْآخِرَةِ :بَدَناً صابِراً، وَلِساناً ذاكِراً وَقَلْباً شاكِراً، وَزَوْجَةً صالِحَةً
“
”جس شخص کو چار چیزیں مل جائیں اس کو دنیا و آخرت کا خیر مل جاتا ہے: جس کے بدن میں سختیوں اور بلاؤں پر صبر کرنے کی طاقت ہو، جو زبان ذکر خدا میں رطب اللسان رہے ، جو دل، شکرخدا کرتا رہے اور مناسب اور شائستہ بیوی“۔
حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:
”جُمِعَ الْخَیرُ كُلُّهُ فِی ثَلاثِ خِصالٍ:اَلنَّظَرِ وَالسُّکوتِ وَالْكَلامِ، فَكُلُّ نَظَرٍ لَیسَ فِیهِ اعْتِبارٌ فَهُوَ سَهْوٌ، وَكُلَّ سُکوتٍ لَیسَ فِیهِ فِكْرٌ فَهُوَ غَفْلَةٌ، وَكُلُّ كَلامٍ لَیسَ فِیهِ ذِكْرٌ فَهُوَ لَغْوٌ
“
”تمام نیکی اور خیر تین خصلتوں میں جمع ہیں : نگاہ، سکوت اور قول، جس نظر میں عبرت ن ہیں ہے وہ سھو ہے، جس سکوت اور خاموشی میں غور و فکر نہ ہو وہ غفلت ہے اور ھر وہ کلام جس میں ذکر (خدا) نہ ہو تو لغو و بے ہودہ ہے“۔
تحصیل علم
علم، عالم اور متعلم کے سلسلہ میں قرآن مجید اور احادیث میں بھت زیادہ تاکید کی ہے۔
علم: چراغ راہ، حرارت عقل، بینائی وبصیرت، ارزش و اقدار اور شرافت وکرامت ہے۔
دنیا اور آخرت میں اھل ایمان کے درجات بلند ہیں لیکن ان سے زیادہ بلند درجات مومن علماء کے ہیں ۔
(
یرْفَعْ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِینَ اوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ
)
۔
”اور جب تم سے کھا جائے کہ اٹھ جاو تو اٹھ جاو کہ خدا صاحبا ن ایمان اور جن کو علم دیا گیا ہے ان کے درجات کو بلند کرنا چاھتا ہے“۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:
”اُطْلُبُوا العِلْمَ وَلَوُ بِالصِّینِ، فَاِنَّ طَلَبَ الْعِلْمِ فَرِیضَةٌ عَليٰ كُلِّ مُسْلِمٍ
“
”علم حاصل کرو چاھے چین جانا پڑے، بے شک علم حاصل کرنا ھر مسلمان پر واجب ہے“۔
نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کا فرمان ہے:
”طالِبُ الْعِلْمِ بَینَ الْجُهّالِ كَالْحَی بَینَ الْاَمْواتِ
“
” طالب عالم جاھلوں کی نسبت مردوں کے درمیان زندہ کی طرح ہے“۔
حضرت رسول خدا :صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علم حاصل کرنے والوں کے لئے فرمایا:
”اِذا جاءَ الْمَوْتُ لِطالِبِ الْعِلْمِ وَهُوَ عَليٰ هٰذِهِ الْحالَةِ ماتَ وَهُوَ شَهِیدٌ
“
”جب تحصیل علم کے دوران کسی طالب علم کی موت آجائے تو وہ شھید ہوتاھے“۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایک عجیب و غریب حدیث نقل ہوئی ہے:
”مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ فَهُوَ كَالصَّائِمِ نَهارُهُ، الْقائِمِ لَیلُهُ، وَاِنَّ باباً مِنَ الْعِلْمِ یتَعَلَّمُهُ الرَّجُلُ خَیرٌ لَهُ مِنْ اَنْ یکونَ لَهُ اَبو قُبَیسٍ ذَهَباً فَاَنْفَقَهُ فِی سَبِیلِ اللّٰهِ
“
”علم حاصل کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو دن میں روزہ رکھے اور رات بھر عبادت کرے، بے شک انسان جب علم کا ایک باب حاصل کرلیتا ہے تو اس سے ک ہیں بھتر ہے کہ ابو قبیس نامی پھاڑ کے برابر اس کو سونا مل جائے اور وہ راہ خدا میں خرچ کردے“۔
نیز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”مَنْ کانَ فِی طَلَبِ الْعِلْمِ کانَتِ الْجَنَّةُ فِی طَلَبِهِ
“
” جو شخص علم کا طلب گار ہو تو جنت بھی اس کے طلبگار ہوتی ہے“۔
توبہ کرنے والے کو اپنی حالت سنورانے کے لئے اس سے بھتر اور کیا راستہ ہوگا کہ نیکیوں اور برائیوں کو پہچانے اور احکام الٰھی کی معرفت حاصل کرکے ان پر عمل کرے؟
درج ذیل آیہ شریفہ کے پیش نظر انسان دینی معرفت کے بغیرکیا اخلاقی حقائق پر عمل کرسکتاھے؟
(
ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَاصْلَحَ
)
۔
”اور اس کے بعد توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلے “۔
امید
امید ایک ایسی حقیقت اور حالت ہے کہ جس سے اھل ایمان خصوصاً گناھوں سے توبہ کرنے والوں کے دل میں خداوندعالم کی رحمت و مغفرت کی روشنی پیداھوتی ہے۔
جن لوگوں کا خدا اور آخرت پر یقین ہوتا ہے، اور اپنی استعداد کے مطابق واجبات پر عمل کرتے ہیں اور حرام چیزوں سے پرھیز کرتے ہیں اور اپنے اندر غرور، خود پسندی اور انانیت کو جگہ ن ہیں دیتے، توان کو امیدرکھنا چاہئے کہ خداوندعالم روز قیامت ان پر توجہ فرمائے گا، اور ان کی مدد کرے گا، اور ان کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے گا، ان لوگوں کو خدا کی طرف سے حاصل ہوئی توفیق کے ذریعہ اس عظیم سرمایہ کے باوجود مایوس اور ناامیدن ہیں ہونا چاہئے، اور یہ جاننا چاہئے کہ قرآن مجید نے ان کے ایمان و عمل صالح کی وجہ سے نجات کی سند دی ان کے نجات کی سند ان کے ایمان اور عمل کے ذریعہ قرآن مجید ہے۔
قرآن مجید نے بھت سی آیات میں عمل صالح اور اخلاق حسنہ رکھنے والے مومنےن کو بہشت اور فوز عظیم کی بشارت دی ہے اور خدا کا وعدہ کبھی خلاف ن ہیں ہوسکتا۔
(
إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَالَّذِینَ هاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِی سَبِیلِ اللهِ اوْلَئِكَ یرْجُونَ رَحْمَةَ اللهِ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ
)
۔
”بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور راہ خدا میں جھاد کیا وہ رحمت الٰھی کی امید رکھتے ہیں اور خدا بھت بخشنے والا ہے اور مھربان ہے“۔
(
وَبَشِّرْ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ انَّ لَهم جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِها الْانْهار
)
۔
”اے پیغمبر آپ ایمان رکھنے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کو بشارت دیدیں کہ ان کے لئے باغات ہیں جن کے نیچے نھریں جاری ہیں “۔
قرآن مجید میں اس طرح کی بھت سی آیات موجود ہیں ، لہٰذا ان تمام مستحکم و مضبوط سندوں کے باوجود کسی مومن کے لئے رحمت خدا سے مایوس ہوجاناسزاوار ن ہیں ہے، اور اسی طرح قطعی طور پر دی جانے والی بشارت میں شک کرنا بھی سزاوار ن ہیں ہے۔
جن لوگوں کی ایک مدت عمر گناھوں میں گزری ہے، جنھوں نے اپنے واجبات پر عمل ن ہیں کیا ہے ان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ان پر رحمت خدا کا دروازہ بند ن ہیں ہوا ہے، خداوندمھربان توبہ قبول کرتا ہے، اور اس حقیقت پر یقین ہونا چاہئے کہ خداوندعالم کی قدرت بے نھایت ہے اور بندوں کے گناہ اگرچہ تمام پھاڑوں، دریاؤں اور ریگزاروں کے برابر ہی کیوں نہ ہو ں ان تمام کو بخش دینا اس کے لئے کوئی مشکل کام ن ہیں ہے۔
(
لاَتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ یغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ
)
۔
”رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا، اللہ تمام گناھوں کا معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ہے“۔
توبہ کرنے والے کو توبہ کے وقت خدا کی رحمت و مغفرت کا امید وار رہنا چاہئے، کیونکہ رحمت و مغفرت سے مایوسی قرآن مجید کے فرمان کے مطابق کفر ہے۔
توبہ کرنے والے کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کی حالت بیمار کا طرح ہے اور اس کی بیماری کے علاج کرنے والا طبیب خدا ہے اور کوئی ایسا مرض ن ہیں ہے جس کی شفاء خدا کے یھاں نہ ہو۔
رحمت و مغفرت سے مایوسی کے معنی یہ ہیں کہ (نعوذ باللہ) خدا بیمار کا علاج کر نے کی طاقت ن ہیں رکھتا۔
بھر حال رحمت خدا کی امید کو ایمان و عمل اور توبہ کا ثمرہ حساب کرے کیونکہ ایمان و عمل اور بغیر توبہ کی امید رکھنا ایک شیطانی صفت ہے جس کو قرآن مجید کی زبان میں ”امنیہ“ کھا جاتا ہے۔
(
یعِدُهم وَیمَنِّیهم وَمَا یعِدُهم الشَّیطَانُ إِلاَّ غُرُورًا
)
۔
”شیطان ان سے وعدہ کرتا ہے اور ان ہیں امیدیں دلاتا ہے اور وہ جو بھی وعدہ کرتا ہے وہ دھوکہ کے سوا کچھ ن ہیں ہے“۔
ایک شخص نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: آپ مجھے نصیحت فرمائیے، تو آپ نے فرمایا:
”لَا تَكُنْ مِمَّنْ یرْجُوالْآخِرَةَ بِغَیرِ الْعَمَلِ وَیرَجِّی التَّوْبَةَ بِطولِ الْاَمَلِ، یقولُ فِی الدُّنْیا بِقَوْلِ الزّاهِدِینَ، وَیعْمَلَ فِیهَا بِعَمَلِ الرّاغِبِینَ
“
”ان لوگوں میں نہ ہوجانا جو عمل کے بغیر آخرت کی امید رکھتے ہیں اور طولانی امیدوں کی بنا پر توبہ کو ٹال دیتے ہیں ، دنیا میں زاہدوں جیسی باتیں کرتے ہیں اور راغبوں جیسا کام کرتے ہیں کچھ مل جاتا ہے تو سیر ن ہیں ہوتے اور ن ہیں ملتا ہے تو قناعت ن ہیں کرتے“۔
نیز آپ ہی کا ارشاد ہے:
”تمھاری امیدرکھنے والی چیزیں ان چیزوں سے زیادہ ہو جن کی امید ن ہیں رکھتے، جناب موسيٰ بن عمران آگ کی چنگاری کی امید میں اپنے اھل و عیال کے پاس سے گئے، تو ”کلیم اللہ “کے مرتبہ پر فائز ہوگئے اور منصب نبوت کے ساتھ واپس پلٹے، ملکہ سبا جناب سلیمان اور ان کے ملک کو دیکھنے کے لئے گئی لیکن جناب سلیمان کے ھاتھوں مسلمان ہوکر پلٹی، فرعون کے جادو گر
فرعون سے عزت ومقام حاصل کرنے کے لئے گئے لیکن حقیقی مسلمان ہوکر واپس پلٹے“
چھٹے امام علیہ السلام فرماتے ہیں :
”لَا یكُونُ الْمُومِنُ مُومِناً حَتّی یكُونَ خائِفاً راجِیاً، وَلَا یكُونُ خائِفاً راجِیاً حَتّی یكُونَ عامِلاً لِمٰا یخافُ وَ َرْجُو
“
”مومن اس وقت مومن بنتا ہے جبکہ خوف و رجاء (امید) کی حالت میں رہے ، اور خوف و رجاء پیدان ہیں ہوتا مگرجب تک خوف وامید کے لحاظ سے عمل انجام نہ دیا جائے“۔
عدالت
قرآن مجید اور احادیث میں بیان ہونے والے اھم مسائل میں سے عدالت بھی ہے، عدل، خداوندعالم کی صفت اور انبیاء و اولیاء الٰھی کے خصائص میں سے ہے۔
عادل انسان ؛ محبوب خدا، اھل نجات اور زندگی کے لئے پُر نور چراغ ہوتا ہے۔
عدل، اس حقیقت کا نام ہے کہ جس کو نظام کائنات کی وجہ کھا گیا ہے:
”بِالْعَدْلِ قامَتِ السَّماواتُ وَالْاَرْضُ
“
” عدل کے ہی ذریعہ زمین و آسمان قائم ہیں “۔
قرآن مجید نے عدالت کے سلسلہ میں بھت سی آیات میں گفتگوکی ہے، اور زندگی کے ھر موڑ پر تمام انسانوں کو عدالت سے کام لینے کا حکم دیا ہے:
(
إِنَّ اللهَ یامُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِیتَاءِ ذِی الْقُرْبَی
)
۔
”بیشک اللہ عدل، احسان اور قرابتداروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتاھے“۔
(
إِنَّ اللهَ یامُرُكُمْ انْ تُؤَدُّوا الْامَانَاتِ إِلَی اهلها وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَینَ النَّاسِ انْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ
)
۔
”بیشک اللہ تم ہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اھل تک پہنچا دو اور جب کوئی فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو“۔
(
یاایها الَّذِینَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِینَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلاَیجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی الاَّ تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ اقْرَبُ لِلتَّقْوَی
)
۔
”اے ایمان والو ! خدا کے لئے قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواھی دینے والے بنو، اور خبردار کسی قوم کی عداوت تم ہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف ترک کردو ۔انصاف کرو کہ یھی تقويٰ سے قریب ترہے “۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:
”عَدْلُ ساعَةٍ خَیرٌ مِنْ عِبادَةِ سَبْعینَ سَنَةً، قیامٌ لَیلُها وَ صِیامٌ نَهارُها، وَجَوْرُ ساعَةٍ فِی حُكْمٍ اَشَدُّ عِنْدَ اللّٰهِ مِنْ مَعاصِی سِتّینَ سَنَةً
“
”ایک گھنٹہ عدالت سے کام لینا اس ستر سال کی عبادت سے بھتر ہے جس میں رات بھر عبادت کی جائے اور دن کو روزہ رکھا جائے، اور ایک گھنٹہ ظلم کرنا خدا کے نزدیک ساٹھ سال کے گناھوں سے زیادہ بُراھے!“
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
”مَنْ طابَقَ سِرُّهُ عَلَانِیتَهُ، وَوافَقَ فِعْلُهُ مَقَالَتَهُ، فَهُوَ الَّذِی اَدَّی الْاَمانَةَ وَتَحَقَّقَتْ عَدالَتُهُ
“
”جس شخص کا ظاھر و باطن ایک ہو، اور اس کے قول و عمل میں مطابقت پائی جاتی ہو، ایسا ہی شخص امانت ادا کرنے والا ہے اور اس کی عدالت ثابت ہے“۔
نیز آپ ہی کا فرمان ہے:
”اَلْعَدْلُ اَساسُ بِهِ قَوامُ الْعالَمِ
“
”عدالت اس پایہ کا نام ہے جس پر دنیا قائم ہے“۔
ایک اور جگہ ھمارے مولا و آقا نے فرمایا:
”اَلْعَدْلُ رَاسُ الاِْیمانِ، وَجِماعُ الاِْحْسانِ، وَاَعليٰ مَراتِبِ الْاِیمانِ
“
”عدالت سرچشمہ ایمان، جامع احسان اور ایمان کے بلند درجات میں سے ہے“۔
قارئین کرام! گزشتہ صفحات کا خلاصہ یہ ہے: ایمان، نماز، انفاق، آخرت پر یقین، ماں باپ کے ساتھ نیکی، رشتہ داروں کے ساتھ احسان، یتیموں کے ساتھ نیک سلوک، مساکین کا خیال رکھنا، نیک گفتار اپنانا، اخلاص، صبر، مال حلال، تقويٰ، نیکی، غیرت، عبرت، خیر، تحصیل علم، امید اور عدالت کو اپنانا۔
یہ تمام چیزیں بھترین اعمال اور بھترین اخلاق ہیں جو معنوی زیبائیوں سے تعلق رکھتی ہیں ، اور گناھوں سے توبہ کے بعد انسانی اصلاح کے بھترین اسباب ہیں ۔ان کے علاوہ نیت، نیکی، حریت، حکمت، قرض الحسنہ، محبت و مودت، انصاف، ولایت، صلح کرانا، وفائے عہد، عفو و بخشش، توکل، تواضع، صدق، خیرخواھی، الفت و معاشرت، جھاد اکبر، امر بالمعروف و نھی عن المنکر، زہد، شکر، ذمہ داری، سخاوت اور ان جیسی دوسری چیزیں اصلاح کے اسباب اور معنوی زیبائیوں میں سے ہیں کہ اگر گزشتہ آیات و روایات کی توضیح کے ساتھ بیان کیا جائے تو چند جلدیں کتاب ہوسکتی ہیں ، لہٰذا ان چیزوں کی زیادہ تفصیل سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے عزیز قارئین کو مفصل کتابوں کے مطالعہ کی دعوت دیتے ہیں جیسے تفاسیر قرآن، اصول کافی، جامع السعادات، معراج السعادة، محجة البیضاء، عرفان اسلامی (۱۲جلدیں تالیف موئف کتاب ہذا) معانی الاخبار، خصال صدوق اورمواعظ العددیہ وغیرہ ۔
____________________