انسان اور حیوان
انسان خود ایک طرح کا حیوان ہے لہٰذا دوسرے جانداروں کے ساتھ اس کی متعدد چیزیں مشترک ہیں لیکن اس کی بعض چیزیں اپنے ہم جنسوں سے مختلف بھی ہیں جو اسے دیگر جانداروں سے ممتاز کرتی ہیں انہیں امتیازات نے انسان کو اعلیٰ و اشرف بنا دیا ہے جن میں کوئی جاندار اس کا رقیب نہیں۔
انسان کا دوسرے جانداروں کے ساتھ بنیادی فرق دو صورتوں میں واضح ہوتا ہے:( ۱) ادراکات ( ۲) رجحانات
یہی فرق انسانیت کا معیار اور انسانی تمدن و ثقافت کا سرچشمہ ہے۔
عام طور پر جاندار نعمت سے بہرہ مند ہیں کہ اپنے آپ اور باہر کی دنیا کو جان سکیں۔ جاندار اپنی اسی آگاہی اور شناخت کے تحت اپنی آرزوؤں اور خواہشات کے حصول کی تگ و دو کرتا ہے۔ انسان بھی دوسرے جانداروں کی خواہشات اور آرزوؤں کا حامل ہے لہٰذا یہ بھی اپنی معرفت کے مطابق ان تک پہنچنے کی جدوجہد کرتا ہے البتہ اس کا دوسرے جانداروں کے ساتھ فرق یہ ہے کہ اس کی آگاہی و معرفت کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اسی طرح اس کی خواہشات اور آرزوئیں بھی اعلیٰ وارفع ہیں یہی چیز انسان کو ممتا ز کرتی ہے عظمت عطا کرتی ہے اور دیگر تمام جانداروں سے جدا کرتی ہے۔
حیوان کی آگاہی و خواہشات کی سطح
اس دنیا کے بارے میں حیوان کی آگاہی فقط ظاہری حواس ہی کے ذریعہ ہوتی ہے بنا برایں :
۱ ۔ یہ آگاہی سطحی اور ظاہری ہے اشیاء کے اندر اور ان کے اندرونی روابط سے اس کا کوئی سروکار نہیں۔
۲ ۔ یہ آگاہی انفرادی اور جزوی ہوتی ہے۔ کلیت اور عمومیت سے تہی دامن ہے۔
۳ ۔ یہ خاص علاقہ تک محدود ہوتی ہے حیوان کی زندگی کے دائرے تک محدود رہتی ہے اس کے اپنے محدود محیط سے باہر نہیں جاتی۔
۴ ۔ یہ آگاہی حال سے متعلق ہے فقط زمان حال سے مربوط ہے ماضی و مستقبل سے منقطع ہے۔ حیوان اپنی تاریخ سے آگاہ ہے نہ تاریخ عالم سے آشنائی رکھتا ہے مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے نہ اس کے لئے کوئی ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔
حیوان شعور کے اعتبار سے ظواہر انفرادیت جزویت محیط زندگی کے ماحول اور زمان حال کی چاردیواری سے باہر نہیں نکلتا۔ حیوان ان چاروں زندانوں میں ہمیشہ کے لئے قید ہے۔ اگر کبھی اس قید و بند سے باہر نکلے تو شعور و آگاہی اور اختیار کے ساتھ باہر نہیں آتا بلکہ غیر شعوری طور پر جبلت و طبیعت کے تحت مجبوراً باہر نکلتا ہے۔
جس طرح کائنات کے بارے میں حیوانی شناخت محدود ہے اسی طرح حیوانی خواہشات بھی خاص حدود ہی کے اندرمقید ہیں۔
اولاً: یہ خواہشات مادی ہیں کھانے پینے کھیلنے سونے گھر بنانے اور جنسی لذت کے حصول تک محدود ہیں حیوان کے لئے اخلاقی و معنوی اقدار معنیٰ نہیں رکھتیں۔
ثانیاً: ذاتی اور انفرادی خواہشات ہیں جو اس کے اپنے ساتھ ہی مربوط ہیں یا زیادہ سے زیاد اس کے اپنے جوڑے اور اولاد کے اردگرد گھومتی ہیں۔
ثالثاً: ایک خاص علاقہ تک محدود ہیں اور اس کی زندگی کے دائرے میں ہیں۔
رابعاً: زمان حال ہی سے متعلق ہوتی ہیں۔
مختصر یہ کہ جو محدودیت حیوان و ادراک کے پہلو میں ہے وہی محدودیت اس کے میلانات و خواہشات میں بھی پائی جاتی ہے لہذا حیوان اس اعتبار سے بھی ایک خاص زندان میں مقید ہے۔
اگر حیوان کسی خاص ہدف کے حصول کی تگ و دو کر رہا ہو یا کسی خاص مقصد کی جانب بڑھ رہا ہو جو اس کے دائرے سے باہر ہے مثلاً اس کی حرکت انفرادی ہونے کی بجائے نوع سے تعلق رکھتی ہو یا حال کی بجائے مستقبل سے مربوط ہو جیسے بعض اجتماعی زندگی گزارنے والے حیوانا ت مثلاً شہد کی مکھی وغیرہ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ سب کچھ وہ غیر شعوری طور پر جبلی تقاضوں کے تحت انجام دے رہی ہوتی ہے یا دوسرے لفظوں میں اس قوت و طاقت کے حکم کے مطابق انجام دیتا ہے جو اس کی کائنات کی خالق و مدبر ہے۔
انسان کی آگاہی اور خواہشات کی سطح
آگاہی و ادراک کا میدان ہو یا خواہشات ومیلانات کا ہر دور تک انسان کی دسترس بہت وسیع اور اعلیٰ ہے۔ انسانی آگاہی و معرفت اشیاء کے ظواہر سے عبور کر کے ان کی ذات و ماہیت کے اندر دور تک سرایت کرتی ہے۔ اس کے باہمی روابط اور ان پر حاکم قوانین میں بھی اثرورسوخ پیدا کر لیتی ہے۔
انسانی آگاہی زمان و مکان کی قید سے مبرا یہ زمان و مکان دونوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتی ہے اس لئے یہ اپنے دائرہ حیات سے ماورا کی بھی آگاہی حاصل کر لیتا ہے۔ یہاں تک کہ دوسرے کرات کی بھی خبر لے آتا ہے۔ انسان اپنے ماضی و مستقبل کے بارے میں معلومات حاصل کر لیتا ہے۔ اپنی تاریخ کے ساتھ ساتھ زمین آسمان پہاڑ دریا جنگلات و نباتات معدنیات و حیوانات اور دنیا کی دوسری مخلوقات کے بارے میں بھی آگاہی حاصل کر لیتا ہے۔ اور آئے دن نئی نئی خبروں کا انکشاف کرتا رہتا ہے۔ مستقبل کے بارے میں بڑی دور کی سوچتا ہے۔ ان سب سے بڑھ کر انسان اپنی فکری قوت کے بل بوتے پر بعض لا محدود اور جاوداں اشیاء کی بھی شناخت حاصل کر لیتا ہے۔ انفرادی اور جزوی شناخت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بہت بلند ہو جاتا ہے۔ کلی قوانین آفاقی حقائق اور کائنات پر حاکم اسرار و رموز کشف کرتا ہے پھر آہستہ آہستہ فطرت پر اپنا تسلط جما لیتا ہے۔
انسان اپنی خواہشات کو بھی رفعتوں سے نوازسکتا ہے۔ انسان ایک ایسا وجود ہے جو اعلیٰ اقدار کے حصول کے لئے پاؤں مارتا ہے اعلی جذبات کا حامل اور کمال کا طالب ہے ایسے عقائد کی تلاش میں رہتا ہے جو مادے کاپابند نہ ہوں اور مفاد پرستی کی آلائشوں سے پاک ہوں ایسے جذبے بیوی بچوں اور ذاتیات ہی میں نہیں کھو جاتے بلکہ خاص عمومیت رکھتے ہیں اور تمام بشریت پر سایہ فگن ہوتے ہیں کسی خاص زمان یا کسی خاص مکان و علاقے تک محدود نہیں ہوتے۔
انسان اس قدر عقیدہ پر ست ہے کہ اسے اپنے عقائد کے سامنے دیگر تمام اشیاء کی قدروقیمت ہیچ نظر آتی ہے۔ انسانوں کی آسائش و خدمت اسے آسائش سے زیادہ اہم دکھاتی ہے دوسروں کے پاؤں میں چبھنے والا کانٹا اسے یوں لگتا ہے جیسے اس کے اپنے پاؤں میں بلکہ آنکھ میں چبھا ہو ہر ایک کو ہمدردی کی دولت بانٹتا پھرتاہے دوسروں کے دکھ میں دکھی اور شادی و سرود میں مسرور وشاداں ہوتا ہے۔ اپنے مقدس عقائد کو یوں دل میں اتار لیتا ہے کہ پھر وہ تمام ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال دیتا ہے یہاں تک کہ پھر ان کی راہ میں اپنی قیمتی ترین متاع حیات بآسانی قربان کر دیتا ہے۔ تمدن بشری کا یہی انسانی پہلو روح تمدن کہلاتا ہے اور یہ انہیں بشری جذبوں و خواہشات سے پیدا ہوتا ہے۔
انسانی امتیاز کا معیار
کائنات کے بارے میں انسان کی وسیع آگاہی اجتماعی بشری کاوشوں ہی کی بدولت ہے۔ اس آگاہی کی تکمیل میں صدیوں کی انتھک محنت کارفرما ہے خاص قواعد و ضوابط اور منطقی اصولوں کے خمیر سے حاصل ہونے والی اس آگاہی و شناختی کو "علم" سے موسوم کیا جا تاہے یہاں علم سے مراد ہے کائنات سے متعلق وہ تمام بشری افکار کا مجموعہ جو انسان کی اجتماعی کوششؤں کا ثمر ہے۔ اور ایک خاص منطقی نظم و ترتیب سے آراستہ ہے۔
انسان کے روحانی رجحانات اس کے ایمان و عقیدہ کی پیداوار ہوتے ہیں۔ دنیا میں موجود بعض حقائق سے انسان کا دلی لگاؤ بھی اس کے رجحانات کی پیدائش کا باعث ہوتا ہے یہ حقائق انفرادیت جزویت اور مادیت سے ماوراء ہوتے ہیں۔ عمومیت کے حامل ہوتے ہیں۔ نفع و سود کے درپے نہیں ہوتے ایسا ایمان اور قلبی لگاؤ اپنے مقام پر خود سے ایسے تصور کائنات کے لئے رحم کا کردار ادا کرتا ہے جو پیامبران خدا نے بشریت کو عطا کیا ہے یا پھر ایمان افروز فکر پیش کرنے والے فلسفی نے پیش کیا ہے۔ مختصر یہ کہ انسان کے یہی حیوانیت سے بلند و بالا روحانی میلانات جب اس کے افکار و اعتقادات کی بنیاد بنتے ہیں تو انہیں ایمان کہا جاتا ہے۔
پس نتیجہ یہ نکلا کہ انسان اور دوسرے جانداروں کے درمیان اہم اور بنیادی فرق علم و ایمان ہے۔ علم و ایمان ہی انسانیت کا معیار ہے اور اسی پر انسان کی انسانیت کا دارومدار ہے۔
انسان اور دوسرے جانداروں کے درمیان تفاوت پر مفکرین نے بہت کچھ کہا ہے بعض کے نزدیک انسان کا دیگر انواع کے ساتھ کوئی بنیادی فرق نہیں ہے آگاہی و شناخت کے مسئلہ کو "تفاوت کمیت" یا زیادہ سے زیادہ "تفاوت کیفیت" میں شمار کرتی ہیں اسے تفاوت ماہیت نہیں سمجھتے۔ مشرق و مغرب کے عظیم فلاسفہ کو انسانی مسئلہ شناخت کے حوالے سے جن عجائب اہمیتوں اور عظمتوں نے بہت متاثر کیا ہے وہ ان لوگوں کی نظروں میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ یہ لوگ انسان کو خواہشات کے میدان میں بھی ہر جہت سے حیوان ہی سمجھتے ہیں اور اس بارے میں معمولی ترین فرق کے بھی قائل نہیں ہوتے۔
(برطانیہ کے معروف فلسفی "ہابر" کی انسان کے بارے میں یہی رائے ہے)
بعض کے نزدیک بنیادی فرق جاندار ہونے میں ہے ان کا نظریہ ہے کہ جاندار ذی حیات ہونا فقط انسان ہی کا خاصہ ہے دوسرے حیوانات احساس رکھتے ہیں۔ نہ میلان و رغبت لذت و الم سے نا آشنا ہیں۔ یہ جانداروں کے مشابہ بے جان مشینیں ہیں۔ جاندار وجود صرف انسان ہے بنا برایں اس کی صحیح تعریف یہ ہو گی کہ انسان ایک جاندار وجود کا نام ہے۔( ڈکارٹ کا مشہور نظریہ )
بعض مفکرین صرف انسان کو دنیا کا جاندار نہیں سمجھتے اس کے اور دوسرے جانداروں کے درمیان بنیادی خصوصیات و تفاوت کے قائل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک گروہ نے انسان کی کسی ایک خصوصیت کو پیش نظر رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ مختلف و جوہات کی بناپر انسان کی مختلف تعریفیں ہوئی ہیں۔ مثلاً حیوان ناطق (عقل فکر سے کام لینے والا کمال کا طالب لامتناہی عقیدے کا تمنائی اقدار کا متلاشی مافوق الفطرت حیوان سیر نہ ہونے والا غیر معین ذمہ داری اٹھانے والا دور اندیش آزادو خود مختار گناہگار سماجی قانون کا پابند حسن کا شیدائی انصاف پسند دوغلا حامل فرائض عاشق باضمیر بے خبر ایجادوتخلیق کرنے والا تنہا مضطرب عقیدہ پرست آلات ساز مہم جو خیال تراش روحانی اور دروازہ روحانیت وغیرہ۔ یہ بات واضح ہے کہ ان میں ہر ایک برتری اپنے مقام پر ٹھیک ہے لیکن اگر ہم کوئی جامع اصطلاح یا عبارت پیش کرنا چاہیں جو ان تمام تعریفات کی جامع ہو تو پھر شاید "علم و ایمان" کی بنیاد پر ممتاز ہے۔
انسانیت بنیا دیا عمارت
ہم جان چکے ہیں کہ انسان ایک قسم کا حیوان ہے اس لئے دوسرے تمام جانداروں کے ساتھ اس کی بہت ساری چیزیں مشترک ہیں اور یہ بعض بنیادی فرق بھی رکھتا ہے جن وجہ سے انسان دوسرے جانداروں سے ممتاز ہوتا ہے۔ انسان حیوان سے اپنی مشترک و امتیازی و جوہات کی بناء پر دو طرح کی زندگی کا حامل ہے۔ حیوانی اور انسانی زندگی یا دوسرے معنوں میں مادی اور ثقافتی زندگی۔
اب یہاں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ انسان کی حیوانیت اور انسانیت میں کیا ربط ہے؟ بحث یہ ہے کہ انسان کی حیوانی زندگی اور انسانی زندگی کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ یا انسان کی مادی زندگی اور روحانی و تمدنی زندگی کا باہم کیا جوڑ بنتا ہے؟ کیا ان دونوں میں سے کوئی ایک جڑ کا کام دیتی ہے اور دوسری اس کی شاخ و برگ کی مانند ہے؟ ایک اساس کے طور پر ہے تو دوسری اس کا پر تو اور انعکاس ہے؟ ایک بنیاد ہے تو دوسری اس کے اوپر قائم ہونے والی عمارت ؟ آیا مادی زندگی بنیاد ہے اور ثقافی زندگی عمارت ہے؟
آج کل بحث مباحثوں میں سماجی پہلوزیادہ غالب رہتا ہے اور نفسیاتی پہلو نظر انداز کر دیا جاتا ہے سماجیات کو اہمیت دی جاتی ہے اور ماہرین نفسیات کی آراء پس پشت ڈال دی جاتی ہیں لہٰذا بحث کی صورت یوں بنتی ہے کہ آیا اجتماعی و معاشرتی شعبوں کی اقتصادیات ہی بنیاد بنتی ہے چونکہ پیداوار اور پیداواری روابط اسی پر منحصر ہیں اور باقی تمام سماجی پہلواس کا پر تو ہیں۔ خصوصاً وہ شعبے جو انسان کی انسانیت کے علم بردار ہیں۔ وہ بھی اقتصادی بنیادپر اٹھنے والی عمارت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیا سائنس فلسفہ ادب دین قانون اخلاق اور فن ہر دور میں اقتصادی و معاشی حقیقتوں ہی کے مظاہر رہے ہیں اور خود بنیاد کی حیثیت نہیں رکھتے۔
جی ہاں! آج کل جو بحث ہے وہ اس اندا زمیں ہے لیکن سماجیات کی اس بحث کا نتیجہ بہرحال علم نفسیات (سائیکالوجی) ہی پر منتہی ہوتا ہے۔ پھر یہ بحث انسان کی اصلیت و حقیقت کے بارے میں موجود فلسفی بحث میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ وہ یوں کہ انسان کی انسانیت کسی صورت بھی اصالت کی مالک نہیں فقط اس کی حیوانت اصالت سے بہرہ مندہے۔ حیوانیت کے مقابلے میں انسان کے اندر انسانیت نام کی کوئی اصالت موجود نہیں ہے۔ اس سے اسی نظریے کی تائید ہوتی ہے جو انسان اور حیوان کے درمیان کسی بنیادی فرق کا قائل نہیں۔
اس نظریہ کے مطابق خیر خواہی حقیقت جوئی جمال پرستی اور خدا پرستی جیسے انسانی رجحانات کی اصالت کا انکار ہوتا ہے مزید اس سے اس امر کی بھی نفی ہو جاتی ہے کہ انسان کائنات اور حقیقت سے متعلق حقیقت پسند ہو سکتا ہے کیوں کہ پھر کوئی نظریہ فقط نظریہ نہیں ہو سکتا غیر جانبدار رائے نہیں ہو سکتی بلکہ نظریہ کسی خاص مادی رجحان ہی کا نتیجہ ہو گا۔ تعجب ہے کہ اس نظریے کے حامل بعض مکاتب انسانیت کا دم بھی بھرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے ارتقاء کا سلسلہ حیوانیت سے شروع ہوتا ہے اور انسانیت کے کمال تک جا پہنچتا ہے۔ یہ اصول ایک ایک فرد پر بھی پورا اترتا ہے اور معاشے پر بھی صادق آتا ہے ۔
انسان اپنے وجود کی ابتداء میں ایک مادی جسم ہوتا ہے۔ جوہری تکامل کے ساتھ ساتھ روح یا جوہر روح میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ انسانی روح جسم کے دامن میں آنکھ کھولتی ہے پروان چڑھتی ہے اور آزادی کی دولت سے مالا مال ہو جاتی ہے۔
انسانیت کی حیوانیت بھی اس گھونسلے اور آشیانے کے مترادف ہے جس میں اس کی انسانیت پروان چڑھ کر کمال حاصل کرتی ہے۔ کمال کی خاصیت یہ ہے کہ وجود مکمل جس قدر بھی کمال حاصل کرتا جائے گا مستقل آزاد قائم بالذات اور اپنے محیط پر حاکم اور موثر ہوتا چلا جائے گا۔ لہذا انسان کی انسانیت فرد میں یا معاشرے میں جس قدر کمال حاصل کرے گی۔ استقلال اور تمام جوانب پر حاکمیت کی جانب گامزن رہے گی۔ کمال حاصل کرنے والا انسان ایک ایسا فرد ہے جو اندرونی و بیرونی ماحول کے تسلط و حاکمیت سے مبرا ہو اور عقیدہ و ایمان سے وابستہ ہو۔ معاشرے کی تکمیل بھی عیناً اسی طرح وقوع پذیر ہوتی ہے جیسے تکمیل روح جسم کے دامن میں اور فرد کی انسانیت کی تکمیل اس کی حیوانیت کے دامن میں انجام پاتی ہے انسانی معاشرہ زیادہ تر اقتصادی شعبوں کے خمیر سے ہی پروان چڑھتا ہے۔ معاشرے کے ثقافتی اور روحانی پہلومعاشرے کی روح کی طرح ہوتے ہیں جیسے جسم اورروح ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی طرح معاشرے کی روح اور بدن ایک دوسرے پر اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یعنی مادی شعبوں کے درمیان ایسے ہی روابط ہوتے ہیں۔جیسے فرد کے تکامل کا سفر روح کی زیادہ سے زیادہ آزادی استقلال اور حاکمیت کی جانب ہوتا ہے۔ معاشرے کی تکمیل بھی اس نہج پر ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیے زندگی پر آزادی و حاکمیت اور ثقافتی زندگی کا غلبہ ہوتا جاتا ہے۔
مستقبل کا انسان اقتصادی حیوان نہیں بلکہ ثقافتی حیوان ہے مستقبل کا انسان شکم پرور نہیں بلکہ عقیدہ و ایمان اور مسلک کا انسان ہے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلامی معاشرہ ایک جبر کے تحت قدم بہ قدم صراط مستقیم پر انسانی اقدار کی طرف رواں دواں ہے اور انسانی معاشرہ اس اعتبار سے ہر زمانے میں پہلے ایک قدم آگے ہوتا ہے۔
ممکن ہے انسانی معاشرتی و اجتماعی زندگی کی تمام تر مادی و سائنسی ترقی کے باوجود روحانی اعتبار سے گذشتہ ادوار کی نسبت پستی کا شکار ہو جیسا کہ آج ہمارے اس دور کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی حرکت میں مجموعی طور پر مادی و روحانی دونوں میدانوں میں پیش رفت کر رہا ہے۔ روحانی اعتبار سے انسان کی تکمیل حرکت بالکل سیدھی خط مستقیم پر نہیں ہوتی بلکہ گاہ بگاہ دائیں بائیں منحرف ہوتی رہتی ہے اور بعض اوقات ٹھہراؤ پھر باز گشت سے بھی دو چار ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود مجموعی طور پر ایک تکمیل حرکت ہے اس بناء پر ہم کہتے ہیں کہ مستقبل کا انسان ثقافتی حیوان ہے نہ کہ اقتصادی مستقبل کا انسان شکم پرور نہیں بلکہ ایمان و عقیدہ کا انسان ہے۔
اس نظریہ کے تحت انسان پہلے اپنی اصالت کی وجہ سے پیداواری آلات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ بلکہ ان سے بڑھ کر تکمیلی مراحل طے کرتا ہے۔ اپنی اسی تکمیل کی بناء پر قدرتی اور معاشرتی ماحول سے اس کی وابستگی اور تاثیر پذیری میں بھی آہستہ آہستہ کمی واقع ہوتی رہتی ہے دوسری طرف عقیدے ایمان مسلک اور نظریات کے ساتھ اس کی وابستگی ہوگی اور قدرتی و اجتماعی ماحول آزادی استقلال اور عقیدہ و ایمان کے ساتھ مکمل وابستگی ہو گی اور قدرتی و اجتماعی ماحول آزادی استقلال اور عقیدہ و ایمان کے ساتھ مکمل وابستگی حاصل کر لے گا۔ اگرچہ گذشتہ ادوار میں انسان نے اپنے وجود اور قدرتی نعمتوں سے کمتر فائدہ اٹھایا ہے اور زیادہ تر اپنی حیوانیت اور فطرت ہی کا اسیر رہا ہے۔ لیکن مستقبل کا انسان جہاں اپنے وجود اور فطرت سے پہلے بڑھ کر مستفید ہو گا وہاں ان کی قید سے نسبتاً زیادہ آزاد ہو گا اور ان دونوں پر اپنے غلبے میں اضافہ کرے گا۔ اس نظریہ کے مطابق انسان کی حقیقت اگرچہ حیوانی و مادی تکمیل ہی کے دامن میں ترقی کے زینے طے کرتی ہے لیکن کسی صورت میں مادی تکامل کے زیر سایہ یا تابع نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ خود سے علیحدہ آزاد مستقل اور کمال حاصل کرنے والی ایک حقیقت ہے۔ یہ مادی پہلوں سے اثر قبول کرتی ہے اور ان پر موثر بھی ہوتی ہے۔ انسان کا خالص تمدنی ارتقاء اور اصل انسانی حقیقت ہی دراصل انسان کی قسمت و تقدیر کا آخری فیصلہ کریں گے نہ کہ ترقی یافتہ پیداواری آلات انسان کی یہ اصل حقیقت اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ اور زندگی کے باقی شعبوں کے ہمراہ پیداواری آلات کو بھی کمال بخشتی ہے۔ پیداواری آلات خود بخود ترقی کے زینے طے نہیں کرتے۔ جیسے اوزار کے ترقی یافتہ ہونے سے پیداواری نظام ارتقاء پاتا ہے تو گویا اس نظا م میں تغیر و تبدل کی گنجائش موجود ہے۔ انسان کی انسانیت میں بھی اسی طرح تغیر و تبدل آتا رہتا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں تکامل ہوتا ہے اور انسانیت پیداواری نظام کو بھی کامل کر دیتی ہے۔