انسان اور ایمان

انسان اور ایمان0%

انسان اور ایمان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 10 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5720 / ڈاؤنلوڈ: 3555
سائز سائز سائز
انسان اور ایمان

انسان اور ایمان

مؤلف:
اردو

علم و ایمان کی جانشینی

ہم یہ جان چکے ہیں کہ علم و ایمان فقط متضاد نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کاباعث بنتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ دونوں ایک دوسرے کی جگہ لے سکتے ہیں۔

جب ہم یہ جان چکے ہیں کہ علم کا کیا کردار ہے اور ایمان کیا کردار ادا کرتا ہے تو ایسے سوال اور جواب کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہ بات واضح ہے کہ علم ایمان کا جانشین نہیں ہو سکتا۔ ممکن نہیں کہ علم توانائی اورروشنی کے ساتھ ساتھ عشق و امید بھی عطا کرے اورعلم ہماری خواہشات کی سطح بلند کرے اور علاوہ اس کے کہ اہداف و مقاصد کے حصول میں مدد دے۔ وہ خواہشات عقائد اور مقاصد ہم سے لے طبیعت جبلت کے تحت جن کا محور ایک شخص کی ذات اور خود غرضی ہوتی ہے اور ان کے بدلے ہمیں ایسے عقائد و اہداف عطا کرے جن کا محدود روحانی و معنوی عشق و محبت ہو علم کوئی ایسا آلہ نہیں جو ہماری ماہیت اور جوہر کو بدل سکے اسی طرح ایمان بھی علم کا جانشین نہیں ہو سکتا۔ ایمان ہمیں جہان طبیعت کی پہچان بھی نہیں کروا سکتا۔ اس پر حاکم قوانین پر اکتفا نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ ہمیں ہماری پہچان بھی نہیں کروا سکتا۔

تاریخی تجربات اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ علم و ایمان کی جدائی سے انسانی معاشرے نے ناقابل تلافی نقصانات اٹھائے ہیں۔ ایمان کی شناخت علم ہی کے سائے میں ہونی چاہئے۔ ایمان علم کی روشنی میں خرافات سے دور رہتا ہے۔

اگر علم ایمان سے دور ہو جائے تو پھر ایمان جمود اور اندھے تعصب کا شکار ہو جاتا ہے۔ اپنے ہی گرد بڑی تیزی سے گھومتا رہتا ہے اور پھر کسی منزل تک پہنچانے کے قابل نہیں رہتا۔ جہاں علم و معرفت نہ ہو وہاں نادان مومنوں کا ایمان چالاک و عیار منافقوں کے ہاتھوں کھلونا بن جاتا ہے۔ اس کی مثال صدر اسلام میں خوارج کی شکل میں دکھائی دیتی ہے اور بعد کے ادوار میں بھی مختلف صورتوں میں جابجا مل جاتی ہے۔ ایمان سے خالی علم کسی پاگل کے ہاتھ میں تلوار کی مانند ہے اور ایسا علم نصف شب چور کے ہاتھ میں چراغ کی مانند ہے تاکہ وہ آسانی سے اچھے سے اچھا مال لے جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے تہی از ایمان عالم اور کل ایمان سے خالی جاہل انسان کے رویے اور کردار میں طبیعت و ماہیت کے اعتبار سے ذرہ بھر فرق نہیں ہے۔ کل کے فرعون چنگیز اور آتیلا اور آج کے چرچل جانسن نکسن اور سٹالن جیسے لوگوں میں کیا فرق ہے؟

یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا علم نور اور طاقت نہیں ہے؟ علم کا نور اور طاقت ہونا فقط بیرونی دنیا سے متعلق نہیں ہے بلکہ علم ہمارے اندر کی دنیا بھی ہمیں دکھاتا ہے اور اسے ہم پر واضح کرتا ہے بنا برایں ہمیں اپنے اندر کی دنیا تبدیل کرنے کی طاقت بھی عطا کرتا ہے لہذا علم دنیا کی بھی تعمیر کر سکتا ہے اور ایمان کا کام (انسان سازی) بھی کرتا ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ سب باتیں درست ہیں لیکن یہاں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ علم کی قدرت و توانائی ایک اوزار کی سی طاقت و توانائی ہے یعنی اس کا انحصار انسان کے ارادے اورحکم پر ہے۔ انسان کسی بھی میدان میں کوئی کام کرنا چاہے تو علم کے آلہ کی مدد سے بہتر انجام دے سکتا ہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ مقاصد کے حصول میں علم انسان کا بہترین مددگار ہے۔

البتہ بحث یہ نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ انسان آلات کے استعمال سے پہلے مقصد پیش نظر رکھتا ہے کیوں کہ آلات ہمیشہ مقصد کے حصول کے لئے خدمت پر مامور ہوتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ یہ مقاصد کہاں سے پیدا ہوئے ہیں؟

چونکہ انسان طبیعی لحاظ سے حیوان ہے اور اکتسابی اعتبار سے انسان یعنی انسانی صلاحیتوں کو ایمان ہی کے سائے میں تدریجاً پروان چڑھنا چاہئے۔ انسان اپنی طبیعت کے زیر اثر مادی ذاتی حیوانی اور طبیعی مقاصد کی طرف خود بخود آگے بڑھتا ہے۔ آلات کو اسی راہ میں استعمال کرتا ہے۔ لہذا ایک ایسی قوت کی ضرورت ہے جو انسان کا مقصد و آلہ نہ ہو بلکہ انسان کو ایک آلہ کی طرح اپنی طرف حرکت دے۔ ایسی قوت چاہئے جو انسان کے اندر ایک دھماکہ کرے اور اس کی پوشیدہ صلاحتیوں کو بروئے کار لائے۔ ایک ایسی طاقت کی ضرورت ہے جو ضمیر میں انقلاب برپا کردے اور نئے نئے افق عطا کرے۔ یہ ایسے کام ہیں جو علم اور سائنس کے بس میں ہیں اور نہ ہی انسان و طبیعت پر حاکم قوانین کے کشف کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ البتہ انسانی روح میں بعض قدروں کے مقدس و گراں بہا ہونے سے یہ بات بن سکتی ہے اور ان قدروں کا تقدس انسان کے اعلیٰ میلانات و رجحانات سے پیدا ہوتا ہے اور خود یہ رجحانات بھی انسان و کائنات کے بارے میں ایک خاص طرز تفکر کی پیدائش ہوتے ہیں ان میلانات کو کسی لیبارٹری یا قیاس و استدلال سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس خاص طرز فکر کے بارے میں آئندہ ہم وضاحت کریں گے یہ علم کی دسترس میں نہیں ہے۔قدیم اور جدید تاریخ بتاتی ہے کہ علم و ایمان کی جدائی نے کیا گل کھلائے ہیں۔ جہاں ایمان تھا اور علم نہ تھا وہاں انسان دوستانہ کوششیں ایسے امور پر صرف ہوئیں جن کا نتیجہ کچھ زیادہ ہے اور گاہے اچھا نہ نکلا یہ کوشش تعصب جمود اور کبھی نقصان دہ لڑائیوں کا باعث بنیں۔ انسانی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اس طرح جہاں فقط علم اور ایمان نہ تھا جیسا کہ آج کل کے بعض معاشروں میں نظر آتا ہے ایسے میں تمام علمی طاقت صرف خود غرضی خود پرستی دھوکہ دہی دھونس عیاری و استحصال جیسے امو ر پر خرچ ہوئی۔

گذشتہ دو تین صدیوں کو سائنس پرستی اور ایمان سے فرار کا دور کہا جا سکتا ہے۔ اس میں بہت سے دانشوروں کی یہ رائے بنی کہ انسان کی تمام تر مشکلات کا حل سائنس میں پوشیدہ ہے۔ لیکن تجربہ نے اس کے خلاف ثابت کیا اور آج دنیا میں کوئی دانشور ایسا نہیں جو انسان کے لئے ایمان کی کسی نہ کسی صورت کی ضرورت کا قائل نہ ہو اگرچہ یہ ایمان غیر مذہبی ہی کیوں نہ ہو۔ بہر حال ماورائے سائنس کسی اور چیز کی ضرورت پر اب سب متفق ہیں۔

برٹرینڈرسل مادی رجحانات کے باوجود معترف ہے کہ

"ایسا کام جس میں صرف آمدن پیش نظر ہو اس کا نتیجہ زیادہ ثمر آور نہیں ہوتا۔ ایسے نتیجہ کے لئے کام اختیار کرنا چاہئے جس میں کسی ہدف مقصد اور فرد پر ایمان بھی مضمر ہو۔"( زنا شوئی وا خلاق )

آج مادہ پرست بھی اپنے بارے میں یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ فلسفی اعتبار سے ہم مادہ پرست ہیں اور اخلاقی حوالے سے آئیڈیلسٹ (مثالی بے معنی) ہیں۔ یعنی فکری و نظری پہلو سے مادی ہیں اور عملی پہلو سے معنوی ہیں۔( جارج پویسٹر اصول معلوماتی فلسفہ)

اب یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان نظری و فکری اعتبار سے مادی ہو اور عملاً معنوی (مثالی و آئیڈیلسٹ)۔ یہ ایک ایسا پیچیدہ اور مشکل مسئلہ ہے جسے مادہ پرست ہی حل کر سکتے ہیں۔

جارج سارئن دنیا کا مشہور و معروف دانشور اور مقبول ترین کتاب "تاریخ سائنس" کا مصنف ہے۔ انسان کو انسان بنانے اور انسانیت کی بنیادوں پر بشری تعلقات استوار کرنے میں علم کی نارسائی اور انسان کے لئے ایمان کی اشد و فوری ضرورت کو یوں بیان کرتا ہے:

"علم نے بعض میدانوں میں عجیب و غریب اورعظیم ترقی کی ہے لیکن قومی و بین الاقوامی سیاست اور انسانی روابط جیسے میدان ابھی تک اسے منہ چڑا رہے ہیں۔"

جارج سارئن انسان کے لئے مذہبی و دینی ایمان کی ضرورت کا اعتراف کرتا ہے انسان کے لئے " آرٹ مذہب اور سائنس" کی مثلث کے ضروری ہونے پر گویا ہے کہ

"آرٹ حسن کو آشکار کرتا ہے اور یہی زندگی کی خوشی کا سبب بنتا ہے۔ دین محبت کا پیغمبر اور زندگی کی موسیقی ہے۔ سائنسی کا سروکار حق سچ اور عقل کے ساتھ ہے جو نوع بشر کی ہوشمندی کا باعث ہے ہمیں ان تینوں کی ضرورت ہے۔ آرٹ بھی ضروری ہے دین بھی چاہئے اور سائنس کی ضرورت لازمی ہے زندگی کے لئے مطلق صورت میں سائنس کی ضرورت لازمی ہے لیکن تنہا سائنس کسی صورت بھی کافی نہیں ۔"( شش بال ص ۳۰۵)

مذہبی ایمان

گذشتہ بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان عقیدہ و ایمان کے بغیر نہ صحیح زندگی گزار سکتا ہے اور نہ ہی بشریت اور تمدن بشری کے لئے کوئی مفید و ثمر بخش کام سر انجام دے سکتا ہے۔ عقیدہ و ایمان سے خالی انسان کی خودغرضی میں یہ عنصر نمایاں ہوتا ہے کہ ذاتی مفادات کے چکر سے کبھی نہیں نکلتا یا پھر تردد میں پڑا ہوا سر گرداں وجود ہوتا ہے جو اپنی زندگی میں اخلاقی و سماجی مسائل کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کو نہیں پہچانتا۔ چونکہ اخلاقی و اجتماعی مسائل سے مسلسل انسان کا واسطہ رہتا ہے اور ان مسائل میں انسان کسی مکتب عقیدے اور ایمان سے مربوط ہو تو اس کے لئے اپنی ذمہ داری واضح اور روشن رہے گی۔ اگر مکتب و دین اس کی ذمہ داری واضح نہ کریں تو یہ شخص ہمیشہ متردد رہے گا۔ کبھی ادھر کھنچ جائے گا تو کبھی ادھر بہہ نکلے گا یا دوسرے الفاظ میں تھالی کا بینگن بن جائے گا۔

در حقیقت کسی عقیدے یا مسلک و مکتب سے وابستگی کی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں البتہ جس بات کی طرف توجہ دینا ضروری ہے وہ یہ کہ صرف مذہبی ایمان یہ قدرت رکھتا ہے کہ انسان کو ایک حقیقی مومن بنا سکے۔ اس سے خود غرضی اور خود پرستی بھی ایمان کے کنٹرول میں آجاتی ہے اور انسان میں تغیر اطاعت اور تسلیم جیسی ایک حالت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس طرح سے کہ چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ بھی جو مکتب پیش کرتا ہے کے بارے میں انسان شک و تردد میں مبتلا نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں مکتب اس قدر عزیز محبوب اور گراں بہا چیز کی صورت اختیار کر لیتا ہے کہ اس کے بغیر زندگی بے حقیقت اور بے معنی دکھائی دیتی ہے۔ لہذا اس کے دفاع میں انسان اپنی پوری غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔

مذہبی ایمانی رجحانات اس چیز کا باعث بنتے ہیں کہ انسان اپنے فردی طبیعی میلانات کے خلاف کام سرانجام دے یہاں تک کہ اپنی تمام تر حیثیت اور ہستی بھی ایمان کی راہ میں لٹا دے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب انسان کے نظریات تقدس کا پہلو لئے ہوئے ہوں اور انسانی وجود پر حاکمیت مطلق حاصل کر لیں۔ فقط مذہبی قوت یہ قدرت رکھتی ہے کہ نظریات کو تقدس عطا کر سکے اور پوری طاقت سے انسان پر ان کا حکم لاگو کر سکے۔

بعض اوقات لوگ عقیدے و مذہب کے بغیر دباؤ عداوت اور انتقامی جذبات کے تحت ظلم و ستم اور دھونس کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اس راہ میں فداکاری کرتے ہیں۔ اپنی جان مال عزت و آبرو سب کچھ قربان کر دیتے ہیں اس کی مثالیں ہم دنیا کے گوشہ و کنار میں دیکھتے ہیں۔ لیکن ایک مذہبی و غیر مذہبی نظریہ کا فرق یہ ہے کہ جہاں کہیں مذہبی نظریہ کا مسئلہ ہو اور اسے تقدس حاصل ہو جائے تو قربانی مکمل رضا مندی اور طبیعی طور پر دی جاتی ہے۔ لہذا رضاو رغبت اور ایمان کے تحت انجام پانے والا کام ایک طرح کا انتخاب ہوتا ہے۔ جبکہ عالمی اور خارجی دباؤ کے تحت ہونے والا کام ایک طرح کا دھماکہ ہوتا ہے۔

ثانیاً اگر انسان کا تصور کائنات فقط مادی ہو اور حقیقت کو محسوسات میں منحصر قرار دیتا ہو تو پھر ہر قسم کی عقیدہ پرستی اورا جتماعی و انسانی نظریات ان حسی واقعات کے برخلاف ہوں گے۔ جنہیں انسان کائنات کے ساتھ اپنے رابطے کے دوران محسوس کرتا ہے۔

حسی تصور کائنات کا نتیجہ عقیدہ پرستی نہیں بلکہ خود پرستی ہوتی ہے۔ اگر عقیدہ پرستی کی بنیاد ایسا تصور کائنات نہ ہو کہ جس کا منطقی خود وہی عقیدہ نہ ہوتو پھر تصور کائنات صرف خیال پرستی تک محدود رہے گا۔ یعنی اس طریقے سے انسان اپنے اندر اپنے وہم و خیال سے ایک ایسی دنیا بنا لیتا ہے جو موجودہ حقائق سے ماورا ہوتی ہے اور پھر اس میں خوش رہتا ہے۔ لیکن اگر عقیدہ پرستی دین و مذہب سے پھوٹے تو ایک ایسے تصور کائنات پر مبنی ہو گی جس کا منطقی نتیجہ معاشرتی نظریات اورعقائد کی پیروی کی صورت میں ہوگا۔ مذہبی ایمان انسان اور کائنات کے درمیان ایک دوستانہ تعلق سے عبارت ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ مذہب ایمان اور کائنات کے کلی اہداف کے درمیان ہم آہنگی کا کردار ادا کرتا ہے۔ جبکہ غیر مذہبی نظریات اور ایمان ایک طرح سے کائنات سے تعلق منقطع کر دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی خیالی دنیا کے وجود کا سبب بنتا ہے جسے خارج میں موجود کائنات قبول نہیں کرتی ۔ مذہبی ایمان انسان کی چند ایسی ذمہ داریوں کا تعین ہی بدل دیتا ہے۔ یہ دنیا کی ساخت ہی حسی عناصر کے علاوہ مزید دوسرے عناصر بھی پیش کرتا ہے۔

خشک سرد مادی اور میکانیاتی دنیا کو زندہ باشعور اور آگاہ دنیا میں بدل دیتا ہے۔ مذہبی ایمان دنیا اور کائنات کے بارے میں انسان کی فکر و نظر بدل دیتا ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل کے امریکی ماہر نفسیات اور فسلفی ولیم جیمز کہتے ہیں:

"مذہبی فکر جو دنیا ہمارے سامنے پیش کرتی ہے صرف وہی مادی دنیا نہیں جس کی شکل بدل گئی ہو بلکہ اس عالم کی عمارت میں اس سے زیادہ چیزیں موجود ہیں کہ ایک مادی انسان جن کا حامل ہو سکتا ہے۔"

(دین و روان)

ان سب کے علاوہ ہر انسان کی جبلت میں قابل پرستش و مقدس حقائق و واقعات کی طرف میلان موجود ہے۔ انسان میں متعدد میلانات اور بعض غیر مادی صلاحتیں مخفی ہوتی ہیں۔ جنہیں پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ انسانی میلانات مادی میلانات تک محدود نہیں ہیں۔ اسی طرح معنوی اورروحانی میلانات بھی فقط تلقینی و اکتسابی نہیں ہوتے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے سائنس بھی قبول کرتی ہے۔

ولیم جیمز کہتے ہیں:

"یہ دنیا ہمارے جتنے بھی میلانات کا محرک ہو ہماری بیشتر آرزوؤں اور خواہشوں کا سرچشمہ عالم ماورائے طبیعت ہے کیوں کہ ان میں سے بیشتر کی مادی توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔"(دین و دروان)

چونکہ یہ میلانات وجود رکھتے ہیں لہذا ان کی نشوونما ضروری ہے۔ اگر ان کی صحیح نشوونما نہ ہو اور ان سے ٹھیک طرح فائدہ نہ اٹھایا جائے تو پھر یہ منحرف راستے پر چل نکلتے ہیں۔ اور ناقابل تصور نقصانات کا باعث بنتے ہیں۔ بت پرستی شخصیت پرستی طبیعت پرستی اور ہزاروں دوسری پرستشیں اسی انحراف سے پیدا ہوتی ہیں۔

"اریک فروم" کہتے ہیں:

"کوئی شخص دین سے بے نیاز نہیں ہر کوئی آگے بڑھنے کے لئے کسی سمت کا نیاز مند ہے۔اور ہر کسی کو اپنی وابستگی کے لے کوئی نہ کوئی عنوان درکار ہے۔ ممکن ہے کوئی شخص خود اپنے غیر دینی عقائد سے ممتاز اپنے ایسے اعتقادات سے آگاہ نہ ہو جو دین کے زمرے میں آتے ہیں اور اس کے بر عکس بھی ہو سکتا ہے اور ہو سکتا ہے وہ یہ سمجھے کہ اسے اقتدار پیسے اور کامیابی جیسے ظاہراً غیر دینی مقاصد سے رغبت ہے اور یہ سمجھے کہ اسے اپنے عمل اور مصلحت آمیز امور سے دلچسپی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ انسان دین سے تعلق رکھتا ہے نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کس دین سے تعلق رکھتا ہے۔" (روانکاری و دین)

اس ماہر نفسیات کا مقصد یہ ہے کہ انسان کسی کو مقدس قرار دئیے اور عبادت کئے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا۔ فرض کریں اگر وہ خدائے وحدہ لاشریک کو نہ پہچانے اور اس کی پرستش نہ کرے تو پھر کسی اور چیز کو برتر حقیقت کے عنوان سے اپنے ایمان و پرستش کا موضوع بنا لے گا۔

پس چونکہ انسان کیلئے کسی عقیدہ و ایمان اور نظریے کا حامل ہونا ضروری ہے اور دوسری طرف فقط مذہبی ایمان ہی ایسا ایمان ہے جو حقیقی طور پر انسان کو اپنے زیر اثر کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ مزید براں انسان اپنی سرشت کے تحت کسی ایسی چیز کی تلاش میں رہتا ہے جسے وہ مقدس قراردے کر اس کی پرستش کرے۔ پس واحد راستہ یہ ہے کہ ہم مذہبی ایمان کی تقویت کریں۔

قرآن کریم ہی سب سے پہلی کتاب ہے جس نے بڑی صراحت سے مذہبی ایمان کو عالم خلقت کے ساتھ ہم آہنگ بتایا ہے:

"افغیر دین الله یبغون وله اسلم من فی السموات والارض"

( سورہ آل عمران آیت ۸۳)

"کیا وہ دین خدا کے علاوہ کسی اور چیز کی جستجو کرتے ہیں جبکہ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے اس کے حضور سر تسلیم خم ہے۔"

نیز یہ کہ قرآن مذہبی ایام کو انسانی فطرت کا حصہ قرار دیتا ہے۔

فاقم و جهک للدین حنیفا فطرة الله التی فطر الناس علیها

(سورہ روم آیت ۳۰)

"حق طلب ہو کر اپنا رخ دین کی طرف کر لے وہی دین جو اللہ کی فطرت ہے کہ جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔"

ایمان کے آثار و فوائد

اگرچہ ہماری اب تک کی ہونے والی بات سے مذہبی ایمان کے آثار کسی حد تک واضح ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی ہم نے اس معنوی دنیا اور زندگی کے اس قیمتی ترین سرمایہ کے بابرکت آثار سے آشنائی کے لئے ایک الگ موضوع بحث قرار دیا ہے۔

ایک روسی مفکر "ٹالسٹائے" کہتے ہیں:

"ایمان وہ چیز ہے جس کے ساتھ لوگ زندگی بسر کرتے ہیں۔"

حکیم ناصر خسرو علوی بیٹے سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:

زدنیا روی زدین کروم ایراک

مرا بی دین جھان چہ بود و زندان

مرا پور از دین ملکی است در دل

کہ آن ہرگز نخواہد گشت ویران

" میں نے دنیا سے دین کی طرف رخ اس لئے کیا ہے کہ بغیر دین کے دنیا میرے لئے ایک زندان کے سوا کیا ہے اے بیٹے میرے دل پر دین کی حکومت ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔"

مذہبی ایمان بہت سارے بابرکت اور نیک آثار کا حامل ہے۔

یہ سرودوشادمانی اجتماعی روابط کی اصلاح اوران پر یشانیوں کے خاتمہ کا باعث بنتی ہے جو اس کائنات کی بودو باش کا لازمہ ہیں۔ مذہبی ایمان کے آثار تین عناوین کے تحت درج ذیل ہیں:

(الف) سرور و انبساط

سرور خوشی اور مسرت پیدا کرنے کے حوالے سے مذہبی ایمان کا سب سے پہلا اثر یہ ہے کہ ایمان کائنات خلقت اور ہستی کے بارے میں انسان کو خوش بین بنا دیتا ہے۔ مذہبی ایمان کائنات کے بارے میں انسان کو ایک خاص نقطہ نظر عطا کرتا ہے۔

اس طرح سے خلقت کو بامقصد قرار دیتا ہے اور یہ مقصد اس کے نزدیک خیر سعادت اور کمال کی طرف بڑھتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نظام ہستی کو بحیثیت مجموعی اور اس پر حاکم قوانین کے بارے میں انسان کو خوش بین بنا دیتا ہے اس نظام ہستی میں موجود ایک باایمان شخص کی حالت ایک ایسے فرد کی سی ہوتی ہے جو ایک ایسے ملک میں رہتا ہے جس کے قوانین اداروں اور نظام کو وہ صحیح اور عادلانہ سمجھتا ہے۔ ملکی حکام کے حسن نیت پر بھی ایمان رکھتا ہے اپنی اور دوسروں کی ترقی و پیش رفت کے لئے راہیں ہموار سمجھتا ہے اور اسے یقین ہے کہ اس کی اور اس جیسے مکلف اور ذمہ دار افراد کی پسماندگی کا باعث اگر کوئی چیز ہو سکتی ہے تو وہ ان کی اپنی سستی اور ناتجربہ کاری ہی ہے۔

ایسے شخص کی نظر میں پسماندگی کا باعث وہ خود ہے اس میں ملک کے نظام اور اداروں کا کوئی قصور نہیں۔ جو بھی کمی ہو گی اس کا سبب وہ خود ہوگا اور اس جیسے دوسرے وہ تمام لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں۔ یہ غور و فکر اسے غیرت دلاتا ہے اور اسے خوش بینی اور اچھی امیدوں کے ساتھ حرکت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

لیکن ایک تہی ایمان آدمی کی نظام ہستی میں مثال یوں ہے جیسے کوئی فرد کسی ایک ایسے ملک میں رہتا ہو جس کے نظام یا قانون قاعدے ضابطے اور اداروں وغیرہ سب کو وہ غلط اور ظالم سمجھتا ہے۔ لیکن ان سب کو قبول کرنے پربھی مجبور ہے۔ ایسے فرد کے باطن ہمیشہ ناپسندیدگی کی ایک گرہ کی سی کیفیت بھی رہتی ہے۔ وہ کبھی اپنی اصلاح کے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ خیال کرتا ہے کہ جہاں زمین و آسمان سب ناہموار ہیں سب عالم ہستی ظلم و جور اور بے انصافیوں کا مجسمہ وہاں مجھ جیسے ایک ذرے کی اصلاح کا کیا فائدہ ہو گا؟

ایسا فرد دنیا سے کبھی لذت نہیں پاتا اس کے لئے دنیا ہمیشہ ایک ہولناک زندان کی مانند ہوتی ہے اسی پر قران کریم نے کہا ہے کہ

ومن اعرض عن ذکری فان له معیشة ضنکا (سورہ طہ آیت ۱۲۴)

"جو کوئی میری یاد میرے ذکر سے رو گردانی کرے گا تو اس کی زندگی بہت تنگی اور دباؤ میں بسر ہو گئی۔"

یقینا ایمان ہی ہمارے اندر ہماری جانوں میں زندگی کو وسعتیں عطا کرتا ہے اور ہمیں روحانی امور کے دباؤ سے بچاتا ہے۔

خوشی و مسرت کے حوالے سے مذہبی ایمان کا دوسرا اثر روشن دلی ہے انسان جونہی دنیا کو مذہبی ایمان کے تحت حق و حقیقت کے نور سے روشن و منور دیکھتا ہے۔ تو یہی روشن بینی اس کے روح کو بھی منور کر دیتی ہے۔ روشن بینی ایک ایسا چراغ بن جاتی ہے جو اس کی ذات کے اندر جل رہا ہوتا ہے۔

ایمان سے خالی آدمی کی حالت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ دنیا اس کی نظروں میں ہیچ و پوچ بے معنی اور تاریک ہوتی ہے۔ اسی لئے دنیا میں جسے اس نے تاریک و اندھیر فرض کیا ہوا ہے اس کا دل بھی تاریک رہتا ہے۔

خوشی و مسرت ہی کے حوالے سے مذہبی ایمان کا تیسرا اثر اچھے نتیجے اور اچھی جدوجہد کے بارے میں پرامید ہونا ہے۔

مادی فکر کے اعتبار سے یہ جہان لوگوں کے بارے میں غیر جانبدار اور لاتعلق ہے۔ لوگ خواہ حق پر ہوں یا باطل پر  عدل و انصاف کا دامن تھامیں یا ظلم و ستم کو پیشہ بنائیں صحیح راستے پر ہوں یا غلط راہوں پر چل نکلیں۔ ان کا نتیجہ صرف ایک ہی چیز پر منحصر ہے اور وہ ہے مقدار کوشش اور بس۔ لیکن باایمان شخص کی نظر و فکر میں یہ کہ اس جہاں میں دونوں گروہوں کی کوشش و جدوجہد کے حوالے سے کائنات کا ردعمل ایک جیسا نہیں ہوتا بلکہ نظام خلقت ان لوگوں کا حامی ہے جو حق و حقیقت عدالت و خیرخواہی اور صحیح و درست راستوں پر محنت و کوشش کرتے ہیں۔

ان تنصرو اللّٰه ینصرکم

"اگر آپ خدا کی مدد کریں (حق کے راستے میں قدم بڑھائیں) تو خدا بھی آپ کی مدد کرے گا۔"( سورہ محمد آیت ۷)

ان اللّٰه لا یضیع اجر المحسنین

"بے شک خدا نیک لوگوں کا اجر و صلہ کبھی ضائع نہیں کرتا۔"( سورہ توبہ ۱۲۰)

خوشی و مسرت ہی کے اعتبار سے مذہبی ایمان کا چوتھا اثر "سکون قلب" ہے۔ انسان فطرتاً اپنی سعادت کا خواہاں ہے۔ سعادت کے حصول کے تصور ہی سے شہرت و خوشی میں غرق ہو جاتا ہے۔ ہولناک تاریک اور محرومیوں سے مستقبل کی سوچ ہی سے اس کے تن بدن پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ انتہائی پریشان و مضطرب ہو جاتا ہے۔ دو چیزیں انسان کی سعادت کا باعث ہوتی ہیں:

۱ ۔ جدوجہد ۲ ۔ موافق حالات پر اطمینان

طالب علم کی کامیابی دو چیزوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔ پہلی اس کی اپنی کوشش اور جدوجہد۔ دوسری چیز مدرسے کا اچھا مدد کرنے والا ماحول اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرنا شوق و رغبت دلانا۔ اگر کوئی محنتی اور لائق طالب علم اپنی پڑھائی کے ماحول سے مطمئن نہ ہو اور سال کے آخر میں نمبر دینے والے استاد پر اعتماد نہ رکھتا ہو اور غیر عادلانہ روش سے پریشان ہو تو سارا سال خوف و اضطراب میں مبتلا رہے گا۔

انسان اپنی ذمہ داری سے تو آگاہ ہوتا ہے۔ اس طرف سے اسے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ اضطراب شک و شبہ سے پیدا ہوتا ہے۔ انسان اپنے آپ سے مربوط کسی چیز میں متذبذب و متردد نہیں ہوتا۔ جو چیز انسان کو شک و شبہ میں ڈالتی ہے اور انسان جس چیز سے متعلق اپنی ذمہ داری سے بے خبر ہوتا ہے وہ کائنات ہے۔

کیا اچھے کاموں کا کوئی فائدہ ہوتا ہے؟ کیا صداقت اور امانت بے کار چیزیں ہیں؟ کیا تمام تر محنت اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے بعد نتیجہ محرومی ہی ہے؟ یہی مقام ہے جہاں اضطراب و پریشانی اپنی ہولناک ترین صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔

مذہبی ایمان تصویر کے دونوں رخ "انسان اور جہان" کو سامنے رکھتے ہوئے اعتماد اور اطمینان بخشتا ہے۔ دنیا کے سلوک سے متعلق انسان کی فکر و پریشانی ختم کرتا ہے اس کے بدلے انسان کو سکون قلب عطا کرتا ہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ مذہبی آثار میں سے ایک سکون قلب ہے۔

مذہبی ایمان کا ایک اور مسرت بخش پہلو معنوی اور روحانی لذت کا حاصل ہے۔ انسان دو طرح کی لذت سے آشنا ہے۔ بعض لذتیں وہ ہیں جن میں انسان کی کوئی حس کسی خارجی چیز سے ایک خاص رابطہ قائم کرتی ہے۔ جیسے آنکھ دیکھنے سے کان سننے سے منہ چکھنے سے اور ہاتھ چھونے سے لذت حاصل کرتے ہیں۔ ایک طرح کی لذتیں بھی ہیں جو انسان کے وجدان و روح سے متعلق ہیں اور کسی ایک خاص عضو سے مربوط نہیں ہوتیں۔ جیسے انسان نیکی اور خدمت کرنے سے لذت حاصل کرتا ہے۔ محبوب اور محترم ہو کر سرور پاتا ہے یا پھر اپنی اولاد کی کامیابی و کامرانی سے خوش ہوتا ہے ایسی لذتیں کسی خاص عضو سے متعلق نہیں ہوتیں اور نہ ہی براہ راست کسی ایک خارجی عامل کے زیراثر ہوتی ہیں۔

معنوی لذات مادی لذتوں کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور اور دیرپا بھی ہوتی ہیں۔ حق پرست عرفاء کو عبادت و بندگی خدا سے حاصل ہونے والی لذت ایک ایسی ہی لذت ہے۔ وہ عارف و عابد لوگ جن کی عبادت خضوع و خشوع اور حضور و استغراق سے مالا مال ہو وہ عبادت سے عظیم ترین لذتیں حاصل کرتے ہیں جسے دینی اصطلاح میں "طعم ایمان" اور "حلاوت ایمان" سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایمان کی حلاوت و شیرینی ہر حلاوت سے بڑھ کر ہے۔ لذت معنونی اس وقت دوچند ہو جاتی ہے جب علم احسان خدمت کامیابی و کامرانی جیسے امور دینی احساس کے ساتھ پھوٹیں۔ خدا کے لئے انجام پائیں اور عبادت کے زمرے میں آئیں۔

(ب) اجتماعی روابط کی اصلاح میں ایمان کا کردار

انسان بعض دوسرے جانداروں کی طرح اجتماعی طبیعت پر پیدا کیا گیا ہے۔ فرد اکیلا اپنی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتا۔ زندگی ایک کمپنی یا سوسائٹی کی صورت میں ہونی چاہئے جس میں حقوق و فرائض کے اعتبار سے ہر ایک حصہ دار ہو افراد میں ایک طرح کی تقسیم کار ہو۔ شہد کی مکھیوں میں ذمہ داریوں اور کام کی تقسیم ان کی سرشت اور فطرت کے حکم پر ہوتی ہے ان میں کام سے انکار یا نافرمانی کی طاقت نہیں ہوتی۔ ان کے برعکس انسان ایک آزاد اور خود مختار جاندار ہے اپنے کام کو ذمہ داری اور مسئولیت کے عنوان سے انجام دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ اگرچہ دوسرے جانداروں کی ضروریات اجتماعی ہیں لیکن یہ اپنے جبلی و طبیعی امور کی انجام دہی پر مجبور ہیں۔ انسان کی ضرورتیں بھی اجتماعی ہیں۔ بغیر اس کے کہ ویسے جبلی تقاضے اس پر حکم فرما ہوں۔ انسان کی جبلی و فطری اجتماعی خواہشات اس کے اندر ایک "تقاضے" کی صورت میں ہوتی ہیں جنہیں تعلیم اور تربیت کے سائے میں پروان چڑھنا چاہئے۔

صحیح و سالم اجتماعی زندگی وہی ہے کہ افراد ایک دوسرے کے لئے قوانین حدود اور حقوق کا احترام کریں۔ عدل و انصاف کو ایک مقدس امر جانیں ایک دوسرے سے مہر و محبت سے پیش آئیں جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں وہی دوسروں کے لئے بھی پسند کریں جسے خود نہیں چاہتے اسے دوسروں کے لئے بھی نہ چاہیں ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور اطمینان رکھیں دوسروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا کر ان کے لئے روحانی تکلیف کا باعث نہ بنیں۔ ہر شخص اپنے کو معاشرے کا ذمہ دار اور معقول فرد سمجھے۔ کھلے بندوں جس تقویٰ و پاکدامنی کا مظاہرہ کرتا ہے اپنی انتہائی خلوت میں بھی اسی تقویٰ و پاکدامنی کو تھامے رکھے۔ سب لوگ بغیر کسی لالچ کے ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کریں۔ ظلم و ستم کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں ظالم اور فاسد لوگوں کو من مانی نہ کرنے دیں اخلاقی قدروں کا احترام کریں ہمیشہ ایک جسم کے اعضاء کی مانند متحد و متفق رہیں۔

یہ مذہبی ایمان ہی ہے جو ہر چیز سے بڑھ کر حقوق کا احترام کرتا ہے عدالت کو مقدس سمجھتا ہے دلوں میں الفت و مہربانی ڈالتا ہے۔ ایک دوسرے کے دل میں اعتماد پیدا کرتا ہے انسان کے قلب و روح پر تقویٰ و پرہیزگاری کی حکومت قائم کر دیتا ہے۔ اخلاقی قدروں کو معتبر اور قابل قدر بناتا ہے ظلم و زیادتی کے مقابلے کے لئے شجاعت بخشتا ہے۔ تمام افراد کو ایک جسم کی مانند قرار دے کر متحد رکھتا ہے۔

حوادث سے انسانی تاریخ میں آسمانی ستاروں کی مانند انسان کی جو انسانی تجلیاں دکھائی دیتی ہیں یہ درحقیقت مذہبی احساسات کی کوکھ سے ہی جنم لئے ہوئے ہیں۔

(ج) پریشانیوں میں کمی

جہاں انسانی زندگی میں خوشی مسرت سرور و شادمانی کامیابی و کامرانی جابجا دکھائی دیتی ہے وہاں یہ زندگی مصیبت رنج ناکامی تلخی شکست اور محرومی کو بھی بہرحال اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔ ان میں سے بہت سی مصیبتوں اور مشکلوں کو روکا جا سکتا ہے یا دور کیا جا سکتا ہے اگرچہ اس کے لئے بہت کوشش کرنا پڑے گی۔ یہ بات واضح ہے کہ عالم طبیعت کے ساتھ پنجہ آزمائی کرنا اور تلخی کو شیرینی میں بدلنا انسان کی ذمہ داری ہے لیکن دنیا کے بعض واقعات اور حوادث ایسے ہیں جنہیں انسان روک سکتا ہے نہ انہیں دور کرنے کی طاقت رکھتا ہے مثلاً بڑھاپا۔ انسان چاہے نہ چاہے اسے بڑھاپے کی طرف بڑھنا پڑتا ہے اور اس کی زندگی کا چراغ آہستہ آہستہ بجھتا چلا جاتا ہے۔ بڑھاپے کی ناتوانی کمزوری اور اس کے دیگر لوازمات زندگی کے چہرے کو مرجھا دیتے ہیں اس کے علاوہ موت اور نابودی کا خیال زندگی کو خیرباد کہنے کی فکر اپنے جانے اور دنیا دوسرے کے حوالے کرنے کی پریشانی انسان کو تڑپائے رکھتی ہے۔

مذہبی ایمان انسان میں استقامت پیدا کرتا ہے۔ تلخیوں کو میٹھا و شیریں بناتا ہے۔ باایمان شخص جانتا ہے کہ دنیا میں ہر چیز کا باقاعدہ ایک حساب کتاب ہے اگر مشکلات اور مصیبتوں میں اس کا ردعمل درکار اصولوں کے مطابق ہو تو اس کا نقصان ممکن ہے ناقابل تلافی ہو لیکن خدا تعالیٰ کسی اور طریقے سے اس کا ازالہ کر دیتا ہے۔ بڑھاپا اختتام نہیں ہے بلکہ باایمان آدمی تو ہمیشہ فرصت کے لمحات کو عبادت اور ذکر خدا سے محبت کر کے گزارتا ہے۔ اس نظریے سے بڑھاپا اس قدر محبوب و مطلوب بن جاتا ہے کہ خدا پرستوں کو جوانی سے زیادہ بڑھاپے کی زندگی میں مزہ آتا ہے۔ تہی از ایمان آدمی کی نظر میں موت کا جو چہرہ مہرہ ہوتا ہے وہ باایمان آدمی کی نظروں میں بدل جاتا ہے۔ ایسے شخص کی نظروں میں اب موت فنا و نابودی نہیں ہوتی بلکہ یہ فانی دنیا سے پائیدار اور باقی رہنے والی دنیا کی طرف منتقلی کا نام بن جاتی ہے۔ یہ ایک چھوٹے جہاں سے بڑے جہاں کی طرف روانگی ہوتی ہے عمل اور بیج بونے کے میدان سے نتیجہ اور پھل حاصل کرنے کے میدان میں جانا ہوتا ہے اس طرح باایمان آدمی نیک کاموں جنہیں دینی اصطلاح میں "اعمال صالح" کہا جاتا ہے میں حصہ لے کر موت کے خیال سے پیدا ہونے والی پریشانیوں کو دور کر لیتا ہے۔ ماہر نفسیات کے نزدیک یہ بات قطعی اور مسلم ہے کہ اکثر نفسیاتی بیماریاں جو زندگی کی تلخیوں اور روحانی پریشانیوں سے پیدا ہوتی ہیں غیر مذہبی لوگوں میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ مذہبی لوگوں کا ایمان جتنا زیادہ مضبوط اور محکم ہوتا ہے اتنا زیادہ وہ ان بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے دور میں ایمان کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والے عوارض میں سے ایک نفسیاتی اور اعصابی بیماریوں کی افزائش بھی ہے۔