انسان اور ایمان

انسان اور ایمان0%

انسان اور ایمان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 10 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5721 / ڈاؤنلوڈ: 3555
سائز سائز سائز
انسان اور ایمان

انسان اور ایمان

مؤلف:
اردو

مکتب آئیڈیالوجی نظریہ

مکتب یا آئیڈیالوجی کیا ہے؟ اس سے کیا مراد ہے؟ اس کی تعریف کیا ہے؟ انسان کو ایک فرد کے عنوان سے یا معاشرے کا ایک عضو ہونے کی حیثیت سے کسی مکتب کا پیروکار ہونا کیوں ضروری ہے؟ اسے کسی آئیڈیالوجی سے وابستہ ہونے اور اس پر ایمان رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا کسی فرد یا معاشرے کے لئے آئیڈیالوجی کا ہونا ضروری ہے؟

اس بات کے لئے ایک مقدمے کی ضرورت ہے۔

انسان کی سرگرمیاں دو طرح کی ہوتی ہیں: التذا ذی (لذت بخش) اور تدبیری۔ لذت بخش سرگرمیاں معمول کی سرگرمیاں ہوتی ہیں جنہیں انسان جبلت فطرت عادت کہ جو فطرت ثانوی ہے کے تحت انجام دیتا ہے۔ یہ کام انسان کسی لذت کے حصول کے لئے یا پھر کسی تکلیف سے نجات کے لئے انجام دیتا ہے مثلاً جب پیاسا ہو تو پانی کی طرف لپکتا ہے جب کسی ڈسنے والی چیز کو دیکھتا ہے تو اس سے دور بھاگتا ہے اسے سگریٹ کی شدید طلب پیدا ہوتی ہے تو اسے سلگا لیتا ہے۔

ایسے کام انسان کی طبیعت و مزاج کے مطابق ہوتے ہیں اور براہ راست لذت و رنج کے ساتھ ان کا تعلق ہوتا ہے۔ التذا ذی کام ایک خاص کشش اور قوت جاذبہ کے ساتھ انسان کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور تکلیف دہ کام ایک خاص قوت دافعہ کے ساتھ انسان کو اپنے سے دور کر دیتے ہیں۔

تدبیری سرگرمیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں خود سے کوئی قوت جاذبہ یا دافعہ نہیں ہوتی۔ جبلت اور طبیعت انسان کو ان کاموں پر نہیں اکساتی اور نہ ہی ان کاموں کے ترک کرنے کا کوئی مشورہ دیتی ہے۔ انسان اپنی عقل اور ارادے کے حکم پر ان کاموں میں موجود مصلحتوں کے پیش نظر انہیں انجام دیتا ہے یا چھوڑ دیتا ہے یعنی علت غائی و قوت محرکہ اور انسان کو اس کام پر اکسانے والی طاقت "مصلحت"ہوتی ہے اس میں لذت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ جبلت لذت کی پہچان کرتی ہے اور عقل مصلحت کو پہچانتی ہے۔ خواہش کا محرک لذت اور ارادے کا محرک مصلحت ہے۔ انسان انفرادی کاموں کی انجام دہی کے دوران لذت محسوس کرتا ہے لیکن مصلحت والے کاموں کے دوران لذت نہیں پاتا البتہ اس تصور سے خوش ہو جاتا ہے کہ اس نے مصلحت کی راہ میں ایک قدم آگے بڑھایا ہے وہ مصلحت جو کمال اور خیر ہے یا ایسی لذت ہے جو مستقبل قریب میں اسے حاصل ہونے والی ہے۔ وہ کام جو لذت بخش اور سرور آفرین ہے اس میں اور وہ کام جو لذت بخش نہیں بلکہ کبھی رنج آور بھی ہے فرق ہے لیکن انسان اپنی مرضی اور خوشی سے یہ رنج اٹھاتا ہے۔ مصلحت والے کام کا نتیجہ فوری برآمدنہ ہونے کی وجہ سے لذت بخش اور سرور آور نہیں ہوتا لیکن اطمینان بخش ہوتا ہے۔ انسان اور حیوان کے باہمی مشترکات میں لذت اور رنج تو شامل ہے لیکن اطمینان خوشی اور کراہت یا عدم اطمینان انسان ہی کا خاصہ ہے۔ جیسا کہ آرزو کرنا اور امید رکھنا انسان کے ساتھ مختص ہے۔ رضایت کراہت آرزو اور امید معقولات کے قلم رو اور انسانی افکار کے دائرئہ کار میں شامل ہیں۔ انسان کے حواس اور حسی ادراک کے ساتھ ان کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ ہم نے کہا ہے کہ انسان اپنے تدبیری کام اپنے ارادے اور عقل کی قوت سے انجام دیتا ہے جب کہ لذت بخش کام اس کے برخلاف میلانات و احساسات کے تحت انجام پاتے ہیں۔ اس قوت عقل کے حکم پر کاموں کے انجام پانے کا معنی یہ ہے کہ حساب کتاب کرنے والی یہ عقولی قوت خیر و بھلائی کمال و سعادت اور لذت کو مستقبل بعید میں مشاہدہ کر رہی ہوتی ہے اسے حاصل کرنے کے لئے مختلف تدبیریں کرتی ہے۔ ارادے کی قوت سے تدبیری کاموں کے انجام پانے کا معنی یہ ہے کہ انسان میں عقل کے ساتھ مربوط ایک طاقت موجود ہے جس کا کام عقل سے منظور شدہ قوانین کو عملی جامہ پہنانا ہوتا ہے یہ طاقت ایسی ہے کہ کبھی تو ہر قسم کے میلان رجحان اور طبیعی رغبت کو پس پشت ڈال کر عقل کے منظور شدہ قوانین اور تدابیر کو عملی صورت عطا کرتی ہے۔ ایک طالب علم کی جوانی کا طبیعی مزاج اسے سونے کھانے پینے آرام کرنے کھیلنے کودنے اور شہوت پرستی کی دعوت دیتا ہے لیکن اس کی حساب کتاب رکھنے والی عقل ایک طرف ان کاموں کے برے نتیجے اور دوسری طرف مشکل برداشت کرنے بے خوابی و بیداری اور شہوت و لذت سے چشم پوشی کا تقاضا کرتی ہے۔ مصلحت کے تحت اسے حکم دیتی ہے کہ میرے راستے کا انتخاب کرے اس وقت انسان عقلی حکم مصلحت کو طبیعی حکم لذت پر ترجیح دیتا ہے اور اسی طرح ایک بیمار اگرچہ دوائی سے نفرت کرتا ہے۔ بدمزہ اور کڑوی دوائیوں کے استعمال سے سخت تکلیفیں اٹھاتا ہے لیکن مصلحت اندیش عقل کے حکم پر اور میلانات پر حاکم ارادے کی قوت سے کڑوی دوائیاں بھی نگل لیتا ہے۔

عقل و ارادہ جس قدر زیادہ مضبوط ہوں گے اسی قدر زیادہ اور بہت سے میلانات کے خلاف طبیعت پر حکمرانی کر سکیں گے۔

انسان فکری و تدبیری فعالیت میں مسلسل کسی ایک فکر سوچ ترکیب یا نظریہ کو عملی جامہ پہنا رہا ہوتا ہے عقل و ارادہ کے حوالے سے انسان جتنا کامل ہو گا اتنی ہی اس کی سرگرمیاں التذا ذی ہونے کی بجائے عقلی و فکری اور تدبیری ہوں گی۔ حیوان کی ساری فعالیت لذت کے خلاف ہوتی ہے۔ اگرچہ حیوان میں گاہ بگاہ دوراندیشی ہدف اور نتیجہ کے لئے سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں مثلاً گھونسلے بنانا ہجرت کرنا جوڑے بنانا تولید و تناسل وغیرہ لیکن ان میں سے کوئی ایک کام بھی آگاہی ہدف سے واقفیت حصول مقصد کے لئے مختلف راہوں پر غور و فکر یا وسیلے کے انتخاب کے ساتھ انجام نہیں پاتا بلکہ ماوراء قوت کی طرف سے ایک جبلی و فطری یا جبری الہام ہوتا ہے جس کے تحت یہ امور سرانجام پاتے ہیں۔ فکری و تدبیری فعالیت کے حوالے سے انسان کی سرگرمیاں کا دائرئہ کار اس قدر وسیع ہو جاتا ہے کہ وہ لذت بخش سرگرمیوں کو بھی اپنے اندر سمو لیتا ہے یعنی بامصلحت کاموں کی اتنی توجہ سے منصوبہ بندی کی جائے کہ لذت بخش کام بھی اس کے ضمن میں آ جائیں پھر ہر لذت لذت ہونے کے ساتھ ساتھ مصلحت بھی ہو اور ہر جبلی فعالیت تقاضائے طبیعت کی تکمیل کے ساتھ ساتھ عقل کی اطاعت و فرمانبرداری بھی کرے۔ اگر تدبیری سرگرمیاں التذا ذی فعالیت کو اپنے زیرسایہ کر لیں اور لذت بخش سرگرمیاں زندگی کے عمومی پروگراموں اور کلی امور کا ایک حصہ بن جائیں تو پھر طبیعت عقل کے ساتھ اور میلان و رجحان ارادے کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں گے۔

چونکہ فکری فعالیت کا محور دور کے اہداف و مقاصد ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس کے لئے بہتر طور پر منصوبہ بندی سوچ و بچار مقاصد کے حصول کے لئے وسیلے کا انتخاب اور طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں ایک انفرادی پہلو کا تعلق ہے یعنی ایک فرد اپنے لئے خود سے ترکیبیں سوچتا ہے منصوبہ بندی کرتا ہے تدابیر کرتا ہے اپنے افکار و نظریات کو عملی جامہ پہناتا ہے حصول مقصد کے لئے وسیلے اور طریقہ کار کا تعین کرتا ہے۔ یہ سب امور ایک ہی فرد کی عقل پر منحصر ہیں اور اس کی معلومات اطلاعات ہنر اور فیصلے کی قوت کے معیار سے مربوط ہیں۔

بالفرض اگر فکری فعالیت اوج کمال تک جا پہنچے تو انسان کی سرگرمیوں کے "انسانی" ہونے کے لئے یہ کافی نہیں ہے۔ انسان کی تدبیری فعالیت انسانیت کی لازم شرط ہے کیوں کہ آدھی انسانیت عقل علم آگاہی اور تدبیر پر مشتمل ہے لیکن یہ کافی و وافی شرط نہیں ہے۔ انسانی سرگرمیاں اس وقت انسانی ہوتی ہیں جب عقل و ارادہ کے ساتھ ساتھ انسانیت کے عالی رجحانات کی بھی غمازی کریں یا کم از کم بلند مرتبہ انسانی میلانات کے متضاد نہ ہوں۔ وگرنہ ظالمانہ ترین انسانی کام بھی کبھی فکر تدبیر و ہوش فہم و فراست نتیجے پر نظر منصوبہ بندی اور فکری بنیادوں کی فراہمی کے ساتھ ہی وجود میں آتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال استعمار کے شیطانی منصوبے ہیں۔ قوت فکر و تدبیر جب انسانی و ایمانی جذبوں سے جدا ہو جائے اور مادی و حیوانی عزائم کی غلام بن جائے تو اسے اسلامی دینی اصطلاح میں "نکرا" اور "شیطنت" کہا جاتا ہے۔ تدبیری فعالیت ہمیشہ انسانی نہیں ہوتی بلکہ اگر اس کے اہداف کا محور "حیوانیت" ہو تو پھر یہ لذت بخش حیوانی فعالیتوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتی ہے مثلاً حیوان محض اپنا پیٹ بھرنے کے خلاف کسی ایک جانور یا ایک انسان کو چیرتا پھاڑتا ہے جب کہ ایک مفکر و مدبر انسان صرف اسی مقصد کے لئے پورے کے پورے شہر کو اجاڑ کر رکھ دیتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر شہروں کے شہر ویران کر دیتا ہے۔ ہزاروں بے گناہ لوگوں کو آگ و خون کے دریا کی نذر کر دیتا ہے۔ کیا ایک فرد کی تمام مصلحتوں کے لئے اس کی شخصی عقل کے پیش کردہ اہداف کافی ہیں؟ یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ ایک فرد کی ساری مجموعی مصلحتوں کے لئے اس اکیلے فرد کی عقل کس قدر کارآمد ہو سکتی ہے؟ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ زندگی کی جزوی اور محدود تدابیر کے لئے عقل و فکر اور سوچ و بچار کی قوت ضروری اور مفید ہے۔ انسان کو روزمرہ زندگی میں ہمیشہ کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے مثلاًدوست کا چناؤ علمی و تعلیمی شعبے کا چناؤ شریک حیات کا چناؤ کام اور کاروبار کا چناؤ سفر میل جول سیر و سیاحت تفریح نیک سرگرمیاں برائیوں اور انحرافات کے ساتھ مقابلے کا مسئلہ وغیرہ___

انسان کو بلاشک و شبہ ان سب امور میں غور و فکر سوچ و بچار اور تدبیر کرنے کی احتیاج ہے جس قدر زیادہ غور و فکر کرے گا اسی قدر زیادہ کامیاب ہو گا۔ علاوہ ازیں کبھی دوسروں کے تجربات اور افکار سے استفادہ کی بھی اسے ضرورت ہوتی ہے۔ ان تمام جزوی امور میں انسان منصوبہ بندی کے ساتھ پروگرام بناتا اور پھر اسے عملی صورت دیتا ہے۔ اب کلی اور وسیع دائرئہ کار میں اس (انفرادی عقل) کا عمل دخل کیا ہو گا؟ کیا انسان اپنی شخصی زندگی کے تمام مسائل کے لئے کوئی منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا اس میں یہ قدرت ہے کہ ان مسائل کا کوئی ایسا کلی حل نکالے جو اس کی زندگی کی تمام مصلحتوں کو پیش نظر رکھے؟ یا اس کی تنہا فکری قدرت کے منصوبے صرف جزوی اور محدود مسائل کے لئے ہیں اور ہر طرح کی سعادت کی ضامن زندگی کی ان تمام مجموعی مصلحتوں پر احاطہ کرنا عقل کے بس کی بات نہیں؟ اگرچہ بعض فلاسفہ نے "خود کفیل" ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہم نے اپنے تئیں سعادت و شقاوت یا بدبختی و خوش قسمتی کی راہیں تلاش کر لی ہیں اور اپنے ارادے و عقل کے بھروسے پر ہم اپنے آپ کو خوش قسمت بنا سکتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ہم جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں کوئی دو فلسفی بھی ایسے نہیں ملتے جو اس راستے کے حصول کے لئے ایک نقطہ نظر رکھتے ہوں آخری اور اصلی ہدف "سعادت" کا مفہوم پہلی نظر میں تو بڑا واضح و روشن معلوم ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ مبہم ترین مفاہیم میں سے ایک ہے۔ سعادت کیا ہے؟ کن چیزوں سے حاصل ہوتی ہے؟ شقاوت کیا ہے؟ اس کے عوامل کیا ہیں؟ ابھی تک یہ بات مجہول ہے اور اس کی شناخت نہیں ہوئی کیوں؟ چونکہ ابھی تک خود انسان کی صلاحیتوں اور توانائیوں کا اندازہ نہیں ہو سکا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ انسان کی شناخت تو نہ ہو سکے لیکن اس کی سعادت کا پتہ چل جائے اور اس کے حصول کے طریقے بھی معلوم ہو جائیں۔

اس سے بڑھ کر یہ کہ انسان ایک اجتماعی و تمدنی جاندار ہے۔ اجتماعی زندگی اس کے لئے ہزاروں مسائل اور مشکلات کھڑی کر دیتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ وہ ان سب کو حل کرے اور ان سے متعلق اپنی مسئولیت واضح کرے چونکہ انسان ایک اجتماعی وجود کا حامل ہے لہٰذا اس کی اور دوسروں کی سعادت عقائد خیر و شر کے معیارات راہ پرورش وسیلے کا انتخاب اور دوسروں کی سعادت کے معیارات باہم ایک دوسرے سے منسلک ہیں انسان دوسروں کو نظرانداز کر کے اپنا جداگانہ راستہ اختیار نہیں کر سکتا۔ اسے اپنی سعادت ایسی شاہراہ پر تلاش کرنی چاہئے جو معاشرے کو سعادت و کمال تک پہنچاتی ہے۔

اگر حیات ابدی اور روح کی ہمیشگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس دنیا کے بعد والی دنیا سے متعلق عقل کی ناتجربہ کاری کو دیکھا جائے تو مسئلہ کہیں زیادہ پیچیدہ اور مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں مکتب اور آئیڈیالوجی کی ضرورت نمایاں ہوتی ہے یعنی ایک کلی نظریے اور ایک جامع ہم آہنگ اور مربوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جو انسان کے کمال اور سب کی سعادت کی ضامن ہو اس کے اصول و منابع راہ و روش ضروری و غیر ضروری امور نیک و بد ہدف و وسیلہ ضروریات مشکلات اور ان کا حل مسئولیت و ذمہ داری ایک ایک چیز مشخص ہو اور تمام افراد کے فرائض اور ذمہ داریاں اس سے واضح ہوتی ہیں۔

انسان اپنی پیدائش ہی سے یا کم از کم اجتماعی زندگی کے پھیلنے اور وسیع ہونے سے اختلافات کے وجود میں آنے کے وقت سے نظریہ حیات یا قرآن کی اصطلاح میں کسی "شریعت" کا محتاج رہا ہے۔( ۱)

جوں جوں وقت گذرتا گیا انسان رشد کرتا گیا اور کمال کی طرف بڑھتا رہا اسی قدر اس کی یہ احتیاج و ضرورت بڑھتی گئی گذشتہ زمانے میں قومی نسلی قبائلی اور ملی تعصبات اور رجحانات ایک "اجتماعی روح" کے طور پر انسانی معاشروں پر حاکم تھے۔

یہ روح اپنے مقام پر بعض عقائد اور نظریات کو جنم دیتی تھی اگرچہ یہ نظریات غیر انسانی ہی کیوں نہ ہوں لیکن معاشرے کو متحد رکھتے تھے اور اس کے لئے ایک سمت کا تعین کرتے تھے۔ علمی و عقلی رشد و کمال نے ان رشتوں کو کمزور کر دیا ہے۔ علم اپنی ذاتی خاصیت کے تحت انفرادیت کی طرف میلان رکھتا ہے جذبات کو کمزور اور احساسات کو سرد کر دیتا ہے۔

آج اور بالخصوص کل کے انسان کو جو چیز وحدت اور سمت عطا کر سکتی ہے اور ایک مشترک نظریہ دے سکتی ہے خیر و شر کا معیار ہو سکتی ہے اور بتا سکتی ہے کہ اسے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے وہ ایک ایسا فلسفہ حیات ہے جو آگاہی کے ساتھ منتخب کیا جائے جس سے اس کا عقیدہ جنم لے اور جو منطق پر استوار ہو دوسرے لفظوں میں اسے ایک جامع اور کامل آئیڈیالوجی اور نظریہ حیات کی ضرورت ہے۔ آج کا انسان ماضی کے انسان کی نسبت ایک ایسے فلسفہ زندگی کا زیادہ ضرورت مند ہے جو اسے انفرادی اور شخصیت مفادات کے انسان کی نسبت ایک ایسے فلسفہ زندگی کا زیادہ ضرورت مند ہے جو اسے انفرادی اور شخصی مفادات سے بالاتر حقائق سے وابستہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو آج یہ بات قابل انکار نہیں کہ مکتب اور نظریہ حیات اجتماعی زندگی کی ضروریات میں سے ہیں۔ ایک ایسے مکتب کی منصوبہ بندی کون کر سکتا ہے بلاشک و شبہ ایک شخص کی عقل یہ قدرت نہیں رکھتی۔ کیا اجتماعی و مجموعی عقل میں یہ طاقت ہے؟ کیا انسان اپنی گذشتہ اور موجودہ معلومات اور تجربوں کی روشنی میں کوئی منصوبہ یا لائحہ عمل تجویز کر سکتا ہے؟

اگر ہمارے لئے انسان سب سے زیادہ مجہول چیز ہو تو پھر انسانی معاشرہ اور انسان کی سعادت ہمارے لئے بطریق اولیٰ مجہول تر ہو گی۔ پس کیا کرنا چاہئے؟ اب یہاں پر اگر ہم ہستی و خلقت پر حق و حقیقت کی نگاہ ڈالیں اور نظام ہستی کو ایک متوازن نظام سمجھیں۔ اس ہستی کے عبث ہونے کی نفی کریں تو ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ اس عظیم نظام خلقت نے اس عظیم ضرورت کو نظرانداز نہیں کیا۔ انسانی عقل کے افق سے مافوق یعنی افق وحی نے اس شاہراہ کی بنیادی حدود کو واضح کر دیا ہے۔ (اسے نبوت کا اصول کہتے ہیں) اب علم و عقل کا کام انہیں بنیادی حدود کے اندر حرکت کرنا ہے۔ انسان کی احتیاج جو انسانی ذریعے (نبی) سے شریعت الٰہی کے ساتھ پوری ہوتی ہے۔ اس کی بلند پایہ وضاحت بوعلی نے کتاب نجات میں کی ہے:

فالحاجة الی هذا الانسان فی ان یبقی نوع الانسان و یتحصل وجوده اشد من الحاجة الی انبات الشعر علی الحاجبین و تقعیر الاخمص من القدمین و اشیاء اخری من المنافع التی لاضرورة الیهافی البقاء بل اکثر مالها انها تنفع فی البقاء

"وہ کہتے ہیں کہ بنی نوع انسان کی بقاء اور انسان کے انسانیت کے کمال تک پہنچنے کے لئے انسانی آئیڈیالوجی اور شریعت الٰہی کو بیان کرنے والے نبی کی ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے کہ ابروؤں پر بال اگا دیئے جائیں اور پاؤں کے تلوؤں کو گہرا بنایا جائے یا اس طرح کے دوسرے امور جو نوع انسانی کی بقاء کے لئے ضروری ہی نہیں ہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ مفید ہیں یعنی خلقت کے عظیم نظام نے چھوٹی چھوٹی اور معمولی ضرورتوں کو نظرانداز نہیں کیا تو پھر کیسے ممکن ہے کہ بڑی بڑی ضرورتوں کا خیال نہ رکھا ہو؟"

لیکن اگر اگر ہم وجود و آفرینش کے بارے میں نگاہ و حقیقت سے محروم ہوں تو پھر تسلیم کرنا پڑے گا کہ انسان گمراہی اور سرگردانی پر مجبور ہے اور اس ظلمت کدہ میں سرگرداں انسان کی پیش کردہ بھرپور آئیڈیالوجی اور لائحہ عمل وقتی مصروفیت اور سرگردانی کے علاوہ کچھ نہ ہو گا۔

متذکرہ بالا ان سے کسی ایک مکتب اور آئیڈیالوجی کے وجود کی ضرورت واضح ہوتی ہے اور کسی مکتب و نظام حیات کے ساتھ انسان کے وابستہ ہونے کی ضرورت بھی نمایاں ہو جاتی ہے۔

البتہ کسی فرد کا کسی آئیڈیالوجی کے ساتھ وابستہ ہونا اسی وقت حقیقت کا روپ دھارتا ہے جس وقت یہ ایمان کی صورت اختیار کرے جب کہ ایمان ایک حقیقت ہے جو طاقت سے اور مصلحت کی خاطر پیدا نہیں ہو سکتا۔ طاقت کو منوایا جا سکتا ہے سر جھکایا جا سکتا ہے لیکن نظریہ حیات ایسی چیز نہیں ہے جس کے لئے سر جھکایا جائے بلکہ اسے قبول کرنا ہوتا ہے اس میں جذب ہونا پڑتا ہے اور نظریہ حیات ایمان کا متقاضی ہے۔

ایک کارآمد آئیڈیالوجی کے لئے ضروری ہے کہ ایک طرف تو ایک خاص تصور کائنات کا حامل ہو جو عقل کو قانع کر سکے اور فکر کی ضرورت کو پورا کر سکے اور دوسری طرف اپنے تصور کائنات سے منطقی طور پر ایسے مقاصد واضح کر سکے کہ جو تجاذب و کشش کے حامل ہوں تب ایمان کے دو بنیادی عنصر عشق و عقل باہم مل کر دنیا کی تعمیر کر سکیں گے۔

یہاں ہر چند مسئلے مختصر طور پر بیان کرنا ضروری ہیں لیکن ان کی تفصیل کسی مناسب موقع پر اٹھا رکھتے ہیں:

(الف) آئیڈیالوجی دو طرح کی ہوتی ہے: ( ۱) انسانی اور ( ۲) گروہی۔ انسانی آئیڈیالوجی یعنی جس کا مخاطب بنی نوع انسان ہے۔ قبیلہ نسل قوم یا کوئی خاص طبقہ نہیں ہے۔ ایسی آئیڈیالوجی کسی ایک معین گروہ یا طبقہ کی نجات کا دعویٰ نہیں کرتی بلکہ نوع انسانی کی نجات کی دعویدار ہے۔ منصوبہ اور لائحہ عمل تمام انسانوں کے لئے پیش کرتی ہے۔ کسی مخصوص طبقے کی نمائندگی نہیں کرتی۔ اپنے حامی اور مددگار کسی ایک معین حلقے یا گروہ سے حاصل نہیں کرتی بلکہ تمام گروہوں حلقوں ملتوں اور طبقوں کو دعوت دیتی ہے۔ اس کے برعکس گروہی آئیڈیالوجی کا مخاطب گروہ طبقہ یا ایک مخصوص حلقہ ہوتا ہے اور صرف اسی گروہ کی نجات یا برتری کی دعویدار ہوتی ہے چونکہ اس کے مخاطب صرف اسی گروہ کے افراد ہوتے ہیں۔ بنا برایں یہ جو بھی منصوبہ تجویز کرے گی اسی مخصوص گروہ کے لئے ہو گا۔ لہٰذا صرف اسی گروہ سے اپنے خاص مددگار و جانثار جذب کرتی ہے۔

ان میں سے ہر ایک آئیڈیالوجی انسان کے بارے میں اپنا ایک خاص نظریہ رکھتی ہے۔ ہمہ گیر اور انسانی آئیڈیالوجی انسان کے بارے میں ایک خاص معرفت کی حامل ہوتی ہے جیسے اسلامی نظریہ حیات ہے۔ انسان کے بارے میں اس کی خصوصی معرفت کو "فطرت" سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے انسان اپنی خلقت کے دوران تاریخی و اجتماعی عوامل کی تاثیر پر مقدم ہے۔ اس کے وجود کو ایک خاص پہلو عطا کیا گیا ہے۔ حیوان سے ممتاز کر کے اسے ھویت اور الگ حیثیت بخشنے والی اعلیٰ صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں۔ اس نقطہ نظر کے مطابق انسان اپنی خلقت میں ایک خاص شعور سے بہرہ ور ہے اور اسے ایک ایسا وجدان عطا کیا گیا ہے جو پوری نوع انسانی میں موجود ہے۔ یہی فطری وجدان اسے نوع کے تعین دعوت کی صلاحیت اور مخاطب واقع ہونے کی صلاحیت اور تحریک دیتا ہے۔ ایسے نظریات حیات نوع انسانی کے بارے میں مخصوص وجدان فطری کی بنیاد پر اپنی دعوت کا آغاز کرتے اور تحرک پیدا کرتے ہیں۔

بعض ان نظریات حیات کے بارے میں کچھ اور نقطہ نظر رکھتے ہیں ان کے مطابق انسان بحیثیت نوع مخاطب قرار دینے اور دعوت دیئے جانے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس میں تحرک پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ انسان کا شعور وجدان اور میلانات ملی قومی زندگی کے اجتماعی یا تاریخی عوامل کے زیراثر طبقاتی صورت میں ابھرتے ہیں۔ خاص تاریخی و اجتماعی عوامل سے صرف نظر کر لیا جائے تو انسانی شعور رکھتا ہے نہ وجدان اور نہ "دعوت" دیئے جانے اور مخاطب قرار پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ایک ماخوذ اور انتزاعی وجود ہے "عینی" و نظر پر مبنی نہیں ہے۔ ایسے فلسفیوں کا ہدف طبقاتی مفادات یا قومی و نسلی احساسات یا پھر زیادہ سے زیادہ قومی ثقافت ہوتی ہے۔ بلاشک و شبہ اسلامی آئیڈیالوجی پہلی قسم میں سے ہے اور یہ فطرت انسان سے پھوٹتی ہے۔ اسی لئے اسلام کے مخاطب الناس___ یعنی سب لوگ ہیں۔( ۱)

اسلام کسی خاص طبقے یا گروہ سے خطاب نہیں کرتا۔

اسلام نے عملاً تمام گروہوں سے اپنے حامی و مددگار حاصل کئے ہیں حتیٰ جس طبقہ کے خلاف اسلام نے قیام کیا ہے اور اسے قرآن کی اصطلاح میں "ملا و مترف" سرمایہ دار و جاگیردار طبقے کا نام دیا گیا ہے۔ اسی میں سے اپنے حامی اور جانثار پیدا کر لئے ہیں۔ کسی طبقے میں سے خود اسی طبقے کے خلاف اپنے لئے جانثار بنا لینا کسی گروہ میں سے خود اسی گروہ کے مفادات کے خلاف اپنے حامی پیدا کر لینا یا پھر کسی شخص کو خود اس کے خلاف ابھارنا ایسے کام اسلام نے تاریخ میں بہت کئے ہیں اور اب بھی ایسا کرتا ہے۔ اسلام دین ہونے کی حیثیت سے انسانی وجود کی انتہائی گہرائی تک اپنا اثر کرتا ہے اور انسانی فطرت پر مبنی ہے۔ لہٰذا اسلام اس امر پر قادر ہے کہ کسی فرد کو اس کی اسی تباہی کے خلاف "ابھارے" اسے اپنے ہی خلاف قیام کرنے پر اکسائے اور اس طرح اس کے خلاف خود اسی کے ہاتھوں انقلاب برپا کر دے اسی کو "توبہ" کہتے ہیں۔ گروہی اور طبقاتی نظریہ حیات صرف ایک فرد کو دوسرے فرد کے خلاف یا ایک طبقہ کو دوسرے طبقہ کے خلاف ابھارنے کی طاقت رکھتا ہے۔ لیکن کسی فرد کو اپنے ہی خلاف انقلاب برپا کر دینے پر آمادہ کرنے کی صلاحیت اس میں ہرگز نہیں ہوتی۔ اس نظریہ حیات میں یہ صلاحیت بھی نہیں ہوتی کہ کسی فرد کو خود اسی کے اندر سے زیرنگرانی رکھے اور اسے کنٹرول کر سکے (اسی کو "مراقبہ" کہتے ہیں)۔

اسلام چونکہ ایک مذہب ہے اور آخری دین ہے لہٰذا کسی بھی دوسرے آسمانی دین سے بڑھ کر عدالت اجتماعی ( Social Justice ) قائم کرنے کے لئے آیا ہے۔ ( سورہ اعراف آیت: ۲۹ قل امر ربی بالقسط___)

اسی لئے اس کا لازمی طور پر ہدف محروم و مستضعف افراد کی نجات اور ظالم مستکبروں کے خلاف جنگ کرنا ہے۔ لیکن اسلام کے مخاطب صرف محروم و مستضعف لوگ ہی نہیں ہیں۔ اسلام نے صرف اسی طبقے سے اپنے حامی پیدا نہیں کئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام نے مذہب کی قوت اور انسانی فطرت کو بنیاد بناتے ہوئے جن طبقات کے خلاف قیام کیا ان طبقات میں سے بھی اپنے لئے جانثار پیدا کئے ہیں۔ اسلام حیوانیت پر انسانیت جہالت پر علم ظلم پر عدالت تبعیض پر مساوات رذالت پر فضیلت لاابالی پر تقویٰ اور شرک پر توحید کی کامیابی کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ اس کا ایک مظہر و مصداق ظالموں اور جابروں پر مستضعفین کی کامیابی ہے۔

(ب) گذشتہ بحث کے ساتھ یہ مسئلہ بھی بیان ہونا چاہئے کہ آیا خالص انسانی ثقافت کی ماہیت قومی ملی یا طبقاتی ہوتی ہے؟ کیا موجودہ یا آئندہ وجود میں آنے والی ثقافت ایک ہی ہے یا متعدد ہیں؟

یہ مسئلہ بھی اسی سے مربوط ہے کہ آیا انسان کی نوعیت خالص اور ایک ہی فطرت کی مالک ہے اور یہی فطرت دراصل انسانی ثقافت کو بھی یکتائی عطا کرتی ہے یا ایک ایسی فطرت کا کہیں کوئی وجود نہیں ہے؟ بلکہ ثقافتیں تاریخی قومی اور جغرافیائی عوامل کی پیدائش ہوتی ہیں یا پھر طبقاتی مفادات کے رجحانات سے ثقافتیں وجود میں آتی ہیں؟ اسلام چونکہ اپنے تصور کائنات میں فطرت واحد کا قائل ہے لہٰذا ایک ہی نظریہ حیات اور ایک ہی ثقافت کا حامی ہے۔

(ج) واضح ہے کہ صرف اور صرف ایک انسانی نظریہ حیات نہ کہ گروہی نظریہ حیات ایک واحد نظریہ حیات نہ کہ تقسیم انسانی پر مبنی آئیڈیالوجی اور ایک فطری نظریہ نہ کہ مفاد پرستانہ نظریہ انسانی قدروں پر مبنی ہو سکتا ہے اور انسانی ماہیت کا مالک ہو سکتا ہے۔

(د) آئیڈیالوجی زمان و مکان میں مقید ہوتی ہے؟ کیا انسان مجبور ہے کہ ہر زمان و مکان کے بدلنے اور شرائط کے تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خاص نظریہ حیات کا حامل ہو؟ کیا نظریہ حیات پر (علاقے و مقام کے اعتبار سے) اصول اختلاف اور (زمانے کے اعتبار سے) نسخ و تغیر حکم فرما ہے؟ یا جیسا کہ انسانی آئیڈیالوجی گروہ کے حوالے سے ایک ہی ہے متعدد نہیں ہیں اسی طرح زمان و مکان کے حوالے سے بھی یگانہ و یکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں گروہی اعتبار سے یہ "عام" ہے اور "خاص" نہیں ہے اور زمان و مکان کے حوالے سے "مطلق" ہے "نسبی" نہیں ہے۔

آئیڈیالوجی زمان و مکان کے اعتبار سے مطلق ہو یا نسبی اپنے طور پر پابند ہے کہ اس کا مطلوب انسان کی نوعی فطرت ہو اور اس کا ہدف بنی نوع انسان کی سعادت ہو یا گروہی مفادات اور قومی و طبقاتی جذبات اس کے پیش نظر ہوں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ آئیڈیالوجی وابستہ ہے۔ اس چیز سے کہ اجتماعی تبدیلیوں کی ماہیت کے بارے میں ہم کیا نظریہ رکھتے ہیں۔ کیا جب معاشرہ بدلتا ہے ایک زمانہ گذار کر نئے دور کا آغازہوتا ہے تو اس وقت اس کی ماہیت بدل جاتی ہے۔

جس کے نتیجے میں اس پر پہلے قوانین سے مختلف لاگو ہو جاتے ہیں مثلاًجیسے پانی کا درجہ حرارت بڑھنے سے بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے تو پھر اس پر گیس کے قوانین لاگو ہو جاتے ہیں اور مائعات کے نہیں رہتے یا اجتماعی رشد و کمال اور تبدیلیاں ایسی نہیں ہیں بلکہ معاشرے کے ارتقاء کے بنیادی قوانین اور وہ مدار جس میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ثابت اور غیر متغیر ہیں۔ معاشرے میں مقام اور مرحلے کی تبدیلی ہوتی ہے۔ ترقی کے قانون اور اصول میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ جیسا کہ زندگی کے لحاظ سے جانداروں میں رشد و کمال اور طول پیدا ہوتا رہتا ہے لیکن رشد و کمال کے قوانین ہمیشہ ثابت رہتے ہیں۔

اس مسئلے میں ایک اور نقطہ نظر کے مطابق نظریہ حیات زمان و مکان کے اعتبار سے مطلق ہو یا نسبی۔ یہ اس چیز سے مربوط ہے کہ کوئی نظریہ حیات کسی تصور کائنات پر مبنی ہے۔ وہ نظریہ کائنات سائنسی فلسفی یا مذہبی ہے؟ سائنسی نظریہ حیات چونکہ ایک ناپائیدارات پر مبنی ہے لہٰذا خود پائیدار نہیں ہو سکتا۔ البتہ فلسفی تصور کائنات اس کے برعکس ہے کہ جو "اصول اولیہ" اور بدیہیات اولیہ پر مشتمل ہوتا ہے یا مذہبی تصور کائنات جو وحی و نبوت پر مبنی ہے۔ اس وقت اتنی فرصت اور موقع نہیں کہ ہم مسئلہ فطرت کو بیان کر سکیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے معارف اسلامی میں "ام المسائل" کی حیثیت حاصل ہے۔ نیز اسی صورت حال کے پیش نظر معاشرے کل تغیر و تبدل پر تحقیقی نظر ڈالنے سے قاصر ہیں۔ البتہ اس کتاب کے پانچویں باب میں "معاشرہ اور تاریخ" کے عنوان سے ہم بات کریں گے اور معاشرے کی تبدیلیوں اور فطرت سے ان کے رابطے پر ایک تحقیقی نظر ڈالیں گے۔

(ھ) کیا خود آئیڈیالوجی پر اصول تغیر حاکم ہے یا اصول ثبات حکم فرما ہے؟ گذشتہ بحث یہ تھی کہ آیا انسان کی آئیڈیالوجی مختلف زمان و مکان میں مختلف ہوتی ہے؟ یہ آئیڈیالوجی کے تبدیل یا منسوخ ہونے کا مسئلہ تھا لیکن اب ایک اور مسئلہ درپیش ہے اور وہ ایک آئیڈیالوجی کے تغیر و تبدل کا مسئلہ ہے۔ مسئلہ یوں ہے کہ آئیڈیالوجی اپنے محتویٰ کے اعتبار سے چاہے عام ہو یا خاص مطلق ہو یا نسبی خود اس اعتبار سے کہ یہ ایک مظہر ( Phenomenon )کے اور مظاہر میں تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے اور وہ کمال کی طرف بڑھتے رہتے ہیں لہٰذا کیا آئیڈیالوجی دائمی طور پر تغیر و تبدل کا شکار رہتی ہے۔ کیا آئیڈیالوجی کی حقیقت پیدائش کے وقت کچھ اور ہوتی ہے کہ قائدین اور مفکرین کی طرف سے مسلسل اور ہمیشہ اس کی اصلاح ہوتی رہے اسے آراستہ و پیراستہ کیا جاتا رہے اور اس پر تجدید نظر ہوتی رہے۔ جیسا کہ آج کے مادی نظریات کی حالت ہمارے سامنے ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ نظریات جلد ہی فرسودہ اور پرانے ہو جائیں گے اور اپنی صلاحیت کھو بیٹھیں گے؟ یا کیا ممکن ہے ایک آئیڈیالوجی اس قدر منظم ہو اور معاشرہ و انسان کی حرکت کے بنیادی خطوط پر یوں رواں دواں ہو کہ قائدین کی طرف سے اس کی اصلاح یا تجدید نظر کی ضرورت نہ پڑے اور نظریات بنانے والے مفکرین و قائدین کا کام صرف اس کی حدود و مفہوم کے اندر "اجتہاد" کرنا ہو اور اسی طرح نظریاتی ارتقاء اجتہاد میں ہو نہ کہ آئیڈیالوجی کے متن میں؟اس سوال کا جواب گذشتہ سوالوں کے جوابات کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

(مزید تفصیل کیلئے شہید مطہری کی کتاب "کتاب نبوت" دیکھی جا سکتی ہے)