سبھي كے جاننے كي باتيں

سبھي كے جاننے كي باتيں0%

سبھي كے جاننے كي باتيں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

سبھي كے جاننے كي باتيں

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

مشاہدے: 12764
ڈاؤنلوڈ: 4078

تبصرے:

سبھي كے جاننے كي باتيں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12764 / ڈاؤنلوڈ: 4078
سائز سائز سائز
سبھي كے جاننے كي باتيں

سبھي كے جاننے كي باتيں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب:سبھی کے جاننے کی باتیں

مؤلف:ابراہیم امینی

دیباچہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم؛

ہم آپ سے سوال کریں گے کہ کیا اس دنیا کا پیدا کرنے والا کوئی ہے؟ یا یہ دنیا خود بخود وجود میں آ گئی ہے اگر خدا ہے تو اس کے صفات اور اس کے یہ کام کیسے ہیں؟ کیا خدا نے ہمارے لئے دنیا میں رہنے کے طریقے اور قانون و احکام وضع کئے ہیں کہ ہم اس کے مطابق عمل کریں یا نھیں؟ کیا خدا کے بھیجے ہوئے انبیاء اپنے وعدے اور دعوے میں سچے تھے یا نھیں؟ کیا اس دنیا کے بعد کوئی دنیا موجود ہے یا نھیں؟ یعنی کیا انسان اپنے کئے ہوئے کاموں کی جزایا سزا پائے گا؟

انسان کی عقل ہمیشہ اور ہر وقت ان سوالات کے جواب کی تلاش میں رہتی ہے،اگر یہ سوالات واضح اور حل ہوجائیں تو اس کے ضمن میں سیکڑوں سوالات سے خود بخود نجات مل جائے گی، انسان کی عقل اچھے اور برے، غلط اور صحیح، حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے پر قادر ہے اور جب تک ان سوالات کو حل نہ کرلے، اس وقت تک اپنی جگہ پر آرام و اطمینان سے نہیں بیٹھ سکتی، لہٰذا ان کا حل دل و دماغ کے لئے سکون کا باعث ہے ۔

اس طرح کے موضوعات اور سوالات کو اصول دین کہتے ہیں، اصول دین ان چیزوں کو کہاجاتا ہے جس کا تعلق انسان کی روح اورعقل و فکر سے ہوتا ہے، اور اس میں عقلی دلیلوں ہی کافقط گذر ہوتا ہے، اور تا حد نظر ثابت ہونے کے بعد اس کے اثرات اور اعمال انسان کے اعضا و جوارح سے رونما ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اصول دین میں تقلید کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ ہر بالغ وعاقل کے لئے ضروری ہے کہ ان چیزوں کو دلیلوں کے ذریعہ حاصل کرے، اگر انسان نے اپنے عقائد کو اساسی اور بنیادی دلیلوں کے ذریعہ حاصل کیا ہے تو اس کا دل اور اس کی عقل مطمئن ہوجائے گی اور اندرونی حیرانی و سرگردانی اور پریشانی سے نجات پاجائے گا، اس وقت انسان اپنی من پسند زندگی بسر کرسکتاہے ۔

بچے اور نوجوان صغر سنی اور نوجوانی کے ایام ہی تہذیب و تربیت کے لئے بھترین دن ہوتے ہیں، ان دنوں میں بچوں اور نوجوانوں کے دل و دماغ اور غلط افکارسے پاک و صاف رہتے ہیں یعنی ان کی ذھنیت کثافتوں سے محفوظ مثل کیمرہ کی فلم کے ہوتی ہے کہ جیسی چاہیں تصویریں اتار لیں ۔

اگر ان بچوں کی تعلیم و تربیت صحیح ڈھنگ اور عقائد کو دلیل و برہان کے ذریعہ بتائی جائیں تو ان کی عقل و روح میں وہ بات راسخ ہو جائے گی، اور ان کے بدن کا جزء لا ینفک ہو جائے گا، پس ایسے افراد جہاں کھیں بھی رہیں اور جیسے افراد کے ساتھ رہیں اٹھیں بیٹھیں معاشرت کریں، ہر گز گمراہ نہیں ہو نگے لہذا اگر ایسے افراد غیر مہذب معاشرہ اور سوسائٹی میں پروان چڑھیں تو بھی اس ماحول میں ڈھل نہیں سکتے، بلکہ یہ چاہیں تو پورے سماج و معاشرہ کو اپنے رنگ میں ڈھال دیں ۔

لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارا معاشرہ صحیح تربیت و تعلیم سے محروم ہے کیونکہ انھوں نے اپنے والدین سے بھی عقائد کو اسی طریقے سے حاصل کیا ہے لہذا اس کے مطابق اپنے بچوں کو بغیر دلیل و برہان کے عقائد کی تعلیم دیتے ہیں، لہذا ان کا عقیدہ محکم و مستحکم نہیں ہوپاتا، دوسرے ایسے بعض خرافاتی اور بے بنیاد مسائل کو دین اسلام کا جز اور عقائد کی مہم کڑی کے عنوان سے فکر کرتے ہیں اور انھیں باطل عقیدوں کے ساتھ پرائمری پہر ہائی اسکول اور انٹر کالج اور اس کے بعد یونیورسٹی میں تعلیم کے لئے جاتے ہیں اور یہاں پروہ مختلف افراد، متفرق عقائد کے لوگوں سے سروکار رکھتے ہیں، چونکہ ان کے عقیدہ کی بنیاد مضبوط نہیں ہوتی اور خرافاتی چیزوں کو مذھب کا رکن سمجھتے ہیں اس لئے مختصر سے ہی اعتراضات اور شبہات میں پریشان و متحیر ہوجاتے ہیں، علمی معیار و عقائدی معلومات کی کمی کی وجہ سے حق و باطل، اچھے اور برے، غلط و صحیح میں تمیز دے نہیں پاتے جس کے نتیجہ میں اصل دین اور روح اسلام سے بد ظن ہو جاتے ہیں، حیران و سرگردان زندگی بسر کرتے ہیں، یا کلی طور پر اسلام سے منھ موڑ لیتے ہیں، یا کم از کم ان کے اخلاق و رفتار اور اعمال پر اتنا گہر ا اثر پڑتا ہے کہ اب ان کے اعمال کی پہلی کیفیت باقی نہیں رہتی ہے اور احکام و عقائد سے لاپروا ہو جاتے ہیں ۔

اس طرح کی غلط تربیت اور اس کے اثر کو آپ معاشرے میں بخوبی مشاہدہ کر سکتے ہیں اور کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو ان بے چاروں کو ذلت و گمراہی کے اندھیرے سے نکالنے کی فکر کرے ۔

ہماری ذمہ داری

عقیدہ کی کمزوری، اور بے دینی، آنے والی نسلوں کو ایک بڑے خطرے سے دوچار ہونے کی دہمکی دی ہی ہے، سماج کا ہر فرد اور خصوصا دین کے لیڈران، مولوی، ذاکرین، والدین، مربی، استاد، مصنفین و مولفین اور مالدار یہاں تک کہ سبھی حضرات اس عظیم فاجعہ اور بڑی مصیبت کے ذمہ دار ہیں ۔

ہمیں چاہیے کہ ایک منظم اور صحیح پروگرام کے تحت عقائد و اخلاق کی تعلیم، دلیلوں کے ذریعہ سیدھے سادے افراد اور بچوں کے ذھن نشین کرائیں اور بے بنیاد، غلط ماحول اور رسم و رسومات کے خرافاتی عقائد کی بیخ کنی اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں، ان کے لئے آسان اور علمی کتابیں فراہم کریں، لائبریری بنائیں اور کم قیمت یا بغیر قیمت کے کتابیں ان کے اختیار میں قرار دیں، ہر ممکن طریقہ سے پڑھنے لکھنے کی طرف شوق و رغبت دلائیں ۔

سر دست یہ کتاب حاضر جوانوں اور نوجوانوں کی دینی معلومات میں اضافہ کےلئے ترتیب دی گئی ہے، اور اس کے لکھنے میں مندرجہ ذیل نکات کی طرف بہر پور توجہ رکھی گئی ہے ۔

۔ کتاب کے مطالب دلیل و برہان کی روشنی میں نہایت سادہ اور آسان انداز میں بیان کئے گئے ہیں اور عقلی و عقائدی مطالب کے لئے عقلی دلیلوں کا ہی سہارا لیا گیا ہے اور جو چیزیں تقلیدی اور ضروریاتِ اسلام سے ہیں جیسے فروع دین وغیرہ تو ان میں آیات اور روایات کو مد نظر رکھا گیا ہے اور ضروری مقامات پر حوالے کو حاشیہ میں لکھ دیا گیا ہے، اور بعض جگھوں پر اختصار کے سبب حوالے سے دوری اختیار کی گئی ہے ۔

۔ رسول خدا (ص) اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کی ولادت اور وفات کی تاریخوں میں چونکہ اختلاف پایا جاتا ہے اس لئے اختصار کے طور پر فقط ایک قول کو منتخب کیا گیا ہے اور باقی اقوال سے چشم پوشی کی گئی ہے ۔

۔ مولفین کو چاہیے کہ اپنے علمی مطالب کو آسان اور سادہ انداز میں بیان کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد استفادہ کر سکیں اور حتيٰ المقدور لکھنے میں اصولی و فلسفی اصطلاحوں سے گریز کیا جائے تاکہ کتاب لوگوں کو تھکانے اور مغز ماری کا سبب نہ بنے ۔

۔ مشکوک و مخدوش، بے فائدہ اور ضعیف مطالب سے اجتناب کیا گیا ہے ۔

۔ اس کتاب میں ان مہم مطالب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کا جاننا ہر مسلمان پر واجب ہے اور دین اسلام کے مفھوم کو خلاصہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے، تاکہ قارئین دلچسپی کے ساتھ پڑھیں اور پہر تفصیلی کتابوں کی طرف مائل ہوں۔ قارئین کرام اس مختصر سی کتاب میں فروع دین اور عقائد و اخلاق کے تمام مسائل کو بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ نہایت اختصار ملحوظ خاطر تھا تاکہ آپ حضرات دوسری تفصیلی کتابوں کی طرف رجوع کریں ۔

موجودہ کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے

پہلا حصہ، عقائد:

یعنی ایسے مطالب کو شامل ہے جو انسان کی عقل و فکر اور اعتقاد سے مربوط ہیں اور اصلاً اس میں کسی کی تقلید و پیروی کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ ان کو فقط عقلی دلیلوں سے ہی حل کیا جا سکتا ہے ۔

دوسرا حصہ، اخلاق:

اس میں وہ چیزیں بیان ہوئی ہیں جو انسان کی باطنی حالت اور خواہشات سے تعلق رکھتی ہیں، اس کے راہ حل اور سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرتی ہیں ۔

تیسرا حصہ، فروع دین:

یعنی احکام و قوانین جو انسان کے اعضا و جوارح سے تعلق رکھتے ہیں، کہ ان پر عمل کرنا ضروری و واجب ہے ۔

آخر میں ہم قارئین کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ کوئی اچھی تجویز ہو یا کوئی کمی نظر آئے تو مولف کی خدمت میں پیش کریں، تاکہ دوسرے اڈیشن میں اس کی اصلاح کی جا سکے ۔

قم ۔ حوزہ علمیہ ۔ابراہیم امینی

خرداد ۱۳۴۹/۱۹۷۰

پهلی فصل؛ خدا کی پہچان

علم کی اہمیت

اسلام علم و عقل کا دین ہے مسلمانوں سے دلچسپی کے ساتھ علم حاصل کرنے کو چاہتا ہے، اسلام لوگوں کی اہمیت علم و دانش سے دیتا ہے اور حصول علم کو تمام لوگوں پر واجب و لازم جانتا ہے، خداوند عالم نے قرآن مجید میں فرمایا: اے رسول (ص) پوچھو! بھلا جاننے والے اور نہ جاننے والے کھیں برابر ہو سکتے ہیں؟(۱) اور خدا قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: خدا مومنین کے مقام کو بلند کرتا ہے اور علماء کو سب سے بلند درجہ تک پھنچاتا ہے(۲) رسول (ص) خدا فرماتے ہیں: علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے(۳) آنحضرت (ص) نے فرمایا: عالم وہ ہے جو دوسروں کی معلومات اور اطلاعات سے فائدہ حاصل کرے اور اپنے علم میں اضافہ کرے ۔۔۔۔پُر اہمیت شخص وھی ہے جس کے اعمال و حسنات زیادہ ہوں، اور لوگوں میں بے اہمیت وہ ہے جس کے پاس علم و آگھی نہ ہو(۴) حضرت علی امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں: علم سے بھتر کوئی خزانہ نہیں ہے(۵)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: میں تمھارے جوانوں کو دو حال میں پسند کرتا ہویا علم حاصل کرنے والے یا تعلیم دینے والے ہوں اگر ایسا نہیں ہے تو انھوں نے کوتاہی کی ہے، اور ہر کوتاہی کرنے والا عمر ضائع کرتا ہے اور عمر کو برباد کرنے والا گنھگار ہے اور گنھگار کا ٹھکانہ جھنم ہے۔(۶) حضرت باقر العلوم (ع) فرماتے ہیں: جو شخص حصول علم میں رات و دن سرگرم رہے وہ اللہ کی رحمت میں شریک ہے۔(۷) حضرت سرورکائنات (ص) نے ارشاد فرمایا: اے ابوذر! علمی گفتگو میں ایک گھنٹہ رہنا، اللہ کے نزدیک ہزار راتوں کی عبادت سے افضل ہے، جس کی ہر رات میں ہزار رکعت نماز پڑھی گئی ہو۔(۸)

خدا کی پہچان

خدا وند عالم نے دنیا کو پیدا کیا اور اسے منظم طریقہ سے چلا رہاہے، کوئی بھی چیز بغیر سبب کے وجود میں نہیں آتی ہے مثال کے طور پر اگر ہم کسی نئے گہر کو دیکھیں تو یقین کریں گے کہ اس کا بنانے والا، کار گر و مزدور اور نقشہ کھینچنے والا انجینیرکوئی ضرور ہوگا، یعنی یہ گہر انھیں افراد کی زحمات کا نتیجہ ہے کسی کے خیال میں بھی نہیں آئے گا کہ یہ خودبخود تیار ہو گیا ہوگا ۔

اگر ہم ٹیبل پر قلم اور سفید کاغذ رکھ کر چلے جائیں اور واپسی پر دیکھیں کہ اس پر کسی نے لکھا ہے تو دیکھ کر ہمیں اطمینان سا ہوجائے گا کہ ہماری غیر موجودگی میں کوئی آیا تھا، اور اس پر اپنے آثار چھوڑ گیا ہے اگر کوئی کھے بھائی صاحب آپ کی غیر موجودگی میں یہ قلم خود ہی اس پر رواں ہو گیا اوراس نے یہ تمام چیزیں لکھ دی ہے تو ہم اس کی باتوں پر تعجب کریں گے اور اس کی بات غیر معقول قرار دینگے، اگر ہم کسی مقام پر خوبصورت تصویر بھترین پارک میں بنی ہوئی دیکھیں جو ہر ایک کا دل اپنی طرف لبھا رہی ہو تو کیا ہمارے ذھن میں یہ بات آئے گی کہ ہو نہ ہو یہ خود بخود بن گئی ہو گی ۔

ہم گاڑی میں باتیں کرتے ہوئے چلے جا رہے تھے اتفاق سے گاڑی رک گئی ڈرائیور کو اطمینان ہے کہ گاڑی بغیر وجہ کے نہیں رکے گی، کوئی نہ کوئی ضرور موٹر میں خرابی آئی ہے، اور بنانے کے لئے تمام کوششیں کر رہاہے ہم کھیں بھائی ٹھہر و ابھی گاڑی خود بخود صحیح ہوکر چلنے لگے گی !

ہمارے ہاتھ کی گھڑی چلتے چلتے رک گئی ہم نے بنانے والے کو دیا، کیا وہ کہہ سکتا ہے کہ یہ ابھی خود ہی سے ٹھیک ہوجائے گی ۔

آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی چیز کا وجود بغیر علت کے نہیں ہوتا ہے، اور اس کی تلاش ہر شخص کو ہوتی ہے، اب میں آپ سے سوال کروں یہ اتنی بڑی طویل و عریض دنیا بغیر کسی پیدا (بنانے والے) کرنے والے کے پیدا ہوگئی ہے؟ ہر گز ایسا نہیں ہے، اتنی بڑی اور منظم دنیا پھیلے ہوئے دریا، چمکتے ہوئے ستارے اور دمکتا ہوا سورج یہ رات دن کا آنا جانا، فصلوں کی تبدیلی، درختوں کے شباب، گلوں کے نکھار بغیر کسی بنانے والے کے نہیں ہو سکتا ۔

دنیا میں نظم و ترتیب

اگر ہم ایک ایسی عمارت دیکھیں جو نہایت منظم اور با ترتیب بنی ہوئی ہو کہ اس کے اجزاآپس میں اچھی طرح خوب ملے ہوئے ہوںاوراس میںرہنے والوں کیلئے تمام ممکن ضروریات کی چیزیںبھی باقاعدہ اپنی اپنی جگہ پرفراہم ہو یعنی اس میںکسی طرح کا کوئی عیب ونقص نظرنہ آرہاہواُجالے کے لئے بجلی، پینے کے لئے بھترین پانی، سونے کے لئے کمرہ، کچن، مہمان خانہ، حمام، پیشاب خانہ اورجاڑے میں گرم کرنے کے لئے ہیٹر، گرمی میں سرد کرنے کے لئے ( AC ) اورکولربھت ہی نظافت سے پانی کے پائپ اوربجلی کے تار پھےلے ہوئے ہوں، اور اس کی بناوٹ میں ڈاکٹری پھلوؤں پر خاص توجہ دی گئی ہو، سورج کی ٹکیا پورے طور پر اس گہر میں نور چھڑک رہی ہو، جبہم یہ ملاحظہ کرتے ہیں تو ہماری عقل فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ یہ ہر لحاظ سے منظم گہر خود بخود نہیں بنا ہوگا، بلکہ اس کے بنانے اور سنوارنے والا کوئی با ہوش مدبر، دقت بیں، نہایت ظرافت سے نقشہ کے مطابق بنایا ہے ۔

اس مثال کے ذکر کے بعد چاہتا ہوں کہ اپنی روزانہ کی زندگی پر آپ لوگوں کی توجہ مبذول کراؤں انسان اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے پانی اور کہانے کا محتاج ہے کہ کہانا کہائے اور پانی پئے اور بدن کے خلیوں ( CELLES ) کی ضروریات کو پورا کرے تاکہ بدن کے تمام خلیہ زندہ اور اپنے کاموں میں مشغول رہکر ہماری زندگی کو اچھی طرح قائم و دائم رکھیں، ضروری ہے کہ مختلف انواع کے کہانے کہائیں اور ان کو فوت ہونے سے بچائیں ورنہ انھیں کے ساتھ زندگی کے چراغ مدہم ہونا شروع ہوجائیں گے ۔

انسان اپنی زندگی کے لئے مفید ہوا کا نیاز مند ہے تاکہ اس کو جذب کرے اور داخلی جراثیم کو باہر نکال کر حیات کو تازگی بخشے، آپ ملاحظہ کریں، کس طرح ہماری زندگی کو بھترین بنانے کے لئے ضروریات کی تمام چیزیں خارج میں موجود ہیں اگر کہانا تلاش کریں تو مختلف انواع و اقسام کے کہانے موجود ہیں اگر زندگی کے لئے گیھوں، چاول، سبزی، پھل اور گوشت وغیرہ کی تلاش ہوتو تمام کی تمام چیزیں خارج میں موجود ہیں، اگر پانی یا ہوا کی ضرورت ہوتو باہر موجود ہے پاؤں ہوں تو کہانے کی تلاش میں نکل سکتے ہیں آنکھیں ہوں تو مناسب اچھی غذائیں دیکھ سکتی ہیں اور ہاتھ ہوں تو اٹھا سکتے ہیں، اور پیدا کرنے والے نے ہاتھ کو بھی کیا خلق کیا ہے کہ پورے طور پر ہمارے اختیار اور ہماری ضروریات کو مختلف انداز میں پورا کرنے کے لئے تیار ہے جس طرح اور جس وقت چاہیں اٹھائیں بیٹھائیں فقط ہمارے ارادہ کے محتاج ہیں، جیسا ارادہ ہو ویسا کریں، بند کرنا چاہیں تو کھلے نہ، اور کھولنا چاہیں تو بند نہ ہو، کس قدر تعجب خیز ہے ہاتھوں کی بناوٹ اور اس میں انگلیوں اور ھتھیلیوں کی ظرافت، ہونٹوں کو پیدا کیا تاکہ منھ کو بند رکھیں لقمہ باہر آنے سے محفوظ رہے ۔

مشکل ترین مسئلہ یہ ہے کہ بدن کی ضروری غذائیں جو رنگ برنگ اور مختلف اقسام کے ساتھ پائی جاتی ہیں کیا یہ اتنی آسانی سے بدن کے خلیوں کے لئے لائقِ استفادہ ہو سکتی ہیں؟ ہر شخص کہہ سکتا ہے، نہیں بلکہ اس میں بھترین طریقہ سے تغیر و تبدیلی واقع ہو، تاکہ وہ بدن کے استفادہ کے مطابق ہو سکے، انسان کی داخلی مشینری ( Machinery ) غذا کو چار مرحلہ کے بعد ہضم کے لائق بناتی ہے لہذا (بطور عبرت) خلاصة ً قارئین کے پیش خدمت ہے ۔

پہلا مرحلہ:

خدا وند عالم نے ہمارے منھ میں دانت جیسی نعمت دی جو غذا کے مطابق لقمہ کو چبا کر ریزہ ریزہ کرنے کے کام آتے ہیں، اور زبان میں حرکت عطا کی تاکہ لقمہ کو مناسب دانتوں کی طرف ھدایت کرے اور منھ کے اندر بعض حصوں کو ایسا منزہ بنایا جو کہانے کے ذائقہ اور اس کی اچھائی و خرابی، مٹھاس اور تلخی کو دماغ کی طرف منتقل کرتے ہیں، اور اسی لقمہ (غذا) کے مطابق، مرطوب اور نرم کرنے کے لئے مخصوص پانی چھوڑتے ہیں، تاکہ وہ لقمہ آسانی سے چبانے اور نگلنے کے لائق ہو جائے اس کے علاوہ یہ منھ کے پانی غذا کو ہضم کرنے میں کافی مدد کرتے ہیں اور خود اس کے اندر شیمیائی اور کیمیائی طاقتیں بہر پور پائی جاتی ہیں ۔

دوسرا مرحلہ:

جب دانت اپنے کام سے فارغ ہوجائے یعنی لقمہ نگلنے کے لائق ہو جائے تو غذا منھ کے راستہ کے ذریعہ معدہ میں پھونچ جاتی ہے، لقمہ کو نیچے جاتے وقت چھوٹی زبان (کوا) ناک اور سانس کے سوراخ کو بند کر دیتی ہے اور اس مخصوص پردہ کے ذریعہ ناک و سانس کے راستے کو بن کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کہانا ناک کے سوراخ میں نہ چلا جائے ۔

تیسرا مرحلہ:

کھانا کچھ دیر معدہ میں رہتا ہے تاکہ وہ ہضم کی صلاحیت پیدا کر لے، معدہ کی دیواروں میں ہزاروں چھوٹے چھوٹے غدود پائے جاتے ہیں جس سے خاص قسم کا سیال پانی نکلتا ہے لہذا اس کے ذریعہ کہانا ہضم اور بھنے والے پانی کے مانند ہوجاتا ہے ۔

چوتھا مرحلہ:

غذا پتلی نالیوں کے ذریعہ (آنت) پت کی تھیلی میں جاتی ہے اور وہاں پر بڑا غدود جس کو (لوزالمعدہ) کہتے ہیں، جس سے مخصوص قسم کا، سیال اور غلیظ پانی نکلتا ہے جو غذا کو ہضم کرنے کے لئے نہایت ہی ضروری ہے، کہانا آنت میں بھنے والی چیزوں کی طرح رہتا ہے، اور اس آنت کی دیواروں پر لگے ہوئے غدود اس سے غذائی مواد حاصل کرتے ہیں، اور اس مواد کو خون کی صورت میں تبدیل کر کے تمام بدن میں پھنچاتے ہیں اور دل جو برابر حرکت میں رہتا ہے، ان قیمتی مواد کو خون کے ذریعہ بدن کے تمام حصوںمیں بھیجتا ہے اور اس طریقہ سے انسان کے بدن کے تمام خلیے اپنی اپنی غذائیں حاصل کرتے ہیں ۔

توجہ کی بات ہے کہ انسان کے عضلات اور دنیا کی چیزوں میں کس قدر ارتباط اور رابطہ پایا جاتا ہے، کیا اب بھی کسی میں ہمت ہے جو کھے یہ دنیا خود بخود پیدا ہوگئی ہے !

اگر ہم اپنے بدن کی ساخت پر نظر ڈالیں اور اعضائے بدن کے اندر جو دقیق و عمیق ریزہ کاری اور باریک بینی کا مظاہرہ کیا گیا ہے غور و فکر کریں تو تعجب کی انتھاباقی نہ رہے گی کہ اس بدن کے اجزا اور دنیاوی چیزوں کے درمیان کیسا گہر ا تعلق اور رابطہ پایا جاتا ہے جس سے ہمارے لئے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ انسان اور دوسری تمام چیزیں، خود بخود وجود میں نہیں آئی ہیں ۔

بلکہ پیدا کرنے والے نے بھت ہی تدبیر اور ذرہ بینی اور تمام ضروریات کو مد نظر رکھنے کے بعد خلق فرمایا ہے، کیا خدا کے علاوہ کوئی ہو سکتا ہے جو انسان اور دنیا کے درمیان اتنا گہر ا رابطہ پیدا کر سکے؟ کیا طبیعت جس میں کوئی شعور نہیں ہے انسان کے ہاتھوں کو اس طرح موزوں اورمناسب خلق کر سکتی ہے؟ کیا طبیعت کے بس کا ہے جو انسان کے منھ میں ایسا غدود رکھے جس سے انسان کا منھ ہمیشہ تروتازہ بنا رہے؟ کیا چھوٹی زبان (کوا) جو سانس اور ناک کے مقام کو ہر لقمہ اور ہر قطرہ پانی سے محفوظ رکھتی ہے خود بخود بن جائے گی؟ کیا یہ معدہ کے غدود جو غذا کے لئے ہاضم بنتے ہیں خود بخود خلق ہوئے ہیں ؟وہ کونسی چیز ہے (لوزالمعدہ) جو بڑے غدود کو حکم دیتی ہے کہ وہ سیال اور غلیظ پانی کا غذا پر چھڑکاؤ کرے؟ کیا انسان کے دو عضو اپنے فائدہ کا خود خیال رکھتے ہیں ؟وہ کیا چیز ہے جو دل کو مجبور کرتی ہے کہ وہ رات ودن اپنے وظائف کو انجام دے اور پروٹین ( Protein ) حیاتی ذرّات کو بدن کے تمام حصوں میں پھنچائے؟ ہاں، خداوند عالم کی ذات ہے جو انسان کے عضلاتی مجموعے کو صحیح طریقہ اور اصول پر منظم رکھتے ہیں۔

بچپنے کا زمانہ

اب ہم اپنی زندگی کے دوسرے پھلوؤں پر بھی نظر ڈالیں، جب ہم نے دنیا میں آنکھیں کھولیں، تو اتنے لاغر و کمزور تھے کہ بات کرنے کی بھی تاب نہیں رکھتے تھے چل کر معاش فراہم کرنا کیسا؟ ہمارے ہاتھوں میں تو لقمہ اٹھانے کی طاقت نہیں تھی جو اٹھاتے اور منھ میں رکھتے، منھ میں کیا رکھتے کہ چبانے کے لئے دانت نہیں تھا، معدہ میں ہضم کرنے کی صلاحیت موجود نہیں تھی، اس حال میں سب سے بھترین غذا خداوند عالم نے دودھ کو ہمارے لئے قرار دیا ۔

جب ہم نے دنیا میں آنکھیں کھولی تو خدا نے اس سے پھلے ہی ماں کے سینہ میں ہماری غذارکھ چھوڑی تھی، اس کے دل میں ہماری محبت اور الفت کی جگہ دی تاکہ رات و دن کے ہر لمحات میں ہمارے لئے زحمت و مشقت برداشت کرے، ہماری زندگی کو اپنی زندگی ہمارے آرام کو اپنے لئے آرام سمجھے جب تھوڑا بڑے ہوئے ہاتھ پاؤں آنکھ کان اور معدہ کی قوت کے سبب سنگین غذاؤں کی طرف ہاتھ بڑھانا اور معمولی دانتوں سے کہانا شروع کیا۔

انصاف کریں

کس نے ہمارے لئے محبت پیدا کی؟ اور ہمارے بچپنے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ماں جیسی شفیق و مہر بان خاتون بنایا؟ کس نے اس وسیع و عریض دنیا، چمکنے والے ستارے سورج اور چاند کو خلق کیا؟ کس نے اس دنیا کو منظم و مرتب پیدا کیا؟ کس نے زمین اور چاند کو عمیق حسابوں سے رواں دواں کیا؟ یہ جاڑے، گرمی، برسات اور خزاں کو کس نے معین فرمایا؟ !

آنکھ، کان، زبان، معدہ، دل، کلیجہ، آنت، پھیپھڑا، ہاتھ، پاؤں، دماغ اور دوسرے تمام بدن کے عضلات اس مہارت سے کام کرنے والے کس نے بنائے ہیں؟

کیا ممکن ہے بے شعور و بے ارادہ طبیعت، حیوان و انسان کے اعضا کو پیدا کرنے کی علت بن سکتی ہے؟ جب کی آنکھ جیسا حصہ، نہات دقت و باریک بینی کو گھیرے ہوئے ہے نہیں ہر گز ایسا ممکن نہیں ہے بلکہ خدائے مہر بان نے ان کو پیدا کیا ہے وھی ہے، جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، اور زندہ رکھتا ہے اور مارتا ہے، خدا ہی ہے جو بندوں کو دوست رکھتا ہے اور ان کے لئے تمام نعمتوں کو پیدا کرتا ہے ہم خدا کو چاہتے ہیں اور اس کے سامنے عاجزی و فروتنی سے سر جھکاتے ہیں، اس کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں، اور اس کے علاوہ کسی کو مستحق عبادت و اطاعت نہیں جانتے، اور اپنے سر کو دوسروں کے سامنے عاجزی و ذلت سے نہیں جھکاتے ہیں ۔

ہر موجود کے لئے علت کا ہونا ضروری ہے

ہم جن چیزوں کی تحقیق کرنا چاہتے ہیں اس کے وجود اور موجود ہونے میں کیسے فکر کریں؟ اس مطلب کو ہم اپنے وجدان سے درک کر سکتے ہیں کہ یہ موجود خود بخود وجود میں نہیں آئی ہے موجود کے لئے وجود، عینِ ذات نہیں ہے مقام ذات میں وجود و عدم سے خالی ہے اور وجود و عدم دونوں ہی اس کو چاہتے اور یہ دونوں کی قابلیت رکھتے ہیں ایسے موجود کو ممکن کہتے ہیں مثلا پانی پر توجہ کریں ہم وجداناً کھیں گے کہ پانی در حقیقت نہ وجود ہے اور نہ ہی عدم، نہ بالذات وجود چاہتا ہے اور نہ عدم بلکہ دونوں کی نسبت مقام اقتضا اور خواہش ہے وہ چاہے وجود کو لے کر موجود ہوجائے اور چاہے تو عدم ہی رہے۔ پانی کی طرح دنیا کی تمام چیزیں مقام ذات میں اپنے وجود و عدم سے خالی ہیں یہاں پر ہماری عقل کھتی ہے موجودات چونکہ مقام ذات میں خود یہ وجود نہیں رکھتی ہیں، اگر چاہیں تو وجود میں آجائیں تو چاہیے کہ ایک دوسرا عامل ہو جو اس کے نقائص اور کمی کو دور کرے تاکہ وہ چیز موجود اور ظاہر ہوسکے ۔

مقام ذات میں تمام موجودات فقیر اور ضرورت مند ہیں جب تک کہ ان کی احتیاج پوری نہ ہو ان پر وجود کا لباس نہیں آسکتا ہے اور وہ چیز موجود نہیں ہو سکتی ہے، تمام دنیا چونکہ اپنی ذات میں کمی و نقص رکھتی ہے اور خود مستقل اور اپنے پیروں پر نہیں ہے لہٰذا ممکن ہے، تو چاہیے ایک کامل مستقل اور بے نیاز وجود رکھنے والا جس کا وجود خود عین ذات ہو، اور اس کے لئے ممکن ہونے کا تصور بھی محال ہو، آئے اور اس کو وجود کا لباس پھنائے ایسے وجود کامل کو واجب الوجود اور خدا کہتے ہیں، خدا کی ذات عین وجود ہے اور اس کے لئے عدم و نابودی اصلاً متصور نہیں ہے، یعنی خود اس کا وجود عین ذات اور مستقل ہے (جیسے دال نمکین ہے نمک کی وجہ سے اور نمک خود اپنی وجہ سے نمکین ہے) اور تمام دنیا اور موجودات اس کے ضرورت مند و محتاج ہیں اور اسی سے اپنا وجود حاصل کرتے ہیں۔