سبھي كے جاننے كي باتيں

سبھي كے جاننے كي باتيں0%

سبھي كے جاننے كي باتيں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

سبھي كے جاننے كي باتيں

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

مشاہدے: 12766
ڈاؤنلوڈ: 4079

تبصرے:

سبھي كے جاننے كي باتيں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12766 / ڈاؤنلوڈ: 4079
سائز سائز سائز
سبھي كے جاننے كي باتيں

سبھي كے جاننے كي باتيں

مؤلف:
اردو

دوسری فصل؛ نبوت

نبوت

خداوند عالم کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کی ھدایت کے لئے احکام کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کرے اس مطلب پر تین دلائل پیش کررہے ہیں ۔

پہلی دلیل

اس لئے کہ انسان کی پیدائش کا ھدف یہ نہیں ہے کہ ایک مدت تک اس دنیا میں رہے، اور اللہ کی نعمتوں کو استعمال کرے اور ہر طرح کی عیش و عشرت یا دنیاوی ہزاروں دکھ درد اور پریشانیوں کے داغ کو اپنے سینہ پر برداشت کرکے رخت سفر باندھ کر فنا کے گھاٹ اتر جائے، اگر ایسا ہے تو انسان کی خلقت عبث و بے فائدہ ہوگی!(۱۸)

جب کہ خدائے تبارک و تعاليٰ کی ذات ایسے کاموں سے پاک اور مبرا ہے۔

انسان، خداوند عالم کی بھترین و افضل ترین مخلوق ہے اور اس کو پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کے ذریعہ کمالات و فضائل کے اعليٰ مرتبہ پر پھونچ جائے تاکہ قیامت کے دن بھترین ثواب و جزا کا مستحق قرار پائے۔

لہٰذا پروردگار عالم کی ذات نے انسان کو نظم و قانون کا محتاج پایا تو ان کے لئے انبیاء (ع) کے دستور العمل بھی بھیجا تاکہ انسان کو تعلیم دیں اور انسان کو ضلالت و گمراہی کی تاریکی سے نکالیں، یہ وھی احکام ہیں جو ساتھ قوانین اور انسان کی زندگی اور آخرت دونوں کو سدھارتے ہیں، لوگوں کو

زیادتی اور زور و زبردستی سے روکتے ہیں اور انسان کی آزادی کے حقوق کے محافظ ہیں نیز انسان کو کمال و صراط مستقیم اور اللہ تک پھونچاتے ہیں ۔ کیا انسان کی ناقص عقل ایسا جامع دستور العمل اور منظم پروگرام لوگوں کے حوالے کر سکتی ہے؟ ہر گز ممکن نھیں، اس لئے کہ انسان کی عقل اور اس کی معلومات ناقص و محدود ہے،لوگوں کی عقل اچھے، برے جلوت و خلوت انفرادیت و اجتماعیت کے حالات پر کافی اور کامل معلومات نہیں رکھتی ہے ۔

اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ انسان نے ابتدائے خلقت سے لیکر آج تک ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور بے حد دولتوں کا سیلاب بہاد یا کہ محکم و کامل اور جامع انسانیت کے لئے قانون بنائے لیکن ابھی تک نہ بنا سکا، قانون تو بے شمار بنتے رہتے ہیں، لیکن کچھ ہی دنوں میں اس کی خامیاں اور غلطیاں کھل کر سامنے آجاتی ہیں لہذا یا تو لوگ اس کو پورے طور پر ختم کر دیتے ہیں یا اس میں تبدیلی اور نظر ثانی کے در پے ہو جاتے ہیں ۔

دوسری دلیل

خود انسان کی طبیعت میں خود خواہی اور خود غرضی کے میلان پائے جاتے ہیں لہذا وہ ہر طرح کے فوائد کو اپنے اور اپنے اقارب کے لئے سب سے زیادہ پسند کرنے لگتا ہے لہذا نتیجتاً یہ عادت و فطرت مساوات کا قانون بنانے سے مانع ہوتی ہے ۔

جب بھی انسان ارادہ کرتا ہے کہ کوئی ایسا قانون بنائے جس میں ہوائے نفس اور خود خواہی نیز خود پسندی کا کوئی دخل نہ ہو، اپنے اور پرائے ایک صف میں کھڑے ہوں اور ہر ایک کو ایک نگاہ سے دیکھا جا رہاہو لیکن کھیں نہ کھیں طبیعت اور خواہش نفسانی تو غلبہ کر ہی لیتی ہے لہذا عدل و انصاف پر مبنی قانون کا سد باب ہو جاتاہے ۔

تیسری دلیل

قانون بنانے والے حضرات انسان کے فضائل اور روحانی کمالات کا علم نہیں رکھتے اور اس کی معنوی زندگی سے بے خبر ہیں وہ انسان کی فلاح اور بھبود، مادیات کے زرق و برق اور دنیا کی رنگینیوں میں تلاش کرتے ہیں جب کی انسان کی روحانی اور دنیاوی زندگی کے درمیان ایک خاص اور محکم رابطہ پایا جاتا ہے فقط خداوند عالم کی ذات والا صفات ہے جو اس دنیا و ما فیھاکا پیدا کرنے والا ہے اور انسان کی اچھائی و برائی سے خوب واقف اور با خبر ہے،نیزتمام موجودات پر احاطہ کئے ہوئے ہے کوئی بھی چیز اس کے دست قدرت سے باہر نھیں، وھی ہے جو بلندی کی راہ اور ھلاکت کے اجتناب سے بخوبی واقف ہے لہذا اپنے قانون و احکام بلکہ انسانیت کی باگ ڈور ایسے حضرات کے حوالے کرتا ہے جو لوگوں کے لئے نمونہ اور اس کی زندگی آنے والوں کے لئے مشعل راہ ہوتی ہے ۔

اسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں خداوند عالم حکیم ہے کبھی بھی انسان کو حیرانی اور جہالت و گمراہی کے اتھاہ سمندر میں نہیں چھوڑ سکتا بلکہ اس کی مصلحت و لطف کا تقاضا یہ ہے کہ انبیاء کو قواعد و قانون کے ساتھ لوگوں کی ھدایت کے لئے مبعوث کرے ۔

انبیا، اللہ کے خاص بندے اور بساط بشر کی ممتاز فرد ہوتے ہیں جو خدا سے جس وقت چاہیں رابطہ پیدا کر سکتے ہیں اور جس چیز کی حقیقت معلوم کرنا چاہیں اسے معلوم کر کے لوگوں تک پھنچا سکتے ہیں اس طرح کے رابطے کو ”وحی“ کہتے ہیں وحی یعنی اللہ اور اس کے خاص بندے کے درمیان رابطے کو کہتے ہیں، انبیاء اپنی باطنی بصیرت سے دنیا کی حقیقت کا مشاہدہ کرتے ہیں اور دل کے کانوں سے غیبی باتیں سنتے اور لوگوں تک پھنچاتے ہیں ۔

نبی کے شرائط

۔عصمت:

نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے یعنی نبی کے پاس ایسی قدرت و طاقت موجود ہوتی ہے کہ جس کی وجہ سے گناہ کے ارتکاب اور ہر طرح کی خطا و غلطی اور نسیان سے محفوظ رہ سکیں تاکہ خداوند عالم کے احکام جو انسان کی ھدایت کے لئے بنائے گئے ہیں بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں تک پھونچا سکیں ۔

اگرنبی خود گناہ کا مرتکب ہو جائے اور اپنے قول کے برخلاف عمل کرنے لگے تو اس کی بات اپنے اعتبار و اعتماد سے گر جائے گی یعنی وہ اپنے اس فعل سے اپنی ہی باتوں کا قلع قمع اور اپنے عمل کے ذریعہ لوگوں کو برائی اور خدا کی نافرمانی کی طرف راہنمائی کر نے لگے گا، جب کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عملی تبلیغ زبان سے زیادہ موثر ہے اگر نبی غلطی و نسیان کا پلندا ہوجائے تو لوگوں کے دلوں سے محبوبیت اور اس کا بہر وسہ ختم ہوجائے گا اور اس کی باتوں کی معاشرے کے سامنے کوئی اہمیت و عزت نہ ہوگی ۔

۔علم:

نبی کے لئے ضروری ہے کہ ہر وہ قوانین جو انسان کی سعادت اور نیک بختی کے لئے لازم و ضروری ہیں اس سے خوب واقف ہو، اور ہر وہ مطالب و موضوع جو راہنمائی و تبلیغ کے لئے کارساز ہیں اس کا کماحقہ علم رکھتا ہو تاکہ انسان کی فلاح اور بلندی کے حصول کے لئے خاص پروگرام لوگوں کے اختیار میں دے سکے اور راہ مستقیم (سیدھا راستہ) جو فقط ایک راستہ ہے اس کے سوا کوئی راستہ نھیں، اس راہ کے عظیم اجزا کو باہم اور دقیق ملاکر لوگوں کے سامنے پیش کرے ۔

۔ معجزہ:

خارق عادت کام کو کہتے ہیں یعنی نبی کا اپنے دعويٰ نبوت کے اثبات میں ایسے کام کا انجام دینا جس سے تمام لوگ عاجز ہوں چونکہ نبی عادت کے خلاف کسی چیز کا دعويٰ کرتا ہے اور نظروں سے اوجھل دنیا اور اللہ کی ذات سے رابطہ رکھتا ہے اور معارف و علوم کو اسی سے حاصل کرتا ہے اور تمام احکام کو اسی کی طرف نسبت دیتا ہے تو ضروری ہے کہ نبی ایسے کام کو اپنے مدعيٰ کے لئے انجام دے جس سے اس زمانے کے تمام افراد عاجز و حیران ہوں اور دعويٰ چونکہ غیبی ہے لہذا معجزہ بھی عادت کے بر خلاف ہونا چاہیے تاکہ اس امر غیبی کو ثابت کر سکے ایسے کام کو معجزہ کہتے ہیں۔

خلاصہ چونکہ نبی خدا سے رابطے کا دعويٰ کرتا ہے تو ضروری ہے کہ خدا کے ہم مثل کام کو انجام دے تاکہ لوگ اس کی بات پر یقین کریں مخفی نہ رہے کہ انبیاء کے تمام پروگرام اسباب و علل کے دائرے ہی میں انجام پاتے ہیں، مگر بعض مقامات پر جہاں وہ اس کی ضرورت سمجھتے ہیں، معجزہ سے کام لیتے ہیں ۔

نبی کو پہچاننے کا طریقہ

یہ مسلم ہے کہ نبی ایک عظیم مقام و رتبے پر فائز ہوتا ہے جب چاہے خدا سے رابطہ پیدا کر سکتا ہے اور وحی کے ذریعہ حقائق کو حاصل کر سکتا ہے پیغمبر اور نبی میںما فوق العادت عصمت جیسی طاقت بھی موجود ہوتی ہے، (کہ جسکی وجہ سے گناہ اور نسیان وغیرہ سے محفوظ رہتے ہیں) اور یہ بھی معلوم ہے کہ ایسا مقام اور راز پنہانی ہر کسی کے بس کا نہیں ہے لہذا انسان ان دو راستوں کے ذریعہ نبی کی حقانیت و صداقت کو بخوبی معلوم کر سکتا ہے اور تشخیص دے سکتا ہے ۔

پہلا راستہ:

ایک نبی دوسرے (آنے والے) نبی کی خبر دے یا اس کی تصدیق کرے یا اس کے علائم اور قرائن کو بیان کرے ۔

دوسرا راستہ:

وہ اپنے دعوے کی صداقت اور حق گوئی کے لئے معجزہ پیش کرے، یعنی ایسے کام کو انجام دے کہ انسان اس جیسے کام انجام دینے سے عاجز ہو جب انسان دیکھے کہ کوئی پیغمبری کا دعويٰ کرتا ہے اور کھتا ہے کہ میں خد اکی طرف سے تمھاری ھدایت کے لئے مامور کیا گیا ہوں اور اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے ایسے کام کو انجام دے رہاہو جو انسان کے اختیار سے باہر ہے، پس یقین ہو جائیگا کہ یہ شخص سچا ہے اس لئے کہ اگر یہ جھوٹا ہوتا تو خدا اس کی معجزہ کے ذریعہ تائید نہ کرتا چونکہ جھوٹے کی تائید کرنا لوگوں کو جہالت میں ڈالنا ہے ایک امر قبیح ہے اور خدا کوئی قبیح امر انجام نہیں دیتا ہے مقام عصمت و نبوت کو پہچاننے کے لئے ان دو عمومی قاعدے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں پایا جاتا ہے ۔

لیکن جاننا چاہیے کہ عقلمندوں اور تحقیق کرنے والوں کے لئے دوسرا راستہ بھی کھلا ہوا ہے کہ لوگ قانونِ شریعت اور احکام اسلام کا بہ نظر غائر مطالعہ کریں،اور قانون اسلام کو دنیا کے اور دوسرے قوانین سے تقابل کریں اور اس کے امتیازات اور مصلحتوں کو خوب درک کریں، اس وقت نبی کی سیرت اور طور طریقہ نیز رفتار و گفتار کو اس کے آئینے میں تلاش کریں اور اس طریقے سے ان کے دعوے کی سچائی کی تائید اور تصدیق کر کے اپنے ایمان کو مضبوط کرسکتے ہیں، لیکن اس راہ سے آنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے یا یہ کہ خدا کا لطف خاص شامل حال ہو اور انسان ایمان کی قوت سے مالامال ہو، قرآن مجید نے انبیاء کے لئے معجزات کو بیان کیا ہے جو شخص قرآن کے آسمانی اور خدا کی کتاب ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے اس کو لامحالہ انبیاء کے معجزات پر بھی اعتقاد رکھنا پڑے گا جیسے حضرت موسيٰ علیہ السلام کے عصا کا اژدھاہونااور حضرت عیسيٰ علیہ السلام کا مردے کو زندہ کرنا وغیرہ کسی کے لئے قابل انکار نہیں ہے، جناب عیسيٰ علیہ السلام کا گھوارے میں باتیں کرنا قرآن کی نص ہے ۔

انبیاء کی تعداد

حدیثوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ انبیاء کی تعدادایک لاکھ چوبیس ہزار ہے جو لوگوں کی ھدایت کے لئے بھیجے گئے ہیں جس میں سب سے پھلے حضرت آدم (ع) اور آخر میں حضرت محمد مصطفی ابن عبد الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں(۱۹)

انبیاء کے اقسام: بعض انبیاء اپنے فرائض کو وحی کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں لیکن تبلیغ پر مامور نہیں ہوتے ۔بعض تبلیغ پر بھی مامور تھے ۔بعض صاحب دین اور شریعت تھے ۔ بعض انبیاء مخصوص شریعت لے کر نہیں آئے تھے، بلکہ دوسرے نبی کی شریعت کی تبلیغ و ترویج کرتے تھے اور ایسا بھی ہوا ہے کہ متعدد انبیاء مختلف شہر وں میں تبلیغ و ھدایت کے لئے مامور کئے گئے ہیں ۔

اولو العزم انبیاء:

حضرت نوحعلیہ السلام، حضرت ابراہیمعلیہ السلام، حضرت موسيٰ علیہ السلام، حضرت عیسيٰ علیہ السلاماور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، یہ صاحب شریعت تھے اور تمام انبیاء میں سب سے افضل ہیں، ان کو اولو العزم پیغمبر (ع) بھی کہاجاتا ہے۔

بعض انبیاء صاحب کتاب تھے: حضرت نوح (ع)، حضرت ابراہیم (ع)، حضرت موسيٰ علیہ السلام، حضرت عیسيٰ علیہ السلامحضرت محمد (ص)، اور باقی انبیاء صاحب کتاب نہیں تھے بعض انبیاء تمام لوگوں کیلئے مبعو ث کئے گئے تھے اور بعض مخصوص جمعیت و گروہ کیلئے مبعوث کئے گئے تھے ۔(۲۰)

حضرت محمد (ص) آخری نبی ہیں

اولو العزم انبیاء میں سے ہمارے نبی حضرت محمد ابن عبد اللہ (ص) ہیں آپ کی امت مسلمان کھلاتی ہے۔ آنحضرت (ص) اس وقت مبعوث برسالت ہوئے جب گذشتہ انبیاء کی کوششیں اور ان کی قربانیاں اور طولانی زحمات اپنا ثمرہ دکھا رہی تھیں، لوگوں کی دینی سوجھ بوجھ اس حد تک پھنچ چکی تھی کہ چاہتے تو بھترین اور کامل ترین قوانین کو اخذ کرتے اور بلند ترین معارف کو سمجھتے نیز گذشتہ انبیاء کے علمی آثار کو ہمیشہ باقی رکھ سکتے تھے، اس وقت حضرت محمد مصطفی (ص) مبعوث ہوئے، اور لوگوں کے اختیار میں ایک جامع اور مکمل دستور العمل قرار دیا ۔

اگر اسلامی قوانین اور اس کے احکام پر پابندی سے عمل کیا جائے تو انسان کی دنیوی و اخروی سعادت کو اسکے ذریعہ سے تامین کیا جا سکتا ہے اور اسی طریقے سے اس زمانہ اور آنے والی نسلوں کی خیر و صلاح کے لئے کافی ہیں۔ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ قواعد و قوانین اور معارف اسلامی میں تلاش و جستجو کرے اور اسلام کے قوانین کا دنیا کے اور قوانین سے تقابل کرے تو اسلام کے قوانین کی برتری اس کے اوپر روز روشن کی طرح واضح و ظاہر ہوجائے گی یھی علت ہے کہ آنحضرت (ص) آخری پیغمبر اور خاتم الانبیاء ہیں اور ان کے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا قرآن مجید نے آپ کو خاتم النبیین سے تعبیر کیا ہے(۲۱) حضرت محمد کے آخری نبی ہونے کا اعتقاد رکھنا، دین کی ضروریات میں سے ہے اور اس سے انکار کرنے والا مسلمان نہیں ہے ۔

ہمیشہ رہنے والا معجزہ

حضرت محمد مصطفی (ص) آپ صاحب معجزہ تھے اور اپنی زندگی کے مختلف ایام میں لوگوں کو معجزہ سے روشناس کرایا ہے اور کثرت سے حدیث اور تاریخی کتابوں میں اس کی طرف اشارہ ملتا ہے، ان سب کے علاوہ قرآن مجید ہمیشہ رہنے والا معجزہ اور آپ کی نبوت پر قطعی ثبوت ہے قرآن کریم خود اپنے کو معجزہ سے تعبیر کرتا ہے اور خدالوگوں سے کھتا ہے جو ہم نے قرآن مجید اپنے بندے (محمدمصطفی (ص) ) پر نازل کیا ہے اس پر شک کرتے ہو تو اس کے مثل ایک سورہ ہی لے آؤ ۔(۲۲) اورقرآن کھتا ہے اگر تمام جن و انس قرآن کا مثل لانے پر اتفاق کرلیں تب بھی نہیں لا سکتے ۔(۲۳)

اسلام کے دشمن اسلام سے ہر طریقے سے لڑنے کے لئے آمادہ ہو گئے کسی راہ کو باقی نہیں چھوڑا، اور خطرناک سے خطرناک جنگوں سے سامنا کرنے سے منھ تک نہ موڑا اور جانی و مالی بے انتھانقصان برداشت کئے لیکن قرآن سے جنگ کرنے کے لئے اصلاً آمادہ نہ ہوئے، ہاں اگر ان کے بس کا ہوتا تو قرآن کے سورہ کی طرح کسی ایک سورہ کا جواب لاکر رکھ دیتے! اگر ان کے اختیار میں ہوتا تو اتنی بڑی بڑی جنگوں کے مقابل سورہ لانے کو زیادہ ترجیح دیتے اور ہزارہازحمت و پریشانی سے سبکدوش ہوجاتے مثلِ سورہ قرآن کوئی سورہ پیش کرنے پر اصلاً قدرت ہی نہیں رکھتے تھے ۔(۲۴)

قرآن مجید آنحضرت (ص) کی تیئیس سال کی زندگی میں رفتہ رفتہ نازل ہوا ہے آںحضرت (ص) کے اصحاب ِکرام ان آیات کو حفظ کرتے تھے اس کے بعد جمع آوری ہوئی اور کتاب کی صورت میں لوگوں کے سامنے آگیا، قرآن مجید پہلی آسمانی کتاب ہے جس میں کسی طرح کی کوئی تغییر و تحریف نہیں پائی جاتی ہے، اور بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں کے سامنے موجود ہے ۔

قرآن کتاب عمل ہے:

اگر مسلمان دارین کی سر بلندی چاہتے ہیں اور انکی چھنی ہوئی شان و شوکت، جاہ و حشم واپس آجائے تو چاہیے کہ قرآن کے بیان کردہ محکم قوانین اور دستور کی پیروی و اتباع کریں ا ور اپنے تمام کاموں نیز تمام لا علاج امراض میں قرآن سے تمسک و توسل کر کے ان اجتماعی و انفرادی مشکلوں کو حل کریں ۔

حضرت رسول خدا (ص) کے حالاتِ زندگی

آپ (ص) کے والد عبد اللہ اور ماں کا نام آمنہ تھا سترہ ربیع الاول سن ایک عام الفیل کو مکہ معظمہ میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی، ستائیس رجب المرجب کو چالیس سال کی عمر میں مبعوث برسالت ہوئے، تیرہ سال مکہ میں رہکر لوگوں کو پوشیدہ اور ظاہری طور پر اسلام کی دعوت دیتے رہے اسی مدت میں ایک گروہ مسلمان ہوا اور آپ پر ایمان لے آیا۔ لیکن کفار اور بت پرست افراد ہر طرف سے اسلام کی تبلیغ کے لئے موانع اور رکاوٹیں کھڑی کر رہے تھے اور آںحضرت (ص) کو اذیت مسلمانوں پر سختی و عذاب سے کوئی لمحہ فرو گذاشت نہیں کرتے تھے، یہاں تک کہ آنحضرت (ص) کی جان ایک دن خطرے میںآ گئی لہٰذا مجبور ہو کر مدینہ کی طرف ھجرت فرمائی اور آھستہ آھستہ مسلمان بھی آپ سے آملے اور مدینہ شہر سب سے پھلے اسلامی حکومت کا پائے تخت اور فوجی اڈا بن گیا ۔ آںحضرت (ص) اس مقدس شہر میں دس سال تک احکام کی تبلیغ لوگوں کی راہنمائی اور اجتماعی امور کے سنبھالنے میں مشغول رہے اور اسلامی لشکر ہر وقت حریم اسلام کے دفاع کے لئے آمادہ رہتا ۔

ہمارے نبی (ص) ترسٹھ سال اس دار فانی میں رہ کر اٹھائیس صفر ھجرت کے گیارہویں سال دار بقا کی طرف رحلت فرماگئے اور اسی شہر مقدس (یثرب) مدینہ میں مدفون ہوئے ۔

آں حضرت (ص) بچپنے سے ہی با ادب سچے اور امانتدار تھے اسی وجہ سے لوگ آپ کو محمد امین (ص) کہتے تھے، اخلاقی لحاظ سے نیک، اپنے زمانہ کے لئے نمونہ تھے کبھی آپ (ص) سے جھوٹ اور خیانت دیکھی نہیں گئی کسی پر ظلم و ستم نہیں کرتے اور برے کاموں سے دوری، لوگوں کا احترام، خوش اخلاق و متواضع و بردبار تھے مجبور و بے سہاروں کے ساتھ احسان و مہر بانی سے پیش آتے آپ جو کہتے اس پر عمل کرتے تھے اسی پسندیدہ اخلاق کا نتیجہ تھا کہ لوگ ہر طرف سے اسلام کے گرویدہ ہونے لگے اور آزادی و اختیار کے ساتھ اسلام قبول کرتے تھے، امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں: ایک فقیر نے آنحضرت (ص) کے قریب آکر آپ (ص) سے سوال کیا حضرت نے ایک انصاری سے کھجور قرض لے کرسائل کو عطا کیا کافی دن گذر گئے مگر آپ اس کا قرض نہ چکا سکے پہر ایک دن طلبگار آیا اور اس نے اپنی کھجور کا مطالبہ کیا حضرت نے فرمایا: ابھی میرے پاس نہیں ہے جب ہو جائے گا تو میں انشاء الله دے دونگا، دوسری دفعہ آیا اور پہر وھی جواب سنا، تیسری مرتبہ جب اس نے اِس جواب کو سنا تو کھنے لگا: یا رسول اللہ ! کب تک یہ کہتے رہیں گے انشاء اللہ دونگا؟ پہر وہ آں حضرت (ص) کی شان میں گستاخی کرنے لگا حضرت اس کے نا زیبا کلمات سن کر مسکرانے لگے اور اصحاب سے فرمایا: کیا تم میں کوئی ہے جو مجھے کھجور قرض کے طور پر دے؟ ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ ! میں آپ کو دونگا فرمایا: اس مقدار میں (خرما) کھجور اس شخص کو دے دو، طلبگار نے کہامیں تو اس کے نصف کا طلبگار ہوں حضرت (ص) نے فرمایا اس نصف کو میں نے تجھے بخش دیا ۔(۲۵)

اسلامی احکام

دین اسلام کے قوانین فقط فردی عبادت اورظائف پرمشتمل نہیں ہیں بلکہ نظام اجتماعی کو بھی اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے انسان کی زندگی کے ہر ایک لمحات کے لئے دین اسلام، احکام اور دستور العمل رکھتا ہے جیسے اجتماعی سیاسی اور حقوقی زندگی کے مسائل، پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی (ع) انھیں قوانین کو اجرا کرنے کے لئے مسلمانوں پر حکومت کی انھیں پروگرام کے نافذ ہونے کی وجہ سے صدر اسلام کے مسلمانوں نے حیرت انگیز ترقیاں حاصل کیں اور محکم طاقتور حکومت کا قیام وجود میں آیا ۔ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام کے احکام (دنیا کے) تمام قوانین سے افضل و اکمل ہیں ۔ اگر بطور کامل اس کو اجرا اور اجتماعات میں اس سے استفادہ کیا جائے تو انسان سعادت و خوشبختی کے مراتب پر فائز ہو سکتا ہے، ظلم و زیادتی اپنی بنیاد سے ختم ہو جائے گی جنگ وجدال کی جگہ صلح و صفائی لے لے گی، اور فقر و بیکاری کا بوریہ بستر بندھ جائے گا ۔

ہمارا عقیدہ ہے، اسلام کے قوانین ناقص نہیں ہیں اور نہ ہی کسی کے کامل اور اصلاح کرنے کے محتاج ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ آنحضرت (ص) انسان کے واقعی مسائل و مصالح سے بخوبی واقف تھے اس لئے بھترین قوانین کو انسان کے اختیار میں دئے ہیں ۔

ہم عقیدہ رکھتے ہیں، جو بھی قانون قرآن مجید کے مخالف ہو وہ لوگوں کی مصلحت و مفاد کے لئے نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی حقیقت ہے، ہم یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں، ہماری سعادت مندی کا صرف ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ ہم اپنی زندگی کے تمام حالات میں دین اسلام کے احکام کی پابندی کریں ۔

ہمیں اطلاع ہے اسلامی فرقوں کی زبوں حالی اسلام کی وجہ سے نھیں، بلکہ یہ تمام بد بختی کا سر چشمہ قوانین اور احکام اسلامی سے سر پیچی اور رو گردانی کا نتیجہ ہے، جب ہم نے اسلامی احکام کو پس پشت ڈال کر اپنے اجتماعی درد کا مداوا دوسروں سے مانگنے لگے یعنی ہم نے اسلام کے فقط نام پر اکتفا کیا جس کے نتیجہ میں بد بختی کے یہ سیاہ بادل ہمارے اوپر منڈلانے لگے ۔

ہم اعتقاد رکھتے ہیں، اگر مسلمان چاہتے ہیں کہ اپنی عزت و بزرگی، شان و شوکت مثلِ سابق واپس آجائے اور دنیا کے ترقی پزیر ملکوں کی فہر ست میں ہمارا بھی شمار ہونے لگے تو ہمیں چاہیے کہ ہم حقیقی اور صحیح معنی میں مسلمان بن جائیں، اور تمام اسلامی قوانین کو اپنے اوپر نافذ کریں اپنے اجتماعی پروگراموں میں احکام قرآن کو حاکم قرار دیں جب تک قانون اسلام صفحہ قرطاس پر جملہ مرکبہ کی صورت میں رہے گا اور اس پر کوئی عمل در آمد نہ ہوگا تو ہمیں ترقی اور عظمت کے لئے سوچنا اپنے کو خواب غفلت میں ڈالنے کے مترادف ہوگا ۔