سبھي كے جاننے كي باتيں

سبھي كے جاننے كي باتيں0%

سبھي كے جاننے كي باتيں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

سبھي كے جاننے كي باتيں

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

مشاہدے: 12770
ڈاؤنلوڈ: 4079

تبصرے:

سبھي كے جاننے كي باتيں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12770 / ڈاؤنلوڈ: 4079
سائز سائز سائز
سبھي كے جاننے كي باتيں

سبھي كے جاننے كي باتيں

مؤلف:
اردو

تیسری فصل؛ امامت

امامت

نبی کی بحث میں بیان ہوا خداوند عالم پر انبیاء کا لوگوں کی سعادت و نیک بختی کے لئے قانون کے ساتھ بھیجنا واجب ہے، اور جس طریقہ سے نبی نے امانت و دیانت کے ساتھ اسلام کے احکام کو بغیر کمی و زیادتی کے لوگوں تک پھنچانے میں کوشش کی ایسے ہی رسول کے بعد ایسے شخص کا ہونا ضروری ہے جو احکام کو بغیر کمی و زیادتی کے لوگوں تک پھنچائے، یعنی دین کی حفاظت اور لوگوں کے دینی و دنیاوی امور کو انجام دے تاکہ انسان کے لئے کمال و سعادت کی راہیں وا رہیں، اللہ اور اس کے بندوںکے درمیان ایک لمحہ کے لئے فاصلہ و جدائی نہ ہو سکے ایسے شخص کو امام اور خلیفہ رسول (ص) کہتے ہیں۔

تمام ائمہ اطہار (ع) نبی کے علوم کے محافظ اور انسان کی کامل ترین فرد اور نمونہ عمل اور اسلام کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں خود کامل اور سعادت کی راہوں میں سیر کرتے ہوئے لوگوں کی ھدایت کرتے ہیں ۔

امام کے صفات

عصمت

نبی کی طرح امام کو بھی احکام دین اور اس کی تبلیغ و ترویج میں خطا و غلطی، سھو و نسیان سے منزہ ہونا ضروری ہے، تاکہ دینی احکام کسی کمی اور زیادتی کے بغیر کامل طور پر اس کے پاس موجود رہے اور لوگوں کو سیدھے راستے پر چلنے اور حق تک پھنچنے کا جو فقط ایک راستہ ہے اس کو مخدوش نہ ہونے دے، پس امام کا گناہوں سے محفوظ رہنا اور جو کچھ کھے اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے تاکہ اس کے قول کی اہمیت اور، بات کا بہر م باقی رہے اور لوگوں کا اعتماد اس سے زائل نہ ہو اگر امام گناہ کا مرتکب ہوگا تو اس کی یہ سیرت لوگوں کے لئے سر مشق عمل ہوگی جس سے نبی اور امام کے بھیجنے کا مقصد فوت ہوجائے گا نیز ان کا یہ کردار لوگوں کو اللہ کی معصیت پر ابھارنے کا باعث بنے گا، لہذا امام کے لئے ضروری ہے احکام اسلام پر سختی سے عمل کرے اپنے ظاہر و باطن کو اسلام کے سانچے میں ڈھالے تاکہ اس سے خطا اور غلطی کا امکان نہ رہ جائے ۔

مختصر یہ کہ امام کا معصوم ہونا ضروری ہے نیز امام کا دین کے تمام احکام سے واقفیت اور ہر وہ مطالب جو لوگوں کی راہنمائی اور رہبری کے لئے سزاوار ہیں اس کا جاننا ضروری ہے تاکہ انسان کے لئے سعادت و ھدایت کی شاہ راہ ہمیشہ کھلی رہے ۔

کمال اور فضیلت

پہلی بحث میں ذکر ہوا، امام بھی نبی کی طرح دین کے تمام احکام پر عمل اور اس کے جملہ اصول پر چل کر ایک نمایاں فرد اور کامل انسان ہوتے ہیں، لہذا وہ سیدھے راستے پر خود بھی چلتے اور دوسروں کو بھی ساتھ میں راہنمائی و ھدایت کرتے ہیں، یہ الٰھی معارف و حقائق کی گھٹیوں کو بخوبی درک کرتے ہیں دین کا شاہکار اور کامل ترین نمونہ ہوتے ہیں ۔

معجزہ

اخبار و احادیث سے استفادہ ہوتا ہے کہ ائمہ طاہرین (ع) بھی تمام انبیاء کی طرح صاحب اعجاز ہوتے ہیں، فرد بشر جس کام سے عاجز ہو اس کو یہ با آسانی انجام دے سکتے ہیں، نبی کی طرح ان کے لئے بھی امکان پایا جاتا ہے کہ اپنی عصمت و امامت کو ثابت کرنے کے لئے معجزہ کو بروئے کار لائیں اور اپنی حجت لوگوں پر تمام کریں ۔

ہاں اگر کوئی مزید تحقیق کرنا چاہے تو حدیث اور تاریخی کتابوں کی طرف رجوع کرے، اس پر حقیقت کھل کر آشکار ہو جائے گی کہ ائمہ اطہار (ع) نے کتنے مقامات پر معجزہ سے کام لیا ہے، البتہ جتنے معجزات و مطالب ائمہ (ع) کی طرف منسوب کئے گئے ہیں ہم ان سب کی حقیقت کا دعويٰ نہیں کرتے کیونکہ مجھول مطالب کا بھی امکان پایا جاتا ہے ۔

امام کی پہچان

امام کو دو راستوں سے پہچانا جا سکتا ہے:

پہلا راستہ:

نبی یا امام خود اپنے بعد آنے والے امام کی پہچان بیان کرے اور لوگوں کے درمیان اپنے جانشین کے عنوان سے مشخص کرے، اگر خود امام یا نبی اس فریضہ کو انجام نہ دیں تو لوگ امام کو معین نہیں کر سکتے اس لئے کہ عصمت اور اعلمیت کے مصداق کو فقط خدا یا اس کے نمائندے ہی جانتے ہیں اور دوسروں کو اس کی خبر نہیں دی گئی ہے ۔

دوسرا راستہ:

(معجزہ) اگر امام اپنی امامت کو ثابت کرنے کے لئے معجزہ اور (خارق عادت) چیزوں کی نشان دھی کرے تو اس کی امامت ثابت ہو جائے گی کیونکہ اگر وہ اپنے امامت کے دعوے میں جھوٹا ہے تو سوال یہ ہے کہ خدا نے معجزہ سے اس کی مدد کیوں فرمائی ؟

امام اور نبی میں فرق

امام اور نبی میں چند جہات سے فرق پایا جاتا ہے ۔

پہلا :

نبی دین اور اس کے احکام کو لانے والے ہوتے ہیں، لیکن امام اس کا محافظ اور معاشرے میں اس کو اجرا کرنے والا ہوتا ہے ۔

دوسرا:

نبی یا پیغمبر (ص) شریعت،اور احکام کو وحی کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں نیز نبی کا رابطہ خدا سے براہ راست ہوتا ہے، لیکن امام چونکہ شریعت لانے والے نھیںھوتے اس لئے احکام ان کے لئے وحی کی صورت میں نہیں آتے،بلکہ وہ احکام کو نبی سے دریافت کرتے ہیں اور نبی کے علم میں ھدایت و راہنمائی کے عنوان سے دخالت رکھتے ہیں ۔

تشخیصِ امام اور امام کی تعداد

جو شخص کسی قوم یا معاشرے میں نفوذ رکھتا ہو یعنی صاحب منصب و سرپرستی کے عنوان سے لوگوں کی راہنمائی کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں رکھتا ہو اگر وہ کچھ دنوں کے لئے جانا چاہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ کسی کو اپنا نائب مقرر کرے اور اس نائب و جانشین میں ساری وھی ذمہ داریاں پائی جانی چاہیے جو اس سے پھلے اصل شخص میں موجود تھیں، یعنی پورے معاشرے کی سرپرستی اس کے ہاتھ میں ہو، اس طرح کا کوئی بھی شخص بغیر کسی جانشین کے نہیں جاتا ہے، جس سے لوگوں کے تمام کام مفلوج ہو کر رہ جائیں چہ جائیکہ پیغمبر اسلام (ص) کہ آپ کو اس کا بخوبی علم تھا اور آپ اس کی اہمیت کے بھی زیادہ قائل تھے کیونکہ جب بھی کوئی دیہات یا شہر فتح ہوتا تو آپ فورا ً وہاں پر ایک گورنر معین فرماتے تھے ۔ اور جب بھی کھیں،جنگ کے لئے لشکر بھیجتے تو اس کے لئے کمانڈر اور یکے بعد دیگرے کئی فرد کو معین فرماتے تاکہ ایک شھید ہوجائے تو اس کی جگہ پر دوسرا رہے، اور آپ بھی کھیں سفر کے لئے جاتے تو اپنا جانشین کسی کو معین فرماتے جس پر مدینہ کے تمام کاموں کی ذمہ داریاں ہوتی تھیں ۔

کیا یہ ہوسکتا ہے کہ چھوٹے اور معمولی سفر کے لئے اپنا جانشین معین کرےں لیکن جب ہمیشہ کے لئے جا رہے ہوں تو کسی کو اپنا جانشین مقرر نہ فرمائیں؟ اور نئے مسلمان کہ جن کی بنیاد ابھی مضبوط بھی نہیں ہونے پائی تھی کہ آپ ان کو اس حالت پر چھوڑ کر چلے جائیں، کیا یہ کوئی سونچ سکتا ہے کہ آں حضرت (ص) اپنی پوری زحمت کو بے سہارا چھوڑ کر چلے جائیں گے؟ جب کہ آپ کو پھلے سے معلوم تھا کہ مسلمان بغیر معصوم راہنما کے زندہ اور اسلام تابندہ نہیں رہ سکتا ہے ۔

اس لئے قطعی طور پر کہاجا سکتا ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) نے اپنی زندگی میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کرنے میں ایک پَل کے لئے بھی فروگذاشت نہیں فرمائی اور جو بھی موقع آپ کو حاصل ہوا، دامے درمے، قدمے سخنے ہر طرح سے بخشش کرتے رہے، جو رسول (ص) اپنی زندگی کے ایک لمحہ کو اسلام اور مسلمین کے لئے تشنہ نہ چھوڑے ہمیشہ کے لئے اتنا بڑا داغ اپنے سینہ پر رکھ کر کیسے سو سکتا ہے؟ ! ۔

ہم نے اس سے پھلے ثابت کیا تھا رسول (ص) کے لئے امام کا معین کرنا نہایت ضروری ہے اس لئے کہ خدا اور رسول (ص) کے علاوہ عصمتِ باطنی سے کوئی واقفیت نہیں رکھتا ہے اگر ایسا نہیں کرتا تو گویا دین اسلام کو ناقص چھوڑ کر جارہاہے، ہمارا عقیدہ ہے کہ رسول خدا (ص) نے مسلمانوں کے لئے اپنا جانشین معین فرمایا ہے، حضرت نے نہ صرف اپنے بعد خلیفہ بلا فصل کو معین کیا ہے بلکہ اماموں کی تعداد (بارہ ہوں گی) اور بعض روایات میں ان کے اسمائے گرامی کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے ۔

حضور اکرم (ص) کا ارشاد گرامی ہے: میرے بعد قریش سے بارہ خلیفہ ہونگے ان کا پہلا شخص علی (ع) اور آخری مھدی (ع) موعود ہوگا، اور جابر کی روایت میں نام بہ نام اماموں کی تصریح موجود ہے ۔(۲۶)

پھلے امام حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام

ولادت با سعادت: ۱۳ رجب المرجب ھجرت سے ۲۳ سال پھلے ۔

محل ولادت: خانہ کعبہ ۔

والد کا نام: عمران، ابو طالب (ع) ۔

والدہ کا نام: فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیھا۔

سن مبارک: ۶۳ سال ۔

شہادت: ۱۹ رمضان کو ضربت اور ۲۱ رمضان سن ۴۰ ھجری ۔

محل: مسجد کوفہ ۔

مدفن: نجف اشرف ۔

رسول خدا (ص) نے آغاز بعثت سے لے کر اپنی وفات کے آخری لمحات تک نہ معلوم کتنی مرتبہ حضرت علی ابن ابیطالب (ع) کو اپنا جانشین اور مسلمانوں کے لئے امام و خلیفہ کے عنوان سے تعارف کرایا ۔

اپنی عمر کے آخری سال میں حج کے مناسک کو انجام دینے کے لئے مکہ تشریف لے گئے اور حج سے واپسی کے وقت مقام غدیر خم پر خداوند عالم کی طرف سے آیت نازل ہوئی، اے رسول (ص) ! جو حکم تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے پھنچادو، اور تم نے ایسا نہ کیا (تو سمجھ لو کہ) تو تم نے اس کا کوئی پیغام ہی نہیں پھونچایا اور (تم ڈرو نھیں) خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا، خدا ہر گز کافروں کی قوم کو منزل مقصود تک نہیں پھونچاتا۔(۲۶)

حضرت اس مقام پر ٹھہر گئے اور لوگوں کو بھی وھیں قیام کا حکم دیا اس وقت حضرت کے چاروں طرف ستر ہزار کا مجمع تھا حکم ہوا منبر بنایا جائے، فوراً اونٹوں کے کجاوہ کا منبر بنایا گیا، لوگوں سے آشنائی کرانے کے لئے حضرت (ص) منبر پر اپنے ساتھ علی بن ابی طالب (ع) کو بھی لے گئے اور ایک تفصیلی خطبہ کے بعد فرمایا، (لوگوں آگاہ رہو) میں جس کا موليٰ ہوں علی (ع) اس کے موليٰ ہیں اے خدا! جو علی (ع) کو دوست رکھے تو اسے دوست رکھ اور جو ان سے بغض رکھے تو اس کو دشمن رکھ ۔

لوگوں میں سب سے پھلے حضرت عمر نے آپ کے ہاتھوں پر بیعت کی اور کہا: اے علی (ع) !آپ کو مبارک آپ ہمارے اور جملہ مومنین و مومنات کے سر پرست اور اولی بالتصرف ہوگئے اس کے بعد لوگوں نے آپ کی بیعت کرنی شروع کردی پہر تین دن تک بیعت ہوتی رہی ۔حضور سرورکائنات نے شدید گرم ہوا جلانے والے سورج اور تپتی ہوئی زمین حجاز پر اسلام کے اس مہم کام کو انجام دیا اور آں حضرت (ص) نے علی ابن ابی طالب (ع) کی رسمی طور پر تاج پوشی فرمائی اور علی (ع) خلافت و امامت کے عظیم عھدہ پر فائز ہوئے(۲۷)

یہ پر اہمیت واقعہ اٹھارہ ذی الحجہ سن دس ھجری میں واقع ہوا، شیعیان اہلبیت (ع) اس دن کو عید زہر ا اور جشن و مسرت کا دن جانتے ہیں اور اس دن جشن ولایت اور محافل کے عنوان سے بہ کثرت پروگرام منعقد کرتے ہیں ۔

حضرت رسول خدا (ص) نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاکی شادی آپ سے کی اوراصحاب کبار کے ایک گروہ نے غدیر خم کے واقعہ کی روایت کی ہے، اور یہ روایت متواتر و قطعی ہے، اور سنی و شیعہ کی معتبر کتابوں میں اس کا تذکرہ موجود ہے، اور مذکورہ حدیث غایة المرام میں اہلسنت کے ۸۹ طریقوں سے نقل ہوئی ہے اور شیعوں کی کتابوں میں ۴۳ طریقوں سے منقول ہے۔آپ (ع) آں حضرت (ص) کے داماد ہو گئے، حضرت علی (ع) کے کمالات اور آپ کی خدمات، اسلام میں اس قدرزیادہ ہیں جن کو اس کتاب میں بیان کرنا محال ہے بلکہ دریا کو کوزے میں سمونے کے مترادف ہے آپ اسلام کی مدد، خدا کی عبادت، ترویج دین کے لئے جہاد کرتے آپ تمام جنگوں میں آگے آگے کسی دشمن خدا سے نہیں ڈرتے تھے حتيٰ سخت مواقع، خطرناک حوادث میں فداکاری و جانثاری سے ایک پل کے لئے بھی دریغ نہیں کرتے تھے، شجاعت و مردانگی میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھاعبادت پروردگار میں خود اپنی مثال اور یگانہ روزگار تھے علم و فہم میں بے مثال، خازن علوم نبی (ص) تھے حضرت (ع) زراعت اور کھیتی کو پسند فرماتے تھے نیز زمین کو زندہ کرنے اور اس پر درخت لگانے اور جگہ جگہ پانی کے کنویں کھودنے کو بھت دوست رکھتے تھے ۔

اس جہان فانی سے آنحضرت (ص) کی آنکھ بندھوتے ہی منافقوں کی گندی سیاست آپ کے فضائل و کمالات سے چشم پوشی آنحضرت (ص) کے حکم کی صریح مخالفت کے بعد کھنے کو رہ گیا، علی (ع) جوان ہیں اور حکومت کے امور بھت مشکل! اور علی (ع) نے دشمنان اسلام کے سر براہوں کا قلع قمع کیا ہے لہذا وہ آپ سے حسد کرتے ہیں، اور آپ کو حکومت کے لئے پسند نہیں کرتے، ایسے ہی بے بنیاد مضحکہ آمیز بہانے کی آڑ میں حضرت کو خلافت سے سبکدوش کر دیا ۔

حضرت علی (ع) پچیش سال خلفا کے دور حکومت کی تنہائی اور گوشہ نشین زندگی میں اپنے لائق چاہنے والوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف رہے، عثمان کے قتل ہوتے ہی لوگوں نے آپ کی بیعت کی اور چار سال نو مھینے ظاہری خلافت پر فائز رہے ۔

حضرت علی (ع) ترسٹھ سال اس دنیا میں رہے اور انیس رمضان سن ۴۰ ھجری ابن ملجم کی ضربت سے مجروح ہوئے اور ۲۱ رمضان المبارک کو جام شہادت نوش فرمایا:

پہلا واقعہ

حضرت علی (ع) کے دور حکومت کا واقعہ ہے، آپ کے خزانہ دار بیان کرتے ہیں خزانہ میں ایک مروارید کا ہار تھا آپ کی ایک بچی عید الاضحی (بقرہ عید) کے دن پھننے کے لئے عاریتاً لے گئی اس شرط کے ساتھ کہ تین دن میں واپس اور اگر گم ہوگیا تو اس کی قیمت ادا کرے گی ۔ حضرت علی (ع) بچی کے گلے میں ہار دیکھ کر پہچان گئے اور میرے پاس آکر کھنے لگے مسلمانوں کے مال میں تم نے خیانت کیوں کی ہے؟ میں نے پوری تفصیل آپ کے سامنے بیان کردی اور کہاکہ آپ کی بیٹی نے واپس کرنے کی ضمانت لی ہے، اور میں خود بھی اس کا ذمہ دار ہوں۔فرمایا: ابھی اسے واپس لے لو اور آ ئندہ تم نے ایسا کام کیا تو میں تجھے سزا دونگا، آپ (ع) کی بیٹی نے کہا: بابا جان !کیا بیت المال سے ہمیں اتنا بھی حق نہیں پھونچتا کہ ایک ہار چند دن کے لئے عاریہ کے طور پر لے سکیں؟!

حضرت علی (ع) نے فرمایا: بیٹی اپنے حق سے تجاوز نہ کرو ! کیا عید کے دن زینت کے لئے مہاجرین کی عورتیں ایسا ہی ہار رکھتی ہیں؟(۲۸)

دوسرا واقعہ

حضرت امیر المومنین (ع) نے ایک عورت کو دیکھا جو سر پر مشکیزہ لئے چلی جارہی ہے آپ (ع) نے فرمایا: مشک مجھے دیدے تاکہ میں تیرے گہر تک پھونچادوں اس سے مشک لیا اور راستہ میں احوال پرسی کرنے لگے اسی اثنا میں اس نے کہا: علی بن ابی طالب (ع) نے میرے شوہر کو ملک کی فلاں سرحد پر بھیجا تھا اور وہ وہاں قتل ہوگیا اس نے وارث میں چھوٹے چھوٹے یتیم بچے چھوڑے ہیں جو کہانے اور پھننے کے بھی محتاج ہیں لہذا میں مجبور ہو کر ان کے لئے محنت و مزدوری کر کے کہانے کا بندوبست کرتی ہوں، حضرت مشک اس کے گہر پھونچا کر بیت الشرف تشریف لائے اور نہایت کرب و پریشانی کی حالت میں رات بسر فرمائی ۔

صبح ہوتے ہی کہانے کی بوری اٹھا کر اس بیوہ کے گہر لے گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا عورت دیکھ کر پہچان گئی اور کہاخدا تم سے راضی و خوش ہو اور اللہ میرے اور علی (ع) کے درمیان فیصلہ کرے،آپ نے اس عورت سے فرمایا: کیا تو روٹی بنائے گی میں بچوں کو بھلاؤں اگر تو بچوں کو بھلائے تو میں روٹی بناؤں، عورت نے کہا: تم لاؤ میں روٹی بناتی ہوں، حضرت یتیم بچوں کو بھلانے اور خوش کرنے میں مشغول ہوگئے یہاں تک کہ اس نے کہانا پکا کر تیار کر دیا، تو آپ اپنے ہاتھوں سے بچوں کے منھ میں روٹی اور گوشت و کھجور کے لقموں کو ڈالتے اور کہتے جاتے تھے، اے میری آنکھوں کے نور نظر کہاؤ اور علی (ع) سے راضی ہو جاؤ پڑوس کی عورت نے حضرت کو دیکھ کر پہچان لیا اور بیوہ عورت سے کہایہ شخص امیر المومنین (ع) ہیں وہ بیوہ عورت دوڑی ہوئی حضرت کی خدمت میں آئی اور معذرت کے ساتھ کھنے لگی: یا امیر المومنین (ع) !میں آپ سے شرمندہ ہوں، حضرت (ع) نے فرمایا: تم علی (ع) کو معاف کردو کہ میں نے تیری خبر گیری نہیں کی علی (ع) تم سے بھت شرمندہ ہے ۔(۲۹)

دوسرے امام حسن بن علی علیہما السلام

ولادت با سعادت: ۱۵ رمضان المبارک سن ۳ ھجری

محل ولادت: مدینہ منورہ

والد کا نام: حضرت علی ابن ابی طالب (ع)

والدہ کا نام: فاطمہ بنت رسول خدا (ص)

سن مبارک: ۴۷ سال

شہادت: ۲۷ صفر المظفر سن ۵۰ ھجری

محل شہادت: مدینہ

مدفن: قبرستان بقیع (جنت البقیع)

حضرت علی (ع) نے اپنے فرزند امام حسن (ع) کو خدا کے حکم سے منصب امامت کے لئے معین فرمایا ۔(۳۰)

حضرت رسول خدا (ص) (امام حسن و حسین (ع) ) کو بھت چاہتے اور ان کے متعلق فرمایا کرتے تھے یہ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں ۔(۳۱)

حضرت امام حسن (ع) اپنے والد ماجد کی شہادت کے بعد مسند خلافت و حکومت پر جلوہ افروزھوئے لیکن معاویہ کی شدید مخالفت اور اس کے حیلہ و فریب کے سبب جنگ کی نوبت آگئی اور وہ وقت یہاں تک آ پھونچا کہ معاویہ کی فوج حضرت امام حسن (ع) کے روبرو کھڑی ہو گئی جب امام حسن (ع) نے اپنے سپاہیوں کے حالات اور ان کی کارکردگی کا معاینہ کیا تو ان میں اکثر کو خیانت کے جال میں پھنسا ہوا پایا لہذا آپ (ع) جنگ سے منصرف ہوکر معاویہ سے صلح کرنے پر مجبور ہوگئے ۔

امام حسن (ع) کے صلح کی بنیادی دو وجھیں تھیں:

پہلی وجہ

الف) حضرت کے فوجیوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن متفرق اور غیر منظم تھے اور ان میں اکثر یت ایسے افراد کی تھی جو ظاہر میں آپ کے ساتھ اور باطن میں معاویہ کے طرفدار تھے، معاویہ سے یہاں تک طے ہوچکا تھا کہ” ہم امام حسن (ع) کو پکڑ کر تمہارے حوالے کر دیں گے “ حضرت امام حسن (ع) نے دیکھا اگر اس حال میں ان سپاہیوں کے ساتھ جنگ کی جائے تو شکست یقینی ہے ۔

ب) اگر ان سے جنگ کا ارادہ کریں تو ان منافقوں سے داخلی جنگ اور آپس ہی میں خون خرابہ شروع ہوجائے گا اور اس اختلاف میں علی (ع) کے چاہنے والے کثرت سے شھید ہو جائیں گے نتیجہ میں مسلمانوں کی طاقت کمزور ہوجائے گی ۔

دوسری وجہ

معاویہ لوگوں کو فریب اور دھوکہ دینے کے لئے اپنے کو دین کا حامی و مددگار مظلوموں سے دفاع کرنے کا نعرہ بلند کرتا تھا اور کھتا تھا میرا مقصد اس جنگ سے اسلام کی ترویج اور قرآن کا بول بالا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

حضرت کو اطلاع تھی کہ معاویہ جھوٹ بولتا ہے، اور اس کو حکومت اور ریاست کے علاوہ کسی چیز سے سروکار نہیں ہے مگر اس مطلب کو آسانی سے لوگوں کو سمجھایا نہیں جا سکتا تھا۔

ان دو وجوہ کے علاوہ اور دوسرے اسباب کی بنا پر صلح کے لئے آمادہ ہوگئے، تاکہ معاویہ کی مکاری اور اس کی خباثت لوگوں پر آشکار ہوجائے اور تمام لوگ معاویہ اور سیرت بنی امیہ کو خوب پہچان لیں تاکہ آنے والے انقلاب کے لئے ایک بھترین راہ فراہم ہوسکے ۔

حضرت نے روح اسلام اور اصل دین کی بقا کے لئے صلح کا اقدام فرمایا اور صلح نامہ میں اپنے تمام شرائط کو اس سے باور کرایا تھا لیکن معاویہ نے ایک شرط کو بھی پورا نہ کیا، سن پچاس ھجری میں معاویہ کے حکم سے جعدہ بنت اشعث نے حضرت امام حسن (ع) کو زہر دے کر شھید کر ڈالا۔

امام حسن (ع) کا واقعہ

ایک شامی نے حضرت کو دیکھ کر گالیاں دینا شروع کر دیا جب وہ خاموش ہوا تو آپ اس کی طرف متوجہ ہو کر سلام کر کے مسکرا دئے اور فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ تو مسافر ہے اور میری حقیقت تجھ پر روشن نہیں ہے، اگر تو معافی مانگے گا تو تجھ سے راضی ہو جاؤنگا، اگر کوئی چیز طلب کرے گا تو عطا کرونگا، اگر راہنمائی چاہتا ہے تو راہنمائی کرونگا، اگر بھوکا ہے تو تجھے سیر کرونگا، اگر لباس نہیں رکھتا ہے تو لباس دونگا، اگر فقیر ہے تو غنی کردونگا، اگر بھاگ کر آیا ہے تو تجھے پناہ دونگا، اگر کوئی حاجت ہے تو حاجت روائی کرونگا، میرا گہر وسیع اور میرے پاس بھت مال ہے اگر تو میرا مہمان ہوگا تو تیرے لئے بھتر ہے ۔

جب شامی نے حضرت (ع) سے یہ تمام باتیں سنیں، گریہ کرنے لگا اور رو کر کھنے لگا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے خلیفہ اور لوگوں کے امام ہیں بیشک خدا بھتر جانتا ہے خلافت و امامت کو کہاں قرار دے، یابن رسول (ص) اللہ !آپ کی ملاقات سے پھلے میں آپ کا اور آپ کے والد کا سخت ترین دشمن تھا، اور آپ کو تمام لوگوں میں پست ترین آدمی سمجھتا تھا، لیکن اب آپ (ع) سے بے انتھامحبت کرتا ہوں اور آپ کو لوگوں میں بھترین شخص جانتا ہوں پہر وہ شخص حضرت کے بیت الشرف آیا اور جب تک مدینہ میں تھا حضرت کا مہمان رہا(۳۲)

تیسرے امام حضرت حسین ابن علی (ع)

ولادت با سعادت: ۳ شعبان سن ۴ ھجری

محل ولادت: مدینہ منورہ

والد کا نام: حضرت علی ابن ابی طالب (ع)

والدہ کا نام: حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ (ص)

سن مبارک: ۵۷ سال

شہادت: ۱۰ محرم الحرام سن ۶۱ ھجری

محل شہادت: کربلائے معلی

مدفن: کربلائے معلی

حضرت امام حسن (ع) نے خداوند عالم کے حکم سے اپنے بھائی امام حسین (ع) کو منصب امامت و خلافت کے لئے منتخب فرمایا:(۳۳)

حضرت امام حسن (ع) معاویہ کے زمانے میں نہایت سختیوں اور مشکلات کی زندگی بسر کر رہے تھے اس لئے کہ معاویہ دین اسلام کے احکام کو اپنے پیروں تلے روند رہاتھا اللہ اور اس کے رسول (ص) کے حکم پر اپنا حکم مقدم کئے ہوئے تھا، دوسرے معاویہ حضرت (ع) کے چاہنے والوں کو بلا عذر قتل، اور آپ کو اور آپ کے دوستوں کی ھلاکت کے لئے کسی بھی کام سے دریغ نہیں کرتا تھا ۔

یہاں تک کہ معاویہ فوت ہوا یزید اس کا جانشین تخت حکومت پر آتے ہی مدینہ کے گورنر (ولید) کو حکم دیا کہ حسین (ع) سے میری بیعت لے لی جائے اور اگر بیعت نہ کریں تو ان کا سر میرے پاس بھیجدو، اس حکم کو پاتے ہی ولید نے آپ کو طلب کیا اور یزید کا یہ پیغام آپ کے گوش گذار کیا، آپ (ع) نے غور و فکر کرنے کے لئے ایک شب کی مھلت مانگی حضرت نے یزید کی بیعت اور اس کی تصدیق میں اسلام کی بھلائی نہ دیکھی اپنی جان کو خطرہ میں دیکھ کر مدینہ سے کوچ کرنے کا ارادہ فرمایا، خدا کے حرم مکہ معظمہ میں پناہ لینے کے لئے اٹھائیس رجب کو روانہ ہوئے اور تین شعبان کو مکہ پھنچ گئے۔

امام حسین (ع) کے ساتھ یزید کے برتاؤ کی خبر عراق میں پھیلی اور کوفہ کے مع افراد جو حکومت معاویہ و یزید سے تنگ آچکے تھے حضرت کے لئے کثیر تعداد میں خط لکھا اور اس میں آپ کو عراق آنے کی دعوت دی اور ادہر حضرت بھی دیکھ رہے تھے کہ یزید دین اسلام کے ساتھ کیا بد سلوکی سے پیش آرہاہے، اپنی حکومت کو محفوظ رکھنے کے لئے اللہ و رسول (ص) کی مخالفت سے کوئی لمحہ فرو گزاشت نہیں کیا، اور اس بات کا پورا پورا خوف موجود ہے قانون اسلام کو مسخ کر کے اپنے گندے افعال کو اس کی جگہ پر رکھے، اور یہ وقت بھی آگیا ہے کہ فرزند رسول (ص) سے اپنی حکومت و سلطنت کی تصدیق چاہے اور ادہر یزید نے حاجیوں کے لباس میں منافقین کو بیت اللہ حضرت کو قتل یا اسیر کرنے کے لئے بھیج رکھا ہے، لہذا حضرت (ع) نے حج کو عمرہ سے بدل کر حرم خدا کی عزت کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے وہاں سے کوفہ کے لئے روانہ ہو گئے (یہ کوفہ وھی جگہ ہے جہاں حضرت نے پھلے مسلم بن عقیل کو بھیجا تھا اور اس میں آپ کے چاہنے والوں کی تعداد زیادہ تھی اور انھیں لوگوں نے آپ کو کوفہ آنے کی دعوت اور مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا) یزیدی فوج نے کربلا کے مقام پر آپ کو گھیر لیا آپ نے کوفہ کے لئے کہاتو ادہر سے یزید کا حکم آپھونچا جہاں ہیں وھیں روک لو، ان سے بیعت لے لو، اگر بیعت کرتے ہیں تو ٹھیک ہم آئندہ کے لئے غور و فکر کریں گے اور اگر بیعت نہیں کرتے تو ان سے جنگ کر کے ان کا سر میرے پاس بھیج دو، حضرت نے ذلت و رسوائی کے مقابلے میں شہادت کو ترجیح دی، اور اپنی مختصر سی فوج لے کر ٹڈی دل لشکر کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوئے اور کمال شجاعت کے ساتھ بھت سے دشمنوں کو جھنم کے حوالے کیا۔

آخر کار آپ، بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں انصار و اصحاب کے ساتھ جام شہادت نوش فرما کر ابدی نیند سو گئے ہم اہل بیت (ع) کے دوست دار اس دن کو غم و اندوہ کا دن قرار دیتے ہیں، حضرت (ع) اور ان شھیدوں کے غم کو تازہ رکھنے کے لئے مجلس عزا اور عزاداری برپا کرتے ہیں، تاکہ ہم میں اور ہماری نسلوں میں فداکاری ظلم کے سامنے استقلال اور حریمِ اسلام کے دفاع کے جذبات زندہ اور باقی رہیں کیونکہ حضرت نے اپنی شہادت انھیں مقاصد کے لئے دی ہے لہذا ہم بھی اس کو کبھی نہیں بھولیں گے، حضرت امام حسین (ع) نے ذلت سے سر بہ تسلیم ہونے کے بجائے مسلمانوں کو فداکاری، جانثاری، دشمنوں کے مقابل قیام، دین سے دفاع، اور عزت کے ساتھ مرنے کا عملی درس دیا ہے۔

بنی امیہ اور یزید جو جانشینِ رسول (ص) کے نام پر حکومت کرتے تھے ان کو ذلیل اور گھناؤنا کردار ذلیل کثیف اعمال پر خط بطلان کھینچ دیا، حکومت بنی امیہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا نیز ان کے برے ارادہ کو نقش بر آب کر دیا ۔

مجلس و عزاداری نوحہ و ماتم گریہ و زاری حضرت کے عظیم ھدف کو پورا کرنے کے لئے نہایت ضروری ہے اور ہم کو ان کے ھدف و مقصد پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں ۔

چوتھے امام حضرت علی بن حسین زین العابدین علیہما السلام

ولادت با سعادت: ۱۵ جمادی الثانی سن ۳۸ ھجری

محل ولادت: مدینہ منورہ

ماں کا نام: شہر بانو سلام اللہ علیھابنت یزد جرد (بادشاہ ایران)

والد کانام: امام حسین (ع)

سن مبارک: ۵۷ سال

وفات: ۲۵ محرم سنہ ۹۵ ھجری

محل وفات: مدینہ منورہ

مدفن: قبرستان بقیع (جنت البقیع)

حضرت امام حسین (ع) نے خدا وند عالم کے حکم سے اپنے فرزند حضرت علی بن الحسین زین العابدین (ع) کو منصب خلافت و امامت کے لئے منتخب فرمایا(۳۴)

حضرت امام سجاد (ع) عبادت خدا میں اس قدر سجدہ کرتے تھے کہ آپ کا لقب سجاد (ع) اور زین العابدین (ع) ہو گیاآپ واقعہ کربلا میں موجود تھے لیکن بیماری کے سبب جنگ میں شرکت نہ کر سکے ۔

کربلا کی واپسی پر کوفہ و شام میں آپ (ع) نے اپنے خطبہ کے درمیان اپنے والد کی حقانیت اور ان کے مقدس ھدف کی وضاحت فرمائی ہے اور ان شھیدوں کے راستہ کو حقانیت و دیانت کا راستہ بتایا ہے ۔ حضرت امام زین العابدین (ع) چونکہ ہمیشہ سختی اور عملی آزادی نہ ہونے کی وجہ سے علوم اور معارف اسلام کو لوگوں تک نہ پھونچا سکے اس لئے مجبوراً گوشہ نشین اور عبادت میں مشغول ہوگئے نیز دین اسلام کی ترویج اور تعلیم و تربیت کا ایک دوسرا راستہ اختیار فرمایا، اور وہ دعا ہے کہ جس میں دین اسلام کی تمام مہم چیزوں کو وضاحت سے بیان فرمایا ہے، اور معارف علوم اسلامی کا ایک دریا صحیفہ سجادیہ کی صورت میں لوگوں کے اختیار میں قرار دیا ہے جو آپ کی دعاؤں کا مجموعہ ہے کہ جسے زبور آل محمد (ص) بھی کہاجاتا ہے ۔

حضرت کا پسندیدہ مشغلہ یتیم و مسکین و نادار و مجبور اور بے سرپرست افراد کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ کر کہانا کہانا تھا اور گاہے اوقات تو خود اپنے ہاتھوں سے ان کو کھلاتے تھے مدینہ کے بھت سے ضرورتمند گہر انوں میں کہانا اور لباس دینا آپ کا خاص وطیرہ تھا، اور اکثر جب لوگ سوجاتے تو آپ رات کی تاریکی میں چہر ے کو ڈھاکے ہوئے دوش پر کہانوں کا گٹہر اٹھائے غریبوں اور فقیروں میں تقسیم کیا کرتے تھے، جس دن دیر ہوجاتی فقرا و مساکین آپ کے انتظار میں بیدار رہتے جب آپ کی زیارت ہوتی تو آپس میں کہتے تمھیں مبارک ہو وہ شخص آگیا ان کو نہیں معلوم تھا کہ یہ کہانا پھونچانے والا کون شخص ہے؟ جب حضرت کی وفات ہوئی اور کئی دن گذر گئے (اور کہانا ان کو نہ ملا) تو سمجھے کہ راتوں میں کہانا پھونچانے والے امام زین العابدین (ع) کے سوا کوئی اور نہ تھا، بس رونا اور پیٹنا شروع کر دیا(۳۵)

پانچویں امام حضرت محمد بن علی الباقر علیہما السلام

ولادت با سعادت: ۳ صفر ۵۷ ھجری

محل ولادت: مدینہ منورہ

والد کا نام: علی بن الحسین (ع)

والدہ کا نام: فاطمہ بنت امام حسن (ع)

سن مبارک: ۵۷ سال

شہادت: ۷ ذی الحجہ سن ۱۱۴ ھجری

محل وفات: مدینہ منورہ

مدفن: قبرستان بقیع

حضرت امام زین العابدین (ع) نے خدا کے حکم سے اپنے فرزند امام محمد باقر (ع) کو منصب امامت و حکومت کے لئے منتخب فرمایا(۳۶)

آپ کی علمی قابلیت اس قدر زیادہ تھی کہ لوگ آپ کو باقر العلوم (ع) کے لقب سے پہچانتےتھے۔ تمام علمی طبقوں میں آپ کو قابل قدر نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا اور تمام حضرات آپ کے سامنے نہایت فروتنی اور انکساری کے ساتھ مثل طفلِ مکتب دوزانوں ہو کر بیٹھتے تھے اور اپنی مشکلات کو بیان کرتے اور کافی و شافی جواب لے کر رخصت ہوتے تھے، حضرت کو وہ فرصت حاصل ہوئی جو آپ سے پھلے اماموں کے لئے فراہم نہ تھی لہذا اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اسلامی معارف و شریعت کے احکام اور علمی مطالب کا دریا بھادیا اس دور میں کثرت سے حدیثیں اور مفید اقوال لوگوں تک پھونچے کہ جس طرف سنتے ”قال الباقر“ اور” قال الصادق“ کی صدا ہی سنائی دیتی تھی، اپنے ہاتھوں زراعت اور حصول رزق میں زحمت کرنا آپ کا خاص مشغلہ تھا ۔

محمد بن منکدر کہتے ہیں:

میں ایک دن اطراف مدینہ میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو زراعت کرنے کی حالت میں پورا بدن پسینہ سے تر دیکھا میں نے سوچا محترم اور مع شخصیت، فرزند رسول کو کھیتی کرتے ہوئے زیب نہیں دیتا کہ حصول دنیا میں اس قدر عرق ریزی اور اس گرمی میں گہر سے باہر کھیت کی سختی کو برداشت کریں لہذا میں ابھی چل کر ان کو نصیحت کرتا ہوں، آپ کے نزدیک جا کر سلام کیا آپ نے سلام کا جواب دیا میں نے عرض کی: یابن رسول اللہ! آپ کو اس وقت اور اتنی شدید گرمی میں حصول دنیا کے لئے عرق ریزی کرنا زیب نہیں دیتا ہے، اگر اس وقت آپ کو موت آجائے تو پہر کیا کریں گے؟ حضرت ٹیک لگا کر کھنے لگے: خدا کی قسم اگر اس وقت مجھے موت آجائے تو یہ موت بھی عبادت کی موت ہوگی، اور پہر خدا کی معصیت میں مشغول رہوں تو موت سے ڈروں، میں اس لئے یہ زحمت برداشت کر رہاہوں تاکہ تم اور تمہارے جیسے دوسرے لوگوں کا محتاج نہ رہوں ۔میں نے کہا: یابن رسول اللہ ! میں آیا تھاآپ کو نصیحت کرنے کے لئے، لیکن خود آپ سے نصیحت لے کر جا رہاہوں(۳۷)

چھٹے امام حضرت جعفر بن محمد الصادق علیہما السلام

ولادت با سعادت: ۱۷ ربیع الاول سن ۸۳ ھجری

محل ولادت: مدینہ منورہ

والد کا نام: امام محمد باقر (ع)

والدہ کا نام: ام فروہ سلام اللہ علیھابنت قاسم بن محمد بن ابی بکر

سن مبارک: ۶۵ سال

شہادت: ۱۵ رجب یا ۲۵ شوال ۱۴۸ ھجری

محل شہادت: مدینہ

مدفن: مدینہ، قبرستان بقیع

حضرت امام محمد باقر (ع) نے خدا کے حکم سے اپنے فرزند امام جعفر صادق (ع) کو اس منصب امامت و خلافت کے لئے معین فرمایا(۳۸)

حضرت امام جعفر صادق (ع) کے زمانہ میں بنی امیہ و بنی عباس کے درمیان اختلاف اور باہمی کشمکش پورے شباب پر تھی چونکہ بنی امیہ کی موجودہ حکومت کمزوری اور تزلزل کا شکار تھی بنی عباس، بنی امیہ کی مخالفت اور اہل بیت (ع) کی طرفداری کا دعويٰ کرتے تھے ۔

حضرت امام صادق (ع) نے اس فرصت کے موقع سے خوب استفادہ کیا اور معارف دین کی تعلیم اور احکام شریعت کے پھیلانے میں بہر پور کوشش کی، کلاس کی صورت میں اچھے اور لائق شاگردوں کی تربیت فرمائی اور لوگوں کے درمیان حلال و حرام کے مسائل اور ان کی تعلیم و تعلم کو خوب فروغ دیا ۔

مکتب امام جعفر صادق (ع) میں تقریباً چار ہزار ( ۴۰۰۰) شاگردوں نے تربیت و پرورش حاصل کی تھی(۳۹) جس کی برکت سے عظیم کتابیں اور حدیثوں کا خزانہ عالم اسلام کے ہاتھ آیا اور آپ ہی کی وجہ سے مذھب شیعہ مذھب جعفری کے نام سے مشھور ہوا ۔

سفیان ثوری کہتے ہیں:

ایک دن امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا دیکھا آپ کے چہر ے کا رنگ متغیر ہے میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو حضرت نے فرمایا: میں نے گہر والوں کو منع کیا تھا کہ کوئی چھت پر نہ جائے لیکن جب میں گہر آیا تو دیکھا ایک کنیز بچے کو لئے ہوئے سیڑھی کے اوپر ہے، جب اس کی نگاہ مجھ پر پڑی بھت حیران و پریشان ہوئی اور لرزتے ہوئے ہاتھوں سے بچہ چھوٹ کر زمین پر گر گیا اور مر گیا، اب اس کنیز کے بے انتھاخوف و دھشت کی وجہ سے غمگین ہوں، اس وقت آپ (ع) نے کنیز سے فرمایا: میں نے خدا کی راہ میں تجھے آزاد کیا تم جہاں چاہو جا سکتی ہو(۴۰)

ساتویں امام حضرت موسيٰ بن جعفر الکاظم علیہما السلام

ولادت با سعادت: ۷ صفر سن ۱۲۸ ھجری

محل ولادت: ابواء (مکہ و مدینہ کے درمیان واقع ہے)

والد کا نام: امام جعفر صادق (ع)

والدہ کا نام: حمیدہ سلام اللہ علیھا

سن مبارک: ۵۵ سال

شہادت: ۲۵ رجب سن ۱۳۸ ھجری

محل شہادت: زندان سندی بن شاہک

مدفن: کاظمین، بغداد

حضرت امام جعفر صادق (ع) نے خدا کے حکم سے اپنے فرزند امام کاظم (ع) کو منصب امامت و خلافت کے لئے منتخب فرمایا(۴۱)

آپ اس قدر عبادت گذار اور پرہیز گار تھے کہ لوگ آپ کو عبد صالح سے خطاب کرتے تھے، بھت بردبار و حلیم تھے کبھی کسی غیر پسندیدہ چیز پر غصہ اور ناراض نہیں ہوتے تھے اس لئے آپ کا نام کاظم ہو گیا تھا ۔

امام (ع) اپنے زمانہ میں ہمیشہ سختیوں اور دشواریوں سے دوچار رہے اس لئے اسلامی علوم پھیلانے اور اسکی نشر و اشاعت کا مناسب موقع ہاتھ نہ آیا پہر بھی بھت زیادہ لوگوں نے آپ سے کسب علم و فیض کیا، اور کثرت سے آپ سے منقول احادیث کتابوں میں موجود ہے ۔

ہارون نے ۱۷۹ ھجری میں حضرت کو مدینہ سے عراق بلانے کا حکم دیا اور بصرہ و بغداد کے زندان میں بیشتر مدت تک قید رکھا آخر کار زندان سندی بن شاہک میں آپ کو زہر دے کر شھید کر ڈالا ۔

واقعہ

مدینہ میں ایک شخص امام موسيٰ کاظم (ع) کو اذیت اور حضرت علی (ع) کو گالیاں دیا کرتا تھا آپکے بعض اصحاب نے عرض کی کہ اگر آپ کا حکم ہو تو اس کو قتل کر ڈالیں، حضرت نے ان کو منع کرتے ہوئے فرمایا: وہ کہاں ہے؟ جواب دیا کہ وہ مدینہ کے اطراف میں زراعت کرتا ہے، حضرت اس کے کھیت کی طرف گئے جب اس کے نزدیک پھونچے خندہ پیشانی کے ساتھ اس کے پاس بیٹھ کر بغیر کسی تکلف کے باتیں کرنا شروع کیں آپ نے اس سے دریافت کیا اس زراعت میں تو نے کس قدر خرچ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: سو اشرفی، اور اسے فائدہ کی تجھے کس قدر امید ہے؟ اس نے کہا: دو سو اشرفی، پس حضرت نے اشرفی کی تھیلی نکالی جس میں تین سو اشرفی تھی اس شخص کو دیا اور فرمایا: یہ زراعت بھی تیری ہی ہے، وہ شخص ان تمام اذیت کے مقابلے میں اس احسان کو دیکھ کر اٹھااور حضرت (ع) کے سر کا بوسہ لینے لگا اور بھت زیادہ آپ سے معذرت خواہی کی، امام (ع) نے اسے معاف فرمایا اور مدینہ کی طرف واپس چلے آئے، میں نے دوسرے دن اس شخص کو مسجد میں دیکھا کہ اس کی نگاہ جب امام کاظم (ع) پر پڑی تو کھنے لگا: خدا بھتر جانتا ہے کہ رسالت و امامت کو کہاں قرار دے، لوگ تعجب کرتے ہوئے اس کے اس رویہ کے متعلق پوچھنے لگے تو وہ شخص حضرت کے فضائل و مناقب اور آپ کے حق میں دعا ئے خیر کرنے لگا، اس وقت امام کاظم (ع) نے اپنے اصحاب سے فرمایا: یہ کام اچھا ہوا یا جو تم لوگ پسند کرتے تھے؟ میں نے تھوڑے پیسہ سے اس کی برائی ختم کر دی اور اس کو اہل بیت (ع) کا چاہنے والا بنا دیا(۴۲)

آٹھویں امام حضرت علی بن موسيٰ الرضا علیہما السلام

ولادت با سعادت: ۱۱ ذیقعدہ ۱۴۸ ھجری

محل ولادت: مدینہ منورہ

والد کا نام: امام موسيٰ کاظم (ع)

والدہ کا نام: جناب نجمہ خاتون خاتون سلام اللہ علیہا

سنِ مبارک: ۵۰ سال

شہادت: ۲۹ صفر ۲۰۳ ھجری

محل شہادت: طوس

مدفن: مشھد (خراسان)

حضرت امام موسيٰ کاظم (ع) نے خدا کے حکم سے اپنے فرزند امام علی رضا (ع) کو منصب امامت و حکومت کے لئے منتخب فرمایا(۴۳)

حضرت امام علی رضا (ع) دنیا کے تمام افراد میں سب سے افضل اور میدان علم و عمل میں آپ کا کوئی نظیر نہ تھا، لہذا اس زمانے کے علماء و عقلا آپ سے احکام دینی و معارف اور دوسرے مختلف علوم کے متعلق دریافت کرتے تو آپ ہر ایک کو ان کے متعلق جواب عنایت فرماتے تھے ۔ آپ نے مختلف طبقات فکر سے مباحثہ اور مناظرہ بھت ہی دلچسپ انداز سے کیا ہے جو اسلامی کتابوں میں مذکور ہے، آپ کا ایک خاصہ یہ تھا کبھی بھی مباحثہ و مناظرہ کی میز پر کسی مسئلہ میں عاجز و حیران نہیں ہوتے تھے بلکہ ہر ایک کے سوال کا جواب انھیں کے مطابق عنایت فرماتے تھے ۔

آپ لوگوں کے درمیان بھت زیادہ محترم اور (عالم آل محمد (ص) ) آل محمد (ص) کے عالم کے نام سے پہچانے جاتے تھے، مامون عباسی نے سن ۲۰۰ ھجری میں حضرت کو مدینہ سے ”مر و “ بلایا جب آپ تشریف لائے تو اس نے زمام حکومت آپ کے سپرد کرنے کی کوشش کی لیکن حضرت نے قبول نہ فرمایا، جب اس کا اسرار حد سے زیادہ ہوا تو آپ نے ولی عھدی کا عھدہ قبول فرمایا، اور اس کی ولی عھدی قبول کرنے کا دو راز تھا ۔

پہلا :

حضرت چاہتے تھے کہ اس ولی عھدی کے ذریعہ مامون کی حکومت میں دینی اور اسلامی رنگ سادات اور شیعہ حضرات کو اپنی طرف متوجہ اور اس طرح ان کے آپسی اختلاف اور افتراق کو دور کیا جا سکتا ہے ۔

دوسرا:

مامون چالاکی کرنا چاہتا تھا کہ امام کو اپنے سے قریب کر کے حکومت کے کاموں میں لگا دے جس سے آپ کے چاہنے والے بد ظن اور آپ سے دوری اختیار کرنے لگیں، لیکن امام تو مامون کے شکم کی چیزوں سے بھی باخبر تھے کہ جو حکومت کے لئے اپنے بھائی کو نہ چھوڑے وہ اتنی آسانی سے کسی کو حکومت و ولی عھدی کیسے دے سکتا ہے، لہذآپ نے ولی عھدی سے بھی انکار کیا لیکن مامون کے شدید اصرار کی بنا پر مجبوراً قبول کرنے کے لئے شرائط کے ساتھ راضی ہوگئے اور فرمایا: ولی عھدی کی شرط یہ ہوگی کہ میں حکومت کے کسی کام میں اور حکام کے رکھنے اور معزول کرنے میں دخالت نہیں کرونگا ۔

امام کی اس شرط کا مطلب مامون سمجھ گیا میں نے تو ان کو خوار کرنے کے لئے یہ کام سپرد کیا تھا لیکن یہ تو مزید عزت اور توقیر کا باعث ہوجائے گا، لہذا اب دوسری فکر میں پڑ گیا کہ کیسے امام کو قتل کیا جائے آخر کار آپ کو زہر دے کر شھید کر ڈالا ۔

واقعہ

ایک شخص بیان کرتا ہے میں نے حضرت امام رضا (ع) کو دسترخوان پر سفید و سیاہ غلاموں کے ساتھ بیٹھے غذا تناول فرماتے ہوئے دیکھا تو میں نے کہا: یابن رسول اللہ !کاش آپ نے غلاموں کو دسترخوان سے الگ اور جدا بیٹھایا ہوتا امام غضبناک ہوگئے اور فرمایا: خاموش ہوجا، ہمارا خدا ایک، دین ایک، اور ہمارے ماں باپ ایک ہیں ہر شخص قیامت میں اپنے اعمال کا بدلہ پائے گا(۴۴)

نویں امام حضرت محمد ابن علی التقی علیہما السلام

ولادت با سعادت: ۱۰ رجب یا ۱۹ رمضان سن ۱۹۵ ھجری

محل ولادت: مدینہ منورہ

والد کا نام: امام علی رضا (ع)

والدہ کا نام: جناب سبیکہ خاتون سلام اللہ علیھا

سن مبارک: ۲۵ سال

شہادت: آخر ذیقعدہ سنہ ۲۲۰ ھجری

محل شہادت: بغداد

مدفن: کاظمین

حضرت امام علی رضا (ع) نے خدا کے حکم سے اپنے فرزند امام محمد تقی (ع) کو منصب امامت کے لئے معین فرمایا:(۴۵)

حضرت امام محمد تقی (ع) اپنے والد ماجد کے بعد منصب امامت پر جلوہ افروز ہوئے اس وقت آپ کی عمر مبارک بھت کم تھی اور بلوغ کے حدود میں بھی قدم نہیں رکھا تھا، چونکہ علم و فہم خدا کی طرف سے تھا لہذا لوگوں کی تمام دینی مشکلات، کو بآسانی حل کرنے پر قادر تھے بسا اوقات آپ سے امتحان کے طور پر دین اسلام کے مشکل مسائل کو دریافت کیا گیا تو آپ نے اس کا جواب کافی و شافی عنایت فرمایا، آپ کی علمی صلاحیت ہر طبقے کے تعلیم یافتہ حضرات کے لئے زباں زد تھی وہ آپ پر تعجب و حیرت کی نگاہوں سے دیکھتے تھے، اور عبادت و پرہیزگاری میں اس مقام پر فائز تھے کہ آپ کا لقب ہی تقی ہوگیا تھا اور کثرت جود و سخا کی بنا پر لوگ جواد بھی کہتے تھے ۔

دسویں امام حضرت علی بن محمد النقی علیہما السلام

ولادت با سعادت: ۱۵ ذی الحجہ ۲۱۲ ھجری یا ۲ رجب سنہ ۲۱۲ ھجری

محل ولادت: صریا (مدینہ)

والد کا نام: محمد تقی (ع)

والدہ کا نام: سمانہ سلام اللہ علیہا

سن مبارک: ۴۲ سال

وفات: ۲۷ جمادی الثانی یا ۳ رجب ۲۵۴ ھجری

محل شہادت: سامرہ (سر من رای)

مدفن: سامرہ (سر من رای)

امام محمد تقی (ع) نے خدا کے حکم کے مطابق اپنے فرزند امام علی نقی (ع) کو منصب امامت کے لئے منتخب فرمایا(۴۶)

والد ماجد کی وفات کے وقت آپ کی عمر آٹھ سال تھی اس کم سنی کے عالم میں آپ منصب امامت و خلافت پر رونق افروز ہوئے، اسی کے ساتھ الٰھی علوم سے کاملاً بہر ہ مند تھے ۔

علم و ذکاوت کے اعتبار سے آپ کا کوئی نظیر نہ تھا، حسن اخلاق کثرت علم اور پرہیزگاری اور حددرجہ عبادت کی وجہ سے آپ لوگوں میں بھت زیادہ محبوب تھے ۔

متوکل عباسی کو خطرہ محسوس ہوا کہ ایسا نہ ہو کھیں لوگ حضرت امام نقی (ع) کے یہاں زیادہ رفت و آمد اور آپ کے اطراف جمع ہو کر حکومت کے لئے کسی دشواری اور خطرے کا باعث بنیں ۔

اس وجہ سے آپ کو سن ۲۴۳ ھجری میں مدینہ سے سامرہ بلایا اور اپنے زیر نگرانی قرار دیا حضرت امام علی نقی (ع) خلفاء بنی عباس کی سختیوں اور ان کی مصیبتوں پر تحمل و صبر کرتے ہو ئے زندگی کے آخری لمحات کو پورا کیا، اور ستائیس جمادی الثانی سن ۲۵۴ ھجری سامرہ میں وفات پاگئے ۔

گیارہویں امام حضرت حسن بن علی العسکری علیہما السلام

ولادت با سعادت: ۸ یا ۴ ربیع الثانی سن ۲۳۲ ھجری

محل ولادت: مدینہ منورہ

والد کا نام: امام علی نقی (ع)

والدہ کا نام: حُدیث سلام اللہ علیہا

وفات: ۸ ربیع الاول سن ۲۶۰ ھجری

محل وفات: سامرہ (سر من رای)

سن مبارک: ۲۸ سال

مدفن: سامرہ (سر من رای)

حضرت امام علی نقی (ع) نے خداوندعالم کے حکم سے اپنے فرزند امام حسن عسکری (ع) کو منصب امامت کے لئے معین فرمایا(۴۷)

امام حسن عسکری (ع) بھی اپنے والد ماجد علی نقی (ع) کی طرح سامرہ شہر میں زیر نظر، زندانی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے، لوگ آپ سے آزاد ملاقات نہیں کر سکتے، آپ کے علم سے فیض نہیں اٹھا سکتے تھے، ان سختیوں کے باوجود آپ نے اپنی یادگار کے طور پر بھت ساری حدیثوں اور مفید مطالب کو لوگوں کے درمیان چھوڑا جو کتابوں کی زینت بنے ہوئے ہیں، اہل فہم رجوع کر کے اس سے استفادہ کرتے ہیں، آپ کے اخلاق حمیدہ پاک سیرت علم و فضل و پرہیزگاری اور عبادت خدا کسی پر مخفی نہیں ہے۔

بارہویں امام حضرت محمد بن حسن (صاحب الزمان) علیہما السلام

ولادت با سعادت: ۱۵ شعبان سن ۲۵۵ ھجری

محل ولادت: سامرہ (سر من رای)

والد کا نام: امام حسن عسکری (ع)

والدہ کا نام: نرجس سلام اللہ علیہا

حضرت امام حسن عسکری (ع) نے خدا اور اس کے رسول (ص) کے حکم سے خلافت و امامت کے لئے اپنے فرزند مھدی (ع) کو منتخب فرمایا۔(۴۸)

مھدی (ع)، قائم (ع)، صاحب الزمان (ع)، امام عصر (ع)، اور حجة (ع) اللہ و بقیة (ع) اللہ وغیرہ آپ کے القاب ہیں ۔

بھت زیادہ روایتوں میں حضرت رسول خدا (ص) سے منقول ہے کہ آںحضرت (ص) نے فرمایا: امام حسین (ع) کی نسل کی نویں فرد میرا ہمنام، مھدی (ع) موعود ہوگا، ہر ایک امام نے اپنے زمانہ میں خبر دی ہے کہ ہمارا کونسا فرزند مھدی (ع) موعود ہوگا آنحضرت (ص) اور آپ کے اہل بیت (ع) نے خبر دی ہے کہ امام حسن عسکری (ع) کے فرزند مھدی (ع) موعود ہیں ۔

اور اس کی غیبت بھت طولانی ہوگی جب خدا چاہے گا ان کو ظاہر کرے گا، وہ دنیا کی اصلاح کرینگے اور عدل و انصاف سے دنیا کو بہر دینگے پوری زمین پر انھیں کی حکومت ہوگی، اللہ کی توحید اور اس کی عبادت کو پوری دنیا میں پھیلائیں گے دین اسلام کو دین حقیقت کے عنوان سے دنیا والوں کے لئے ثابت کرینگے ۔

رسول خدا (ص) اور ائمہ طاہرین (ع) کے فرمان کے مطابق اللہ تبارک و تعاليٰ، امام حسن عسکری (ع) کو ایک فرزند عطا کرے گا، جس کا نام آنحضرت (ص) کے نام پر محمد (ص) ہوگا معتبر و معتمد اصحاب نے اس فرزند کو دیکھ کر گواہی دی ہے ۔

امام زمانہ (ع) اپنے والد ماجد کی وفات کے وقت پانچ سال کے تھے، اور امام (ع) کے بعد آپ (ع) کے جانشین و امام ہوئے بنی عباس کے خلفا نے جو روایات آنحضرت (ص) اور ائمہ طاہرین (ع) سے سنا اور پڑھا تھا کہ ایک فرزند امام حسن (ع) سے پیدا ہوگا جو مھدی موعود دنیا سے ظلم و جور کو ختم کر کے عدل و انصاف سے بہر دے گا، یعنی ظالموں اور سرکش افراد سے جنگ نیز ظالم حکومتوں کو نیست و نابود کر دے گا، فقط خدا کا دین اور اس کا عدل و انصاف ہوگا ان لوگوں نے جب امام کے مذکورہ تمام علائم اور آثار و نشانیاں دیکھیں تو آپ کے سخت ترین دشمن ہو گئے اور قطعی طور پر فیصلہ کیا کہ حضرت امام مھدی (ع) کو قتل کر ڈالیں اور اس خطرہ کو راستہ سے دور کردیں، انھیں اسباب کے تحت امام لوگوں کی نگاہوں سے غائب ہو گئے اور پوشیدہ زندگی گذارنے لگے لیکن لوگوں سے آپ کا رابطہ بالکل منقطع نہیں ہوا تھا، بلکہ آپ کے خاص نائبین ہوتے تھے جن کے ذریعہ رابطہ برقرار ہوتا، اور وہ ان لوگوں کی مشکلات کو حل فرماتے تھے ۔

حضرت امام زمانہ (ع) کے خاص نواب چار تھے:

۔ عثمان بن سعید

۔ محمد بن عثمان

۔حسین بن روح

۔ علی بن محمد سمری ۔

ان چاروں حضرات میں سے یکے بعد دیگرے امام (ع) کی نیابت کے لئے منصوب ہوئے یہاں تک کہ غیبت صغريٰ کے دن تمام ہوئے اور امام زمانہ (ع) سے ملاقات کے روابط منقطع ہوئے اور غیبت کبريٰ کا آغاز ہوا ۔

ابھی امام زمانہ (ع) غیبت کی زندگی بسر کر رہے ہیں لوگوں کے رفت و آمد ان کے اجتماع اور جلسہ میں شرکت کرتے لیکن خود اپنی آشنائی نہیں کراتے ہیں یھی حال باقی رہے گا یہاں تک کہ آپ کے ظھور کے حالات مساعد اور اسلامی حکومت کی بنیاد رکھنے کے لئے تمام راہیں ہموار ہوجائیں، اور پوری دنیا کے افراد اس نظام کائنات اور وقتی حکومتوں سے تنگ آکر بس خدا کی حاکمیت اور اس کی حکومت کو چاہنے لگیں، دنیاوی پریشانیوں اور ظلم و ستم و برائیوں سے لوگ تنگ آکر فقط خدائی قانون کو سائباں اور اپنی مشکلات کا حل سمجھیں، اس وقت امام زمانہ عجل اللہ تعاليٰ فرجہ الشریف، ظھور فرمائیں گے احکام الٰھی کو نافذ کرنے کے لئے اپنے ساتھ طاقت و قدرت لائیں گے اس کے تحت ظلم و بربریت اور فساد کو نیست و نابود اور پورے جہان کو عدل و انصاف سے بہر دیں گے ۔

ہم شیعیان حیدر کرّار کی اس غیبت کبريٰ کے زمانہ میں ذمہ داری ہے کہ ولی ّبرحق کے ظھور کا انتظار اور آپ کے تعجیلِ ظھور کے لئے دعائیں کریں، قرآن مجید کے اجتماعی احکام اور اس کے پروگرام کو دنیا کے تمام افراد کو سنائیں، اور اس احکام و قوانین کی بلندی و امتیازات اور اس کے فائدہ کو لوگوں کے سامنے پیش کریں، لوگوں کے ذھن اوران کے دل و دماغ کو ان احکام کی طرف متوجہ، اور باطل و بے سود خرافاتی عقائد کا ڈٹ کر مقابلہ اور اسلامی و جہانی امام کی حکومت کے لئے (حتی المقدور) تمام اسباب کو فراہم کریں اور دنیاوی مشکلات کو حل کرنے کے لئے قرآن و حدیث سے استفادہ کرتے ہوئے بھترین لائحہ عمل اور پروگرام تیار کریں اور اس کو مبلغین اور صلح و مصالحت کرنے والوں کے ہاتھوں میں دیں تاکہ وہ فکروں کو اندھیرے سے روشنائی کی طرف موڑیں، اور ہم اپنے امام (ع) کے ظھور اور آپ کی عدل و انصاف سے پُر حکومت کے لئے آمادہ رہیں ۔

ائمہ طاہرین (ع) کے متعلق ہمارا عقیدہ

۱) بارہ امام علیہم السلام، ہر طرح کے گناہ اور نسیان (بھو ل چوک) سے معصوم ہیں ۔

۲) وہ حضرات خداوند عالم کے تمام احکام و قوانین کو جانتے ہیں اور جتنی چیزیں (علوم اور اطلاعات) لوگوں کی ھدایت اور انکی راہنمائی کے لئے ضروری ہے خداوندعالم نے ان کے اختیار میں دے رکھا ہے ۔

۳) دین اسلام میں کوئی بھی حکم اپنی طرف سے نہیں دیتے اور نہیں کسی نئی چیز کو دین میں شامل کرتے ہیں ۔

۴) دین اسلام کے تمام احکام پر عمل کرتے ہیں اور ہر صحیح عقیدہ کا اعتقاد رکھتے ہیں، اخلاق حسنہ سے مزین لوگوں میں بھترین افراد اور اسلام کے کامل شاہکار اور بھترین نمونہ ہوتے ہیں ۔

۵) لوگوں کی طرحوہ بھی انسان اور اللہ کے بندے اور اس کی مخلوق ہیں ان کو بھی موت اور بیماری لاحق ہوتی ہے، وہ خدا کی طرح موجودہ چیزوں کو پیدا کرنے والے نہیں ہیں ۔

۶) ان میں سے گیارہ افراد کو موت آچکی ہے بارہویں امام، یعنی امام حسن عسکری (ع) کے فرزند امام مھدی (ع) ابھی زندہ ہیں، ہم ان کے ظھور کا انتظار کر رہے ہیں ۔

شیعہ

جو لوگ حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کو رسول خدا (ص) کا بلا فصل جانشین و خلیفہ مانتے ہیں ان کو شیعہ کہاجاتا ہے ۔

شیعہ امامیہ حضرت علی (ع) اور آپ کے گیارہ معصوم فرزندوں کو امام اور راہنما و رہبر مانتے ہیں اور ان کی رفتار و گفتار میں پیروی کرتے ہیں، اور واقعی شیعہ وھی شخص ہے جو حضرت علی (ع) اور آپ کے معصوم فرزندوں کی اتباع و فرمانبرداری کرے اور ان کے طور طریقے اخلاق و اعمال کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دے، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام جابر سے ارشاد فرماتے ہیں:

اے جابر! فقط اتنا کہہ دینا کہ ہم اہل بیت (ع) سے دوستی و محبت رکھتے ہیں کیا شیعہ ہونے کے لئے کافی ہے؟ خدا کی قسم وہ ہمارا شیعہ نہیں ہے، مگر جو پرہیزگار اور خدا کی اطاعت کرنے والا ہو، اے جابر ! پھلے ہمارے شیعہ ان صفات سے پہچانے جاتے تھے تواضع، امانتداری، خدا کا ذکر، روزہ، نماز، والدین کے ساتھ احسان، پڑوسی، اور ناتوان یتیم و قرضدار (اور بے چاروں) کی رکھوالی اور ان کی مدد، صداقت، قرآن کی تلاوت، لوگوں کے متعلق اچھائی کے سوا کچھ نہیں کھتے، اور لوگوں کے لئے امین تھے جابر نے عرض کی یابن رسول اللہ ! اس زمانہ میں کسی کو ان صفات کا حامل نہیں پاتا ہوں فرمایا: اے جابر مختلف راہیں تمھیں حیران و سرگرداں نہ کر دیں اور تم کسی غلطی میں گرفتار نہ ہوجاؤ ۔

انسان کی نجات اور چھٹکارے کے لئے کیا بس یھی کھنا کافی ہے کہ میں علی (ع) کو دوست اور ان سے محبت کرتا ہوں اور اللہ کے فرمان پر عمل پیرا نہ ہو؟ اگر کوئی کھے، میں حضرت رسول (ص) خدا سے محبت کرتا ہوں اور آںحضرت (ص) کے دستور و اخلاق کی پیروی نہ کرے تو کیا رسول خدا (ص) کی یہ دوستی اس کو چھٹکارا دلا سکتی ہے ؟” نہیں “ جب کہ مسلّم ہے آنحضرت (ص) حضرت علی (ع) سے افضل تھے ۔

اے شیعو ! اللہ سے ڈرو اور اس کے احکام کی اتباع کرو اللہ تعاليٰ کسی سے قرابتداری و رشتہ داری نہیں رکھتا ہے، خداوند عالم کے نزدیک با عزت اور سب سے محترم شخص وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار اور اس کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرنے والا ہو، اے جابر !خدا کی قسم ! اللہ سے نزدیکی اور تقرب کے لئے اطاعت و فرماں برداری کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے جھنم سے آزادی دلانا ہمارے اختیار میں نہیں ہے، جو اللہ کا مطیع ہے وہ ہمارا دوست ہے اور جو اللہ کے حکم سے روگردانی و سر پیچی کرے وہ ہمارا دشمن ہے، ہماری ولایت و محبت سوائے عمل صالح اور پرہیز گاری کے حاصل نہیں ہوتی ہے(۴۹)

امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: (اے شیعو) پرہیزگار اور صاحب تقويٰ بنو، اپنے نفس کی اصلاح اور نیک کام (عمل صالح) کی کوشش کرو، حق کھو، امانتدار اور خوش اخلاق ہوجاؤ، پڑوسیوں سے اچھا برتاؤ کرو، اپنے اخلاق و عمل سے لوگوں کو دین حق کی طرف دعوت دو، ہماری عزت اور سربلندی کا باعث بنو، گندے کاموں کے ذریعہ ہماری شرمندگی اور پشیمانی کا سامان فراہم نہ کرو، اپنے رکوع اور سجود کو طول دو اس لئے جب خدا کا بندہ رکوع اور سجدہ کو طولانی کرتا ہے تو شیطان ناراحت ہوتا ہے اور اس حال میں فریاد کرتا ہے اے، وای یہ لو گ اللہ کی اطاعت کرتے ہیں، لیکن میں نے اللہ کی نافرمانی کی یہ لوگ سجدہ کرتے ہیں اور میں نے سجدہ سے روگردانی کی(۵۰)

امام صادق (ع) فرماتے ہیں: حضرت عیسيٰ (ع) کے شیعہ اور حواری لوگ ان کے دوستدار تھے، لیکن ان کے دوستدار ہمارے شیعوں سے بھتر و افضل نہیں تھے اس لئے کہ ان لوگوں نے مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر ان کی مدد نہیں کی اور اللہ کی راہ میں جہاد نہیں کیا، لیکن ہمارے شیعوں نے حضور اکرم (ص) کی وفات کے وقت سے آہماری مددکرنے سے انکار نہیں کیا ہے، ہمارے لئے فداکاری و جانثاری کرتے ہیں، آگ میں جلائے گئے، قید و زندان کی سخت سے سخت مصیبتیں برداشت کیں اپنے گہر وں سے نکال دئے گئے (شہر بدر کیا) لیکن پہر بھی ہماری مدد و نصرت کرنے سے دریغ نہیں کیا(۵۱)

مسلمانوں کے متعلق ہمارا عقیدہ

اس حال میں کہ ہم اہل سنت سے مسئلہ خلافت و جانشینی میں اختلاف نظر رکھتے ہیں اس کے باوجود تمام مسلمانوں کو اپنا بھائی اور ہم مسلک سمجھتے ہیں، اس لئے کہ ہمارا خدا ایک، ہمارا دین، ایک قرآن اللہ کی کتاب ایک، اور ہمارا قبلہ بھی ایک ہے ۔

ان کی عزت و ترقی کو ہم اپنی ترقی اور سربلندی جانتے ہیں ان کی کامیابی اور غلبہ کو ہم اپنی کامیابی و تسلط سمجھتے ہیں، ان کے مغلوب اور ذلت و شکست کہانے کو ہم اپنی شکست اور پستی مانتے ہیں، ہم سب زندہ و مردہ، خوشی و غم اور شادی و بیاہ میں باہم شریک ہیں، اس مسئلہ میں ہم اپنے پھلے امام حضرت علی (ع) کی اتباع و فرمانبرداری کرتے ہیں، کہ اگر آپ اپنے شرعی حق کا دفاع اور خلافت کو لینا چاہتے تو لے سکتے تھے لیکن دین اسلام کی مصلحت اور اپنی اصل خودداری اور دیانتداری کو ان پر ترجیح دی، نہ فقط خلفا سے جنگ نہ کی بلکہ حساس اور سخت وقت میںنیز ضرورت و مجبوری میں ان کی مدد بھی کرتے رہے اور مسلمانوں کو فائدہ پھونچانے سے کبھی بھی دریغ نہیں فرمایا، ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ دنیائے اسلام اس صورت میں ایک زندہ اور طاقتور ملت کے عنوان سے اپنی گذری ہوئی عظمت و شان و شوکت، بزرگی و برتری اور اجنبیوں کے تحت تسلط رہنے سے نجات حاصل کر سکتی ہے شرط یہ ہے کہتمام مسلمان اپنے اختلافات و پراگندگی اور انفرادیت سے دوری اختیار کریں، اور پوری طاقت ایک طرف صرف کردیں اور سب کی سب دین اسلام کی راہ میں اس کی عظمت و ترقی کے لئے قدم جمادیں ۔