چوتھی فصل؛ قیامت
انبیاء و اولیاء اور تمام آسمانی کتابوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انسان کی زندگی فقط مرنے سے ختم نہیں ہوتی بلکہ اس دنیا کے بعد بھی دنیا پائی جاتی ہے جہاں پر انسان کو اپنے کئے (اعمال و کردار) کا بدلہ ملے گا ۔
اچھے لوگ وہاں پر تمام نعمتوں کے ساتھ خوشی خوشی زندگی بسر کریں گے اور بدکردار اور خطاکار افراد سخت دردناک عذاب میں گرفتار رہیں گے قیامت آسمانی تمام ادیان کی ضروریات میں سے ہے اور اصل قیامت مرنے کے بعد کی دنیا کو کہاجاتا ہے جو شخص بھی انبیاء کو مانتا اور ان کی بتائی ہوئی چیزوں پر ایمان رکھتا ہے اس کو معاد پر یقین و اعتقاد رکھنا ضروری ہے، ہم اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے دو آسان دلیلوں کو بیان کرتے ہیں ۔
پہلی دلیل
اگر مندرجہ ذیل مطالب پر توجہ کریں گے، تو آپ کے لئے قیامت کی حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گی ۔
۱) دنیا میں کوئی بھی کام بغیر مقصد کے نہیں ہوتا ہے اور جو شخص بھی کسی کام کو انجام دے اس کا بھی ایک ھدف ہوتا ہے اور ھدف و مقصد وہ چیز ہے جو انسان کو اس کام کی طرف آمادہ اور چلنے کے لئے تیار کرتا ہے لہذا انسان اس مقصد کے حصول کے لئے دل جمعی کے ساتھ پوری کوشش صرف کر دیتا ہے ۔
۲) یہ صحیح ہے کہ کوئی کام بغیر ھدف و مقصد کے نہیں ہوتا، لیکن تمام مقاصد و اہداف بھی تو برابر نہیں ہوتے ہیں بلکہ کرنے والے اور خود اس کام کی موقعیت ھدف میں تفریق و جدائی کا باعث بنتی ہے ۔
پس جس قدر فاعل صاحب علم و کمال اور با تدبیر ہوگا ویساہی اس کا ھدف بھی بلند اور پر اہمیت ہوگا لہذا جو بچہ کھیلتے وقت اپنا ھدف رکھتا ہے ویسا ھدف عالم و انجینیراور سمجھدار نہیں رکھ سکتا ہے۔
۳) جب بھی انسان کوئی کام انجام دیتا ہے تو اس کی پوری کوشش و توجہ نتیجہ کے کمال پر ہوتی ہے، کہ کسی طرف سے اس نتیجہ پر حرف نہ آئے اگر وہ غرض و غایت نقائص سے محفوظ ہے تو یھی اس کا کمال ہے، مثال کے طور پر ہم بھوک کے احساس پر کہانا کہاتے ہیں اور بھوک کا احساس جو نقص ہے کہانے سے ہم اس نقص کو بر طرف کرتے ہیں، لیکن خدا کے کاموں میں یہ مطلب درست نہیں ہے اس لئے کہ یہاں پر فعل کے انجام کا فائدہ خود اس کی ذات کی طرف لوٹ کر نہیں آتا ہے، بلکہ خدا کے خلق و پیدا کرنے کا فائدہ خود اس کی مخلوق کی طرف پلٹ کر جاتا ہے جیسے خدا نے ہم کو پیدا کیا اور ہم نے نماز پڑھی نماز کا فائدہ خود ہماری ہی طرف واپس آتا ہے نہ کہ خدا کی طرف لوٹ کر جاتا ہو، اس لئے کہ خدا کی ذات میں کمی و نقص نہیں پایا جاتا کہ وہ اپنی کمی کو بر طرف اور اپنے نقص کو دور کرنے کے لئے کسی کام کو انجام دے اس بنا پر ہمارا یہ کھنا درست ہے کہ انسان کے اپنے اعمال کا فائدہ خود اس کی طرف واپس آتا ہے کیونکہ یہاں پر کام اور عمل سے مراد مقصد کو پورا کرنا یا فائدہ اٹھانا نہیں ہے بلکہ فائدہ پھونچانا اور کامل کرنا ہے ۔
شاعر کھتا ہے:
من نکردم خلق تا سودی کنم
بلکہ تا بر بندگان جودی کنم
میں نے فائدہ حاصل کرنے کے لئے تمام چیزوں کو پیدا نہیں کیا ہے بلکہ ان کو فائدہ پھنچانے کے لئے پیدا کیا ہے خداوند عالم نے انسان کے جسم کو بھترین طریقے اور بھت ہی نظاقت اور نہایت باریک بینی سے خلق فرمایا ہے ۔
لہٰذا عقلا اس میں جتنا غور و خوض کرتے ہیں اتنے ہی عجیب و غریب چیزوں سے دوچار، اور متحیر رہ جاتے ہیں، ہاں یہ کھنا درست ہے کہ خداوند عالم حکیم ہے کہ جس نے انسان کے معمولی بدن میں پوری دنیا کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے (یعنی کوزے میں دریا کے مانند انسان کے چھوٹے سے بدن میں وسیع و عریض دنیا کے نظام سے زیادہ باریک نظام کو محدود، محال کو ممکن، کر دیا ہے جس کی تعبیر حضرت علی (ع) یوں فرماتے ہیں:
اتزعم انک جرم صغیر
و فیک انطوی العالم الاکبر
پانی، مٹی، گھانس، حیوان، سورج، ستارے، چاند اور تمام موجودا کو انسان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پیدا کیا ہے اور ان کے علاوہ انسان کو فائدہ پھنچانے کے لئے ہزاروں تعجب آمیز رازوں کو دنیا میں پوشیدہ کر رکھا ہے تاکہ اپنی فلاح و بھبود کے لئے اس تک دست رسی پیدا کرے اور اس عظیم ترین پروردگار کے خزانہ سے استفادہ کرتے ہوئے حقیقت دنیا پر حکمرانی کرے ۔
مذکورہ مطالب سے سمجھ میں آتا ہے کہ خداوند حکیم نے انسان کے جسم کو نہایت تعجب آمیز رازوں پر مشتمل شریف ترین مخلوق قرار دیا ہے اور اسی انسان کے لئے نظام کائنات کو مسخر کر رکھا ہے، فقط اس لئے کہ انسان ایک معمولی موت کے لئے یہاں پر رہے! اور اس کی بے انتھانعمتوں سے استفادہ کرے اور مر کر فنا ہوجائے؟ اگر ایسا ہی ہے تو کیا خدا کا پیدا کرنا غیر عاقلانہ اور حکیمانہ کام نہ ہوگا ؟
آپ کی عقل اصلاً ایسا فیصلہ اور ایسی چیزوں پر بہر وسہ نہیں کر سکتی ہے، بلکہ عقل تو خدائے حکیم کو بے غرض اور عبث کاموں سے منزہ و مبرا سمجھتی ہے، پس نتیجہ میں انسان کا مر کر فنا ہونا اس کے پیدائش کا مقصد و ھدف نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ انسان کی تخلیق کا مقصد کمال ہے اگر موت کے بعد انسان کامل نہ ہو بلکہ فنا ہوجائے تو فنا خود بھی تو ایک نقص ہے پہر انسان کی اپنی آخری منزل کمال کیا ہوگی ؟کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان اپنی تنک یا راحت اچھی یا خراب زندگی آرام یا مصیبت میں گذار دے اور سب کا ایک ہی حشر نابودی اور فنا ہو ۔
ہماری عقل کھتی ہے خداوند عالم کی ذات لوگوں کی محتاج نہیں ہے اور کسی فائدہ کے تحت ان کو نہیں پیدا کیا ہے اور اس سے کوئی لغو و بے فائدہ کام بھی صادر نہیں ہوتا ہے مجبوراً کھنا پڑے گا کہ خدا نے انسان کو کسی بلند ھدف اور قیمتی مقصد کے لئے خلق فرمایا ہے، اور اس انسان کی زندگی کو چار دن میں منحصر نہیں کر رکھا ہے اور نہ ہی مرنے کے بعد انسان کی زندگی تمام ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے اعمال ختم ہوتے ہیں، بلکہ سب خدا کے نزدیک محفوظ ہے ۔
ہماری عقل کھتی ہے: (اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہونی چاہیے) اس چھوٹی اور مصیبت و رنج و الم سے بہر ی ہوئی دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا ہونی چاہیے تاکہ انسان کے لئے آرام و آسائش کا پیش خیمہ ہو، خدا کا مقصد (انسان کے خلق کرنے کا) یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں ترقی اور معنوی کمالات اور سعادتمندی کے تمام وسائل کو فراہم کرے تاکہ مرنے کے بعد ہمیشہ رہنے والی زندگی آخرت میں تمام ناز و نعمت کے ساتھ خوشی خوشی گذارے ۔
دوسری دلیل
بعض افراد (انسان) نیک اور صالح ہیں، لوگوں کے لئے خیر خواہ اور بھلائی چاہتے ہیں، اور کمزوروں کی مدد کرتے ہیں، اور یتیموں کے ساتھ مہر بانی اور ناچار و مجبور افراد پر احسان کرتے ہیں، ان کے اخلاق اچھے، جھوٹ نہیں بولتے، ملاوٹ نہیں کرتے، اور کسی کے ساتھ ظلم و ستم کو جائز نہیں سمجھتے، لوگوں کے مال کو ناحق نہیں لیتے، نماز پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں اپنے واجبات پر عمل کرتے ہیں، اور گناہوں سے خودداری کرتے ہیں۔
دوسرے افراد:
برے اور نالائق ہیں اپنے جیسے افراد پر ظلم و ستم دوسروں کے حقوق کو غصب، بد اخلاق، چھوٹے اور ہر ایک کی امانت میں خیانت کرتے ہیں،خدا کے واجب امور کو انجام نہیں دیتے، نماز و روزہ سے کوئی مطلب نہیں رکھتے ہیں اور گندے برے کاموں (یعنی حرام کے ارتکاب) سے نہیں ڈرتے حیوانوں کی طرح رات و دن ظلم و زیادتی اور شھوت پرستی میں مشغول رہتے ہیں ۔
یہ دو طرح کے افراد قطعی طور پر موجود ہیں، لیکن دنیا میں اپنے اعمال کی اصلا کوئی سزا یا جزا نہیں پاتے۔ معصیت کار ہیں ہر طرح کی ناز و نعمت میں زندگی بسر کر کے دنیا سے چلے گئے اور اپنے اعمال کی کوئی سزا نہیں پائی۔۔۔ اور بھت سے لوگوں کو نیک و صالح پاتے ہیں لیکن وہ بےچارے نہایت سختی پریشانی، تنگی اور مصیبت میں زندگی بسر کرتے ہیں، مگر اپنے کئے اعمال کی کوئی جزا نہیں دیکھتے ۔
کیا اس دنیا کے علاوہ کوئی دوسری دنیا نہیں ہونی چاہیے کہ جہاں پر اچھے اور برے کاموں کا حساب اور اس پر جزا و سزا مرتب ہو نیک افراد کو اچھا بدلہ اور بد کردار کو اپنے کئے کی سزا دی جائے؟ اگر انسان کی عمر اس دنیا میں یوں ہی ختم ہوجائے اور اس کے نامہ اعمال یھیں ضائع ہو جائیں، تو کیا انسان کا پیدا کیا جانا عبث اور عدالت کے خلاف اور حکمت خدا کے مخالف نہیں ہوگا؟
کیا آپ کی عقل قبول کرے گی کہ اچھے فرمانبردار اور بد کردار و تباہ کار مساوی و برابر ہوجائیں اور ان کے درمیان حساب و کتاب کے ذریعہ تفریق و جدائی نہ ہو؟
کیا ایسے فضول کام کو اللہ کی طرف نسبت دینا درست ہوگا؟
اگر قیامت نہ ہو، انبیاء کا بھیجنا اور اللہ کا امر ونھی کرنا، نا معقول اور بے بنیاد نہیں ہوگا ان کاموں کا حساب و کتاب اور ثواب و عقاب نہ ہو تو لوگ کیونکر اللہ اور رسول (ص) کی اطاعت و فرباں برداری کرینگے؟
موت
موت یعنی جسم اور روح کی جدائی و مفارقت کا نام ہے، اسلام ہم سے کھتا ہے انسان فقط موت سے ختم نہیں ہوتا، بلکہ موت کے ذریعہ انسان ایک دنیا سے دوسری دنیا کی طرف منتقل ہوتا ہے یعنی (موت) ایک زندگی سے دوسری زندگی کی طرف لوٹنا ہے، پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: تم فنا ہونے کے لئے پیدا نہیں کئے گئے بلکہ حیات جاودانی، یعنی ہمیشہ رہنے کے لئے پیدا کئے گئے ہو اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس دنیا سے دوسری دنیا کی طرف منتقل ہونا ہے
اسلامی نکتہ نظر سے ہر ایک روح، جسم سے مساوی اعتبار سے جدا نہیں ہوتی ہے بلکہ جو لوگ گنھگار ہیں اور اس دنیا سے زیادہ دل لگا رکھا ہے، اور اُس دنیا سے (آخرت) غافل اور غیر مانوس ہیں ان کی روح بھت سختی اور دشواری سے نکلتی ہے، لیکن جو حضرات اچھا کام (عمل صالح) کرتے ہیں اور خاص کر موجودہ دنیا کی
طرف رجحان و میلان نہیں رکھتے اُس دنیا (آخرت) کیلئے اللہ اور اس کے رسول (ص) سے انسیت اور الفت زیادہ رکھتے ہیں وہ لوگ بھت ہی آرام و اطمینان سے اس زندگی سے نجات پاجاتے ہیں
برزخ
مرنے کے بعد کی زندگی کو ہماری عقل تصدیق کرتی ہے لیکن وہاں پر کیسی اور کس طرح کی زندگی ہوگی اس چیز کو ہماری عقل راہنمائی (درک) نہیں کرتی، یہاں پر ہم مجبور ہیں کہ قرآن پاک اور پیغمبر (ص) کے ارشادات اور ائمہ اہل بیت (ع) کی حدیثوں سے استفادہ کریں ۔
قرآن مجید اور حضوراکرم (ص) اور آپ کے اہل بیت (ع) کی حدیثوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ قیامت سے پھلے (تمام لوگوں کے اٹھائے جانے سے پھلے) ایک دوسری دنیا موجود ہے جس کانام ”برزخ“ ہے جو کہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک واسطہ اور رابطہ کی حیثیت سے موجود ہے، جب انسان کی موت آتی ہے تو برزخ کے ابتدائی مرحلہ میں داخل ہوجاتا ہے یہاں پر ایک مخصوص طرح کی زندگی بسر کرتا ہے اس معنوی اور پوشیدہ زندگی کی ابتدا قبر ہے کہ جو معمولی سوال و جواب سے شروع ہوتی ہے جس میں کلی اعتقادات اور اعمال کے مسائل پوچھے جاتے ہیں اگر عقیدہ صحیح اور عمل و کردار اچھے ہیں تو جنت کا ایک دروازہ اس پر کھول دیا جاتا ہے تاکہ وہ جنت کی نعمتوں سے استفادہ کرتا رہے قیامت آنے کے انتظار اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کے شوق میں منتظر رہتا ہے ۔
اگر کوئی بد کردار اور باطل عقیدہ رکھنے والا ہو تو اس پر جھنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور قیامت تک وہ اسی طرح عذاب میں نا گوار و تلخ زندگی بسر کرتا رہتا ہے اور دوزخ کے سخت عذاب اور قیامت آنے کے خوف سے ہر وقت ہر اساں ر ھتاہے۔
( وَلَا تَقُولُوا لِمَن یقتَلُ فِی سَبِیلِ اللّٰهِ اَموَاتٌ بَل اَحیاءٌ وَلٰكِن لَا تَشعُرُونَ )
“
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے انھیں کبھی مردہ نہ کھنا بلکہ (وہ لوگ) زندہ ہیں مگر تم (ان کی زندگی کی حقیقت کا) کچھ بھی شعور نہیں رکھتے ۔
( ”وَلَا تَحسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللّٰهِ اَموَاتاً بَل اَحیاءٌ عِندَ رَبِّهم یرزَقُونَ )
“
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں شھید ہو گئے ہیں انھیں ہر گز مردہ نہ سمجھنا بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے یہاں سے روزی پاتے ہیں۔
قال النبی (ص) :” اِنَّ القَبرَ اَوَّلُ مَنَازِلِ الاٰخِرَةِ فَاِن نَجَا مِنهُ فَمَا بَعدَه اَیسَرُ و اِن لَم ینجِ مِنهُ فَمَا بَعدَه لَیسَ اَقَلَّ مِنهُ
“
آخرت کی پہلی منزل قبر ہے جو شخص یہاں نجات پا جائے اس کے لئے بعد کا کام آسان ہو جائے گا اور جو شخص یہاں نجات نہ پاسکے پس تو عذاب اس کے بعد اتنا آسان نہیں ۔
قال علی ابن الحسین (ع) : ” اِنَّ القَبرَ رَوضَةٌ مِن رِیاضِ الجَنَّةِ اَو حَفَرَةٌ مِن حَفَرَالنِّیرَانِ
“
حضرت علی ابن حسین (ع) نے فرمایا: قبر بھشت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے، یا جھنم کے گڈھوں میں سے ایک گڈھا ہے ۔
قیامت اور لوگوں کا قبروں سے نکلنا
قرآن مجیداور پیغمبر اسلام نیز آپ کے اہل بیت (ع) کی حدیثوں میں قیامت کی اس طرح توصیف و تعریف بیان کی گئی ہے چاند، سورج تاریک ہوجائیں گے، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر بکہر جائیں گے، دریا بغیر پانی کے جلنے لگے گا، منظومہ نظام شمسی درہم برہم ہو جائے گا، زمین و آسمان بدل کر دوسری صورت اختیار کر لیں گے اس وقت تمام مردے زندہ کئے جائیں گے، پس لوگ حساب و کتاب کے لئے حاضر ہونگے، لوگوں کے تمام اعمال و حرکات خدا کے نزدیک محفوظ کتابوں میں لکھا موجود ہے، ان کے معمولی کردار و افعال غفلت و فراموشی کا شکار نہیں ہوں گے، قیامت کے دن لوگوں کی آنکھوں سے پردے ہٹا دئے جائیں گے، لوگ اپنے اعمال اور کردار کو حضوراً مشاہدہ کریں گے، اس وقت اعمال کا حساب شروع ہوگا اور بھت گہر ائی اور نہایت دقت سے اس کی پوچھ تاچھ کی جائے گی کافر اور گنھگار جو بخشش کے لائق نہیں ہیں، ان کو جھنم میں بھیجا جائے گا اور نیک و صالح افراد جنت کی طرف جائیں گے اور وہ گنھگار جن میں بخشش کی صلاحیت موجود ہوگی، یعنی انھوں نے برزخ میں جھنم کا عذاب برداشت اور اپنے برے اعمال کا مزہ چکھا ہے انبیاء اور ائمہ اطہار (ع) کی شفاعت کے نتیجہ میں مورد عفو و بخشش قرار پائیں گے،یعنی نور جلال پروردگار عالم ان کے گناہوں کی تاریکی کو ختم کر کے جنت میں بھیج دے گا۔
صاحب ایمان اور نیک کام کرنے والوں کا حساب آسانی سے لیا جائے گا اور بھت جلدی وہ جنت میں چلے جائیں گے لیکن کفار اور بھت سارے گنھگار افراد کا سخت حساب اور چھوٹی سے چھوٹی چیزوں کے متعلق سختی سے پوچھا جائے گا، تاکہ زیادہ دیر وہ محشر میں کھڑے رہیں، اور نہایت سختی اور ناراحتی کے ساتھ حساب کے متعدد موارد کو سر کرتے رہیں ۔
جنت
وہ جگہ ہے جہاں پر نیک و لائق افراد کو لے جائیں گے، مختلف انواع و اقسام کی نعمتیں عیش و آرام کے ساتھ رہنے کے تمام اسباب و وسائل وہاں پر موجود ہونگے ۔
جس چیز کا بھی انسان تصور (خیال میں لائے) کرے اور اس کو چاہیے موجود ہوگی
جنت کی نعمتیں دنیا کی نعمتوں سے بھتر و عالی ہیں ان جیسی چیزوں کے متعلق انسان نے کبھی دیکھا اور نہ سنا ہے، کسی طرح کی کوئی سختی اور پریشانی وہاں نہیں ہے، جو شخص بھی جنت میں داخل ہوا ہمیشہ رہنے والی زندگی سے سرفراز ہوگا جنت کے بھی مختلف مراتب ہیں، جو جس طرح کے عمل خیر اور فضائل و کمالات کا حامل ہوگا ویسے ہی جنت کے درجے میں رہے گا۔
جھنم:
وہ جگہ ہے جہاں کفار، گنھگار اور خطاکار رہیں گے ہر طرح کی سختی و عذاب وہاں پر ہے، جو لوگ وہاں جائیں گے بھت زیادہ سختی و عذاب میں گرفتار ہونگے، جھنم کا عذاب اس قدر مشکل ہے کہ اس کو بیان نہیں کیا جا سکتا، جھنم کی آگ صرف جسم کو نہیں جلاتی ہے بلکہ روح اور اس کے دل کو بھی جلا ڈالے گی، انسان کے اندر سے ہی پھوٹے گی اور پورے بدن میں پھیل جائے گی۔
اہل دوزخ کے دو گروہ ہیں پہلا گروہ: اُن کفار کا ہے جو ایمان اور عبادت سے بالکل عاری ہیں یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ اس جھنم میں عذاب کو برداشت کریں گے ان کے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو گا ۔دوسرا گروہ: وہ لوگ جو خدا کی عبادت کرتے ہیں اپنے ایمان کی کمزوری کی بنا پر معصیت کے مرتکب ہوئے اور جھنم کے مستحق قرار پائے، یہ گروہ چند مدت کے لئے جھنم میں رہے گا اور آخر کار نور خدا تاریکی گناہ کوکر خاکستر کر دے گا، اس کے بعد ائمہ (ع) اور پیغمبر (ص) کی شفاعت کے طفیل بھشت میں داخل ہونگے ۔
جھنم کے بھی مراتب پائے جاتے ہیں جہاں پر ہر مرتبہ کے مطابق عذاب کی صورت پائی جاتی ہے ہر شخص کو اس کے گناہ کے مطابق جھنم کے طبقہ میں قرار دیں گے کہ جس میں وہ اس عذاب کا مزہ چکھے گا ۔
شفاعت
شفاعت کا مسئلہ قرآن مجید میں بھی نازل ہوا ہے اور نبی اکرم (ص) و اہل بیت (ع) سے کثرت سے روایتیں اس ضمن میں وارد ہوئی ہیں، اور وہ اس قدر زیادہ ہیں کہ کسی صورت سے شفاعت کے مسئلہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے، روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) اور ائمہ (ع) بعض گنھگاروں کی شفاعت کرائیں گے اور کھیں گے پروردگار درست ہے کہ یہ شخص گنھگار اور مستحق عذاب ہے لیکن فلاں خوبی کی وجہ سے تو خود اپنی بزرگواری اور جو عزت کرامت ہم تیری بارگاہ میں رکھتے ہیں آرزومند ہیں کہ اس کے گناہوں سے چشم پوشی فرما اور بخشش کے قلم سے اس کے گناہ کے عمل کو محو کردے، ان کی درخواست قبول کی جائے گی اور وہ شخص خدا کی رحمت اور اس کی نعمت میں شامل ہوجائے گا، روایت و آیات کی رو سے شفاعت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن چند نکات کی طرف توجہ رکھنا ضروری ہے ۔
۱) شفاعت کرنے والے بغیر خدا کی مرضی اور اس کے حکم کے شفاعت نہیں کریں گے ۔
۲) قیامت میں حساب و کتاب کے بعد شفاعت کی منزل ہے، یہ تو اس وقت کا معاملہ ہے، جب حساب و کتاب تمام ہوجائے اور نامہ اعمال دیکھ کر اُس طرف یا اِس طرف بھیجنے کا موقع آپھنچا ہو تو شفاعت کرنے والے کھیں گے کہ اس کو معاف کردو خداوند عالم قبول کر لے گا اور یہ جنت میںچلے جائیں گے لیکن برزخی دنیا میں شفاعت کی دور دور تک کوئی خبر نہیں ہے ۔
۳) خود شفاعت کرنے والوں نے فرمایا: تم کوشش کر کے محشر میں انسان کی صورت میں آنا تاکہ ہم تمھاری شفاعت کرسکیں، اس بنا پر اگر گناہوں کے سبب اس کی یہ صورت بدل کر حیوانوں کی صورت میں وارد محشر ہوئے تو اس کے لئے شفاعت کا دروازہ بند ہے، بہر حال ضروری ہے کہ حدّ اقل شفاعت کی صلاحیت و لیاقت لے کر محشر میں پھونچے ۔
۔ شفاعت کرنے والے (ائمہ اطہار (ع) ) نے بعض معصیت کے متعلق خاص طور پر فرمایا ہے جیسے نماز کو ترک کرنے والوں کو میری شفاعت شامل نہیں ہو گی ۔
۴) مذکورہ مطالب سے سمجھ میں آتا ہے کہ انسان کو فقط شفاعت کے وعدہ پر مغرور ہو کر گناہوں کا مرتکب نہیں ہونا چاہیے اس لئے کہ جو شخص شفاعت کی امید میں گناہ کو انجام دے وہ اس شخص کے مانند ہے جو دوا اور ڈاکٹر پر بہر وسہ کر کے زہر کہا لے اور اپنے کو ھلاکت کے گھاٹ اتار دے ۔
توبہ
قرآن کی آیات اور اہل بیت اطہار (ع) کے اقوال سے استفادہ ہوتا ہے کہ گناہ گار اپنے مرنے سے پھلے توبہ کر لے اور اپنے کئے پر شرمندہ اور نادم ہوجائے تو اس کے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں اور پہر ان گناہوں کے متعلق اس سے باز پرس نہیں کی جائے گی ۔
اس بنا پر تمام گنھگاروں کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے کسی کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے لیکن ہر گز یہ خیال نہ کرنا کہ (اَستَغفِرُاللّٰہ) زبان پر آیا اور آنکھ مَل کر ایک قطرہ آنسو ٹپکایا سمجھ گئے توبہ قبول ہوگئی اور خدا کی رحمت و نعمت میں شریک ہو گئے ۔
مگر معلوم ہونا چاہیے کہ حقیقی توبہ کے اپنے خاص شرائط پائے جاتے ہیں، حضرت علی (ع) نے اپنی فرمائشات میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔
حضرت (ع) فرماتے ہیں: توبہ میں چھ چیزیں ضروری ہیں ۔
۔ اپنے گذشتہ گناہوں پر واقعاً پشیمان و شرمندہ ہو ۔
۔ قطعی ارادہ کرے کہ کبھی اس گناہ کو دوبارہ انجام نہیں دے گا ۔
۔ اگر تم پر لوگوں کا حق ہے تو پھلے اسے ادا کرو ۔
۔ جن واجبات کو چھوڑ رکھا ہے اس کو انجام دو ۔
۔ اور جو تمھارے بدن میں حرام کہانے سے گوشت وغیرہ بنا ہے پھلے غم و الم کی وجہ سے اسے پگھلاؤ ۔
۔ جس طرح گناہوں سے لذت اٹھائی ہے ویسے ہی عبادت کی تلخی اور دشواری کو برداشت کرو۔
اس وقت کلمہ ” اَستَغفِرُ اللّٰہ “ کو اپنی زبان پر جاری کرو ۔