‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 285
مشاہدے: 111626
ڈاؤنلوڈ: 3796


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 111626 / ڈاؤنلوڈ: 3796
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد 2

مؤلف:
اردو

۲)___ ہمارے پیغمبر گرامی قدر نے اس کا ابتدائی___ اعلان کردیا تھا_

۳)___ قرآن کریم نے بھی جو اللہ کا کلام اور پیغمبر کا دائمی معجزہ ____ بتلایا ہے_

۴)___ لہذا ہم جو مسلمان ہیں___ شمار کرتے ہیں

نیچے دیئےوئے سوالوں کو پڑھئے اور اس درست کے مطالب کو توجہ سے پڑھنے کے بعد ان کا جواب دیجئے_

۱)___ کیا کوئی ایسی کتاب ہے کہ جو رہنمائی اور ہدایت کا تمام انسانوں کے لئے تمام زبانوں میں آئین رکھتی ہو؟ اور کس طرح؟ اس کا جواب ہاں میں ہوگا؟ کیوں_

خدا جو تمام انسانوں کی تمام زبانوں میں ضروریات کو جانتا ہے قرآن کو____؟

۲)___ کیا لوگ ہمیشہ کے لئے قرآن کی راہنمائی اور ہدایت کے محتاج ہیں؟

جواب ہاں میں ہے کیوں کہ قرآن کے ہم اسی طرح ____؟

۳)___ پیغمبر گرامی قدر(ص) نے ابتدائے اسلام سے اپنے آپ کو کس طرح پہنچوایا_

۱۴۱

جواب: خود کو آخری پیغمبر ہونا بتلاتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں اللہ کا آخری پیغمبر ہوں میرے____

۴)___ اللہ تعالی نے دین اسلام کو آخری دین اور پیغمبر گرامی قدر کو آخری پیغمبر کیوں بتلایا ؟

جواب: کیوں کہ قرآن دین اسلام کی ہمیشہ رہنے والی کتاب ہے_

۱۴۲

انیسواں سبق

قرآن اللہ کا کلام ہے

اگر آپ بھی وہاں ہوتے تو دیکھتے کہ ایک دانشمند خانہ کعبہ کے نزدیک کھڑا تھا اور تھوڑی سی روئی ہاتھ میں لے کر کان میں دے رہا تھا اور پھر اسے دباتا تھا وہ مكّہ میں نو وارد تھا اس کے دوست اس کی ملاقات کے لیئے گئے اور مكّہ کی تازہ خبر ناراضگی اور اضطراب کے ساتھ اسے بتائی گئی تھی اور اس سے کہا کہ محمد(ص) امین کو پہچانتے ہو؟

وہ کہتا ہے کہ میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور اللہ تعالی کی طرف سے پیغام لایا ہوں محمد(ص) کہتا ہے کہ بتوں میں تو کوئی قدرت ہی نہیں کہ جنہیں تم پوجتے ہو بتوں کی پرستش کو چھوڑ دو اور ظالموں کے سامنے نہ جھکو اور عاجزی کا اظہار نہ کرو وہ کہتا ہے کہ تم اپنے آپ کو دوسروں کے اختیار میں قرار نہ دو صاحب قدرت اور ظالم لوگ تم پر کوئی فضیلت نہیں رکھتے آنکھ بند

۱۴۳

کر کے ان کی اطاعت کیوں کرتے ہو اور کیوں کی غیر معقول باتوں کو سنتے اور مانتے ہو_

یہی وجہ ہے کہ اب غلام ہمارے حکم کو نہیں مانتے اور ہماری اطاعت نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں اور حضرت محمد(ص) کے پیروکار ہیں اور ظلم و ستم کے سامنے نہیں جھکیں گے_

اے عقلمند اور دانشمند انسان تم ہرگز اس سے بات نہ کرنا اور اس کی گفتگو نہ سننا ہمیں ڈر ہے کہ تجھے بھی گمراہ نہ کردے یہ روئی لو اور اپنے کانوں میں ڈال لو اور اس کے بعد مسجد الحرام میں جانا_ ازدی قبیلہ کے اس عالم اور دانشمند نے روئی لی اور خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے مسجد الحرام کی طرف چل پڑا خانہ کعبہ کے نزدیک پہنچا و روئی اپنے کانوں میں رکھی اور طواف کرنے میں مشغول ہوگیا وہ کہتا ہے کہ طواف کی حالت میں محمد(ص) امین کو دیکھا کہ کچھ پڑھ رہے ہیں ان کے لبوں کی حرکت کو میں دیکھ رہا تھا لیکن ان کی آواز کو نہیں سن رہا تھا میں ان کے ذرا نزدیک ہوا آپ کے پاک اور زیبا چہرے کو دیکھا آپ جو کچھ پڑھ رہے تھے اس کی بھنبھناہٹ میرے کان تک پہنچی میں آپ کا مجذوب ہوگیا کہ کیوں محمد(ص) کی باتوں کو نہ سنوں کتنا اچھا ہے کہ روئی کو کانوں سے نکال دوں اور آپ کی باتوں کو سنوں اگر ٹھیک ہوئیں قبول کرلوں گا اور اگر ٹھیک نہ ہوئیں تو چھوڑدوں گا میں نے روئی کانوں سے نکالی جو کچھ محمد(ص) پڑھ رہے تھے کان دھرے عمدہ کلمات او رخوش آواز کو سننے سے متزلزل ہوا جو کچھ پڑھ رہے تھے

۱۴۴

وہ کلام ختم ہوگیا آپ اپنی جگہ سے اٹھے اور مسجدالحرام سے باہر نکل پڑے میں بھی آپ کے ساتھ مسجد الحرام سے باہر آیا راستے میں آپ(ص) سے بات کی یہاں تک کہ آپ(ص) کے گھر پہنچ گیا گھر کے اندر آیا آپ کا ایک سادہ کمرہ تھا وہاں بیٹھ کر گفتگو میں مشغول ہوا میں نے کہا اے محمد(ص) میں نے ان کلمات کی جو آپ(ص) پڑھ رہے تھے بھنبھناہٹ تو سنی تھی لیکن میرا دل چاہتا تھا کہ اس میں سے کچھ حصّہ میرے سامنے پڑھیں واقعی کتنا اچھا کلام آپ پڑھ رہے تھے محمد(ص) امین نے جو میری بات کو غور سے سن رہے تھے مسکرائے اور کہا وہ کلام میرا نہ تھا بلکہ میرے خدا کا ہے تم بت پرست مجھے اچھی طرح جانتے ہو کہ میں نے چالیس سال تم میں گزارے ہیں اور میں امانت داری اور سچائی میں معروف تھا تم سب جانتے ہو کہ میں نے کسی سے درس نہیں پڑھا اب اس قسم کے زیبا کلمات اور پر معنی کلام تمہارے لئے لایا ہوں کیا وہ علماء اور دانشمند جنہوں نے سالہا سال درس پڑھا ہے اس قسم کا کلام لاسکتے ہیں؟ کیا تم خود اس قسم کا کلام بنا سکتے ہو اگر تھوڑا سا غور کرو تو سمجھ جاؤگے کہ یہ کلام میرا نہیں ہے بلکہ میرے خدا کا ہے کہ جس نے مجھے پیغمبری کے لئے چنا ہے یہ عمدہ اور پر مطلب کلام اللہ کا پیغام ہے اور میں صرف اس پیغام کا لانے والا ہوں تمہارے اور تمام انسانوں کے لئے یہ آزادی کا پیغام ہے اور سعادت کو خوشخبری ہے اب تم اللہ کے پیغام کو سنو محمد(ص) امین نے ان ہی عمدہ اور پر مطلب کلمات میں سے کچھ میرے لئے پڑھے عجیب کلام تھا میں نے اس قسم کا کلام ہرگز نہیں سنا تھا تھوڑا سا میں

۱۴۵

نے فکر کی اور میں سمجھا کہ اس کلام کو محمد(ص) نے نہیں گڑھا اور کوئی بھی انسان اس قسم کا عمدہ اور پر مغز کلام نہیں کہہ سکتا میں نے یقین کے ساتھ سمجھا کہ حضرت محمد(ص) خدا کے پیغمبر(ص) ہیں میں ان پر ایمان لایا ہوں اوردین اسلام کو قبول کرلیا اور اللہ تعالی کے فرمان کو تسلیم کرلیا_

جانتے ہو کہ جب مسلمان ہوگیا تو میرے دوستوں نے مجھ سے کیا کہا اور مجھ سے کیا پوچھا اور مجھ سے کیا سلوک کیا_

۱۴۶

بیسواں سبق

قرآن پیغمبر اسلام(ص) کا دائمی معجزہ ہے

ہمارے پیغمبر(ص) کا دائمی معجزہ قرآن ہے سمجھ دار انسان قرآنی آیات کو سنکر یہ سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کی آیات خود پیغمبر اسلام (ص) کا کلام نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے سمجھدار اور حق طلب لوگ قرآن کے سننے اور اس کی آیات میں غور کرنے سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے حضرت محمد(ص) اللہ تعالی سے ایک خاص ربط کی وجہ سے اس قسم کا عمدہ اور پر مغز کلام لائے ہیں خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے اگر اس قرآن میں جو ہم نے اپنے بندہ پر نازل کیا ہے تمہیں شک ہو یعنی یہ گمان ہو کہ یہ اللہ کا نہیں ہے اور ایک معمولی انسان کا کلام ہے تو اس قسم کا ایک سورہ قرآن کی سورتوں کی طرح بنالاؤ ایک اور جگہ خدا قرآن میں فرماتا ہے اگر تمام مخلوق کٹھی ہوجائے اور ایک دوسرے کی مدد کرے کہ قرآن جیسی

۱۴۷

کوئی کتاب بنائیں تو ہرگز ایسا نہیں کرسکیں گی کیونکہ کوئی بھی مخلوق کتنی ہی ترقی کرجائے پھر بھی ہے تو اس کی مخلوق کہ جسے ان مخصوص کاموں کی قدرت نہیں ہوسکتی کہ انھیں اللہ تعالی انجام دیتا ہے اسی لئے آج تک کوئی بھی قرآن کی مانند کوئی کتاب نہیں لاسکا اور نہ ہی آئندہ لاسکے گا اب جب کہ اتنا بڑا معجزہ پیغمبر خدا حضرت محمد(ص) کا ہمارے پاس ہے ہمیں اس کی قدر و منزلت پہچاننی چاہیئے اور اس کی قدر کرنی چاہیے اسے پڑھیں اور اس کے مطالب سے آشنا ہوں اور اس کی راہنمائی کو قبول کریں اور اس آسمانی کتاب کو اپنی زندگی کا راہنما قرار دیں تا کہ دنیا اور آخرت میں سعادتمند زندگی بسر کرسکیں_

سوالات

۱)___ وہ دانشمند انسان کیوں اپنے کان میں روئی ڈالتا تھا اس کے دوستوں نے اسے کیا کہا تھا؟

۲)___ اپنے آپ سے اس نے کیا کہا کہ جس کے بعد اس نے اپنے کانوں سے روئی نکال ڈالی؟

۳)___ وہ آدمی کیوں پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ چل پڑا؟

۴)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اسے اپنے گھر کیا فرمایا کس طرح اس کے سامنے وضاحت کی کہ قرآن خدا کا کلام ہے؟

۵)___ اس آدمی نے کیسے سمجھا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اس کے

۱۴۸

متعلق اس نے کیا فکر کی؟

۶)___ جب اس نے جان لیا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے تو اس نے کیا کیا؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ قرآن پیغمبر کا دائمی معجزہ ہے اس کا کیا مطلب ہے؟

۲)___ حق طلب لوگوں نے قرآن کی آیات میں فکر کرنے سے کیا سمجھا؟

۳)___ انہوں نے کس طرح سمجھا کہ قرآن کا لانے والا خدا کا پیغمبر ہے؟

۴)___ خداوند عالم قرآن کے معجزہ ہونے میں کیا فرماتا ہے؟

۵)___ خدا کس طرح واضح کرتا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے؟

۶)___ کیا لوگ قرآن جیسی کتاب بناسکتے ہیں؟

۷)___ قرآن کی قدر کرنے سے کیا مراد ہے قرآن کا کس طرح احترام کریں؟

۱۴۹

اکیسواں سبق

سبق آموز کہانی دو بھائی

ایک نیک اور مہربان دوسرا مغرور، خودپسند اور بدکردار ایک دولت مند انسان دنیا سے انتقال کر گیا اس کی وافر دولت اس کے دو لڑکوں کو ملی ان میں سے ایک دین دار اور عاقل جوان تھا وہ دانا اور عاقبت اندیش تھا دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھتا تھا اپنی دولت سے آخرت کے لئے فائدہ حاصل کرتا اپنے مال کے واجب حقوق دیا کرتا اور فقیروں اور غریبوں کی مدد کرتا ان کو سرمایہ اور کام مہيّا کیا کرتا تھا اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کی اپنی دولت سے مدد کرتا نیک کاموں میں سبقت لیجاتا مسجد بناتا_

اسپتال او رمدرسہ بناتا طالب علموں کو تحصیل علم کے لئے مال دیتا اور علماء کی زندگی کے مصارف برداشت کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میں یہ کام اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کے لئے انجام دیتا ہوں یہ کام میرے آخرت کے لئے

۱۵۰

ذخیرہ ہیں دوسرا لڑکا نادان اور حریص تھا جو کچھ ہوتا تھا اس کو اپنے لئے ہی رکھتا باغ اور کھیتی بناتا بہترین مکان بناتا لیکن اپنے نادار رشتہ داروں کی کبھی دعوت نہ کرتا اور ان سے میل جول نہ رکھتا اپنے مال کے واجب حقیق ادا نہ کرتا_ غریبوں کے سلام کا جواب نہ دیتا نیک کاموں میں شریک نہ ہوتا اور کہتا کہ مجھے کام ہے میرے پاس وقت نہیں ہے اس مغرور انسان کے دو بہت بڑے باغ تھے جو خرمہ اور انگور اور دوسرے میوے دار درختوں سے پرتھے پانی کی نہریں اس کے باغ کے کنارے سے گزرتی تھیں_

ان باغوں کے درمیان بڑی سرسبز کیھتی تھی کہ جس میں مختلف قسم کی سبزیاں بوئی ہوئی تھیں جب یہ دولت مند بھائی اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ اپنے باغ میں جاتا تو سر سبز میروے سے لدے ہوئے بلند درختوں کو دیکھ کر خوش ہوتا اونچی آواز میں ہنستا اور اپنے نیک بھائی کا مذاق اڑاتا اور کہتا کہ تو غلطی کرتا ہے کہ اپنی دولت دوسروں کو دے دیتا ہے لیکن میں اپنی دولت کسی کوم نہیں دیتا جس کے نتیجے میں ان باغات اور زیادہ دولت کا مالک ہوں واقعی کتنا بڑا یہ باغ اور کتنی زیادہ دولت: کیا کہنا میں ہمیشہ اچھی زندگی گزارتا ہوں یہ دولت تو ختم ہونے والی نہیں جو میرے پاس ہے_

مجھے گمان نہیں کہ قیامت بھی ہے اور جہان آخرت بھی اور اگر قیامت ہو بھی تو بھی خدا مجھے اس سے بہتر دے گا اس کا نیک بھائی اسے کہتا کہ آخرت کی نعمتیں کسی کو مفت نہیں ملتیں چاہیئے کہ اعمال صالحہ

۱۵۱

اور کار خیر بجالائے تا کہ آخرت میں استفادہ کر کے نجات پاسکو زیادہ دولت نے تجھے خدا سے غافل کردیا ہے میرے بھائی تکبّر نہ کر غریبوں کے سلام کا جواب دیاکر فقیروں کی دستگیری کیا کر اتنی بڑی دولت سے آخرت کے لئے فائدہ اٹھا نیک کاموں میں شریک ہوا کر یہ نہ کہا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے نہیں کرسکتا: مجھے کام ہے: گناہ اور مستی نہ کیا کر اللہ کے غضب سے ڈر ممکن ہے خدا کوئی عذاب بھیجے اور یہ تمام دولت اور نعمت تجھ سے لے لے اس وقت پشیمان ہوگا لیکن اس وقت کی پشیمانی فائدہ مند نہ ہوگی_

لیکن اس کا وہ مغرور بھائی اس غافل اور نیک بھائی کی نصیحت نہ سنتا اور اپنے ناروا کاموں میں مشغول رہتا ایک دن وہ مغرور شخص اپنے باغ میں گیا جب وہاں پہنچا تو بہت دیر ساکت کھڑا رہا اور گھور گھور کردیکھتا رہا ایک چیخ ماری اور گر پڑا جی ہاں خدا کا عذاب نازل ہوچکا تھا اور باغ کو ویران کر گیا تھا باغ کی دیواریں گرچکی تھیں انچے درخت اور اس کی شاخیں اور میوے جل چکے تھے اور

جب ہوش میں آیا تو گریہ و زاری کی اور افسوس کیا اورکہنے لگا کاش کہ میں اپنے بھائی کی باتوں کو سنتا: کاش میں اپنی دولت خدا کی راہ میں خرچ کرتا کاش کہ میں نیک کاموں میں شریک ہوتا اور واجب حقوق ادا کرتا میرے ہاتھ سے دولت نکل گئی اب نہ دنیا میں میرے پاس کوئی چیز ہے اور نہ آخرت میں یہ ہے اس دولت کا انجام جو خدا کی راہ میں اور اسکے نیک بندوں پر خرچ نہ ہو یہ سب میرے تکبّر اور نادانی کا نتیجہ ہے_

۱۵۲

ایک تربیتی کہانی ظالم حریص قارون

قارون حضرت موسی علیہ السلام کے رشتہ داروں میں سے تھا اور بظاہر اس نے آپ کا دین بھی قبول کرلیا تھا نماز پڑھتا تھا تورات پڑھتا لیکن ریا کار اور کمزور عقیدہ کا انسان تھا مکمل ایمان نہیں رکھتا تھا چاہتا تھا کہ لوگ اس سے خوش فہمی رکھیں تا کہ انہیں فریب دے سکے قارون فصلوں کو پیشگی سستا خرید لیتا اور بعد میں انہیں مہنگے داموں پر فروخت کرتا تھا معاملات میں کم تولتا دھوگا اور بے انصافی کرتا سود کھاتا اور جتنا ہوسکتا تھا لوگوں پر ظلم کیا کرتا اسی قسم کے کاموں سے بہت زیادہ دولت اکٹھی کرلی تھی اور اسے ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھتا تھا قارون خدا پرست نہ تھا بلکہ دولت پرست تھا اپنی دولت عیش و عشرت میں خرچ کرتا تھا بہت عمدہ محل بنایا اور ان کے در و دیوار کو سونے اور مختلف

۱۵۳

قسم کے جواہرات سے مزيّن کیا حتّی کہ اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو سونے اور جواہرات سے مزّین کیا قارون کے پاس سینکڑوں غلام اور کنیزیں تھیں اور ان کے ساتھ برا سلوک کرتا اور انہیں مجبور کرتا کہ اس کے سامنے زمین پر گرپڑیں اور اس کے پاؤں کو بوسہ دیں_

بعض عقلمند مومن اسے نصیحت کرتے اور کہتے کہ اسے قارون یہ تمام باغ اور ثروت کس لئے یہ سب دولت اور مال کس لئے ذخیرہ کر رکھا ہے؟ کیوں لوگوں پر اتنے ظلم ڈھاتے ہو؟ خدا کا کیا جواب دو گے؟ لوگوں کا حق کیوں پامال کرتا ہے؟ غریبوں او رناداروں کی کیوں مدد نہیں کرتا؟ نیک کاموں میں کیوں قدم نہیں اٹھاتا؟ قارون غرور و تکبّر میں جواب دیتا کہ کسی کو ان باتوں کا حق نہیں پہنچتا میں اپنی دولت خرچ کرتا ہوں؟ مومن اسے وعظ کرتے اور کہتے کہ اتنی بڑی دولت حلال سے اکٹھی نہیں ہوتی اگر تو نے بے انصافی نہ کی ہوتی اگر تونے سود نہ کھایا ہوتا تو اتنا بڑا سرمایہ نہ رکھتا بلکہ تو بھی دوسروں کی طرح ہوتا اور ان سے کوئی خاص فرق نہ رکھتا_

قارون جواب میں کہتا نہیں میں دوسروں کی طرح نہیں میں چالاک اور محنتی ہوں میں نے کام کیا ہے او ردولت مند ہوا ہوں دوسرے بھی جائیں کام کریں زحمت اٹھائیں تا کہ وہ بھی دولت مند ہوجائیں میں کس لئے غریبوں کی مدد کروں لیکن مومن اس کی راہنمائی کے لئے پھر بھی کہتے کہ تم لوگوں کے حقوق ادا نہیں کرتے جب ہی اتنے دولت مند ہوئے ہو اگر تم مزدوروں کے حق دیتے تو اتنے ثروت مند نہ ہوتے

۱۵۴

اور وہ اتنے فقیر اور خالی ہاتھ نہ ہوتے اب بھی اگر چاہتے ہو کہ سعادتمند اور عاقبت بخیر ہوجاؤ تو اپنی دولت کو مخلوق خدا کی آسائشے اور ترقی میں خرچ کرو دولت کا انبار لگالینا اچھا نہیں دولت کو ان راستوں میں کہ جسے خداپسند کرتا ہے خرچ کرو لیکن قارون مومنین کا مذاق اڑاتا اور ان کی باتوں پر ہنستا اور غرور اور بے اعتنائی سے انہیں کہتا کہ بے فائدہ مجھے نصیحت نہ کرو میں تم سے بہتر ہوں اور اللہ پر زیادہ ایمان رکھتا ہوں جاؤ اپنا کام کرو اور اپنی فکر کرو

خوشبختی اور سعادت کس چیز میں ہے

ایک دن قارون نے بہت عمدہ لباس پہنا اور بہت عمدہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے محل سے باہر نکلا بہت زیادہ نوکر چاکر بھی اس کے ساتھ باہر آئے لوگ قارون کی عظمت و شکوہ کو دیکھنے کے لئے راستے میں کھڑے تھے اور اس قدر سونے او رجواہرا کے دیکھنے پر حسرت کر رہے تھے بعض نادان اس کے سامنے جھکتے اور زمین پر گرپڑتے اور کہتے کتنا خوش نصیب ہے قارون کتنی ثروت کا مالک اور کتنی سعادت رکھتا ہے خوش حال قارون کتنی اچھی زندگی گزارتا ہے کتنا سعادتمند اور خوشبخت ہے کاش ہم بھی قارون کی طرح ہوتے؟

۱۵۵

لیکن سمجھدار مومنین کا دل ان لوگوں کی حالت پر جلتا وہ انہیں سمجھاتے اور کہتے کہ سعادت اور خوش بختی زیادہ دولت میں نہیں ہوا کرتی کیوں اس کے سامنے زمین پر گرپڑتے ہو؟ ایک ظالم انسان کا اتنا احترام کیوں کرتے ہو وہ احترام کے لائق نہیں: اس نے یہ ساری دولت گراں فروشی اور بے انصافی سے کمائی ہے وہ سعادتمند نہیں سعادتمند وہ انسان ہے جو خدا پر واقعی ایمان رکھتا ہو اور اللہ کی مخلوق کی مدد کرتا ہو اور لوگوں کے حقوق سے تجاوز نہ کرتا ہو ایک دن اللہ تعالی کی طرف سے حضرت موسی (ع) کو حکم ہوا کہ دولت مندوں سے کہو کہ وہ زکاة دیں_

حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ کا حکم دولت مندوں کو سنایا اور قارون کو بھی اطلاع دی کہ دوسروں کی طرح اپنے مال کی زکوة دے اس سے قارون بہت ناراض ہوا اور سخت لہجے میں حضرت موسی (ع) سے کہا زکوة کیا ہے کس دلیل سے اپنی دولت دوسروں کو دوں وہ بھی جائیں اور کام کریں اور محنت کریں تا کہ دولت کمالیں_

حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا زکوة یعنی اتنی بڑی دولت کا ایک حصّہ غریبوں اور ناداروں کو دے تا کہ وہ بھی زندگی گذارسکیں چونکہ تم شہر میں رہتے ہو اور معاشرے کی فرد ہو اور ان کی مدد سے اتنی کثیر دولت اکٹھی کی ہے اگر وہ تیری مدد نہ کرتے تو تو ہرگز اتنی دولت نہیں کماسکتا تھا مثلا اگر تو بیابان کے وسط میں تنہا زندگی بسر کرتا تو ہرگز اتنا بڑا محل نہ بنا سکتا اور باغ آباد نہ کرسکتا یہ دولت جو تونے حاصل کی ہے

۱۵۶

ان لوگوں کی مدد سے حاصل کی ہے پس تیری دولت کا کچھ حصّہ بھی انہیں نہیں دے رہا بلکہ ان کے اپنے حق اور مال کو زکات کے نام سے انہیں واپس کر رہا ہے_

لیکن قارون نے موسی علیہ السلام کی دلیل کی طرف توجہ نہ کی اور کہا اے موسی (ع) یہ کیسی بات ہے کہ تم کہہ رہے ہو زکات کیا ہے ہم نے برا کام کیا کہ تم پر ایمان لے آئے ہیں کیا ہم نے گناہ کیا ہے کہ نماز پڑھتے ہیں اب آپ کو خراج بھی دیں_

حضرت موسی علیہ السلام نے قارون کی تندروی کو برداشت کیا اور نرمی سے اسے کہا کہ اے قارون زکات کوئی میں اپنے لئے تولے نہیں رہا ہوں بلکہ اجتماعی خدمات اور غریبوں کی مدد کے لئے چاہتا ہوں یہ اللہ کاحکم ہے کہ مالدار غریبوں اور ناداروں کا حق ادا کریں یعنی زکوة دیں تا کہ وہ بھی محتاج اور فقیر نہ رہیں اگر تو واقعی خدا پر ایمان رکھتا اور مجھے خدا کا پیغمبر مانتا ہے تو پھر اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردے اگر نماز پڑھتا ہے تو زکوت بھی دے کیونکہ نماز بغیر زکات کے فائدہ مند نہیں ہے تورات کا پڑھنا سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے ہے لیکن قارون حضرت موسی علیہ السلام اور مومنین کی نصیحت اور موعظہ کی کوئی پرواہ نہ کی بلکہ اس کے علاوہ مومنین کواذيّت بھی پہنچانے لگا اور حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ دشمنی کرنے لگا یہاں تک تہمت لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتا تھا حضرت موسی علیہ السلام قارون کی گستاخی اور سخت دلی سے بہت ناراض ہوئے اور آپ کا دل ٹوٹا اور خداوند عالم سے درخواست

۱۵۷

کی کہ اس حریص اور ظالم انسان کو اس کے اعمال کی سزا دے_

حضرت موسی (ع) کی دعا قبول ہوئی

اللہ کے حکم سے زمین لرزی اور ایک شدید زلزلہ آیا اور ایک لحظہ میں قارون کا محل ویران اور زمین بوس ہوگیا اور قارون کو قصر سمیت زمین نگل گئی اور اس حریص کے ظلم کا خاتمہ کردیا قارون خالی ہاتھ آخرت کی طرف روانہ ہواتا کہ وہ اپنے برے کاموں کی سزا کو دیکھے اور اسے عذاب دیا جائے کہ آخرت کا عذاب سخت اور دائمی ہے اس وقت وہ لوگ جو قارون کو سعادتمند سمجھتے تھے اور اس کی دولت کی آرزو کرتے تھے اپنی غلطی کی طرف متوجہ ہوئے اور توبہ کی اور کہا کتنی بری عاقبت اور برا انجام ہے یہ قارون نے اپنے مال کو ہاتھ سے نہ دیا اور خالی ہاتھ اور گناہ گار آخرت کی طرف روانہ ہوا تا کہ اپنے کئے کا عذاب چکھے اب ہم نے سمجھا کہ تنہا مال اور دولت کسی کو خوش بخت نہیں کرتی بلکہ خوش بختی خدا پر ایمان اور اللہ کے احکام پر عمل کرنے میں ہے_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ قارون نے دولت کس طریقہ سے اکٹھی کی تھی؟

۱۵۸

۲)___ قارون اپنی دولت کو کہاں خرچ کرتا تھا؟

۳)___ مومن اس سے کیا کہتے تھے اور کس طرح اسے نصیحت کرتے تھے؟

۴)___ زکات سے کیا مراد ہے کس دلیل کی بنا پر اپنی دولت دوسروں کو دی جائے حضرت موسی (ع) نے قارون کے دو سوالوں کا کیا جواب دیا تھا؟

۵)___ کس دلیل سے مال کا کچھ حصّہ فقراء سے تعلق رکھتا ہے؟

۶)___ جب نادان لوگوں نے قارون کا ظاہری جاہ و جلال دیکھا تو کیا کہتے تھے اور کیا آرزو کرتے تھے؟

۷)___ حضرت موسی (ع) زکات کو کن جگہوں پر خرچ کرتے تھے؟

۸)___ کیا قارون واقعاً سعادتمند تھا اور اس کا انجام کیا ہوا؟

۹)___ اپنے ظلم کی کامل سزا کہاں پائے گا؟

۱۰)___ جو لوگ اسے سعادتمند سمجھتے تھے وہ اپنی غلطی سے کیسے مطلع ہوئے اور انہوں نے کیا کہا؟

اس داستان کو اپنے خاندان کے افراد کے سامنے بیان کیجئے اور اس کے متعلق بحث اور گفتگو کیجئے_

۱۵۹

چوتھا حصّہ

امامت

۱۶۰