‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 285
مشاہدے: 111041
ڈاؤنلوڈ: 3730


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 111041 / ڈاؤنلوڈ: 3730
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد 2

مؤلف:
اردو

پانچواں سبق

قرآن کی دو سورتیں

قرآن کی چند حصّوں میںتقسم کیا گیا ہے اور ہر حصّہ کو سورہ کہا جاتا ہے اور وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع ہوتی ہے اور پھر ہر سورہ کو چند حصّوں میں تقسیم کردیا گیا ہے کہ جس کے ہر حصّے کو آیت کہاجاتا ہے سورہ الحمد اور سورہ توحید کا ترجمہ یاد کیجئے اور نماز میں اس کے ترجمے کی طرف توجہ کیجئے بہتر یہی ہے کہ قرآن مجید کی کوئی چھوٹا سورہ یاد کیجئے کہ جسے سورہ الحمد کے بعد نماز میں پڑھا کیجئے

_بسم الله الرحمن الرحیم

شروع کرتا ہوں خدا کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

الحمد لله رب العالمین

الرّحمن الرّحیم

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے جو بہت مہربان اور رحم والا ہے

۲۲۱

مالک یوم الدّین ايّاک نعبد و ايّاک نستعین

روز جزا کا مالک ہے ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں

اهدنا الصّراط المستقیم صراط الّذین انعمت علیهم

تو ہمیں سیدھے راستے پر قائم کرھ ان لوگوں کے راستہ پر کہ جن پر تو نے اپنی نعمتیں نازل کی

غیر المغضوب علیهم و لا الضّالین

ہیں نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر کہ جن پر تیرا عذاب نازل ہوا اور نہ گمراہ لوگوں کے راستہ کی

بسم الله الرحمن الرحیم

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

قل هو الله احد الله الصّمد لم یلد و

کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے اللہ (ہر شی سے) بے نیاز ہے نہ اس نے کسی کو جنا

لم یولد و لم یکن لّه کفوا احد

اور نہ ہی اسے کسی نے جنا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں

۲۲۲

چھٹا سبق

روزہ ایک بہت بڑی عبادت ہے

روزہ رکھنا اسلام کی عبادتوں میں سے ایک بہت بڑی عبادت ہے خدا روزہ رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور انہیں بہترین جزا اور انعام دیا جائے گا ہر مسلمان کو چاہیئے کہ وہ روزہ رکھے یعنی صبح صادق سے لے کر مغرب تک کھانے پینے اور دوسری چیزوں سے کہ جس سے روزہ باطل ہوجاتا ہے اجتناب کرے جب ہم روزہ رکھنا چاہیں تو پہلے نیت کریں یعنی ارادہ کریں کہ ہم اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے روزہ رکھتے ہیں خداوند عالم نے روزہ واجب کیا ہے تا کہ مسلمان خدا کی یاد میں ہوں اور خدا کو بہتر پہنچانیں اور اپنی خواہشوں پر غالب آئیں آخرت کو زیادہ یاد کریں اور اچھے کاموں کے بجالانے کے لئے آمادہ ہوں تا کہ اپنے اچھے کاموں کو آخرت کے لئے ذخیرہ کریں بھوک اور پیاس کا مزہ

۲۲۳

لیں اور غریبوں اور بھوکوں کی فکر کریں اور ان کی مدد کریں اور صحت اور سلامتی سے زیادہ بہرہ ور ہوں

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جو صرف کھانا اور پینا چھوڑدے تو وہ روزہ دار نہیں ہوجاتا یعنی روزہ کے لئے صرف اتنا کافی نہیں ہے بلکہ تم روزہ دار تب ہوگئے جب کہ تمہازے کان اور زبان بھی روزہ دار ہوں یعنی حرام کام انجام نہ دیں تمہارے ہاتھ پاؤں اور بدن کے تمام اعضاء بھی روزہ دار ہوں یعنی برے کام انجام نہ دیں تا کہ تمہارا روزہ قبول ہو_ تم تب روزہ دار ہوگے جب کہ دوسرے دنوں سے بہتر اور خوش خلق ہو زبان کو بیکار اور فضول باتوں سے روکو جھوٹ نہ بولو کسی کا مذاق نہ اڑاؤ اور آپس میں دشمنی او رجھگڑا نہ کرو، حسد نہ کرو، کسی کی عیب جوئی اور بدگوئی نہ کرو، اپنے نوکروں اور خادموں پر ہمیشہ کی نسبت زیادہ مہربانی کرو، اور ان سے تھوڑا کام لوجو لڑکے اور لڑکیاں بلوغ اور رشد کی عمر کی پہنچ گئے ہوں اور ان ک لئے روزہ رکھنا شرعاً کسی دوسری وجہ سے ممنوع نہ ہو تو ان پر واجب ہے کہ وہ ماہ رمضان المبارک کا روزہ رکھیں چھوٹے بچّے بھی سحری کے کھانے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ شرکت کریں سحری کھاکیں اور ظہر تک یا اس وقت تک کہ جہاں تک ان سے ہوسکتا ہے کوئی چیز نہ کھائیں پئیں تو اس طرح وہ بھی روزہ دار وں کے ساتھ ثواب اور انعام الہی میں شریک ہوجائیں گے جو شخص شرعی عذر کے علاوہ روزہ نہ رکھے گناہ گار ہے اور اس کے بعد اس کی

۲۲۴

قضا بھی بجالائے اور ہر دن کے گناہ کے تدارک کے لئے توبہ کرے اور ہر دن کے روزے کے لئے جو نہیں رکھا ساٹھ روزے رکھے یا ساتھ فقیروں کو کھانا کھلائے

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ روزہ رکھنے کی غرض کیا ہے جب روزہ رکھنا چاہیں تو کیا نیت کریں؟

۲)___ جب ہم روزہ دار ہوتے ہیں تو کن کاموں کے لئے آمادگی ظاہر کرتے ہیں اور کیوں؟

۳)___ روزہ دار انسان کیسے بھوکوں اور پیاسوں کے بارے میں سوچتا ہے؟

۲۲۵

ساتواں سبق

اسلام میں دفاع اور جہاد

ہر مسلمان کے بہترین اور اہم ترین فرائض میں سے ایک جہاد ہے جو مومن جہاد کرتا ہے وہ اخروی درجات اور اللہ کی مغفرت اور خاص رحمت الہی سے نوازا جاتا ہے مجاہد مومن میدان جہاد میں جاکر اپنی جان اور مال کو اللہ کی جاودانی بہشت کی قیمت پر فروخت کرتا ہے اور یقینا یہ معاملہ فائدہ مند اور توفیق آمیز ہے اور اس کے لئے اللہ تعالی کی رضا ہر انعام اور جزاء سے زیادہ قیمتی ہے_

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا جو لوگ اللہ کے راستے میں بندگان خدا کی آزادی کے لئے قیام اور جہاد کرتے ہیں قیامت کے دن بہشت کے اس دروازے سے داخل ہوں گے کہ جس کا نام ''باب مجاہدین ہے اور یہ دروازہ صرف مجاہد مومن کے لئے کھولا جائے گا اور وہ

۲۲۶

نہایت شان و شوکت سے ہتھیار کندھے پر اٹھائے ہوئے سب کی آنکھوں کے سامنے اور تمام اہل جنّت سے پہلے بہشت میں داخل ہوگا اور اللہ کے مقرّب فرشتے اس پر سلام کریں گے اور اسے خوش آمدید کہیں گے اور دوسرے لوگ اس کے مرتبہ و مقام پر رشک کریں گے اور جو بھی خدا کی راہ میں جہاد اور جنگ کو چھوڑ دے گا_

خداوند عالم اس کے جسم کو ذلت و خواری کا لباس پہنائے گا وہ اپنا دین چھوڑ بیٹھتا ہے او رآخرت میں دردناک عذاب میں ہوگا خدا امت اسلامی کو ہتھیاروں کے قبضے اور ان کی سواریوں کی با رعب آواز سے بے نیاز کرتا ہے اور انہیں عزّت عطا فرماتا ہے؟

جو مومن مجاہد جہاد کے لئے منظّم صفوف اور نبیان مرصوص بن کرجاتے ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ جنگ اور جہاد کے میدان میں خداوند عالم کی حدود کا خیال کریں جو دشمن ان کے مقابل میں لڑائی کے لئے آیا ہے اس سے پہلے توبہ کا مطالبہ نہ مانیں اور اللہ کی حکومت اور ولایت قبول نہ کریں تو پھر ہر مومن امام معصوم (ع) کی اجازت سے یا اسلامی رہبر کہ جس کی رہبری از روئے اسلام صحیح اور درست ہو، کی اجازت سے ان سے جنگ کرے اور

۲۲۷

متکبر و طاغوت کو سرنگوں کرے اور اللہ کے بندوں کو اپنی پوری طاقت و قوت سے غیر خدا کی بندگی سے آزاد کرائے اور اس راستے میں مرنے یا مرجانے سے نہ دڑے جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ شہادت کی موت بہترین موت ہے اور یہ خدا کی راہ میں ماراجاتا ہے ، خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ اگر میدان جنگ میں دشمن کے ہزاروار سے ماراجاؤں یہ مرنا میرے لئے زیادہ خوشگوار ہے اس سے کہ اپنے بستر پر مروں، وہ جہاد کہ ظلم اور ستم ک بند سے رہائی دیتا ہے امام علیہ السلام کے اذن اور اجازت کے ساتھ یا مسلمانوں کے حقیقی رہبر اور نائب امام کی اجازت کے ساتھ مربوط ہے اور یہ ان کا فرض ہے جو طاقت اور قدرت رکھتے ہوں لیکن اگر اسلامی سرزمین اور مسلمانوں کی عزّت اور شرف اورناموس پر کوئی حملہ کرے تو پھر تمام پر خواہ مرد ہو یا عورت واجب ہے کہ جو کچھ اپنے اختیار میں رکھتے ہیں لے کر قیام کریں اور اپنی سرزمین اور عزّت و ناموس اور عظمت اسلام سے پوری طاقت سے دفاع کریں اس مقدس فرض کے بجالانے میں مرد بھی قیام کریں اور عورتیں بھی قیام کریں لڑکے بھی دشمن کے سرپر آگ کے گولے برسائیں اور لڑکیاں بھی_ ہر ایک کو چاہیئےہ ہتھیا ر اٹھائیں اور حملہ آور کو اپنی مقدس سرزمین سے باہر نکال پھینکیں اور اگر لو ہے کہ ہتھیار موجود نہ ہوں تو پھر لکڑی اور پتھر بلکہ دانتوں اور پنجوں سے بھی حملہ آور دشمن پر ہجوم کریں اور اپنی جانیں قربان کردیں اور پوری قدرت کے ساتھ جنگ کریں اور شہادت کے مرتبہ کو

۲۲۸

حاصل کرلیں اور آنے والی نسلوں کے لئے عزّت اور شرف کو وارثت میں چھوڑ جائیں اس مقدس جہاد میں جو دفاع کہلاتا ہے امام (ع) کے اذن کا انتظار نہیں کرنا چاہیئے اوروقت کو ضائع نہ کریں کیونکہ یہ جہاد مقدس اتنا ضروری اور حتمی ہے کہ اس میں امام (ع) اور رہبر کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوا کرتی مملکت اسلامی کی سرزمین کا دفاع کرنا اتنا ضروری ہے کہ اسلام نے اس کی ذمہ داری ہر فرد پر واجب قرار دے دی ہے_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ مجاہد مومن میدان جنگ میں جاکر اپنی جان و مال کو کس کے مقابلہ میں فروخت کرتا ہے اور اس معاملے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟

۲)___ مومن مجاہد کس طرح بہشت میں وارد ہوگا؟

۳)___ ان لوگوں کا انجام کیا ہوتا ہے جو خدا کی راہ میں جہاد کو ترک کردیتے ہیں؟

۴)___ اللہ امت اسلامی کو کس راستے سے عزّت اور شرف اور بے نیازی تک پہنچاتا ہے؟

۵)___ جو مومن مجاہد جنگ کے لئے وارد میدان ہوتے ہیں وہ دشمنوں کے ساتھ ابتداء میں کیا سلوک کرتے ہیں؟

۶)___ امیرالمومنین علیہ السلام نے شہادت کے بارے

۲۲۹

میں کیا فرمایا ہے؟

۷)___ جہاد کس کے حکم سے کیا جاتا ہے؟

۸)___ دفاع کا کیا مطلب ہے، اسلامی سرزمین اور اسلامی شرف و عزّت کے حفظ کیلئے مسلمانوں کا فریضہ کیا ہے؟

۲۳۰

آٹھواں سبق

امربالمعروف و نہی عن المنکر

گرمیوں ک موسم میں ایک دن ہوا بہت گرم تھی حضرت علی علیہ السلام تھکے مادے پسینہ بہاتے گھر تشریف لائے آپ (ع) ن رون کی آواز سنی آپ (ع) ٹھہر گئے اور ہر طرف نگاہ کی کسی کو نہ دیکھا چند قدم آگ بڑھے ایک جوان عورت کوچہ کی دوسری طرف سے ظاہر ہوئی بیچاری دوڑ رہی تھی اور رو رہی تھی اور آنسو بہا رہی تھی ہانپتے ہوء اس نے اپنے آپ کو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام تک پہنچایا اپنے آنسو دونوں ہاتھوں سے صاف کیا چاہتی تھی کہ بات کرے لیکن نہ کرسکی اس کا چہرہ پھر آنسؤوں سے ڈوب گیا امیرالمومنین علیہ السلام نے اس سے رون کی وجہ پوچھی عورت نے ڈوبتی ہوئی آواز میں رو کر کہا کہ میرے شوہر نے مجھ پر ظلم کیا ہے اور مجھے گھر سے باہر نکال دیا ہے اور مجھے مارنا چاہتا ہے یا امیرالمومنین (ع)

۲۳۱

آپ (ع) میری فریاد کو پہنچیں کہ آپ (ع) کے سوا میرا کوئی مددگار نہیں ہے_

امیرالمومنین علیہ السلام بہت تھکے ہوئے تھے آپ (ع) نے فرمایا تھوڑا صبر کرو ہوا ٹھنڈی ہوجائے اس وقت میں تیرے ساتھ جاؤں گا اور تیرے شوہر سے بات کروں گا اب دن بہت زیادہ گرم ہے اور میں بھی تھکا ہوا ہوں بہتر یہی ہے کہ تھوڑا صبر کرو

عورت نے جو ابھی تک رو رہی تھی کہا یا امیرالمومنین (ع) ڈرتی ہوں گہ اگر میںگھر دیر سے گئی تو میرا شوہر اور غضبناک ہوگا اور پھر معاملہ زیادہ بگڑجائے گا_

حضرت امیرالمومنین (ع) نے چند لمحے سوچا اور فرمایا نہیں: قسم بخدا امربالمعروف اور نہی عن المنکر میں کوتاہی نہیں کروں گا مجھے چاہئے کہ اس مظلوم کی مدد کروں اس کے بعد آپ (ع) اس عورت کے ساتھ اس کے گھر کو روانہ ہوگئے اور اس عورت کے گھر کے قریب پہنچے عورت نے اپناگھر دکھلایا اور تھوڑی دور ٹھہرگئی کیوں کہ آگے جانے سے ڈرتی تھی امیرالمومنین علیہ السلام نزدیک گئی اور دروازہ کھٹکھٹایا اورسلام کیا ایک طاقتور اور غضبناک جوان نے دروازہ کھولا

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اس کے اپنی بیوی سے اختلاف کی تحقیق کی اور پھر بہت نرمی اور اخلاق سے فرمایا اے جوان کیوں اپنی بیوی کو اذیت دیتے ہو اور کیوں اسے گھر سے باہر نکال دیا ہے؟ خدا سے ڈر اور اپنی بیوی کو آزار نہ پہنچا میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنی بیوی کے ساتھ مہربان رہ اور اسے نہ مارا کر اور اگر اس نے تجھے تکلیف

۲۳۲

دی ہے تو معاف کردے عورت گلی کے اس طرف کھڑی حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی گفتگو سن رہی تھی اور امید رکھتی تھی کہ اس کا شوہر امیرالمومنین علیہ السلام کی نصیحت قبول کرلے گا اور اپنی بری عادت کو چھوڑ د گا لیکن وہ جوان جو امیرالمومنین علیہ السلام کو نہیں پہچانتا تھا کہن لگا کہ آپ بیوی میری گھریلو زندگی میں دخل دیتے ہیں میں اگر چاہوں تو اسے قتل کردوں آپ سے کوئی واسطہ اور ربط نہیں_ ابھی اس کو آگ میں ڈالوں گا دیکھتا ہوں کہ تو کیا کرلے گا_ جب وہ بلند آواز سے یہ کہہ رہا تھا تو امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنا سر نیچے کر رکھا تھا اور آہستہ آہستہ لا الہ الا اللہ پڑھ رہے تھے وہ جوان چیختا اور کہتا رہا کہ اس کا آپ سے کوئی واسطہ نہیں ابھی اسے جلاکر رکھ دوں گا چاہتا تھا کہ اپنی بیوی پر حملہ کرے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اس پر وہ راستہ بند کر دیا اس کا ہاتھ پکڑا اور دوبارہ اسے سمجھایا اور نصیحت کی لیکن وہ جوان اپنی ضد سے باز نہ آیا گستاخی کرتے ہوئے چاہتا تھا کہ اس عورت پر حملہ کرے اور شاید واقعی چاہتاتھا کہ اسے آگ میں جلا دے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کو غصّہ آیا اور فوراً اپنی تلوار میان سے نکالی اور اس جوان کے سر پرتان دی تلوار کی چمک اس جوان کی آنکھوں پر پڑی تو اس کا بدن لرزنے لگا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے غضب ناک نگاہ اس جوا پر ڈالی اور فرمایا کہ میں تم سے اخلاق سے کہہ رہا ہوں اورتمہیں نیک کام کی طرف بلا رہا ہوں اور برے کام کی سزا سے ڈرا رہا ہوں لیکن تم ہو کہ بلاوجہ شور مچا رہے ہو اور بے ادبی اور گستاخی

۲۳۳

کر رہے ہو میں تمہیں اس عورت پر ظلم کرنے دوں گا؟ اپنے ظلم و ستم سے توبہ کرو اور خدا سے ڈرو اور بے سہارا بیوی کو اذیت نہ دو ورنہ میں تجھے تیرے برے کام کی سزادوں گا اسی حالت میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے چند صحابہ وہاں پہنچ گئے اور آپ کو سلام کیا اس بیچارے جوان کا رنگ اڑا ہوا تھا اور تلوار کے نیچے کانپ رہا تھا اس نے اس وقت آپ (ع) کو پہچانا اپنے کام سے پشیمان ہوا معافی مانگی اور توبہ کی_

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنی تلوار میان میں رکھی اور اس عورت سے فرمایا اپنے گھر جا اور شوہر کے ساتھ زیادہ موافقت اوراحترام سے زندگی بسر کراے عورت تو بھی اپنے شوہر سے مہربان اور مخلص رہ اور اسے غضبناک نہ کر

امربالمعروف اورنہی عن المنکر اسلام کے اہم واجبات میں سے ایک اجتماعی فرض اور ذمّہ داری ہے اسلام مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ خود نیک کام کریں اوردوسروں کو بھی نیک کام کی طرف بلائیں اسلام حکم دیتا ہے کہ مسلمان گناہ اور برائی سے دور رہیں اور دوسروں کو بھی برائی سے دور رکھیں خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ تم بہترین ملّت ہو کیوں کہ اچھائی کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر واقعی ایمان رکھتے ہو

۲۳۴

سوالات

۱)___ امربالمعروف کا مطلب بتائے

۲)___ نہی عن المنکر کا مطلب بیان کیجئے

۳)___ اگر کسی بچے کو اذیت کرتے دیکھیں تو کیا کریں گے؟ آپ کا فرض کیا ہے

۴)___ اگر کوئی مظلوم آپ سے مدد مانگے تو اسے کس طرح جواب دیںگے؟

۵)___ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اس جوا کو کیسے امربالمعروف کیا؟

۶)___ اس عورت کو کس طرح امربالمعروف کیا؟

۷)____ خداوند عالم نے قرآن میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۸)___ آپ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو کیسے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کریں گے اگر ہوسکے تو کوئی مثال دیجئے؟

۲۳۵

نواں سبق

زکاة عمومی ضرورتوں کو پوری کرنے کیلئے ہوتی ہے

دین اسلام نے اجتماعی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایک سرمائے کا انتظام کیا ہے کہ جسے زکاة کہا جاتا ہے زکاة مالی واجبات میں سے ایک واجب ہے پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ اللہ نے فقراء کی ضروریات کے مطابق سرمایہ داروں کے مال میں ایک حق قرار دیے دیا ہے کہ اگر وہ ادا کریں تو اجتماعی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں اگر کوئی لوگوں میں بھوکا یا ننگا دیکھا جائے تو یہ اس وجہ سے ہوگا کہ سرمایہ دار اپنے اموال کے واجب حقوق ادا نہیں کرتے جو سرمایہ دار اپنے مال کی زکاة نہ دے قیامت کے دن اس بازپرس ہوگی اور بہت دردناک عذاب میں مبتلا ہوگا_

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا جو سرمایہ دار اپنے

۲۳۶

مال کی زکاة نہ دے نہ وہ مومن ہے اور نہ مسلمان

زکاة کون حضرات دیں

۱)___ جو لوگ زراعت اور باغبانی کرنے سے فصل پیدا کرتے ہیں جیسے گندم، جو، خرما، کشمش، اوران کی پیدا اور ایک خاص نصاب تک بھی ہوجاتی ہو تو انہیں ایک مقدار زکاة کے عنوان سے دینی ہوگا_

۲)___ جو لوگ اپنے سرمایہ کہ حیوانات کی پرورش اورنگہداشت پر خرچ کرتے ہیں جیسے بھہیڑ، بکریاں، گائے، اونٹ، پالتے ہیں اور ان کی تعداد بھی ایک مخصوص حد تک ہوجائے تو انہیں بھی اس سے زکاة کے عنوان سے کچھ تعداد دینی ہوگی_

۳)___ جو لوگ سونے چاندی کی ایک خاص مقدار جمع رکھتے ہیں کہ جسے خرچ نہیں کرتے اگر ان کا جمع شدہ یہ مال سال بھر پڑا رہے تو اس میں بھی ایک معيّن مقدار زکاة کے عنوان سے دیتی ہوگی کتنی مقدار زکاة ادا کی جائے گندم اور جو کی کتنی زکاة ہوتی ہے اور کیسے جواب ہوتی ہے_ بھیہڑ بکریوں، گائے ، اونٹ و غیرہ کی زکاة میں کیا شرائط ہیں او رکتنی زکاة واجب ہے یہ تمام باتیں آئندہ کتابوں میں بیان کریں گے ( اور بہتر یہ ہے کہ آدمی اپنے مجتہد کی کتاب توضیح المسائل سے دیکھے اور عمل کرے)

۲۳۷

زکاة کو کہاں خرچ کریں

زکاة مسلمانوں کے اجتماعی کاموں پر خرچ کی جائے جیسے زکاة کے روپیہ سے ہسپتال بنایا جائے اور اس کے مصارف میں خرچ کی جائے اور غریب بیماروں کا علاج کیا جائے تا کہ وہ تندرست ہوجائیں اور غریبوں کی زندگی کے لوازمات مہيّا کئے جائیں، جہالت کودور کرنے کے لئے تعلیمی اداے بنائے جائیں اور عمدہ وسائل مہيّا کر کے لوگوں کو دین اور علم سے روشناس کیا جائے زکاة سے عمدہ باغ اور پارک بنائے جاسکتے ہیں کہ جہاں لوگ اور بچّے جاکر کھیلیں کو دیں اور عمدہ لائبریریاں علمی اور دینی کتابوں کے مطالعے کے لئے بنائی جائیں، زکاة سے شہروںاوردیہات میں پانی ٹنکیاں بنائی جاسکتی ہیں تا کہ ہر ایک گھر میں بہتر اور عمدہ پانی مہیا ہوسکے زکاة سے دینی اور علمی کتابیں مہيّا کرکے سستی قیمت پر لوگوں کو شہروں اور دیہات میںمہيّا کی جائیں زکاة سے بڑی بڑی مسجدیں بنائی جائیں تا کہ تمام لوگ مسجد میں جائیں اور نماز جماعت کے ساتھ پڑھیں اور قرآن اور دین ہاں سیکھیں زکاة سے غریب طبقے کے لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کرائی جاسکتی ہے اور انہیں مکان اور دیگر لوازمات زندگی خرید کردیئےاسکتے ہیں زکاة سے مسلمانوں کے تمام اجتماعی امور انجام دیئے جاسکتے ہیں اس وقت کوئی آدمی غریب، بھوکا مقروض

۲۳۸

و غیرہ باقی نہ رہے گا تمام صحیح و سالم طاقتور با ایمان دیندار اور آرام سے زندگی بسر کریں گے اور اللہ کی عبادت کریں گے اور اپنی آخرت کے لئے اعمال صالح بجالاسکیں گے تا کہ اس دنیا میں اللہ کی بہترین نعمتوں سے اور پروردگار کی بہت زیادہ محبت سے استفاہ کرسکیں (اچھا انجام تو صرف نیک لوگوں کے لئے ہے)

۲۳۹

دسواں سبق

خمس

دین کی تبلیغ اور اس کیلئے زمین ہموار کرنے کا سرمایہ

خداوند عالم نے ہر مسلمان پرواجب قرار دیا ہے کہ وہ دین کی تبلیغ میں کوشش کرے اور دوسرے انسانوں کو اللہ کے فرامین اور آخرت سے آگاہ کرے اور اپنی جان اور مال سے اس راستے میں مدد کرے یعنی خود دین کی تبلیغ میں کوشش کرے اور اپنی آمدنی کا خمس بھی دے_

خمس کیا ہے؟ اور کس طرح دیا جائے

جس مسلمان نے تجارت از راعت کانوں صنعت و غیرہ سے جو منفعت حاصل کی ہو یا نوکری یا مزدوری و غیرہ سے معاوضہ لیا ہو تو

۲۴۰