‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 285
مشاہدے: 110982
ڈاؤنلوڈ: 3730


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110982 / ڈاؤنلوڈ: 3730
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد 2

مؤلف:
اردو

اسے پہلے تو اپنی زندگی کے لوازمات سال بھی کے لئے حاصل کرلینے کا حق ہے او راگر کوئی چیز اس سے زائد ہو یا بچ جائے تو اسے اس کا خمس دینا چاہیئے یعنی ۵/۱ حصہ ادا کرے_

خمس کسے دیا جائے

خمس حاکم شرع عادل مجتہد ، کو دینا چاہیئے اور حاکم شرع اس مال کو لوگوں کو خدا اور دین خدا سے آگاہ کرنے میں اورمملکت اسلامی کے دفاع میں خرچ کرے گا لوگوں کی مشکلات دینی اور ان کے جوابات دینے کے لئے اہل علم کی تربیت کرے گا اور علماء کو شہروں اوردیہاتوں اوردوسرے ممالک میں بھیجے گا تا کہ لوگوں کو حقائق اسلامی سے روشناس کرائیں: عادل مجتہد خمس کے مال سے مفید دینی کتابیں خریدے یا چھاپے گا اور مفت یا سستی قیمت پر لوگوں میں تقسیم کردے گا اخبار اور دینی اور علمی ماہنامہ شائع کرائے گا_

نوجوان اور بچّوں کی دینی تعلیم و تربیت پر خرچ کرے گا اور ان کے لئے مفت کلاسیں جاری کرے گا اور علماء کی بھی ان علوم کی تدرس کے لئے تربیت کرے گا یعنی دینی مدارس قائم کرے گا تا کہ اس سے علماء اوردانشمند پیدا کئے جائیں_ عادل مجتہد خمس سے نادا رسادات جو کام نہیں کرسکتے یا اپنے سال بھر کے مصارف کو پورا نہیں کرسکتے ان کو زندگی بسر کرنے کے لئے بھی دے گا عادل مجتہد خمس اور زکاة سے ملّت

۲۴۱

اسلامیہ کی تمام ضروریات پورا کرے گا اور اسلامی مملکت کا پورا انتظام کرے گا اور صحیح اسلامی طرز پر چلائے گا_

سوالات

۱)___ معاشرہ کی عام ضروریات کیا ہوتی ہیں اور انہیں کس سرمایہ سے پورا کیا جائے گا؟

۲)___ ہمارے پیغمبر(ص) نے فقراء کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کیا فرمایا ہے؟

۳)___ کون لوگ زکاة ادا کریں اور آپ کن حضرات کو پہچانتے ہیں جو زکاة دیتے ہیں اور زکاة کو کس جگہ اور کس طرح خرچ کرتے ہیں؟

۴)___ زکاة کو کن جگہوں پر خرچ کیا جائے اگر تمام سرمایہ دار اس فریضہ پر عمل شروع کردیں اور اپنے مال کے واجب حقوق ادا کریں تو پھر لوگ کس طرح کی زندگی بسر کریں گے؟

۵)___ خمس کیا ہے کس طرح دیا جائے اور کسے دیا جائے

۲۴۲

گیارہواں سبق

حج کی پر عظمت عبادت

میں نے اپنے ماں باپ کے ساتھ حج بجالانے کے لئے سعودی عرب کا سفر کیا کتنا بہترین اور پر کیف سفر تھا اے کاش آپ بھی اس سفر میں ہوتے اور حج کے اعمال اور مناسک کو نزدیک سے دیکھتے جب ہم میقات پہنچے تو اپنے خوبصورت اور مختلف رنگوں والے لباس کو اتار دیا اور سادہ و سفید لباس جو احرام کہلاتا ہے پہنا_

جب ہم نے احرام باندھ لیا تومیرے باپ نے کہا بیٹا اب تم محرم ہو کیا تمہیں علم ہے کہ احرام کی حالت میں اللہ کی یاد میں زیادہ رہنا چاہیے کیا جانتے ہو کہ احرام کی حالت میں جھوٹ نہ بولیں اور نہ ہی قسم کھائیں اور نہ ہی حیوانات کو آزار دیں اور نہ کسی سے جنگ و جدال اور لڑائی کریں اور جتنا ہوسکے اپنی خواہشات پر قابو رکھیں اور آئندہ بھی اسی طرح رہیں

۲۴۳

بیٹا_ خانہ خدا کا حج ایک بہت بڑی عبادت ہے اور تربیت کرنے کا ایک بہت بڑا مدرسہ ہے اس مدرسہ میں ہم سادگی اور مساوات اور عاجزی اور عزت نفس کی مشق کرتے ہیں ہم نے احرام کا سادہ لباس پہنا اور دوسرے حاجیوں کی طرح لبّیک کہتے ہوئے مكّہ کی طرف روانہ ہوگئے ہزاروں آدمی مختلف نسلوں کے سادہ اور پاک لباس پہنے ہوئے تھے تمام ایک سطح اور مساوات اور برابری کے لباس میں لبیک کہتے ہوئے مكّہ کی طرف روانہ تھے ہم مكّہ معظّمہ پہنچے اور بہت اشتیاق اور شوق سے طواق کے لئے مسجد الحرام میں گئے کتنا باعظمت اور خوش نما تھا خانہ کعبہ ایک عظیم اجتماع جو انسان کو قیامت کے دن یا دلاتا تھا اور ذات الہی کی عظمت سامنے آتی تھی خانہ کعبہ کے اردگر چگر لگا کر طواف کر رہا تھا اس کے بعد ہم نے حج کے دوسرے اعمال اورمناسک اہل علم کی رہبری میں انجام دیئے حج کی پر عظمت عبادت ہمارے لئے دوسرے فوائد کی حامل بھی تھی میرے والد ان ایام میں مختلف ممالک کے لوگوں سے گفتگو کرتے رہے اور ان کے اخلاق اور آداب اور ان کے سیاسی اور اقتصادی اور فرہنگی حالات سے آگاہ ہونے کے بعد مجھ سے اور میری والدہ اور دوسرے دوستوں اورواقف کاروں سے بیان کرتے تھے اس لحاظ سے ہم دوسرے اسلامی ممالک کے مسلمانوں کے حالات سے مطلع ہوئے اورمفید اطلاعات سے آگاہ ہوئے_

ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اگر استطاعت رکھتا ہو تو ایک

۲۴۴

مرتبہ زندگی میں خانہ کعبہ کی زیارت کو جائے اور حج کے مراسم اور اعمال بجالائے اور حج میں شریک ہو اور پختہ ایمان اورنورانی قلب کے ساتھ واپس لوٹ آئے امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ جو شخص واجب حج کو بغیر کسی عذرشرعی کے ترک کردے وہ دنیا سے مسلمان نہیں اٹھے گا اور قیامت کے دن غیر مسلم کی صف میںمحشور ہوگا

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ جو شخص احرام باندھ لیتا ہے تو اس کا کیا فریضہ ہوجاتا ہے اور اسے کن کاموں سے اجتناب کرنا چاہیئے؟

۲)___ حج کی عبادت بجالانے میں کون سے درسوں کی مشق کرنا چاہیئے؟

۳)___ ہم حج کے اعمال بجالاتے وقت کس کی یاد میں ہوتے ہیں؟

۴)___ حج کے کیا فائدے ہیں؟

۵)___ حج کن لوگوں پر واجب ہوتا ہے؟

۶)___ امام جعفر صادق (ع) نے حج کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟

چند اصطلاحات کی وضاحت

میقات: وہ جگہ ہے جہاں سے احرام باندھ جاتا ہے

۲۴۵

احرام باندھنا: اپنے سابقہ کپڑوں کی جگہ سفید سادہ لباس پہننا اور اللہ کی اطاعت کرنا_

محرم: اسے کہتے ہیں جو احرام باندھ چکا ہو

لبّیک کہنا: یعنی اللہ کی دعوت کو قبول کرنا اور خاص عبادت کا احرام باندھتے وقت پڑھنا

طواف: خانہ کعبہ کے اردگرد سات چکر لگانا

۲۴۶

چھٹا حصّہ

اخلاق و آداب

۲۴۷

پہلا سبق

معاہدہ توڑا نہیں جاتا

گرمی کے موسوم میں ایک دن ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی (ع) دھوپ میں ایک پتھر پر بیٹھے ہوئے تھے دن بہت گرم تھا دھوپ پیغمبر اسلام (ع) کے سر اور چہرہ مبارک پر پڑ رہی تھی پیغمبر اسلام (ص) کی پیشانی سے پسینہ ٹپک رہا تھا گرمی کی شدّت سے کبھی اپنی جگہ سے اٹھتے اور پھر بیٹھ جاتے اور ایک جانب نگاہ کرتے کہ گویا کسی کے انتظار میں بیٹھے ہیں پیغمبر اسلام (ص) کے اصحاب کا ایک گروہ اس نظارے کو دور سے بیٹھ کر دیکھ رہا تھا وہ جلدی سے آئے تا کہ دیکھیں کہ کیا وجہ ہے سامنے آئے سلام کیا اور کہا یا رسول اللہ (ص) اس گرمی کے عالم میں آپ (ص) کیوں دھوپ میں بیٹھے ہوئے ہیں رسول خدا (ص) نے فرمایا صبح کے وقت جب ہوا ٹھنڈی تھی تو میں نے ایک شخص

۲۴۸

کے ساتھ وعدہ کیا کہ میں اس کا انتظار کروں گا وہ یہاں آجائے_ اب بہت دیر ہوگئی ہے اور میں یہاں اس کی انتظار میں بیٹھا ہوا ہوں_ انہوں نے کہا کہ یہاں دھوپ ہے آور آپ کو تکلیف ہو رہی ہے_ وہاں سایہ کے نیچے چل کر بیٹھے اور اس کا انتظار کیجئے پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا کہ میں نے اس آدمی سے یہاں کا وعدہ کیا ہے میں وعدہ خلافی نہیں کرتا اور اپنے پیمان کو نہیں توڑنا جب تک وہ نہ آئے میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا_

ہمارے پیغمبر اسلام (ص) عہد و پیمان کو بہت اہمیت دیتے تھے اور پیمان کو توڑنا بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے اورہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص عہد و پیمان کی وفا نہ کرے دیندار نہیں ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ مسلمان اور مومن انسان ہمیشہ اپنے عہد و پیمان کا وفادار ہوتا ہے اور کبھی اپنے پیمان کو نہیں توڑنا اور یہ بھی فرماتے تھے کہ جو انسان سچّا امانتدار اورخوش اخلاق ہو اور اپنے عہد و پیمان کی وفاکرے تو آخرت میں مجھ سے زیادہ نزدیک ہوگا قرآن بھی تمام مسلمانوں کوحکم دیتا ہے کہ اپنے عہد و پیمان کی وفا کریں کیوں کہ قیامت کے دن عہداور وفاکے بارے میں سوال وجواب ہوگا_

سوالات

۱)___کون سے افراد قیامت کے دن پیغمبر اسلام (ص) کے نزدیک ہوں گے؟

۲۴۹

۲)___ خداوندنے قرآن مجید میںعہد وپیمان کی وفا کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟

۳)____ کی دیندار انسان اپنے عہد کوتوڑتاہے؟ پیغمبر اسلام (ص) نے اس کے بارے میں کیا فرمایاہے؟

۴)___ آپ کے دوستوں میں سے کون زیادہ بہتراپنے پیمان پر وفادار رہتا ہے؟

۵)___ کیا آپ اپنے پیمان کی وفاداری کرتے ہیں؟ آپ کے دوست آپ کے متعلق کیا کہتے ہیں؟

۶)___ وعدہ خلافی کا کیا مطلب ہے؟

۲۵۰

دوسراسبق

مذاق کی ممانعت

اگر آپ سے کوئی مذاق کرتے تو آپ کی کیا حالت ہوجاتی ہے کیا ناراض ہوجاتے ہیں؟

اگر آپ درس پڑھتے وقت کوئی غلطی کریں اور دوسرے آپ کا مذاق اڑائیں اورآپ کی نقل اتاریں تو کیاآپ ناراض ہوتے ہیں کیاآپ کویہ بڑا لگتا ہے کیااسے ایک بے ادب انسان شمار کرتے ہیں دوسرے بھی آپ کی طرح مذاق اڑائے جانے پرنار اض ہوتے ہیں اورتمسخر ومذاق اڑانے والے کو دوست نہیںرکھتے اورخدا بھی مذاق اڑانے والے کودوست نہیں رکھتا اور اسے سخت سزا دیتا ہے خداوند عالم قرآن مجید میں انسانوں کو مذاق اڑانے اورمسخرہ کرنے سے منع کرتا ہے اورفرماتا ہے_

۲۵۱

اے انسانو جو خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہو خبردار تم میں سے کوئی دوسرے کامذاق نہ اڑائے کیوں کہ ممکنہ ے کہ اپنے سے بہتر کامذاق اڑا رہا ہو ایک دوسرے کوبرا نہ کہو اور ایک دوسرے کو برے اوربھدے ناموں سے نہ بلاؤ ایک مسلمان کے لئے برا ہے کہ وہ کسی کی توہین کرے اور اسے معمولی شمار کرے پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے جو شخص کسی مسلمان کا تمسخر یا مذاق اڑائے اوراس کی توہین کرے یا اسے معمولی سمجھ کرتکلیف دے تو اس کا یہ فعل ایسا ہی ہے جیسے اسنے مجھ سے جنگ کی ہو_

سوالات

۱)___ خداوند عالم قرآن میں تمسخر کرنے والے کے متعلق کیافرماتا ہے اورمسلمانوں کوکس اورکس طرح روکاہے؟

۲)___ ہمارے پیغمبر(ص) نے ایک مسلمان کے تمسخر کرنے کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟

۳)___ تمہارے دوستوں میں کون ایسا ہے جو کسی کامذاق نہیں اڑاتا؟

۴)___ کیاتم نے آج تک کسی کا مذاق اڑایاہے؟ کس کی توہین کی ہے؟ کیا تمہیں علم نہ تھا کہ مذاق اڑانا گناہ ہے؟

۲۵۲

تیسرا سبق

گھر کے کاموں میں مدد کرنا

میرا نام محمود ہے فرحت و زیبا میری دوبہنیں ہیں فرحت زیبا سے چھوٹی ہے دونوں مدرسہ میں پڑھتی ہیں ہمارے گھر میں کل چھ افراد ہیں ہم نے گھر کے کام کو آپس میں تقسیم کرلیا ہے خرید وفروخت اورگھر سے باہرکے کام میرے والدکرتے ہیں اورمیں بھی ان کی ان کاموں میں مدد کرتا ہوں روٹی خریدتا ہوں دودھ خریدتا ہوں، سبزی اورپھل خریدتا ہوں_ فرحت اورزیبا گھر کے اندرونی کاموں میں میری والدہ کی مدد کرتی ہیں اورگھر کو صاف و ستھرا اور منظّم رکھنے میں ان کی مدد کرتی ہیں ان میں سے بعض کام فرحت نے اور بعض دوسرے کام زیبا نے اپنے ذمّہ رکھے ہیں ہمارے گھر میں ہر ایک کے ذمّہ ایک کام ہے کہ جسے وہ اپنا فریضہ جانتا ہے اور اسے انجام دیتا

۲۵۳

اور اسے کبھی یاد دلانا بھی نہیں پڑتا ہم گھر کے تمام کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں صرف ہمارا چھوٹا بھائی کہ جو دس مہینے کاہے کوئی کام انجام نہیں دیتا میری امّی کہتی ہیں کہ رضا سوائے رونے، دودھ پینے سونے اورہنسنے کے اورکوئی کام نہیں کرتا جب بڑا ہوگا تواس کے لئے بھی کوئی کام معيّن کردیا جائے گا میرے والدکا یہ عقیدہ ہے کہ گھر کے تمام افراد کوکوئی نہ کوئی کام قبول کرنا چاہیئے اور ہمیشہ اسے انجام دے کیونکہ گھر میں کام کرنا زندگی گزارنے کادرس لینا اورتجربہ کرنا ہوتا ہے جو کام نہیں کرتا وہ کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتا_

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا ہے کہ خدا اس آدمی کوجواپنے بوجھ کوکسی دوسرے پرڈالتاہے پسندنہیںکرتا اسے اپنی رحمت سے دور رکھتا ہے بہترین مسلمان وہ ہے جو گھر کے کاموں میں مدد کرے اور مہربان ہو _

ہمارے گھر کے افراد اپنے کاموں کے انجام دینے کے علاوہ دوسرے افراد کی بھی مدد کرتے ہیں مثلاً میں ایک دن عصر کے وقت گھر میں آیا تو دیکھا کہ میرے ابّاگھر کے صحن میں جھاڑودے رہے ہیں میں نے کہا ابّا جان آپ کیوں جھاڑودے رہے ہیں ابّانے کہا کہ تم نہیں دیکھتے کہ تمہاری ماں کے پاس بہت کام ہیں ہمیں چاہیئےہ اس کی مدد کریں ہم حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ ہیں ہم دینداری میں آپ کی پیروی کرتے ہیں_

ہمارے امام اور پیشوا حضرت علی علیہ السلام اپنے گھر کے کاموں میں حضرت زہرا (س) کی مدد کرتے تھے یہاں تک کہ گھر میں

۲۵۴

جھاڑو دیتے تھے ہاں یہ بھی بتلادوں کہ ہمارے گھر کبھی بھی کوئی جھگڑا اورشور و غل نہیں ہوتا اگر میرے اور میری بہن کے درمیان کوئی اختلاف ہوجائے توہم اسے ہنسی خوشی اورمہربانی سے حل کرلیتے ہیں اور اگر ہم اسے حل نہ کرسکیں تو ماں کے سامنے جاتے ہیں یاصبر کرتے ہیں تا کہ ابّا آجائیں اورہمارے درمیان فیصلہ کریں_

میرے ابّا رات کوجلدی گھر آجاتے ہیں ہمارے درس کے متعلق بات چیت کرتے ہیں اورہماری کاپیوں کو دیکھتے ہیں اور ہماری راہنمائی کرتے میں جب ہمارے اورامّی کے کام ختم ہوجاتے ہیں توہم سب چھوٹی سی لائبریری میں جو گھر میں بنا رکھی ہے چلے جاتے ہیں اور اچھی کتابوں کا جو ہمارے ابّونے ہمارے لئے خرید رکھی ہیں مطالعہ کرتے ہیں میرا چھوٹا بھائی رضا بھی امّی کے ساتھ لائبریری میں آتا ہے اورامّی کے دامن میں بیٹھا رہتا ہے بجائے اس کے کہ مطالعہ کرے کبھی امّی کی کتاب کوپھاڑ ڈالتا ہے میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میرے ماںباپ بھائی بہن ایسے اچھے ہیں اورمیں کوشش کرتا ہوں کہ اپنے فرائض کو اچھی طرح بجالاؤں اورگھر کے کاموں میں زیادہ مدد کروں

میرے استاد نے میرے اس مضمون کی کاپی پر یہ نوٹ لکھا

محمود بیٹا تم نے بہت اچھا اورسادہ لکھا ہے تمہارا مضمون سب سے اچھا ہے تم مقابلہ میں پہلے نمبر پر ہوجب میں نے تمہارا مضمون پڑھا تو بہت خوش ہوا اوراللہ تعالی کا شکرا دا کیا کہ اس طرح کا اچھا طالب علم بھی ہمارے مدرسہ میں موجودہے_ تمہیں خدا کا شکر کرنا

۲۵۵

چاہیئے ک اس طرح کے سمجھدار ماں باپ رکھتے ہو کتنا اچھا ہے کہ تمام لوگ اور گھر کے افراد تمہاری طرح ہوں ایک دوسرے کے یار ومددگارہوں اورتمام لڑکے تمہاری طرح مہربان، فداکار اور محنتی ہوں_

سوچئے اورجواب دیجئے

۱)___ ہمارے پیغمبر (ص) نے گھر میں کام کرنے کے بارے میںکیا فرمایاہے

۲)___ جو شخص اپنے بوجھ کودوسروں پر ڈالتا ہے اس کے بارے میںکیا فرمایا ہے؟

۳)___ آپ دوسروں کی مدد زیادہ کرتے ہیں یا دوسروں سے اپنے لئے زیادہ مددمانگتے ہیں؟

۴)___ کیا آپ اپنے بہن بھائی سے اختلاف کرتے ہیں اوراپنے اختلاف کوکس طر ح حل کرتے ہیں_

۵)___ کیاآپ اپنے اختلاف کو حل کرنے کے لئے کوئی بہتر حل پیداکر سکتے ہیں اوروہ کون سا ہے؟

۶)___ کیا آپ کے گھر میں کاموں کوتقسیم کیا گیا ہے اورآپ کے ذمّہ کون سا کام ہے؟

۷)___ کیا آپ کے گھر میں لائبریری ہے اورکون آپ کے لئے کتابیں انتخاب کر کے لاتاہے؟

۸)___ استاد نے محمود کے مضمون کی کاپی پرکیانوٹ لکھا

۲۵۶

تھا اور کیوںلکھا کہ وہ خدا کا شکر ادا کرے؟

۹)___ فداکاری کا مطلب کیا ہے اپنے دوستوں میںسے کسی ایک کی فداکاری کا تذکرہ کیجئے؟

۱۰)___ آپ بھی محمود کی طرح اپنے روز کے کاموں کولکھا کیجئے اوراپنی مدد کوجو گھر میں انجام دیتے ہیں اسے بیان کیجئے_

۲۵۷

چوتھا سبق

اپنے ماحول کوصاف ستھرارکھیں

میںحسن آبادگیا تھا میں نے اس گاؤں کے گلی کوچے دیکھ کر بہت تعجب کیاچچازادبھائی سے کہا تمہارے گاؤں میں تبدیلیاںہوئی ہیںسچ کہہ رہے ہوکئی سال ہوگئے ہیں کہ تم تمہارے گاؤںمیں نہیں آئے پہلے ہمارے گاؤں کی حالت اچھی نہ تھی تمام کوچے کثیف تھے اور گندگی سے بھرے ہوئے تھے لیکن چارسال ہوئے ہیںکہ ہمارے گاؤں کی حالت ہے بالکل بدل گئی ہے چارسال پہلے ایک عالم دین ہمارے گاؤں میں تشریف لائے اورلوگوں کی ہدایت اور راہنمائی میںمشغول ہوگئے دو تین مہینے کے بعد جب لوگوں سے واقفیت پیدا کرلی تو ایک رات لوگوں سے اس گاؤں کی حالت کے متعلق بہت اچھی گفتگو کے دوران فرمایااے لوگو دین اسلام ایک پاکیزگی

۲۵۸

اورصفائی والا دین ہے لباس، جسم، گھر، کوچے،حمام، مسجد اور دوسری تمام جگہوں کو صاف ہونا چاہیے میرے بھائیو اور جوانو کیا یہ صحیح ہے کہ تمہاری زندگی کا یہ ماحول اس طرح کثیف اورگندگی سے بھرا ہوکیا تمہیں خبر نہیں کہ ہمارے پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا کہ کوڑاکرکٹ اورگھر کی گندگی اپنے گھروں کے دروازے کے سامنے نہ ڈالا کرو کیونکہ گندگی ایک ایسی مخفی مخلوق کی جو انسان کو ضرر پہنچاتی ہے مرکز ہوتی ہے کیوں اپنی نالیوں اورکوچوں کوکثیف کرتے ہو گندا پانی اورگندی ہوا تمہیں بیمار کردے گی یہ پانی اور ہوا تم سب سے تعلق رکھتی ہے تم سب کو حق ہے کہ پاک اور پاکیزہ پانی اورصاف ہوا سے استفادہ کرو اور تندرست اوراچھی زندگی بسر کرو کسی کوحق نہیں کہ پانی اورہوا کو گندا کرے پانی اورہوا کو گندا اور کثیف کرنا ایک بہت بڑا ظلم ہے اورخدا ظالموں کو دوست نہیں رکھتا اورانہیں اس کی سزا دیتا ہے اے گاؤں کے رہنے والو میں نے تمہارے گاؤں کوصاف ستھرا رکھنے کاپروگرام بنایا ہے میری مددکرو تا کہ حسن آباد کوصاف ستھرا پاک وپاکیزہ بنادیں اس گاؤں والوںنے اس عالم کی پیش کش کو قبو ل کرلیا اوراعانت کاوعدہ کیا دوسرے دن صبح کوہم سب اپنے گھروں سے نکل پڑے وہ عالم ہم سے بھی زیادہ کام کرنے کے لئے تیار تھے ہم تمام آپس میں مل کر کام کرنے لگے اورگلیوں کوخوبصاف ستھرا کیا عالم دین نے ہمارا شکریہ ادا کیا اورہم نے ان کی راہنمائی کا شکریہ ادا کیا اس کے بعد گاؤں والوںنے ایک

۲۵۹

عہد وپیمان کیا کہ اپنے گھر کی گندگی اوردوسری خراب چیزوں کوکوچے یا نالی میں نہیںڈالیں گے بلکہ اکٹھا کرکے ہرروز گاؤں سے باہر لے جائیں گے اوراس کوگڑھے میںڈال کر اس پر مٹی ڈال دیں گے اورایک مدت کے بعد اسی سے کھاد کاکام لیں گے ایک اور رات اس عالم دین نے درخت لگانے کے متعلق ہم سے گفتگو کی اورکہا کہ زراعت کرنا اور درخت لگانا بہت عمدہ اورقیمتی کام ہے اسلام نے اس کے بارے میںبہت زیادہ تاکید کی ہے_ درخت ہوا کو صاف اورپاک رکھتے ہیں اورمیوے اور سایہ دیتے ہیں اور دوسرے بھی اس کے فوائدہیں_ ہمارے پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی (ص) نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی پودا تمہارے ہاتھ میں ہوکہ اس پودے کو زمین میں کاشت کرنا چاہتے ہو اور ادہر موت تمہیں آپہنچے تواپنے کام سے ہاتھ نہ اٹھانا یہاں تک کہ اس پودے کو زمین میں گاڑدو کیوںکہ اللہ زمین کے آباد کرنے اوردرخت اگانے والے کو دوست رکھتا ہے جوشخص کوئی درخت اگانے والے کو دوست رکھتا ہے جو شخص کوئی درخت لگائے اوروہ میوہ دینے لگے تو خداوندعالم اس کے میوے کے برابر اسے انعام اور جزا دے گا لہذا کتنا اچھا ہے کہ ہم اس نہر کے اطراف میں درخت لگادیں تا کہ تمہارا گاؤں بھی خوبصورت ہوجائے اگر تم مددکرنے کا وعدہ کروتوکل سے کام شروع کردیں دیہات کے سبھی لوگوںنے اس پراتفاق کیا اور بعض نیک لوگوں نے پودے مفت فراہم کردیئےوسرے دن صبح ہم نے یہ کام شروع کردیادیہات والوں نے بہت خوشی خوشی ان پودوں کولگادیااس عالم نے سب کو اور

۲۶۰