‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد ۲

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 285

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 285
مشاہدے: 111632
ڈاؤنلوڈ: 3796


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 285 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 111632 / ڈاؤنلوڈ: 3796
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد دوم) جلد 2

مؤلف:
اردو

نواں سبق

کیا خدا غیر مرئی ہے

محمود نقاشی کر رہا تھا اس نے کتنا خوبصورت کبوتر بنایا کیا محمود عقل و فہم رکھتا ہے؟ کیا آپ اس کی عقل و فہم کو دیکھ سکتے ہیں_ کیا کہہ سکتے ہیں کہ جب محمود کی عقل اور فہم کو نہیں دیکھ پائے لہذا وہ عقل اور فہم ہی نہیں رکھتا؟

لازماً جواب دیں گے کہ عقل اور فہم آنکھ سے نہیں دیکھی جاسکتی لیکن اس کی علامتیں اور نشانیاں آنکھ سے دیکھ رہے ہیں ان ہی علامات اور آثار کے دیکھنے سے درک کرتے ہیں کہ وہ عقل اور فہم رکھتا ہے_ جی ہاں یہ آپ کا جواب بالکل درست ہے عقل اور فہم کو آنکھ سے نہیں دیکھا جاتا کیوں کہ عقل اور فہم جسم نہیں ہے کہ آنکھ سے دیکھا جائے آنکھ اور دوسرے حواس صرف جسم کے آثار اور نشانیوں کو درک کرسکتے ہیں_ بہت سی چیزیں

۴۱

ایسی موجود ہیں کہ جنھیں آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے لیکن ان کو آثار سے دیکھ لیتے ہیں اور ان کے وجود کا علم حاصل کرلیتے ہیں خدا بھی چونکہ جسم نہیں ہے لہذا آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا اور دوسرے حواس سے بھی درک نہیں کیا جاسکتا لیکن اس جہان پر عظمت کی خلقت جو خود اس کی قدرت کے آثار اور علائم میں سے ہے اس سے اس کے وجود کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے کہ اس عظیم جہان کا خالق او رانتظام کرنے والا موجود ہے_

فکر کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ اپنے دوست کودیکھیں کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے؟

۲)___ کیا اس کی عقل اور فہم کو آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں؟

۳)___ کس طرح جانتے ہیں کہ وہ عقل و فہم رکھتا ہے؟

۴)___کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ اسکی عقل اور فہم کو نہیں دیکھ سکتے لہذا وہ عقل و فہم نہیں رکھتا؟

۵)___ ہمارے ظاہری حواس کس چیز کو درک کرسکتے ہیں؟

۶)___ کیا خدا کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے

۷)___ کیا خدا کو دوسرے کسی حواس سے محسوس کیا جاسکتا ہے اور کیا بتلا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟

۸)___ کیا اب بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ چوں کہ خدا نہیں دیکھا جاسکتا لہذا موجود نہیں ہے؟

۴۲

دسواں سبق

موحّدین کے پیشوا حضرت ابراہیم (ع)

حضرت ابراہیم (ع) علیہ السلام کے زمانے میں لوگ نادان اور جاہل تھے پہلے پیغمبروں کے دستور کو بھلاچکے تھے خداپرستی کے طور طریقے نہیں جانتے خدا کی پرستش کی جگہ بت پرستی کرتے تھے یعنی پتھر یا لکڑی سونا یا چاندی کے مجسمے انسانی یا حیوانی شکل میں بناتے تھے اور ان بے زبان اور عاجز بتوں کے سامنے سجدہ کرتے تھے اور ان کے سامنے زمین پر گرپڑتے اور ان کے لئے نذر و نیاز مانتے اور قربانی دیا کرتے تھے بعض لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے اور بعض لوگ چاند یا ستاروں کی پرستش کرتے تھے_ جاہلوں کا ایک گروہ اس زمانہ میںطاقتور اور ظالموں کی پرستش کرتا تھا اور ان کی اطاعت واجب و لازم سمجھتا تھا اور بغیر سوچے سمجھے ظالموں کے دستور پر عمل کرتا تھا اپنے آپ کو ذلیل کر کے ان کے سامنے زمین پر گرتے تھے اور ان

۴۳

کے لئے بندگی کا اظہار کرتے تھے اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کو چنا اور انھیں زندگی کا صحیح راستہ بتلایا اور حکم دیا کہ لوگوں کی تبلیغ کریں اور انھیں خداپرستی کے طور طریقے بتلائیں_

حضرت ابراہیم (ع) نے لوگوں سے فرمایا کہ بتوں میں کونسی قدرت ہے کہ تم ان سے محبت کرتے ہو اور ان کی پرستش کرتے ہو یہ مجسمے کیا کرسکتے ہیں یہ نہ تو دیکھتے ہیں نہ سنتے ہیں یہ نہ تو تمہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی تمہیں ضرر پہنچانے پر قدرت رکھتے ہیں_ تم کیوں اپنے اپ کو ان کے سامنے ذلیل کرتے ہو؟ تم کیوں ان کے سامنے زمین پر گرتے ہو؟ کیوں ان کی عبادت و اطاعت کرتے ہو؟ جو لوگ حضرت ابراہیم (ع) کی گفتگو سنتے اور اس کے متعلق فکر نہ کرتے تھے وہ آپ کے جواب میں کہتے کہ ہمارے آباؤ اجداد بت پرست تھے ہمارے دوست اور رفقاء بھی بت پرست تھے اور ہم اپنے گزرے ہوئے آباؤ اجداد کی پیروی کریں گے اور ان کے دین پر باقی رہیں گے_

حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے تھے کہ تمہارے آباؤ اجداد نے اشتباہ کیا کہ وہ بت پرست بنے کیا تم میں عقل و شعور نہیں؟ کیا تم خود کچھ نہیں سمجھتے؟ کیا دیکھ نہیں رہے ہو کہ ان بتوں سے کچھ بھی تو نہیں ہوسکتا_ کس لئے تم اپنے آپ کو طاقتوروں اور ظالموں کے سامنے ذلیل کرتے ہو وہ بھی تمہاری طرح اللہ کی مخلوق ہیں_

لوگو میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور اس کی طرف سے آ زادی اور سعادتمند ی کا پیغام لایا ہوں_ میری بات سنو تا کہ دنیا اور آخرت میں سعادت

۴۴

مند بن جاؤ: لوگو تمہارا پروردگار اور مالک وہ ہے کہ جس نے تم کو پیدا کیا ہے، زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے، کائنات اور اس میں رہنے والوں کے لئے انتظام کرتا ہے تمام قدرت اس کی طرف سے ہے دنیا کا نظام چلانا کسی کے سپرد نہیں کیا اور اس کے چلانے میں کس سے مدد نہیں لی وہ ایک ہے اور قادر مطلق ہے_ میں ان بتوں سے جن کی تم پرستش کرتے ہو بیزار ہوں اور ان کو دوست نہیں رکھتا اور ان کی اطاعت نہیں کرتا

خدا کو دوست رکھتا ہوں اور صرف اس کی پرستش کرتا ہوں کیوں کہ خدا نے مجھے پیدا کیا ہے_

بیماری سے شفا اور زندگی اور موت دنیا اور آخرت سب اس کے ہاتھ میں ہے_

میں امیدوار ہوں کہ قیامت کے دن بھی خداوند عالم مجھ پر مہربان ہوگا اور مجھ پر رحم کرے گا_

لوگو ایک خدا کی پرستش کرو کیوں کہ تمام قدرت خدا سے ہے، خدا ہے اور ہمیشہ رہے گا تمہاری مدد کرنے والا صرف خدا ہے تمہارا راہنما خدا کا پیغام ہے اسی کی طرف توجہ کرو اور صرف اسی کی پرستش کرو پرستش صرف ذات خدا کے ساتھ مخصوص ہے اس کے سواء اور کوئی لائق اطاعت اور پرستش نہیں ہے_

۴۵

غور کریں اور جواب دیں

۱)___ حضرت ابراہیم (ع) کے زمانے میں جاہل لوگ کن چیزوں اور کن لوگوں کی پرستش کرتے تھے؟ اور کن لوگوں کی اطاعت کو ضروری سمجھتے تھے؟

۲)___ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کو کیا فرمان دیا؟

۳)___ حضرت ابراہیم (ع) نے لوگوں سے کیا فرمایا اور کس طرح وضاحت کی کہ بت قابل پرستش نہیں ہیں؟

۴)___ کیا لوگ حضرت ابراہیم (ع) کی گفتگو پرغور کرتے تھے؟ اور آپ سے کیا کہتے تھے؟

۵)___ لوگوں نے حضرت ابراہیم (ع) کو کیا جواب دیا تھا وہ ٹھیک تھا یا غلط اور کیوں؟

۶)___ کیا یہ جائز ہے کہ ایک انسان دوسرے کے سامنے بندگی کا اظہار کرے؟

۷)___ آپ نے بت پرست دیکھا ہے؟

۸)___ حضرت ابراہیم (ع) کی توحید پر کیا دلیل تھی کیوں صرف خدا کو دوست رکھتے تھے اور صرف اسی کی پرستش کرتے تھے؟

۹)___ سوائے خدا کے اور کوئی کیوں قابل پرستش اور اطاعت نہیں؟

۱۰)___ کیا جو کسی ظالم کی اطاعت کرتا ہے وہ موحّد ہے؟

۱۱)___ کس کو موحّد کہتے ہیں موحّد آدمی کی امید کس سے ہوتی ہے؟

۴۶

۱۲)___ اس سبق سے ایک اور سوال بنائیں اوراپنے دوست سے کہیں کہ وہ اس کا جواب دے_

۴۷

حصّہ دوم معاد

۴۸

پہلا سبق

کیا اچھائی اور برائی برابر ہیں

آپ اچھے اور برے کے معنی سمجھتے ہیں اچھے اور برے انسان میں فرق کرسکتے ہیں جو انسان عدل چاہنے والا سچا، نیک کردار، صحیح با ادب، اور امین ہوا سے اچھا انسان شمار کرتے ہیں، لیکن بد اخلاق، جھوٹا، بدکردار، ظالم بے ادب خائن انسان کو برا انسان سمجھتے ہیں کیا آپ کے نزدیک برے اور اچھے انسان مساوی اور برابر ہیں_ کیا آپ اور تمام لوگ اچھے انسانوں کو دوست رکھتے ہیں اور برے آدمیوں سے بیزار ہیں خدا بھی اچھے کردار والے آدمیوں کو دوست رکھتا ہے اور برے انسانوں سے وہ بیزار ہے اسی لئے اللہ تعالی نے پیغمبر(ص) بھیجے ہیں تا کہ اچھے کاموں کی دعوت دیں اور برے کاموں سے روکیں

اب ان سوالوں کے جواب دیں_

۴۹

کیا اچھے لوگوں کے لئے کوئی جزا ہوگی اور برے لوگ اپنے اعمال بد کی سزا پائیں گے؟

کیا اچھے اور برے لوگ اس جہاں میں اپنے اعمال کی پوری اور کامل جزا اور سزا پالیتے ہیں؟

پس اچھے اور برے کہاں ایک دوسرے سے جدا ہوں گے اور کہاں اپنے اعمال کا پورا اور کامل نتیجہ دیکھ سکیں گے؟

اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہے جسے آخرت کہا جاتا ہے کہ جہاں اچھے اور برے لوگ ایک دوسرے سے جدا ہوں گے اور اپنے اعمال کا ثمرہ پائیں گے اگر آخرت نہ ہو تو اچھے لوگ کس امید میں اچھا کام کریں اور کس لئے گناہ اور برائی سے دور ہیں_ اگر آخرت نہ ہو تو پیغمبروں کی دعوت بے مقصد اور بیہودہ ہوگی اچھائی اور برائی کے کوئی معنی نہ ہوں گے اگر آخرت ہمارے سامنے نہ ہو تو ہماری زندگی بے نتیجہ اور ہماری خلقت بھی بے معنی ہوگی_ کیا علیم و قادر خدا نے ا س لئے ہمیں پیدا کیا ہے کہ چند دن اس دنیا میں زندہ رہیں؟ یعنی کھائیں پئیں، پہنیں، سوئیں اور پھر مرجائیں اور اس کے بعد کچھ بھی نہیں یہ تو ایک بے نتیجہ اور بے معنی کام ہے اور اللہ تعالی بے معنی اور بے فائدہ کام انجام نہیں دیتا_ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ''ہم نے تمہیں عبث خلق نہیں کیا ہم نے تم کو پیدا کیا ہے تا کہ اس دنیا میں زندگی گزار و اچھے کام انجام دو اور لائق و کامل بن جاؤ اس کے بعد ہم تم کو اس دنیا سے ایک دوسری دنیا کی طرف لے جائیں گے تا کہ اس دنیا میں اپنے کاموں کا کامل نتیجہ پاؤ''

آخرت میں اچھے بروں سے جدا ہوجائیں گے جو لوگ نیک کام

۵۰

انجام دیتے رہے اور دین دار تھے وہ بہشت میں جائیں گے اور خوشی کی زندگی بسر کریں گے اللہ ان سے راضی ہے اور وہ بھی اپنی اچھی زندگی اور اللہ کی بے پایاں نعمتوں سے خوشنود اور راضی ہیں بے دین اور بد کردار لوگ دوزخ میں جائیں گے اور اپنے برے کاموں کی سزا پائیں گے اللہ ان پر ناراض ہے اور وہ دردناک عذاب کی زندگی بسر کریں گے اور ان کے لئے بہت سخت زندگی ہوگی

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کون لوگ اچھے ہیں او رکون لوگ برے، ان صفات کو شمار کیجئے

۲)___ کیا برے اور اچھے لوگ آپ کے نزدیک مساوی ہیں؟

۳)___ کیا برے اور اچھے لوگ خدا کی نزدیک برابر ہیں؟

۴)___ پیغمبر(ص) لوگوں کو کن کاموں کی طرف دعوت دیتے ہیں اور کن کاموں سے روکتے ہیں؟

۵)___ کیا لوگ اس دنیا میں اپنے اعمال کی کامل جزاء پاتے ہیں؟

۶)___ کہاں اپنے اعمال کا کامل نتیجہ دیکھیں گے؟

۷)___ اگر آخرت نہ ہو تو اچھائی اور برائی کا کوئی معقول اور درست معنی ہوگا

۸)___ اگر آخرت نہ ہو تو ہماری زندگی کا کیا فائدہ ہوگا؟

۹)___ جب ہم سمجھ گئے کہ اس دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا ہے تو ہم کس طرح زندگی گزاریں؟

۵۱

دوسرا سبق

پھول کی تلاش

ہمارے خاندان کے کچھ لوگ مری کے اطراف میں ایک دیہات میں رہتے ہیں وہ دیہات بہت خوبصورت ہے وہاں کی آب و ہوا معتدل ہے اس کے نزدیک ایک پہاڑ ہے کہ جس کا دامن سرخ اور زرد پھولوں سے بھرا ہوا ہے_

ایک دن میرے رشتہ دار بچّے میرے چچا کے گھر بیٹھے تھے عید الاضحی کا دن تھا_ ہم چاہتے تھے کہ کمرے کو پھولوں سے سجائیں میرے والد نے مجھ سے کہا کہ چلیں پھول ڈھونڈ لائیں اور اس کام میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں_

میں نے پوچھا کس طرح؟

والد نے کہا کہ تم تمام کے تمام پہاڑ کے دامن میں جاؤ وہاں بہت

۵۲

زیادہ پھول موجود ہیں پھول توڑو اور لوٹ آؤ لیکن خیال کرنا کہ پھولوں کی جڑوں کو ضرر نہ پہنچے مقابلہ کا وقت ایک گھنٹہ ہے تمام اس مقابلہ میں شریک ہو جاؤ پھول توڑو اور لوٹ آو جو زیادہ پھول لائے گا وہ زیادہ انعام پائے گا تمام بچّے مقابلہ میں شریک ہونے کے لئے آمادہ ہوگئے_

صبح کو ٹھیک سات بجے مقابلہ شروع ہوا کچھ بچے تو اس دیہات کے اطراف میں ہی رہ گئے اور کہنے لگے کہ راستہ دور ہے اور ہم تھک جائیں گے تم بھی یہیں رک جاؤ اور ہم ہمیں مل کر کھیلیں لیکن ہم نے ان کی باتوں پر کان نہ دھرا اور چلے گئے راستے میں دوڑتے اور ایک دوسرے سے آگے نکلتے تھے تا کہ پھولوں تک جلدی پہنچ جائیں راستہ دشوار آگیا بعض بچّے ٹھہر گئے آگے نہ بڑھے او رکہنے لگے کہ ہم یہیں سے پھول توڑیں گے_

میں میرا بھائی اور چچا کا بیٹا سب سے پہلے پہاڑ کے دامن میں پہنچ گئے کتنی بہترین اور خوبصورت جگہ تھی زرد اور سرخ پھولوں سے بھری پڑی تھی_ ہم تینوں نے فیصلہ کیا کہ ایک دوسرے کی مدد کریں اور اکھٹے پھول توڑیں میں اور چچا کا لڑکا پھول توڑنے تھے اور اپنے بھائی کے دامن میں ڈال دیتے تھے اس کا دامن پھولوں سے بھر گیا گھڑی دیکھی تو مقابلہ کا وقت ختم ہونے کے قریب تھا گھر کی طرف لوٹے دوسرے بچّے بھی لوٹ آئے تھے اور جانتے تھے کہ انہیں بہترین انعام ملے گا اور جو تھوڑے پھول توڑ لائے تھے خوش نہ تھے کیوں کہ جانتے تھے کہ مقابلہ میں بہتر مقام نہیں لے سکیں گے اور بہترین انعام حاصل نہیں کرسکیں گے اور جو خالی ہاتھ لوٹ آئے تھے شرمسار اور سرجھکائے ہوئے تھے والد کے پاس پہنچے جس نے جتنے پھول توڑے

۵۳

تھے انہیں دے دیئے اور انعام لیا لیکن جنہوں نے سستی کی تھی اور والد کے فرمان پر عمل نہیں کیا تھا انہوں نے انعام حاصل نہیں کیا بلکہ شرمسار تھے ان سے والد صاحب بھی خوش نہیں ہوئے اور ان کی کوئی پرواہ نہ کی وہ سرجھکائے اپنے آپ کو کہہ رہے تھے کاش ہم بھی کوشش کرتے کاش دوبارہ مقابلہ شروع ہو لیکن مقابلہ ختم ہوچکا تھا

جزاء کا دن

مقابلہ کے ختم ہوجانے کے بعد ہمارے والد نے ہم سے گفتگو کرنا شروع کی او رکہا '' میرے عزیز اور پیارے بچّو مقابلہ کے انعقاد کے لئے میرا نظریہ کچھ اور تھا میں اس سے تمہیں سمجھنا چاہتا تھا کہ یہ جہان مقابلہ کا جہان ہے_ ہم تمام اس جہان میں مقابلہ کرنے آئے ہیں اور قیامت کے دن اس کا انعام اور جازء حاصل کریں گے ہمارا مقابلہ نیک کاموں اور اچھے اعمال میں ہے_ اچھے اور برے کام کی جزاء اور سزا ہے اچھے اور برے لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں _ ہماری خلقت اور کام و کوشش کرنا بے معنی اور بے فائدہ نہیں لوگوں کا ایک گروہ اللہ تعالی کے فرمان کا مطیع اور فرمانبردار ہے نیک کاموں کا بجالانے میں کوشش کرتا ہے وہ ہمیشہ اللہ کی یاد میں ہے اچھے اور صالح لوگوں سے دوستی کرتا ہے ان کی راہنمائی میں بہت زیادہ اچھے

۵۴

کام انجام دیتا ہے نیک کاموں میں سبقت لے جاتا ہے اپنے دوستوں اور ہمسایوں کی مدد کرتا ہے مظلوموں کی حمایت کرتا ہے

یہ لوگ آخرت میں بہترین انعام اور جزاء پائیں گے خدا ان سے خوش ہوگا اور وہ بھی خدا سے انعام لے کر خوش ہوں گے سب سے پہلے بہشت میں جائیں گے اور بہشت کے بہترین باغ میں اپنے دوستوں کے ساتھ خوش و خرّم زندگی بسر کرین گے ہمیشہ اللہ تعالی کی تازہ نعمتوں اور اس کی پاک محبت سے مستفید ہوں گے، اور لذت اٹھائیں گے_ ایک اور گروہ اس جہان میں اچھے کام انجام دیتا ہے وہ اچھے کاموں میں مدد بھی کرتا ہے اور اللہ کو یاد بھی کرتا ہے لیکن پہلے گروہ کی طرح کوشش نہیں کرتا اور سبقت لے جانے کے درپے نہیں ہوتا یہ بھی قیامت کے دن انعام او رجزاء پائیں گے اور بہشت میں جائیں گے لیکن ان کا انعام او رجزاء پہلے گروہ کی طرح نہیں ہوگا_ تیسرا گروہ ظالم اور بے دنیوں کا ہے وہ اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کے فرمان کو قبول نہیں کرتا اور اس پر عمل نہیں کرتا_ وہ خدا کو بھول گیا ہے، اچھے کام انجام نہیں دیتا، گناہ گار اور بداخلاق، اور بدکردار ہے لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور یہ گروہ خالی ہاتھ آخرت میں سامنے آئے گا اچھے کام اپنے ساتھ نہیں لائے گا اپنے برے افعال اور ناپسندیدہ اعمال سے شرمندہ ہوگا_

جب اچھے لوگ انعام پائیں گے تو یہ افسوس کرے گا اور پشیمان ہوگا اور کہے گا_ کاش دنیا میں پھر بھیجا جائے تا کہ وہ نیک کام بجالائے لیکن افسوس کہ دوبارہ لوٹ جانا ممکن نہیں ہوگا اس گروہ کے لوگ جہنم میں جائیں گے اور اپنے برے کاموں کی سزا پائیں گے_

۵۵

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا ہماری خلقت و کوشش بغیر کسی غرض اور غایت کے ہے اور کیا ہم ان کاموں اور کوششوں سے کوئی نتیجہ بھی لیں گے؟

۲)___ یہ جہان مقابلہ کی جگہ ہے، سے کیا مراد ہے؟

۳)___ متوجہ اور آگاہ انسان اس دنیا میں کن کاموں کی تلاش میں اور کن کاموں میں مقابلہ کر رہا ہے؟

۴)___ کون لوگ آخرت میں بہترین انعام پائیں گے؟

۵)___ ان لوگوں نے دنیا میں کیا کیا ہے؟

۶)___ ان کے اعمال اور کردار کیسے تھے، ان کے دوست کیسے تھے کن کاموں میں مقابلہ کرتے تھے؟

۷)___ آپ کی رفتار اور آپ کا کردار کیسے ہے، آپ کے دوستوں کا کردار کیسا ہے، کن کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اگر آپ کا کوئی دوست آپکو کسی ناپسندیدہ کام کی دعوت دے تو پھر بھی اس سے دوستی رکھتے ہیں؟

۸)___ کون لوگ قیامت کے دن شرمندہ ہوں گے کیوں افسوس کریں گے یہ لوگ اس دنیا میں کیسا کردار تھے ہیں؟

۹)___ دوسرے گروہ کا انعام اور جزاء کا پہلے گروہ کے انعام اور جزائ

۵۶

سے کیا فرق ہے اور کیوں؟

ان سوالوں کے جواب خوش خط لکھیں

۵۷

تیسرا سبق

جہان آخرت عالم برزخ اور قیامت

مرنے کے بعد فنا نہیں ہوتے بلکہ اس جہان سے دوسری دنیا کی طرف جاتے ہیں کہ جس کا نام جہان آخرت ہے، آخرت سے پہلے عالم برزخ ہے اور اس کے بعد قیامت ہے عالم برزخ ایک دنیا ہے جو دنیا و آخرت کے درمیان میں واقع ہے_خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ان کے سامنے بزرخ ہے قیامت تک'' اور ایک جگہ فرماتا ہے ''گمان نہ کرو کہ وہ لوگ جو اللہ کے راستے میں قتل ہوجاتے ہیں وہ مرگئے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے روزی پاتے ہیں'' خداوند عالم نے ہمیں پیغمبر(ص) اسلام کے ذریعہ خبر دی ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے اور دنیا کو ترک کرتا ہے_ اور برزخ

۵۸

میں جاتا ہے تو عالم برزخ میں اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ کتنے خدا کا عقیدہ رکھتے ہو_ کس کے فرمان کے مطیع تھے خدا کے یا غیر خدا کے، تیرا پیغمبر کون ہے، تیرا دن کیا ہے، تیرا رہبر و امام کون ہے، جس نے دنیا میں خداپرستی او ردینداری اور با ایمان زندگی گزاری ہوگی وہ آسانی سے جواب دے گا اور اس کا ایمان ظاہر ہوجائے گا اس مختصر سوال و جواب کے بعد برزخ میں آرام سے اور خوشی سے قیامت تک زندگی گزاریں گے اور عمدہ نعمتیں جو بہشتی نعمتوں کا نمونہ ہوں گی اسے دی جائیگی لیکن وہ لوگ جو خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کو قبول نہ کرتے تھے اور اس کے فرمان کے مطیع نہ تھے بے دین اور ظالم تھے برزخ میں بھی خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کا اقرار نہیں کریں گے ان کا کفر اور ان کے بے دینی ظاہر ہوگی اس قسم کے لوگ برزخ میں سختی اور عذاب میں مبتلا ہوں گے برزخ کا عذاب ان کے لئے جہنّم کے عذاب کا نمونہ ہوگا_ برزخ میں انسان کی حقیقت ظاہر ہوجائے گی اور اس کا ایمان اور کفر واضح ہوجائے گا جو شخص دنیا میں خدا و قیامت کے دن پیغمبروں(ص) پر واقعاً ایمان رکھتا تھا اور نیکوکار تھا برزخ میں اس کا ایمان ظاہر ہوجائے گا_ وہ صحیح اور صاف صاف جواب دے گا لیکن جو شخص واقعی ایمان نہیں رکھتا تھا اور ظالم و بدکار تھا برزخ میں اس کا کفر ظاہر ہوجائے گا اور وہ صحیح جواب نہیں دے سکے گا_

گناہ گار انسان جہنم کے عذاب کا نمونہ برزخ میں دیکھے گا اور اس کے اعمال کی سزا یہیں سے شروع ہوجائے گی پیغمبر اسلام حضرت محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ جو لوگ گھر مین بداخلاقی کرتے ہیں برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ

۵۹

جو لوگ خچل خوری کرتے ہیں اور جو لوگ شراب سے پرہیز نہیں کرتے برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے_

برزخ میں سوال و جواب

برزخ میں سوال و جواب حقیقی ہوگا جو لوگ برزخ میں جائیں گے ان سے حقیقتاً سوال ہوگا وہ یقینا ان سوال کا جواب دیں گے لیکن برزخ کا سوال و جواب دنیا کے سوال و جواب کی طرح نہیں_ جو لوگ برزخ میں ہیں سوال کو سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں لیکن اس کان اور زبان سے نہیں جس کے ذریعہ دنیا میں سنتے اور جواب دیتے تھے بلکہ برزخی زبان اور کان سے، ضروری نہیں کو بولنا اور سنتا ہمیشہ انہی لبوں، زبان اور انہی کانوں سے ہو_ مثلاً آپ خواب میں اپنے دوست سے کلام کرتے ہیں اس کی باتیں سنتے ہیں اور اس سے گفتگو کرتے ہیں کیا اسی کان اور زبان سے؟ یقینا نہیں_ کبھی خواب میں کسی ایسی جگہ جاتے ہیں کہ جہاں کبھی نہ گئے تھے لیکن بیدار ہونے کے بعد وہاں جائیں تو سمجھ جائیں گے کہ خواب میں اس جگہ کو دیکھا تھا خواب میں کس جسم کے ساتھ ادھر ادھر جاتے ہیں خواب میں کس آنکھ سے دیکھتے ہیں اور کس کان سے سنتے ہیں کیا اسی کان اور آنکھ سے؟ کیا اسی جسم سے، یقینا نہیں کیوں کہ یہ جسم بستر پر پڑا آرام

۶۰