عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں0%

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 258

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات:

صفحے: 258
مشاہدے: 132619
ڈاؤنلوڈ: 4751

تبصرے:

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 258 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 132619 / ڈاؤنلوڈ: 4751
سائز سائز سائز
عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

اور اگر یہ دوسری صورت درست ہے تو اسکی تعیین کرنا ضروری ہے کہ وہ خاص جہل کون سا ہے۔

کون سا جہل تمام برائیوں کا سرچشمہ ہے ؟

کون سا جہل عظیم ترین مصیبت ہے؟

کون سا جہل بدترین اور سب سے مہلک بیماری ہے ؟

کون سا جہل شدید ترین فقر ہے ؟

کون سا جہل خطرناک ترین دشمن ہے ؟

کون سا جاہل قرآن کی رو سے ، چوپائے سے بدتر۔ہے ، اور کس جہل کو امام علی (ع) نے ۔ زندوںکے درمیان لاش۔ سے تعبیر کیا ہے ۔

۱۴۱

مفہوم جہل

مذموم جہل کے چار معنی ہیں:

اول: مطلق جہل

دوم: تمام مفید و کارساز علوم و معارف سے جہالت

سوم: انسان کے لئے ضروری و اہمترین معارف سے جہالت

چہارم : جہل، عقل کے مقابل میں ایک قوت ہے۔

معانی کی وضاحت

1۔ مطلق جہل

گر چہ بادی النظر میں یہ محسوس ہوتا کہ مطلق جہل مضر اور مذموم ہے لیکن غور و فکر کے بعد معلوم ہوتاہے کہ ہر چیز کا نہ جاننا مذموم اور جاننا پسند یدہ نہیں ہے بلکہ اس کے بر خلاف کچھ چیزوں کا جاننا مضر و مہلک اور کچھ چیزوں کا نہ جاننا مفید و کارساز ہے اسلام میں اسی دلیل کی بنا پربعض امور اوربعض پوشیدہ چیزوںکی تحقیق و جستجو کو ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔

اس موضوع کی مزید وضاحت، اس فصل کے باب''احکام جاہل'' اور کتاب ''علم و حکمت قرآ ن و حدیث کو روشنی میں'' کے باب احکام تعلم کے(شق ج۔ جن چیزوں کا سیکھنا حرام ہے) اسی طرح اس کتاب کے ''آداب سوال'' کے ''باب چہارم'' میں مذکورہ احادیث میںکی گئی ہے ۔

۱۴۲

2۔ مفید معارف سے جہالت

بلا شک و شبہ اسلام تمام مفید علوم و معارف کو احترام کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے سیکھنے کی دعوت بھی دیتاہے ، بلکہ اگر معاشرہ کو ان کی حاجت و ضرورت ہو اور ایسے افراد موجود نہ ہوں جو اس ضرورت کے لئے کافی ہوں تو ان علوم و فنون کو واجب قرار دیاہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہےں کہ ان تمام علوم کے متعلق جہل تمام لوگوں کے لئے مذموم یا خطرناک ہو۔

بعبارت دیگر ، ادبیات، صرف و نحو، منطق و کلام ، فلسفہ،ریاضیات، فیزکس، کیمیا اور دیگر علوم و فنون جو انسان کی خدمت کے لئے ہیں وہ اسلام کی نظر میں قابل احترم اور اہمیت کے حامل ہیں لیکن ان تمام علوم کا نہ جاننا تمام برائیوںکا سر چشمہ ، عظیم ترین مصیبت، بدترین بیماری، خطرناک ترین دشمن ، شدید ترین فقر نہیں ہے ، اور ان علوم میں سے جو بعض یا تمام کو نہیں جانتا ہے اسے روئے زمین پر چو پائے سے بدتر یا زندوںمیں مردہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

3۔ انسان کی ضروری معارف سے جہالت

وہ معارف و علوم جو انسان کو اسکی ابتداء و انتہاء سے آشنا اور اسکی غرض خلقت کی حکمت کو کشف کرتے ہیں وہ اسکی زندگی کے اہمترین و ضروری معارف میں سے ہیں۔

انسان کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کس طرح وجود میں آیا؟ اور اسکی غرض خلقت کیاہے؟ کون سا عمل انجام دے کہ اپنی غرض خلقت کے فلسفہ تک پہنچ جائے؟ کون سے خطرات اسے ڈراتے ہیں؟

۱۴۳

وہ معارف جو ان تمام مسائل کا جواب دیتے ہیںوہ میراث انبیاء ہیں ۔ یہ معارف تمام خیر و برکت کا سرچشمہ، عقل عملی اور جوہر علم کے روشن و بارونق ہونے کے لئے زمین ہموار کرتے ہیں۔ اور ان معارف سے لاعلمی انسانی معاشرہ کو دشوار ترین مشکلات اور دردناک مصائب میں مبتلا کرتی ہے۔

البتہ تنہا ان معارف کا جاننا ہی کافی نہیں ہے ؛ بلکہ یہ معارف اس وقت کا ر آمد و کارساز ہیںجب عقل کے ذریعہ جہل چوتھے مفہوم کے لحاظ سے مہار کیا جائے ۔

4۔ عقل کے مقابل میں ایک قوت

اسلامی نصوص میں جہل کا چوتھا مفہوم گذشتہ مفاہیم کے بر خلاف ایک امر وجودی ہے نہ کہ عدمی ، اور عقل کے مقابل مخفی و پوشدہ شعور ہے اور عقل کے مانند مخلوق خدا ہے جس کے کچھ آثار و مقتضیات ہیں کہ جنہیں'' عقل کے سپاہی'' کے مقابل میں''جہل کے سپاہی'' سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس جہل کو قوت سے اس لئے تعبیر کیا ہے تاکہ یہ پوری طور پر عقل کے مقابل قرار پا سکے اس قوت کے لئے دوسرے بھی نام ہیںکہ جن کا بیان خلقت عقل کی بحث میں ہو چکا ہے ۔

جیسا کہ علامات عقل کے باب اول میں ذکر ہو چکا ہے کہ تمام اعتقادی و اخلاقی اورعملی حسن وجمال جیسے خیر، علم ، معرفت ، حکمت ، ایمان ، عدل ، انصاف، الفت، رحمت، مودت، مہربانی ، برکت، قناعت، سخاوت، امانت، شہامت ، حیا، نظافت ،امید، وفا، صداقت، بردباری، صبر، تواضع ،بے نیازی، نشاط وغیرہ کو عقل کے سپاہیوں میںشمار کیاہے ۔

اور ان کے مقابل میں تمام اعتقادی و اخلاقی اورعملی برائیوں جیسے : شر، جہل، حماقت، کفر، ستم ،جدائی، قساوت، قطع رحم ، عداوت، بغض، غضب، بے برکتی، حرص ، بخل ، خیانت، بزدلی ، بے حیائی، آلودگی ، ہتک ، کثافت، نا امیدی ، کذب، سفاہت،بیتابی، تکبر، فقر اور سستی وغیرہ کو جہل کے سپاہیوں میں شمار کیا ہے ۔

۱۴۴

انسان ان دونوں قوتوں کے سلسلہ میں صاحب اختیار ہے کہ ان میں سے جس کو چاہے انتخاب کرے اور پروان چڑھائے۔ وہ قادر ہیکہ اپنی قوت عقل کا اتباع کرے اور اس کو زندہ کرکے جہل و شہوت اور نفس امارہ کو فنا کر دے۔ اور عقل کے سپاہی اور اس کے مقتضیات کی تربیت کرکے انسان کے بلند مقصد تک پہنچ جائے اور خدا کا نمائندہ بن جائے ۔ یا قوت جہل کا اتباع اور اس کے سپاہی اور مقتضیات کی تربیت کرکے پست ترین حالت اور قعر مذلت میں گر جائے۔

اس وضاحت کی روشنی میں دو مہم اور قابل غور نکات روشن ہو جاتے ہیں ،وہ یہ ہیں:-

1۔خطرناک ترین جہل

پہلا نکتہ یہ ہے کہ گر چہ اسلام تیسرے معنی کے اعتبار سے مذموم جہل کی شدت سے مخالفت کرتا ہے ؛ لیکن اس مکتب کی نظر میں خطرناک ترین جہل، چوتھے معنی کے اعتبار سے ہے ؛ یعنی ایسی راہ کا انتخاب کہ جس کی طرف قوت جہل انسان کو دعوت دیتی ہے؛ کیوں کہ اگر انسان اس راہ پرگامزن ہو جسے عقل نے معین کیا ہے تو بلا شبہ علم و حکمت اور دیگر عقل کے سپاہی انسان کواس کے مبدا و مقصد تک پہنچاتے اور تمام مفید و سازگار معارف کی طرف ہدایت کرتے ہیں اور وہ اپنی استعداد اور کوشش کے مطابق اپنی خلقت کے فلسفہ تک پہنچتا ہے۔

لیکن اگر انسان ایسی راہ کا انتخاب کرے جو جہل کا تقاضا تھاتو جہل کے سپاہی مفید معارف اور ایسے بلند حقائق جوانسان کو انسانیت کے بلند مقصد سے آشنا کرتے ہیں کی راہ شناخت کو مسدود کر دیتے ہیں۔ لہذا اس حالت میں اگر کوئی اعلم دوراں بھی ہو جائے تو بھی اس کا علم اسکی ہدایت کے لئے کافی نہ ہوگا اور جہل کی بیماری اسے موت کے گھاٹ اتار دیگی(اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے)

۱۴۵

اس بنیاد پر اسلامی روایات میں جب جہل کے متعلق تحقیق کی جاتی ہے تو بحث کا اصلی محور جہل کا چوتھا معنی قرار پاتاہے، البتہ جہل کے بقیہ معنی و مفاہیم بھی ترتیب وار اہمیت کے حامل ہیں۔

2۔ عقل و جہل کا تقابل

دوسرا مہم نکتہ یہ ہے کہ اسلامی نصوص میں عقل و جہل کے تقابل کا راز کیاہے۔ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ معمولا جہل علم کے مقابل میں پیش کیا جاتا ہے لیکن اسلامی نصوص اور اس کے کے اتباع میں حدیث کی کتابوں میں معمول کے خلاف جہل کو کیو ںعقل کے مقابل قرار دیا گیا ہے؟

جب آپ حدیث کی کتابوں کی طرف رجوع کریں گے تو عنوان ''علم و جہل'' نہیں پا سکیں گے اور اس کے بر خلاف عنوان ''عقل و جہل'' ا کثر یا تفصیلی کتابوںمیں پائیں گے اس کا راز یہ ہے کہ اسلام، جہل کو چوتھے معنی کے لحاظ سے جو کہ امر وجودی ہے اور عقل کے مقابل ہے جہل کے دوسرے اور تیسرے معنی۔ امر عدمی اور علم کے مقابل ہے سے زیادہ خطرناک جانتا ہے ۔

بعبارت دیگر، اسلامی نصوص میں عقل و جہل کا تقابل اس چیز کی علامت ہے کہ اسلام عقل کے مقابل جہل کو علم کے مقابل جہل سے زیادہ خطرناک جانتا ہے اور جب تک اس جہل کی بیخ کنی نہ ہوگی صرف علم کے مقابل جہل کی بیخ کنی سے معاشرہ کے لئے اساسی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتااور یہ نکتہ نہایت ظریف اور دقیق ہے لہذا اسے غنیمت سمجھو!

۱۴۶

دوسری فصل جہل سے بچو

2/1

جہل کی مذمت

قرآن

( بیشک ہم نے امانت کو آسمان ، زمین اور پہاڑ سب کے سامنے پیش کیا اور سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور خوف ظاہر کیا بس انسان نے اس بوجھ کواٹھا لیا کہ انسان اپنے حق میں ظالم اور نادان ہے)

الف: عظیم ترین مصائب

حدیث

817۔ امام علی (ع): عظیم ترین مصائب نادانی ہے ۔

818۔ امام علی (ع): شدید ترین مصائب میں سے جہل کاغلبہ بھی ہے ۔

819۔ امام علی (ع): بدترین مصائب جہالت ہے۔

820۔ امام صادق(ع): کوئی بھی مصیبت جہل سے بڑھکر نہیں۔

۱۴۷

ب: بدترین بیماری

821۔ امام علی (ع): بدترین بیماری نادانی ہے۔

822۔ امام علی (ع): جہالت، بدترین بیماری ہے ۔

823۔امام علی (ع): جہالت سے بڑھ کر ناتواں کرنے والی کوئی بیماری نہیں ہے۔

824۔امام علی (ع): جہالت بیماری اور سستی ہے۔

825۔ امام علی (ع): انسان میں جہالت جذام سے زیادہ مضر ہے ۔

ج: شدید ترین فقر

826۔ رسول خدا(ص): اے علی (ع):جہالت سے بدتر کوئی فقرنہیں۔

827۔ امام علی (ع): کوئی بے نیازی عقل کے مانند نہیں اور کوئی فقر جہالت کے مثل نہیں۔

828۔ امام علی (ع): جاہل کے لئے کوئی بے نیازی نہیں۔

د: خطرناک ترین دشمن

829۔ رسول خدا(ص): ہر انسان کا دوست اسکی عقل ہے اور دشمن اسکی جہالت ہے ۔

830۔ رسول خدا(ص): وہ شخص کہ جس کا فہم اس کے لئے نفع بخش نہیں ہے تو اسکی نادانی اس کے لئے مضر ہے۔

831۔ امام علی (ع): کوئی دشمن ، جہل سے زیادہ خطرناک نہیں۔

832۔ امام علی (ع): جہل سب سے بڑا دشمن ہے ۔

833۔ امام عسکری ؑ: نادانی ، دشمن ہے اور بردباری حکمرانی ہے ۔

۱۴۸

ھ: رسوا ترین بے حیائی

834۔ امام علی (ع): کوئی بے حیائی نادانی سے بدتر نہیں۔

835۔ امام علی (ع): جہالت کی مذمت کے لئے یہی کافی ہے کہ جاہل خود اس سے بیزاری اختیار کرتا ہے ۔

836۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ خوبصورت انسان کے لئے کتنا قبیح ہے کہ جاہل ہو وہ اس خوبصورت مکان کی طرح ہے کہ جس کے رہنے والے شریر لوگ ہوں یا ایسے باغ کی مانند ہے کہ جس کو الو ؤںنے آباد کیا ہو، اور یا(بھیڑ بکریوں) کے ریوڑ کے مثل ہے کہ جس کی نگہبانی بھیڑ یاکر رہا ہو۔

2/2

جاہل کی مذمت

قرآن

( اللہ کے نزدیک بدترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں)

حدیث

837۔ رسول خدا(ص): اللہ تعالیٰ نے کسی بندہ کو رسوا و ذلیل نہیں کیا مگر یہ کہ اسے علم و ادب سے محروم رکھا ہو۔

838۔ امام علی (ع): جب خدا کسی بندہ کو رسوا کرنا چاہتا ہے تو اسے علم وانش سے محروم کر دیتا ہے ۔

839 ۔ رسول خدا(ص): وہ دل جس میں حکمت نہیں ویران گھر کی طرح ہے ؛ لہذا سیکھو اور سکھاؤ؛ علم و فقہ حاصل کرو اور جاہل مت مرو، یقینا خدا جاہل کے عذر کو قبول نہیں کریگا۔

۱۴۹

840۔ رسول خدا(ص): جاہل زاہد شیطان کا ٹھٹھا ہے ۔

841۔امام علی (ع): جسم کی بلندی و بزرگی سے کوئی فائدہ نہیں جبکہ دل نقصان میں ہو۔

842۔ امام علی (ع): اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین خلائق، جاہل ہے ؛ کیوں کہ خدا نے اس کو اس نعمت سے محروم رکھا ہے کہ جس کے ذریعہ اس نے اپنے تمام بندوں پر احسان کیا ہے ؛ اور وہ عقل ہے ۔

843۔ امام علی (ع): جاہل کا عمل وبال ہے اور اس کا علم گمراہی ہے ۔

844۔ امام علی (ع): بدبخت ترین انسان ، جاہل ہے ۔

845۔ امام علی (ع): جاہل زندوں کے درمیان مردہ ہے ۔

846۔ امام علی (ع): جاہل، چھوٹا ہے چاہے بوڑھا ہی ہو اور عالم بزرگ ہے چاہے چھوٹا ہی ہو۔

847۔ امام علی (ع): جاہل ایسی چٹان ہے کہ جس سے پانی کے چشمے نہیں پھوٹتے، ایسا درخت ہے کہ جس کی شاخ سر سبز نہیںہوتی اور ایسی زمین ہے کہ جس پر سبزہ نہیںاگتا۔

848۔ امام علی (ع): جاہل کے لئے ہر حالت میں خسارہ ہے ۔

849۔ امام علی (ع): ہر جاہل فتنہ میں مبتلا ہے ۔

850۔ امام علی (ع): جاہل ، حیران و سرگرداں ہے ۔

851۔ امام علی (ع): جاہل کا تسلط اس کے عیوب کو آشکار کرتا ہے ۔

852۔ امام علی (ع): جاہل کے ہاتھ میں نعمت، مزبلہ پر گلزار کے مانند ہے ۔

853۔ امام علی (ع):جاہل کی نعمت جتنی حسین ہوتی جائیگی اتنی ہی قبیح ہوتی جائیگی۔

854۔ امام علی (ع): جاہل کی حکومت اس مسافر کی سی ہے جو ایک جگہ نہیں ٹھہرتا ۔

855۔ امام علی (ع): جو عقل سے محروم ہے ، اس سے امید نہ رکھو۔

۱۵۰

856۔ امام علی (ع): نیکوکار کی زبان ، جاہلوں کی حماقت سے باز رہتی ہے ۔

857۔ امام علی (ع): تلوار کی تیزی کے علاوہ جاہل کو کوئی روک نہیں سکتا۔

858۔ امام علی (ع): نے واقعہ جمل کے بعد اہل بصرہ کی مذمت میں فرمایا: تمہاری زمین پانی سے قریب اور آسمان سے دور ہے ، تمہاری عقلیں ہلکی اور تمہاری دانائی احمقانہ ہے ، تم ہر تیرانداز کا نشانہ ، ہر بھوکے کا لقمہ اور ہر شکاری کا شکار ہو۔

859۔ امام علی (ع): نادان دوست کی ہمنشینی اختیار مت کرو اور اس سے پرہیز کرو کتنے نادانوں نے دوستی کے سبب بردبار انسانوں کو ہلاکت کے دہانے تک پہنچا دیاہے۔

860۔ امام باقر(ع): بیشک وہ دل جس میں ذرا بھی علم نہ ہو، اس کھنڈر کے مانند ہے جس کا کوئی آباد کرنے والا نہ ہو۔

861۔ امام عسکری ؑ: جاہل کی تربیت اورعادی کو اسکی عادت سے روکنا معجزہ ہے ۔

862۔ لقمان : صاحب علم و حکمت کا تمہیں مارنا اور اذیت پہنچانااس سے بہتر ہے کہ جاہل خوشبودار تیل سے تمہاری مالش کرے۔

۱۵۱

2/3

نادر اقوال

863۔ رسول خدا(ص): خدا نے جہل کے سبب کسی کو عزیز نہیں کیا اور بردباری کے سبب کسی کو رسوا نہیں کیا۔

864۔ امام علی (ع): فضائل سے ناواقفیت ،بد ترین رذائل ہے۔

865۔ امام علی (ع): نادانی و بخل ، برائی اور ضرر ہے ۔

866۔ امام علی (ع): نادانی سے بدترکوئی موت نہیں۔

867۔ امام علی (ع): جہل وبال ہے ۔

868۔ امام علی (ع): جہل کے ساتھ کوئی مذہب ترقی نہیں کر سکتا۔

869۔ امام علی (ع): بیشک تم لوگ نادانی کی بدولت نہ کسی مطلوب کو حاصل کر سکتے ہو اور نہ کسی نیکی تک پہنچ سکتے ہو اور نہ ہی کسی مقصد آخرت تک تمہاری رسائی ہو سکتی ہے۔

870۔ امام علی (ع): یقینا جہل سے بے رغبتی اتنی ہی ہے کہ جتنی مقدار میں عقلمندی سے رغبت ہے ۔

۱۵۲

تیسری فصل جاہلوں کے اقسام

871۔ امام علی (ع): لوگ چار طرح کے ہوتے ہیں: وہ شخص جو جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ میں جانتا ہوں۔ ایسا شخص حقیقتاً عالم ہے لہذا اس سے سوال کرو؛ وہ شخص جو نہیں جانتا لیکن یہ جانتا ہے کہ میں نہیں جانتا ہوں راہ ہدایت کا طالب ہے لہذا اسکی ہدایت کرو، وہ شخص جو نہیں جانتا اور یہ بھی نہیں جانتا کہ نہیں جانتا ہوں ، ایسا شخص جاہل ہے اسے چھوڑ دو، اور وہ شخص جو جانتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ میں جانتا ہوں یہ سویا ہوا اہے لہذا سے بیدار کرو۔

872۔ امام صادق(ع): لوگ چار طرح کے ہوتے ہیں: وہ شخص جو جانتا ہے اور یہ بھی جاتاہیکہ میں جانتا ہوں پس یہ شخص عالم ہے لہذا اس سے علم حاصل کرو؛ وہ شخص جو جانتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ میں جانتاہوں یہ سویا ہوا ہے اسے بیدار کرو، وہ شخص جو نہیں جانتا اور یہ جانتاہے کہ نہیں جانتا ہوں ایسا شخص جاہل ہے اسے تعلیم دو، اور وہ شخص جو نہیںجانتا اور یہ بھی نہیں جانتا کہ نہیں جانتا ہوں یہ احمق ہے اس سے اجتناب کرو۔

اقسام جہل کی وضاحت

جیسا کہ ان روایات میں اشارہ کیا گیا ہے کہ حقائق کی معرفت کے اعتبار سے انسان کی چار حالتیں ہیں اور ان حالات میں سے ہر حالت کے لئے فرد اور معاشرہ کے لحاظ سے خاص احکام و تکالیف ہیں، وہ حالات حسب ذیل ہیں۔

۱۵۳

1۔ علم

پہلی حالت، علم و آگاہی ہے ؛ جو شخص جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ میں جانتا ہوں اسے عالم کہا جاتا ہے ، ایسا شخص دوسروں کے لئے معلم بننے کا حق رکھتا ہے اور اسلام کی رو سے ایسے شخص کا فریضہ لوگوں کو تعلیم دینا اور لوگوںکافریضہ علم حاصل کرنا ہے ، جیسا کہ ارشاد خدا ہے:

( فسئلوا اهل الذکر ان کنتم لا تعلمون)

اہل ذکر سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے!

2۔ غفلت

دوسری حالت، غفلت ہے ؛ غافل وہ شخص ہے جو جانتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ میں جانتا ہوں ، یہاں پر بیدار لوگوں پر لازم ہیکہ اسے خواب غفلت سے بیدار کریں(فذاک نائم فأنبهوه) وہ سویا ہوا ہے اسے بیدار کرو(و ذکر فان الذکریٰ تنفع المؤمنین) اور یاد دہانی کرتے رہو کہ یاد دہانی صاحبان ایمان کے حق میں مفید ہوتی ہے ۔

3۔ جہل بسیط

تیسری حالت، جہل بسیط ہے ؛ جاہل وہ ہے جوکچھ نہیں جانتا؛ اور چاہے وہ جانتا ہو کہ میں نہیں جانتا ہوں یا نہ جانتا ہو کہ نہیں جانتا ہوں ، ہر حالت میں عالم پر لازم ہے کہ اسے تعلیم دے اور اس پر ضروری ہے کہ سیکھے تاکہ آیت( فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون ) کا مصداق قرار پائے۔

۱۵۴

4۔ جہل مرکب

چوتھی حالت، جہل مرکب ہے ؛ یہ جہل دو جہل سے مرکب ہے ، وہ دو جہل عدم علم اور توہم علم ہےں۔ جاہل مرکب وہ ہے جو نہیںجانتا اور خیال کرتا ہے کہ میں جانتا ہوں ،بظاہر اس فصل کی روایات میں وارد اس جملہ( لا یعلم ولا یعلم انہ لا یعلم) یعنی نہیںجانتا اور یہ بھی نہیں جانتاکہ نہیںجانتا ہوں؛ اور اسی طرح(لا یدری ولا یدری انہ لا یدری)یعنی نہیں جانتا اور یہ بھی نہیں جانتاکہ نہیں جانتا ؛ یہی معنی مراد ہےں لہذا علی علیہ السلام نے ایسے جاہل کے مقابل میں لوگوں کا وظیفہ یہ قرار دیا ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے :- (فذاک جاہل فارفضوہ؛ پس یہ جاہل ہے اسے چھوڑ دو) اور امام صادق(ع) نے لوگوں کو ایسے شخص سے اجتناب کا حکم دیا ہے: (فذاک احمق فاجتنبوہ؛ وہ جاہل ہے اس سے اجتناب کرو)

لا علاج بیماری

اس سلسلہ کی احادیث کے اندر جاہلوں کے اقسام کے حوالہ سے جو ہدایت پیش کی گئی ہے اس کے متعلق اساسی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرہ کے آگاہ افراد پر غافل اور جاہل بسیط کو آگاہ کرنا کیوں لازم ہے؛ لیکن جاہل مرکب کے متعلق نہ فقط یہ کہ کوئی فریضہ نہیں ہے بلکہ فریضہ یہ ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے اور چھوڑ دیا جائے؟

جواب یہ ہے کہ جہل مرکب، خطرناک ترین اقسام جہل ہے اور در حقیقت لا علاج بیماری ہے جو شخص نہیںجانتا اور یہ خیال کرتا ہے کہ جانتا ہے وہ اپنے خیال اور احساس آگاہی کی ایسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہے کہ جو ناقابل علاج ہے۔

۱۵۵

اس سلسلہ میں امام صادق - فرماتے ہیں:

''من اعجب بنفسه هلک، ومن اعجب برأیه هلک، وان عیسیٰ بن مریم (ع) قال: داویت المرضی فشفیتهم باذن اﷲ، وابرأت الاکمه والابرص باذن اﷲ، وعالجت الموتیٰ فاحییتهم باذن اﷲ، وعالجت الاحمق فلم اقدر علیٰ اصلاحه فقیل یا روح اﷲ، وما الاحمق؟ قال: المعجب برأیه ونفسه، الذی یریٰ الفضل کله له لا علیه، ویوجب الحق کله لنفسه ولا یوجب علیها حقا، فذاک الاحمق الذی لا حیلة فی مداواته''

جو شخص اپنے متعلق خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے تباہ ہو جاتا ہے ، اور جو اپنی رائے و نظر سے خوش ہوتا ہے ہلاک ہو جاتا ہے ، بیشک عیسیؑ بن مریم فرماتے ہیں( بیماروںکا خدا کے اذن سے علاج کیا شفایاب ہوگئے، نابینا اور کوڑھیوںکو خدا کے اذن سے شفا بخشی ؛ اور مردوں کو باذن الہی زندہ کیا؛ اور احمق کا علاج کیالیکن اسکی اصلاح نہ کرسکا!

پوچھا گیا: اے روح اللہ! احمق کون ہے ؟ فرمایا:( وہ شخص جو خود کواور اپنی رائے ہی کو صحیح سمجھتا ہے)تمام فضیلتوں کو اپنا ہی حق سمجھتاہے ، اپنے کسی عیب کو تسلیم نہیں کرتا اپنے حقوق کوواجب جانتا ہے اور اپنے اوپرکسی کاحق واجب نہیں سمجھتا یہ شخص ایسا احمق و نادان ہے کہ جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔

اس وضاحت کے لحاظ سے حقیقی احمق و نادان وہ شخص نہیںہے جو دماغی مشکلات میں مبتلا ہو اور جسمی بیماریوںکی وجہ سے مسائل کے سمجھنے پر قادر نہ ہو۔ اس طرح کے مریض اگر طبیعی طور پر قابل علاج نہ ہوں تو معجزہ کے ذریعہ ان کا علاج ممکن ہے ۔ حقیقی احمق وہ ہے کہ جس کا دماغ سالم ہو؛ لیکن خود بینی اور احساس دانائی کی بیماری نے اسکی عقل و فکر کو فاسد کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں عقل عملی کی دعوت کو قبول نہیں کرتا لہذا اسکی عقل کی فنا و موت کازمانہ آپہنچتا ہے ۔ ایسے مردہ کا علاج ممکن نہیں ۔ ایسے مردہ کو حضرت عیسیؑ بھی زندہ نہیںکر سکتے۔

۱۵۶

حضرت عیسیٰ باذن خدا ہر قسم کی جسمی بیماریوں کا طبی آلات کے بغیر علاج کرتے تھے؛ یہاں تک کہ مردوںکو بھی زندہ کرتے تھے؛ لیکن مردہ فکرو عقل کے زندہ کرنے پر قادر نہ تھے، کسی بنی کو اس پر قدرت نہ تھی جیسا کہ قرآن کریم خاتم الانبیاء محمد مصطفی ؐ سے فرماتا ہے:

(انک لا تسمع الموتیٰ ولا تسمع الصم الدعائ)

یقینا آپ اپنی آواز نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں اور نہ ہی بہروںکو۔

اس قسم کے انسان فقط دنیا کے ظواہر پر نظر رکھتے ہیں اور حقیقت سے غافل ہوتے ہیں:

(یعلمون ظاهرا من الحیاة الدنیا و هم عن الآخرة هم غافلون)

یہ لوگ صرف زندگانی دنیا کے ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت کی طرف سے بالکل غافل ہیں۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مردہ کو تعلیم دینا بے سود ہے اور جس کی عقل و فکر مردہ ہو چکی ہو وہ خطرناک ترین چوپائے میں تبدیل ہو جاتاہے جیسا کہ قرآن کا ارشادہے:

( ان شر الدواب عند اﷲ الصم البکم الذین لایعقلون)

اللہ کے نزدیک بدترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیںجو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں۔

اسی بنا پر، ایسے شخص سے قریب ہونا ہی خطرناک ہے : کیوں کہ عقلی و فکری بیماری متعدی ہوتی ہے ممکن ہے کہ دوسروںمیںسرایت کر جائے لہذا لوگوںکا ریضہ یہ ہے کہ ایسی بیماریوں سے اجتناب کریں اور اس سے دور رہیں؛ جیسا کہ خدا فرماتا ہے :

(فاعرض عن من تولیٰ عن ذکرنا و لو یرد الا الحیاة الدنیا)

لہذا جو شخص بھی ہمارے ذکر سے منہ پھیرے اور زندگانی دنیا کے علاوہ کچھ نہ چاہے آپ بھی اس سے کنارہ کش ہو جائیں۔

۱۵۷

چوتھی فصل جہل کے علامات

4/1

آثار جہل

الف : کفر

قرآن مجید

(جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اس کا اتباع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم اس کا اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ۔ک یا یہ ایسا ہی کریںگے چاہے ان کے باپ دادا بے عقل ہی رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ ہوں)

(جو لوگ کافر ہو گئے ہیں ان کے پکارنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو جانوروں کو آواز دے اور جانور پکار اور آواز کے علاوہ کچھ نہ سنیں اور نہ سمجھیںیہ کفار بہرے، گونگے اور اندھے ہیں۔ انہیں عقل سے سروکار نہیں ہے)

(اور جب تم نماز کے لئے اذان دیتے ہو تو یہ اس کو مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں اس لئے کہ یہ بالکل بے عقل قوم ہیں)

حدیث

873۔ رسول خدا(ص): تمام خوبیاں عقل کے سبب حاصل ہوتی ہیں اور جسکے پاس عقل نہیںہے اسکے پاس دین نہیں۔

874۔ رسول خدا(ص): انسان کی اصل اسکی عقل ہے اور جس کے پاس عقل نہیںہے اس کے پاس دین نہیں۔

875۔ رسول خدا(ص): انسان کا دین اسکی عقل ہے اور جس کے پاس عقل نہیںہے اس کے پاس دین نہیں۔

۱۵۸

876۔ امام علی (ع): کوئی شخص کافر نہیں ہو ا مگر یہ کہ جاہل تھا۔

877۔ امام علی (ع): کافر ایسا پست حیلہ باز، خیانتکار ، اور مغرور ہے جو اپنی جہالت کے سبب نقصان میں ہے۔

878۔ امام علی (ع): کافر، بدکارجاہل ہے ۔

879۔ امام علی (ع): جاہل جب بخل سے کام لیتا ہے تو مالدار ہوجاتا ہے اور جب مالدار ہو جاتا ہے توبے دین ہو جاتا ہے۔

880۔ امام علی (ع): علی بن اسباط: کسی معصوم ؑ سے نقل کرتے ہیں: خدا کی جانب سے حضرت عیسیؑ کو کی جانے والی نصیحتوں میں ملتا ہے: اے عیسی! میرے ساتھ کسی چیز کو شریک مت قرار دو....ہر جگہ حق کے ساتھ رہو، خواہ ٹکڑے ٹکڑے کرکے آگ میں جلا دئے جاؤ۔ پھر بھی میری معرفت کے بعد کفر اختیار نہ کرنا تاکہ جاہلوں میں سے نہ ہوجاؤ۔

ب: برائیاں

881۔ رسول خدا(ص): جہل تمام برائیوں کا سرغنہ ہے ۔

882۔ امام علی (ع): جہالت تمام برائیوں کی جڑہے ۔

883۔ امام علی (ع): جہالت ہر کام کی تباہی ہے ۔

884۔ امام علی (ع): جہالت کے سبب تمام برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔

885۔ امام علی (ع): جہالت برائی کا سرچشمہ ہے ۔

۱۵۹

ج: علم اور عالم سے دشمنی

886۔ امام علی (ع): لوگ نامعلوم چیزوںکے دشمن ہوتے ہیں۔

887۔ امام علی (ع): جو کسی چیز سے ناواقف ہوتا ہے اس کا دشمن ہوتا ہے ۔

888۔امام علی (ع): جو شخص کسی چیز سے بے خبر ہوتا ہے اس میں عیب نکالتا ہے ۔

889۔ امام علی (ع): جو شخص کسی چیز کی معرفت سے قاصر ہوتا ہے اس میں نقص نکالتا ہے ۔

890۔ امام علی (ع): کسی نے بھی جاہلوں کی طرح علماء کی مخالفت نہیںکی۔

891۔ امام علی (ع): جن چیزوںکو نہیں جانتے ان کے دشمن نہ بنو اس لئے کہ بیشتر علم انہیں چیزوں میں ہے جنہیں تم نہیںجانتے۔

د: روح کی موت

892۔ امام علی (ع): جہل، زندوںکو مردہ اور بدبختوں کو دوام بخشتا ہے ۔

893۔ امام علی (ع): جہالت موت ہے اور سستی فنا ہے ۔

894۔ امام علی (ع): جاہل مردہ ہوتا ہے چاہے زندہ ہی کیوں نہ ہو۔

895۔ امام علی (ع): عالم مردوں کے درمیان زندہ اور جاہل زندوں کے درمیان مردہ ہے ۔

896۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ۔ فضائل سے ناواقفیت موت کے برابر ہے۔

۱۶۰