عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں0%

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 258

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات:

صفحے: 258
مشاہدے: 132633
ڈاؤنلوڈ: 4751

تبصرے:

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 258 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 132633 / ڈاؤنلوڈ: 4751
سائز سائز سائز
عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1157۔ امام باقر(ع): رسول خدا(ص) فتح مکہ کے روز منبر پر گئے اور فرمایا: اے لوگو! اللہ نے غرور جاہلیت اور آباء و اجداد پر تمہارے فخر کو تم سے دور کیا۔ یاد رکھو! تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے خلق ہوئے ہیں، آگاہ ہو جاؤ! خدا کے بندوں میں سب سے بہتر وہ بندہ ہے جو خدا کا خوف رکھتا ہے بیشک عرب ہونا، عرب باپ کی بنا پر نہیں ہے بلکہ عرب ہونا، ایک تکلم کی زبان ہے ، لہذا جس کا عمل کم ہوگا اس کا حسب و نسب اس کا جبران نہیںکریگا۔

1158۔ امام علی (ع): تمہارا فرض ہے کہ تمہارے دلوں میں جو عصبیت اور جاہلیت کے کینوں کی آگ بھڑک رہی ہے اسے بجھا دو کہ یہ غرور ایک مسلمان کے اندر شیطانی وسوسوں ، نخوتوں، فتنہ انگیزیوں اور فسوں کاریوں کا نتیجہ ہے ۔

1159۔ امام علی (ع): حسد اور کینہ سے پرہیز کرو! اس لئے کہ یہ جاہلیت کی خصلتیں ہیں:(اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ وہ یقینا تمہارے اعمال سے باخبر ہے ۔)

1160۔ امام علی (ع): خدا را خدا سے ڈرو! تکبر کے غرور اور جاہلیت کے تفاخر کے سلسلہ میں کہ یہ عداوتوں کے پیدا ہونے کی جگہ اور شیطان کی فسوں کاری کی منزل ہے ، اسی کے ذریعہ اس نے گذشتہ قوموں اور اگلی نسلوں کو دھوکا دیا ہے ، یہاں تک کہ وہ لوگ جہالت کے اندھیروں اور ضلالت کے گڑھوں میں گر پڑے، وہ اپنے ہنکانے والے کے مکمل تابع اور کھیچنے والے کے سراپا اطاعت تھے، یہی وہ امر ہے جس میں قلوب سب ایک جیسے ہیں اور نسلیں اسی راہ پر چلتی رہی ہیں اور یہی وہ تکبر ہے جس کی پردہ پوشی سے سینے تنگ ہیں۔

آگاہ ہو جاؤ! اپنے ان بزرگوں اور سرداروں کی اطاعت سے محتاط رہو جنہوںنے اپنے حسب پر غرور کیااور اپنے نسب کی بنیاد پر اونچے بن گئے، بد نما چیزوں کو اللہ کے سر ڈال دیا اور اس کے حسنات کا صریحی انکار کر دیا ہے ، انہوںنے اس کے فیصلہ سے مقابلہ کیاہے اور اسکی نعمتوں پر غلبہ حاصل کر نا چاہا ہے ، یہی وہ لوگ ہیں جو عصبیت کی بنیاد ، فتنوں کے ستون اور جاہلیت کے غرور کی تلوار ہیں۔

۲۲۱

1161۔ امام علی (ع): تمہارے چھوٹوں کو چاہئے کہ اپنے بڑوں کی پیروی اور بڑوں کا فرض ہے کہ اپنے چھوٹوں پر مہربانی کریں، اور خبردار تم لوگ جاہلیت کے ان ظالموں جیسے نہ ہو جانا جو نہ دین کا علم حاصل کرتے تھے اور نہ اللہ کے بارے میں عقل و فہم سے کام لیتے تھے، انکی مثال ان انڈوں کے چھلکوں جیسی ہے جو شتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ پر رکھے ہوںکہ انکا توڑنا تو جرم ہے لیکن پرورش کرنا بھی سوائے شر کے کوئی نتیجہ نہیں دے سکتاہے ۔

1162۔ محمد قصری: بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے زکات کے بارے میں سوال کیا: تو فرمایاؑ: خدا نے جنکو زکات دینے کا حکم دیا ہے انہیں کے درمیان اسے تقسیم کرو لیکن قرضداروںکے حصہ سے ان قرضداروںکا قرض ادا نہیں کیا جاسکتا جو مہر کے مقروض ہیں اور نہ ہی ان افراد کا قرض ادا کیا جائیگا جو جاہلیت کی دعوت دیتے ہیں، میں نے عرض کیا!جاہلیت کی دعوت کیاہے؟فرمایا: وہ شخص جو یہ کہتا ہے : اے فلاں قبیلہ کی اولاد، پھران کے درمیان قتل و خونریزی برپا ہو جاتی ہے انہیںقرضداروںکے حصہ سے نہیں دیا جا سکتا؛ اسی طرح اس حصہ سے اس شخص کو بھی نہیں دیا جا سکتا جو لو گوں کے اموال میں لاپروائی برتتا ہے ۔

1163۔ جابر: مہاجرین و انصار کے دو غلاموں میں جھگڑا ہو گیا ، مہاجر کے غلام نے فریاد کی اے مہاجرین میری مدد کو آؤ! اور انصار کے غلام نے فریاد کی اے انصار مدد کو پہنچو! رسول خدا(ص) باہر تشریف لائے اور فرمایا: یہ اہل جاہلیت کا دعویٰ کیسا ہے؟ ان لوگوں نے کہا: اے رسول خدا(ص) یہ دعوائے جاہلیت نہیں صرف دو غلاموںنے آپس میں جھگڑا کیا ہے ایک نے دوسرے کو زمین پر پٹخ دیا ہے، رسولخدؐا نے فرمایا: کوئی مضائقہ نہیں، ہر شخص کو چاہئے کہ اپنے بھائی کی مدد کرے چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم، اگر ظالم ہے تو اسکو اسکے ظلم سے باز رکھے یہی اس کےلئے مدد ہے اور اگر مظلوم ہے تو اسکی مدد کرے۔

۲۲۲

1164۔علی بن ابراہیم : رسولخدا ؐ کے اصحاب ، رسول خدا(ص) کے پاس آئے اور اپنے حاجات کے پورے ہونے کےلئے خدا سے دعا کرنے کی درخواست کی۔ انکا تقاضا ایسی چیزوں کے سلسلہ میں تھا جو ان کےلئے حلال و مباح نہ تھا، پس خدا نے آیت نازل کی:وہ لوگ گناہ، ظلم اور رسول کی نافرمانی کے ساتھ راز کی باتیں کرتے ہیں۔اور جب وہ لوگ رسولخدؐاکے پاس آئے:انعم صباحا وانعم مساء اً کہا جو کہ اہل جاہلیت کا سلام تھا، تو خدا نے آیت نازل فرمائی:اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو اسطرح سلام کرتے ہیں کہ جسطرح خدا نے انہیں نہیں سکھایا ہے پھر رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا: خدا نے ہمارے لئے اسکے عوض میں اس سے بہتر قرار دیا ہے جو کہ اہل جنت کا سلام ہے اور وہ (سلام علیکم) ہے۔

6/4

جاہلیت کے جرائم

الف :بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا

قرآن

(اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے ، قوم سے منھ چھپاتا ہے کہ بہت بری خبر سنائی گئی ہے اب اس کو ذلت سمیت زندہ رکھے یا دفنا دے یقینا یہ لوگ بہت برا فیصلہ کر رہے ہیں)

(اور جب زندہ در گور بیٹیوں کے بارے میں سوال کیا جائیگا کہ انہیں کس گناہ میں مارا گیا ہے)

۲۲۳

حدیث

1165۔ رسول خدا(ص) :خدا نے تمہارے لئے ماؤں کی نافرمانی ، بیٹیوں کو زندہ در گور کرنا اور حقوق و واجبات کی عدم ادائیگی کو حرام قرار دیا ہے ۔ وہ تم سے قیل و قال ، کثرت سوال اور مال کے ضائع کرنے کو ناپسند کرتا ہے ۔

1166۔امام صادق(ع): ایک شخص رسول خدا(ص) کی خدمت میں آیا اور کہا: میرے یہاں بیٹی پیدا ہوئی اور میں نے اسکی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئی پھر اسے لباس پہنایا، آراستہ کیا اور کنویں میں لے جاکر ڈال دیا۔ اسکی جو آخری آواز میں نے سنی وہ یہ تھی کہ اے ابا جان! (اے اللہ کے رسول )اس عمل کا کفارہ کیا ہے ؟ رسول خدا(ص)نے فرمایا کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟ کہا: نہیں، فرمایا:ؐ کیا تمہاری خالہ زندہ ہے؟ کہا: ہاں، فرمایا: اس کے ساتھ نیکی کرو کہ خالہ ماں کی جگہ پر ہوتی ہے تمہارے گناہوں کا کفارہ ہو جائیگا۔

ابو خدیجہ کہتا ہے : میں نے امام صادق(ع) سے پوچھا: یہ کس زمانہ میں پیش آیا تھا؟ فرمایا: جاہلیت میں ، وہ اپنی بیٹیوں کو اسیری کے خوف سے قتل کر دیتے تھے کہ کہیں اسیر ہوگئیں تو دوسری قوموں میں جاکر ان کے شکم سے بچے پیدا ہوں گے۔

ب: اولاد کشی

قرآن

(اور اسی طرح ان شریکوں نے بہت سے مشرکین کےلئے اولاد کے قتل کو بھی آراستہ کر دیا ہے تاکہ انکو تباہ و برباد اور ان پر دین کو مشتبہ کر دیں حالانکہ خدا اسکے خلاف چاہ لیتا تو یہ کچھ نہیں کر سکتے تھے لہذا آپ انکوانکی افتراء پردازی پر چھوڑ دیں اور پریشان نہ ہوں)

۲۲۴

(یقینا وہ لوگ خسارہ میں ہیں جنہوںنے حماقت میں بغیر جانے بوجھے اپنی اولاد کو قتل کر دیا اور جو رزق خدا نے انہیں دیا تھا اسے اسی پر بہتان لگا کر اپنے اوپر حرام کر لیا یہ سب بہک گئے ہیں اور ہدایت یافتہ نہیںہیں)

(پیغمبر اگر ایمان لانے والی عورتیں آپ کے پاس اس امر پر بیعت کرنے کے لئے آئیں کہ کسی کو خدا کا شریک نہیں بنائیں گی اور چوری نہیں کریں گی ، زنا نہیں کریں گی، اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھ پاؤں کے سامنے سے کوئی بہتان (لڑکا) لیکر نہیں آئیں گی، اور کسی نیکی میں آپکی مخالفت نہیں کریں گی تو آپ ان سے بیعت لے لیںاور ان کے حق میں استغفار کریں کہ خدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے)

(اور خبردار اپنی اولاد کو فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرنا ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی بیشک ان کا قتل کر دینا بہت بڑا گناہ ہے)

ج: بد کرداری

(اور یہ کوئی برا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ نے یہی حکم دیا ہے ، آپ فرما دیجئے کہ خدا بری بات کا حکم نہیں دے سکتا کیا تم خدا کے خلاف وہ کہہ رہے ہو جو جانتے بھی نہیں ہو)

(کہدیجئے کہ ہمارے رب نے صرف بدکاریوں کو حرام کیا ہے چاہے وہ ظاہری ہو ں یا باطنی اور گناہ، ناحق ظلم اور بلا دلیل کسی چیز کو خدا کا شریک بنانے اور بلا جانے بوجھے کسی بات کو خدا کی طرف منسوب کرنے کو حرام قرار دیا ہے)

۲۲۵

حدیث

1167۔ امام زین العاب دین (ع): جب ظاہری اور باطنی بدکرداریوں کے بارے میں آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا: ظاہری بدکرداری ، باپ کی بیوی کے ساتھ نکاح ہے اور باطنی بدکرداری زنا ہے۔

1168۔ امام کاظم (ع): نے خدا کے اس قول:(کہدیجئے ہمارے رب نے ظاہری و باطنی بدکرداریوں، گناہ اور ناحق ظلم کو حرام قرار دیا ہے)کے بارے میں فرمایا: ظاہری بد کرداری یعنی کھلی زنا کاری اور پرچم کو نصب کرنا ہے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں فاحشہ عورتیں بدکرداری و زناکاری کےلئے (اپنے گھروں پر) پرچم نصب کرتی تھیں، اور باطنی بدکرداری یعنی باپ کی بیوی سے نکاح کرنا ہے اس لئے کہ بعثت نبی ؐ سے قبل جب کوئی شخص مر جاتا اور اس کے کوئی بیوی ہوتی تھی تو اس کا بیٹا اگر وہ ماں نہیںہوتی تھی تو اس کے ساتھ نکاح کر لیتا تھا،پس خدا نے اس کو حرام قرار دیا ۔

د: لڑکیوں کو بد کاری پر مجبور کرنا

قرآن

(اور خبردار اپنی کنیزوںکو اگر وہ پاکدامنی کی خواہش مند ہیں تو زنا پر مجبور نہ کرنا کہ ان سے زندگانی دنیا کا فائدہ حاصل کرنا چاہو کہ جو بھی انہیں مجبور کریگا خدا مجبوری کے بعد ان عورتوں کے حق میں بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے )

۲۲۶

حدیث

1169۔ امام باقر(ع): عرب اور قریش کنیزوںکو خریدتے تھے اور ان کے لئے بہت زیادہ مالیت رکھتے تھے، اور کہتے تھے: جاؤ فاحشہ گیری کرو اور پیسے کماؤ؛ پس خدا نے انہیں اس کام سے منع فرمایا۔

ھ: شراب، جوا، بت اور پانسہ

قرآن

(ایمان والو! شراب، جوا، بت ،پانسہ یہ سب شیطانی اعمال ہیں لہذا ان سے بچو تاکہ کامیابی حاصل کر سکو)

حدیث

1170۔امام باقر(ع): جب خدا نے رسول خدا(ص) پر نازل کیا:(ایمان والو! شراب میسر،(جوا)، انصاب (بت) اور ازلام (پانسہ) یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہذا ان سے پرہیز کرو تاکہ کامیابی حاصل کر سکو)

تو پوچھا گیا: اے رسول خدا(ص)، میسر کیا ہے؟ فرمایا: ہر وہ چیز جس سے جوا کھیلا جائے حتی کہ نرو کے مہرے اور اخروٹ، پوچھا گیا: انصاب کیا ہے؟ فرمایا: وہ چیزیں جو اپنے معبود وں کےلئے ذبح کرتے ہیں، پھر پوچھا گیا: ازلام کیا ہے؟ فرمایا: وہ پانسہ ہے کہ جس کے ذریعہ تقسیم کرتے تھے۔

1171۔ امام باقر(ع): نے خدا کے اس قول:(ایمان والو! شراب، جوا، بت اور پانسہ یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہذا ان سے پرہیز کرو تاکہ کامیابی حاصل کرسکو)کے بارے میں فرمایا:.......انصاب یہ ایسے بت تھے کہ جنکی مشرکین پرستش کرتے تھے اور ازلام ایسے پانسے ہیں کہ زمانہئ جاہلیت میں مشرکین عرب جنکے ذریعہ تقسیم کرتے تھے۔

۲۲۷

و: خون مالی

1172۔اسماء بنت عمیس: (ولادت امام حسن (ع) کے متعلق بیان فرماتی ہیں) نبی اکرمؐ نے امام حسن (ع) کی ولادت کے ساتویں روز دو سیاہ مینڈھوں سے عقیقہ کیا اور ایک ران اور ایک دینار دایہ کو دیا پھر ان کے سر کو مونڈا ور ان کے بال کے برابر سکہ صدقہ دیا، پھر سرکوخَلوق(ایک قسم کی خوشبو جس کا جزء اعظم زعفران ہوتا ہے) سے دھویا اور فرمایا: اے اسمائ! خون مالی کرنا جاہلیت کا عمل ہے ۔

1173۔ عاصم کوزی : کابیان ہے کہ میں نے امام صادق(ع) سے سنا ہے کہ وہ اپنے والد سے نقل کرتے تھے کہ رسول خدا(ص) نے امام حسن (ع) ور امام حسین (ع) کاایک ایک مینڈھے سے عقیقہ کیا، دایہ کو ہدیہ دیا اور ان کی ولادت کے ساتویں روز ان کے سروں کو مونڈا اور ان کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام صادق ؑ سے عرض کیا: کیاعقیقہ کے خون سے بچہ کے سر پر مالش کی جا سکتی ہے؟ فرمایا: یہ شرک ہے۔ میں نے کہا: سبحان اللہ! شرک ہے ؟ فرمایا: اگر شرک نہیں ہے تو یقینا زمانہ جاہلیت کا عمل ہے اسلام میں اس سے روکا گیا ہے۔

ز: بد شگونی

1174۔ ابو حسان : ایک شخص نے عائشہ سے کہا کہ ابو ہریرہ ، پیغمبر اکرم ؐسے روایت کرتا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: عورت، گھر اور چوپائے باعث بدشگونی ہیں ، عائشہ نہایت ناراض ہوئی گویا ان کا آدھا حصہ آسمان پر چلا گیا اور آدھا زمین پر باقی تھا، پھر کہا: بیشک دور جاہلیت کے افراد ان چیزوںکو بدشگونی سمجھتے تھے۔

۲۲۸

1175۔ عائشہ: رسول خدا(ص) فرماتے تھے: جاہلیت کے افراد کہا کرتے تھے، تین چیزیں بدشگونی کا باعث ہےں، عورت، چوپایہ اور گھر، پھر یہ آیت پڑھی:(زمین میں کوئی بھی مصیبت وارد ہوتی ہے یا تمہارے نفس پر نازل ہوتی ہے تو نفس کے پیدا ہونے سے قبل وہ کتاب الٰہی میں مقدر ہو چکی ہے اور یہ خدا کےلئے بہت آسان ہے)

ح: جنات کی پناہ ڈھونڈنا

قرآن

(اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے بعض کی پناہ ڈھونڈ رہے تھے تو انہوںنے گرفتاری میں اور اضافہ کر دیا)

حدیث

1176۔ زرارہ: میں نے امام صادق(ع) سے اس آیت:(اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے بعض کی پناہ ڈھونڈ رہے تھے تو انہوںنے گرفتاری میں اور اضافہ کر دیا)کی تفسیر کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا: ایک شخص فال کھولنے اورتقدیر کا حال بتانے والے کے پاس گیا کہ شیطان جس سے کانا پھونسی کرتا تھا، اور اس سے کہا: اپنے شیطان سے کہو کہ فلاں نے تمہاری پناہ لی ہے ۔

ط:جنات کے لئے قربانی کرنا

1177۔ امام علی (ع): بیشک رسول خدا(ص) جنات کےلئے قربانی کرنے سے روکتے تھے ، پوچھا گیا : اے رسولخدؐا: جنات کےلئے قربانی کیاہے ؟ نبی ؐ نے فرمایا: جو لوگ اپنے گھروں میں رہنے والے جنات سے ڈرتے تھے ان کےلئے قربانی کرتے تھے۔

۲۲۹

ی: گھونگا پہننا

1178۔ قاضی نعمان: رسول خدا(ص) نے تمائم اور تَوَل سے منع کیا؛ ''تمائم'' ڈورے میں پروئے ہوئے گھونگے یا نوشتے جسے لوگ اپنے گلے میں آویزاں کرتے ہیں، اور ''تَوَل'' وہ کام ہے جسے عورتیں اپنے شوہروںکی نظر میں محبوب ہونے کےلئے انجام دیتی ہیں؛ جو فال بینی اور قسمت بینی کے مانند ہے نیز پیغمبر نے سحر سے روکا ہے۔

ک: میت پر عورتوںکا بین کرنا

1179۔رسول خدا(ص): مردوں پر عورتوں کا جمع ہو کر وا ویلا کرنا جاہلیت کا عمل ہے ۔

1180۔ رسول خدا(ص): جاہلیت کے رسم و رواج میں سے میت پر بین کرنا، انسان کا اپنے بیٹے سے بیزار ہونا اور لوگوںپر فخر کرنا ہے۔

1181۔انس: رسول خدا(ص) نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت ان سے یہ بیعت لی کہ میت پر بین نہیں کرینگی عورتوںنے کہا: اے رسولخدا! دور جاہلیت میں کچھ عورتوں نے میت پر بین کرنے میں ہماری مدد کی تھی کیا ہم انکی مدد کر سکتے ہیں؟ رسول خدا(ص) نے فرمایا: اسلام میں یہ عمل شائستہ نہیں ہے۔

1182۔ رسول خدا(ص): نے اس آیت:(اور کسی نیکی میں ان کی مخالفت نہیں کریں گی)کی تفسیر میں فرمایا: جمع ہو کر رونے والی عورتیں مراد ہیں۔

۲۳۰

ل: غیر خدا کی قسم کھانا

1183۔ زرارہ : کا بیان ہے کہ میںنے امام باؑقر سے اس آیت:(پس خدا کو اسطرح یاد رکھو جسطرح اپنے باپ دادا کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ)کی تفسیرکے بارے میں پوچھا تو فرمایا: اہل جاہلیت کا تکیہ کلام یہ تھا: نہیں، تمہارے باپ کی قسم، ہاں، تمہارے باپ کی قسم، پھر اسکے بعد انہیں یہ حکم دیا گیا کہ وہ کہیں: نہیں، خدا کی قسم، ہاں، خدا کی قسم۔

1184۔ امام صادق(ع): میںمناسب نہیں سمجھتا کہ غیر خدا کی قسم کھائی جائے، کسی کا یہ کہنا: نہیں، تمہارا برا چاہنے والا ایسا ہو جائے۔ اہل جاہلیت کاقول ہے، اگر کوئی شخص یہ یا ایسی ہی کوئی دوسری قسم کھائیگا تو وہ خدا کی قسم سے چشم پوشی کریگا۔ 6/5

اسلام کا جاہلیت کے رواج کو مٹا نا

1185۔ رسول خدا(ص): بیشک اللہ نے مجھے عالمین کےلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے اور اس لئے بھی تاکہ گانے بجانے کے آلات، بانسری، رواج جاہلیت اور بتوںکو نابود کروں۔

1186۔ رسول خدا(ص): خدا کے نزدیک مبغوض ترین انسان تین قسم کے ہیں: جو حرم میں بے دینی اختیار کرے ،جو اسلام میں جاہلیت کے رسم و رواج کے پیچھے جائے اور وہ جو کسی کا ناحق خون بہانے کے در پے ہو۔

1187۔ رسول خدا(ص): نے روز عرفہ کے خطبہ میں فرمایا: یاد رکھو! میں نے جاہلیت کی ہر رسم کو ترک کیا اور اپنے پیروں تلے کچلا ہے ۔ جاہلیت کے خون کا بدلہ بھی ترک کیا جائےگا۔ اور یقینا پہلا خون جسے ترک کرونگا وہ ابن ربیعہ بن حارث کا ہے۔ قبیلہ بنی سعد میں دوران رضاعت کو گذار رہا تھا اور قبیلہ ہذ یل نے اسے قتل کر دیا، اور جاہلیت کا سود بھی لغو ہے ، پہلا سود جو میں لغو کرونگا وہ عباس بن عبد المطلب کا ہے؛ بیشک یہ تمام چیزیںلغو ہیں۔

۲۳۱

1188۔ ابو عبیدہ: جاہلیت میں یَشکرُ کے نمایاں کاموںمیں سے یہ ہے: فتح مکہ کے روز رسول خدا(ص) نے خطبہ دیا اور فرمایا: آگاہ ہو جاؤ: میںنے سوائے حاجیوں کو پانی پلانے اور کعبہ کی پردہ پوشی کے جاہلیت کی ہر بزرگی کو اپنے پیروں سے کچلا ہے ۔ اس وقت اسود بن ربیعہ بن ابو الاسود بن مالک بن ربیعہ بن جمیل بن ثعلبہ بن عمرو بن عثمان بن حبیب بن یشکر کھڑا ہوا اور کہا: اے رسول خدا! یقینا میرے والد زمانہ جاہلیت میں اپنے اموال کو سفر میں بیچارہ ہوجانے والے کو صدقہ دیتے تھے ، اگر یہ میرے لئے بزرگی ہے تو اسے چھوڑ دوںاور اگر بزرگی و شرافت نہیںہے تو میں سزا وار ہوں کہ اس کو انجام دیتا رہوں؟ رسول خدا(ص) نے فرمایا: یہ تمہارے لئے باعث افتخار ہے لہذا تم اس کو قبول کرو۔

1189۔ علی بن ابراہیم : رسول خدا(ص) نے دس ہجری میں،حجۃ الوداع انجام دیا؛ سر زمین منا میں حمد و ثنائے الٰہی کے بعد جو ارشاد فرمایا تھا اس کا ایک ٹکڑا یہ ہے :

فرمایا...یاد رکھو! جاہلیت کی تمام خاندانی سر بلندیاںیا بدعت اور تمام خون و مال میرے پیروںکے نیچے ہیں ، کوئی شخص آپس میں ایک دوسرے پر تقویٰ کے سوا کوئی فضیلت نہیں رکھتا، کیا میں نے پہنچادیا؟: انہوںنے کہا: ہاں! آپ ؐ نے فرمایا: خدایا: گواہ رہنا، پھر فرمایا: خبردار! تمام جاہلیت کے سود لغو ہیں؛ اور پہلا سود جو لغو ہوا وہ عباس بن عبد المطلب کا ہے ، آگاہ ہو کہ تمام جاہلیت کے خون کو لغو کر دیا گیا ہے پہلا خون جو لغو ہوا ہے وہ ربیعہ کا ہے کیا میںنے پہنچادیا؟ لوگوںنے کہا: ہاں، نبی نے فرمایا: خدایا! گواہ رہنا۔

1190۔ رسول خدا(ص): نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا: جاہلیت کا سودختم کر دیا گیا ہے اور پہلا سود جس سے میں آغاز کرتا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا ہے ، جاہلیت کا خون بھی معاف کر دیاگیا ہے، اور بیشک پہلا خون جس سے ابتدا کرتا ہوںوہ عامر بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کا ہے، اور بیشک جاہلیت کے تمام افتخارات کو چھوڑ دیا گیا ہے سوائے کعبہ کی پردہ پوشی اورحاجیوں کو پانی پلانے کے، عمداً قتل کےلئے قصاص ہے اور قتلِ شبہ عمد جو کہ لاٹھی یا پتھر سے قتل ہو تو اس کےلئے سو اونٹ دیت ہے؛ جو اس میں اضافہ کریگا اسکا تعلق جاہلیت سے ہوگا۔

۲۳۲

1191۔ امام باقر(ع): فتح مکہ کے دن رسول خدا(ص) منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: اے لوگو! خدا نے تمہاری جاہلیت کے غرور اور آباو اجداد کی جاہلیت کے تفاخر کو دور کیا۔ آگاہ ہو کہ تم سب کے سب آدم سے اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔ دیکھو! سب سے بہتر خدا کا بندہ وہ شخص ہے جو خدا سے زیادہ ڈرے۔ بیشک عرب ہو نا اس باپ کے سبب نہیںہے جس نے تمہیں پیدا کیاہے؛ بلکہ یہ ایک زبان ہے جو بولی جاتی ہے ؛ جس کے عمل میں کو تاہی ہوگی اس کا حسب و نسب اس کا جبران نہیں کریگا۔ جان لو! تمام جاہلیت کے خون یا کینے قیامت تک میرے قدموں کے نیچے ہیں۔

1192۔ رسول خدا(ص): بیشک اللہ نے جو زمانہ جاہلیت میں با شرف تھے انہیں اسلام کے سبب پست کیا اور جو زمانہ جاہلیت میں پست تھے انہیں اسلام کے باعث شرف عطا کیا، جو دور جاہلیت میں رسوا تھے انہیں اسلام کے سبب عزت عطا کی۔ اور اسلام کے سبب زمانہ جاہلیت کی نخوتوں، قبیلوں کے فخر و مباہات اور اونچے حسب و نسب کو ختم کیا، چنانچہ اب تمام لوگ (کالے ، گورے، قرشی اور عربی و عجمی) آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو خدا نے مٹی سے خلق کیا ہے ۔ اور روز قیامت خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ ہوگا جو ان میںسب سے زیادہ اطاعت گذار اور سب سے بڑا متقی ہے۔

1193۔ امام صادق(ع): رسول خدا(ص) رسم جاہلیت کے بر خلاف( مشعر الحرام سے منا کی طرف) نکلے دور جاہلیت میں لوگ مشعر سے گھوڑے اور اونٹوںکے ساتھ تیزی سے نکلتے تھے، لیکن رسول خدا(ص)نہایت سکون و وقار کے ساتھ مشعر سے منا کی طرف چلے۔ لہذا تم بھی ذکر خدا اور استغفار کرتے ہوئے چلو اور اپنی زبان پہ ذکر خدا جاری رکھو، اور جب وادی مُحَسِّریہ جمع اور منا کے درمیان عظیم وادی ہے اور منا سے نزدیک ہے میں پہنچوتو وہاں سے تیزی سے گذر جاؤ۔

1194۔ امام باقر(ع): رسول خدا(ص) نے علی (ع) سے فرمایا:اے علی (ع)! بنی مصطلق کے طائفہ بنی خزیمہ کے پاس جاؤ اور انہیں ولید بن خالد کے کرتوت سے راضی کرو۔ آگاہ ہو کہ رسول خدا(ص) نے اپنے پیروںکواٹھایا اور فرمایا: اے علی (ع) ، اہل جاہلیت کے فیصلہ کو اپنے پیروںکو نیچے قرار دو۔ پھر علی (ع) ان کے پاس گئے اور حکم خدا کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کیا۔ جب پیغمبرکے پاس پلٹ کر آئے تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: اے علی : مجھے بتاؤ تم نے کیاکیا...

۲۳۳

1195۔ امام باقر(ع): رسول خدا(ص) نے علی (ع) بن ابی طالب ؐ کو بلایا اور فرمایا: اے علی (ع)! اس قوم(بنی خزیمہ) کے پاس جاؤ اور ان کے حالات کا جائزہ لو، اور رسم جاہلیت کو اپنے پیروں کے نیچے قرار دو۔ لہذا علی (ع) نکلے اوران کی طرف روانہ ہوئے اور ان کے پاس رسول خدا(ص) کا بھیجا ہوا کچھ مال تھا، اس کے ذریعہ ان کے خون کی دیت اور تلف شدہ اموال یہاں تک کہ کتے کے پانی پینے کے کاسہ کا بھی خسارہ دیا۔

1196۔ امام زین العاب دین (ع) : بیشک اللہ نے اسلام کے سبب حقارت و پستی کو دور کیا اور اس کے ذریعہ کمی ونقص کوزائل کیا نیز اسکی بدولت کمینگی کو شرافت میں تبدیل کیا، لہذا مسلمان کے لئے کوئی پستی نہیںہے پستی اور حقارت صرف وہی ہے جو دوران جاہلیت تھی۔

1197۔ امام صادق(ع): اہل مصیبت کے سامنے کھانا اہل جاہلیت کی صفت ہے ۔ اسلامی سنت یہ ہے کہ اہل عزا و مصیبت کے لئے کھانا بھیجا جائے۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام ؐ نے جب جعفر بن ابی طالب کی خبر موت سنی تو حکم دیا کہ ان کے گھر والوںکے لئے کھانا پہنچایا جائے۔

۲۳۴

6/6

اچھی سنن کی تائید

1198۔ رسول خدا(ص): نے معاذ بن جبل کو یمن روانہ کرتے وقت انہیں وصیت کی کہ رسم جاہلیت کو پامال کر دینا سوائے ان رسم و رواج کے کہ جنکی اسلام نے حمایت کی ہے اور اسلام کے تمام چھوٹے بڑے امور کو ظاہر کرنا۔

1199۔رسول خدا(ص): نے معاذ بن جبل کو یمن روانہ کرتے وقت انہیں وصیت کی کہ: عاداتِ جاہلیت کا خاتمہ کرنا مگر یہ کہ جو نیک ہوں۔

1200۔ رسول خدا(ص): بیشک عبد المطلب نے زمانہ جاہلیت میں پانچ سنتیں جاری کی تھیں، جنہیں خدا عز و جل نے اسلام میں جاری و ساری رکھا: باپ کی بیویوں کو اولاد پر حرام کیا تھا، خدا نے آیت نازل کی:(اپنے باپ کی بیویوں کے ساتھ نکاح نہ کرو)

جب کوئی خزانہ پاتے تھے تو اس میں سے خمس نکالتے اور صدقہ دیتے تھے خدا نے آیت نازل کی( آگاہ ہو جاؤ کہ جو چیز تمہیں غنیمت میں ملے اسکا خمس خدا و رسول کے لئے ہے اور.....تا آخر)جب زمزم کنویںکو کھودا تو اس کا نام ''سقایۃ الحاج'' رکھا ، خدا نے آیت نازل کی( کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبادی کو اس جیسا سمجھ لیا ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے ....تا آخر) قتل پر سو اونٹوں کی دیت قرار دی تھی، خدا نے اسلام میں اسے بھی جاری رکھا، اور قریش طواف کے لئے خاص عدد کے قائل نہ تھے مگر عبد المطلب نے سات چکر قرار دئےے تھے، اور خدا نے اسلام میں اس کو جاری و ساری رکھا۔

1201۔ رسول خدا(ص): اسلام میں کوئی عہد و پیمان نہیںہے جو عہد و پیمان زمانہ جاہلیت میں تھا خدا نے اسی کو محکم کیا ہے ۔

۲۳۵

1202۔عمرو بن شعیب: اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ؐ، فتح مکہ کے سال کعبہ کے زینے پر بیٹھے ہوئے تھے، پس خدا کی حمد و ثنا کی اور فرمایا: جس کا بھی زمانہ جاہلیت میںکوئی عہد و پیمان تھا اسلام نے اس کو مزید محکم کیا ہے ۔

1203۔ جوحصہ بھی زمانہ جاہلیت میں تقسیم ہوا وہ اسی تقسیم پر باقی ہے، اور جو حصہ بھی اسلام نے درک کیا ہے پس وہ اسلام کا حصہ ہوگا۔

1204۔ رسول خدا(ص): ہر گھر اور زمین جو جاہلیت میں تقسیم ہوئی وہ اسی جاہلیت کی تقسیم پر ہے اور ہر وہ گھر اور زمین جسے اسلام نے درک کیا ہے لیکن تقسیم نہیں ہوئی تھی وہ اسلام کے حکم پر تقسیم ہوگی۔

1205۔ رسول خدا(ص): ہر وہ میراث جو جاہلیت میں تقسیم ہوئی تھی وہ اسی تقسیم پر باقی ہے۔ اور ہر وہ میراث جسے اسلام نے درک کیا وہ اسلام کی رو سے تقسیم ہوگی۔

1206۔ ابن عباس:جاہلیت کا جماعتی حلف لوگوں کے درمیان رکاوٹ تھا اور جو بھی قسم صبر کھاتا تھا- یعنی کسی کو اس لئے قید کرتا تاکہ وہ قسم کھائے- ان گناہوں کے سبب کہ جو اس نے انجام دیئے تھے تاکہ اسے خدائی عذاب دکھاکر محارم کو کچلنے سے باز رکھیں، لہذا قسم صبر سے اجتناب کرتے اور اس سے ڈرتے تھے پس جب خدا نے حضرت محمد(ص) کو مبعوث کیاتو اس قسم کو بر قرار رکھا۔

1207۔ فُضیل بن عیاض : کا بیان ہے کہ میں نے امام صادق(ع) سے کہا: جاہلیت کے رسم و رواج میں سے کیا کوئی چیز محترم بھی ہے؟ فرمایا: اہل جاہلیت نے ہر وہ چیز جو دین ابراہیم سے تھی اسے تباہ و برباد کر دیا، سوائے ختنہ کرنے اور شادی و حج کے ۔ وہ لوگ ان تین کے پابند رہے اور انہیں ضائع نہیں کیا۔

۲۳۶

1208۔ عبد اللہ بن عمر:عمر نے رسول خدا سے عرض کیا: اے رسول خدا! زمانہ جاہلیت میں میں نے نذر کیا تھا کہ ایک شب مسجد الرام میں اعتکاف کرونگا، رسول خدا(ص) نے فرمایا: تم اپنی نذر کو پورا کرو۔

1209۔ رسول خدا(ص): یاد رکھو! رجب اللہ کا اَصَمّ (بھاری)مہینہ ہے جو نہایت عظیم ہے ۔ رجب کے مہینہ کو ''اصم'' اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ کوئی بھی مہینہ خدا کے نزدیک احترام و فضیلت میں اس کے برابر نہیںہے زمانہ جاہلیت کے افراد اس مہینے کو عظیم سمجھتے تھے اور اسلام کے بعد اسکی عظمت و فضیلت دو بالا ہو گئی۔

1210۔ مجاہد: سائب بن عبد اللہ نے کہا: فتح مکہ کے روز مجھے پیغمبر اسلام ؐ کی خدمت میں لایا گیا۔ عثمان بن عفان اور زبیر مجھ کو لے آئے تھے ، انہوںنے سائب کی تعریف کی تو پیغمبر ؐنے ان سے فرمایا: اسکے بارے میں مجھے اطلاع نہ دو، وہ دور جاہلیت میں میرا ہمنشین تھا۔ سائب نے کہا: ہاں ، اے رسولخدا! آپ بہت اچھے ہمنشیں تھے، تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: اے سائب! زمانہ جاہلیت میں جو تمہارے عادات و اطوار تھے ان پر نظر کرو اور انہیں اسلام میں محفوظ رکھو، مہمانوں کو کھانا کھلاؤ، یتیموں کا احترام کرو اور پڑوسی کے ساتھ نیکی کرو۔

1211۔ زرارہ: میں نے امام باقر(ع)کی خدمت میں عرض کیا: لوگ نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: زمانہ جاہلیت میںجو تم میں سے زیادہ شریف تھا وہ تم میں اسلام میں بھی زیادہ شریف ہے ؛ امام ؑ نے فرمایا: وہ سچ کہتے ہیں، لیکن نہ اس طرح کہ جیسا کہ وہ گمان کرتے ہیں؛ دور جاہلیت میںسب سے زیادہ باشرف وہ انسان ہے جو ان میں بیشتر سخی، سب سے زیادہ خوش اخلاق اور پڑوسیوںکے ساتھ سب سے زیادہ نیکی کرنے والا اور سب سے کم اذیت پہنچانے والا ہے ۔ انہوںنے جب اسلام قبول کیا تو ان کی خوبیاں دو بالا ہو گئیں۔

۲۳۷

1212۔ علقمہ بن یزید بن سوید ازدی : کا بیان ہے کہ سوید بن حارث نے کہا: میں اپنے قبیلہ کی ساتویں فرد تھا کہ رسول خدا(ص) کی خدمت میں وارد ہوا، رسول خدا(ص): میرے طور طریقہ سے خوش ہوئے اور فرمایا: تم لوگ کیسے ہو؟ ہم نے کہا: ہم مومن ہیں، رسول خدؐا مسکرائے اور فرمایا: ہر قول کی ایک حقیقت ہوتی ہے اور تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے ؟ سوید کہتاہے کہ ہم نے کہا: پندرہ خصلتیں ہیں، پانچ خصلتوں کا آپ کے نمائندوں نے حکم دیا کہ ہم ان پر ایمان لے آئے، اور پانچ خصلتوں کے متعلق حکم دیا کہ ہم ان پر عمل کریں اور پانچ خصلتیں زمانہ جاہلیت میں ہمارے اندر تھیں اب بھی ہم ان پر عمل پیرا ہیں مگر یہ کہ آپ ان میں جس کو ناپسند کریں۔

رسول خدا ؐ نے فرمایا: وہ پانچ خصلتیں کیا ہیں جن پر ایمان لانے کامیرے نمائندوں نے تمہیں حکم دیا ہے؟ ہم نے کہا: یہ کہ ہم خدا پر، اس کے فرشتوں پر، اسکی کتابوںپر، اس کے انبیاء اور مرنے کے بعد زندہ ہونے پر ایمان لے آئےں۔

فرمایاؐ: پانچ خصلتیں جن پر عمل کرنے کا میرے نمائندوں نے تمہیں حکم دیا ہے؟ ہم نے کہا: لا الٰہ الا اللہ و محمد رسول اللہ؛ ہم نمازقائم کریں ، زکات ادا کریں ، حج خانہ خدا بجالائیں، اور ماہ رمضان کا روزہ رکھیں ؛ اور فرمایا:ؐ وہ پانچ خصلتیں کہ زمانہ جاہلیت میں جن کے عادی ہو چکے تھے وہ کیا ہیں؟ ہم نے کہا: عیش و آرام پر شکر، مصیبت پر صبر، دشمن سے مقابلہ کے وقت صبر (ثابت قدمی)، راضی بقضائے الٰہی اور دشمنوں کی ملامت و سرزنش کے وقت صبر۔ تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: قریب تھا کہ بردبار علماء اپنی صداقت کی بناپر انبیاء ہو جائیں۔

۲۳۸

ساتویں فصل دوسری جاہلیت

7/1

پیچھے کی طرف پلٹنا

قرآن

(اور محمد صرف اللہ کے رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل ہو جائیں توتم الٹے پیروں پلٹ جاؤگے تو جو بھی ایسا کریگا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کریگا اور خدا تو عنقریب شکر گذاروںکو ان کی جزا دیگا)

حدیث

1213۔ امام باقر(ع): نے اس آیت:(اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگارنہ کرو)کی تفسیر کے سلسلہ میں فرمایا: عنقریب دوسری جاہیت آنے والی ہے۔

1214۔ رسول خدا(ص): میں دو جاہلیتوں کے درمیان مبعوث ہوا ہوں، دوسری جاہلیت پہلی سے بدتر ہے ۔

1215۔ رسول خدا(ص): قیامت برپا نہیں ہوگی جب تک کہ علم محدود نہ ہو جائے۔

1216۔ رسول خدا(ص): آثار قیامت میں سے علم کا کم ہونا اور جہالت کا آشکار ہونا ہے ۔

1217۔ رسول خدا(ص): قیامت کی نشانیوں میں سے علم کا اٹھ جانا اور جہالت کاراسخ ہونا ہے ۔

۲۳۹

1218۔ رسول خدا(ص): بیشک قیامت سے قبل کچھ ایسے دن آئیں گے جن میں جہالت پھیلیگی اور علم اٹھا لیا جائیگا۔

1219۔ امام علی (ع): یا درکھو! تم نے اپنے ہاتھوں کو اطاعت کے بندھنوں سے جھاڑ لیا ہے اور اللہ کی طرف سے اپنے گرد کھنچے ہوئے حصار میں جاہلیت کے احکام کی بنا پر رخنہ پیدا کر دیا ہے ۔ اللہ نے اس امت کے اجتماع پر یہ احسان کیا ہے کہ انہیں الفت کی ایسی بندشوں میں گرفتار کر دیا ہے کہ اسی کے زیر سایہ سفر کرتے ہیں اور اسی کے پہلو میں پناہ لیتے ہیں اور یہ وہ نعمت ہیں جس کی قدر و قیمت کو کوئی بھی نہیںسمجھ سکتا ہے اس لئے کہ ہر قیمت سے بڑی قیمت اور شرف و کرامت سے بالاتر کرامت ہے ، اور یاد رکھو! کہ تم ہجرت کے بعد پھر صحرائی بدو ہو گئے ہو اور باہمی دوستی کے بعد پھر گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہو، تمہارا اسلام سے رابطہ صرف نام کارہ گیا ہے اور تم ایمان میں سے صرف علامتوں کو پہچانتے ہو۔

7/2

جاہلیت کی طرف پلٹنے کے اسباب

الف: امام کی عدم معرفت

1220۔ رسول خدا(ص): جو شخص امام کے بغیر مرا اسکی موت جاہلیت کی موت ہے۔

1221۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جو مر جائے اور اس کے اوپر کوئی امام نہ ہو اسکی موت، جاہلیت کی موت ہے۔

1222۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جو مر جائے اور اپنے امام کو نہ پہچانتا ہو اسکی موت ،جاہلیت کی موت ہے۔

1223۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جس کو اس عالم میں موت آئے کہ اسکی گردن پر کسی(امام )کی بیعت نہ ہو اسکی موت جہالت کی موت ہے۔

۲۴۰