عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں0%

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 258

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات:

صفحے: 258
مشاہدے: 132685
ڈاؤنلوڈ: 4751

تبصرے:

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 258 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 132685 / ڈاؤنلوڈ: 4751
سائز سائز سائز
عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1224۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جس کو اس حالت میں موت آئے کہ میری اولاد میں سے اس کا کوئی امام نہ ہو اسکی موت جاہلیت کی موت ہے اور جو کچھ جاہلیت اور دوران اسلام کیا ہے اس کا اس سے مؤاخذہ کیا جائیگا۔

1225۔ امام علی (ع): مسلمان کو اس شخص کے حکم پرجہاد کے لئے نہیں نکلنا چاہئے کہ جو امانتدار نہیںہے اور مصرف فی ئ(عمومی اموال) میں حکم خدا کو نافذ نہیں کرتا، ورنہ اگر اس راہ میں مرگیاتوہمارے حقوق کو تلف کرنے اور ہمارے خون کو بہانے میں ہمارے دشمنوںکا مددگار ہوگا، اور اسکی موت، جاہلیت کی موت ہوگی۔

ب: نشہ آور اشیاء کا استعمال

1226۔رسول خدا(ص): کوئی ایسا نہیںہے کہ جو شراب پئے اور خدا اسکی نماز چالیس روز تک قبول کرے، اگر وہ مر جائے اور اس کے مثانہ میں شراب کے آثار باقی ہوں تو جنت اس پر حرام ہوگی، اور اگر ان چالیس دنوں میںمر یگا تووہ جاہلیت کی موت مریگا۔

1227۔ رسول خدا(ص): شراب بدکردار ی اور گناہ کبیرہ کا سرچشمہ ہے ۔

1228۔ رسول خدا(ص): شراب، تمام گناہوں کو جمع کرنے والی ، خباثتوں کا سرچشمہ اور برائیوںکی کنجی ہے۔

1229۔ رسول خدا(ص) :شراب خور، بت پرست کے مانند خدا سے ملاقات کریگا۔

1230۔ رسول خدا(ص):شراب خور، بت پرست کے مانند ہے نیز شراب خور، لات و عزّٰی کی پرستش کرنے والے کے مانند ہے ۔

۲۴۱

1231۔ رسول خدا(ص): جو شخص شب میں شراب پیتا ہے وہ صبح کو مشرک ہوتا ہے، اور جو صبح کو شراب پیتا ہے وہ شام تک مشرک ہوتا ہے۔

1232۔ ابو ال حسن (ع): شراب خور کافر ہے ۔

1233۔ امام صادق(ع): جو شراب پیتا ہے وہ اپنی عقل کو کھو دیتا اور روح ایمان اس سے نکل جاتی ہے ۔

جاہلیت کی طرف پلٹنے کے اسباب کی تحقیق

قرآن کریم اور احادیث میں عہد بعثت رسول ؐ کوعقل و علم کی حاکمیت کا زمانہ اورآپکی بعثت سے پہلے والے زمانہ کو عہد جاہلیت سے تعبیر کیا گیا ہے ، اسکی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آنحضرت کی بعثت سے قبل آسمانی ادیان کی تحریف کے سبب لوگوںکے لئے حقائق ہستی کی معرفت اور صحیح زندگی گذارنے کا کوئی صحیح طریقہ نہیںتھا، اور وہ چیز جو دین کے نام پر لوگوں کی گردنوںپر ڈالی جارہی تھی اس میںتوہمات و خرافات کی آمیزش تھی ، تحریف شدہ ادیان کو مفاد پرست، موقع کو غنیمت سمجھنے والے، اور عوام سے جھوٹی ہمدردی کا اظہارکرنے والے افراد نے جو کہ ان کے دکھ درد کو محسوس نہیںکرتے تھے، اپنی حکومت اور منفعت کا وسیلہ قرار دے رکھا تھا۔

رسول خدا(ص) کی بعثت،دورِعلم کا آغاز تھا اور ان کی اہمترین ذمہ داری لوگوںکے لئے حقائق کو روشن کرنا اور انہیں صحیح زندگی کے اسلوب سے روشناس کرنا تھا، اورگذشتہ ادیان کی تحریف اور معاشرہ میں دین کے نام پر جو بدعتیں و خرافات ایحاد کی جا رہی تھیں ان کے مقابل میں نبرد آزما ہونے کا درس دینا تھا۔ رسول خدا خود کو لوگوں کے لئے مہربان و شفیق باپ اور ہمدرد معلم سمجھتے تھے اور فرماتے تھے۔

۲۴۲

(أنالکم مثل الوالد أعلمکم)

یقینا میں تمہارے لئے باپ کے مثل ہوں ، تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔

نبی اکرم ؐ خدا وند متعال کی جانب سے لوگوں کی صحیح زندگی کے طور طریقہ کو منظم کرنے کے لئے جو نبوت اور ضابطہ لیکر آئے تھے وہ عقلی میزان اور علمی معیار کے مطابق تھا کہ اگر علماء و دانشور اس کے حقائق کی چھان بین کریں تو مبدا ہستی سے اس کے ارتباط کی صداقت ان کے لئے روز روشن کی طرح واضح ہو جائیگی:

(و یر ی الذین اوتوا العلم الذی انزل الیک من ربک هو الحق و یهدی الیٰ صراط العزیز الحمید)

''اور جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ آپ پر آپ کے پرروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ بالکل حق ہے اور خدا ئے غالب و قابل حمد و ثنا کی طرف ہدایت کرنے والا ''

اس بنیاد پرآنحضرت لوگوںکو ان چیزوں کی پیروی سے شدت سے روکتے تھے کہ جن کے بارے میں وہ نہیں جاتے تھے ، اور ان کے سامنے اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے:

(ولا تقف ما لیس لک به علم ان السمع و البصر و الفؤاد کل اولٰئک کان عنه مسؤلا)

'' اور جس چیز کا تمہیں علم نہیںہے اس کے پیچھے مت جانا کہ روز قیامت سماعت، بصارت اور قوت قلب سب کے بارے میں سوال کیا جائیگا''

۲۴۳

قرآن کی تنبیہہ

قرآن نے اسلام کے علمی و ثقافتی پیغامات کے تحفظ و دوام کی تاکیدہے اور مسلمانوں کو جوتنبیہہ کی ہے اس کے ذریعہ انہیں آگاہ کیا ہے کہ کہیں پیغمبر اکرم ؐ کے بعد عہد جاہلیت کی طرف نہ پلٹ جائیں، جیسا کہ ارشاد ہے:

(وما محمد الا رسول قد خلت من قبله الرسل أفان مات او قتل انقلبتم علیٰ اعقابکم)

''اور محمد تو صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں کہ اگر وہ مر جائیں یا قتل ہو جائیں تو تم الٹے پیروں پلٹ جاؤ گے''۔

یہ اور سورئہ احزاب کی 33 ویںآیت(ولا تبرجن تبرج الجاهلیة الاولیٰ)'' اور وہ پہلی جاہلیت کا بناؤ سنگار نہیں کرینگی۔'' امام محمد باقر -کی تفسیر کے مطابق اس بات کو سمجھا رہی ہے کہ:(لیکون جاهلیة اخریٰ) عنقریب دوسری جاہلیت آنے والی ہے ۔

تاریخ اسلام میں جہل کی طرف پلٹنے کا ارشاد موجود ہے: یہاں تک کہ خود آنحضرت نے اس کے متعلق فرمایا ہے:

(بعثت بین جاهلیتین؛ لا خراهما شر من اولاهما)

میں دو جاہلیتوں کے درمیان مبعوث ہوا ہوں، دوسری جاہلیت پہلی سے بدتر ہے۔

پلٹنے کے اسباب

اہمترین مسئلہ، جاہلیت کی طرف پلٹنے کے اسباب کی شناخت ہے جس کو قرآن نے پیچھے کی طرف پلٹنے سے تعبیر کیا ہے۔ مجموعی طور پر پلٹنے کے اسباب کو دو حصوںمیں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ فردی اور اجتماعی۔

۲۴۴

الف: فردی اسباب

ہر وہ چیز جو کتاب ''علم و حکمت، قرآن و حدیث کی روشنی میں'' کے عنوان ''موانع علم و حکمت'' اور اسی کتاب میںعنوان'' آفات عقل''کے تحت ذکر ہو چکی ہے ، وہ معاشرہ کے افراد کے پہلی جاہلیت کی طرف پلٹنے کے اسباب میں شمار ہوتی ہے اور پیغمبر نے ان موانع سے مقابلہ کرنے کے لئے حد بندی کی تھی ، اور یہ عقلی آفات و موانع جس مقدار میں بھی کسی شخص میں موجود ہوںگے اسے اتنا ہی جاہلیت کی سرحد سے قریب تر کریں گے ، لیکن پلٹنے کے تمام فردی اسباب میں سے شراب خوری سے متعلق روایات کی طرف نہایت توجہ دی گئی ہے ، اور اس چیز کا سبب بعد کی روایات میں بیان ہوا ہے کہ شراب تمام برائیوں ، بدکرداریوں اور تمام خباثتوں کی کنجی ہے ، در حقیقت نشہ آور اشیاء اور عقل کو زائل کرنے والی چیزوںکی عادت ڈالنا انواع و اقسام کے موانع معرفت کی زمین کو ہموار کرتا ہے ،ا ور انسان کے لئے جاہلیت کے عقائد، اخلاق اور اعمال میں مبتلا ہونے کے باعث ہوتا ہے۔

ب: اجتماعی اسباب

جاہلیت کی طرف الٹے پاؤں پلٹنے کے اجتماعی اسباب و علل وہ آفات ہیں کہ جو اسلامی نظام کےلئے خطرہ بنے ہوئے ہیںاور ان میں نہایت واضح وہ اختلاف ہے کہ جسکے بارے میں پیغمبر فرماتے ہیں:

(ما اختلفت امة بعد نبیها الا ظهر اهل باطلها علٰی اهل حقها)

کسی نبی کی امت نے اس کے بعد اختلاف نہیں کیا مگر یہ کہ اہل باطل اہل حق پر کامیاب ہو گئے۔

اور جاہلیت کی طرف پلٹنے کے اسباب و عوامل میں سے سب سے زیادہ خطرناک گمراہ اماموںکی قیادت تھی جیسا کہ رسول خدا(ص) کا ارشاد گرامی ہے:

۲۴۵

(ان اخوف ما اخاف علی امتی الائمة المضلون)

سب سے زیادہ خوف جو مجھے اپنی امت کے بارے میں ہے وہ گمراہ کرنے والے پیشواؤں سے ہے۔

حدیث میں ہے کہ عمر بن خطاب نے کعب سے پوچھا:

انی اسئلک عن امر فلا تکتمنی،قال: لا والله لا اکتمک شیأ اعلمه ؛ قال : ما اخوف شیء تخافه علیٰ امة محمد ؟ قال: ائمة مضلین قال عمر: صدقت قد اسرّ الیّ ذالک و اعلمنیه رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم

میں تم سے ایک مسئلہ پوچھنا چاہتاہوں ، تم اسے چھپا نا نہیں ، کعب نے کہا: خدا کی قسم ، جو کچھ میں جانتا ہوں اسے آپ سے نہیں چھپاؤنگا، عمر نے کہا: امت پیغمبر کے سلسلے میں سب سے زیادہ کس چیز سے ڈرتے ہو؟ کعب نے کہا: گمراہ کرنے والے پیشواؤں سے ، عمر نے کہا: سچ کہتے ہو، رسول خدا(ص) نے مجھ سے مخفیانہ طور پر فرمایا تھا۔

گمراہ پیشواؤں سے اسلام کو عظیم خطرہ لاحق تھا اور یہ مسلمانوں کوعصر جاہلیت کی طرف پلٹانے میں اس قدر مؤثر تھے کہ رسول خدا نے مسلمانوں کے درمیان متفق علیہ اور معتبر حدیث میں فرمایا:

''من مات بغیر امام ، مات میتة جاهلیة''

جو امام کے بغیر مرا اسکی موت جاہلیت کی ہوگی، اس کے معنی یہ ہیں کہ ائمہ عدل و حق کا وجود عصر علم کے دوام یعنی اسلام حقیقی کی بقا کا ضامن ہے ، اور اس قیادت و رہبری کے نہ ہونے کی صورت میں اسلامی معاشرہ دو بارہ پہلی جاہلیت کی طرف پلٹ جائیگا۔

یہ تلخ حقیقت تاریخ اسلام میں رونما ہوئی جس کے سبب آج نہ فقط اسلامی معاشرے بلکہ پورا عالم علوم تجربی میں تعجب خیز تر قیوں کے باجود دوسری جاہلیت سے دو چار ہے ۔

۲۴۶

رسول خدا(ص) نے دنیا کے تمام انسانوں کو یہ خوشخبری دی کہ اس عہد کی بھی ایک انتہا ہے اور یہ اس وقت ہوگا، جب ان کی نسل کا چشم و چراغ ، مہدی آل ؐمحمد ظہور کریگا، اور جب وہ آئیگا تو اسکی ہدایت و رہبری کے سبب دنیا کی جاہلیت کا قصہ تمام ہوگا، بدعات و خرافات کا قلع قمع ہوگا، عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا، فساد و تباہی کا خاتمہ ہوگا، دنیا کے چپہ چپہ پر حقیقی علم ضوفشاں ہوگا، اس کتاب کی آٹھویں فصل کو ہم نے ان ہی بشارتوں سے مخصوص کیاہے ۔ دعا ہے کہ ایران میں حیات اسلام کی تجدید اس بشارت کا پیش خیمہ ہو۔

۲۴۷

آٹھویں فصل جاہلیت کا خاتمہ

1234۔ رسول خدا(ص): نے ائمہ ٪کے سلسلہ میںفرمایا: ان کا نواں قائم ہے کہ خدا جس کے وسیلہ سے زمین کو ظلمت و تاریکی کے بعد نور سے ، ظلم و جور کے بعد عدل و انصاف سے۔ جہل و نادانی کے بعد علم سے بھر دیگا۔

1235۔ امام علی (ع):نے پیشینگوئیوں اور فتنوں کے ذکر کے بعد فرمایا: ایسا ہی ہوگا، یہاں تک کہ زمانہ کی سختیوں اور لوگوں کی نادانیوں کے وقت خدا آخری زمانہ میں ایک ایسے شخص کو بھیجے گا کہ جس کی حمایت اپنے فرشتوںکے ذریعہ کریگا، اس کے یاورو انصار کو محفوظ رکھے گا، اپنی آیات سے اسکی مدد کریگا، اور اسے تمام اہل زمین پر کامیابی عطا کریگا تاکہ لوگ بادل خواستہ یا بادل نخواستہ دیندار ہو جائیں۔ اور وہ زمین کو انصاف و علم اور نورو برہان سے بھردیگا ، زمین اپنی تمام وسعتوں( عرض و طول) کے ساتھ اسکی فرمانبردار ہوگی، کوئی کافر نہ ہوگا مگر یہ کہ ایمان لے آئے کوئی بدکردار نہ ہوگا مگر یہ کہ صالح و نیک ہو جائے۔ درندے اسکی حکومت میں مہربان ہوں گے۔ زمین اپنی روئیدگی کو آشکار کریگی، آسمان اپنی بر کتیں نازل کریگا، خزانے اس کے لئے ظاہر ہوں گے ، اور وہ چالیس سال زمین و آسمان کے درمیان حکومت کریگا، خوشابحال وہ شخص جو اس کے زمانے کو دیکھے گا اور اس کے کلام کو سنے گا۔

۲۴۸

1236۔ امام علی (ع): نے اس خطبہ میں جس میں زمانہ کے حوادث اور پیشینگوئیوںکی طرف اشارہ کیا ہے فرمایا: ان لوگوں نے گمراہی کے راستوں پر چلنے اور ہدایت کے راستوںکو چھوڑ نے کے لئے داہنے بائیں راستے اختیار کر لئے ہیںمگر تم اس امر میں جلدی نہ کرو جو بہر حال ہونے والا ہے اور جس کا انتظام کیا جا رہا ہے اور اسے دور نہ سمجھو جو کل آنے والا ہے کہ کتنے ہی جلدی کے طلبگار جب مقصد کو پالیتے ہیں تو سوچتے ہیںکاش اسے حاصل نہ کرتے۔ آج کادن کل کے سویرے سے کس قدر قریب ہے ۔ لوگو! یہ ہر وعدہ کے ورود اور ہراس چیز کے ظہور کی قربت کا وقت ہے جسے تم نہیں ۔ پہچانتے ہو۔ لہذا جو شخص بھی ان حالات تک باقی رہ جائے اس کا فرض ہے کہ روشن چراغ کے سہارے قدم آگے بڑھائے اور صالحین کے نقش قدم پر چلے تاکہ ہر گرہ کو کھول سکے اور ہر غلامی سے آزادی حاصل کر سکے ، ہرگروہ کوبوقت ضرورت منتشر کر سکے اور ہر انتشار کو جمع کر سکے اور لوگوں سے یوں مخفی رہے کہ قیافہ شناس بھی اس کے نقش قدم کو تاحد نظر نہ پاسکیں۔ اس کے بعد ایک قوم پر اس طرح صیقل کی جائیگی کہ جس طرح لوہار تلوار کی دھار پر صیقل کرتا ہے ۔ ان لوگوںکی آنکھوں کو قرآن کے ذریعہ روشن کیا جائیگا، اور ان کے کانوں میں تفسیر کو مسلسل پہنچایا جائیگا اور انہیں صبح و شام حکمت کے جاموں سے سیراب کیا جائیگا!

1237۔ امام باقر(ع): جب ہمارا قائم ، قیام کریگا تو خدااپنے ہاتھ کو بندوںکے سروںپر رکھیگا جس کے سبب ان کی عقلیں اکٹھا ہو جائیں گی اور ان کی خرد کامل ہو جائے گی۔

1238۔ فضیل بن یسار: کا بیان ہے کہ میں نے امام صادق(ع) کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جب ہمارا قائم ، قیام کریگا اس کو لوگوں کی جہالت کا سامنا اس سے زیادہ کرنا ہوگا کہ جتنا رسول کو جاہلیت کے جاہلوں کا سامنا کرناپڑا تھا۔ میںنے کہا: وہ کس طرح؟ فرمایاؑ: بیشک رسول خدا(ص) جب لوگوںکے درمیان تشریف لائے تھے۔

۲۴۹

اس وقت وہ لوگ پتھروں، چٹانوں اور تراشی ہوئی لکڑیوں کی پرستش کرتے تھے، لیکن جب ہمارا قائم قیام کریگا اور ان کے پاس آئیگا تو وہ سب کے سب کتاب خدا کی تاویل کریں گے اور اسی کے ذریعہ ان پر احتجاج کریں گے ، پھر فرمایا: لیکن خدا کی قسم، وہ اپنے عدل و انصاف کو ان کے گھروں میں اس طرح داخل کریگا کہ جس طرح ان کے گھروں میں سردی و گرمی داخل ہوتی ہے ۔

1239۔ امام صادق(ع): علم ستائیس (27) حروف کے مجموعہ کا نام ہے ۔ وہ تمام علوم جو انبیاء لیکر آئے وہ فقط دو حرف تھے اور لوگ اب تک ان دو حرف کے سوا اور کچھ نہیں جانتے ، لیکن جب قائم قیام کریگا تو دوسرے پچیس حروف کو ظاہر کریگا اور لوگوں کے درمیان ان کی اشاعت کریگا، اور ان دو حروف کو بھی انہیںکے ساتھ ضمیمہ کریگا یہاں تک کہ وہ علم کو ستائیس حروف پر مشتمل کر دیگا۔

1240۔ امام صادق(ع) : نے جب کوفہ کا ذکر کیا تو فرمایا: عنقریب کو فہ مومنوں سے خالی ہو جائیگا اور علم وہاں سے ایسے نکل جائیگا جیسے سوراخ سے سانپ نکل جاتا ہے ، پھراس شہر میںظاہر ہوگا جسے قم کہا جاتا ہے ، جو علم و فضیلت کا سر چشمہ ہوگا، روئے زمین پر دین کے اعتبار سے کوئی ناتواں و کمزور باقی نہ ہوگا حتی کہ حجلہ نشین عورتیں بھی ، اورا یسا اس وقت ہوگا جب ہمارے قائم کا ظہور نزدیک ہوگا پھر خدا قم اور اہل قم کو حجت کا جانشین قرار دیگا، اگر ایسا نہ ہوگا تو زمین اپنے اہل کے ساتھ دھنس جائیگی۔

اور زمین پر کوئی حجت باقی نہ رہیگی، پھر علم شہر قم سے مشرق و مغرب کے تمام شہروں میںپھیلیگا تاکہ خلق پر خدا کی حجت تمام ہو جائے اور زمین پر کوئی ایسا باقی نہ رہیگا کہ جس تک دین اور علم نہ پہنچا ہو، اس کے بعد قائم ؑ ظاہر ہوگا اور بندوں پر خدا کی ناراضگی و غضب کاوسیلہ ہوگا، اس لئے کہ خدا اپنے بندوں سے انتقام نہیںلیگا مگر یہ کہ وہ لوگ حجت کے منکر ہو جائیں۔

۲۵۰

1241۔ سید ابن طاؤوس: کا بیان ہیکہ زیارت امام زمانہ - میں ہے: خدایا! محمد اور اہلبیت محمد(ص) پر درود بھیج، اور ہمیں ہمارے سردار، ہمارے آقا، ہمارے امام ، ہمارے مولا صاحب الزمان کا دیدار کرادے، وہ ہی زمانہ کے لوگوں کے لئے پناہگاہ اور ہمارے زمانہ کے افراد کو نجات دینے والے ہیں، ان کی گفتار آشکار اور رہنمائی روشن ہے، وہ ضلالت و گمراہی سے ہدایت دینے والے اور جہالت ونادانی سے نجات دینے والے ہیں۔

خدایا!میں اپنی جہالت و نادانی کے سبب تجھ سے معذرت چاتا ہوں۔

بار الٰہا! میں اپنی نادانی کے باعث تیری پناہ چاہتا ہوں۔

پروردگارا!! میری لغزش ، خطا، میری نادانی اور کاموں میں مجھے میرے اسراف سے بخش دے اور ان چیزوں کو معاف کر دے کہ جن کو تو مجھ سے بہتر جانتا ہے۔

خدایا! محمد و آل محمدپردرود بھیج اور ان کے قائم کے ظہور میں تعجیل فرما، اور ان کے سبب زمین کو اسکی ظلمت و تاریکی کے بعد نور سے اور جہالت کے بعد علم سے بھر دے ، اور ہمیں عقلِ کامل ، عزم محکم، قلب پاکیزہ، علم کثیر اور اچھے ادب کی توفیق عطا فرما اور ان سب کو ہمارے لئے مفید قرار دے اور ہمارے لئے مضر قرار نہ دے۔

بار الٰہا! محمد اور ان کی آل پاک پر درود بھیج ، اور اے برائیوں کو نیکیوںمیں تبدیل کرنے والے اپنے فضل و رحمت کے سبب ہماری اس کوشش کو قبول فرما، اے ارحم الراحمین۔

۲۵۱

فہرست

مقدمہ 4

پیش لفظ 7

عقل کے لغوی معنی 8

عقل اسلامی روایات میں 9

الف: عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ 9

1۔ تمام معارفِ انسانی کا سرچشمہ 9

2۔ فکر کا سرچشمہ 10

3۔الہام کا سرچشمہ 10

نکتہ 11

ب: عقل کا استعمال اورنتیجہ ادراکات 12

حقائق کی شناخت 12

عقل کے مطابق عمل 12

عقل کی حیات 13

عقل نظری اور عقل عملی 14

عقل فطری اور عقل تجربی 16

عاقل و عالم کا فرق 18

عقل کے بغیر علم کا خطرہ 19

دوسری فصل عقل کی قیمت 21

خدا کا تحفہ 21

بہترین عطیہ 22

۲۵۲

انسان کی اصل 24

انسان کی قیمت 25

اسلام کا پہلا پایہ 26

انسان کا دوست 26

مومن کا دوست اور رہنما 27

مومن کا پشت پناہ 27

سب سے بڑی بے نیازی 29

علم محتاجِ عقل ہے 30

نادر اقوال 31

تیسری فصل تعقل 33

تعقل کی تاکید 33

قرآن 33

حدیث 34

ہمیشہ غور و فکر سے کام لو 40

قرآن 40

حدیث 41

عقل کا حجت ہونا 44

اعمال کے حساب میں عقل کا دخل 45

اعمال کی جزا میں عقل کااثر 45

چوتھی فصل عقل کے رشد کے اسباب 48

عقل کی تقویت کے عوامل 48

۲۵۳

الف۔ وحی 48

حدیث 49

ب۔ علم 50

قرآن 50

حدیث 50

ج۔ ادب 51

د۔ تجربہ 52

ھ۔ زمین میں سیر 52

قرآن 52

حدیث 53

و۔مشورہ 53

ز۔ تقویٰ 53

ح۔ جہاد بالنفس 54

ی۔ دنیا سے بے رغبتی 55

ک: حق کا اتباع 55

ل۔ حکماء کی ہمنشینی 56

م۔ جاہلوں پر رحم 56

ن۔ خدا سے مدد چاہنا 56

مقویات دماغ 57

الف: تیل 57

ب: کدو 57

۲۵۴

ج:بہی 58

د:کرفس(خراسانی اجوائن) 58

ھ: گوشت 58

و: دودھ 59

ز: سرکہ 59

ح: سداب( کالا دانہ) 59

ط: شہد 60

ی: انار کو اس کے باریک چھلکوں کے ساتھ کھانا 60

ک: پانی 60

ل: حجامت(فصد کھلوانا) 60

م: خرفہ 61

ن: لیمو 61

س: باقلا 61

پانچویں فصل عقل کی نشانیاں 62

عقل و جہل کے سپاہی 62

عقل کے آثار 65

الف۔ علم و حکمت 65

قرآن 65

حدیث 65

ب۔ معرفت خدا 68

ج۔دین 70

۲۵۵

د۔ کمال دین 70

ھ۔ مکارم اخلاق 71

و۔ نیک اعمال 75

قرآن 75

حدیث 76

ز۔ ہر شی کو اسکی جگہ پر رکھنا 78

فائدہ 78

ح۔ بہتر کا انتخاب 78

ط۔ عمر کو غنیمت سمجھنا 79

ی۔ صحیح بات 79

ک۔ تجربات کا تحفظ 80

ل۔ حسن تدبیر 80

م۔صحیح گمان 80

ن ۔دنیا سے بے رغبتی 81

س۔ فضول باتوں کا ترک کرنا 81

ع۔آخرت کا زاد راہ 82

ف۔نجات 83

ص۔ جنت پر اختتام 84

ق۔ ہر کام میں بھلائی 85

ر۔ دنیا و آخرت کی بھلائی 85

وہ اشیاء جن سے عقل آزمائی جاتی ہے 87

۲۵۶

الف: عمل 87

ب: کلام 87

ج: خاموشی 88

د: رائے 89

ھ: قاصد 89

و: لکھنا 89

ز: تصدیق اور انکار 90

ح: دوست 90

عقل کا معیار 90

عاقلوںکے صفات 92

ارباب عقل کے صفات 101

قرآن 101

حدیث 101

صاحبان عقل کے صفات 103

قرآن 103

حدیث 103

کامل عقل کے علامات 105

عقلمند ترین انسان 108

چھٹی فصل عقل کی آفتیں 111

خواہشاتِ نفسانی 111

قرآن 111

۲۵۷

حدیث 111

گناہ 114

دل پر مہرلگنا 114

قرآن 114

حدیث 115

آرزو 116

تکبر 116

فریب 117

غیظ و غضب 117

حرص و طمع 118

خود پسندی 118

عقل سے بے نیاز ہونا 119

حب دنیا 119

مے کشی 121

پانچ چیزوں کی مستی 121

زیادہ لہوو لعب 122

بیکاری 122

زیادہ طلبی 123

نادان کی ہمنشینی 124

حد سے تجاوز کرنا 124

بیوقوفوں سے مجادلہ 124

عاقل کی بات پر کان نہ دھرنا 125

جنگلی جانور اور گائے کا گوشت 125

ساتویں فصل عاقل کے فرائض 126

عاقل کے واجبات 126

قرآن 126

حدیث 126

عاقل کے لئے حرام اشیائ 128

قرآن 128

حدیث 128

عاقل کے لئے مناسب اشیائ 130

عاقل کے لئے نامناسب اشیائ 135

دوسرا حصہ 137

جہل 137

پہلی فصل مفہوم جہل 138

مفہوم جہل کی تحقیق 140

مفہوم جہل 142

معانی کی وضاحت 142

1۔ مطلق جہل 142

2۔ مفید معارف سے جہالت 143

3۔ انسان کی ضروری معارف سے جہالت 143

4۔ عقل کے مقابل میں ایک قوت 144

1۔خطرناک ترین جہل 145

2۔ عقل و جہل کا تقابل 146

دوسری فصل جہل سے بچو 147

جہل کی مذمت 147

قرآن 147

الف: عظیم ترین مصائب 147

حدیث 147

ب: بدترین بیماری 148

ج: شدید ترین فقر 148

د: خطرناک ترین دشمن 148

ھ: رسوا ترین بے حیائی 149

جاہل کی مذمت 149

قرآن 149

حدیث 149

نادر اقوال 152

تیسری فصل جاہلوں کے اقسام 153

اقسام جہل کی وضاحت 153

1۔ علم 154

2۔ غفلت 154

3۔ جہل بسیط 154

4۔ جہل مرکب 155

لا علاج بیماری 155

چوتھی فصل جہل کے علامات 158

آثار جہل 158

الف : کفر 158

قرآن مجید 158

حدیث 158

ب: برائیاں 159

ج: علم اور عالم سے دشمنی 160

د: روح کی موت 160

ھ: برے اخلاق 161

و: اختلاف و جدائی 162

قرآن 162

حدیث 162

ز: لغزش 163

ح: ذلت 163

ط: افراط و تفریط 164

ی: دنیا و آخرت کی برائی 164

ک: نادر اقوال 164

جاہلوں کے صفات 166

حدیث 166

جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے 171

الف: خودرائی 171

ب: خود کو اچھا سمجھنا 172

ج: اپنے عیوب سے بے خبری 172

د: اپنی قدر و منزلت سے ناواقفیت 172

ھ: علم و عمل میں منافات 173

و:خود را فضیحت دیگراں را نصیحت 173

ز: گناہوںکا ارتکاب 173

ح: ہر معلوم چیز کا اظہار 174

ط: ہر سنی چیز کا انکار 174

ی: خدا کو دھوکا دینا 174

ک: بے سبب ہنسنا 174

جاہل ترین انسان 175

پانچویں فصل نادانوں کے فرائض 177

جاہل پر واجب چیزیں 177

الف: سیکھنا 177

ب :توبہ 179

ج: تقویٰ 179

د: شبہ کے وقت احتیاط 179

ھ: جہالت کا اعتراف 181

و: جہالت پر معذرت 182

ز: جہالت سے خدا کی پناہ چاہنا 182

ح: جہالت سے توبہ 183

جاہل کے لئے حرام چیزیں 183

الف: علم کے بغیر لب کشائی 183

قرآن 183

حدیث 184

ب: نامعلوم چیز کا انکار 185

قرآن 185

حدیث 185

ممدوح جہالت 187

جاہل سے مناسب برتاؤ 190

الف: گفتگو کے وقت سلام کرنا 190

قرآن 190

حدیث 191

ب: جھگڑے کے وقت خاموشی 192

ج: بردباری 192

د: تعلیم 194

ھ: عدم اعتماد 194

و: نافرمانی 194

ز: اعراض 195

قرآن 195

حدیث 195

چھٹی فصل پہلی جاہلیت 197

مفہوم جاہلیت 197

قرآن 197

( اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو) 197

حدیث 197

جاہلیت کے متعلق کچھ باتیں 204

دین جاہلیت 208

الف : غیر اللہ کی عبادت 208

قرآن 208

ب: خدا کے لئے بیٹا قرار دینا 208

حدیث 209

ج: جنات کو خداکا شریک قرار دینا 209

د: خدا اور جنات کا رشتہ 210

ھ: بعض چوپایوں کو حرام قرار دینا 210

وضاحت 211

و:خدا اور اصنام کے درمیان کھیتی اور چوپایوں کی تقسیم 213

قرآن 213

وضاحت 214

ز: عریاں طواف 215

ح: قیامت کا انکار 216

قرآن 216

جاہلیت کے عقائد پر ایک نظر 217

دور جاہلیت کے اوصاف 220

قرآن 220

حدیث 220

جاہلیت کے جرائم 223

الف :بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا 223

قرآن 223

حدیث 224

ب: اولاد کشی 224

قرآن 224

ج: بد کرداری 225

حدیث 226

د: لڑکیوں کو بد کاری پر مجبور کرنا 226

قرآن 226

حدیث 227

ھ: شراب، جوا، بت اور پانسہ 227

قرآن 227

حدیث 227

و: خون مالی 228

ز: بد شگونی 228

ح: جنات کی پناہ ڈھونڈنا 229

قرآن 229

حدیث 229

ط:جنات کے لئے قربانی کرنا 229

ی: گھونگا پہننا 230

ک: میت پر عورتوںکا بین کرنا 230

ل: غیر خدا کی قسم کھانا 231

اسلام کا جاہلیت کے رواج کو مٹا نا 231

اچھی سنن کی تائید 235

ساتویں فصل دوسری جاہلیت 239

پیچھے کی طرف پلٹنا 239

قرآن 239

حدیث 239

جاہلیت کی طرف پلٹنے کے اسباب 240

الف: امام کی عدم معرفت 240

ب: نشہ آور اشیاء کا استعمال 241

جاہلیت کی طرف پلٹنے کے اسباب کی تحقیق 242

قرآن کی تنبیہہ 244

پلٹنے کے اسباب 244

الف: فردی اسباب 245

ب: اجتماعی اسباب 245

آٹھویں فصل جاہلیت کا خاتمہ 248

۲۵۸