‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 254
مشاہدے: 69334
ڈاؤنلوڈ: 3312


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69334 / ڈاؤنلوڈ: 3312
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد 4

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : آموزش دین (جلد چهارم)

تالیف : آیة اللہ ابراہیم امینی

ترجمه : شیخ الجامعہ مولانا اختر عباس صاحب

نظرثانی : حجة الاسلام مولانا نثار احمد صاحب

ناشر : انصاریان پبلیکیشنز قم امقدسه ایران

تعداد : سه ہزار

کتابت : جعفرخان سلطانپور

۳

عرض ناشر

کتاب تعلیم دین سادہ زبان میں حوزہ علمیہ قم کی ایک بلند پایہ علمی شخصیت حضرت آیة اللہ ابراہیم امینی کی گرامی مایہ تالیفات میں سے ایک سلسلہ ''آموزش دین در زبان سادہ'' کا اردو ترجمہ ہے_

اس کتاب کو خصوصیت کے ساتھ بچوں اور نوجوانوں کے لئے تحریر کیا گیا ہے_ لیکن اس کے مطالب اعلی علمی پیمانہ کے حامل ہیں اس بناپر اعلی تعلیم یافتہ اور پختہ عمر کے افراد بھی اسی سے استفادہ کرسکتے ہیں_

بچوں اور جوانوں کی مختلف ذہنی سطحوں کے پیش نظر اس سلسلہ کتب کو چارجلدوں میں تیار کیا گیا ہے_ کتاب خدا اس سلسلہ کتب کی چوتھی جلد کے ایک حصّہ پر مشتمل ہے جسے کتاب کی ضخامت کے پیش نظر علیحدہ شائع کیا جارہا ہے_

اس سلسلہ کتب کی امتیازی خصوصیات درج ذیل ہے_

___ کتاب کے مضامین گوکہ اعلی مطالب پر مشتمل ہیں لیکن انھیں دل نشین پیرائے اور سادہ زبان میں پیش کیا گیا ہے تا کہ یہ بچّوں کے لئے قابل

۴

فہم اور دلچسپ ہوں_

___ اصول عقائد کے بیان کے وقت فلسفیانہ موشگافیوں سے پرہیز کرتے ہوئے اتنا سادہ استدلالی طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ نوعمر طلباء اسے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں_

___ مطالب و معانی کے بیان کے وقت یہ کوشش کی گئی ہے کہ پڑھنے والوں کی فطرت خداجوئی بیدار کی جائے تا کہ وہ از خود مطالب و مفاہیم سے آگاہ ہوکر انھیں دل کی گہرائیوں سے قبول کریں اور ان کا ایمان استوار پائیدار ہوجائے_

___ ہماری درخواست پر حضرت حجة الاسلام و المسلمین شیخ الجامعہ الحاج مولانا اختر عباس صاحب قبلہ دام ظلہ نے ان چاروں کتابوں کا ترجمہ کیا_

ان کتابوں کو پہلا ایڈیشن پاکستان میں شائع ہوا تھا اور اب اصل متن مؤلف محترم کی نظر ثانی کے بعد اور اردو ترجمہ حجة الاسلام جناب مولانا نثار احمد ہندی کی نظر ثانی اور بازنویسی کے بعد دوبارہ شائع کیا جارہا ہے اپنی اس ناچیز سعی کو حضرت بقیة اللہ الاعظم امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت میں ہدیہ کرتا ہوں

___ ہماری دلی آرزو ہے کہ قارئین گرامی کتاب سے متعلق اپنی آراء اور قیمتی مشوروں سے مطلع فرمائیں

والسلام ناشر محمد تقی انصاریان

۵

باب اوّل

خالق کائنات ''خدا'' کے بارے میں

۶

کائنات میں نظم اور ربط

ایک کتاب سامنے رکھئے وہ ہزاروں حروف اور الفاظ اور جملوں سے ملکر بنی ہوگی، ان حروف اور الفاظ کا آپس میں کیا تعلق ہوگا؟ کیا انھیں کسی تعلق کے بغیر ایک دوسرے کے نزدیک رکھا گیا ہے؟ یا کسی خاص ربط و تعلق سے انہیں ایک دوسرے سے جوڑا گیا ہے ___؟

جب آپ اس کتاب کو پڑھ چکیں گے تو تمام حروف اور الفاظ اور مختلف جملے اور کتاب کے مختلف حصّے آپس میں مربوط اور متناسب پائیں گے اور یہ سب ایک غرض کو پورا کر رہے ہوں گے اور یہ تمام حروف و کلمات ایک مخصوص ترتیب کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہوں گے اور ہر ایک اپنی جگہ ایک خاص مقام رکھتا ہوگا_

اس طرح آپ کو معلوم ہوگا کہ ان حروف اور کلمات کا لکھنے والا عاقل اور با شعور انسان ہے اور اس کام کے انجام دینے سے پہلے وہ اس سے آگاہ تھا

۷

اور ان حروف اور کلمات کو اس طرح منظم کرنے میں اس کا ایک خاص مقصد تھا اور وہ اس کام کے انجام دینے کی قدرت اور مہارت رکھتا تھا_

کیا آپ کے ذہن میں یہ خیال آسکتا ہے کہ یہ کتاب خودبخود ایک حادثہ کے طور پر بغیر کسی مقصد کے وجود میں آگئی ہوگی؟

کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایک بے شعور ''موجود'' جیسے ہوا'' نے قلم کو کاغذ پر چلایا ہوگا اور اس قسم کی کتاب لکھ ڈالی ہوگی؟

نہیں__ ہرگز آپ کے ذہن میں یہ خیال نہیں آئے گا کہ یہ کتاب خودبخود اور بغیر کسی مقصد کے وجود میں آگئی ہوگی_ اور یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ یہ کتاب کسی ایسے ذریعہ سے جو علم اور شعور نہ رکھتا ہو ایک حادثہ کے طور پر لکھی گئی ہوگی_ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہر موجود کسی مناسب علّت اور سبب سے وجود میں آتا ہے اور اگر کوئی اس کے برعکس کہے بھی تو آپ اس پر ہنسیں گے_ اور اس کی اس بات کو غیر عاقلانہ کہیں گے_

پس ایک کاب کے کلمات اور حروف میں نظم و ضبط اور ربط و تعلق سے دو چیزیں سمجھ میں آتی ہیں:

ایک یہ کہ اس کا کوئی مؤلف او رلکھنے والا عقل و علم اور مہارت و قدرت رکھتا ہوگا اور اس کام کے ذریعہ اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوگا_

اس طرح ہر منظم اور بامقصد چیز اپنے بنانے والے کی عقل، تدبیر اور قدرت کو ظاہر کرے گی_ نیز اس چیز میں پایا جانے والا نظم اور بناوت کی عمدگی اس کے بنانے والے کی قدرت اور اس علم کے مقام کا اظہار ہوگی_

۸

یہ کائنات بھی ایک عظیم کتاب کی مانند ہے جو مختلف کلمات اور حروف اور جملوں پر مشتمل ہے اور اس جہان کا ہر موجود اور اس میں پیش آنے والا ہر حادثہ اس کتاب کا ایک حرف یا کلمہ یا جملہ ہے_ اس جہان کے موجو دات اور حوادث، منتشر، بے ربط اور بے نظم ہیں بلکہ ایک کتاب کے حروف اور کلمات کی طرح منظم اور ایک دوسرے سے متصل ہیں_

اس عالم کی ایک بڑی کتاب انسانی بدن کی ساخت کو دیکھئے جو اس کائنات کی کتاب کا ایک کلمہ ہے_ اس میں سینکڑوں نازک نظاموں کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے_ یہ تمام باعظمت نظام ایک چیز کو تشکیل دے رہے ہیں کہ جس کے تمام اجزاء آپس میں مربوط ہیں اور ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور دوسرے کی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں_ انسانی بدن کے مختلف اجزاء اور نظام ایک عظیم کارخانہ کی مانند ہیں اور سب ایک دوسرے سے وابستہ ہیں_ انسانی بدن کے تمام اعضاء پورے نظم و ضبط سے کام کرتے ہیں تا کہ انسان اپنی زندگی کو جاری رکھ سکے_

انسان کا بدن تنہا اپنی زندگی باقی نہیں رکھ سکتا بلکہ وہ دوسرے موجودات جیسے پانی، ہوا اور مختلف غذاؤں، درخت، نباتات، حیوانات اور زمین کے فطری سرچشموں کا محتاج اور ضرورت مند ہے_ ان کے بغیر زندگی نہیں بسر کرسکتا اور پھر یہ تمام چیزیں سورج کی روشنی، دن، رات کی منظم حرکت اور گرمی و سردی کے موسم سے ربط رکھتی ہیں اس طرح یہ ساری چیزیں ایک ایسی حقیقی وحدت کو تشکیل دیتی ہیں کہ گویا ایک کامل نظم اور ضبط انکے درمیان کار فرما ہے_

کائنات کی اس عظیم کتاب کو غور سے دیکھئے اور اس کے حسین و جمیل کلمات

۹

پر نگاہ ڈالئے اس کے ہر ایک کلمہ میں گہرا نظم و ضبط پائیں گے_

کیا دیکھیں گے____؟

آپ اچھی طرج جان لیں گے کہ خلقت کا اتنا بڑا مجموعہ بغیر کسی غرض اور مقصد کے اتفاقی طور پر وجود میں نہیں آیا ہے_ بے شعور مادہ اور طبیعت اس قسم کے گہرے اور بامقصد نظام کو وجود میں نہیں لاسکتا_ ایسی ضخیم اور پر معنی کتاب مادہ کی تالیف نہیں ہوسکتی____؟

اس جہان اور اس کے نظم و ضبط کو جان لینے کے بعد اس کا حقیقی سبب آپ کی سمجھ میں آجائے گا اور آپ جان لیں گے کہ اس جہان کا کوئی پیدا کرنے والا ہے جو عالم اور قادر ہے_ جس نے اپنے علم اور تدبیر سے اس جہان کو کسی خاص غرض اور مقصد کے لئے خلق کیا ہے اور اسے چلارہا ہے_ لہذا آپ جس طرف نگاہ ڈالیں گے اور جس مخلوق کا مطالعہ کریں گے خالق جہان کے علم اور قدرت کے آثار آپ پر ظاہر ہوں گے_

خلقت عالم کا مشاہدہ اور مطالعہ خداشناسی کے طریقوں میں سے ایک بہترین طریقہ ہے جسے برہان نظم کا نام دیا گیا ہے_ قرآن مجید کی بہت سی آیات میں تاکید کی گئی ہے کہ زمین، آسمان، سورج اور ستارے، حیوانات، نباتات، دن اور رات کی منظم گردش اور انسان کے وجود میں پائے جانے والے عجائبات مختلف شکلیں اور رنگ اور مختلف زبانوں کے وجود میں آنے کے متعلق غور و فکر کرو تا کہ خالق جہان کی معرفت حاصل کرسکو_ اور اس کی عظمت و قدرت کو معلوم کرسکو_

( و من ایته خَلقُ السَّموات وَ الَارض وَ اختلَافُ اَلسنَتكُم وَ اَلوَانكُمُ

۱۰

انَّ فی ذلكَ لَای ت: للعلمینَ ) _

''سورہ روم ۳۰ آیت ۲۲''

اللہ تعالی کے علم اور قدرت کی نشانیوں

میں سے زمین اور آسمان کی خلقت اور تمہاری مختلف زبانوں اور مشکلوں کاہونا ہے اور یہ سوچنے والوں کے لئے بہت زیادہ نشانیاں ہیں''

سوچیے اور جواب دیجئے

۱_ ایک کتاب کے حروف اور الفاظ کے آپس میں ربط کو دیکھ آپ کیا سمجھتے ہیں:

۲_ اس سبق میں کائنات کو کس چیز سے تشبیہ دی گئی ہے؟ اور تشبیہ دینے کا کیا مقصد ہے؟

۳_ خلقت جہان میں نظم و ضبط اور ارتباط کی کوئی مثال دیجئے

۴_ اس کائنات میں پائے جانے و الے نظم و ضبط اور ارتباط پر غور کرنے سے ہم کیا سمجھتے ہیں؟ اور خالق جہان کی کون سی صفت کو اس سے معلوم کرسکتے ہو؟

۵_ برہان نظم کسے کہا جانا ہے؟ اس دلیل کا خلاصہ کیا ہے

۶_ قرآن مجید کی آیات میں خالق کائنات کے پہچاننے کے لئے

۱۱

کن چیزوں میں غور کرنے کے لئے کہا گیا ہے؟

۷_ برہان نظم کی کوئی مثال آپ پہلے پڑھ چکے ہیں؟ اگر ہاں تو اسے بیان کیجئے؟

۱۲

کائنات پر ایک نگاہ

دیہات میں صبح کی لطیف اور فرحت بخش ہوا چل رہی ہے_ اس زندہ دل بوڑھے کو دیکھئے کہ صبح کی دودھیا روشنی میں اوپر نیچے ہو رہا ہے، کس ذوق و شوق اور چابکدستی سے گندم کی کٹائی کر رہا ہے_

اس کی گنگنانے کی لے کو سینے یہ دن اور رات، چاند کی روشنی یا اللہ اس کے بیٹھے بھی اس کی مدد کو پہنچ چکے ہیں_ ان میں سے کچھ باپ کی مدد کر رہے ہیں اور ایک جلانے کے لئے خشک لکڑیاں اکٹھی کر رہا ہے_ شاید کہ باپ اور بھائی بہنوں کے لئے چائے بنانا چاہتا ہے تا کہ سب مل کر ناشتہ کریں_

کیا آپ ان کے مہمان بننا پسند کریں گے؟ ظاہر ہے کہ یہ لوگ مہربان اور مہمان نواز ہیں اور آپ کی اچھی طرح خاطر مدارات کریں گے_

۱۳

اس بچے کے نزدیک بیٹھیئےتھوڑی دیر صبر کیجئے اور دیکھئے کہ کس طرح سورج ان پہاڑوں کے پیچھے سے آہستہ آہستہ طلوع ہوتا ہے اور کس خوبصورتی سے کھیتوں اور کھلیانوں پر نور بکھیرتا ہے_ سچ مچ سورج طلوع ہر کر پہاڑوں اور میدانوں کو کیسی خوبصورتی اور پاکیزگی بخشتا ہے_

غور کیجئے کہ اگر سورج طلوع نہ ہوتا اور ہمیشہ رات اور تاریکی ہوتی تو ہم کیا کرتے____؟ کبھی سوچا ہے کہ سورج یہ ساری روشنی اور توانائی کسطرح فراہم کرتا ہے____؟

کیا آپ کو سورج کا حجم معلوم ہے____؟

سورج کا حجم زمین سے دس لاکھ گنا زیادہ ہے_ یعنی سورج اگر ایک خالی کرّہ ہو تو ہماری زمین کے برابر دس لاکھ زمینیں اس کے اندر سماجائیں_ اس بڑے آتشی کرّہ کا درجہ حرارت ۶۰۰۰ ہے_

کیا آپ جانتے ہیں کہ سورج اتنی شدید گرمی اور اتنے زیادہ درجہ حرارت کے باوجود کیوں زمین اور اس پر موجود چیزوں کو جلا نہیں ڈالتا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ سورج، زمین سے ایک مناسب اور مقرر فاصلہ (ڈیڑھ کروڑ کلومیٹر) پر ہے_ اور اس کی روشنی اور توانائی صرف ضرورت کے مطابق کرہ زمین پر پہنچتی ہے_

کبھی آپ نے سوچا کہ سورج اور زمین کا درمیانی فاصلہ اگر اس مقدار میں نہ ہوتا تو کیا ہوتا____؟

اگر سورج اور زمین کا فاصلہ موجودہ فاصلہ سے کم ہوتا مثلاً اگر نصف ہوتا تو کیا ہوتا____؟

۱۴

ہاں زمین پر کوئی جاندار باقی نہ رہتا اور سورج کی تمازت تمام بناتات حیوانات اور انسانوں کو جلا ڈالتی_

اور اگر سورج اور زمین کا فاصلہ موجودہ فاصلہ سے زیادہ ہوتا مثلاً موجودہ فاصلے سے دوگنا ہوتا تو کیا ہوتا____؟

اس صورت میں روشنی اور حرارت ضرورت کے مطابق زمین پر نہ پہنچتی اور تمام چیزیں سرد اور مردہ ہوجاتیں_ تمام پانی برف ہوجاتا، کہیں زندگی کا نام و نشان نہ ملتا_

واضح رہے کہ زمین اور سورج کا یہ فاصلہ وسیع علم و آگاہی او رگہرے حساب و کتاب کے ساتھ معین کیا گیا ہے_

گندم کی خوشنما بالیاں، سورج کی روشنی اور حرارت سے ہی اتنی بڑی ہوئی ہیں_ سورج ہی کی حرارت کے سبب یہ تمام بناتات اور درخت نشو و نما پاکر ہمارے لئے پھل اور دوسری طرح طرح کی اجناس پیدا کرتے ہیں_ مختلف غذائیں جنہیں ہم استعمال کرتے ہیں سورج کی توانائی ہی سے بالیدگی حاصل کرتی ہیں، در حقیقت یہ سورج ہی کی توانائی (انرجی) ہے کہ جو نباتات اور دیگر تمام غذاؤں میں ذخیرہ ہوتی ہے اور ہم اس سے طاقت و قوت حاصل کرتے ہیں_

حیوانات نباتات کی ذخیرہ شدہ توانائی سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہم حیوانات کے ذریعہ بھی اس توانائی سے فیض یاب ہوتے ہیں_

مثلاً حیوان گھاس چرتے ہیں اور ہمیں دودھ دیتے ہیں اور ہم گوشت اور دودھ سے بنی ہوئی دوسری غذاؤں سے استفادہ کرتے ہیں_ مختصر یہ کہ سورج توانائی کا منبع ہے_

۱۵

یہ سورج ہی کی توانائی ہے جو اس لکڑی میں موجود ہے اور اب یہ ان محنت کش باپ بیٹوں کے مہمانوں کے لئے چائے کا پانی ابال رہی ہے_

اے ان باپ بیٹوں کے معزز مہمانو آپ خورشید کی پر شکوہ اور حسین صورت سے اور اس کے اور زمین کے درمیان فاصلہ میں پائے جانے والے گہرے حساب و کتاب سے اور نباتات و حیوانات اور انسانوں کے اس کی روشنی اور توانائی سے فائدہ اٹھانے سے کیا سمجھتے ہیں____؟

آپ کائنات کی مختلف اشیاء کے درمیان پائے جانے والے حیرت انگیز ارتباط اور ہم آہنگی سے کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں؟ اور کیا یہ کائنات ایک غیر منظم اور بے ربط اشیاء کا مجموعہ ہے یا ایک مکمل طور پر ہم آہنگ اور مربوط اشیاء کا مجموعہ ہے____؟

یقینا آپ جواب دیں گے کہ:

ہم کائنات کو ایک بہت بڑے اور مکمل طور پر ہم آہنگ اشیاء کے مجموعہ کے طور پر دیکھتے ہیں او رہم خود بھی اس کا ایک حصہ ہیں_

اس عظیم، ہم آہنگ اور بڑے مجموعہ کو دیکھ کر آپ کے دل میں کیا خیال آتا ہے___؟

یہ نظم اور حساب جو اس عظیم جہان کے تمام اجزاء میں پایا جاتا ہے کس چیز کسی نشاندہی کرتا ہے___؟

کیا اس سوال کا یہ غیر عاقلانہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ اس عظیم کائنات کا خالق کوئی نادان اور جاہل و ناتواں موجود ہے___؟

ہمارا بیدار ضمیر اور عقل سلیم یہ جواب کبھی پسند نہیں کرے گی بلکہ کہے گی

۱۶

کہ یہ عظیم نظم و ضبط اور اشیاء عالم کے درمیان ہم آہنگی اس کے بنانے والے کی عظمت اور قدرت اور علم کی علامت ہے کہ جن کی وجہ سے اس نے موجودات عالم کو اس طرح بنایا ہے او رخالق ہر ایک مخلوق کی ضروریات سے اپنے علم اور بصیرت کی بنا پر پہلے سے آگاہ تھا اس لئے اس نے کائنات کی ہر چیز کی ضروریات کو پورا کیا ہے اور ہر ایک کے لئے ایک مقصد اور اس تک پہنچنے کا راستہ معین کیا ہے_

وہ خالق عالم اور قادر کون ہے___؟

وہ عالم توانا اور قادر خدا ہے کہ جس نے یہ تمام نعمتیں ہمارے لئے پیدا کی ہیں اور ہمارے اختیار میں دے دی ہیں_ سورج اور چاند اور زمین کو ہمارے لئے مسخر کردیا ہے تا کہ کوشش اورمحنت سے زمین کو آباد کریں او رعلم و دانش حاصل کر کے اس دنیا کے عجائبات سے پردہ اٹھادیں اور اپنے پروردگار اور خالق کی عظمت کی نشانیوں کو دیکھیں اور ان نشانیوں سے اس کی بے انتہا قدرت اور کمال کا نظارہ کریں اور اس سے راز و نیاز اور مناجات کریں_

کیونکہ

''انسان خدا سے راز و نیاز اور مناجات کے وقت ہی اپنے اعلی اور صحیح مقام پر ہوتا ہے_ اگر انسان اپنے پروردگار سے دعا اور مناجات نہ کرے تو ایسی زندگی کس کام کی ہوگی؟

اور ایسا انسان کتنا بے قیمت ہوگا_''

دن اور رات کی پیدائشے کو دیکھئے اور صبح و شام ، دن ورات کے پیدا کرنے والے سےمناجات کیجئے _ کیا آپ جانتے ہیثں کہ زمین کی حرکت سے دن

۱۷

اور رات پیدا ہوتے ہیں_ زمین ایک دن اور رات میں اپنے محور کے گرد گردش کرتی ہے_ زمین کا وہ آدھا حصّہ جو سورج کے سامنے ہوتا ہے وہ دن کہلاتا ہے اور دوسرا حصّہ تاریک اور رات ہوتا ہے_

زمین کی اسی محوری گردش سے گویا دن، رات میں اور رات دن میں داخل ہوجاتی ہے اور دن و رات مستقل یکے بعد دیگرے ایک ترتیب سے آتے جاتے رہتے ہیں_ دن میں سورج کی گرمی او رحرارت سے نباتات اور درخت نشو و نما پاتے ہیں اور دن ہی میں انسان کام کاج اور محنت و مشقت کرتے ہیں اور پر سکون رات میں آرام کر کے اور مناجات بجالاکر اگلے دن کے لئے نئی قوت حاصل کرتے ہیں اور دوسرے دن کے لئے کام کاج اور عبادت الہی کے لئے خود کو تیار کرتے ہیں_

کیا آپ جانتے ہیں کہ جب آپ دن بھر کی محنت و مشقت اور عبادت و ریاضت کے بعد رات کو مناجات بجالاکر پر سکون میٹھی نیند کے مزے لے رہے ہوتے ہیں تو خالق کائنات کا یہ مربوط نظام اپنے نظم و ضبط اور ربط و ہم آہنگی کے کچھ اور تماشے دکھا رہا ہوتا ہے_

جی ہاں سورج سے حاصل کردہ روشنی اور توانائی سے چاند ہمیں نہ صرف ٹھنڈی اور فرحت بخش چاندنی سے نوازتا ہے بلکہ اسی چاندنی سے سمندر میں مدّ و جزر یعنی جوار بھاٹا آتا ہے_ تپتے ہوئے صحراؤں کی ریت ٹھنڈی ہوکر کاروانوں کے لئے آغوش مادر بن جاتی ہے_

یقین جایئےھیتوں میں سبز یاں نمو پاتی ہیں_ بلکہ اگر آپ ککڑی کے کھیت میں کسی نوزائیدہ ککڑی پر نظر ٹکا کر بیٹھ جایئےو دیکھیئے گا کہ اسی چھٹکی ہوئی

۱۸

چاندنی میں آناً فاناً ککڑی جست لگا کر بڑھ جاتی ہے_

اسی رات میں ابر نیساں برستا ہے جس سے سیپی میں ہوتی_ بانس میں بنسلوچن، کیلے میں کافور او سانپ میں زہر مہرہ پیدا ہوتا ہے_

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اگر زمین اس طرح منظم اور ایک خاص حساب سے حرکت میں نہ ہوتی تو کیا ہوتا___؟

زمین کے بعض حصّے ہمیشہ تاریکی میں ڈوبے رہتے_ ہمیشہ رات کا سماں ہوتا اور اس قدر سردی ہوتی کہ برف جمی رہتی_ اور بعض حصّوں میں ہمیشہ دن اور روشنی او رجھلسا دینے والی گرمی ہوتی_

دن اور رات کی پیدائشے بھی خالق کائنات کی قدرت، عظمت، علم، دانائی اور توانائی کی واضح نشانی ہے_

کیا آپ اس محنت کش بوڑھے سے چند سوال کرنا چاہیں گے___؟

صبر کیجئے، جب وہ ناشتہ کرنے کے لئے آپ کے پاس بیٹھے تو اس سے سوال کیجئے گا اور پوچھئے گا کہ گندم کے خوشنما خوشوں کے مشاہدے اور ان لہلہاتے کھیتوں اور حسین و جمیل فلک بوس پہاڑوں اور دل کش مرغزاروں کو دیکھ کر آپ کیا محسوس کرتے ہیں___؟

اور اس سے پوچھئے گا کہ دن او ررات کی گردش اور آفتاب کے طلوع و غروب سے آپ کیا سمجھتے ہیں____؟

اور سوال کیجئے گا کہ سورج اور چاند کے کام اور ان میں پائے جانے والے نظم و ضبط کے مشاہدے سے آپ نے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ سورج کا نور اور چاند کی روشنی کو کس نے پیدا کیا ہے___؟

۱۹

پھر اس کی باتوں کو غور سے سینئے گا اور دیکھیئے گا کہ وہ آپ کو کتنا عمدہ اور سادہ جواب دیتا ہے اور ملاحظہ فرمایئےا کہ وہ اس جہان کو دیکھ کر اس کے خالق کے عالم و قادر ہونے اور اس کے عظمت و قدرت والا ہونے کا کس طرح نتیجہ نکالتا ہے اور کس ایمان و خلوص اور دل کی گہرائیوں سے اپنے خالق کے حضور مناجات کرتا ہے اس کی آواز کو خوب کان لگا کر سینئے گا کہ وہ اس شعر کو گنگنا کر کتنا عمدہ جواب دیتا ہے:

این شب و روز و این طلوع و غروب بر وجود خدا دلیل خوب نظم در کار ماہ و خورشید است نظم عالم نشان توحید اس نور خورشید و روشنائی ماہ باشد از جانب تو یا اللہ

یا اللہ

آیت قرآن

( و من ای ته خلق السّموت و الارض و ما بثّ فیهما من دآبّة)

اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیوں میں سے (ایک) زمین اور آسمان کی خلقت او رجوان میں حرکت کرنے والے ہیں''

(سورہ شوری آیة ۲۹)

۲۰