‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 254
مشاہدے: 69497
ڈاؤنلوڈ: 3318


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69497 / ڈاؤنلوڈ: 3318
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد 4

مؤلف:
اردو

آیت قرآن

''( و لنصبرنّ علی ما اذیتمونا و علی الله فلیتوكّل المتوكّلون' ) '

سورہ ابراہیم آیت ۱۴

پیغمبروں اور مومنین نے متکبرین سے یوں کہا کہ ہراس اذیت پر جو تم ہم پر روا رکھتے ہو صبر کریں گے اور توکل کرنے والوں کو خدا ہی پر توکل کرنا چاہیئے_

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ متکبرین، اسلام کے آغاز میں مسلمانوں کو کیوں اذیت دیتے تھے؟ اور آج کل متکبرین مسلمانوں کو کس طرح تکلیف پہنچا رہے تھے؟

۲)___ عمار اور ان کے والدین متکبرین کے تازیانوں کے باوجود اللہ کے ذکر کے علاوہ اپنے صبر و استقامت کے متعلق کیا کہا کرتے تھے؟ اور اب ہمارا فریضہ متکبرین جہان کے بارے میں کیا ہے؟

۳)___ جب پیغمبر (ص) یاسر اور سميّہ کے گھرانے کو دیکھتے تھے توان سے کیا سفارش کیا کرتے تھے اور کیا خوشبخری دیتے

۱۴۱

تھے اور پیغمبر کی سفارش پوری امت اسلام کے لئے کیا ہے اس کے متعلق علم حاصل کرنے کے لئے مراجع دین کی طرف رجوع کریں

۴)___ سميّہ کس طرح شہید ہوئیں؟ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں کیا کہتی تھیں؟

۵)___ سمیہ جب اپنے شوہر کو شہید ہوتے دیکھ رہی تھیں تو کفّار نے اس سے کیا مطالبہ کیا تھا؟ اور انہوں نے جواب میں کیا کہا مسلمانوں کا جواب ان مشکلات کے مقابل جو آج کل مشرق و مغرب والے امت اسلامی پر وارد کر رہے ہیں کیا ہونا چاہیئے_

۶)___ اسلام کے سبب متکبرین کو کیا نقصان پہنچتا تا ہے کہ وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں؟

۷)___ عمّار کے ماں باپ جیسے مومنین نے کس کی حکومت کو قبول کیا ہے؟ اور ظالم انہیں کس کی حکومت کی طرف بلاتے ہیں؟

۸)___ عمّار نے مكّہ سے کس طرف ہجرت کی ؟ پیغمبر خدا(ص) کی وفات کے بعد کن کے انصار میں داخل ہوئے؟ پھر کہاں شہید ہوئے کیا آپ جانتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے عمار کے قاتلوں کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۱۴۲

اقتصادی پابندی

بت پرستوں کی شدید مخالفت کے باوجود اسلام مسلسل پھیل رہا تھا اور روز بروز مسلمانوں کی تعداد اور اسلام کی طاقت میں اضافہ ہو رہا تھا بت پرست اور روڈیرے اپنے جاہ و جلال اور منافع کو خطرہ میں دیکھ رہے تھے وہ اسلام کی پیش رفت روکنے کے لئے اپنی پوری کوشش کرتے تھے اور کسی ظلم و خباثت کے ارتکاب سے نہیں روکتے تھے کمزور اور محروم مسلمانوں کو تکلیف پہنچاتے، ان کی توہین کرتے اور ان کا مذاق اڑاے تھے تا کہ مسلمانوں پیغمبر اسلام(ص) کی مدد سے دستبردار ہوجائیں اور اسلام کو چھوڑدیں_ لیکن ان مسلمانوں کا خدا اور اسلام پر ایمان اتنا قوی اور محکم تھا کہ وہ ہر قسم کے آزار اور تکلیف اور محرومیت کو برداشت کرتے_ لیکن پیغمبر اسلام (ص) کی مدد سے دستبردار نہ ہوتے تھے اور

۱۴۳

اسلام کو نہ چھوڑتے تھے_

جب اذیتیں اور تکلیفیں حد سے بڑھ گئیں تو پیغمبر اسلام(ص) نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو خفیہ طور پر حبشہ کی طرف ہجرت کرجانے کی اجازت دے دی مسلمانوں نے گھر بار چھوڑا اور اپنے ایمان کی حفاظت کی خاطر حبشہ ہجرت کر گئے اور انہوں نے عیسائیوں کے ایک گروہ کو دین اسلام کی طرف راغب کیا اور اس طریقہ سے انہوں نے عیسائیوں سے اسلام کا تعارف کرایا اور قربانی دینے والے مسلمانوں نے اپنی گفتار و کردار سے اسلام کی حیات بخش تعلیمات کو حبشہ میں پھیلایا_

مشرکوں کا ارادہ اور حضرت ابوطالب (ع)

بت پرستوں اور وڈیروں نے یہ جان لیا تھا کہ اسلام کا پھیل جانا اب یقینی ہے اسی لئے انہوں نے خطرے کا احساس کرلیا تھا اور پھر وہ اس کے تدارک کے لئے صلاح و مشورہ کرنے ایک جگہ اکٹھا ہوئے اور مختلف تجاویز کے متعلق تبادلہ خیال اور بحث و مباحثہ کرنے لگے_

ان میں سے ایک گروہ کی تجویز تھی کہ رسول خدا(ص) کو قتل کردینے سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا لیکن دوسرے گروہ کے لوگوں کا اس سے مختلف نظریہ تھا لیکن بالآخر نتیجہ کے طور پر رسول خدا(ص) کے قتل کی تجویز کو اکثریت نے قبول کرلیا اور قتل کردینے کا مصمم ارادہ کرلیا یہ فیصلہ بہت ہی خطرناک تھا_

آنحضرت(ص) کے چچا حضرت ابوطالب (ع) کو اس سازش کا علم ہوگیا

۱۴۴

آپ نے اپنے تمام رشتہ داروں کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا:

کیا تم نے سنا ہے کہ قریش کے سرداروں نے محمد(ص) کے بارے میں کیا فیصلہ کرلیا ہے؟ کیا جانتے ہو کہ کون سی تجویزان کے جلسے میں منظور کرلی گئی ہے؟ جانتے ہو کہ انہوں نے پکا ارادہ کرلیا ہے کہ محمد(ص) کو قتل کردیں؟ تم ان کے اس ارادے کے مقابلے میں کیا رائے رکھتے ہو؟ مجھ سے جہاں تک ہوسکا محمد(ص) کا دفاع کروں گا تم کیا اقدام کروگے؟ محمد(ص) تمہاری عزت و شرف کا سرمایہ ہے میں تم سے خواہش کرتا ہوں کہ پوری قوت سے اپنی عزت و شراقت کا دفاع کرو مجھے بتاؤ کہ محمد(ص) کے دفاع کے لئے کیا کروگے ؟

سب نے جواب دیا کہ ہم سب حاضر ہیں کہ محمد(ص) کا دفاع اور ان کی حمایت کریں لیکن ہم اپنی کم تعداد کے سبب کس طرح دشمن کی عظیم طاقت کا مقابلہ کرسکتے ہیں_

جناب ابوطالب(ص) نے کہا

ہماری ذمہ داری ہے کہ محمد(ص) کا دفاع کریں اور دشمن کی کثرت اور اپنی قلت سے نہ گھرائیں اور صبر و استقامت اور اتحاد سے ان پر غلبہ حاصل کریں بہتر ہوگا کہ ہم اپنی طاقت کو ایک جگہ جمع کریں پھر ہم سب کے سب مرد و عورت چھوٹے بڑے، محمد(ص) کے اردگرد جمع رہیں

۱۴۵

اور دشمن سے ان کی حفاظت اور نگہداشت کریں_

رسول خدا(ص) کی حفاظت اور نگہداری

جناب ابوطالب کی تجویز گو بہت سخت اور مشکل تھی لیکن پھر بھی تما افراد نے اسے قبول کرلیا تھوڑاسا مال و اسباب اٹھایا اور مكّہ میں پہاڑ کے ایک درّے میں منتقل ہوگئے تا کہ حضرت محمد(ص) کی بہتر طور پر حفاظت کرسکیں_

تقریباً چالیس جنگجو مردوں نے اس درّہ میں کہ جس کا نام شعب ابی طالب تھا، عہد و پیمان کیا کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک جناب محمد(ص) کی حمایت و حفاظت کریں گے اور عورتوں نے بھی اسی قسم کا معاہدہ کیا_

طاقتور جوان دن رات اس درّے کے چاروں طرف پہرا دیتے تھے دن میں پہاڑ کی گرم اور جھلسا دینے والی چوٹیوں پر گشت کرتے تھے اور رات میں پیغمبر خدا(ص) کے بہادر چچا جناب حمزہ اور علی ابن ابی طالب (ع) تلواریں نکالے پہرے داری کرتے تھے اور خود جناب ابوطالب (ع) بھی توجہ دیتے تھے اور رات کو کئی مرتبہ پیغمبر اسلام(ص) کی جگہ کو تبدیل کردیتے تھے اور کسی دوسرے کو ان کے بستر پر سلادیتے تھے کہ کہیں دشمن حملہ نہ کردیں اور ان کے سونے کی جگہ کو معلوم کرلیں اور آپ(ص) پر حملہ کر کے آپ کو قتل نہ کردیں_

مكّہ کے بت پرستوں نے جب پیغمبر(ص) کے مددگاروں کی اس بہادری و جانفشانی کو دیکھا تو انہوں نے کئی وجوہ کی بناپر پیغمبر(ص) کے قتل کا ارادہ ترک کردیا اور اپنی محفلوں میں بحث و مباحثہ اور مشورے سے ایک

۱۴۶

اور ارادہ کرلیا کہ شعب ابی طالب (ع) کے رہنے والوں سے روابط ختم کردیں اور ان کا اقتصادی بائیکاٹ کردیں تا کہ رسول خدا(ص) کے حامی و ناصر تھک جائیں، تنگ آجائیں اور آپ کی مدد سے دستبردار ہوجائیں اور آپ کو تنہا چھوڑدیں یا این کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں_

اقتصادی بائیکات کا معاہدہ

ان کی خاص انجمن میں جو ظالمانہ بائیکاٹ کا مضمون تیار کیا گیا اور اس پر سب نے دستخط کئے اس کا متن یہ تھا:

۱) ___ آج کے بعد کوئی حق نہیں رکھتا کہ محمد(ص) اور ان کے مددگاروں کے پاس آمد و رفت کرے اور ان کی مدد کرے_

۲)___ کوئی آدمی حق نہیں رکھتا کہ کوئی چیز ان کے پاس فروخت کرے یا کوئی چیز ان سے خریدے_

۳)___ کوئی بھی شخص ان سے شادی نہ کرے_

۴)___ اس معاہدہ پر دستخط کرنے والے افراد پابند ہوں گے کہ ان کو مورد اجراء قرار دیں اور ان کے پابند رہیں_

۵)___ دستخط کرنے والے پابندہوں گے کہ اس معاہدہ پر عمل کریں اور جستجو میں رہیں کہ کوئی بھی اس کی خلاف ورزی نہ کرے یہ معاہدہ قطعی اور اس پر عمل کرنا ضروری ہوگا اور کوئی بھی اس میں ردّ و بدل کا حق نہیں رکھتا یہ معاہدہ

۱۴۷

اس وقت تک معتبر رہے گا جب تک وہ لوگ محمد(ص) کو ہماری تحویل میں نہ دے دیں_

اس ترتیب سے اس ظالمانہ معاہدہ کو لکھا گیا اور اسے ایک مضبوط صندوق میں بند کر کے اندر رکھ دیا گیا اور اس کا دروازہ مضبوطی سے بند کردیا گیا اور اس معاہدہ کے تمام شقوں کی اطلاع تمام افراد کو دے دی گئی_

حضرت ابوطالب (ع) نے اپنے رشتہ داورں کو شعب کے ایک گوشے میں اکٹھا کیا اور ان کو قریش کے سرداروں کے اس معاہدے کی اطلاع دی اور فرمایا

تم جانتے ہو کہ قریش کے سرداروں نے کیا ارادہ کیا ہے؟ انہوں نے ارادہ کرلیا ہے کہ ہمار ا پوری طرح بائیکاٹ کریں اور ہمیں اقتصادی طور پر محصور کریں وہ چاہتے ہیں کہ ہم پر اتنا دباؤ ڈالیں کہ ہم محمد(ص) کی مدد سے دستبردار ہوجائیں تو اے میرے عزیزو اس ظالمانہ ارادے اور معاہدے کے مقابل کیا کروگے؟''

سب نے مل کر جواب دیا:

ہم یہ تمام سختیاں، رنج، بھوک، اور دباؤ برداشت کریں گے لیکن محمد(ص) کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑدیں گے اور اپنے خون کے آخری قطرے تک ان کی حفاظت کریں گے_''

جناب ابوطالب (ع) نے ان تمام افراد کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ خود میں

۱۴۸

بھی جب تک میرے بدن میں جان ہے محمد(ص) کی حمایت کرتا رہوں گا_

اقتصادی بائیکاٹ

اقتصادی بائیکاٹ شروع ہوگیا اور لوگوں کا شعب ابی طالب سے ہر قسم کا رابطہ ختم ہوگیا کسی کو حق نہیں تھا کہ شعب میں رہنے والوں سے آمد و رفت اور خرید و فروخت کرے_

قریش کے سرداروں نے ایک گروہ لوگوں کی آمد و رفت پر نگاہ رکھنے کے لئے معین کردیا_ وہ نگرانی کرتے تھے کہ کوئی شخص شعب میں داخل نہ ہو، کوئی بھی چیز ان کے ہاتھ فروخت نہ کرے جو بھی اس بائیکاٹ کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتا اس کامال ضبط کرلیتے تھے_

شعب میں محصور ہونے والے افراد نے بائیکاٹ کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی زندگی کی ضرورت اور کھانے پینے میں پہلے کی نسبت میانہ روی برتنا_ شروع کردی تھوڑی غذا کھاتے اور کم سے کم غذا اور پانی پر قناعت کرتے اور ایک دوسرے سے ہمدردی اور تعاون کرتے تھے جو کچھ ان کے پاس تھا ایک دوسرے کے اختیار میں قرار دیتے تھے جوانوں میں طاقت اور صبر کا مادّہ زیادہ تھا وہ اپنی معمولی غذا بھی نہ کھاتے تھے بلکہ انہیں بچّوں اور سن رسیدہ افراد کو دے دیتے تھے_

شعب میں کسی قسم کی آمد و رفت نہ ہوتی تھی_ خوراک کا ذخیرہ آہستہ آہستہ خرچ ہو رہا تھا اور شعب میں رہنے والوںپر بالخصوص بچّوں پر بھوک

۱۴۹

زیادہ شدّت سے اثرانداز ہو رہی تھی صرف کبھی کبھار بعض جانباز اور دلیر افرد پوری طرج چھپ کر رات میں شہر جاتے اور ہزارہا مصیبتوں کے بعد کچھ خوراک حاصل کرتے اور واپس شعب میں لوٹ جاتے، کبھی بنی ہاشم کے ہمدرد رشتہ دار اپنے اونٹ پر خوراک لادتے اور آدھی رات کے وقت شعب کے نزدیک جا کر اسے چھوڑ آتے اور درّہ کی طرف بڑھا دیتے تھے_

شعب مین محبوس اور محصور لوگ سال میں فقط دو مرتبہ حرام مہینوں میں شعب سے باہر نکل سکتے تھے کیونکہ مشرک ان مہینوں میں اپنی پرانی رسم کے مطابق جنگ و جدال کو حرام جانتے تھے_

ان ایام میں پیغمبر(ص) ان لوگوں سے جو اطراف مكّہ سے حج و عمرہ ادا کرنے کے لئے آیا کرتے تھے گفتگو فرماتے تھے ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتے اور انہیں خداوند عالم کی پرستش اور روز آخرت (قیامت) پر ایمان لانے کی دعوت دیتے_

لیکن مشرکین ہر وقت آپ کی تبلیغ کے کام میں مداخلت کرتے اور لوگوں کو آپ کے اردگرد سے دور کردیا کرتے تھے آپ کی باتوں کو قصّہ کہانی قرار دیتے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ محمد(ص) (معاذاللہ) جھوٹ بولتا ہے آخرت (قیامت) کچھ بھی نہیں ہے_

قرآن کریم، پیغمبر(ص) سے مشرکین کے سلوک اور اس کی سزا اور عاقبت کے متعلق یوں بیان کرتا ہے_

''مشرکین کہتے ہیں کہ پیغمبر(ص) کی باتیں پہلے زمانے کے قصے اور افسانے ہیں لوگوں کو ان کی باتوں کو سننے سے

۱۵۰

روکتے ہیں اور ان سے لوگوں کو دور کردیتے ہیں ایسے لوگ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اور انہیں سمجھتے (اے رسول(ص) ) اگر تم انہیں دیکھتے (تو تعجب کرتے) جب وہ جہنّم کے کنارے کھڑے ہوں گے اور کہیں گے کاش ہم دنیا میں لوٹائے جاتے اور ہم اللہ کی آیات کو نہ جھٹلاتے اور مومنین کے گروہ میں داخل ہوجاتے اپنی جن برائیوں کو چھپاتے تھے وہ ان کے سامنے ظاہر ہوجائیں گی اور اگر یہ دنیا میں دوبارہ لوٹائے جائیں پھر بھی انہیں برے کاموں میں مشغول ہوجائیں گے کیونکہ یہ جھوٹ بولتے ہیں_ مشرکین کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے علاوہ کوئی اور دنیا نہیں ہے اور آخرت آنے والی نہیں ہے اور ہم دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے (اے رسول(ص) ) اگر تم انہیں دیکھو (تو تعجب کروگے) جب یہ لوگ خداوند عالم کے سامنے کھڑے ہوں گے اور ان سے سوال کیا جائے کا کیا اب بھی آخرت حق نہیں ہے؟ اس وقت جواب دیں گے_ کیوں نہیں پروردگار کی قسم یہ مکمل حق ہے ان سے کہا جائے گا کہ بس اب آخرت کی سزا کا مزا چکھو جو کفر و انکار کی سزا ہے_''

شعب کے محصورین ان مہینوں میں ہزار زحمت اور ارتباط کے ساتھ اپنے لئے غذا کی قلیل سی مقار حاصل کرپاتے تھے اور پیغمبر(ص) خدا اس

۱۵۱

مختصر سے وقت میں اسی طرح لوگوں سے خطاب فرماتے تھے _

ایام حرام اسی طرح تیزی سے گزر جاتے تھے شعب کے رہنے والے مجبور ہوتے تھے کہ پیغمبر(ص) کی حفاظت کی غرض سے پھر اس شدید گرم درّے میں لوٹ جائیں اور وہیں پناہ لیں ان تمام مصائب پر یہ لوگ، رسول(ص) اور حق کے دفاع کی خاطر صبر کرتے تھے اور اس کی حفاظت کرتے تھے _

آیت قرآن

''( انّ الّذین امنوا والّذین هاجروا و جاهدوا فی سبیل الله اولئک یرجون رحمت الله و الله غفور رّحیم ) ''

سورہ بقرہ۲/ آیت ۲۱۸''

بہ تحقیق جو لوگ ایمان لائے او رجنہوں نے ہجرت کی ہے اور راہ خدا میں جہاد کیا ہے وہ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اللہ بخشنے والا اور رحیم ہے_

سوچیئےور جواب دیجئے

۱)___ مستکبرین، اسلام کی ترقی سے کیوں ڈرتے تھے؟ اور اسلام

۱۵۲

کی دعوت کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے کیا کرتے تھے؟

۲)___ مسلمانوں کے ایک گروہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کیوں کی یہ اسلام کے فروغ، اس کی تبلیغ اور اس کی وسعت کے لئے کیا اقدام کرتے تھے؟ اور اسلام کی پیش رفت کے لئے کس چیز سے استفادہ کرتے تھے؟

۳)___ کیا ان لوگوں کو پہچانتے ہیں کہ جنہوں نے انقلاب اسلامی کے پھیلاؤ کے لئے ہجرت کی تھی، ان کی ہجرت کے سبب کو بیان کیجئے؟ اور ان کی خدمات کو بھی بیان کیجئے؟

۴)___ جب مشرکین نے اسلام کی وسعت سے خطرہ محسوس کیا تو اسکے تدارک کیلئے کیا سوچا؟ اور انہوں نے کیا ارادہ کیا؟

۵)___ جب ابوطالب(ع) کو مشرکین کے ارادے کی اطلاع ملی تو انہوں نے کیا کیا؟ اور اپنے رشتہ داروں سے کیا کہا؟

۶)___ مشرکین کا دوسرا ارادہ کیا تھا اور اس ظالمانہ معاہدہ کا مضمون کیا تھا؟

۷)___ اقتصادی بائیکاٹ کے بعد پیغمبر(ص) اور ان کے رشتہ داروں کی شعب ابی طالب میں کیا حالت تھی؟

۸)___ کس وقت پیغمبر(ص) اور ان کے رشتہ دار شعب ابی طالب سے باہر نکل سکتے تھے؟

۹)___ قرآن مجید مشرکین کی رسول (ص) خدا کے ساتھ گفتگو کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟

۱۵۳

۱۰) ___ کفار مشرکین آخرت میں کیا آرزو کریں گے؟ کیا ان کی آرزو پوری ہوگی؟

۱۱)___ مشرکین کا آخرت کے بارے میں کیا عقیدہ ہے؟ خدا قیامت کے دن دن سے کیا کہے گا؟ اور یہ کیا جواب دیں گے؟ اور کیا جواب سنیں گے؟

۱۵۴

استقامت اور کامیابی

پیغمبر اسلام(ص) اور ان کے وفادار ساتھیوں نے شعب ابی طالب(ع) میں تین سال بہت سختیوں اور تکلیفیں اٹھائیں یہ انتہائی سخت اور صبر آزما عرصہ تھا دن کو حجاز کی گرمی او رچلچلاتی ہوئی دھوپ اور رات کو دشمن کے اچانک جملہ کا خوف بچّوں کے دلوں کو لرزاتی تھی_ پانی اور غذا کی قلت اور بھوک پیاس کی تکلیفیں جان لیوا تھیں، بچّے بھوک پیاس کی شدّت سے تنگ آکر نالہ و فریاد کرتے اور اپنے ماں باپ سے خوراک طلب کرتے تھے_

گو ان تمام مصائب کا برداشت کرنا مشکل و دشوار تھا لیکن ان غیور اور بہادر جان نثاروں نے تمام مصائب کو برداشت کیا اور تیار نہ ہوئے کہ اپنی انسانی شرافت اور عزت سے دستبردار ہوجائیں اور رسول خدا(ص) کے دفاع سے ہاتھ اٹھائیں_ انہوں نے اتنے صبر و تحمّل کا مظاہرہ کیا کہ پیغمبر(ص)

۱۵۵

کے دشمن ظلم کرتے کرتے تھک گئے بچّوں کی آہ و بکا اور ان کی فریاد و فغان نے ان میں سے بعض کے دل پر آہستہ آہستہ اثر کرنا شروع کردیا اور وہ اس برے طرز عمل پر پشیمان ہونے لگے_

کبھی وہ ایک دوسرے سے پوچھتے کیا ہم انسان نہیں ہیں ؟ کیا ہم صلہ رحمی اور مروّت و ہمدردی کی ایک رمق بھی باقی نہیں رہی؟

ہم نے کیوں اس ظالمانہ معاہدہ پر دستخط کئے؟

ہمارے اہل و عیال تو بڑے آرام سے گھروں میں سو رہے ہیں لیکن بنی ہاشم کے بچّے بھوک و پیاس سے آہ و بکار کر رہے ہیں اور انہیں آرام و سکون سے سونا تک نصیب نہیں_

اس اقتصادی بائیکاٹ کا کیا فائدہ؟

کیا یہ اقتصادی بائیکاٹ اور دباؤ ان بہادر جانبازوں کو سر تسلیم خم کرنے پر آمادہ کرسکے گا؟ ہرگز نہیں بلکہ اگر وہ تمام کے تمام بھوک کی شدت کے سبب موت کے نزدیک بھی پہنچ جائیں تب بھی نہیں جھکیں گے _

مشرکین کا ایک گروہ جو نادم ہوچکا تھا کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھا تا کہ اس ظالمانہ معاہدے کو ختم کرسکے اور حضرت محمد(ص) اور ان کے اصحاب کو اقتصادی محاصرے سے نجات دلاسکے_

لیکن قریش کے سردار اب بھی مصر تھے کہ دباؤ اور بائیکاٹ کو جاری رکھا جائے_

۱۵۶

ابوطالب (ع) مشرکین کے مجمع میں

رسول اکرم (ص) نے حضرت ابوطالب(ع) سے کوئی بات کہی اور خواہش ظاہر کی کہ اس کو مشرکین تک پہنچادیں_ حضرت ابوطالب(ع) اپنے چند عزیزوں کے ساتھ مسجدالحرام کی طرف روانہ ہوئے اور سیدھے مجلس قریش میں آئے_

قریش کے سردار حضرت ابوطالب (ع) کو وہاں آتا دیکھ کر حیران ہوئے اور سوچنے لگے کہ شاید ابوطالب (ع) اقتصادی بائیکاٹ اور اس کی سختیوں سے تنگ آگئے ہیں اور اس لئے آئے ہیں کہ محمد(ص) کو ہمارے حوالے کردیں_

سب کے سب بہت خوش ہوئے اور ابوطالب(ع) کو نہایت احترام سے صدر مجلس میں بٹھایا اور خوش آمدید کہا: اور کہنے لگے اے ابوطالب (ع) تم ہمارے قبیلے کے سردار تھے اور ہو، ہم نہیں چاہتے تھے کہ تمہاری تھوڑی سی بھی بے حرمتی ہو لیکن افسوس تمہارے بھتیجے کے رویے نے اس قسم کا ماحول پیدا کردیا_ کیا تم کو یاد ہے کہ ہم محمد(ص) کے سامنے درگزر کرنے اور صلح کرنے پر آمادہ تھے اور اس نے ہمیں کیا جواب دیا تھا؟ تم سے ہم نے خواہش کی تھی کہ محمد(ص) کی حمایت سے دستبردار ہوجاؤ تا کہ ہم محمد(ص) کو قتل کرسکیں لیکن تم نے اسے قبول نہ کیا اور اپنے رشتہ داروں اور قبیلے کو اپنی مدد کیلئے بلایا اور محمد(ص) کی حفاظت او رنگرانی کرنا شروع کردی_ کیا قطع رابطہ اور

۱۵۷

اقتصادی بائیکاٹ کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی صورت باقی رہی تھی؟ ہمیں یہ علم ہے کہ یہ مدت تم پر اور تمہارے اہل و عیال پر بہت سخت گزری اور تمہیں سخت و دشواری کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب ہم خوش ہیں کہ تم اب ہمارے پاس آگئے ہو اگر تم اس سے پہلے آجاتے تو تمھیں اور تمہارے اہل و عیال اور شتہ داروں کو یہ تکالیف اور مصائب نہ دیکھنے پڑتے_

جناب ابوطالب (ع) اس وقت تک خاموش تھے اور حاضرین کا گہری نظر سے جائزہ لے رہے تھے آپ (ع) نے فرمایا:

کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اقتصادی بائیکاٹ کی سختی اور دباؤ سے تنگ آگیا ہوں؟ کیا تم یہ سمجھ رہے ہو کہ میں اپنے مقصد تک پہنچنے کے راستے پر چلنے سے تھک گیا ہوں اور اب مجھے دشواریاں برداشت کرنا مشکل ہو گیا ہے؟ اطمینان رکھو کہ معاملہ ایسا نہیں ہے اور جب تک میں زندہ ہوں محمد(ص) اور ان کی روش کی حمایت کرتا رہوں گا ان کے عظیم ہدف کے حصول کے لئے سعی و کوشش سے کبھی نہ تھکوں گا میں اور میرے جوان ایک مضبوط پہاڑ کی مانند ان تمام مشکلات کے سامنے ڈٹے رہیں گے اور جان لو کہ ہم یقینا کامیاب ہوں گے کیونکہ صبر و استقامت کا نتیجہ کامیابی ہوا کرتا ہے

۱۵۸

میں نے محمد(ص) کی حمایت سے ہاتھ نہیں کھینچا اور نہ اس اور نہ اس لئے تمہارے پاس آیا ہوں کہ محمد(ص) کو تمہارے سپرد کردوں بلکہ میں محمد(ص) کا ایک پیغام تمہارے لئے لے کر آیا ہوں''

پیغمبر خدا(ص) کا پیغام

یہ پیغام تمہارے عہدنامہ سے متعلق ہے تم پہلے عہدنامہ والے صندوق کو لاؤ اور اس مجمع کے سامنے رکھو تا کہ میں محمد(ص) کا پیغام تم تک پہنچاؤں''

وہ صندوق لے آئے_

جناب ابوطالب (ع) نے گفتگو کو جاری رکھا اور فرمایا کہ: جو فرشتہ اللہ تعالی کا پیغام محمد(ص) کے پاس لے کر آیا کرتا ہے اب اس نے یہ پیغام دیا ہے کہ تمہارے عہد نامہ کی تحریر کو دیمک چاٹ گئی ہے اب صرف اس کا تھوڑا حصّہ باقی رہ گیا ہے صندوق کھولو اور عہدنامہ کو دیکھو اگر ان کا پیغام صحیح ہوگا تو ثابت ہوجائے گا کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے پیغمبر(ص) بنا کر بھیجے گئے ہیں اور محمد(ص) خدا کی طرف (جو تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے) پیغام حاصل کرتے ہیں اور واقعاً وحی کا فرشتہ ان کے لئے خبر لاتا ہے صندوق کھولو، اور محمد(ص) کی بات کی صداقت کو دیکھو اگر محمد(ص) کی بات

۱۵۹

صحیح ہوئی تو تم پانی سرکشی اور ظلم و ستم سے باز آجاؤ اور ان کی نبوت و خدا کی وحدانیت پر ایمان لے آؤ تا کہ دنیا و آخرت میں فلاح پاؤ اور اگر ان کی بات صحیح نہ ہوئی تو میں بغیر کسی قید و شرط کے محمد(ص) کو تمہارے سپرد کردوں گا، تا کہ جس طرح چاہو ان سے سلوک کرو''

بعض افراد نے کہا: یہ کیسے ممکن ہے کہ محمد(ص) نے صندوق کے اندر دیکھ لیا ہو، یقینا یہ بات غلط ہے_ جلدی سے مہر توڑو اور اسے کھولو تا کہ ان کے دعوے کا غلط ہونا سب پر ظاہر ہوجائے انہوں نے صندوق کھولا او رعہد نامہ کو باہر نکالا بڑے تعجب سے دیکھا کہ عہد نامہ کی تحریر کو دیمک چاٹ چکی ہے اور صرف تھوڑا سا حصّہ باقی رہ گیا ہے_

جناب ابوطالب (ع) بہت خوش نظر آرہے تھے آپ نے ان لوگوں سے کہا:

اب جبکہ تم نے محمد(ص) کی صداقت کو جان لیا تو ان کی دشمنی اور سرکشی سے باز آجاؤ اور اللہ کی وحدانیت رسول (ص) کی پیغمبری اور روز جزا کی حقانیت پر ایمان لے آؤ تا کہ دنیا و آخرت کی فلاح پاؤ''

بعض افراد بہت غصّے میں آگئے اور ایک گروہ سوچ و بچار میں غرق ہوگیا اسی وقت کچھ لوگ اٹھے اور کہا:

تم پہلے دن سے ہی اس عہد نامہ کے مخالف تھے

انہوں نے عہدنامہ کا باقی حصہ جو دیمک کے کھانے سے بچ گیا تھا

۱۶۰