‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 254
مشاہدے: 69467
ڈاؤنلوڈ: 3317


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69467 / ڈاؤنلوڈ: 3317
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد 4

مؤلف:
اردو

قریش کے ہاتھ سے لے لیا اور وہیں پھاڑ دیا اور فوراً جناب ابوطالب (ع) کے ساتھ شعب کی طرف روانہ ہوگئے_

اور یوں رسول خدا(ص) کی زندگی میں دعوت اسلام کے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہوا_

آیت قرآن

''( انّه من يّتّق و یصبر فانّ الله لا یضیع اجر المحسنین ) ''

جو شخص تقوی اختیار کرے اور صبر کرے تو اللہ تعالی نیکیوں کے اجر کو ہرگز ضائع نہیں کرتا''

سورہ یوسف آیت ۹۰''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر اسلام(ص) اور آپ کے اعزاء و اقارب کتنی مدت شعب میں محصور رہے؟ یہ مدّت ان پر کسی گزری ان تمام سختیوں کو وہ کس مقصد اور غرض کے لئے برداشت کرتے رہے؟

۲)___ قریش کے سرداروں نے جناب ابوطالب (ع) کو دیکھ

۱۶۱

کرکیا سوچا؟ انہوں نے کس لئے صدر مجلس میں جگہ دی___؟

۳)___ جناب ابوطالب (ع) نے جوانوں کے صبر و استقامت کی کس طرح تعریف کی؟

۴)___ مشرکین نے پیغام کے سننے اور صندوق کے کھولنے سے پہلے کیا سوچا تھا؟

۵)___ ابوطالب (ع) کی ملاقات اور پیغام کا کیا نتیجہ نکلا___؟

۱۶۲

انسانوں کی نجات کیلئے کوشش

بعثت کے دسویں سال اقتصادی بائیکات ختم ہوگیا پیغمبر(ص) خدا اور آپ(ص) کے باوفا ساتھی تین سال تک صبر و استقامت سے صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بعد شعب کے قیدخانہ سے آزاد ہوئے اور اپنے گھروں کی طرف گئے_ خداوند متعال نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ خدا کی راہ میں سعی و کوشش کریں اور صبر و استقامت کا مظاہر کریں تو خدا ان کی مدد کرے گا اور خدا نے اپنا کیا ہوا وعہ پورا کیا_

حضرت ابوطالب(ع) کہ جنہوں نے رسول خدا(ص) کی حفاظت کی ذمہ داری کو قبول کیا تھا، کفار کی طاقت اور کثرت سے نہ گھبرائے اور آپ نے پوری قوت کے ساتھ رسول(ص) خدا کا دفاع کیا_

آخر کار خدا کی نصرت آپہنچی اور انہیں اس جہاد میں کامیابی نصیب

۱۶۳

ہوئی اور ان کے احترام، سماجی مرتبے اور عظمت میں اضافہ ہوگیا بنی ہاشم اپنی اس کامیابی پر بہت خوش ہوئے اور تمام تکالیف اور سختیوں کے بعد دوبارہ اپنی زندگی کا آغاز کیا_

بت پرست اور قریش کے سردار اپنی شکست پر بہت پیچ و تاب کھارہے تھے لیکن ان حالات میں بے بس تھے لہذا کسی مناسب موقع کا انتظار کرنے لگے ان حالات میں پیغمبر اسلام(ص) کو تبلیغ دین کا نہایت نادر موقع ہاتھ آیا وہ بہت خوش تھے کہ اس طرح اپنے چچا کے سماجی رتبہ اور حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت آزادی سے اپنے الہی پیام کو پہنچانے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اس لئے آپ(ص) بہت زیادہ لگن سے تبلیغ میں مشغول ہوگئے_

آپ(ص) نے لوگوں سے کہا

اے لوگو

وہ کون ہے جو زمین و آسمان سے تمہارے لئے روزی پہنچاتا ہے؟ کون ہے جس نے تمھیں آنکھ اور کان عنایت فرمائے؟ کون ہے جس کے ارادے سے جہان خلق ہوا اور اس کا نظام چل رہا ہے؟ لوگو تمہارے اس جہان کا پیدا کرنے والا خدا ہے وہی تمہاری اور اس جہان کی پرورش کرتا ہے اور روزی دیتا ہے وہ تمہارا حقیقی پروردگار ہے پس کیوں اس کا شریک قرار دیتے ہو اور اس کے علاوہ کسی اور کی

۱۶۴

اطاعت کرتے ہو؟ صرف خدا کی پرستش کرو اور صرف اسی کی اطلاعت کرو کہ یہی صحیح راستہ ہے اور حق کا ایک ہی راستہ ہے اور اس کے سوا سب گمراہی ہے_ پس جان لو کہ کسی طرف جارہے ہو؟ اے لوگو

جو لوگ نیکی اور حق کا راستہ اختیار کرتے ہیں خدا انہیں بہترین جزا عنایت فرماتا ہے اور زیادہ اور بہتر بھی دیتا ہے نیکوں کے چہرے پر کبھی ذلّت و خواری کی گرد نہیں بیٹھتی، ایسے لوگ جتنی ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے لیکن وہ لوگ جو برائی اور گناہ کا راستہ اختیار کرتے ہیں انہیں سخت سزا دی جائے گی''

لیکن افسوس کہ یہ حالات اور آزادنہ تبلیغ و گفتگو کا سلسلہ زیادہ مدت تک برقرار نہ رہ سکا_ ابھی اقتصادی بائیکاٹ کو ختم ہوئے نو ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ حضرت محمد(ص) کے چچا حضرت ابوطالب (ع) وفات پاگئے اور یوں رسول خدا(ص) اپنے بہت بڑے مددگار، مہربان و ہمدرد اور جانثار سے محروم ہوگئے_

مشرکین اس بات سے خوش ہوئے اور پھر مخالفتوں کا سلسلہ شروع کردیا ابھی زیادہ وقت نہ گزار تھا کہ حضرت محمد(ص) کی زوجہ محترمہ جناب خدیجہ کہ جنہوں نے صداقت و وفاداری کے ساتھ حضرت محمد(ص) کے ساتھ

۱۶۵

ایک طویل عرصہ گزارا تھا اور جو کچھ بھی ان کے پاس تھا اسے تبلیغ دین اور اسلام کی مدد پر خرچ کردیا تھا وفات پاگئیں_

اس حساس موقع پر ان دو حادثات کا واقع ہونا پیغمبر خدا(ص) کے لئے انتہائی تکلیف دہ اور رنج و غم کا باعث تھا آپ نے اس سال کا نام غم و اندوہ کا سال یعنی عام الحزن رکھا_

حضرت ابوطالب(ع) کی وفات کے بعد بنی ہاشم نا اتفاقی کا شکار ہوگئے، اپنے اتحاد کی طاقت کو ہاتھوں سے کھو بیٹھے اور اس کے بعد وہ پہلے کی طرح رسول خدا(ص) کی حمایت نہ کرسکے''

کفار و مشرکین نے جو ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھے رسول خدا(ص) کو تکلیف اور ایذا پہنچانے کا سلسلہ پھر شروع کردیا اور آپ کے کاموں میں مداخلت کرنے لگے_

کوچہ و بازار میں پیغمبر اسلام(ص) کا مذاق اڑاتے اور آپ(ص) کو آزادانہ طور پر قرآن کی آیات کو لوگوں کے سامنے پڑھنے نہ دیتے اور نہ ہی لوگوں سے بات چیت کرنے دیتے اور آپ کو ڈراتے دھمکاتے_

آخر کار نوبت یہاں تک آپہنچی کہ کبھی کبھار آپ کے سر مبارک پر کوڑا کرکٹ ڈال دیتے اور آپ خاک آلودہ ہوکر گھر واپس آتے آپ کی کم عمر صاحبزادی جناب فاطمہ (ص) آپ(ص) کے استقبال کے لئے آگے بڑھتیں_ آپ(ص) کو اس حال میں دیکھ کر ان کا دل دکھتا اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے آپ کے سرمنہ کو صاف کرتیں اور بے اختیار دوپڑتیں لیکن رسول(ص) خدا فاطمہ (ع) سے نہایت شفقت کے ساتھ

۱۶۶

فرماتے''

میری پیاری بیٹی پریشان نہ ہو، خدا کی راہ میں ان مصائب کا برداشت کرنا بہت آسان ہے''

اس طرح جناب ابوطالب (ع) اور حضرت خدیجہ کی وفات سے پیغمبر اسلام(ص) کی اندرونی اور بیرونی زندگی تہ و بالا ہوکر رہ گئی کیوں کہ آپ اپنے سب سے بڑے حامی و مددگار اور جانباز سے جو قریش کے قبیلے کا سردار تھا محروم ہوگئے اس لئے آپ کو اس معاشرے اور اجتماع میں آزادی اور سکون حاصل نہ رہا ہر وقت آپ کی جان خطرے میں رہتی تھی آپ کا گھر بھی ایک جان نثار و وفا شعار، دوست و مددگار اور غم گسار بیوی سے خالی ہوچکا تھا جب آپ ان مصائب اور تکالیف کو جو باہردی جاتی تھیں برداشت کرتے ہوئے گھر واپس لوٹتے تو اپنی بیوی اور ہمسر کا کشادہ اور مسکراتا چہرہ نہ دیکھ پاتے بلکہ چھوٹی سی بچّی کے روتے ہوئے چہرے پر نگاہ پڑتی، وہ آپ کے استقبال کے لئے آتی اور اپنی والدہ کے پوچھتی اور سوال کرتی''

بابا ماں کہاں ہیں؟

رسول خدا(ص) اپنی بیٹی کا چہرہ چومتے اسے پیار کرتے اور اس کے رخساروں پر بہتے ہوئے آنسوؤں کے قطروں کو صاف کرتے اور فرماتے:

بیٹی رؤومت، تمہاری ماں بہشت میں گئی ہیں اور وہاں جنّت کے پاک فرشتے ان کی مہمان نوازی کر رہے ہیں

اس قسم کے حالات میں پیغمبر اسلام(ص) نے کس طرح اپنی رسالت کے کام کو انجام دیا؟ آیا ممکن تھا کہ حضرت ابوطالب (ع) جیسا کوئی اور شخص تلاش

۱۶۷

کریں کہ جو ان کی تبلیغ اور دعوت کی حمایت کرے؟

کیا اس قسم کے حامی اور مددگار کے بغیر اپنی دعوت اور لوگوں کی ہدایت کا اہم فریضہ انجام دے سکتے تھے؟

طائف کا سفر

جب پیغمبر اسلام(ص) پر وہ وقت آیا کہ آپ مکہ کے لوگوں کی حمایت اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تو آپ(ص) نے ارادہ کیا کہ طائف(۱) کا سفر کریں اور وہاں کے لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دیں اس امید کے ساتھ کہ وہ اسلام کو قبول کرلیں گے اور قریش کے سرداروں کے مقابلہ میں ان کی حمایت کریں گے_

پیغمبر(ص) خدا نے اپنی بیٹی فاطمہ(ص) کو اپنے عزیزوں میں سے ایک کے سپرد کیا اور تھوڑی سی خوراک اور پانی لے کر خفیہ طور پر مکہ سے باہر نکلے اور بندگان خدا کو ظلم و ستم، شرک و پلیدی اور گناہ سے نجات دلانے اور انہیں اللہ کی اطاعت اور بندگی کی طرف دعوت دینے کی غرض سے طائف کا رخ کیا_

مكّہ اور طائف کا درمیانی راستہ نہایت دشوار گزار اور کٹھن

____________________

۱) طائف ایک ٹھنڈا شہر ہے جو مكّہ سے بارہ فرسخ کے فاصلہ پر واقع ہے اور ثقیف قبیلہ جو قریش کا سب سے بڑا قبیلہ تھا وہاں سکونت پذیر رہا ہے

۱۶۸

تھا آپ خستہ حال لیکن ایمان کامل اور بھر پور امید کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے وہاں آپ بالکل اجنبی اور ناآشنا تھے_

اگر چہ طائف کے اکثر لوگوںنے آپ کا نام اور آپ کے دین کے متعلق تھوڑا بہت سن رکھا تھا لیکن لوگوں نے آپ کو نزدیک سے نہیں دیکھا تھا اور وہ آپ کو نہیں پہچانتے تھے_

آپ شہر میں داخل ہوئے اور گلی کو چوں کا رخ کیا کہ شاید کوئی شناسا مل جائے لیکن آپ کو کوئی شناسا نظر نہین آیا کہ جو شہر کے رؤسا اور بزرگوں کے گھروں تک رہنمائی کرے اور آپ(ص) سے آپ کی مدد کے متعلق دریافت کرے کہ آپ(ص) اس شہر میں کیوں تشریف لائے ہیں؟

آخر کار کوئی صورت آشنا نہ پا کر رسول (ص) خدا نے خود اپنی پہچان کروائی اور اپنے سفر کے مقصد کو بیان کیا:

میں محمد بن عبداللہ، اللہ کا رسول(ص) ہوں، میں اللہ کی طرف سے تمہاری ہدایت و نجات کا پیغام لایا ہوں تم لوگ شرک و بت پرستی اور ظلم و ستم سے ہاتھ اٹھا لو اور خدا کی اطاعت کرو اور تقوی اختیار کرو اور میری پیروی کرو تا کہ تمہیں دنیا و آخرت کی پاکیزہ زندگی اور دائمی و نیک زندگی کی طرف راہنمائی کروں میں تمہیں قیامت کے دن حاضر ہونے سے ڈراتا ہوں اور آخرت کے عذاب سے خوف دلاتا ہوں ڈرو اس وقت سے جب کام تمام ہوجائے اور تم کافر و مشرک

۱۶۹

دنیا سے چلے جاؤ کہ پھر قیامت کے دن حسرت و عذاب میں گرفتار ہوگے میری دعوت کو قبول کرلو تا کہ دنیا و آخرت میں فلاح پاؤ میری اور میری آسمانی دعوت کی حمایت کرو تا کہ میں تمام لوگوں کو دین اسلام کی طرف بلا سکوں''

لیکن قبیلہ ثقیف کے سرداروں کے دل ظلم و ستم کی وجہ سے سخت اور تاریک ہوچکے تھے انہوں نے آپ کی آسمانی ندا کو قبول نہ کیا بلکہ آپ(ص) کے ساتھ بے جا اور ناروا سلوک کیا_ رسول (ص) خدا بہت زیادہ ملول ہونے کہ یہ لوگ کیوں اپنی گمراہی پر اصرار کر رہے ہیں؟ کیوں بتوں کی عبادت کرتے ہیں؟ کیوں ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں اور نہ دیکھتی ہیں اور نہ ہی وہ ان کو کچھ دے سکتی ہیں؟

کیوں لوگ میرے نور پیغمبر(ص) کی جو اللہ نے مجھے عنایت کیا ہے پیروی نہیں کرتے؟ کیوں خدا کی وحدانیت کا اقرار نہیں کرتے؟

کیوں اپنی برائیوں اور ظلم پر باقی رہنا چاہتے ہیں؟

کیوں یہ لوگ اپنے ان برے اعمال سے دنیا و آخرت کی ذلت و خواری میں اپنے آپ کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں؟ ...؟

رسول (ص) خدا افسردہ اور بے قرار ہوگئے اور مجبور ہوکر ان کے گھر سے باہر نکل آئے اور دوسرے لوگوں کودعوت دینا شروع کردیں_ تقریباً ایک مہینہ تک آپ(ص) نے اس شہر میں قیام کیا اور لوگوں سے جو کوچہ و بازار سے گزرتے تھے گفتگو اور آخرت کی دنیا____ میں انسانی اعمال کی

۱۷۰

قدر و قیمت اور زندگی کی غرض و غایت اور صحیح راہ و رسم کے بارے میں لوگوں کو بتایا اور انہیں خداپرستی اور خدا دوستی اور اللہ کی اطاعت کی طرف دعوت دی اور آخرت کے عذاب سے ڈرایا_ لیکن آپ(ص) کے وعظ و نصیحت اور تبلیغ نے ان کے تاریک دلوں پر کوئی زیادہ اثر نہ کیا گو کہ ان میں سے بعض کے دلوں میں کہ جو بہت زیادہ آلودہ نہیں ہوئے تھے ایک نور سا چمک اٹھا تھا اور آہستہ آہستہ تاریکی اور برائی چھٹتی چلی گئی_

لیکن مستکبرین اور سردار کہ جو اپنی قدرت اور منافع کو خطرے میں دیکھ رہے تھے انہوں نے تدریجاً خطرے کا احساس کرلیا اور بعض نادان اور کمینے انسانوں کو ابھارا کہ وہ جناب رسول(ص) خدا کی راہ میں زحمتیں اور روکاوٹیں پیدا کریں آپ(ص) کا مذاق اڑائیں اور آپ کی گفتگو کے درمیان شور و غل مچائیں اور انہیں ناسزا کہیں اور پتھر ماریں_

آخر کار ایک دن جب آپ(ص) لوگوں کے درمیان تقریر فرما رہے تھے کہ اوباش قسم کے انسانوں اور دھوکہ میں آئے ہوئے نادانوں نے کہ جنہیں مستکبرین نے بھڑکایا تھا آپ کے گرد گھیرا ڈالا اور آپ کو پتھر مارنے شروع کردئے اور کہنے لگے کہ ہمارے شہر سے نکل جاؤ_

طائف سے خروج

پیغمبر اسلام(ص) نے مجبور ہوکر شہر سے باہر کا رخ کیا_ بے وقوف اور نادان لوگ اب بھی آپ(ص) کا پیچھا کر رہے تھے اور پتھر مار رہے تھے آپ(ص)

۱۷۱

کا جسم مبارک بری طرح زخمی ہوچکا تھا اور آپ(ص) کے پاؤں سے خون بہہ رہا تھا آپ(ص) تھکے ماندے خون آلود جسم اور غم و اندوہ کے ساتھ طائف سے نکل گئے_

آپ(ص) ان لوگوں کی ہدایت اور نجات کے لئے تنہا اور اجنبی ہوتے ہوئے اس شہر میں داخل ہوئے تھے جو ظلم کے اسیر تھے اور اب زخمی اور خستہ بدن کے ساتھ اس شہر سے باہر جا رہے تھے بالآخر طائف کے احمق اور کمین لوگوں نے آپ(ص) پر پتھر برسانا بند کئے اور آپ(ص) کا پیچھا چھوڑ کر اپنے ظلم اور تاریکی سے مغلوب شہر کی طرف واپس لوٹ گئے_

پیغمبر(ص) جو زخموں سے چور تھے اور تھکن کی وجہ سے مزید چلنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ایک ایسے درخت کے سایہ میں بیٹھ گئے جس کی شاخیں ایک باغ کی دیوار سے باہر نکلی ہوئی تھیں اور اپنے خدا سے یوں مناجات کرنے لگے اے پروردگار میں اپنی کمزوری و ناتوانی اورناتوان لوگوں کے ظلم و ستم کو تیرے سامنے بیان کرتا ہوں اے مہربان خدا اور اے مستصعفین کے پروردگار مجھے کس کے آسرے پر چھوڑا ہے؟ کیا مجھے بیگانوں کے لئے چھوڑدیا ہے؟ تا کہ وہ اپنے سخت اور کرخت چہرے سے مجھے دیکھیں؟ کیا تجھے پسند ہے کہ دشمن مجھ پر مسلط ہوجائے؟

خدایا میں ان تمام مصائب کو تیرے لئے اور تیرے بندوں کی خاطر برداشت کر رہا ہوں_

۱۷۲

باغ کا مالک آپ(ص) کی یہ حالت دور سے دیکھ رہا تھا اس کا دل پیغمبر اسلام(ص) کی اس حالت پر دکھا انگور سے بھری ایک ٹوکری غلام کے حوالہ کی جس کا نام ''عداس'' تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) کو دے آئے_

عداس نے ٹوکری کو اٹھایا اور پیغمبر(ص) خدا کے نزدیک لایا_ پیغمبر(ص) کا تھکا ہوا نورانی چہرہ، زخمی جسم، اور خون میں آلودہ پاؤں اس کے لئے تعجب خیز تھے_ اس نے انگوروں کی ٹوکری پیغمبر(ص) کی خدمت میں پیش کی اور ادب سے بولا:

شوق فرمایئےان انگوروں میں سے کھا لیجئے''

اور خود ایک طرف جاکر کھڑا ہوکیا اور حیرت سے اللہ کے پیغمبر کی جانب دیکھنے لگا_

رسول خدا(ص) نے کہ جو بھوک و پیاس سے نڈھال تھے ایک خوشہ انگور کا اٹھایا اس کے صاف شفاف دانوں پر نظر ڈالنا شروع کردیا_

کتنی بر محل اور موقع کی مناسبت سے رسول خدا(ص) کی مہمانی کی گئی آپ(ص) کا خشک گلاتر ہوگیا''

عداس جو بڑی توجہ سے رسول خدا(ص) کی طرف دیکھ رہا تھا جب اس نے_ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا کلمہ رسول (ص) خدا سے سنا تو سخت تعجب ہوا اور پوچھا:

اس کلمہ سے کیا مراد ہے؟ اس کلمہ کو آپ نے کس سے سیکھا ہے؟

۱۷۳

رسول خدا(ص) نے عداس کی صورت کو محبت آمیزنگاہ سے دیکھا اور پھر اس سے پوچھا:

تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ تمہارا کیا دین ہے؟

اس نے جواب دیا_

نینوا کا رہنے والا ہوں اور مسیحی دین رکھتا ہوں''

اچھا نینوا کے ہو جو اللہ کے نیک بندے یونس (ع) کا شہر ہے_

یونس جو متی کے فرزند ہیں''

عداس کی حیرانی میں اور اضافہ ہوا اور پوچھا کہ:

آپ(ص) یونس (ع) کو کس طرح جانتے ہیں؟ اور ان کے باپ کا نام کس طرح معلوم ہے؟ خدا(ص) کی قسم جب میں نینوا سے باہر نکلا تو اس وقت دس لوگ بھی نہیں تھے جو جناب یونس (ع) کے باپ کو جانتے ہوں آپ(ص) ان کو کس طرح پہچانتے ہیں؟ اور کس طرح ان کے باپ کا نام جانتے ہیں؟ اس خطّے کے لوگ جاہل ہیں اور آپ(ص) نے یونس (ع) کے باپ کا نام کس سے معلوم کیا ہے_

رسول خدا(ص) نے فرمایا:

یونس میرا بھائی اور خدا کا پیغمبر(ص) تھا اور میں بھی خدا کا پیغمبر ہوں خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ اپنے تمام کاموں کا آغاز اس کے نام اور اس مقدس کلمہ ''بسم اللہ الرحمن الرحیم'' سے کروں جانتے ہو کس لئے؟

عداس کہ جس کا دل روشن اور حق کو قبول کرنے پر راغب تھا بہت خوش ہوا اور پیغمبر خدا(ص) کی دعوت اور آپ(ص) کی پیغمبری کے

۱۷۴

متعلق بہت سے سوالات کئے پیغمبر اسلام(ص) باوجود اسکے کہ بہت تھکے ہوئے تھے اس کے تمام سوالات کا بہت صبر و حوصلہ سے جواب دیتے رہے_ عداس کی گفتگو پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ کئی گھنٹوں تک جاری رہی اور آخر کار پیغمبر اسلام(ص) کی رسالت کی دعوت کی حقیقت اس پر واضح ہوگئی وہ آپ(ص) پر ایمان لے آیا اور مسلمان ہوگیا_

پیغمبر اسلام(ص) بھی اس کے اسلام لانے سے بہت خوش ہوئے اور اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس سفر میں ایک محروم اور ستم رسیدہ انسان کی ہدایت کی _

آپ(ص) نے عداس کو خداحافظ کہا اور مكّہ کی طرف روانہ ہوگئے اس مكّہ کی جانب کہ جسکے رہنے والے مشرکین تلواریں نکالے آپ(ص) کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے راستہ بہت سخت اور دشوار تھا_ لیکن اللہ کی طرف سے ذمہ داری اور ماموریت اور سول (ص) خدا کا ہدف زیادہ اہم تھا آپ(ص) نے چلنا شروع کیا آپ(ص) کے پاک و پاکیزہ خون کے قطرے آپ کے ایمان راسخ اور خدا کے بندوں کی ہدایت کی راہ میں_ استقامت کو راستے کے سخت پتھروں پر نقش کی صورت میں چھوڑ رہے تھے_

آیت قرآن

( لقد جاء کم رسول مّن انفسکم عزیز علیه ما عنتّم حریص

۱۷۵

علیکم بالمؤمنین رء وف رّحیم)

سورہ توبہ آیت ۱۲۸''

تم میں سے رسول ہدایت کے لئے آیا ہے تمہاری پریشانی اور رنج اس پر سخت ہے وہ تمہاری ہدایت کے لئے حریص و دلسوز ہے اور مومنین پر مہربان اور رحیم ہے''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر خدا(ص) اپنی تبلیغ و گفتگو میں لوگوں کو کن اصولوں کی طرف دعوت دیتے تھے؟

۲)___ حضرت ابوطالب (ع) کی وفات نے پیغمبر اسلام(ص) کی تبلیغ اور دعوت پر کیا اثر ڈالا؟

۳)___ پیغمبر(ص) نے طائف کا سفر کس غرض سے کیا تھا؟ کتنی مدّت طائف میں رہے اور اس مدّت میں آپ(ص) کی تبلیغ کا کیا پروگرام تھا؟

۴)___ شہر کے بزرگوں اور سرداروں نے کس طرح پیغمبر(ص) کی تبلیغ کی مزاحمت کی؟ اور کیوں؟

۵)___ رسول خدا(ص) نے طائف کے شہر سے نکلنے کے بعد اللہ سے کیسی مناجات کی اور خدا سے کیا کہا؟

۶)___ اس حالت میں کس نے آپ(ص) کی مہمان نوازی کی؟

۱۷۶

۷)___ عداس نے کس چیز کے سبب تعجب کیا؟ اور رسول (ص) سے کیا سوال کیا؟

۸) کس چیز کو سن کر عداس کے تعجب میں اضافہ ہوا؟

۹)___ عداس کس طرح مسلمان ہوا پیغمبر اسلام(ص) عداس کے مسلمان ہونے سے کیوں خوش ہوئے؟

۱۷۷

پیغمبر اکرم(ص) کی بیعت

حج کے ایام میں بہترین اور مناسب موقع تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) مشرکین کے کسی دباؤ کے بغیر لوگوں سے گفتگو کرسکیں اور انہیں اسلام کے بارے میں غور و فکر کی دعوت دے سکیں اور اسلام و ایمان کے نور کو لوگوں کے دلوں میں روشن کرسکیں_

اس مرتبہ پیغمبر اسلام (ص) خزرج قبیلہ کے چھ آدمیوں سے گفتگو کر رہے تھے اپنے دل نشین اور آسمانی آہنگ میں لوگوں کے لئے قرآن مجید کی ان آیات کی تلاوت فرما رہے تھے جو خداپرستی کی تائید اور شرک و بت پرستی کی نفی کے بارے میں تھیں اور بعض آیات عقل و دل کو بیدار کرنے کے بارے میں تھیں_

ان آیات میں سے چند ایک بطور نمونہ یہاں تحریر کی جاتی ہیں جن

۱۷۸

کا تعلق سورہ نحل سے ہے''

خدا آسمان سے بارش برساتا ہے اور مردہ کو زندہ کرنا ہے، البتہ اس میں واضح اور روشن نشانی ہے اس گروہ کے لئے جو بات سننے کے لئے حاضر ہو تمہیں چوپایوں کی خلقت سے عبرت حاصل کرنا چاہئے_ خون اور گوبر کے درمیان سے پاکیزہ اور خوش مزہ دودھ تمہیں پلاتے ہیں کھجور اور انگور کے درخت کے پھولوں کو دیکھو کہ جس سے شراب بناتے ہو اور اس سے پاک و پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو اس میں عقلمندوں کے لئے واضح علامت موجود ہے تیرے خدا نے شہد کی مكّھی کو وحی کی ہے کہ وہ پہاڑوں او ردرختوں میں گھر بنائیں اور تمام میوے کھائیں اور تیرے اللہ کے راستے کو تواضع سے طے کریں اور دیکھو کہ ہم کس طرح شہد کی مکھی سے اس طرح کا مزیدار شربت مختلف رنگوں میں باہر لاتے ہیں کہ جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے اور اس میں سوچنے والوں کے لئے واضح نشانی موجود ہے خدا ہی ہے جس نے تمہیں خلق کیا اور وہی ہے جو تمہیں موت دے گا تم میں سے کچھ لوگ ضعیفی اور بڑھا پے کی عمر کو پہنچ جائیں گے کہ کچھ بھی نہیں سمجھ پائیں گے البتہ خدا علیم و قدیر ہے

پس کیوں غیر خدا کی پرستش کرتے ہیں وہ چیزیں کہ

۱۷۹

جن کے ہاتھ میں زمین و آسمان کی روزی نہیں ہے، کچھ نہیں اور نہ ہی ان کے ذمہ کوئی کام ہے

قرآن مجید کی آیات کے معنی اور پیغمبر(ص) کی حکیمانہ اور دل نشین اور محبت بھری گفتگو نے ان لوگوں پر بہت اچھا اثر کیا اور انہیں اسلام کا گرویدہ بنادیا اس کے علاوہ انہوں نے یہودیوں سے سن رکھا تھا کہ حضرت موسی (ع) نے اپنی آسمان کتاب میں خبر دی ہے کہ ایک پیغمبر مکہ سے اٹھے گا جو وحدانیت او رتوحید پرستی کی ترویج کرے گا_ غرض پیغمبر خدا(ص) کی اس تمہیدی گفتگو ان کی روح پرور باتیں سن کر اور ان کا محبت بھرا انداز دیکھ کر ان میں ایک نئی روح پیدا ہوئی اور انہوں نے اسی مجلس میں اسلام قبول کرلیا،

جب وہ لوگ پیغمبر(ص) سے جدا ہونے لگے تو کہنے لگے کہ:

ایک طویل عرصہ سے ہمارے اور اس قبیلے کے درمیان جنگ جاری ہے امید ہے کہ خداوند عالم آپ(ص) کے مذہب اور دین کے وسیلے سے اس جنگ کا خاتمہ کردے گا اب ہم اپنے شہر یثرب کی طرف لوٹ کرجائیں گے تو آپ کے آسمانی دین اسلام کو لوگوں سے بیان کریں گے_

یثرب کے لوگوں نے تھوڑا بہت حضرت محمّد اور آپ کے دین کے متعلق ادھر ادھر سے سن رکھا تھا لیکن ان چھ افراد کی تبلیغ نے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے ایک مناسب فضا پیدا کردی اور اسلام کے لئے حالات سازگار بنادئے اور یوں کافی تعداد میں لوگ

۱۸۰