‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 254
مشاہدے: 69340
ڈاؤنلوڈ: 3312


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69340 / ڈاؤنلوڈ: 3312
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد 4

مؤلف:
اردو

بہتر یہ ہے کہ ہم دونوں اکٹھے بازار چلیں او رکوئی سستا لباس تلاش کریں،

ہم دونوں بازار کی طرف چل دیئے راستے میں ایک لڑکی گلی کے کنارے بیٹھی رو رہی تھی_ رسول خدا(ص) اس کے نزدیک گئے اور پوچھا ''پیاری بیٹی'' کیا ہوا ہے؟ کیوں پریشان ہو؟

کیوں رو رہی ہو؟

وہ چھوٹی بچّی پیغمبر خدا(ص) کو پہچانتی تھی اس نے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کئے اور بولی:

یا رسول اللہ(ص) میں ایک گھر کی کنیز او رخدمتگار ہوں مجھے چار درہم دیئےئے کہ ان سے سودا خریدوں لیکن وہ پیسے مجھ سے کہیں گم ہوگئے ہیں، اگر خالی ہاتھ گئی تو وہ پوچھیں گے اور مجھے ماریں گے_ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کروں؟ گھر جانے کی ہمت نہیں ہو رہی ...''

پیغمبر خدا(ص) نے نہایت مہربانی اور شفقت سے اسے تسلّی دی اور فرمایا:

بیٹی افسوس نہ کرو، یہ چار درہم لو اور سودا لے کر گھر لوٹ جاؤ''

اس لڑکی نے وہ درہم لئے اور خوش خوش وہاں سے چلی گئی ہم بھی بازار کی طرف روانہ ہوگئے پیغمبر(ص) نے ایک سادہ لباس چار درہم میں

۲۲۱

خریدا وہیں پہنا اور خدا کا شکر ادا کیا''

کیا ہی اچھا ہوا گر آپ یہ جان لیں کہ جب پیغمبر(ص) نیا لباس پہنتے تھے تو کیا دعا فرماتے تھے آپ(ص) فرماتے تھے_

اللہ کا شکر ہے کہ اس نے یہ لباس مجھے عنایت فرمایا تا کہ اس کے ذریعے میں اپنے بدن کو ڈھانپ سکوں خدایا اس لباس کو میرے لئے خیرو برکت کا لباس قرار دے اور مجھے اس میں سالم اور عافیت سے رکھ''

ہمارے پیغمبر گرامی کبھی اللہ تعالی کی یاد سے غافل نہیں ہوا کرتے تھے اپنے آپ کو اس کا بندہ سمجھے تھے اور ہمیشہ اس کے بے شمار الطائف اور نعمتوں پر شکر ادا کرتے تھے_

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

جب ہم گھر واپس آئے تو ایک آدمی کو دیکھا جو ایک پھٹا پرانا لباس پہنے ہوئے لوگوں سے مدد کا طالب ہے اور کہہ رہا ہے کہ جو بھی میرے جسم کو لباس کے ذریعہ ڈھانپے گا خدا اسے بہشتی لباس پہنائے گا_ پیغمبر(ص) اس کے نزدیک گئے، ابھی کچھ دیر پہلے جو لباس آپ(ص) نے خریدا تھا اسے اپنے جسم سے اتارا اور اس مرد کو دے دیا اور فرمایا کہ اسے پہن لو، آپ(ص) نے کچھ دیر اس س اور باتیں کیں، وہ آدمی بہت خوش ہوا اور پیغمبر(ص) کا شکریہ ادا کرنے لگا''

پیغمبر(ص) نے فرمایا:

۲۲۲

جو مسلمان اللہ کی رضا کی خاطر کسی مسلمان کو لباس دے گا تو جب تک وہ لباس اس مسلمان کے جسم پر رہے گا لباس دینے والا خدا کی ضمانت و حفاظت اور خیر و برکت ہیں رہے گا_

ہم دوبارہ بازار آئے اور چار در ہم میں ایک اور قمیص خریدی پیغمبر(ص) نے اسے پہنا اور پھر اسی طرح اللہ کا شکر ادا کیا اور گھر کی طرف واپس آنے لگے راستہ میں ہمیں یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ وہ لڑکی جسے ہم نے پہلے چار درہم دیے تھے وہ ابھی تک گلی کے کنارے بیٹھی ہوئی ہے پیغمبر(ص) اس کے نزدیک گئے اور پوچھا:

گھر کیوں نہیں گئی؟ کیا کچھ خریدا نہیں؟''

لڑکی نے جواب دیا:

یا رسول اللہ کیوں نہیں چیزیں تو میں نے خرید لی ہیں لیکن بہت دیر ہوگئی ہے ، میں ڈرتی ہوں کہ گھر والے مجھے ماریں گے اور کہیں گے کہ اتنی دیر کیوں کی؟''

پیغمبر(ص) نے فرمایا''

ڈرو نہیں، میں تمہارے ساتھ چل کر تمہاری سفارش کرتا ہوں لڑکی خوش ہوگئی اور گھر کا پتہ بتانے کے لئے ہمارے آگے آگے چلنے لگی جب ہم گھر کے دروازے پر پہنچے تو پیغمبر(ص) نے بآواز بلند گھر کے مالک کو سلام کیا کسی نے جواب نہ دیا، دوبارہ سلام کیا پھر بھی کوئی جواب نہ پایا _

پیغمبر(ص) ہمیشہ پسند کرتے تھے کہ مسلمانوں کو سلام کریں،

۲۲۳

جس کے پاس سے گزرتے اسے سلام کرتے خواہ وہ فقیر ہو یا امیر، چھوٹا ہو یا بڑا آپ(ص) نہایت عمدہ سلوک و رفتار کے مالک تھے آپ(ص) کے لبوں پر ہمیشہ ہلکی ہلکی مسکراہٹ کھیلتی رہتی اورآپ(ص) زور سے قہقہہ لگا کرنہیں ہنستے تھے، ہمیشہ انکساری سے پیش آتے تھے لیکن اس انکساری میں احساس کمتری کا ذرہ برابر شائبہ تک نہ ہوتا تھا آپ(ص) سخی تھے لیکن ہرگز فضول خروچی نہیں کرتے تھے نرم دل اور رقیق القلب تھے، تمام مسلمانوں سے محبت کرنے والے اور ان پر مہربان تھے،

اسی تواضح و انکساری کے پیش نظر آپ(ص) نے تیسری مرتبہ سلام کیا کسی نے گھر کے اندر سے جواب دیا،

السلام علیکم یا رسول اللہ(ص)

اور فوراً دروازہ کھول دیا_

رسول خدا(ص) نے فرمایا:

میں نے اس سے پہلے دو مرتبہ سلام کیا تھا لیکن تم نے کوئی جواب نہیں دیا، کیا میری آواز کو نہیں سن رہے تھے؟

صاحب خانہ نے دست بستہ عرض کیا:

کیوں نہیں یا رسول اللہ(ص) لیکن آپ(ص) کی دلکش آواز اور سلام کرنا میرے دل کو اس قدر بھایا کہ بے اختیار میرا جی آپ(ص) کی من موہنی آواز کو دوبارہ سننے کے لئے مچل گیا''

پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا:

یہ لڑکی تاخیر سے گھر لوٹی ہے لیکن یہ بے قصور ہے، میں اس لئے آیا

۲۲۴

ہوں کہ اس کی سفارش کروں، تم اسے معاف کردو''

صاحب خانہ کہا،

یا رسول(ص) اللہ آپ(ص) کی بابرکت تشریف آوری کے سبب میں نے اس لڑکی کو معاف کیا اور راہ خدا میں آزاد کیا،

پیغمبر خدا(ص) بہت خوش ہوئے، صاحب خانہ کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی ساتھ خداوند عالم کا بھی شکر ادا کیا_

واپسی میں آپ(ص) نے مجھ سے فرمایا:

یا علی (ع) یہ بارہ درہم کتنے بابرکت تھے جنہوں نے دو آدمیوں کو لباس پہنایا اور ایک کنیز کو آ زاد کردیا''

سچ ہے، اگر پیغمبر(ص) نے اس قیمتی لباس کو پہن لیا ہوتا تو کس طرح ممکن تھا کہ ان کی مدد ہوسکی تھی پیغمبر(ص) کے بارے میں کتنا اچھا کہا گیا ہے کہ وہ ''خفیف المؤونہ و کثیر المعونہ'' (کمتر مدد لینے والے اور زیادہ مدد کرنے والے) البتہ ہر مسلمان کو چاہیئےہ وہ آپ(ص) کی پیروی اختیار کر کے ایسا ہی ہوجائے_

آیت قرآن

( امنوا بالله و رسوله و انفقوا ممّا جعلکم مستخلفین فیه فالّذین امنوا منکم و انفقوا لهم اجر کبیر)

۲۲۵

خدا اور اس کے رسول (ص) پر ایمان لاؤ اور اس سے جو خدا نے بطور امانت تمہارے اختیار میں قرار دیا ہے خرچ کرو تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے اور خرچ کرتے ہیں ان کے لئے بہت بڑا اجر ہوگا_

''سورہ مائدہ آیت ۷''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱) ___وہ چھوٹی بچّی جو پیغمبر اکرم(ص) کو راستے میں ملی کیوں رو رہی تھی؟ پیغمبر(ص) نے اس سے کیا پوچھا؟ اس نے آپ(ص) کو کیا جواب دیا؟

۲)___ جب پیغمبر(ص) نیا لباس پہنتے تھے تو کس طرح اور کن الفاظ میں اللہ کا شکر ادا کرتے تھے؟ اور خدا سے کیا طلب کرتے تھے؟

۳) ___پیغمبر(ص) نے ایک مسلمان کو رضائے الہی کی خاطر لباس پہننے کا کیا ثواب بیان فرمایا ہے؟

۴) ___پیغمبر(ص) نے واپس لوٹنے پر اس لڑکی کس حالت میں دیکھا؟ اور اس سے کیا گفتگو کی؟

۵)___ رسول (ص) کی سیرت لوگوں کو سلام کرنے اور ان سے میل ملاپ میں کیسی تھی؟ کیا تم بھی کوشش کرو گے کہ رسول (ص) کی طرح لوگوں سے شفقت اور مہربانی سے پیش آؤ؟

۲۲۶

۶)___ رسول خدا(ص) کے بارے میں کہا گیا کہ وہ خفیف الموؤنہ اور کثیر المعونہ'' تھے اس کی وضاحت کیجئے؟

۷)___ پیغمبر خدا(ص) کی صفات میں سے دس صفات کو بیان کیجئے؟

۲۲۷

باہمی تعاون

جو شخص بھی اپنے آپ کودوسروں سے برتر سمجھے اور اپنے بوجھ کو دوسروں پر ڈالے، خدا کے غیظ و غضب کا شکار ہوگا''

لعنت اور نفرین ہو اس پر کہ جو اپنی زندگی کا بوجھ دوسرے کے کندھے پر ڈالتا ہے،

یہ دونوں اقوال رسول گرامی (ص) کے ہیں_ آپ(ص) مسلمانوں کو تعلیم دیتے ہیں کہ سستی اور تن پروری سے پرہیز کریں او رمحنت و کوشش سے اپنی روزی اپنے ہاتھ سے کمائیں خدا کے لطف و کرم کی امید رکھیں اور اپنی دنیا کو پاک و پاکیزہ اور آباد بنائیں''

نہ صرف یہ کہ اپنے بوجھ کو دوسروں پر نہ ڈالیں بلکہ دوسرے مسلمانوں

۲۲۸

کے بوجھ کو بھی بانٹیں او راپنی مدد کا ہاتھ ان کی طرف بڑھائیں اور جان لیں کہ خداوند عالم نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور ان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا:

جانتے ہیں، رسول خدا(ص) نے اس نیک خصلت کی لوگوں کو کس طرح تعلیم دی____؟

کیا صرف اپنی گفتگو سے____؟

نہیں بلکہ گفتار سے زیادہ اپنے رفتار و عمل سے آپ(ص) نے اچھی باتوں کی تعلیم دی کیونکہ پیغمبراکرم(ص) جو کچھ فرماتے تھے اس پر کامل ایمان رکھتے تھے اور اس سے پہلے کہ لوگوں کو کسی کام کی دعوت دیں، خود اس پر ایمان اور بصیرت سے عمل کرتے تھے_

لوگ بھی چونکہ آپ(ص) کی صداقت اور ایمان کو نہ صرف آپ کے قول میں بلکہ آپ کے اعمال و افعال بھی دیکھ رہے ہوتے تھے لہذا آپ(ص) سے اور آپ(ص) کے خدائی پیغام سے عقیدت کا اظہار کرتے اور آپ(ص) کی پیروی کرتے تھے،

اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے بہتر یہ ہے کہ ہم آپ(ص) کے ساتھ ایک سفر پر چلیں اور آپ(ص) کے سلوک و رفتار اور عادات و اطوار کو بالخصوص لوگوں کی مدد اور ان سے مدد و تعاون کے سلسلے میں آپ(ص) کی روش کو قریب سے دیکھیں_

پیغمبر(ص) سفر پر جانے کے لئے تیار ہیں آپ(ص) نے کنگھی، مسواک، اور مختصر سا سامان سفر اٹھایا، اور اپنے ہم سفروں اور ساتھیوں کو بھی

۲۲۹

ہدایت کر رہے ہیں کہ وہ سب بھی اپنا سامان سفر اور ضرورت کی چیزیں ساتھ لے لیں تا کہ سفر میں دوسروں کے لئے زحمت کا باعث نہ بنیں_

تمام تیاریاں مکمل ہونے کے بعد آپ(ص) نے گھر سے نکلتے ہوئے اپنے اہل و عیال او ردوستوں کو نہایت گرم جوشی سے خداحافظ کہا جب قافلہ روانگی کے لئے حرکت میں آیا تو آپ نہایت خضوع و خشوع کے ساتھ خداوند متعال سے یوں مخاطب ہوئے_

خدایا تیری رضا و عنایت سے سفر کر رہا ہوں اور تیری ذات کی طرف متوجہ ہوں اور تیری رحمت پر اعتماد کرتا ہوں_ خدایا اس سفر میں تمام امید و اطمینان تیرے لطف سے وابسطہ ہے تو میری حاجات کو برلا جس چیز کو تو میرے لئے پسند کرتا ہے اسی کی توفیق عنایت فرما کہ تو میری مصلحت کو مجھ سے بہتر جانتا ہے خدایا: پرہیز گاری اور تقوی کو میرے راستے کا سامان قرار دے او رمجھے اپنی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار دے اور جس طرف بھی جاؤں مجھے نیکی اور اچھائی کی طرف متوجہ کردے''

اس سفر میں بھی دوسرے سفروں کی طرح آپ(ص) کاروان کے آخر میں چل رہے تھے تا کہ کمزور و ضعیف اور پیچھے رہ جانے والوں کی خبرگیری کرتے رہیں_

راستے میں ایک جگہ کھانا کھانے اور سستانے کے لئے

۲۳۰

یہ قافلہ ٹھہرا پیغمبر اکرم(ص) کے فرمان اور خواہش کے مطابق اونٹوں سے سامان اتار کر انہیں بیابان میں چھوڑ دیا گیا تا کہ وہ بھی گھاس پھونس سے اپنا پیٹ بھرلیں_

قافلہ کا ہر آدمی کسی نہ کسی کام میں مشغول ہوگیا ایک گروہ پانی لینے چلا گیا، کچھ لوگوں نے دنبہ ذبح کیا اور اس کی کھال اتارنے میں مشغول ہوگئے_ ایک دو آدمی انٹوں کی حفاظت کرنے لگے اسی دوران پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ میں آگ جلانے کے لئے بیابان سے سو کھی لکڑیاں اکٹھی کر کے لاتا ہوں_

اصحاب نے کہا:

یا رسول اللہ(ص) آپ (ص) تھکے ہوئے ہیں آرام کریں ہم خود سب کام انجام دے لیں گے؟''

آپ کا کیا خیال ہے؟

آیا رسول خدا(ص) نے اصحاب کی اس پیش کش کو قبول کرلیا ہو گا اور اپنی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے آ رام کی غرض سے لیٹ گئے ہوں گے؟

اس سلسلہ میں کیا جواب ہے آپ کا؟ خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھے اور اپنے کام کی زحمت کو ان کی گردن پر ڈالے

یہ تھا پیغمبر اکرم(ص) کا جواب :

تم بھی میری طرح سفر سے تھکے ہوئے ہو جس طرح

۲۳۱

میں غذا کھانے میں تمہارے ساتھ شریک ہوں گا کام کرنے میں بھی مجھے تمہارا شریک ہونا چاہیئےہ اسلامی طریقہ نہیں ہے کہ میں آرام کروں ا ور تم لوگ کام کرو نہیں ایسا نہیں ہوگا میں بھی تمہاری طرح کوئی کام انجام دوں گا''

آپ(ص) اٹھے اور جلانے کے لئے سوکھی لکڑیاں جمع کرنا شروع کردیں_ اس طرح تمام لوگوں نے مل جل کر اور باہمی تعاون سے کھانا تیار کیا ا ور نہایت مہر و محبت کے ساتھ اکٹھے بیٹھ کر تناول کیا_

پیغمبر اسلام(ص) باوجود اس مقام او رخدائی منصب اور اجتماعی حیثیت کے ایک عام مسلمان کی طرح زندگی بسر کرتے تھے آپ(ص) کی خوراک اور لباس بھی دوسرے عام مسلمانوں کی طرح تھا بلکہ بسا اوقات ان سے بھی زیادہ معمولی قیمت کا ہوا کرتا تھا اپنے ذاتی کاموں کو اکثر اوقات خود ہی انجام دیتے تھے اپنی جوتی اور لباس کو پیوند لگاتے تھے گھر کے کاموں میں مدد فرمایا کرتے تھے مشکیزہ کے ذریعہ گھر میں پانی لاتے تھے اور کبھی کبھی خودد کھانا تیار کرتے تھے: بچّوں کی نگہداشت و پرورش میں مدد کیا کرتے تھے_ گھر کا دروازہ کبھی خود آکر کھولتے تھے گندم اور جو کا آتا پیسنے اور روٹی پکانے میں مدد کیا کرتے تھے، حیوانات کا دودھ دوہتے تھے، انہیں پانی پلاتے اور چارہ ڈالتے تھے،

کشادہ روٹی سے لوگوں سے پیش آتے تھے اور خندہ پیشانی کے ساتھ لوگوں سے گفتگو کرتے تھے، کوشش کرتے تھے کہ ہر ایک کو یہاں تک کہ بچّوں کو بھی سلام کریں اور فرمایا کرتے تھے کہ:

۲۳۲

میں بچّوں کو سلام کرتا ہوں تا کہ بچّوں کا احترام او رعزّت میری امت کی ایک اچھی سنّت قرار پائے اور مسلمان بچّوں کو سلام کریں اور ان کا احترام کریں،

آپ(ص) بد مزاج اور بد زبان نہیں تھے اگر آپ کے سامنے کوئی کسی کی برائی کرتا تو آپ(ص) ناراض ہوجاتے اور فرماتے کہ رک جاؤ، کوئی اور بات کرو سب مسلمانوں کے لئے مہربان اور ہمدرد تھے اور ان کی مدد کو پہنچتے تھے_ اور اپنے کام دوسروں پر ڈالنے سے پرہیز کرتے تھے،

ایک دن مسلمانوں کی ایک جماعت جو سفر سے لوٹ کر آئی تھی آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے ساتھیوں میں سے ایک کی تعریف کرنے لگی_

یہ لوگ کہنے لگے وہ کتنا دیندار اور متّقی ہے اس نے کسی کو کوئی تکلیف اور ایذ انہیں پہنچائی جب ہم راستے ہیں کہیں قیام کرتے تو وہ فوراً پانی تلاش کر کے وضو کرتا اور نماز میں مشغول ہوجاتا اسے سوائے نماز اور دعا کے کسی کام سے سروکار نہ تھا،

پیغمبر اکرم(ص) نے دریافت کہا:

اگر اس کی سفر میں یہ عادت تھی تو اس کے کام کاج کون کرتا تھا؟ اس کے اونٹ کا سامان کون اتارتا تھا؟ کون اس کے لئے غذا اور پانی لاتا تھا؟ کون اس کے لئے کھانا پکاتا تھا؟ اور چلتے وقت کون اس کے اونٹ پر سامان لادتا تھا؟''

یا رسول(ص) اللہ ان تمام کاموں کو ہم فخریہ طور پر انجام دیتے

۲۳۳

تھے'' ان لوگوں نے جواب دیا،

رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا:

یقینا تم اس سے بہتر ہو او راللہ کے نزدیک بلند درجہ رکھتے ہو یہ ٹھیک نہیں کہ ایک مسلمان اپنے کام کا بوجھ دوسروں کی گردن پر ڈالے اور خود اپنے خیال میں عبادت کرنا شروع کردے نماز و دعا اپنی جگہ بہترین عبادت ہیں لیکن سعی و کوشش بھی ایک بہت بڑی عبادت ہے اور خداتعالی کی مخلوق کی خدمت کرنا بھی بڑی عبادت ہے''

اب آپ سوچئے کہ:

آپ کس طرح اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں؟ کن کاموں میں ان کے ساتھ مدد و تعاون کرتے ہیں؟

کیا آپ کا پّکا ارادہ ہے کہ اپنے مدرسے اور گھر کے کاموں کو خود انجام دیں گے اوردوسروں کے کاندھوں پر بوجھ نہیں ڈالیں گے؟

کیا آپ کوشش کرتے ہیں کہ ماں باپ اور دوسرے افراد کا بوجھ اٹھائیں اور خود کسی پر بوجھ نہ بنیں؟

مختصر یہ کہ آپ رسول خدا(ص) کی اس سنت پر کس طرح عمل پیرا ہوں گے؟

۲۳۴

آیت قرآن

( و تعاونوا علی البرّ و التّقوی و لا تعاونوا علی الاثم و العدوان)

نیک کاموں اور تقوی میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور ظلم و گناہ میں کسی سے تعاون نہ کرو''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ عام طور پر پیغمبر(ص) کون سی چیزیں سفر میں اپنے ہمراہ لے جاتے تھے؟ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ ان تمام چیزوں کا سفر میں ساتھ لے جانا رسول خدا(ص) کی کن صفات کی نشان دہی کرتا ہے___؟

۲) ___ پیغمبر(ص) سفر کرتے وقت اپنے اصحاب کو کیا تاکید کیا کرتے تھے اور کیوں؟

۳)___ رسول خدا(ص) کی عادت اور سیرت، سفر کرنے سے پہلے اپنی قوم، دوستوں اور اہل بیت (ع) کے ساتھ کیا تھی؟ پیغمبر(ص) کی یہ سیرت ہمیں کیا درس دیتی ہے؟

۴) قافلہ کی روانگی کے وقت رسول خدا(ص) کون سی دعا پڑھا کرتے تھے؟ آپ(ص) کی دعا کے الفاظ بتایئے

۲۳۵

۵) عام طور پر پیغمبر(ص) قافلے کے کس حصہ میں چلا کرتے تھے؟

۶) درمیان راہ قیام کے وقت، رسول خدا(ص) جانوروں کے متعلق کیا حکم دیا کرتے تھے؟

۷) خدا کے رسول (ص) نے غذا کی تیاری کے لئے کونسا کام اپنے ذمّہ لیا؟ اس وقت اصحاب نے آپ(ص) سے کیا کہا؟ آپ نے ان کے جواب میں کیا فرمایا؟

۸) پیغمبر(ص) بچّوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا کرتے تھے؟

۹) اگر پیغمبر(ص) کے سامنے کسی کی برائی کی جاتی تو آپ کیا فرماتے تھے؟

۱۰) پیغمبر(ص) نے ان لوگوں سے کہ جو اپنے ہمسفر کی تعریف کر رہے تھے کیا پوچھا تھا؟ اور ان سے ان کے ہمسفر کے بارے میں کیا فرمایا تھا؟

۲۳۶

ہمّت مرداں مدد خدا

اسلامی لغت میں ''سوال'' کے دو معنی بیان کئے جاتے ہیں ایک معنی پوچھنے کے ہیں_ یعنی نہ جاننے والا کسی جاننے والے سے سوال کرتا ہے، تا کہ اس طرح وہ اپنے علم میں اضافہ کرسکے اس لحاظ سے سوال کرنا بہت اچھا اور پسندیدہ فعل ہے_ جو شخص نہیں جانتا اسے چاہئے کہ وہ جاننے والوں سے سوال کرے تا کہ اس کے علم و آگاہی میں اضافہ ہوجائے دین اسلام کے پیشواؤں کے کلام میں ملتا ہے کہ علم و دانش کے بند دروازوں کی چابی ''سوال'' کرنا ہے''

سوال کے دوسرے معنی کسی سے مدد طلب کرنے اور بلامعاوضہ کوئی چیز مانگنے کے ہیں ان معنوں میں کسی سے سوال کرنا اسلامی نقطہ نگاہ سے بہت ہی برا اور ناپسندیدہ عمل ہے_

۲۳۷

ایک شخص نے پیغمبر(ص) سے پوچھا کہ:

یا رسول اللہ(ص) مجھے کوئی ایسا عمل بتایئےہ مجھے اس کے بجالانے کے بعد یقین ہوجائے کہ میں اہل جنّت میں سے ہوں''

پیغمبر(ص) نے اس کے جواب میں تین چیزوں کے متعلق فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ آخرت میں جنتیوں کے زمرے میں شامل ہوجاؤ تو ان تین چیزوں کی ہمیشہ پابندی کرو:

۱)___ بلاوجہ غصہ نہ کرو

۲)___ کبھی لوگوں سے سوال نہ کرو

۳)___ لوگوں کے لئے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لئے کرتے ہو_

نیز پیغمبر(ص) نے فرمایا:

جو شخص ایک دو دن کی روزی رکھنے کے باوجود لوگوں سے سوال کرے تو خداوند عالم اسے قیامت کے دن برے چہرے سے محشور کرے گا''

پیغمبر(ص) خدا مسلمانوں کی غیرت و شرافت انسانی کے اتنے قائل تھے کہ آپ کو پسند نہ تھا کہ کوئی مسلمان اپنی عزت و آبرو کو اس کے اور اس کے سامنے رسوا کرے اور بغیر ضرورت اور لاچاری کے سوال کے لئے لب کشائی کرے اور خدا کے سوا اور کسی سے حاجت طلب کرے_

آپ(ص) فرمایا کرتے تھے کہ مومن کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرتا پھرے حالانکہ آپ(ص) ضرورت کے وقت محتاجوں اور ضرورت مندوں کی مدد و نصرت بھی کیا کرتے تھے لیکن پسند نہیں کرتے کہ مومن

۲۳۸

اپنی عزّت و شرافت اور آبرو کو کسی کے سامنے رسوا کرے یہاں تک کہ خود پیغمبر(ص) کے سامنے بھی اظہار حاجت اور نیازمندی کرے اور آپ(ص) تاکید فرماتے تھے کہ:

ہر وہ شخص جو بے نیازی کا مظاہرہ کرے اور کسی سے سوال نہ کرے اور اپنے دل کے راز کو فقط اپنے خدا سے کہے تو خدا اسے بے نیاز کردے گا لیکن جو شخص بلاوجہ اس سے اور اس سے سوال کرے اور اپنی عزّت نفس کو مجروح کرے، خداوند عالم بھی اس کے لئے فقر و نیازمندی کے دروازے کھول دیتا ہے''

اس مطلب کو بہتر طور پر سمجھنے اور پیغمبر خدا(ص) کی انسان ساز اور عزّت آفرین سنّت کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے یہ واقعہ ملاحظہ فرمایئےور اس میں حضرت رسول خدا(ص) کے اس شخص سے برتاؤ پر توجّہ دیجئے_

ایک شخص مدّت سے بے کار تھا اور بے کاری نے اسے فقیر و تہی دست کردیا تھا اس کے سامنے فقر سے نجات اور ضروریات پوری کرنے کے تمام راستے بند ہوچکے تھے اور اس کا کوئی علاج دکھائی نہ دیتا تھا ایک دن اس شخص نے اس مسئلہ کو اپنی بیوی کے سامنے بیان کیا اور اس سے مشورہ طلب کیا،

اس کی بیوی نے کہا کہ رسو ل خدا(ص) ایک مہربان اور کریم و سخی انسان ہیں بہتر ہے کہ ان کی خدمت میں جاؤ اور اپنی حالت کو بیان کرو اور ان سے مدد طلب کرو_

۲۳۹

اس شخص کو یہ تجویز پسند آئی وہ اٹھا اور رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا، سلام کیا اور شرم کے مارے ایک کونے میں بیٹھ گیا_

رسول اکرم(ص) نے اس کے چہرے پر نگاہ ڈالی اور ایک ہی نگاہ میں تمام معاملے کو سمجھ گئے اس سے پہلے کہ وہ شخص اپنی مصیبت اور تنگدستی کے متعلق کچھ کہتا اور سوال کے لئے لب کشائی کرتا پیغمبر(ص) نے گفتگو کے لئے اپنے لب کھولے اور وہاں موجود افراد سے ان الفاظ میں خطاب فرمایا:

ہم ہر سائل کی مدد کریں گے لیکن اگر وہ بے نیازی اختیار کرے اور اپنا ہاتھ مخلوق کے سامنے نہ پھیلائے اور کام میں زیادہ محنت و کوشش کرے تو خدا اس کی احتیاج کو پورا کرے گا_

خدا کے رسول(ص) کی مختصر و پر معنی گفتگو اس محتاج انسان کے دل پر اثر کر گئی_ آپ کے مقصد کو اس شخص نے سمجھ لیا اپنی جگہ سے اٹھا آپ کو خداحافظ کہا اور اپنے گھر لوٹ آیا_ بیوی جو اس کے انتظار میں تھی اس نے ماجرا دریافت کیا_

مرد نے جواب دیا کہ:

میں رسول خدا(ص) کی خدمت میں گیا تھا اس سے پہلے کہ کچھ کہتا، رسول (ص) نے فرمایا کہ جو شخص چاہے ہم اس کی مدد کریں گے لیکن اگر بے نیازی اختیار کے اور اپنا ہاتھ کسی کے سامنے نہ پھیلائے تو خدا اس کی احتیاج کو دور کردے گا میں سوچتا ہوں کہ آپ(ص) کی نظر میری

۲۴۰