‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 254
مشاہدے: 69322
ڈاؤنلوڈ: 3312


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69322 / ڈاؤنلوڈ: 3312
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد 4

مؤلف:
اردو

مخلوقات کائنات ایک ہستی اور ایک لامحدود قوت پر تکیہ کئے ہوئے ہیں اور اس کی محبت و رحمت اور عطا کے سرچشمہ سے اپنا وجود اورہستی قائم رکھے ہوئے ہیں_

دلیل علّیت میں اس موضوع پرگفتگو ہوتی ہے کہ ہر موجود اپنے وجود کیلئے کسی سے وابستہ اور اس کا محتاج ہے_ اس کا وجود خود اس سے نہیں بلکہ ایک علّت کا محتاج ہے اور کائنات اور اس میں پایا جانے والا سب کچھ (جو تمام کے تمام موجود و مخلوق ہیں) لامحالہ قدرت کے ایک عظیم مرکز اور ایک لامحدود ہستی سے کسب فیض کرتے ہیں_ اس لامحدود قدرت کو خدا کہتے ہیں_

دونوں دلیلیں یعنی دلیل نظم اوردلیل علّیت اس لئے ہیں کہ یہ انسان پاک فطرت اور بیدار عقل سے حقائق کا مطالعہ کرے اور خداوند عالم کی ذات پر اپنے ایمان کومحکم اورمضبوط بنائے_

لیکن انسان کی پاک اورآگاہ فطرت، اپنے عظیم خالق و قادر پر اس طرح یقین رکھتی ہے اوریہ موضوع اس کے لئے اتنا واضح و روشن ہے کہ اس کے لئے معمولی سی دلیل و برہان کی بھی ضرورت نہیں_ یہ پاک فطرت اوریہ آگاہ انسان تمام موجودات کائنات کو اللہ تعالی کی قدرت اوراس کے ناقابل شکست ارادے پرتکیہ کرنے والادیکھتا ہے_ اور تمام مصائب اورسختیوں میں اسی سے پناہ کا طلب گار ہوتا ہے_ کبھی بھی ناامید اورمایوس نہیںہوتا_ کیوںکہ وہ جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہی طاقتورہوتا ہے_

یہ پاک فطرت اورآگاہ انسان سوائے خداوند عالم کے کسی دوسرے

۴۱

کے سامنے نہیں جھکتا اورسوائے اللہ تعالی کے فرمان اوراس کی حکومت و ولایت کے کسی کے فرمان وحکم کو قبول نہیں کرتا اور اپنی دنیاوی زندگی کو عزّت اورکامیابی کے ساتھ آخرت کی دائمی سعادت کی زندگی تک پہنچادیتا ہے_

آیت قرآن

( ربّکم ربّ السّموت و الارض الّذی فطرهنّ)

سورہ انبیاء ۲۱_ آیت ۵۶

''تمہارا رب ہے وہ جوزمین اور آسمان کا رب ہے کہ جس نے انہیں پیدا کیا_''

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱) ___دلیل و برہان کی تعریف بتایئے

۲)___ آپ اسوقت تک خداشناسی کے بارے میں کتنے دلائل سے واقف ہیں؟

۳)___ ''دلیل نظم'' کو کس طرح بیان کیا جاتا ہے؟ اس کا خلاصہ بیان کیجئے؟

۴) ___ ''دلیل علّیت'' کوکس طرح بیان کیا جاتاہے؟

۴۲

۵)___ خداشناسی کے لئے دلائل کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟

۶)___ کیاپاک فطرت خداشناسی کے لئے دلیل وبرہان کی محتاج ہے؟

۷)___ پاک فطرت انسان خداشناسی کے متعلق کیا خیالات رکھتے ہیں کیاایسے لوگ خدا کے علاوہ کسی اورکے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں؟ کیوںصرف فرامین الہی کوقبول کرتے ہیں؟

۴۳

خدا کی تلاش

جہاںتک تاریخ بتاتی ہے اورزمین کی کھدائی اورآثار قدیمہ کی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے، گزشتہ دور کے انسان حتّی کہ قبل از تاریخ کے انسان بھی خدا سے آشنا اورواقف تھے اور اس عظیم ذات کا احترام کرتے اور اس کی عبادت بجالاتے تھے اوراس ذات کی خوشی کی خاطر بعض مراسم انجام دیتے تھے_

لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ انسان ابتدا میںخدا کی طر ف کیسے متوجہ ہوا___؟ کون سے عوامل اور اسباب تھے جنھوں نے انسان کو خداپرستی کی فکر میں ڈالا؟ کون سے عوامل نے اس کی رہنمائی کی کہ وہ خالق کائنات کی جستجو اور تلاش کرے___؟ اس فکر مقصد اور اس کی بنیاد کیا تھی___؟ اصولاً کون سے عوامل اوراسباب اس بات کا باعث ہوئے کہ انسان خدا اور اس کی پرستش کی طرف متوجہ ہوا اور اس کے بارے میں سوچنے لگا___؟

۴۴

معمولی سے غور و فکر کے بعد اس سوال کا جواب معلوم کیا جاسکتا ہے، جیسے کہ تیسرے سبق میں بیان کیاجاچکا ہے کہ انسان فطرتاً معلول کی علّت و سبب کی تلاش وجستجو کرتا ہے_ انسان ابتدا ہی سے اس مسئلہ سے آگاہ ہے کہ ہر موجود اپنے وجود کے لئے کسی نہ کسی علّت کا محتاج ہے_ اسی بناپر وہ موجود کی علّت و سبب کا متلاشی نظر آتا ہے_ اگر بھوکا ہوتا ہے توغذا کی تلاش کرتا ہے کیونکہ غذاکوبھوک دورکرنے کی علّت و سبب سمجھتا تھا_ اگر پیاسا ہوتا توپیاس دورکرنے کے لئے پانی کی تلاش میں نکلتا، کیونکہ پانی کو پیاس کے دورکرنے کی علّت جانتا تھا اگرکسی آواز کودیوار کے پیچھے سے سنتاتواسے یقین ہوجاتا کہ آواز کی کوئی نہ کوئی علّت ہے اوراسکی علّت معلوم کرنے کے درپے ہوجاتا __ اوراگربیمارہوتا تواپنی بیماری کوکسی سبب وعلّت کا نتیجہ جانتا اوراس کے علاج کی فکر کرنے لگتا ہے سردی کودور کرنے کے لئے آگ کی پناہ ڈھونڈ تا کیونکہ گرمی کو سردی دورکرنے کی علّت جانتا_

علّت کی تلاش و جستجو ،ہر انسان کی خلقت وطینت میں موجود ہے اور ہر انسان ہمیشہ اس تلاش و جستجو میںرہتا ہے کہ موجودات کی علّت سے آگاہی حاصل کرے ہر موجود کے متعلق کہ وہ کیوں ہے اوراس کی علّت کیاہے اس کے سامنے واضح ہوجائے اورہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ اس علّت وسبب کی تلاش وجستجوکا درست اورقابل اطمینان جواب حاصل کرے_ اور جب تک اس کا صحیح جواب نہ پالے اسے آرام نہیں آتا_

انسان ذاتاً علّت کی تلاش کرنے والا موجود ہے اور وہ اپنی اس فطرت وطبیعت کوفراموش نہیں کرسکتا_

۴۵

تمام انسان، بشموں دوراوّل کے انسان بھی اس فطرت و طینت کے حامل تھا_ یہ انسان اس کائنات میں زندگی گزاررہا تھا اورروزمرّہ کی زندگی میں اسے مختلف حیرت انگیز حوادث وواقعات سے واسطہ پڑتا تھا_ دن رات کا پے درپے اورتسلسل کے ساتھ ظہور، سردی و گرمی، سورج چاند اورستاروںکی منظم حرکت، عجیب وغریب حیوانات اورنباتات، بلند و بالا پہاڑوں،وسیع وعریض دریاؤں اورپانی کاجاری ہونا، ان تمام کواپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور اس فکر اورسوچ میں ڈوب جاتا تھا کہ اس جہاں کی علّت کون ہے؟ اوراس کووجود میں لانے والاکون ہے؟

لامحالہ یہ منظم کائنات اپنی علّت رکھتی ہے اورخالق دانا اور توانا نے اسے پیدا کیا ہے اوروہی اسے چلارہا ہے_

اس طرح سے دور اوّل کے انسان اللہ تعالی سے واقف ہوئے اور انہوںنے اس کے وجود کااعتراف کیا اوراس کی عظمت اور قدرت کے سامنے خشوع و خضوع کیا_

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ایک گروہ انحراف کا شکار ہوا اور جھوٹے معبود دل کی پرستش میں مشغول ہوگیا اور آہستہ آہستہ بت پرستی، خورشید پرستی، چاند پرستی، آتش پرستی، ستارہ پرستی بھی لوگوں میںپیداہوگئی_

جھوٹے معبودوں کا پیدا ہوجانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ انسان اپنی فطرت میں موجود، علّت کی تلاش کے عنصر کیا بناپر یہ بات جانتا تھا کہ اس کائنات کی بقا کے لئے ایک علّت ضروری ہے لیکن اس نے بعض امورمیں غلطی واشتباہ کیا اورجھوٹے معبودوں کو خالق حقیقی اورکائنات کی علّت جانا اور ان کی

۴۶

پرستش میں مشغول ہوگیا_

مختصر یہ کہ انسان اس فطرت (علّت کی تلاش) کی وجہ سے جواس کی سرشت میں رکھی گئی ہے تمام موجودات کے لئے علّت تلاش کر رہا تھا اوراسی ذریعہ سے خالق کائنات کہ جوکائنات کی محتاج موجودات کی حقیقی علّت ہے سے واقف اورمطلع ہوا، اس کے وجود کوتسلیم کیا اوراس کی عبادت اورپرستش شروع کردی _

آیت قرآن

( و لئن سالتهم مّن خلق السّموت والارض لیقولنّ خلقهنّ العزیز العلیم)

اگران سے پوچھوکہ زمین اورآسمان کوکس نے خلق کیا ہے توجواب دیں گے کہ انھیں عزیز اورعلیم نے خلق کیا ہے (سورہ زخرف ۴۲_ آیت۹)

سوچیے اورجواب دیجئے

۱)___ کون سے اموراورعوامل نے انسان کوخداپرستی کی فکر میںڈالا ہے؟

۲)___ علّت کی تلاش یاعلّت جوئی سے کیا مراد ہے؟ انسان کی علّت جوئی سے متعلق کوئی مثال دیجئے؟

۴۷

۳)___ ہر موجود کے سلسلہ میں ''کیوں اورکس علّت سے''_ انسان کے سامنے واضح ہونے سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟

۴___ جھوٹے معبودوں کاپیدا ہونا کس بات کی دلیل ہے؟

۴۸

زمین اور آسمان کا خالق

اپنی عمرکے گزرہے ہوئے دور کاتصور کرتاہوں، اپنے بچپن کوذہن میںلاتا ہوں،گوکہ اپنے شیرخوارگی کے زمانے کوتوپردہ ذہن پر نہیں لاپاتا لیکن اپنے اس دور کے معصوم چہرے کواپنی ماں کی آغوش میںدیکھ سکتاہوں__ اپنی بہن کے چہرے کو جومجھ سے چھوٹی ہے اورحال ہی میں دنیا میںآئی ہے دیکھتا ہوں_

وہ اپنی خوبصورت ننّھی منّی آنکھیں کھولتی ہے،جیسے آسمان سے ابرب کا پردہ ہتا رہی ہے_ ہونے ہولے اپنے نازک بسوںپرمسکراہٹ بکھیرتی ہے اپنی چھوٹی چھوٹی انگلیوں سے چیزیں پکڑ کراپنے منہ کے قریب لے جاتی ہے_

میں گھنٹوں اس کے پاس بیٹھا سوچاکرتاہوں کہ___:

ماںکے پیٹ میں اسی طرح کس نے تیری پرورش کی ہے؟ وہ کیسا بہترین مصوّر ہے کتنا زبردست مجسمہ ساز ہے اوروہ کتنی اچھی طرح جانتا

۴۹

ہے کہ تجھے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے، نہ صرف یہ بلکہ اس نے تیری یہ تمام ضروریات پوری بھی کی ہیں_

اس کائنات کے نظارے کے لئے خوبصورت آنکھیں، طرح طرح کی آواز میں سننے کے لئے کان، اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہاتھ اورچلنے پھرنے کے لئے پیر عطافرمائے_

تیری محبت کوماں کے دل میںجگہ دی اوراس نے تیری اچھی طرح تربیت کی___

سچ بتا تیرا پروردگار کون ہے___؟

میںبھی تیری طرح ایک نوزائیدہ بچّہ تھا_ اس سے پہلے اپنے وجود کی کوئی شکل توکیا نشان بھی نہ رکھتا تھا، ایک قدرت منہ مصوّر نے مجھے یہ شکل و صورت اور رنگ وروپ عطا کیا اورایک طاقت ور وجود نے مجھے اس طرح بنایا ہے_

پھر میں بھی کیوں نہ پوچھوں کہ میرا پروردگارکون ہے___؟

تمام انسان اس طرح کاسوال اپنے آپ سے کرتے ہیں_ اپنے وجود کی ضروریات پرنظر ڈالتے ہیں_ اپنے بچپن،شیرخوارگی کازمانہ اور اس سے بھی پہلے جب کہ وہ اپنی ماںکے پیٹ میں تھے، تصور میں لاتے ہیں_ اپنی ضروریات اور ان کی تکمیل کومحسوس کرتے ہیں اور اس حقیقت کوپالیتے ہیں کہ

ایک بے نیاز اورطاقتور وجود نے انھیں خلق کیا ہے اور ان کی اس طریقہ سے پرورش کی ہے_ اورخود سے پوچھتے ہیںکہ:

ہمارا پروردگار کون ہے؟

ان کی پاک فطرت،ان کی اپنے بزرگ پروردگار کی طرف رہنماتی کرتی

۵۰

ہے اور ان کا واضح ادارک انھیں اس ذات کی ستائشے اور عبادت کی طرف راغب کرتا ہے_

ہمیشہ سے اور ہر دور میں انسان اپنے پروردگار (بے نیاز اور قادرمطلق) سے آشنا تھے اور صرف اسی کی پرستش کرتے تھے_ البتہ کبھی غلطی اور گمراہی کا شکار ہوجاتے اور بے جان بتوں، ناتواں مجسموں اور سورج چاند اورستاروں کو اپنا پروردگار سمجھتے لگتے تھے، ان کی تمام پریشانیوں اوربدبختیوں کا سبب یہی غلطی و گمراہی تھی_

اسی گمراہی کی وجہ سے وہ ہر قسم کی ذلّت کو برداشت کرلیتے تھے اور ہر قسم کے ظلم و ستم سہہ لیتے تھے_ جہالت اور گمراہی کے گہرے غار میں گرپڑتے تھے اور تاریکیوں کے اسیر ہوجاتے تھے_

لیکن مہربان خدا کہ جس نے ان کی پرورش کا وعدہ کیا ہے انھیں یوں ہی نہیں چھوڑ دیتا تھا_ انھیںبیدار اور آگاہ کرنے کے لئے پیغمبر بھیج دیتا تھا تا کہ ان کو اپنے پیغامات کے ذریعہ شرک کی تاریکیوں اورانحراف سے نجات دلاسکے_

پیغمبر ان کوبیدار کرنے کی کوشش کرتے تا کہ خداپرستی اور توحید کی طرف بلائیں اور شرک اوربت پرستی سے (جو تمام مشکلات اور پریشانیوں کا سبب ہے) مقابلہ کریں_

حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کے بڑے پیغمبروں میں سے ایک ہیں کہ جنھیں خداوند عالم نے لوگوں کی نجات اورہدایت کے واسطے بھیجا تھا تا کہ اپنی قوم کو بیدار اور آگاہ کریں اور ان کی عقلوں کے چراغ کو روشن کریں_ ان کے دلوں کو اپنے پروردگار کے عشق اورامید سے لبریز کردیں_ نیکیوں اوراچھائیوں کی ان کوتعلیم

۵۱

دیں اور برائیوں سے انھیں روکیں_

اس زمانے میں اکثر لوگ بت پرست تھے_ لکڑی اور پتّھر سے مجسمے بناتے تھے اور ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے_

یا سورج،چاند اور ستاروں کی پرستش کرتے تھے_

خداوند عالم نے ان لوگو کی ہدایت اورنجات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذمّے ڈال دی اور آپ کو دورجوانی میں اپنی قوم کے پاس بھیجا لیکن چونکہ وہ لوگ بت پرستی میں بری طرح مبتلا تھے اس لئے ان کی رہنمائی بہت شکل تھی_ اس کے باوجود حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی کے حکم سے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے کمر ہمّت باندھی_

آپ وقتاً فوقتاً ان کی عبادت گاہ میں جاتے اورجب موقع ملتا ان سے گفتگو کرتے_ خوش اخلاقی اورمہربانی کے ساتھ خالق کائنات (جو پوری دنیا کا خالق و پروردگار ہے) کے متعلق ان سے تبادلہ خیالات اوربحث و مباحثہ کرتے واضح اورروشن دلیلوں کے ذریعہ لوگوں کوخداشناسی کی طرف راغب کرتے_

آپ(ع) جانتے تھے کہ لوگوں کو شرک اور ذلّت اور ظلم سے نجات دلانے کے لئے پہلے مرحلہ میں ان کی عقل اور فکر کوبیدار کیا جائے_ لہذا آپ(ع) ان کی خوابیدہ عقلوں کوبیدار کرنے کی کوشش کرتے تھے_

جب آپ(ع) بت پرستوں کودیکھتے کہ بتوں کے سامنے سجدے میں گرے ہوئے ہیں توان سے پوچھتے:

کیا انہیں پوجتے ہو کہ جن کہ تم نے خود اپنے ہاتھ سے بنایا ہے؟ یعنی تمہارے ہاتھ کا بنایا ہوا یہ بت تو خود تمہاری مخلوق ہے پھر وہ کیسے تمہارا پروردگار

۵۲

اور خالق ہوسکتا ہے؟

وہ مجسمہ کہ جسے میں خود بناؤں کیسے میرا پروردگار ہوسکتا ہے؟ ایک مرتبہ آپّ ستارہ پرستوں کے عبادت خانے کے قریب سے گزرے، دیکھا کہ ایک جماعت اپنی آنکھیں آسمان کی طرف لگائے انتظار میں بیٹھی ہے_ آپ(ع) نے ان سے پوچھا_ کس کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہو_

انھوں نے کہا کہ رات کے انتظار میں، تا کہ ہمارا خدا طلوع ہو اور ہم اس کی عبادت اور پرستش کریں_

غروب آفتاب کا وقت تھا،حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ان کے پہلو میں انتظار کرنے بیٹھ گئے، یہاں تک کہ تاریکی چھاگئی اور خوبصورت ستارہ زہرہ افق سے نمودار ہوا_ ستارہ پرست سجدے میں گر گئے اور ایک خاص قسم کی عبادت اور دیگر رسوم ادا کرنے لگے_

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زہرہ ستارے کی بلندی، خوبصورتی اورروشنی کو دیکھا اور کہا: کیا یہ میرا پروردگار ہے؟

اس گفتگو کے دوران ستارہ آہستہ آہستہ غروب ہوئے لگا_ اور افق کے نزدیک ہوتے ہی مکمل طور پرغروب ہوکر عبادت کرنے والوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا_

حضرت ابراہیم (ع) نے فرمایا کہ:

۵۳

کس طر ح اس ستارے کو جوغروب ہوگیا ہے اپنا پروردگار سمجھتے ہو؟ کیونکہ اس ستارہ کی حرکت اوراس کاطلوع و غروب ہونا خوداپنی زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ میں ایک قادر مطلق پروردگار کے فرمان کے ماتحت ہوں جومجھے حرکت میں لاتا ہے اور طلوع و غروب ہونا میرے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے_

نہیں میںکسی ایسی چیز کو جو غروب ہوتی اور پستی کی طر ف جاتی ہے اپنا پروردگار نہیں مان سکتا اس لئے کہ ایسی محتاج اور نیازمند چیز میرا پروردگار نہیں ہوسکتی_

ستارہ پرستوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ گفتگو سنی اور گہری فکر وتذبذب میںڈوب گئے_ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دلیل کا کوئی جواب نہ دے سکے_

خوبصورت اور چمکدار چاند طلوع ہوا_ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ کیایہ میرا پروردگار ہے؟

چاندپرستوں نے آپ(ص) سے یہ سوال سنا تو آپ(ع) سے بحث شروع کردی_ لیکن چند گھنٹے گزرنے کے بعد چاند بھی ڈوب گیا_

نہیں نہیں، یہ بھی میراپروردگار نہیں ہے_ یہ بھی نکلتا اور ڈوبتا ہے_ یہ بھی حرکت کرتا ہے اور اس میں بھی تغیر رونما ہوتا ہے اور زمان

و مکان کا محتاج ہے یہ موجود میرا پروردگار نہیں ہوسکتا_ کیونکہ یہ خود محتاج اورنیازمند ہے_

چاندپرستوں نے جب یہ بات سنی تو سوچنے لگے کیونکہ ان کے پاس

۵۴

بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس واضح دلیل کا کوئی جواب نہیں تھا_

چاند سے بھی زیادہ روشن اوربڑا سورج طلوع ہوا_ حضرت ابراہیم (ع) نے سوال کیا: کیا یہ میرا پروردگار ہے؟

لیکن سورج بھی مغارب میںپہونچا اور غروب ہوگیا_

نہیں سورج بی میرا پروردگار نہیں ہے یہ خود حرکت اور تغیر میں ہے_ یہ خود محتاج اور نیازمند ہے_

حضرت ابراہیم علیہ السلام اس وقت مشرکوں کے درمیان سے اٹھے اورفرمایا:

میں ان چیزوں سے کہ جن کی تم پرستش کرتے ہو بیزار ہوں اور ان کی پرستش نہیں کرتا ہوں_ یہ سورج اور چاند اور یہ ستارے تمام کے تمام کسی دوسرے کے پیدا کئے ہوئے ہیں مں اس ذات کی طرف دیکھتا ہوں کہ جس نے آسمان اور زمین کوپیدا کیا_ وہی میرا پروردگار ہے_ وہی عبادت وپرستش کے لائق ہے منتہا وہی وہ ذات ہے جو اس کائنات پرحاکم ہے اسی پر ایمان لاؤ اوراپنے ایمان کوظلم وستم سے آلودہ نہ کرو تا کہ امن او ر ہدایت کا راستہ پاؤ_

۵۵

توضیح اور تحقیق

یہ اللہ تعالی کی طرف سے دلیل تھی جو حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو تعلیم کی گئی تا کہ وہ اپنی قوم کی بیدار اور آگاہ کر سکیں اور انہیں موحوم تصورات اور غلط عقائد سے نجات دلا سکیں _ یہ دلیل تمام انسانوں کی اس فطرت پر مبنی ہے جسکے تحت وہ جانتے ہیں کہ ہر موجود کے لئے علت ضروری ہے اور ہر مخلوق کا کوئی خالق ہے_

اس فطرت کی بنا پر حضرت ابراہیم علیہ السلام ی قوم اس سلسلہ میںکسی شک و شبہ کا شکار نہ تھی کہ وہ کسی دوسری ذات کی پروردہ اور مخلوق ہیں اور ایک قادر و توانا ہاتھ ہے جوان کی اس طرح پرورش کر رہا ہے اور در حقیقت ایک خالق پرروردگار موجود ہے_

لیکن وہ اپنے اس پروردگار کی پہچان کے سلسلے میں لغزش کا شکار ہوگئے تھے _ایک گروہ بتوں کی پرستش کرتا تھا اور دورسرا گروہ سورج کو پوجتا تھا، ایک گروہ چاند اور بعض ستاروں کو اپنا پروردگار سمجھتا تھا_

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے مختصر سوالوں سے ان کی سوئی ہوئی دعقلوں مو جھنجھوڑتے اور انھیں آگاہ کرتے تھے تا کہ وہ بیدار ہوجائیں اور شرک کی بدنمائی کو دیکھ کر توحید اور خداپرستی کی طرف آجائیں_

حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے درمیان بیٹھتے تھے اور ان سے محبت اور مہربانی سے گفتگو کرتے تھے اور ان کے ساتھ بحث و مباحثہ کے دوران ان باتوں کو ترجیح دیتے تھے جو فطرت سے ہم آہنگ اور ان کے لئے قابل قبول ہوا

۵۶

کرتی تھیں _ اور کوشش کرتے تھے کہ ان کے تاریک ذہنوں روشنی کا ایک دریچہ کھول دیں _ اور انہیں بتاتے تھے کہ جن چیزوں کی تم پرستش کرتے ہو وہ خود مخلوق اور اپنے کے لئے کس دوسرے کے محتاج ہیں_ وہ کبھی طلوع ہوتے ہیں اور کبھی غروب _ اور مجبور ہیں کہ اپنے وجود کے لئے کسی بے نیاز سرچشمہ پر تکیہ کریں_

اور وہی بے نیاز سرچشمہ ہے کہ جس نے انھین پیدا کیا ہے وہی زمین اور آسمان کا خالق ہے اور وہی تمہارا پروردگار بھی ہے_ میں حق پسندیدہ اور حنیف ہوں، مین اسی ذات کی طرف متوجہ ہوں اور وہی زمین اور آسمانوں کا خالق ہے اور اس کا کسی کو شریک قرار نہیں دیتا_ اس کے سوا کی حکومت اور ولایت کو قبول نہیں کرتا اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت و اطاعت نہیں کرتا

خداوندعالم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان کلمات کو قرآن مجید میں بیان کیا ہے اور تمام حق پسند اور حنیف انسانوں سے چاہا ہے کہ آپ کی اقتدار کریں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام یک طرح تمام چیزوں سے دل خالی کریں اور زمین اور آسمان کے خالق سے وابستہ ہو جائیں، اسے محبت کریں اور اس سے مانوس اور آشنا ہوجائیں_

آیت قرآنی

( انّی وجّهت وجهی للّذی فطر السّموت و الارض حنیفا وّ ما انا من المشرکین)

۵۷

میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا ہے جس نے زمین اور آسمانوں کوپیداکیاہے میںحق پسند ہوں،مشرکین میںسے نہیںہوں''

''سورہ انعام ۶ آیت ۷۹''

سوچیئےور جواب دیجیے

۱)___ ہم اپنی ضروریات سے کس طرح بہتر طریقہ سے واقف ہوسکتے ہیں؟ اوراس واقفیت کا کیا نتیجہ نکلے گا؟

۲)___ حضرت ابراہیم (ع) بت پرستوں کی خوابیدہ عقل کو بیدار کرنے کیلئے کیافرماتے تھے؟ اورکس طرح ان سے گفتگو کرتے تھے؟ اورکس طرح دلیل دیتے تھے؟

۳) آپ نے ستارہ پرستوں سے کیاکہا اورکس طرح ستارے کے غروب ہوجانے سے بے نیاز خالق کیلئے دلیل لائے؟

۴)___ چاند پرستوں سے کیاکہا اور ان کیلئے واضح دلیل کس طرح بیان کی؟

۵) ___ سورج پرستوں سے کیا کہا اور جب مشرکوں کے درمیان سے اٹھے توان سے کیا کہا؟

۶)___ حضرت ابراہیم (ع) کی گفتگوکیا چیز بیانکرتی ہے_ برہان نظم اوربرہان علّیت کی وضاحت کیجیئے؟

۷) ___ حنیف کسے کہتے ہیں؟ خداتعالی مومن انسان سے کیاچاہتاہے؟

اوران سے کس شخص کی اقتدا چاہتا ہے اورکس طرح؟

۵۸

باب دوم

جہان آخرت (قیامت ) کے بارے میں

۵۹

قیامت کادن حساب کادن ہے

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اوررحم کرنے والاہے_

یہ لوگ کس چیزکے بارے میں پوچھ کچھ کر رہے ہیں؟ کیا اس بڑی خبر کے بارے میں جس کے متعلق یہ چومیگوئیاں کرنے میں لگے ہوئے ہیں؟ ہرگز نہیں، عنقریب انھیں معلومہوجائے گا: ہرگز نہیں،عنقریب انھیں معلوم ہوجائے گا_

کیا یہ حقیقت نہیںکہ ہم نے زمین کوفرش بنایا اور پہاڑوں کومیخوں کیطرح گاڑدیا اورتمھیں جوڑوں کی شکل میں پیداکیا،اورنیند کوتمہارے لئے آرام کا ذریعہ بنایا اور رات کوپردہ پوش اور دن کوروزی کمانے کا وقت بنایا، اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان قائم کئے اورایک نہایت روشن اورگرم چراغ پیداکیا اوربادلوں سے لگاتار بارش برسائی تا کہ اس کے ذریعہ سے غلّہ سبزی اورگھنے باغ آگائیں_

بے شک فیصلہ کادن ایک مقرر وقت ہے، جس روزصورمیں پھونک

۶۰