‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 254
مشاہدے: 69324
ڈاؤنلوڈ: 3312


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69324 / ڈاؤنلوڈ: 3312
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد 4

مؤلف:
اردو

خداوند عالم کے سامنے کیسی ہوگی؟ جنّتی ہوں گے یا جہنّمی؟

حضرت ابوذر نے فرمایا کہ:

اپنے اعمال کو اللہ تعالی کی کتاب کے سامن رکھو اوردیکھو کہ خدائے تعالی قرآن مجید میں کیا فرماتے ہے اور تمہاری کیا حالت ہے_ خدائے تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ نیک اور صالح جنّتی ہوں گے اور فاسق و فاجر جہنّمی''_

ابوذر نے فرمایا:

اللہ تعالی کی رحمت نیک لوگوں سے زیادہ قریب ہے''_

آخرت میں انسان لامحالہ ان دو مقامات میں سے ایک میں قیام کرے گا_ جنّت میں یا جہنّم میں_

جنّت

جنّت نیک اور دیندار اور خداپرست لوگوں کی رہائشے اور مکان ہے، پیغمبروں اور ان کے پیروکاروں کے ہمیشہ رہنے کی چگہ ہے_

بہترین اور خوبصورت ترین مقام ہے جسے مہربان خالق نے اپنے نیک بندوں کے لئے بنایا ہے_ نہایت وسیع اور کشادہ ہے، زمین ماور آسمان کی وسعتوںکے مساوی بلکہ ان سے بھی وسیع و عریض ہے، روشن و پرنور ہے_ غرض انسان اس کی تعریف سے عاجز ہے_

اسے بہشت بھی کہتے ہیں_ قرآن اسے جنت سے تعبیر کرتا ہے

۸۱

''جنّت'' یعنی سر سبز و شاداب درختوں سے بھرا ہوا باغ

جنت کے سر سبز و شاداب درختوں کے نیچے صاف اور شفاف اورٹھنڈے پانی کی نہریں جاری ہوں گی_ ان کی شاخوں پر رنگ برنگ اور مزے دار پھل لٹکے ہوئے ہوں گے اور معطر ہوا کے جھونکوں سے جھوم رہے ہوں گے_

جنّت میں کسی قسم کی برائی اور نقص کا وجود نہ ہوگا_ نیک لوگ وہاں جس چیز کی تمنّا کریں گے ان کے لئے حاضر کردی جائے گی_ جب کسی پھل کی خواہش کریں گے تو مدرختوں کی خوبصورت ٹہنیاں ہواکے چلنے سے حرکت کریں گی اور اس نیک بندے کے نزدیک پہنچ کر پھل اس کے ہاتھوں پر رکھ دیں گی_

جنّت میں مومنین کے لئے نہایت عایشان اور آسائشےوں سے پر، محل بنائے گئے ہوں گے، ان پر عمدہ اور بہترین فرش بچھے ہوئے ہوں گے مومنین بہترین اور خوش رنگ لباس زیب تن کئے ہوئے، آرامدہ مندوں پر پیغمبروں، ائمہ اطہار، شہداء اور دوسرے جنتیوں سے محو گفتگو ہوں گے_

پیغمبر (ص) فرماتے ہیں کہ:

میں نے جنّت میں دیکھا کہ فرشتے جواہرات اور انیٹوں سے ایک خوبصورت محل بنا رہے ہیں_ کبھی تیزی سے اور زیادہ کام کرنے لگتے اور کبھی کام چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں مسں نے ان سے پوچھا: کیا کام کر رہے ہو؟ کیوں کبھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم یہ

۸۲

محل ایک مومن کے لئے بنا رہے ہیں_ آپ(ص) نے سوال کیا: پھر بناتے بناتے رک کیوں جاتے ہو_ فرشتوں نے جواب دیا کیونکہ محل بناتے میں استعمال ہونے والا سامان ختم ہوجاتا ہے_ آپ(ص) نے پوچھا: محل بنانے کا سامان کیا ہے؟ فرشتوں نے کہا یہ سامان اللہ اکبر لا الہ الا اللہ ہے جو ان جواہرات اور سونے کی دانیٹوں میں تبدیل ہوجاتا ہے اس محل کوبنانے کا سامان، اللہ تعالی کا ذکر اور وہ نیک اعمال ہیں جو خود مومن دنیا سے ہمارے لئے روانہ کرتا ہے جب تک مومن کار خیر اور اللہ تعالی کی یاد میں مشغول رہے، ہم تک سامان پہنچتا رہتا ہے اور اگر مومن غافل ہوجائے اور کار خیر انجام نہ دیے تو ہم تک سامان نہیں پہنچتا اور ہم بھی مجبوراً کام ر وک دیتے ہیں_''

جنّت میں نعمتیں ہمارے دنیاوی اعمال سے بنائی جاتی ہیں اور جنّت کی بعض نعمتیں اتنی خوبصورت ہیںکہ کبھی آنکھ نے ان جیسی خوبصورتی کو نہ دیکھا ہوگا ان کے دل پسند اور صاف کوکسی کان نے نہ سنا ہوگا بلکہ ان کا خیال بھی کسی کے ذہن میں نہیں آسکتا_ مختصر یہ کہ جنت کی نعمتیں ہماری فکروں سے بھی زیادہ بلند و بالا ہیں_ اور بہشت کی تعریف و توصیف میں جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے وہ ہماری ذہنی سطح کے مطابق بیان کیا گیا ہے_ ورنہ بہشت کی عظمت اور اس کی حقیقی خوبصورتی اور زیبائی ناقابل بیان ہے_

۸۳

لیکن خدا نے بیان کے لئے کہ بہشت رہنے کے لئے کتنی عمدہ جگہ ہے اس کی کچھ صفات کو ہماری زبان اور ہماری ذہنی سطح کے مطابق بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ :

متقین کے لئے جس جنّت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اس کے پھل ہمیشہ رہنے والے ہیں اور اس کا سایہ لازوال ہے یہ تو انجام ہے متقی لوگوں کا لیکن کافروں کا انجام یہ ہے کہ ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے_''

(سورہ رعد ۱۳_ آیت ۳۵)

بہشت میں جس چیز کی خواہش کروگے تیار ہوگی اور جو چاہو گے وہ موجود ہوگا_''

(سورہ فصلّت ۴۱_ آیت ۳۵)

''ان مومن مردوں اور عورتوں سے خدا کا وعدہ ہے کہ انھیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ ہیں گے_ ان سدا بہار باغوں میں ان کے لئے پاکیزہ قیام گا ہیں ہوں گی اور سب سے بڑھ کریہ کہ اللہ کی خوشنودی انھیں حاصل ہوگی اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے_

(سورہ توبہ ۹ آیت ۷۲)

جنت میں تمام رہنے والے لوگ ایک مرتبے اور ایک درجے کے نہیں ہیں بلکہ اپنے ایمان اور خلوص اور اعمال صالح کی مقدار کے لحاظ سے ان کے مر اتب میں فرق ہوگا بہشت میں موت، غم، بیماری، فکر، مصیبت کا کوئی

۸۴

وجود نہ ہوگا_ بلکہ جنّتی افراد ہمیشہ خداوند عالم کے لطف و عنایات کے زیر سایہ ہوں گے اور ہمیشہ خدا کی ظاہری اور باطنی نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے اور سب سے زیادہ یہ کہ اللہ تعالی ان سے راضی ہوگا اور وہ بھی اللہ اور اس کے الطاف اور عنایات سے راضی ہوں گے_

دوزخ

دوزخ ظالموں اور بدکاروں کاٹھکا نہ ہے اور مشرکوں اور منافقوں کی قیام گاہ ہے_

دوزخی نہایت سخت اور بہت دردناک زندگی سے دوچار ہوں گے ان کے برے اعمال اور اور کفر و نفاق، عذاب اور سخت سزا کی صورت میں تبدیل ہوکر ان کے لئے ظاہر ہوں گے اور انھیں درد و رنج پہنچاتے رہیں گے_ آگ کا لباس ان کے جسم پر اور گلے میں طوق، ہاتھ اور پاؤں میں زنجیر پہنائی جائے گی_ آتش دوزخ کے شعلے ان کے جسم سے اٹھ رہے ہوں گے ان کے گوشت اور ہڈیوں کو جلا رہے ہوں گے_ ساتھ ہی ساتھ ان کے باطن میں قلب و روح میں بھی نفوذ کر رہے ہوں گے_

جہنّمیوں کا کھانا اور پینا، گندا، بدبودار، غلیظ اور جلادینے والا ہوگا جو پیپ سے بدتر ہوگا_ جس کی بدبو مردار سے زیادہ ہوگی_

جہنّم کا عذاب جو کفر و نفاق ظلم و ستم اور برے اعمال کا نتیجہ ہے اتنا سخت اور دردناک ہے کہ جس کا ہم تصوّر بھی نہیں کرسکتے_ اس دردناک

۸۵

عذاب کی جھلک خداوند عالم اس بیان کی صورت میں ہمیں یوں دکھاتا ہے کہ :

ہم نے ظالموں کے لئے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی لپٹیں انھیں گھیرے میں لئے ہوئے ہوں گی وہاں گر وہ پانی مانگیں گے تو ایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا اور ان کا منہ بھون ڈالے گا بدترین پینے کی چیز اور بدترین رہائشے گاہ _''

(سورہ کہف ۱۸ آیت ۲۹)

جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کردیا انھیں یقینا ہم آگ میں ڈالیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں گے تا کہ وہ خوب عذلاب کا مزا چکھیں_ یقینا اللہ بڑا قادر اور حکیم ہے_''

(سورہ نساء ۴_ آیت ۵۵)

''دردناک سزا کی خبر دو انھیں جو سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انھیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی سے جہنّم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا_ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا، لواب اپنی اس دولت

۸۶

کا مزا چکھو جسے تم نے ذخیرہ کیا تھا_''

(سورہ توبہ ۹ آیت ۳۵)

یقینا آپ کا دل بھی چاہتا ہوگا کہ معلوم کریں کہ روز قیامت ہمارا انجام کیا ہوگا؟ آخرت میں ہمارا ٹھکانا کہاں ہوگا؟ جنّت یا جہنّم؟

اگر ہم غور سے پیغمبر اکرم(ص) کے اس قول کا جائزہ لیں تو شاید اندازہ ہوجائے کہ ہمارا انجام کیا ہوگا؟

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا ہے:

بہشت مصائب اور آلام میں پوشیدہ ہے جو شخص دنیا کی مشکلات اور رنج و الم کو برداشت کرے گا وہ بہشت میں داخل ہوگا_ اور جہنّم لذّت و شہوت اور ہوس رانی میں پوشیدہ ہے، جو شخص شہوت اورہوس رانی میں مبتلا ہوگا وہ جہنّم میں جائے گا_

آیت قرآن

( مثل الجنّة الّتی وعد المتّقون تجری من تحتها الانهر اکلها دائم و ظلّها تلک عقبی الّذین اتّقوی و عقبی الکفرین النّار )

۸۷

ساسالہ استعمال کرتے ہیں؟ اور کیوں فرشتے کام چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں؟

۷) ___دوزخ کن کاٹھکا نہ ہے اور جہنم کا عذاب کس چیز کانتیجہ ہوا ہے؟

۸) ___قرآن مجید کی آیات سے استفادہ کرتے ہوئے جہنّم کے عذاب کی کوئی مثال بیان کیجئے؟

۸۸

متقیوں کے لئے جس جنّت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں_

اس کے پھل ہمیشہ رہنے والے ہیں اور اس کا سایہ لازوال ہے_ یہ تو انجام ہے متقی لوگوں کا_ لیکن کافروں کا انجام یہ ہے کہ ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے_''

(سورہ رعد ۱۳ آیت ۳۵)

سوچیے اور جواب دیجیے

۱)___ حضرت ابوذر- نے اپنے کلام میں نیک لوگوں کوکن لوگوں سے تشبیہ دی ہے اور گناہ گاروں اور برے لوگوں کوکن سے؟

۲)___ حضرت ابوذر کے قول کی روشنی میںبتا یئےہ اللہ تعالی کے نزدیک ہماری حالت کیا ہوگی؟

۳) ___اللہ تعالی کی رحمت کہاں گئی؟ جناب ابوذر نے اس سوال کا کیا جواب دیا تھا،اوراس جواب سے کیا مقصد تھا؟

۴) ___اس سبق کو ملحوظ رکھتے ہوئے بہشت کی تعریف کیجئے؟

۵) ___بہشت کی نعمتوں میں سے کون سی چیز سب سے برتر اور بالاتر ہے؟

۶) ___جنّت میں مومنین کا مکان بنانے کے لئے ملائکہ کون

۸۹

قیامت کا خوف

خدا کے شائستہ بندوں کی ایک صفت

خدا کے شائستہ بندوں کے متعلق حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ:

خداوند عالم نے اپنی یاد کو دلوں کے منور ہونے کا سبب قرار دیا ہے یاد خدا دلوں کوسماعت بخشتی ہے، خدا کی یاد تاریک و مردہ اور افسردہ دلوں کوروشن، بینا اور زندہ کرتی ہے، خدا کی یاد سرکش اور گنہکار دلوں کو خدا کی بندگی اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجانے کا سبق دیتی ہے_

ہر دور میں خدا کے ایسے منتخب بندے ہوتے ہیں جو خدا کی یاد میں مشغول رہتے ہیں اور اس سے مناجات کرتے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے اس سے راز و نیاز کرتے ہیں_

خدا کی یاد سے ان کی دلوں میں بیداری اور آگاہی کا نور چمکتا ہے_ ان کی آنکھ، کان اوردل اس سے منور ہوجاتے ہیں_

۹۰

خدا کے یہ منتخب بندے لوگوں کو ''ایام اللہ'' کی یاد دلاتے ہیں اور اس کے ارفع و اعلی مقام سے ڈراتے ہیں_ یہ باخبر رہنما بھولے بھنکے ہوؤں کو ہدایت دیتے اور رہنمائی کرتے ہیں_ جو بھی میانہ روی اور صحیح راستہ اختیار کرے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اسے نجات کی خوش خبری دیتے ہیں_ جوکجروی اختیار کرے اس کی مذمّت کرتے ہیں اور ہلاکت و تباہی سے ڈراتے ہیں_

یہ لائق احترام اور یاد خدا میں مشغول رہنے والے بندے اندھیروں کا اجالا اور گم کردہ راہوں کے رہنما ہوتے ہیں_

جی ہاں اس قسم کے شائستہ لوگوں نے دنیا کی محبت کی جگہ اللہ کی یاد کو اپنے دل میں جگہ دی ہے_ دنیاوی کام کاج اورتجارت انہیں یاد خدا سے غافل نہیں کرتے_

وہ اس عمدہ سامان سفر سے اپنی زندگی کا سفر طے کرتے ہیں اور راہ طے کرتے وقت غفلت میں ڈوبے ہوئے انسانوں کو بیدار کرتے اور انہیں گناہوں سے روکتے ہیں_ لوگوں کو عدل و انصاف کا حکم دیتے ہیں اور خود بھی عدل و انصاف کے مطابق سلوک کرتے ہیں_ لوگوں کو برے کاموں اورمنکرات سے منع کرتے ہیں اور خود بھی برے کاموں کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے_

گویا وہ راہ دنیا طے کر کے آخرت تک پہنچ چکے ہیںاوروہاں سکونت اختیار کر کے ماوراء دنیا کا مشاہدہ کر رہے ہیں_ قیامت کے وعدے انکے لئے ثابت ہوچکے،وہ لوگوں کے لئے ان حقائق پر سے پردہ ہٹاتے ہیں اورقیامت وبرزخ کے حالات کو لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں_

۹۱

اس طرح کہ جیسے اس عالم کی جن چیزوں کا مشاہدہ وہ کر رہے ہیں لوگوں کی نگاہیں انھیں نہیں دیکھ پاتیں اور جن صداؤں کویہ سنتے ہیں لوگ نہیں سن پاتے_

اے کاش

تم اپنے ذہن میں ان کے بلند مرتبہ اورروحانیت کو دیکھ پکاتے اور ان کے مقام محمود کا مشاہدہ کر تے_ گویا انہوں نے اپنے اعمال ناموں کو اپنے سامنے کھول رکھا ہے_ اوراپنے نفس کے (محاسبہ میں) اورچھوٹی بڑی کوتاہیوں اور خطاؤں پر نظر رکھے ہوئے ہیں_

خدا کے عذاب کے خوف سے آہ و فغان اور گریہ و زاری کر رہے ہیں_ اپنی خطاؤں کا اقرار کرتے ہوئے ندامت اورپشیمانی کا اظہار کر رہے ہیں اور اپنے رب سے عفو و بخشش کے طلبگار ہیں_

اگر ان منتخب بندگان خدا کو غور سے دیکھا جائے تو یہ ہدایت کے پرچم اور روشنی پھیلانے والے چراغ نظر آئیں گے کہ جن کے ارد گرد اللہ کی رحمت کے فرشتوں نے احاط کر رکھا ہے، آسمان کے دروازے ان پرکھلے ہوئے ہیں اورفرشتے آرام واطمینان سے ان پر نازل ہوتے ہیں_

ان کے لئے امن و کرامت کے مقامات تیار کئے گئے ہیں_ اس امن کے مقام ہیںکہ جہاں خدا ان سے آگاہ، ان کی سعی وکوشش سے راضی اور ان کی راہ و رسم سے خوش ہے_

یہ بندے اپنی مناجات کے ذریعہ نسیم رحمت اورپروردگار عالم کی بخشش کو جوش میں لاتے ہیں_ ان کے دل اللہ تعالی کے فضل و کرم کے

۹۲

گرویدہ اور اللہ کی عظمت و بزرگی کے سامنے خاضع اور خاکسار ہوتے ہیں_

آخرت کے عذاب کے خوف سے ان کے دل زخمی اور شکستہ ہیں اور خوف خدا کے سبب کیے جانے والے طویل گریہ سے ان کی آنکھیں آزردہ اور خستہ ہوچکی ہیں

(نہج البلاغہ سے ایک اقتباس)

امیرالمومنین علیہ السلام کہ جو خود خدا کے شائستہ بندوں میں سے ہیں خدا کے صالح اور شائستہ بندوں کے اس طرح قیامت سے خوفزدہ ہونے کی صفت کا تذکرتے ہیں_ کتنا اچھا ہو کہ حضرت علی (ع) کے قول کے ساتھ ساتھ ان کے عمل میں بھی خدا کے شائستہ بندوں کی نشانیوں کو دیکھیں_

امام(ع) کے دو نہایت نزدیکی اصحاب سے امام(ع) کی مناجات کی کیفیت ان کی آہ و زاری، پر سوز نالوں اور قیامت کے خوف کے متعلق سنیں_

حبّہ عرفی اور نوف بکالی کہتے ہیں:

ایک دن ہم دارالامارة کے صحن میں سوئے ہوئے تھے کہ آدھی رات کو ایک دردناک آواز نے ہمیں بیدار کردیا_ یہ ہمارے مولا امیرالمومنین (ع) کی آواز تھی_ آپ نے ایک دیوار سے نیک لگائی تھی_ پھر آہستہ آہستہ قدم بہ قدم چلنے لگے_ ستاروں سے پر آسمان کودیکھتے اور تھوڑی دیر ٹھہرجاتے اور اچانک رونے کی آواز بلند کرتے اور آنسو بہاتے اور پر درد ودلگدار لہجے میں ان آیات کی تلاوت فرماتے تھے:

یقینا زمین و آسمان کی خلقت اور دن و رات کی منظم گردش میں عقلمندوں کے لئے واضح نشانیاں موجود ہیں، وہ عقلمند کہ جو خدا کو ہر حال میں یاد کرتے ہیں چاہے بیٹھے

۹۳

چاہے کھڑے اور چاہے پہلو پر بستہ ہیں لیٹے ہوئے ہوں زمین و آسمان کی خلقت پر غور و خوض کرتے ہیں_

اے پروردگار تو نے اس عظیم کارخانہ کو بے کار و بے مقصد خلق نہیں کیا ہے تو عیب سے پاک ہے بس تو ہم کو آگ کے عذاب سے بچا

پروردگار یقینا جس کو تونے آگ میں داخل کردیا ضرور اسے رسوا کردیا اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں اے ہمارے رب ہم نے سنا ہے کہ ایک منادی ندا کرتا تھا ایمان کے لئے کہ ایمان لاؤ، پس ہم ایمان لے آئے_ اے ہمارے رب پس بخش دے ہمارے گناہوں کو اور دور کردے

ہم سے ہماری بدیوں کو اور ہمیں نیکیوں کے ساتھ موت دے_

اسے پروردگار جو کچھ تونے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے ہم سے وعدہ کیا ہے ہمیں عطا کر اور ہم کو روز قیامت رسوا نہ کرنا_ یقینا تووعدہ خلافی نہیں کرتا_''

(سورہ آل عمران ۳_ آیت ۱۹ تا ۱۹۴)

امیرالمومنین علیہ السلام بار بار ان آیات کی تلاوت کر رہے ہے تھے اشک بہاتے تھے اور ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر مناجات اورراز و نیاز کرتے تھے حبّہ کہتا ہے:

۹۴

میں حیرت زدہ اپنے مولا کی حالت کو دیکھ رہا تھا کہ آپ(ع) میرے بستر کے نزدیک آئے اور فرمایا:

''حبّہ سوئے ہوئے ہو یا جاگ رہے ہو؟''

میں نے عرض کی :

مولا،اے امیرالمومنین علیہ السلام جاگ رہا ہوں جب آپ(ع) ، خدا کے خوف سے اس قدر لرزاں اور نالہ کناں ہیں تو افسوس ہم بے چاروں کی حالت پر:

امیرالمومنین علیہ السلام کچھ دیر سرجھکا کر روتے رہے پھر فرمایا:

اے حبّہ ایک دن سب خدا کے سامنے اپنا حساب دینے کے لئے کھڑے کئے جائیں گے_ خدا اپنے بندوں کے اعمال سے باخبر ہے اور کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے_ وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ ہم سے نزدیک ہے اور کوئی چیز ہمارے اور خدا کے درمیان حائل نہیں ہوسکتی اس کے بعد نوف کے بستر کے پاس گئے اور فرمایا:

اے نوف سو رہے ہو یا جاگ رہے ہو؟

نوف جو کہ امیرالمومنین (ع) کی حالت کو دیکھ کر رو رہے تھے بولے:

''یا علی (ع) جاگ رہا ہوں اور آپ کی اس روحانی حالت کو دیکھ کر گریہ کر رہا ہوں_''

امیرالمومنین (ع) نے فرمایا:

اے نوف اگر آج خوف خدا سے اشک بہاؤ گے تو قیامت میں تمہاری آنکھیں روشن ہوں گی _ تمہاری آنکھوں سے گرا ہوا آنسو کا ہر قطرہ آتش جہنّم کو

۹۵

بجھادے گا_ جو انسان اللہ کے خوف سے ڈرے، گریہ کرے اور اس کی دوستی خدا کے لئے ہو تو بہشت میں اس کا درجہ سب سے بلند و بالا ہوگا_

اے نوف جو شخص خدا کو دوست رکھتا ہو اور جسے بھی دوست رکھتا ہو خدا کے لئے ہو، کبھی بھی خدا کی دوستی پر کسی اور کی دوستی کو ترجیح نہیں دے گا جو شخص جس سے بھی دشمنی رکھتا ہو خدا کیلئے ہو اس دشمنی سے خیر و خوبی کے علاوہ کچھ اور نہ پہنچے گا_

اے نوف جس وقت تم اپنی دوستی اور دشمنی میں اس درجہ پر پہنچو کمال ایمان پر پہنچو گے_ خدا سے ڈورکہ میں تمہیں نصیحت کر رہا ہوں'' یہ کہہ کہ امام (ع) ہم سے دور چلے گئے_ اور خدا سے مناجات شروع کردی اشک بہاتے جاتے تھے اور آہستہ آہستہ اس دعا کی تلاوت کرتے تھے_

پروردگار اے کاش مجھے علم ہوتاکہ جس وقت میں تجھ سے غافل ہوں تو مجھ سے ناراض ہوتا ہے اور منھ پھیر لیتا ہے یا پھر بھی مجھ پہ لطف و کرم رکھتا ہے؟ اے کاش مجھے علم ہوتا کہ میری طویل نیند، سستی و کوتاہی کے سبب میری حالت تیرے نزدیک کیسی ہے

اس رات امیرالمومنین (ع) تمام رات جاگتے رہے اور اپنے خالق سے ر از و نیاز کرتے رہے_ بے قراری کے عالم میں چہل قدمی کرتے تھے_

امیرالمومنین (ع) یوں ہی راتوں کو بیدار رہتے، مناجات کرتے اور خوئف خدا اور قیامت کے حساب و کتاب کا ذکر کر کے رویا کرتے تھے_

۹۶

آیت قرآن

''( ربّنا ما خلقت هذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النّار ) ''

پروردگار تو نے اس جہان اور زمین و آسمان کو باطل پیدا نہیں کیا ہے تیری ذات پاک و پاکیزہ ہے پس ہمیں جہنّم کی آگ سے محفوظ رکھ_''

(سورہ آل عمران ۳ آیت ۱۹۱)

سوچیے اور جواب دیجیے

۱) ___امیرالمومنین (ع) نے اپنے اس خطبہ میں اللہ کے نیک اور صالح بندوں کی بہت سی صافت بیان کی ہیں_ آپ ان میں سے دو صفات کو بیان کریں؟

۲) ___یہ صالح بندے کس راہ کی تعریف اور کس کی مذمت کرتے ہیں؟

۳)___ ان کا ڈر اور خوف کس چیز سے ہے؟ ان کا طویل گریہ کس خوف کے نتیجہ میں ہے؟

۴) ___امیرالمومنین (ع) نے جن آیات کی تلاوت کی ان کا ترجمہ کیجئے؟

۵)___ ان آیات میں کن باتوں کا تذکرہ ہے کہ جس کے سبب

۹۷

امیرالمومنین (ع) کی یہ حالت ہوگئی تھی؟

۶) ___جب امیرالمومنین (ع) نے حبّہ سے دریافت کیا کہ سو رہے ہو یا جاگ رہے ہو تو حبّہ نے آپ (ع) کو کیا جواب دیا؟

آپ (ع) نے قیامت کے دن کے بارے میں حبّہ سے کیا فرمایا؟

۷)___امیرالمومنین (ع) نے نوف سے قیامت کی یاد اور خوف خدا سے رونے کے متعلق کیا فرمایا؟

۸)___ امیرالمومنین (ع) نے ایمان کامل رکھنے والے انسان کی کیا تعریف کی؟ کامل ایمان ہونے کے لئے کیا علامتیں بیان کیں؟

۹۸

باب سوم

نبوت کے بارے میں

۹۹

تمام پیغمبروں کا ایک راستہ ایک مقصد

شاید آپ نے بہار کے موسم میں بادام کے خوش رنگ شگوفے کودیکھا ہوگا کیا آپ نے دیکھا ہے؟

آیا کبھی سوچا ہے کہ

بادام کا جو بیج رمین میں بویا جاتا ہے یہ بیج، پھول کی خوبصورت شکل؟، اختیار کرنے تک کس قدر طویل، پر پیچ اور کٹھن راستہ کرتا ہے_

کتنی سعی و کوشش کر کے یہ راستہ طے کرتا ہے تا کہ نشو و نما پاسکے اور اس خوبصورت لباس سے اپنے آپ کو راستہ کرے

آیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس طویل راستہ کو طے کرنے میں اسکی راہنمائی کون کرتا ہے_

ہم نے توحید کی بحث میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ

۱۰۰