اصول دین

اصول دین0%

اصول دین مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اصول دین

مؤلف: علامہ شیخ محمد حسن آل یاسین
زمرہ جات:

مشاہدے: 27057
ڈاؤنلوڈ: 4059

تبصرے:

اصول دین
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27057 / ڈاؤنلوڈ: 4059
سائز سائز سائز
اصول دین

اصول دین

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

كتاب:اصول دین

مؤلف:علامہ شیخ محمد حسن آل یاسین

مقدمہ ناشر

الحمدلله رب العالمین والصلوة والسلام علی سیدنا محمد وآلہ الطیبین الطاھرین۔

قارئین کرام ! واجب الوجود خداوندعالم اور اصول دین کے اثبات کے سلسلہ میں انسانی عقل کی رسائی کا خلاصہ واضح و روشن بیان کے ساتھ آپ کے ھاتھوں میں موجود ہے، جس میں مو لف (خدا ان کو بہترین اجر وثواب عنایت فرمائے) نے صدیوں کے تجربات اور علم وسائنس کے کشفیات اور الکٹرونک وغیرہ کے ذریعہ وجود خدا کو ثابت کیا ہے، جو در حقیقت بہت سے زخموں کی دوا اور اپنے گمشدہ کی تلاش میں مشعل راہ ہے جس کے ذریعہ انسان اسباب ایمان اور خداوندعالم کی معرفت تک پہنچ سکتا ہے، تاکہ خداوندتبارک وتعالیٰ،انبیاء کرام علیہم السلام اور اس کی کتاب پر اس کا ایمان پختہ ہوجائے۔

اسی وجہ سے مو سسہ امام علی علیہ السلام نے اردو متکلمین کے ذریعہ اس کتاب کا ترجمہ کرایا جس میں قرآن وسنت اور عقلی دلائل واضح اور بہترین انداز میں بیان کئے گئے ہیں،تاکہ ہمارا اپنا واجب فریضہ بھی ادا ہوجائے، کلمہ حق سرفراز اور ہدایت کا راستہ واضح اور روشن ہوجائے۔

ہم خدا وندعالم کی بارگاہ میں دست بدعا ہیں کہ ہماری اس ناچیز خدمت دین کو شرف قبولیت عطا فرمائے ، اور ہماری توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ ہو حسبنا ونعم الوکیل۔

والسلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ

شیخ ضیاء جواھری

موسسہ امام علی علیہ السلام

مقدمہ

حضرت علامہ سید مرتضیٰ حکمی دامت برکاتہ

ادیان عالم میں دین اسلام ایک امتیازی شان کا حامل ہے کیونکہ اس دین کی بنیاد فطرت اور عقلی برھان پر قائم ہے، چنانچہ اس دین کے معارف کا سرچشمہ یھی فطرت انسانی ہے، اور اس کی تعلیمات عقل وشعور کے چشموں سے پھوٹتی ہیں اس کے نتائج عقلی منطق پر مشتمل ہوتے ہیں، جب بھی انسان اس دین سے وابستہ ہوگا تو اس کی فکری طاقتوں میں کمال پیدا ہوگا ، اس کی غور وفکر میں ایک جولانی کیفیت طاری ہوگی، اس کی ذاتی قدرت میں چار چاند لگ جائیں گے۔

چنانچہ یھی دین اسلام ہے جس کی بنا پر انسان کی ذاتی فطرت میں کمال پیداهوتا ہے ، اوریھی دین اسلام ہے جو انسان کو اقوام عالم میں سربلندی وسرفرازی عطاکرتا ہے ، حقیقت تلاش دل اور ہدایت حاصل کرنے والی آنکھیں اور کان عطا کرتا ہے، اور ایسی مہذب زبان عطا کرتا ہے جس سے کلمہ خیر کے علاوہ اور کچھ صادر نہیں ہوتا، اور یھی دین اسلام ، انسانی روح کو وہ بلندی عطا کرتا ہے جس کے بعد کمال کا کوئی درجہ متصور نہیں ہوسکتا۔

المختصر اسی اسلام کی وجہ سے انسان معرفت اور کمال کے آخری درجات پر پہنچتا ہے، چنانچہ خدا پر ایمان رکھنا اور تقویٰ الٰھی اختیار کرنا اسی اسلام کا ایک ثمرہ ہے، اسی طرح عدل الٰھی پر عقیدہ رکھنا انسان کے دل ودماغ کو حیاتی معراج عطا کرتا ہے، اور خدا کی آسمانی رسالت پر ایمان رکھنا انسان کو اس منزل پر پهونچادیتا ہے کہ اس میں ہر خیر وشر کے ادارک کا مادہ پیدا ہوجاتا ہے اسی طرح قیامت پر ایمان رکھنے سے انسان ہر ھر قدم پر اپنی ہمیشگی جائگاہ پر نظر رکھتا ہے،اسی طرح عقیدہ امامت انسانی فکر کو محکم اور استوار بناتا ہے جس سے اس کی اسلامی شخصیت بلند ہوجاتی ہے، بشرطیکہ عقیدہ امامت سے ہمیشہ متمسک رھے۔

بھر کیف اسلامی عقائد انسان کی اسلامی شخصیت کو معراج عطا کرتے ہیں، اور زندگی میں ان کے اثرات ظاہر ہوتے رہتے ہیں، اسی وجہ سے علامہ شیخ محمد حسن آل یاسین صاحب نے اسلامی عقائدومعارف سے متعلق جدید اور واضح اسلوب پر مشتمل چند علمی کتابیں مرتب کیں، جو انسان کوراہ ضلالت سے نکال کر راہ ہدایت پر گامزن کرتی ہیں۔

اور چونکہ علامہ موصوف؛ حضرت آیت اللہ العظمیٰ خوئی رحمة اللہ علیہ کے ممتاز شاگرد تھے، لہٰذا خوئی صاحب نے آپ سے فرمائش کی کہ اسلامی اصول عقائد کے بارے میں جدید طریقہ سے کوئی ایسی کتاب لکھیں جس میں دور حاضر کے لحاظ سے اسلامی حقانیت کو ثابت کیا جائے اور اس سلسلہ میں ہوئے نئے نئے اعتراضات کا بھی کافی وشافی جواب دیا جائے۔

اور جب علامہ موصوف نے کتاب ہذا کو مترتب کیا تو آیت اللہ خوئی صاحب نے اس کی نشر واشاعت میں بھر پور تعاون فرمایا، اور کتاب کو بہت جلد چھپوادیا۔

لہٰذا کتاب ہذا کی اہمیت کے پیش نظر آپ حضرات سے گزارش ہے کہ اس کتاب کو دقت نظرسے مطالعہ کر کے بغیر کسی شک وشبہ کے اسلامی حقائق سمجھنے کی کوشش فرمائیں ۔

امید ہے کہ موصوف کی یہ کاوش اسلامی عقائدسمجھنے کے سلسلہ میں مشعل راہ قرار پائے۔

سید مرتضیٰ حکمی

نجف اشرف ، ۱۳/ رجب المرجب ۱۳۹۲ ھ

عرض مترجم

خدائی مخلوق کے شاہکارحضرت انسان نے جب اس دنیا میں قدم رکھا تو اسی وقت سے اس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اس کی خلقت کیسے اور کیوںهوئی اور اس زندگی کے بعد اس کی بازگشت کھاں ہے؟ ! انھیں تمام سوالات کے پیش نظر اس نے ماوراء طبیعت کا پتہ لگانا چاھا اس کی فطرت نے مدد کی اور خدا شناسی کے راستوں کو ہموار کیایھاں تک کہ اس نے یقین کرلیا کہ اس کا وجود بغیر بنانے والے کے نہیں پیدا ہوا، کوئی ایسی طاقت ہے جس نے اسے خلق کیا ہے، اور وہ ذات ہے خداوندعالم کی۔

تاریخ بشریت اس بات کی گواہ ہے کہ ہر زمانہ میں انسان خدا کی الوھیت کا عقیدہ رکھتا تھا، یہ اور بات ہے کہ بعض زمانہ میں اور بعض محدود مقامات پر خدا کے وجود کا انکار کردیا گیا جیسا کہ آج بھی بہت سے لوگ اپنی فطرت کا گلا گھونٹتے ہوئے خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ دنیا ”مادّہ“ کی مخلوق ہے، لیکن آج جبکہ سائنس ترقی کررھا ہے تو وجود خدا کے دلائل مزید واضح وروشن ہوتے جارھے ہیں اور خود سائنس اس بات کی ردّ کرتا ہے کہ مادہ کسی چیز کا خالق ہو۔

بھر حال یہ بات مسلم ہے کہ خدا ہی انسان کا خالق ہے، وھی عالمین کا ربّ حقیقی ہے، تب ہی اس نے انسان کی دوسری ضروریات کی طرح ہدایت کا انتظام بھی فرمایااور ہر زمانہ میں انبیاء بھیجے، اور جیسے جیسے انسانی معاشرہ نے ترقی کی اسی لحاظ سے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا گیا یھاں تک کہ سر زمین مکہ پر ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمآخری نبی بنا کر بھیجے گئے، اور آپ نے اسلام کی تبلیغ اس طرح فرمائی کہ خدا کو( الیوم اکملت لکم دینکم ) کی سند دینا پڑی، لیکن جب یہ آخری نبی بھی اس دنیا سے جانے لگا تو چونکہ نبوت کا سلسلہ بند ہوچکا تھا، ہدایت کے بغیر انسان کفر وضلالت کے دلدل میں پھنس جاتا، مگراللہ نے اپنے محبوب رسول کے ھاتھوں غدیر خم میں امامت وولایت کا سلسلہ قائم اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنے بعد کے لئے خلیفہ معین فرمادیا، اور اسی امامت کی وجہ سے ڈوبتی ہوئی کشتی اسلام نہ جانے کتنی بارساحل پر لگی، اور آج بھی اسی امامت کے ذریعہ انسانیت ہدایت سے فیضیاب ہورھی ہے اور ایک دن وہ آئے گا جب اسی امامت کے ذریعہ؛ ظلم وجورسے بھری دنیا عدل وانصاف سے بھرجائے گی، تب اس کے بعد دنیا کا خاتمہ ہوگا، اس دنیاوی زندگی کے بعد ایک روز حساب وکتاب کے لئے رکھا گیا ہے، کیونکہ ہر صاحب عقل نیک کام کو اچھا اور برے کام کا برا سمجھتا ہے، نیز نیک کام پر مستحق مدح وثواب اور برے کام پر مستحق ذم وعذاب پر انسانی عقل شھادت دیتی ہے، اور اسی عذاب وثواب کے دن کو قیامت کھا جاتا ہے، جس دن خدا عدل وانصاف کے ساتھ جزا یا سزا دے گا۔

انھیں تمام باتوںکی تفصیل پر مشتمل ہے عالیجناب علامہ شیخ محمد حسن آل یاسین صاحب کی یہ کتاب ”اصول دین“ ،جس میں موصوف نے عمدہ انداز، بہترین استدلال، مستحکم بیان اور جدید طرز پر اپنے قلم کے جوھر دکھائے ہیں،اور خدا شناسی، عدل الٰھی ، نبوت،امامت،مہدویت اور قیامت کے بارے میں مفصل استدلال اور برھان قائم کئے ہیں،نیز اس سلسلہ میں بہت سے اعتراضات اور شبھات کے جوابات بھی دئے، واقعاً کتاب ہذاایک جامع اور بہترین کتاب ہے۔

مو سسہ امام علی علیہ السلام کے مدیر اعلیٰ حجة الاسلام والمسلمین شیخ جواھری صاحب نے اس عظیم کتاب کے ترجمہ کی ذمہ داری اس بندہ ناچیز کو عنایت فرمائی، حقیر کو اپنی ناتوانی کے ساتھ قلم کی ناتوانی کا بھی اقرار ہے جس کے پیش نظرحقیر کے لئے اس عظیم ذمہ داری کا نبھانا لمحہ فکریہ تھا، لیکن خدا کے لطف و کرم اوراس کی توفیق کے سھارے کمر ہمت باندھ کرترجمہ شروع کردیا۔ کسی مو لف کی بات کو کسی دوسری زبان میں منتقل کرنا اور اس کی روانگی اور سلاست کو باقی رکھنا واقعا”کارے دارد“ ۔ علامہ موصوف نے اپنی کتاب میں مختلف استدلال کے اندر عربی اصطلاحات کے علاوہ سانئس کی اصطلاحات بھی کافی استعمال کی ہیں جن کی اردوکے ساتھ انگلش تلفظ کو حتی الامکان تلاش کرکے لکھ دیا گیا ہے ،اور باب توحید کے علاوہ دوسرے تمام ابواب میں اکثر آیات کا حوالہ تحقیق کرکے رقم کر دیا ہے، لیکن کھاں تک کامیاب ہوا ہوں اس کا فیصلہ آپ حضرات فرمائیں گے۔

آخر میں ان دوستوں اور احباب کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جنھوں نے کتاب کی تصحیح، کمپوزنگ، اور پروف ریڈنگ وغیرہ میں ہر ممکن تعاون کیا ، خداوندعالم ہم سب سے اس ناچیز خدمت کو قبول فرمائے اور مزید توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین۔ والسلام

اقبال حیدر حیدری ۔

حوزہ علمیہ، قم، ایران

۱۸/ ذی الحجہ ۱۴۲۴ ھ

IHH۲۰۰۱@YAHOO.COM

توحید

خدا کی معرفت عقل و فطرت کی روشنی میں

( اٴَفِی اللهِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْض ) ( ۱ )

”کیا تم کو خدا کے بارے میں شک ہے جوسارے آسمان وزمین کا پیدا کرنے والا ہے۔؟“

حضرت امام حسین علیہ السلام:

کیف یستدل علیک، بما هو فی وجوده مفتقر الیک، اٴیکون لغیرک من الظهور مالیس لک حتی یکون هو المظهر لک، متی غبت حتی تحتاج الی دلیل یدل علیک، ومتی بعدت حتی تکون الآثار هی التي توصل الیک ۔“

(بارالہٰا ! تیری معرفت کا ذریعہ وہ شی کیسے قرار دی جاسکتی ہے جس کا وجود خود تیرا محتاج ہے، کیا تیرے علاوہ بھی کوئی ایسی شی ہے جوبذات خود ظاہر ہو جب تک تو اس کا مظھر قرار نہ پائے؟ تو کب غائب تھا کہ ہمیں تیری راہنمائی کے لئے کسی راہنما کی ضرورت ہو؟ اور تو کب ہم سے دور تھا کہ ہم ان وسائل (آثار)کو تلاش کریں جو ہمیں تجھ تک پهونچائیں؟)

قدیم شاعر:

فواعجبا کیف یعصی الاله

ام کیف یجحده الجاحد

ولله فی کل تحریکة

وفی کل تسکینة شاهد

وفی کل شیء له آیة

تدل علی انه واحد

اس انسان پرتعجب ہے جو اپنے پروردگار کی (عمداً) معصیت کرتا ہے، بھلا خدا جیسی ذات کا کوئی انکار کرنے والا انکار کرسکتا ہے؟ !کیونکہ ذات پروردگار وہ ہستی ہے جس کی معرفت کے لئے ہر شی میں نشانی موجودھے جو خداوندعالم کے وحدہ لاشریک ہونے پر دلالت کرتی ہے۔

مقدمہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ الحمدلله رب العالمین والصلوة والسلام علی سیدنا محمد وآله الطیبین الطاهرین ۔

جب سے انسان نے اس فرش زمین پر لباس وجود زیب تن کرکے قدم رکھا ہے اسی وقت سے اس نے اپنی حیات کے خلق اور عنایت کرنے والے کے بارے میں غور و فکر کرنا شروع کردیا، لہٰذا واجب الوجود (خدا ) کے بارے میں لوگوں کی گفتگو صرف آج کی پیدوار نہیں بلکہ یہ گفتگو قدیم زمانہ سے چلی آرھی ہے، البتہ زمانہ قدیم کے لوگ اپنی خالص فطرت، محدود مدرک علمی اوراپنی کم صلاحیت کے اعتبار سے مورد بحث قرار دیتے تھے یعنی جتنی ان کے پاس بحث کرنے کے لئے مدارک اور محدود ذہنی سطح تھی اسی لحاظ سے بحث کیاکرتے تھے، لیکن آج جب زمانہ نے ترقی کی اور انسان وسیع الذہن ہوا تو اس (خدا) کے بارے میں گفتگو کا میدان بھی وسیع ہوا، یعنی جیسے جیسے عقل وشعورنے ترقی کی اور ذہن انسانی میں وسیع نشوونما ہوئی یھاں تک کہ اس فلسفی زمانہ میں عقل اپنے کمال تک پهونچی تو یہ واجب الوجود کے بارے میں بحث ومباحثہ بھی اسی بلندی کے ساتھ لوگوں میں رائج قرار پایا،جس میں جاھل اور منکرین خدا کے لئے کسی طرح کا کوئی اشکال واعتراض کرنے کا راستہ نہیں رہ جاتا۔

چنانچہ آج جبکہ علم اور سائنس کافی ترقی کررھا ہے بعض اسلام دشمن عناصر نے دین اسلام سے مقابلہ کی ٹھان لی ہے اور اسی سائنس وعلم کے ذریعہ خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور مسلمانوں کے عقائد کو کمزور وضعیف کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، چنانچہ کہتے ہیں کہ یہ عقلی قاعدہ(کہ ہر مخلوق کے لئے ایک خالق اور ہر موجود کے لئے ایک موجِد کا ہونا ضروری ہے) درست نہیں ہے! بلکہ یہ کائنات خود بخوداور اتفاقی طور پر پیدا ہوگئی ہے!!۔

خلاصہ یہ کہ اس سلسلہ میں انھوں نے بہت سے اعتراضات او رشبھات ایجاد کردئے اور بعض جھوٹی اور مظنون چیزوں کو مشهور کرکے ڈھول بجادیا کہ ”مادہ“ ازلی ہے !اور یہ ہمیشہ باقی رھے گا، چنانچہ ان لوگوں نے مسلمانوں کے نظریات میں شکوک وشبھات ڈالنے شروع کردئے لہٰذا وہ لوگ جن کے عقائد تقلیدی اور سنے سنائے اور بغیر دلیل کے تھے وہ ان اعتراضات وشبھات کے دریا میں بہنے لگے۔

اور چونکہ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اسلام کبھی بھی علم وعقل سے نہیں ٹکراتا، بلکہ اسلام تو علم وعقل پر قائم ہے، لہٰذا ہمارے لئے اس ماحول میں ”الوھیت“ (خدا کی معرفت) کی بحث اسی علم وسائنس کی روشنی میں بیان کرنا ضروری تھا جس طرح سائنس داں افراد نے اسی علم وسائنس کے ذریعہ اس سلسلہ میں تخریب کاری کی ہے، چنانچہ اس سائنس کے بعض نتائج کا خلاصہ یہ ہے کہ آج کے علم کی جدید ایجادات واکتشافات ہی ہیں جو خدا پر ہمارے ایمان کو زیادہ کردیتے ہیں،اور ہمارے لئے یہ علم ایسے ایسے استدلال وبرھان قائم کرتا ہے جن کا تذکرہ گذشتہ مولفین ومحققین کے یھاں نہیں ملتا، لہٰذا یھی سائنس (مکمل وضاحت کے ساتھ) ان لوگوں کے نظریہ کو باطل کردیتا ہے جو کہتے ہیں کہ مادہ ازلی ہے اور کائنات میں خلق وایجاد کے یہ اثرات اسی مادہ کے ہیں، یعنی ان لوگوں کے تمام نظریات باطل ہوجاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ تمام کائنات خود بخود (اتفاقی طور پر) پیدا ہوگئی ہے۔

اور چونکہ ہماری یہ کتاب موضوع کے تمام اطراف وجوانب پر مشتمل ہے لہٰذا ہم نے مناسب سمجھا کہ اس میں فطرت سلیم، فلسفہ اور علم کلام کے دلائل کو اختصار کے طور پر بیان کر کے قرآن کریم سے تفصیل کے ساتھ برھان واستدلال نقل کریں کیونکہ قرآنی استدلال ہی بہترین استدلال ہیں، جن میں عقل وشعور اوراحساس سب کچھ پایا جاتا ہے ، اور پھر اس کے بعد سائنس کے ذریعہ خدا کے وجود پر دلیل وبرھان قائم کریں گے۔

بھرحال ہماری اس بحث کا مقصد یہ ہے کہ محترم قارئین اس سے استفادہ اور ہدایت حاصل کریں اور ہم بھی اجر وثواب کے مستحق قرارپائےں۔

و( الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی هَدَانَا لِهَذَا وَمَا کُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْلاَاٴَنْ هَدَانَا اللهُ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُنَادِی لِلْإِیمَانِ اٴَنْ آمِنُوا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاٴَبْرَارِ ) ( ۳ )

”شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں اس (منزل مقصود) تک پہنچادیا اور اگر خدا

ہمیں یھاں نہ پہچاتا تو ہم کسی طرح یھاں نہ پہنچ سکتے ۔

اے ہمارے پالنے والے (جب) ہم نے ایک آواز لگانے والے (پیغمبر) کو سنا کہ وہ ایمان کے لئے یوں پکارتا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لائے، پس اے ہمارے پالنے والے ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری برائیوں کوہم سے دور کردے اورہمیں نیکو کاروں کے ساتھ (دنیا سے) اٹھالے۔“

والله ولی التوفیق ۔

شیخ محمد حسن آل یاسین کاظمین

، عراق۔